تفصیلی خطاب پیش نظر ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین والصلوات والسلام علی سیدنا و نبینا ابی القاسم محمد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین قال اللہ الحکیم فی کتابہ بسم اللہ الرحمن الرحیم، ولقد صدقکم اللہ وعدہ اذ تحسونھم باذنہ حتی اذا فشلتم و تنازعتم فی الامر و عصیتم من بعد ما اریکم ما تحبون من یرید الدنیا ومنکم من یرید الاخرۃ ثم صرفکم عنھم لیبتلیکم و لقد عفا عنکم و اللہ ذو فضل علی المومنین ۔( 1)
میں اس قابل نہیں ہوں کہ کسی کو وعظ و نصیحت کروں۔ خود مجھے دوسروں سے زیادہ وعظ و نصیحت کی ضرورت ہے۔ لیکن قرآن کا حکم ہے کہ ایک دوسرے کو حق، صبر اور پائیداری کی سفارش کریں۔ انسان کا نفس سرکش اور جلدی بھول جانے والا ہے۔ اس کو ہر وقت انتباہ دیتے رہنے کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ احساس ذمہ داری کے مطابق کچھ باتیں عرض کرنا ضروری ہے۔ میں خود اپنے لئے بھی ان باتوں کو ضروری سمجھتا ہوں۔
سرنامہ کلام اسی آیہ مبارکہ کو قرار دوں گا جو جنگ احد سے متعلق ہے۔ اگرچہ جنگ احد تاریخی، عالمی اور معاشرتی مسائل کے نقطہ نگاہ سے مختصر مدت کا ایک چھوٹا واقعہ ہے لیکن جنگ احد کے تعلق سے خدا نے ہمیں جو درس دیا ہے وہ بہت بڑا اور ہر زمانے کے لئے کارساز ہے۔ مختصر یہ ہے کہ خدا وند عالم مسلمانوں سے وعدہ کرتا ہے کہ ہم تمھاری مدد کریں گے اور جنگ احد میں اس وعدے پر عمل ہوتا ہے۔ ولقد صدقکم اللہ وعدہ (2) مدد کا وعدہ پورا ہوا اور تم کامیاب ہوئے اور دشمن پسپائی پر مجبور ہوا یہاں تک کہ خود تم نے مشکل شروع کی ۔
روایات کے مطابق پیغمبر نے فرمایا تھا کہ لاتبرحوا ھذا المکان فانا لانزال غالبین ما ثبتم فی مکانکم (3) جب تک یہاں کھڑے رہوگے کامیاب ہو، جب مشکل پیدا ہوئی، مال دنیا، فریضے سے غفلت اورمال دنیا کے حصول میں ایک دوسرے سے رقابت، باطن، ضمیر، دین اور فریضے پر غالب آگئی تو معاملہ الٹا ہو گیا۔ حتی اذا فشلتم (4) پہلے کمزور ہوئے، وتنازعتم فی الامر (5) ایک دوسرے سے متصادم ہوگئے۔ وعصیتم (6) تم اپنی جگہ سے، جہاں کے لئے تم سے کہا گیا تھا کہ یہاں سے نہ ہٹو، پہرہ دو، تم وہاں سے ہٹ گئے نتیجہ الٹا ہو گیا۔ ذلک بان اللہ لم یک مغیرا نعمۃ انعمھا علی قوم حتی یغیروا ما بانفسھم (7) یہ بھی ایک قاعدہ ہے۔ کشش کے اصول کی طرح، فطرت اور تاریخ کے دیگر قوانین کی طرح۔
خدا نعمتوں کو واپس نہیں لیتا؛ ہم خود اپنے طرز عمل سے، خود پلٹ کے، اپنے امور کے بارے میں غلط تدبیر کے ذریعے نعمتوں کو پلٹا دیتے ہیں۔ اس لئے قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اپنے امور میں جو زیادتی تم نے کی ہے، اس کے لئے خدا سے استغفار کرو۔ ربنا اغفر لنا ذنوبنا و اسرافنا فی امرنا (8)
جنگ احد میں معاملہ الٹا ہو گیا۔ من بعد ما اریکم ما تحبون (9) اس کے بعد کہ خدا وند عالم نے کامیابی کا افق دکھا دیا، (مسلمانوں) نے غلطی کی لیکن چونکہ مومن ہیں، چونکہ بالکل دستبردار نہیں ہوئے، چونکہ ہدف سے لگاؤ ہے، چونکہ خدا پر ایمان میں سچے ہیں، ولقد عفا عنکم (10) خدا انہیں معاف کر دیتا ہے، یعنی تلافی اور ان کی مدد کرتا ہے۔ واللہ ذوفضل علی المومنین (11) یہ واقعہ احد کا درس ہے۔
یہ نہ کہئے کہ ان چند گھنٹوں کا ہم سے کیا تعلق ہے۔ اس وقت ہم سب اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ہمارا معاشرہ، آج ہی نہیں بلکہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے ہی، اس حالت میں ہے۔ کامیابی ایک مرحلے کی ہے۔ ہم سب کا فریضہ ہے کہ اس چٹان، اس شگاف اور اس کمیں گاہ کی حفاظت کریں۔ اگر غفلت کی تو دشمن ہم کو گھیرے میں لے لے گا اور نقصان پہنچائے گا۔ ابتدائے انقلاب سے آج تک کے واقعات پر نگاہ ڈالیں۔ جہاں بھی ہم گھیرے میں لئے گئے، وجہ یہی غفلت رہی ہے۔ اگر پلٹ گئے تو غفلت ہوئی۔ صرف سیاسی مسائل کا ہی تجزیہ نہ کریں۔ البتہ میں بیرونی، حقیقی اور سیاسی عمل اور ردعمل کا منکر نہیں ہوں، لیکن اصل اور معاملے کی بنیاد خود ہمارے اندر ہے۔
انہی آیات کی ردیف میں ایک دو آیت کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ ان الذین تولوا یوم التقی الجمعان انما استزلھم الشیطان ببعض ماکسبوا ( 12) ہم جنگ میں کامیاب ہوتے ہیں تو تقوے کی وجہ سے اور ناکام ہوتے ہیں تو بے تقوائی کی وجہ سے، اس بیماری کی وجہ سے جو ہماری باطن میں دراندازی کر گئی ہے اور ہم اس سے غافل ہیں۔
برادران عزیز، ہمیں غفلت نہیں کرنا چاہئے۔ کسی قوم پر خدا کا سب سے بڑا عذاب یہ ہے کہ وہ قوم غافل ہو جائے۔ کسی بھی معاشرے کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ وہ غفلت میں پڑ جائے۔ ہم خدا سے غافل نہ ہوں۔ ہمارے دل و جان میں، ہمارے ہر فیصلے میں، ہمارے ہر اقدام میں، ہمارے دفتری، سیاسی، فوجی اور انتظامی کاموں میں، پیسہ خرچ کرنے میں، کریڈٹ اور قرض کے تعین میں، قانون سازی میں، عدالتی فیصلوں میں، تمام مراحل میں خدا یاد رہنا چاہئے۔ ہمیں خدا کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اس طرح یہ معاشرہ آگے بڑھےگا۔
سب کو تقوے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اور آپ کو دو وجہ سے تقوے کی ضرورت زیادہ ہے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم نے بے تقوائی کی اور ہماری بے تقوائی کی وجہ سے نقصان ہوا تو یہ نقصان ہمیں نہیں، اسلام کو پہنچے گا۔ اس کا گناہ اور جرم ہمارے سر ہوگا۔ اس کی روسیاہی ہمارے لئے ہوگی۔ میرا خیال ہے کہ ایک بار میں نے نماز جمعہ کے خطبے میں مثنوی مولوی کی یہ داستان نقل کی تھی۔ جب بھی یہ داستان مجھے یاد آتی ہے، میں لرز جاتا ہوں۔ مسلمانوں کے ایک شہر میں عیسائیوں کا ایک محلہ تھا۔ عیسائیوں کی ایک لڑکی اسلام کی طرف راغب اور اس کی عاشق ہو گئی تھی۔ وہ کلیسا نہیں جاتی تھی۔ دینی تقریبات میں شرکت نہیں کرتی تھی۔ اس کے ماں باپ عاجز آ چکے تھے کہ اس لڑکی کے ساتھ کیا کریں۔ ایک ایسا قاری قرآن یا موذن مل گیا جس کی آواز بہت خراب تھی۔ اس لڑکی کے باپ نے اس کو پیسہ دیا اور کہا کہ میرے گھر کے پاس آکے اذان دو اس نے جاکر اذان دی۔ جب اس کی کریہ آواز بلند ہوئی تو اس محلے کے سبھی لوگوں پر وحشت طاری ہو گئی۔ لڑکی نے پوچھا یہ کیسی آواز ہے؟ باپ نے جواب دیا کچھ نہیں مسلمانوں کی اذان ہے لڑکی نے کہا تجعب ہے، مسلمان یہ ہیں؟ عشق اسلام اس کے دل سے نکل گیا۔ مولوی نے یہ داستان مثنوی میں نقل کی ہے۔ یہ کتاب حکمت سے پر ہے۔ یہ بھی ایک حکمت ہے جو حقیقت ہے۔
ہمارے نقطہ نگاہ سے اسلام پر نظر ڈالتے ہیں۔ اسلام کے حقائق کو ہمارے طریقے سے دیکھتے ہیں۔ ہماری غلطیوں کو بھی اسلام سے منسوب کریں گے۔ خدا نخواستہ مسلمانوں کی شکست بھی اسلام کے نام پر لکھی جائے گی۔ کہیں گے اسلام کو شکست ہوئی یہ نہیں کہیں گے کہ کچھ لوگوں نے اسلام کا صحیح ادراک نہیں کیا اور اس پر صحیح عمل نہیں کیا اور ان کو شکست ہوئی۔
آج ہماری قوم کی معمولی سی بھی ناکامی اسلامی بیداری کی تحریک کو پچاس سال یا اس سے بھی زیادہ پیچھے دھکیل دے گی۔ یہ نوجوان جو افریقا، ایشیا، مشرق وسطی حتی یورپی ملکوں کے بعض شہروں میں اسلام کے نام پر جو نعرے لگاتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ کے نام پر جذباتی ہو جاتے ہیں، انہوں نے اسلام کو اس کی پیشرفت کے ساتھ، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے ساتھ، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے نوارنی چہرے کے ساتھ، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے نورانی کلام کے ساتھ، معاشرے کے خدائی انتظام و انصرام کے ساتھ، اس تقوے کے ساتھ جو انقلاب کی برکت سے ہمارے معاشرے کے تمام طبقات پر سایہ فگن ہوا ہے، دیکھا ہے۔ اگر شکست ہو، ناکامی ہو، برا عمل ہو تو سب کچھ بدل جائے گا اور دشمن کی جرائتیں بڑھ جائیں گی۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس نظام کی پیشرفت اور کامیابی صرف تقوے کی برکت سے ہی ممکن ہے۔ نظام الہی کی خاصیت یہی ہے۔ نظام حق بغیر تقوے کے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ نظام باطل جو نظام حق کے مقابلے میں ہے، دوسری طرح کا ہے۔ البتہ وہاں بھی پیشرفت کے لئے کچھ حدود، پابندیاں اور بعض ضوابط یقینی طور پر موجود ہیں، لیکن تقوا، طہارت، پاکیزگی، پرہیزگاری اور تمام اقدار کی پابندی کے معنی میں، ایک اصولی مکتبی اور اسلامی معاشرے میں ضروری ہے۔ باطل محاذ کے لئے ضروری نہیں ہے۔ وہ چونکہ کسی چیز کے پابند نہیں ہیں اس لئے باطل روشوں سے پرہیز نہیں کرتے۔ برے نتائج سے اجتناب نہیں کرتے۔ مارتے ہیں، آگے بڑھتے ہیں، کچھ کھوتے ہیں اور کچھ حاصل کرتے ہیں۔ لیکن محاذ حق اس طرح نہیں ہے۔ محاذ حق صرف اسی صورت میں باطل کے مقابلے میں ڈٹ سکتا ہے اور آگے بڑھ سکتا ہے کہ مرضی خدا، تقوے اور طہارت کے ساتھ ہو۔ دوسری صورت میں نہیں۔
نظام کی دینی اور اصولی ماہیت کو باقی رکھنا چاہئے۔ ان چند برسوں میں استکبار (سامراج) اس کے کارندے اور پروپیگنڈہ ادارے مستقل اس کوشش میں رہے ہیں کہ ہمیں ایک اصولی نظام سے الگ کر دیں۔ انہوں نے مسلسل کہا کہ یہ رجعت پسند اور متعصب ہیں۔ اسلام کے بعض احکام بیان کئے اور ان کی اساس پر پروپیگنڈہ کیا؛ ہمارے یا دوسرے مسلمانوں کے ذاتی غلط کاموں کو اسلام سے منسوب کیا تاکہ ہم گھبرا جائیں، وحشت زدہ ہو جائیں اور کہہ دیں کہ نہیں ہم دینی لوگ نہیں ہیں، ہمارا نظام بھی دنیا کے دوسرے نظاموں کی مانند ہے۔ وہ یہی چاہتے ہیں۔ اگر زبان سے نہ بھی کہیں لیکن آپ کا عمل ایک غیر اصولی دنیاوی نظام کا عمل ہو تو ان کا مقصد پورا ہو جائے گا اور یہ ہماری شکست ہوگی ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ یہ محاذ ٹوٹ جائے۔
یہ نظام صرف تقوے سے آگے بڑھے گا۔ یہ نظام تقوے، طہارت اور پاکیزگی کی پابندی اور صحیح اور دقیق محاسبے سے پیشرفت کرے گا۔ ہم میں سے ہر ایک خود اپنا محاسبہ کرے، حاسبوا انفسکم (13) غلط ہے اگر کوئی یہ سوچے کہ جو کام دنیا کی دوسری حکومتیں اور دوسرے حکام کرتے ہیں ہم بھی کریں۔ ہمارا ایک اصول ہے۔ ہماری اپنی مخصوص روشیں ہیں جو اسلام سے ماخوذ ہیں۔ پوری دنیا پر حکمرانی اس اصول کی ہونی چاہئے۔ نہ یہ کہ جہالت اور استکبار کے غلط اصول ہم پر مسلط کئے جائیں۔
ہمیں چاہئے کہ خدا، موت، خدا کے سوال و جواب اور محاسبہ الہی کو فراموش نہ کریں۔ اگر ہمارا واسطہ کسی کمزور، کم اطلاع رکھنے والے تفتیش کار انسان سے پڑ جائے یا واسطہ پڑنے کا امکان ہو تو ہم ہوشیار ہو جاتے ہیں۔ جب آپ کام سے تھک جاتے ہیں، جب یہ احساس کرتے ہیں کہ کام کی فکر میں رہنے کی ضرورت کیا ہے، جب دوستی کا مسئلہ در پیش ہوتا ہے، جب کثرت طلبی، خود خواہی اور ذاتی فکر در پیش ہوتی ہے، جب کسی مسلمان بھائی کے تعلق سے غلط فیصلہ در پیش ہوتا ہے تو وہاں اس آیت کو یاد کرلیں مال ھذا الکتاب لایغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ الا احصیھا (14)
دوسروں کے پاس یہ چیزیں نہیں ہیں۔ جو نظام خدا اور قیامت پر اعتقاد نہیں رکھتے، وہاں چالاکی سب کچھ ہوتی ہے کہ کس طرح نیچے اوپر کریں کہ محاسب نہ دیکھے۔ جج کو نظر نہ آئے۔ عدالت نہ سمجھ سکے۔ تفتیش کار اور اوپر والے نہ سمجھ سکیں۔ مسئلہ یہیں ختم ہو جاتا ہے۔ ہم اس طرح نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں، جہاں دوسرے نہیں سمجھتے اور دوسرے تشخیص نہیں دے پاتے، وہاں مشکل شروع ہوتی ہے کہ ہم پر نفس غلبہ نہ کر لے، ہمیں وسواس میں مبتلا نہ کر دے۔
بھائیو! تقوے کی اساس پر نظام کی حفاظت کریں۔ راہ تقوا، ذکر خدا ہے۔ وزیر حضرات، اراکین پارلیمنٹ، ملک کے مختلف سطح کے عہدہ داران، عدلیہ کے ذمہ دار حضرات دعا، نافلے، ذکر خدا، اس پر توجہ، توسل اور پروردگار کے حضور گریہ و زاری اور اظہار عاجزی سے خود کو ہرگز بے نیاز نہ سمجھیں۔ یہ نہ کہیں کہ ہم تو عوام کی خدمت کر رہے ہیں، دعا وہ پڑھے جس کے پاس زیادہ کام نہ ہو۔ نہیں کام کی بنیاد یہی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ہم بغیر پشت پناہ کے ہوکر رہ جائیں گے۔ جہاں وسوسے یلغار کریں اور مجھ جیسا کمزور، تربیت سے محروم، دنیا کا حریص، ان وسوسوں سے دوچار ہو تو مجھے کون سی چیز بچا سکتی ہے؟ قل ما یعبا بکم ربی لولا دعاؤکم (15)
دعا کریں، نافلہ پڑھیں، خدا پر توجہ رکھیں، خود کو متنبہ کرتے رہیں، رات اور دن میں ایک گھنٹہ خدا سے اپنے راز و نیاز کے لئے مخصوص کر لیں۔ کاموں، انواع و اقسام کی مصروفیتوں سے خود کو باہر نکالیں، خدا، اولیائے خدا اور حضرت ولی عصر ( عجل اللہ تعالی فرجہ و ارواحنا فداہ ) سے راز و نیاز کریں۔ قرآن کی تلاوت کریں اور اس کی آیات پر غور کریں۔
میں آپ سے زیادہ اس بات کا مستحق ہوں کہ کوئی مجھ سے اس طرح کی باتیں کرے۔ میر ے لئے بھی یہ وعظ ہونا چاہئے۔ ہم سب محتاج ہیں۔ اس طرح اس بار گراں اور منفرد امانت الہی کو جو صدر اسلام کے بعد صدیوں کے دوران خدا وند عالم نے کسی کو نہیں سونپی بلکہ آپ کے کندھوں پر ڈالی ہے، منزل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ ورنہ دوسری صورت میں دنیا و آخرت کی رسوائی ہے۔
ہمیں ایک دوسرے کو وصیت و نصیحت کرنا چاہئے۔ میں نے عرض کرنے کے لئے چند نکات مد نظر رکھے ہیں۔ میں نے طے کیا تھا اور اب بھی اس پر باقی ہوں کہ طولانی گفتگو نہ کروں۔ اور پھر آپ سب اہل فن ہیں۔ آپ کے لئے اشارہ کافی ہے۔
پہلا نکتہ عوام کے مسائل سے تعلق رکھتا ہے۔ حضرات! یہ عوام جیسا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے مسلسل فرمایا ہے، ہمارے سرپرست ہیں۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ میں نے ایک عہدیدار کو کسی مجمع میں دیکھا کہ اس کا رویہ عوام کے ساتھ کسی حدتک متکبرانہ تھا۔ میں نے پیغام بھیجا اور کہا کہ ان سے کہو کہ اگر اپنے روئے کی تلافی کرنا چاہتے ہیں تو اسی طرح کے مجمع میں حاضر ہوں اور کہیں اے لوگو! میں آپ کا نوکر ہوں یہ غلط تو نہیں ہے۔ کیا غلط ہے؟ ملک کا حاکم کیا ہے؟ ہمارا فلسفہ وجودی عوام کی خدمت کے علاوہ اور کیا ہے؟
امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے فرمایا کہ اگر مجھے خدمتگار کہیں تو یہ میری نظر میں رہبر کرکے مخاطب کرنے سے بہتر ہے۔ یہ بات صحیح ہے۔ کیونکہ جس انسان کا دل بیدار ہو اس کے لئے خدمتگاری بہت بڑی تعریف ہے۔ امام کا پورا وجود بیدار تھا۔ آپ مذاق نہیں کرتے تھے، تکلفا کوئی بات نہیں کہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر عوام گواہی دیتے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) ان کے خدمتگزار ہیں تو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اس سے کہیں زیادہ خوش ہوتے کہ پوری قوم ہم آواز ہوکے کہے کہ آپ ہمارے رہبر ہیں۔
عوام کی خدمت کرنا افتخار ہے۔ یہ نام یہ منصب، یہ القاب، ان میں سے کوئی بھی قابل افتخار نہیں ہے۔ تاریخ میں ان ناموں اور ان القاب کے ساتھ بہت سے لوگ آئے اور گئے اور اپنے ساتھ خدا اور اس کے بندوں کی لعنت کے بجز کچھ بھی نہ لے گئے۔ واقعی اس کی کیا اہمیت ہے؟ میں رہبر ہوں، میں صدر جمہوریہ ہوں، میں فلاں شعبے کا سربراہ ہوں، میں وزیر ہوں، ان کی کیا اہمیت ہے؟ اگر ہم خود کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ ہم خدمتگزار ہیں تب تو کچھ اہمیت ہے بھی ورنہ کیا اہمیت ہے؟ کس کے خدمتگزار؟ عوام کے۔ البتہ معاشرے کے تمام طبقات اور افراد کو قوم کی خدمت کرنی چاہئے لیکن عام طورپر مراد محروم طبقات ہوتے ہیں جن پر خدمت کے لئے خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کی دو وجہ ہے۔ اول اس لئے کہ ان کی ضرورت زیادہ ہے اور یہ انصاف کا تقاضا ہے اور دوسرے اس لئے کہ ان کی جانب سے نظام کی حمایت زیادہ ٹھوس اورزیادہ دائمی ہے۔ شروع سے ہی ایسا رہا ہے۔
محاذوں پر کون تھے؟ تناسب کو دیکھیں۔ یہ پیسے والے، یہ معاشرے کے رفاہ میں رہنے والے، یہ بے مصرف جنہیں کسی چیز کا احساس نہیں ہے، آٹھ سال کے لئے جنگ آئی اور چلی گئی لیکن انہوں نے جنگ کو محسوس بھی نہیں کیا۔ وہی کھانے، وہی آرام ، وہی سکون۔ اگر ان کے شہر پر چار دن حملے ہوئے بھی تو گاڑیوں میں بیٹھ کے دوسری جگہ چلے جاتے تھے اور آرام کرتے تھے۔ انہیں معلوم بھی نہیں ہوا کہ اس مملکت پر کیا بیت گئی۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں کہ ان کی خدمت کے لئے حکومت اور نظام خود کو ہلاک کر دے۔ نہیں، جس نے جنگ، بمباری، اقتصادی محاصرے، پانی کی قلت، بجلی کی کمی، گرانی اور تمام مشکلات کو اپنے پورے وجود سے ان دس بارہ برسوں میں محسوس کیا ہے، سب سے پہلے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہم جب عوام کہتے ہیں تو مراد یہ لوگ ہوتے ہیں۔ وہی عام لوگ جن کے بارے میں امیر المومنین ( علیہ السلام ) نے مالک اشتر کے نام اپنے تاریخی فرمان میں فرمایا کہ عام لوگوں کو اپنا بناؤ خواص کو چھوڑ دو۔ عام لوگ یعنی وہی جو جنگ میں تمہارے ساتھ ہیں۔ مشکلات میں تمھارے ساتھ ہیں۔ سختیوں میں تمھارے شریک ہیں۔ تمھارے غمخوار ہیں۔ جو تمہارے سچے فداکار ہیں۔ نا عاقبت اندیش، بے حیا، زیادہ کھانے والے جو کبھی قانع نہیں ہوتے، جب تک ان کا بھلا ہوتا ہے تمھارے دوست رہتے ہیں جیسے ہی ذرہ برابر کوئی کمی ہوتی ہے منہ پھیر لیتے ہیں۔
حضرات! عوام کی نسبت ہمیں دو کام کرنے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کی خدمت کریں۔ اور دوسرا کام یہ ہے کہ ان کی محبت اور اعتماد حاصل کریں۔ ان کی خدمت کریں، یعنی کیا؟ یعنی جہاں بھی ہوں، آپ کا منصوبہ اس وقت صحیح ہے جب اس کا فائدہ ان لوگوں کو پہنچے جن کا میں نے ذکر کیا۔ البتہ میرے پیش نظر قلیل المدت فائدہ نہیں ہے۔ یہ نہ کہیں کہ پانچ سالہ منصوبہ ایسا ہو گیا اور ویسا ہو گیا۔ تنخواہ پانے والوں کی حالت بدتر ہو گئی۔ البتہ گرانی کے حالات، افراط زر اور مشکلات کے تعلق سے کچھ باتیں ہیں جو میں انشاء اللہ حکومتی کابینہ سے الگ ملاقات میں کہوں گا۔ نہیں' وہ منصوبہ اور وہ راستہ صحیح ہے کہ جو عوام کی بھلائی پر منتج ہو۔ معیار یہی ہے۔ عدالتی نظام میں معیار یہی ہے۔ قانون سازی کے نظام میں معیار یہی ہے ۔ مجریہ کے نظام میں بھی معیار یہی ہے۔ ملک میں ہر ایک کو عوام کی خدمت کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کام پر وقت لگائیں۔
وزارتخانوں میں جو ماہرین ہیں، اگر وہ خود بعض نکات کی طرف متوجہ نہیں ہیں تو انہیں سمجھائیں اور بتائیں کہ تم سے اس مہارت کی توقع ہے کہ جو عوام کے لئے مفید ہے، اس کا پتہ لگاؤ اور پیش کرو۔ یہ صحیح مہارت ہے۔ جو ماہر عوام کے مسائل کو نہ سمجھے، معلوم نہیں ہے کہ وہ امین ہے یا نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ماہرین کا ہاتھ پکڑ کے ادارے سے باہر کر دیں۔ نہیں، انہیں سمجھائیں کہ ان سے آپ کیا چاہتے ہیں۔
البتہ ابتدائے انقلاب سے اب تک محروم طبقات کے لئے کافی کام ہوا ہے۔ بارہ سال سے میں اس ملک کی مجریہ کے کاموں سے نزدیک سے واقف ہوں اور جانتا ہوں کہ اس ملک میں کیا کام ہوا ہے۔ بہت کام ہوا ہے۔ مختلف اداروں نے بہت کام کیا ہے۔ لیکن جو ضرورت ہے وہ اس سے قابل موازنہ نہیں ہے جو انجام پایا ہے۔
ہم صرف کام کرنا نہیں چاہتے۔ ہم محرومیت ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم محروم کو محرومیت سے نکالنا چاہتے ہیں۔ ہدف یہ ہے۔ ورنہ اگر آپ یہ کہیں کہ میں کام کرتا ہوں، ممکن ہے کسی ادارے میں کوئی کہے کہ مجھے آٹھ گھنٹے یا چھے گھنٹے یا دس گھنٹے کام کرنا چاہئے بس۔ یہ صحیح منطق نہیں ہے۔
البتہ اگر تھک جائیں، آرام کی ضرورت ہو تو آرام ضرور کریں تاکہ کام کے لئے آمادہ ہو سکیں۔ ہم آرام کے منکر نہیں ہیں۔ لیکن کام کی کوئی حد نہیں ہے۔ کام اس حد تک ہونا چاہئے کہ نتیجہ حاصل ہو جائے اور اس ہدف اور مقصود کے نزدیک ہو جائیں جو مد نظر ہے۔ بنابریں انسان کو اتنا کام کرنا چاہئے جتنی اس میں توانائی ہو۔
دوسرا نکتہ، عوام کے اعتماد اور محبت کا حصول ہے۔ دنیا کے نظام تین طرح سے چلائے جاتے ہیں۔
طاقت کے ذریعے، جیسے دنیا کے آمرانہ نظام ہیں۔ اس قسم کے نظاموں میں چلانے کا صرف نام ہے، یہ نظام چلائے نہیں جاتے اور سرانجام باقی بھی نہیں رہتے۔ آپ دنیا کے کمیونسٹ استبدادی نظاموں، شاہی استبدادی نظاموں اور نیم شاہی استبدادی نظاموں کو دیکھ لیں۔ یہ تو ہم سے نہیں ہو سکتا۔ ہم یہ کام نہیں کرسکتے۔
دوسری قسم ان نظاموں کی ہے جو دھوکے فریب اور پرپیگنڈوں کے ذریعے چلائے جاتے ہیں۔ جیسے یہ مغرب کے جمہوری نظام ہیں۔ جی ہاں ان نظاموں میں استبدادی نظاموں کی طرح دباؤ، کوڑے، ایذارسانیاں نہیں ہیں اور عوام بظاہر آزاد ہیں، لیکن یہ نظام فریب سے چلائے جاتے ہیں۔ عظیم تشہیراتی مشینریاں ان کے اختیار میں ہیں اور انہوں نے عوام کی پوری زندگی کا محاصرہ کر رکھا ہے۔(ان نظاموں میں) مزدور، ملازمت پیشہ اور کاروباری لوگوں کو اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ اس گھومتے ہوئے گنبد سے باہر دیکھ سکیں جس میں وہ پھنسے ہوئے ہیں اور اس کے بارے میں سوچیں۔ جو وہ کہتے ہیں وہی یہ لوگ سمجھتے ہیں۔ آج مغربی ملکوں میں امریکا میں اور بظاہر جمہوری ممالک میں یہی صورتحال ہے۔ پروپیگنڈے لوگوں کے ذہنوں پر سیلاب کی طرح یلغار کرتے ہیں اور انہیں سوچنے سمجھنے کا موقع نہیں دیتے ہیں۔ اگرآپ کو کوئی راستہ مل گیا تو اس وقت آپ دیکھیں گے کہ وہ ڈیموکریسی اور آزادی جس کا وہ دم بھرتے ہیں، فورا بدل جائے گی۔ یہ صرف اس وقت تک ہی جمہوریت نواز ہیں کہ عوام کو اسی دھوکے اور فریب کی حالت میں باقی رکھ سکیں۔ اگر کوئی چیز آکے ان کے دھوکے اور فریب کے حصار کو توڑ دیتی ہے تو فورا ان کی ایذارسانیاں اور سخت گيری کی روشیں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ اسلامی تحریکوں، امریکا کی آزادی کی تحریکوں اور سیاہ فاموں کی تحریکوں کے سلسلے میں امریکا اور یورپ کی حکومتوں کے طرز عمل کو دیکھ لیں، انتہائی تشدد سے کام لیا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ فطری طور پر یہ بھی ہماری شان کے خلاف ہے۔ اسلامی نہیں ہے۔
ایک نظام وہ بھی ہے جو عوام کے ساتھ محبت و مہربانی کی بنیاد پر چلایا جاتا ہے۔ جس میں عوام سے محبت سے پش آنا ہوتا ہے اور ان پر بھروسہ کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ حکومتی نظام سے متصل اور اس کے پشت پناہ رہیں۔ ہمارا نظام اب تک اسی طرح رہا ہے۔ آئندہ بھی اسی طرح رہے گا اور عوام کی اسی محبت اور مہربانی سے سخت ترین بحرانوں سے بھی گذر جائے گا۔
ایک بار ایک ملک کے سربراہ مملکت، میرے لئے اپنی سیاسی مشکلات بیان کررہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہمارے گذشتہ صدر نے شکر کی قیمت میں ایک پیسے کا اضافہ کر دیا تو اس کے خلاف بغاوت ہو گئی اور ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ میں نے کہا کہ ان کی مشکل یہ تھی کہ انہوں نے عوام کو اپنے ساتھ نہیں رکھا تھا۔ ہمارے ملک میں کبھی کبھی اجناس کی قیمتوں میں دس گنا اضافہ ہو جاتا ہے لیکن کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ عوام حکومت کے ساتھ ہیں اور حکومت پر اعتماد کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ چونکہ عوام حکومت کے ساتھ ہیں اس لئے ہم بھی آتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ یہ چیز پہلے اس قیمت پر دیتے تھے لیکن اب اس کی قیمت بڑھانا چاہتے ہیں۔ عوام قبول کرتے ہیں۔ پانچ چھے سال پہلے عوام سے کہتے تھے کہ سب مالی جہاد کے عنوان سے جنگ میں مدد کریں؛ عوام جنگ کے امور کی اعلا کونسل کے اکاؤنٹ میں پیسہ جمع کرانے کے لئے بینکوں پر لائن لگا دیتے تھے۔
آپ، لوگوں کی محبت اور اعتماد کس طرح حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ لوگوں کو ہم پر اور آپ پر اعتماد کرنا چاہئے۔ اگر ہم اپنے ہی مسائل میں اور اپنی ذاتی زندگی کی فکر میں لگ گئے، شان و شوکت کے حصول میں مصروف ہو گئے، اپنے اوپر بیت المال خرچ کرنے میں کسی حد و حساب کے قائل نہ رہے، الا اس حد کے جس پر عدلیہ مشکلات کھڑی کرسکتی ہے، جو چاہا خرچ کیا، تو کیا عوام کا اعتماد باقی رہے گا؟ کیا عوام اندھے ہیں؟ ایرانی ہمیشہ ذہین ترین اقوام میں شمار کئے گئے ہیں۔ آج بھی انقلاب کی برکت سے ذہین ترین ( اقوام ) میں شمار ہوتے ہیں۔ ذہین اقوام سے بھی زیادہ ذہین ہیں۔ حضرات کیا عوام نہیں دیکھتے ہیں کہ ہم کس طرح زندگی گزار رہے ہیں؟
اس وقت حزب اللہی نوجوان جب جہاد میں، یا سپاہ (پاسداران انقلاب) میں یا کسی وزارت خانے میں جاتا تھا اور اس سے پوچھتے تھے کہ تنخواہ کتنی چاہئے تو کہتا تھا کہ یہ کیا بات ہوئی۔ کیا میں تنخواہ کے لئے آیا ہوں؟ اصرار کرتے تھے، کہتے تھے کہ بہرحال تمہیں اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی زندگی چلانی ہے، کچھ لے لو۔ کیا آپ کی نگاہ میں یہ افسانہ ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ دنیا میں جاکے یہ بات لوگوں کو بتائیں تو جس نے ہماری چند سال پہلے کی حالت نہیں دیکھی ہو، وہ کہے گا کہ افسانہ ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے۔ یہ رودادیں اسی ایران میں، اسی تہران میں، ہمارے انہی وزارتخانوں میں رونما ہوئی ہیں۔ ایک دو بار کی بات بھی نہیں ہے۔ رکن پارلیمنٹ کو پہلی بار تنخواہ دی گئ تو اس کو تنخواہ لینے میں شرم آئی۔ پہلے دور کی پارلیمنٹ میں ہمارے بعض احباب نے تنخواہ لینے کو شرم کی بات اور عار سمجھا۔ کہا ہم تنخواہ لیں؟
بھائیو! ہم اور آپ اس ذخیرے سے کھا رہے ہیں۔ فراموش نہ کریں، عوام نے وہ دیکھا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم زندگی میں حیوان کی طرح کھائیں، لوٹ لگائیں اور چاہیں کہ عوام ہمیں آئیڈیل سمجھیں۔ وہ عوام جن میں بہت سے زندگی کی ابتدائی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔
اس راہ میں بہت سی چیزوں سے خود کو دور رکھنا ہے۔ صرف حرام خواہشات سے ہی نہیں بلکہ حلال خواہشات سے بھی پرہیز کرنا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم پیغمبر کی طرح رہیں۔ پیغمبر کے شاگرد امیر المومنین کی طرح رہیں۔ انسان جب ان باتوں کو پڑھتا ہے تو جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ امیر المومنین ( علیہ السلام ) کا زہد ایسا ہے کہ مسلمان اور غیر مسلمان سب اس سے واقف ہیں۔ آپ پیغمبر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ قد حقرالدنیا و صغرھا واھون بھا وھونھا (16) یعنی آپ نے دنیا کی تحقیر کی یعنی دنیاوی لذتوں اور دنیاوی چیزوں سے بہرہ مند ہونے کو معمولی اور چھوٹا قرار دیا نہ یہ کہ ان کی توہین اور بے عزتی کی۔
قبا میں پیغمبر کے لئے پانی لائے اور اس میں شہد جیسی کوئی چیز حل کر دی۔ پیغمبر نے فرمایا کہ میں اس کو حرام قرار نہیں دیتا ہوں لیکن نہیں پیوں گا۔ یہ دو چیزیں ہیں۔ یا پانی ہے یا شہد ہے۔
ہم سے یہ نہیں چاہا گیا ہے۔ ہم سے اور آپ سے یہ چاہیں تو ہماری جان پر بن آئے گی۔ کیا ہم اس طرح زندگی گزار سکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ وہ نفس قدسی ملکوتی اور چیز ہے ۔
امیر المومنین ( علیہ السلام ) اسی جملے میں فرماتے ہیں کہ خدا وند عالم نے پیغمبر کو سمجھا دیا تھا کہ اگر ہم اختیار کے ساتھ آپ سے دنیا لے رہے ہیں تو یہ اس لئے ہے کہ اس سے زیادہ شیریں چیز آپ کو دیں۔ وہ زیادہ شیریں چیز اولیاء دیکھتے تھے۔ ہم اور آپ اس کو محسوس نہیں کرتے۔ لیکن ہمیں اس راستے پر چلنا چاہئے۔ اس راہ میں قدم آگے بڑھانا چاہئے۔ کم خرچ کریں، کم فیاضی کریں اور اپنی ذاتی زندگی پر کم توجہ دیں۔
ہم اور آپ وہی انقلاب سے پہلے کے طالب علم یا معلم ہیں۔ آپ میں سے کوئی معلم تھا، کوئی یونیورسٹی میں پڑھتا تھا، کوئی دینی طالب علم تھا اور کوئی خطیب تھا۔ ہم سب یہی تھے۔ لیکن اب ہم امراء و اشراف کی طرح شادی بیاہ کی تقریبات کا اہمتام کریں، امراء کی طرح گھر بنائیں، سڑکوں پر امراء کی طرح چلیں؛ امراء کیسے تھے؟ انہوں نے داڑھی منڈوا رکھی تھی ہم نے داڑھی رکھی ہے۔ کیا یہی فر‍ق کافی ہے؟ نہیں۔ ہم بھی امراء میں ہو جائیں گے۔ خدا کی قسم اسلامی معاشرے میں بھی اشرافیت وجود میں آسکتی ہے۔ اس آیہ کریمہ سے کہ واذا اردنا ان نھلک امرنا مترفیھا ففسقوا فیھا (17) ڈریں۔ ترف، (اشرافیت) اپنے ساتھ فسق بھی لاتا ہے ۔
مناسب اندازے پر باقی رکھیں۔ حکومت کے اخراجات زیادہ اور سنگین ہیں۔ حکومت کے سنگین اخراجات اس بات کا باعث ہوتے ہیں کہ حکومت فلاں شعبے میں مثلا سبسڈی دے۔ یہ پالیسی صحیح، متین اور منطقی بھی ہے۔ اس میں شک نہیں ہے۔ یہ ہونا چاہئے۔ کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔ عوام پر بھی دباؤ آتا ہے۔ لیکن اخراجات منصفانہ ہوں۔ ہم خود اخراجات نہ بڑھائیں۔
اگر حکومت کے اخراجات میں کوئی رقم کسی بڑے آفیسر یا نائب وزیر یا وزیر، یا عدلیہ کے کسی عہدیدار، یا کسی شعبے کے سربراہ کے آفس کا ڈیکوریشن تبدیل کرنے پر لگائی جائے تو یہ غلط ہے، جرم ہے۔ اگر حکومت کا ایک خرچہ یہ ہو کہ کچھ نئی گاڑیاں لائیں اور دفاتر میں تقسیم کریں، تو ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ اس کو حکومت کے اخراجات میں شمار کریں اور اس مد میں عوام کی سبسڈی سے کچھ لیں۔ نہیں، یہ غلط ہے ۔ان کاموں کے لئے ایک حد معین کریں۔ اداروں کو سرکولر جاری کرکے، ان معاملات میں، اس قسم کے ڈیکوریشن کی تبدیلی اور گھر کی تبدیلی کے لئے کوئی حد معین کرنی چاہئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بعض انتہا پسندوں کی طرح رہیں جو کہتے ہیں کہ مسجد میں بیٹھ کے وزارت چلائیں۔ نہیں' مسجد میں وزارت کا کام نہیں ہو سکتا۔ ایک عمارت میں چار کمروں اور چند افسروں کے ساتھ وزرات چلانے کے لئے اور سرانجام جو صاحب خدمت کرنا چاہتے ہیں، ان کی زندگی کے لئے کچھ وسائل بھی تو درکار ہیں، مگر ایک حد ہونی چاہئے۔
بعض اوقات کچھ جگہوں سے مایوس کن رپورٹیں ملتی ہیں اور بعض مواقع پر واقعی انسان شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے۔ خیال رکھیں۔ سوال کرتے ہیں کہ نئی، ڈیلکس اور بہت اعلا ماڈل کی گاڑی کیوں؟ کہتے ہیں سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔ سیکورٹی کا کون سا مسئلہ ہے؟ ملک کی سلامتی کونسل اور دوسرے اداروں کے عہدیدار حضرات بیٹھیں اور معین کریں۔ مسئلے کو کہیں اٹھائیں۔ اگر کہیں میری مداخلت ضروری ہو تومجھے بھی بتائیں۔ یہ کیا صورتحال ہے کہ ہر وزراتخانے اور ادارے کے سامنے دسیوں رنگ برنگی گاڑیاں وہاں کے عہدیداروں سے متعلق نظر آتی ہیں؟ کس نے کہا ہے کہ اس طرح ہونا چاہئے؟
رپورٹ ملی ہے کہ کسی ادارے کے سیاسی عقیدتی شعبے کے عالم دین کے پاس اپنی گاڑی ہے، لیکن سرکاری گاڑی میں چلتے ہیں۔ میں نے لکھا کہ ان کو اس کام کا حق نہیں ہے۔ مجھے جواب ملا کہ یہ کام رائج ہے اور سبھی کرتے ہیں۔ ان کے پاس خود اپنی گاڑی ہے، جو ان کے لئے ضروری ہے؛ ایک گاڑی ان کی بیوی کے پاس ہے۔ کیونکہ ان کی بیوی ان کی گاڑی استعمال نہیں کرسکتیں۔ حیرت ہے۔ یہ کیا بات ہوئی؟
میں اس وقت اعلان کر رہا ہوں اور اس سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر حضرات کے پاس ذاتی وسائل ہیں تو سرکاری وسائل استعمال کرنے کا حق نہیں ہے۔ اگر آپ کے پاس اپنی گاڑی ہے تو اس میں اپنے وزراتخانے اور آفس آئیے؛ سرکاری گاڑی کیوں؟ خدا کی قسم اگر عوام کی طرف سے مخالفت نہ ہوتی اور مسلسل سیکورٹی کے پہلووں کی یاددہانی نہ کرائی جاتی تو میں پیکان ( ایران کی پرانی قومی کار) میں باہر آتا۔
ضروری حد پر اکتفا کریں اور اعتدال باقی رکھیں۔ یہ باتیں ہمیں عوام سے دور کرتی ہیں۔ علمائے کرام کو عوام سے دور کرتی ہیں۔ علمائے کرام اپنے تقوے، پارسائی اور دنیا سے بے اعتنائی کی وجہ سے لوگوں میں مقبول ہوئے ہیں۔ پارسائی اور دنیا سے دوری کے بغیر لوگوں میں مقبولیت نہیں حاصل ہو سکتی ہے۔ عوام مروت نہیں کرتے ہیں۔ خدا بھی کسی کے ساتھ مروت نہیں کرتا۔
میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ خدا وند عالم قرآن میں کئی جگہوں پر بنی اسرائیل کے بارے میں کہتا ہے کہ وفضلناھم علی العالمین (18) ہم نے آپ کو دنیا کے تمام لوگوں پر برتری عطا کی ہے۔ یہی بنی اسرائیل ہیں کہ جن کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ و ضربت علیھم الذلۃ والمسکنۃ و باؤا بغضب من اللہ ( 19) کیوں؟ خود ان کا طرز عمل اس انجام کا باعث بنا۔ کیا ہم سے اور آپ سے خدا کی رشتے داری ہے؟ کیا خدا کی اسلامی جمہوریہ اور اس نام سے کوئی رشتے داری ہے؟ ہمیں اور آپ کو طے کرنا ہے کہ یہ جمہوی، اسلامی ہے یا نہیں۔ یہ تھیں اپنے طرزعمل کے بارے میں کچھ باتیں۔
البتہ بہت سے لوگ ان باتوں کی کشش اور طمع خود سے دور کر چکے ہیں۔ انہوں نے زندگی میں سادگی اختیار کی ہے اور ان باتوں کے وسوسے میں مبتلا نہیں ہوئے ہیں۔ میں اپنے اعلا عہدیداروں میں ، عمامے والوں اور غیر عمامے والوں میں، ان افراد کو پہچانتا ہوں۔ ان کی تعداد کم بھی نہیں ہے۔ جن کی باتیں میں کر رہا ہوں وہ تھوڑے سے اور اقلیت میں ہیں اکثریت میں نہیں ہیں لیکن واقعی قابل توجہ تعداد میں ایسے لوگ ہیں جو ان باتوں سے بے اعتنا ہیں اور جس طرح انقلاب سے پہلے یا ابتدائے انقلاب میں رہتے تھے، اسی طرح رہ رہے ہیں۔ یہ صحیح ہے۔ بنابریں عوام کی محبت اور ان کا اعتماد صادقانہ، صحیح اور حقیقت کے بیان سے حاصل ہوتا ہے۔
تیسرا نکتہ، ملک کے سیاسی مسائل، باہمی رقابتوں اور پارٹیوں اور سیاسی جماعتوں کے رویوں سے تعلق رکھتا ہے۔ میر خیال میں اس بارے میں جو ہم کہتے ہیں وہ اس سے بہت کم اور غیر موثر ہے جو امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے فرمایا ہے۔ ان مسائل میں امام نے بارہا اور بارہا لب لباب بیان فرمایا ہے۔ امام کے راستے پر واپس آئیں۔ دو گروہ ہیں، رہیں (کوئی حرج نہیں)۔ لیکن ایک دوسرے سے متصادم کیوں ہوتے ہیں؟ کیا اختلافی نقاط کے ساتھ مشترکہ نقاط پر توجہ نہیں دی جا سکتی؟ کیا حرج ہے کہ وہ جماعتیں جو ایک دوسرے کی مخالف ہیں، علماء کی جماعتیں، طلبا کی جماعتیں اور پارلیمنٹ میں اور دوسری جگہوں پر جو جماعتیں ہیں، وہ ہر کچھ دن بعد ایک ساتھ بیٹھیں اور اپنے مشترکہ نقاط زبان پر لائیں؟ کتنی باتوں پر آپ کو ایک دوسرے سے اختلاف ہے؟ کیا اختلافی نقاط اتحاد، اتفاق اور وحدت نظر کے نقاط سے زیادہ اہم اور قوی ہیں؟ کس نے یہ کہا ہے؟ کون یہ دعوا کر سکتا ہے؟ جو کوئی، سیاسی پالیسی اور رجحان کے فرق پر اپنے مسلمان بھائی کی توہین کرتا ہے، اس پر حملہ کرتا ہے، اس کے خلاف لکھتا ہے اور بولتا ہے، کیا یہ نہیں جانتا کہ اس کام سے وہ کیا کھو رہا ہے؟ آپ اپنے خیال میں اپنے بھائی کی اصلاح کر رہے ہیں۔ کیا وہ جو آپ کی تنقید اور سراسر اور مطلق اعتراض کو سن رہا ہے، جو زیادہ تر اعتراض برائے اعتراض ہیں، وہ آپ کا بھائی ہے؟ جایئے، اکیلے میں، خفیہ طور پر اپنے بھائی سے جو بھی کہنا ہو کہئے۔ اختلافات کو ہوا دے کر معاشرے کے عام لوگوں اور عوام میں کیوں فکری تشویش پھیلا رہے ہیں؟
میں صراحت کے ساتھ عرض کر رہا ہوں کہ افسوس کہ دونوں طرف سے یہ کام ہو رہے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اس جہت میں ہماری ایک جماعت ہے، اور ہم اس کا خیال رکھتے ہیں، تو میں یہ کہتا ہوں کہ نہیں' میں اس کی تائید نہیں کرتا ہوں۔ افسوس کہ دونوں طرف سے سخت، انتہا پسندانہ اور ایسی روش سے کام لیا جا رہا ہے جو اسلامی ماحول کے لئے مناسب نہیں ہے۔ ان کی باتیں توہین آمیز، حقیقت کے خلاف اور بعض اوقات بہتان کے ہمراہ ہوتی ہیں۔ ایک فرد کے کام سے عام اور کلی نتیجہ نکالتے ہیں۔ یہ غلط اور فریب ہے۔ بھائیو' اگر یہ کام جاری رہا تو ہم کس چیز سے محروم ہو جائیں گے؟ عوام سے اور ان کے اعتماد سے جو میں نے عرض کیا۔
میں ایک بار عرض کر رہا تھا کہ اگر عوام اصطلاح سے کام لینے والے ہوں تو اس وقت سب کے فسق پر اجماع مرکب ہے۔ کیونکہ دونوں فریق اجماع کرنے والے ہیں۔ یہ کہتے ہیں وہ برے ہیں اور وہ کہتے ہیں یہ برے ہیں، اور تیسرا قول کوئی نہیں ہے۔ معاملات سے نمٹنے کا یہ کون سا طریقہ ہے؟ ہم نظام سے عوام کا اعتماد ختم کر رہے ہیں۔ یہ نہ کہیں کہ لوگ نظام سے بے اعتماد نہیں ہوں گے۔ یہ وہ نظام ہے کہ دس بارہ سال تک اس کو امام کی سرپرستی حاصل رہی اور آپ کے ارشادات و فرمودات کے کوڑے سب پر پڑتے رہے۔ امام کے فرمودات کے حجم پر نظر ڈالیں۔ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ جتنا آپ نے اختلاف کے بارے میں فرمایا ہے اتنا کسی اور موضوع پر بولے ہوں گے۔ اس کے باوجود ہم نہیں سدھرے۔ کیا اس سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ کام کی بنیاد میں غلطی ہے؟ اگر اس صورتحال کو جاری رکھا تو لوگوں کے لئے یہ نتیجہ اخذ کرنے کا امکان آپ فراہم کریں گے اور پھر لوگ ان مثبت نقاط کو تلاش کرکے ان پر غور نہیں کریں گے جو پائے جاتے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ معلوم ہوتا ہے کہ نقص اصل کام میں ہے۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ آپ کا بھائی کج فکری کر رہا ہے۔ مثلا اگر اخبار نکالتا ہے تو اس نے برے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ واعظ ہے تو منبر پر جاکے برا طرز گفتگو اختیار کرتا ہے۔ رکن پارلیمنٹ ہے یا سرکاری عہدیدار ہے اور بری روش کا انتخاب کرتا ہے۔ اگر آپ وہ تیز اور زہر آلود تنقید نہ کریں تو واقعی کیا ہوگا؟ اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو کیا اسلام ہاتھ سے نکل جائے گا؟ انقلاب ختم ہو جائے گا؟ خدا کی قسم نہیں۔ اگر کوئی اپنے نفس کے لئے جواب دیتا ہے تو اسے اپنے نفس کو ملزم ٹھہرانا چاہئے۔ یہ شیطانی اور نفسانی جواب ہے۔ اس طرح جواب دیتا ہے کہ اگر مثلا آپ نے یہ مقالہ یہاں نہ لکھا یا اس پلیٹ فارم سے یہ بات نہ کہی یا کہیں یہ تقریر نہ کی تو سب کچھ زیر و زبر ہو جائے گا۔ نہیں ' (بلکہ اس کے بر عکس) اگر آپ نے یہ انجام دیا تو بہت کچھ تہہ و بالا ہو جائے گا۔
اس وقت الیکشن در پیش ہے۔ مختلف سیاسی جماعتیں ہمفکری اور تبادلہ خیال کے ساتھ مشترکہ کام کریں۔ ایک دوسرے کے قریب آئیں؛ کیا یہ نہیں ہو سکتا؟ اتحاد اور ایک دوسرے کے قریب آنے کے لئے نیچے آنا پڑے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنی جگہ کھڑے رہیں۔ دوسرا اپنی جگہ باقی رہے اور پھر ہم کہیں کہ ہم ایک دوسرے کے نزدیک ہوں۔ قریب آنا یہ ہے کہ ایک قدم آپ اٹھائیں اور ایک قدم وہ اٹھائے۔
میرے خیال میں حقیقی اختلاف، اختلاف کے اظہار سے کم ہے۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے۔ بھائیوں کے درمیان اختلاف، تفرقہ اور علیحدگی ، اس سے کہیں کم ہے جو ہم آپ زبان پر لاتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ بولنے میں اور بیانات میں یہ مبالغہ آرائی رک کیوں نہیں رہی ہے؟ اس طرح بولتے ہیں کہ ملک سے باہر جو بیچارے خوش فہمی کے شکار بیٹھے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ بس کل ہی یہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑیں گے اور اسلحہ اٹھالیں گے۔ باتیں اتنی تیز ہیں۔
یہ باتیں دشمن کے اندر لالچ پیدا کرتی ہیں۔ چنانچہ اس وقت امریکی لالچ میں پڑ گئے ہیں۔ حتی بعض مردہ گروہوں کے اندر لالچ زندہ ہو گئی ہے۔ اس طرح کیوں بولتے ہیں؟ آپ کے دل ان باتوں سے کہیں زیادہ نزدیک ہیں جن کا بیانات میں اظہار ہوتا ہے۔ یہ بھی بعد کا مسئلہ تھا جو میری نظر میں اہم بھی ہے اور اس بارے میں جتنا بھی کہا جائے کم ہے۔
چوتھا نکتہ، معاشرے کی ثقافت ہے۔ جو میں نے محسوس کیا ہے اور جو کام انجام پا رہے ہیں، ان سے جو میں نے سمجھا ہے، یہ ہے کہ ہمہ گیر یلغار کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ انقلاب شروع میں، روشن فکر جماعت، اہل فن اور روشنفکری کا کام کرنے والوں کو جنہیں دین اور ایمان سے کوئی سروکار نہیں تھا، خود میں جذب نہ کر سکا، یہ فطری تھا۔ البتہ بعض انقلاب میں جذب ہوئے اس لئے کہ ان کا ضمیر بیدار تھا۔ جس نے انہیں انقلاب کی طرف مائل کیا۔ کچھ لوگ الگ رہے اور انقلاب انہیں جذب نہیں کر سکا۔
انقلاب کے شروع کے برسوں میں ان کے اندر سانس لینے کی بھی جرئت نہیں تھی۔ اس گروہ کی جن میں سے بعض کو میں انقلاب کے پہلے سے قریب سے جانتا تھا اور ان کی فطرت اور خصلت سے آگاہ تھا، فطرت یہ ہے کہ یہ خطرہ مول لینے کا قائل نہیں ہے۔ سخت، دشوار اور خطرناک میدانوں میں اترنے والا نہیں ہے۔ انقلاب کے شروع میں، انقلاب کے طوفان نے انہیں مجبور کر دیا کہ گھروں پر بیٹھے رہیں اور بند دروازوں کے پیچھے ایک دوسرے سے دل کی بات کہیں۔ تدریجی طور پر جرائد و اخبارات شروع کئے، قلم چلایا، کہیں کوئی بات کہی، کسی نے ان کے فائدے میں کچھ کہہ دیا، کہیں کوئی نظم پڑھی کسی نے اعتراض نہ کیا، انہوں نے دیکھا کہ اس ماحول میں منظم ہوکر کام کیا جا سکتا ہے۔
جو کام یہ کرنا چاہتے ہیں، یہ ہے کہ اس صف کو جو محاذ انقلاب کی پشت پر ہے، اپنے اختیار میں لینا چاہتے ہیں۔ محاذ انقلاب کی پشت پر جو صف ہے وہ، عوام کی صف ہے۔ اگلی صف حکام کی ہے، اس کے بعد سخت وابستگی رکھنے والوں کی صف ہے اور اس کے بعد عوام کی صف ہے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر عوام کو جو حکام کی پشت پر ہیں، حکام سے الگ کرکے اپنے اختیار میں لے سکیں تو سب کچھ حل ہو جائے گا۔
البتہ یہ صحیح ہے کہ اگر وہ یہ کام کر سکے تو انقلاب کے لئے یہ بہت کاری وار ہوگا۔ اگر وہ ان لوگوں کی فکر و ذکر، قلبی لگاؤ اور عقلی تشخیص کو جو محاذ کی پشت پر ہیں،اپنی طرف مائل کر سکے اور ان کو اپنے اختیار میں لے سکے تو۔ وہ یہ کام کر سکتے ہیں یا نہیں۔ میری نظر میں انہوں نے جو اندازہ لگایا ہے وہ ان کی خوش فہمی پر مبنی ہے۔ انہوں نے سوچا کہ کر سکتے ہیں اور شروع ہو گئے۔ ہدف یہ ہے۔
محسوس ہوتا ہے کہ سنیما میں، اخبارات و جرائد میں حتی ریڈیو ٹیلیویژن میں، جو اگر چہ سرکاری ہے مگر بہر حال یہاں بھی اس طرح کے عناصر موجود ہیں، ثقافتی مراکز میں، مختلف طرح کے فسٹیول اور میلوں میں، ثقافتی میدانوں میں ہر جگہ ان کے افراد یا کوئی مہرہ موجود ہے اور وہ کام کر رہا ہے۔ شروع میں انہوں نے صرف ثقافتی انداز میں کام کیا لیکن اب اس کو سیاسی رنگ بھی دے دیا ہے۔ حکومت پر تنقید کریں، نظام پر تنقید کریں، نظام کے ماضی پر سوالیہ نشان لگائیں۔ یہ کام انجام دیا گیا ہے۔ یہ بہت خطرناک ہے۔
البتہ خطرناک کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لاعلاج ہے یا علاج سخت ہے۔ نہیں علاج بہت آسان ہے۔ صرف یہ شرط ہے کہ خود بیمار اور طبیب یہ احساس کریں کہ بیماری ہے۔ اگر انہوں نے یہ محسوس کرلیا کہ بیماری ہے تو علاج سخت نہیں ہے۔ بہت آسان ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ ہم اور آپ یہ نہ سمجھیں کہ ایسی کوئی چیز ہے۔
ہم اہل ثقافت ہیں۔ ہم ثقافتی تشخیص دینے والے ہیں۔ جو ثقافتی فضا میں سانس لیتا ہے اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ ہاتھ سے چھوئے یا دیکھے تبھی کسی چیز کو سمجھے۔ آج میرے لئے بالکل واضح ہے۔ اس کو ہمارے صحافی، ہمارا ریڈیو ٹیلیویژن، ہمارے تبلیغی ادارے، جیسے وزارت ارشاد( اسلامی ہدایت و ثقافت کی وزارت ) اور ادارہ اسلامی تبلیغات، وزارت تعلیم و تربیت اور دوسرے سمجھ لیں۔ آج مسئلہ یہ ہے۔
البتہ میں نے عرض کیا کہ ان کی فطرت یہ ہے کہ اگر ایک ہٹ کہیں تو پیچھے ہٹ جائیں گے۔ ان کی فطرت مومنوں والی نہیں ہے۔ ایمان اور اعتقاد کی بنیاد نہیں ہے۔ جو بات وہ کرتے ہیں یعجبک قولہ فی الحیاۃ الدنیا (20) ہے۔ بات، خوبصورت بات ہے۔ مادی مسلک اہل قلم اور روشنفکر گروہ کی فطرت یہی ہے۔ بات کرتے ہیں تو زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ انسان سنتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہ دل سوختہ ہے جو دل کی گہرائیوں سے بول رہا ہے۔ جب اس کے قریب جائیں گے تو دیکھیں گے کہ جی نہیں، کچھ بھی نہیں ہے۔ زبان سے آگے کچھ بھی نہیں ہے۔ چنانچہ ان میں سے بہت سوں نے بعض اوقات سامراج، صیہونزم ، ظلم وغیرہ کے بارے میں بھی لکھا تھا، لیکن جس میدان میں عوام نے قدم رکھا ہے اس میں آنے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ عوام سے منہ بھی موڑ لیا۔ یہ پیسے اور نفسانی خواہشات کے بری طرح اسیر ہیں۔ تبلیغی اداروں کو چاہئے کہ ہوشیار رہیں اور ان کو کچھ کرنے کا موقع نہ دیں۔ بیٹھیں، اس مسئلے پر غور و فکر کریں۔ یہ ایسا مسئلہ بھی نہیں ہے کہ اپنے اپنے مزاج کے مطابق اس کو حل کیا جائے۔ ایسا بھی نہ ہو کہ کوئی ادارہ اپنے طور پر، بغیر سوچے سمجھے نامناسب انداز میں تند روش سے کام لے۔
دو طرح سے کام کیا جا سکتا ہے۔ ایک کام سلبی ہے اور دوسرا ایجابی ہے۔ سلبی کام یہ ہے کہ ان سے مقابلہ کیا جائے اور ان کی سازش کی روک تھام کی جائے۔ ایجابی کام، ثقافتی اور صحیح کام ہے۔ اچھا واعظ، اچھا وعظ، عوام میں وعظ اور ان کی فکری طور پر قائل کرنا۔ یہ ہمارے اخبارات، ہمارے جرائد، ہمارے خطباء یہ ہمارے ذمہ دار عہدیدار حضرات، مسلسل یہاں، وہاں، مسجدوں میں خطابات میں، اس شہر میں، اس شہر میں بولیں اور ان کی اصل تقریر اسی بارے میں ہو۔ انقلاب، انقلاب کی برکات، انقلاب کی اقدار اور اس پر اس پر برسنے کے بجائے ان اقدار کی پابندی کی بات کریں۔ یہ ہے ثقافتی مسئلہ۔
میں دعا کے ساتھ اپنی بات ختم کروں گا۔ پالنے والے! محمد وآل محمد کی حرمت کا واسطہ ہمیں اس راستے پر ثابت قدم رکھ جو تیرے اہداف پر ختم ہوتا ہے، اور ہمیں اس راہ میں صبر اور بصیرت عنایت فرما۔
پالنے والے! ہمارے دلوں کو حقائق سے آشنا کر اور ایک دوسرے کے لئے زیادہ مہربان بنا۔
پالنے والے! اپنی قدرت اور مسلمانوں کی طاقت سے دشمنان اسلام کے شر کو ختم کر دے۔
پالنے والے! ان حساس ایام میں ہمیں اپنے عظیم فرائض سے آگاہ فرما اور ہمارے دلوں کو اپنے ذکر اور اپنے نام سے منور فرما۔
پالنے والے! ( حضرت) ولی عصر( ارواحنا لہ الفداء) کی رضا اور آپ کی دعا ہمارے شامل حال فرما اور ہمیں آپ کے ساتھیوں اور سپاہیوں میں قرار دے۔
پالنے والے! ہمارے عزیز امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہر اور شہدائے کرام کی ارواح طیبہ کو ہم سے راضی فرما۔
پالنے والے! ہمیں عوام بالخصوص انقلاب کے سپاہیوں، بسیجیوں(رضاکاروں)، شہداء کے اہل خاندان اور راہ انقلاب کے تمام فداکاروں کا حقیقی خدمتگزار قرار دے۔ ہم نے جو کچھ کہا اور جو کچھ سنا اسے اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے اور اپنے فضل و کرم سے ہماری طرف سے اسے قبول فرما۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1 ،2، 4، 5، 6، 9، 10 ، 11 - آل عمران ؛ 152 30 - بحارالانوارج 20 ص 30 7- انفال ؛ 53 8- آل عمران ؛ 147 12-آل عمران؛ 155 13- بحارالانوار ج 67 ص 265 14-کہف؛ 49 15-فرقان؛77 16-نہج البلاغہ، خطبہ 109 17-اسراء؛ 16 18-جاثیہ؛16 19-بقرہ؛61 20-بقرہ؛ 204