بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں آپ محترم حضرات اور ملک کی نماز جمعہ کے میدان کو منور کرنے والی اہم شخصیات کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کے بعد یاد دہانی کے طور پر عرض ہے کہ اگر ان جلسوں میں جو کافی زحمتوں سے تشکیل پاتے ہیں، کیونکہ آپ حضرات ملک کے مختلف نقاط سے مسافت طے کرکے، یہاں تشریف لاتے ہیں، سفر کی زحمتیں اٹھاتے ہیں اور پروگرام وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں، قابل توجہ پیشرفت ہو تب تو ان جلسوں کا حق ادا ہو گیا۔ اور اگر ہمیں اس پیشرفت کا انتظار کرنا پڑے تو بحث اور تبادلہ خیال کے جلسوں یعنی کمیشنوں کے اجلاسوں میں آپ میں سے ایک ایک فرد کی مخلصانہ شرکت ضروری ہے۔
میں تمام حضرات بالخصوص نئی فکر اور جدت عمل اور جو راستے اب تک نہیں کھل سکے ہیں انہیں کھولنے کے لئے اقدام کی جرائت رکھنے والوں سے اپیل کروں گا کہ ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ مستقل طور پر اور روز بروز ملک کے ان مراکز کو نقطہ کمال کی طرف لے جائیں۔ اگر ہم اس بات پر قناعت کر لیں کہ دس سال پہلے جس طرح نماز جمعہ ہوتی تھی اسی طرح اب بھی ہو تو یہ خود کو دھوکہ دینا ہوگا۔ من استوی یوماہ فھو مغبون (1) ہر جاری رہنے والے کام، بالخصوص اگروہ عظیم فریضہ ہو تو اس کا قاعدہ یہ ہے کہ اس میں مستقل تغیر اور پیشرفت آئے۔
جو بات میرے مد نظر ہے اس کو عرض کرنے سے قبل ایک تمہید بیان کروں گا۔ وہ تمہید یہ ہے کہ آج ہمارے ملک، نظام اور انقلاب کی حالت دو لحاظ سے قابل توجہ ہے۔ ایک حکومت کے معمول کے اصولوں کے لحاظ سے۔ یعنی منصوبہ بندی، کارآمد لوگوں کے انتخاب، تجربات سے کام لینے، ان مسائل اور باتوں سے واقفیت جن کی حکومت کو ضرورت ہے۔ دوسرے، کام جاری ہونے کے لحاظ سے۔ اس لحاظ سے ہم نے پیشرفت کی ہے اور اس پیشرفت کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ بنابریں امور مملکت چلانے میں، سب کچھ ترقی پذیر ہے۔
میں امور مملکت چلانے کے مختلف خطوط پر نظر ڈالتا ہوں تو احساس کرتا ہوں کہ ان تمام خطوط میں، مینجمنٹ کے لحاظ سے، منصوبہ بندی کے لحاظ سے اور کام میں پختگی کے لحاظ سے ہم پیشرفت کر رہے ہیں۔ اگر اس سلسلے میں باریک بینی کے ساتھ تفصیلی تجزیہ کیا جائے تو یہ نکتہ واضح ہو جائے گا۔ مثلا معیشت کے میدان میں ہم پیشرفت کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ معیشت کے تعلق سے بعض ظاہری باتیں جیسے افراط زر اور کھانے پینے کی چیزوں کی گرانی اور اسی قسم کے دوسرے مسائل حضرات کے ذہن میں آئیں، لیکن میں عرض کروں گا کہ اس میں اور جس کا میں دعوا کر رہا ہوں اس میں کوئی منافات نہیں ہے۔ آخر کار ہم معیشت کے میدان میں طویل برسوں کے گذرنے کے بعد واضح نقطے تک پہنچ گئے ہیں۔ یعنی ملک کے حکام کے لئے ملک کی اقتصادی منصوبہ بندی واضح اور روشن ہے اور ان اہداف تک پہنچنے کے لئے جو طریقہ مد نظر رکھا گیا ہے وہ صحیح ، متین اور قابل دفاع ہے۔
بہت سے کام خود صحیح ہوتے ہیں، ان کا ہدف بھی صحیح ہوتا ہے اور اس تک پہنچنے کے لئے راستے کا انتخاب بھی صحیح ہوتا ہے لیکن مختلف موڑوں سے گذرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ مشکلات راستے، ہدف، منصوبہ بندی اور جو باتیں مد نظر رکھی گئیں ان کے غلط ہونے کی دلیل نہیں ہوتیں۔ اگر منصوبہ متین اور دقیق ہے اور بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھتا رہے تو اچھے نقاط تک پہنچـے گا۔ سیاسی اور بین الاقوامی مسائل میں صحیح، روشن اور منظم منصوبہ بندی پائی جاتی ہے۔ اگر بغیر کسی رکاوٹ کے ایسے ہی چلتے رہے تو اچھے اہداف تک پہنچیں گے۔ مختلف میدانوں میں مشکلات و مسائل پہچان لئے گئے ہیں اور حکام منصوبہ بندی اور اقدام میں مشغول ہیں۔
البتہ کل ما یتمنی المرء یدرکہ اور نیت المومن خیر من عملہ ( 2) ہمیشہ مومن ایسی چیزوں کی نیت کرتا ہے کہ ممکن ہے کہ مقام عمل میں انہیں نہ حاصل کر سکے۔ مومن کی نیت اور خواہش ہمیشہ جس مقدار میں وہ عمل کرتا ہے، اس سے بہتر اور بالاتر ہوتی ہے۔ یہ ایک فطری امر ہے۔ یہ اقتصادی اور سیاسی مسائل بعنوان مثال بیان کئے گئے، یہ معاملے کا صرف ایک پہلو ہے۔ یعنی انقلابی اہداف کی جانب ملک کی عمومی پیش قدمی میں آج ہماری حالت ماضی سے زیادہ روشن اور مستحکم ہے۔
معاملے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ آج اسی وجہ سے بہت سی دیگر وجوہات سے، ہمارے خلاف دشمنوں کی سازشیں زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہیں۔ البتہ دنیا میں کوئی بھی صراحت کے ساتھ اعتراف نہیں کرتا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مخالفت کرنا چاہتا ہے یا اسلام کا مخالف ہے۔ ظاہر میں سب دوست، زبان اچھی اور دلکش لیکن باطن میں کچھ اور ہے۔ ایک طرف بائیں محاذ کا دشمن تھا جو خود بخود تحلیل اور نابود ہو گیا اب وہ میدان میں نہیں ہے۔ یعنی مارکسی نظام اور اس نظام سے وجود میں آنے والے ممالک آج ہم سے کل والی دشمنی نہیں رکھتے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس دشمن کا جنگ کے میدان سے نکل جانا ہمارے فائدے میں رہا ہے؟ کیا اس کے میدان جنگ سے نکل جانے سے، ہماری نسبت دشمنی میں کمی آئی ہے یا نہیں؟ ایک نقطہ نگاہ سے ہاں، یہ ہمارے مفاد میں رہا ہے اور وہ نقطہ نگاہ یہ ہے کہ الحادی محاذ کا ایک کاری اسلحہ یعنی مارکسی تفکر اور ماکسزم کا تیار کردہ مکتب اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔
جو برادران، مجاہدت کے دوران اور اوائل انقلاب میں بائیں بازو کے گروہوں سے سروکار رکھتے تھے، انہیں یاد ہے کہ کتنی جوش و خروش، کتنے اطمینان اور محکم موقف کے ساتھ اس مکتب کا ذکر ہوتا تھا۔ وہ محاذ ختم ہو گیا اور معلوم ہو گیا کہ آج صریحی مادی تفکر کی دنیا میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ قضیے کا مثبت نقطہ تھا۔ لیکن دوسری طرف امام نے سویت یونین کے سربراہ کو خط میں لکھا تھا کہ آپ خیال رکھیں کہ کہیں مغرب کے سامنے نہ جھک جائیں۔ لیکن امام کی اس نصیحت پر عمل نہیں ہوا۔
مشرقی یورپ، جو کبھی مغربی یورپ کے لئے پریشانی کا باعث تھا، آج مغربی یورپ کا حصہ، اس کے ٹکڑوں پر پلنے والا اور اس کا حواری بن گیا ہے۔ دو طاقتوں کے درمیان جو ممالک بٹے ہوئے تھے، چونکہ ان ملکوں میں حقیقی خود مختاری نہیں ہے اس لئے ایک طرف جھک گـئے اور سب ایک طرف چلے گئے ہیں۔
آج دنیا کے ایک نقطے میں سائنس، اسلحے اور ٹکنالوجی سے لیس ایک بڑی خطرناک سلطنت، البتہ ظاہر میں، باطن قضیہ کچھ اور ہے جو میں بیان کروں گا، وجود میں آئی ہے اور اس کا سربراہ امریکا ہے۔ یہ ایک بڑا خطرہ ہے۔ ہمیں اس خطرے کو کم نہیں سمجھنا چاہئے۔
یہاں ایک مثبت نقطہ جو نظروں سے اوجھل نہیں ہونا چاہئے، یہ ہے کہ المنافقون والمنافقات بعضھم من بعض ( 3) یعنی ایک دوسرے کی جنس سے ہی ہیں۔ المومنون والمومنات کے بارے میں فرمایا جاتا ہے بعضھم اولیاء بعض (4) ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ منافقون اور منافقات میں یہ اتحاد اور آپسی خلوص نہیں پایا جا سکتا۔ سرانجام کفر و استکبار کے اس محاذ میں اختلاف اور قوتوں کا آپسی تصادم اور ٹکراؤ اسقدر ہوگا کہ اگر مومنین موقع شناسی کا ثبوت دیں اور موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو اٹھا سکتے ہیں لیکن ظاہر قضیہ یہ ہے کہ دنیا کی مادی طاقت کے مجموعے اور اس خطرناک امپایر کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو یہ متحد ہو جاتے ہیں۔
آج دنیا میں اس متحدہ امپایر کے مقابلے میں کون سی طاقت ہے؟ پوری طرح واضح ہے کہ اسلام کے علاوہ کوئی بھی فکر، آئیڈیالوجی اور مکتب نہیں ہے۔ انہوں نے اس مجموعے کے مقابلے میں مجاہدت اور طاقت کے کسی بھی مورچے کو باقی نہیں رہنے دیا ہے لیکن اسلام باقی ہے اور خدا کی قوت کے حصار میں ہمیشہ باقی رہے گا۔
البتہ آج دنیا میں کچھ افکار ہیں۔ یہی مغربی فلاسفہ اور ماہرین سماجیات جو پہلے تھے آج بھی ہیں اور ان کے سماجی مکاتب ہیں لیکن یہ تمام سماجی اور سیاسی مکاتب، مغربی تفکر کی خدمت میں ہیں۔ یہی لبرلزم اور نام نہاد مغربی ڈیموکریسی، یہ اپنی عالمی امپایر کو انسانی ڈیموکریسی کا نام دینا چاہتے ہیں لیکن اس میں حقیقی آزادی اور ڈیموکریسی کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ سب اسی امپایر کی خدمت میں ہیں۔
آج دنیا میں کوئی مکتب ایسا نہیں ہے جو انسانوں کو طاقت اور زر کے ان شیطانوں کے خلاف جنگ کی تعلیم دے۔ نیشنلزم اور قومیت کا احساس بھی اس کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ایک زمانے میں افریقا، لاطینی امریکا اور بعض ایشیائی ملکوں میں سامراجی براہ راست اقتدار پر قابض ہوتے تھے، لوگوں کے نیشنلزم اور قومیت کے جذبات کو مجروح کرتے تھے اور انہیں اپنے مقابلے پر لاتے تھے۔ آج وہ بھی نہیں ہے۔ آج استعماری سیاست اتنی باریکی سے آگے بڑھ رہی ہے کہ اس سے لوگوں میں ان کے خلاف نیشنلزم، قوم پرستی اور قومیت کے جذبات برانگیختہ نہیں ہوتے۔ عرب قوم پرستی اس کا ایک نمونہ ہے۔ کیا عرب قومیت امریکا کے مقابلے پر آئے گی یا امریکا کے فائدے میں کام کرے گی؟
کوئی مورچہ اور کوئی نقطہ اعتماد و امید نہیں ہے۔ البتہ حق پسند انسان کبھی بھی ختم نہیں ہوتے۔ استکبار کی قوت سے وجود میں آنے والی گھٹن اس کی طاقت کی نمائش اور جو خلاف ورزیاں وہ کر رہا ہے اور مستقبل میں زیادہ خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرے گا، ان میں سے کچھ بھی ختم نہیں ہوگا اور حساس اور دقت نظر رکھنے والے انسانوں کے نقطہ نظر سے، ان کی طرف سے غفلت نہیں ہوگی۔ غریب اور مغربی استکبار سے وابستہ مختلف ملکوں کے نوجوان یقینا ماضی کی طرح پر جوش انداز میں اٹھیں گے، یہ ختم نہیں ہوں گے۔ لیکن ان کے پاس کوئی مورچہ نہیں ہے، کوئی ایسا پلیٹ فارم نہیں ہے جس کا وہ سہارا لیں اور مستکبرین و ظالمین کے مقابلے میں اپنے غیض و غضب کو بروئے کار لانے کے لئے اس سے کام لیں۔ ایک ہی وسیلہ باقی ہے اور وہ اسلام ہے اور وہ بھی صحیح اور انقلابی تفسیر والا اسلام اور ہمارے عظیم امام کے الفاظ میں حقیقی محمدی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسلام۔ یہ اسلام ہے جو آج دنیا میں طاقت کی اس نمائش کے مقابلے میں موجود ہے اور اغیار پر اس کی ہیبت طاری ہے۔ یہ اسلام ہے جو اب بھی اقوام کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ یہ اسلام ہے کہ آج آپ دنیا میں جہاں بھی جائیں، اسلامی ممالک ہوں یا غیر اسلامی، ایسے بہت سے انسانوں اور نوجوانوں کو پائیں گے جو اس کے شوق میں، دور سے اس کی جو تصویر دیکھتے ہیں اور اس کے بارے میں سنتے ہیں، اس کے دلدادہ ہو گئے ہیں۔ اس لئے آپ کے پاس آتے ہیں، آپ سے بات کرتے ہیں اور آپ سے استفسار کرتے ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو آپ سے مدد کے طلبگار ہیں۔
شیطان اور اس کی شیطانی حرکات کے مقابلے میں یہ واحد مورچہ باقی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اسلام اور اس نظام سے جو اس حقیقت اور مکتب کی ترویج کرتا ہے اور جس نے اس کا پرچم اٹھا رکھا ہے، دشمنی پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے۔ یہ معاملے کا دوسرا رخ ہے۔
آج ہمیں استکبار کی جانب سے بہت پیچیدہ اور گہری دشمنی کا منتظر رہنا چاہئے۔ بعید ہے کہ یہ دشمنی فوجی حملے کی صورت میں اور ماضی کے ہی تجربات کی شکل میں ہو۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ اس کے لئے دوسرے راستوں کا انتخاب کریں گے۔ ایک راستہ اقتصادی محاصرے کو سخت تر کرنا ہے اور ایک راستہ سیاسی دباؤ میں روز افزوں اضافہ ہے۔
اس وقت آپ دیکھ رہے ہیں کہ کچھ عرصے سے ایک بار پھر وہ انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھا رہے ہیں۔ فلاں ملک، فلاں تنظیم اور فلاں کمیشن انسانی حقوق کے حربے کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کے مقابلے میں جنگ کے لئے آتا ہے۔ جو دل کی گہرائیوں میں انسانوں کے لئے کسی حق کے قائل نہیں ہیں اور اگر کسی انسان کے لئے، کسی حق کے قائل ہیں تو وہ مغربی انسان ہے، ہر انسان نہیں ہے اور چاہتے ہیں کہ ان کی سلامتی اور رفاہ کے تحفظ کے لئے کروڑوں انسان فنا ہو جائیں، وہی جھوٹے لوگ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف انسانی حقوق کا معاملہ اٹھاتے ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی سیاسی دباؤ اور ملک کے اندر بد عنوانی اور برائیوں کے مراکز وجود میں لاکر دباؤ بڑھا چـکے ہیں۔
یہ جو ہم نے مسلسل کہا ہے اور کہتے ہیں کہ ثقافتی سازش ہو رہی ہے اور ہم اسے اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں، اس کی دلیل ہے ہمارے پاس۔ یہ صرف نعرہ نہیں ہے۔ میں اس کو دیکھ رہا ہوں۔ آج دشمن نے بہت چالاکی کے ساتھ ملک کے اندر ہمارے خلاف ایک ہمہ گیر ثقافتی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ یہ تھی وہ تمہید جو میں عرض کرنا چاہتا تھا۔
اب سوال یہ ہے کہ اب اس ثقافتی جنگ کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ روش یہ ہے کہ اگر ملک میں کوئی ثقافتی مشکل نظر آئے یا سنی جائے اور یہ مسئلہ ہے، تو سب کا رخ حکومت کی طرف ہو جاتا ہے کہ کہتے ہیں کہ حکومت (ذمہ دار ہے )۔ آپ خود بھی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ واضح مثال بد حجابی کی ہے۔ یا ملک کے بعض شہروں اور دور افتادہ علاقوں میں قدیمی طبل اور باجوں کا رواج ہے، یہ وہ چیزیں ہیں کہ جن کے بارے میں حضرات مجھے لکھتے ہیں یا رپورٹ آتی ہے اور ہم مطلع ہوتے ہیں کہ بعض حضرات ناراض ہیں انہیں شکایت ہے۔
البتہ اس میں شک نہیں کہ یہ برے رواج ہیں لیکن ثقافتی سازش کا مسئلہ یہ نہیں ہے۔ یہ چھوٹی اور ظاہری باتیں ہیں اور اس سازش کی نسبت بہت کم اہمیت مسئلہ ہے۔ آج حجاب کی صورتحال اور خواتین کی حالت کے لحاظ سے انقلاب کے پہلے کے زمانے سے بہت مختلف ہے۔ یہ فرق بہت گہرا اور عمیق ہے۔ بہت کم شعبے ہیں جن میں انقلاب کے پہلے کے زمانے سے اتنا فرق آیا ہو۔ آپ دیکھیں کہ معاشرے کے مختلف شعبوں میں سے کس شعبے میں، چاہے وہ دین و مذہب کے شعبے ہوں یا علمی مسائل سے متعلق شعبے ہوں، چاہے معیشت اور سیاست کے شعبے ہوں، اس زمانے کی صورتحال اور موجودہ حالت میں اتنا فرق آیا ہے جو آج ہم ظالم شاہی حکومت کے دور کی خواتین اور آج کی خواتین کے درمیان واضح طور پر محسوس کرتے ہیں۔ اس زمانے میں عورت کا کچھ بھی باقی نہیں بچا تھا۔ اس دور میں عورت کی پاکیزگی، تقدس، حجاب اور حرمت کے نام سے کوئی چیز باقی نہیں رہنے دی گئی تھی۔ خاص طور پر بڑے شہروں میں۔ آج کی حالت کا اس زمانے کی حالت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس میں شک نہیں ہے کہ اس سے بہتر ہونا چاہئے۔ لیکن جو کچھ آج ہے وہ اس دور سے قابل موازنہ نہیں ہے۔ یہ وہ چیز نہیں ہے کہ اس پر ثقافتی زیاں، معاشرے کی پژمردگی اور دشمن کے حملے اور خطرے کے عنوان سے توجہ دیں۔ اصل معاملہ کچھ اور ہے۔ البتہ یہ بھی اس کا ایک گوشہ اور اس کے مظاہر میں سے ہے۔
حضرات! مختصر یہ کہ دشمن، نوجوان نسل کو تدریجی طور پر تباہ کر رہا ہے۔ ہمیں روکنا چاہئے۔ ہمیں نوجوان نسل کی حفاظت کرنی چاہئے، تاکہ جنگ ہو تو دفاع کرے، ملک کے اندر کوئی حادثہ رونما ہو جائے تو وہاں پہنچ جائے، حصول علم اور تحقیق کا مرحلہ ہو تو علم حاصل کرے اور خود کو سنوارے اور مستقبل کے لئے خود کو آمادہ کرے۔ اس نوجوان نسل پر جس پر ہمیں بھروسہ ہے اور جو ہماری امید کا مرکز ہے، تدریجی طور پر مختلف شکل میں اور مختلف طریقوں سے کام ہو رہا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے۔ معمولا یہ کوششیں ثقافتی ہوتی ہیں۔ البتہ ایسی جگہیں بھی ہیں جہاں ہمارے نوجوانوں کو لے جاکر انہیں بگاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ عملی اور ثقافتی پہلو ہے لیکن جو چیز سب سے زیادہ خطرناک ہے وہ ہمارے نوجوانوں کی فکر و ذہن خراب کرنے اور حوصلہ پست کرنے کی کوشش ہے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
نوجوانوں کے اذہان پر دو عوامل زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک دشمن کے مختلف قسم کے پروپیگنڈے ہیں۔ وہ پروپیگنڈے جو نوجوانوں کو ان حقائق اور اسلامی و انقلابی مقدسات و مسلمات سے جو اعتقاد کے بنیادی ستون اور اصول ہیں، بے اعتنا اور غافل کر دیتے ہیں اور دوسرا عامل ان اصولوں اور حقائق کے صحیح بیان اور موثر دفاع کا فقدان ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دوسرے عامل کا اثر پہلے سے کم نہیں ہے۔ چونکہ اسلامی جمہوری نظام میں اسلام، اسلامی اصولوں، اسلامی بنیادوں اور اسلامی تعلیمات کے خلاف آشکارا اور کھل کے بہت کم پروپیگنڈہ ہوتا ہے اور اس قسم کے پروپیگنڈے کی آزادی نہیں ہے، اس لئے دشمن کے پروپیگنڈے صرف معینہ سطح تک ہی محدود رہتے ہیں لیکن دوسرے عامل کی کوئی حد اور سطح نہیں ہے۔
اگر ہم تبلیغ نہ کریں، حقائق بیان نہ کریں، اسلامی تعلیمات کا صحیح دفاع نہ کریں، توحید، حکومت الہی، خدا کے سامنے انسان کی عبودیت کے التزام اور احکام خدا کے سامنے انسان کے تسلیم ہونے کی ضرورت کو جو اصلی بنیادیں ہیں، بیان نہ کریں تو یہ بیان نہ کرنے، صحیح دفاع نہ کرنے اور استدلال کے ساتھ ان کو ثابت نہ کرنے کا جو نقصان ہوگا وہ کسی خاص حد تک محدود نہیں رہے گا بلکہ سب کو اپنی لپیٹ میں لےگا۔
اب یہاں سے میں، عالم دین کی حیثیت سے اپنے بالخصوص آئمہ جعمہ کے فرائض کی طرف آنا چاہتا ہوں۔ میری نظر میں یہ بہت سنگین فریضہ ہے۔ آئمہ جمعہ حضرات کو جو کام کرنا ہے وہ بہت بڑا اور عظیم ہے۔ نہ سرسری طور پر اس سے گزرنا چاہئے اور نہ ہی اس کو آسان سمجھنا چاہئے۔
البتہ بعض حضرات کے ذہن میں جو بات آ سکتی ہے وہ میرے ذہن میں بھی ہے۔ ممکن ہے کہ بعض حضرات کہیں کہ ہم کتنی ہی تبلیغ کر لیں، دوسری طرف ریڈیو، ٹیلیویزن اور ایسے مراکز ہیں جو ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ میں اس سے کسی حد تک اتفاق کرتا ہوں تاہم میں اسے فطری طور پر سو فیصد قبول نہیں کر سکتا۔ ہاں منفی اور مسموم پروپیگنڈے وہاں ہیں لیکن میں مسائل کو ایک دوسرے سے الگ کر سکتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ دو مسئلے ہیں۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ دیکھیں کہ ہمارا غیر جو ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے وہ کیا ہے۔ اس کا تدارک کریں۔ اس میں شک نہیں ہے۔ لیکن یہ کام صحیح تدبیر کے ساتھ ہونا چاہئے۔ انشاء اللہ امید ہے کہ اس کی اصلاح ہوگی۔ اس پر کام ہو رہا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس بات پر توجہ دیتے ہوئے کہ ہمارا ریڈیو اور ٹیلیویزن کا ادارہ، اسلامی ماحول کے لئے اعلا مطلوبہ سطح پر نہیں ہے، کرنا کیا چاہئے؟ کیا اس صورتحال کی وجہ سے ہمارے کندھوں سے فریضے کا بوجھ ہٹ جاتا ہے؟ کیا ہمارے علماء کی برادری یہ دعوا کر سکتی ہے کہ اس معاشرے کے نوجوانوں ، عورتوں اور مردوں کو متوجہ کرنے کے لئے، تمام ضروری کام اور کوششیں انجام دے رہی ہے؟ یہ وہ سوال ہے کہ جس کا ہمیں جواب دینا ہے۔ اس منزل پر میں خود کو بھی، آپ کی طرح ایک عالم کی حیثیت سے جواب دہ سمجھتا ہوں۔ البتہ دیگر فرائض بھی ہیں جن پر اپنی جگہ پر عمل ہونا چاہئے۔ امید ہے کہ عمل ہوگا۔
بیان کے سلسلے میں کیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ ایک شہر میں نماز جمعہ کے منبر سے جو توقع ہے وہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم کچھ چیزیں تیار کریں اور جاکے منبر سے بیان کر دیں۔ توقع اس سے زیادہ ہے۔ توقع یہ ہے کہ ہم ایک طبیب کی طرح ہوں جو بیماری کے تجسس میں رہتا ہے، اس کا پتہ لگاتا ہے اور محنت سے اس کی دوا تیار کرتا ہے، زخم پر لگاتا ہے یا بیمار کو کھلاتا ہے۔
ہمارا فرض یہ نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ ہم نے تو بتا دیا اب جو چاہے عمل کرے یہ بات اس دور کے لئے کہ جب حکومت مسلمانوں کے پاس ہے، صحیح نہیں ہے۔ اس دور میں حکومت چلانے کی ذمہ داری ہمارے پاس ہے اور دشمن پوری کوشش کر رہا ہے کہ ذہنوں سے اسلامی باتوں کو بالکل نکال دے۔ ہمارا فریضہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم نے اپنی بات کہہ دی، ہوا ہوا نہ ہوا نہ سہی۔ ہمیں اپنی بات کہنی چاہئے، لیکن یہی کافی نہیں ہے۔ ہمیں اپنی بات دلوں تک پہنچانی ہے۔ وما علی الرسول الاالبلاغ (5) یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ ہوا میں پھینک دیا کسی نے سمجھا تو سمجھا اور اگر کسی نے نہ سمجھا تو نہ سمجھا۔ جس تک بات پہنچی پہنچی، جس تک نہ پہنچی نہ پہنچی۔ میں اس کو ایک مشکل کی حیثیت سے دیکھتا ہوں۔
البتہ میں جانتا ہوں کہ حضرات، کوشش کرتے ہیں محنت کرتے ہیں۔ ہر شہر میں امام جمعہ کے پاس لوگ آتے ہیں، اس سے ان کی توقعات ہوتی ہیں۔ اس کے پاس دفتری، سیاسی اور عوامی امور ہوتے ہیں۔ عوام بہت سی مشکلات کا حل اس سے طلب کرتے ہیں۔ حتی صرف اس بنا پر کہ وہ صاحب عمامہ ہے اور بعض حکام بھی صاحب عمامہ ہیں، بعض تنگ نظر، مشکلات کا سبب اس کو سمجھتے ہیں۔ میں ان باتوں کو جانتا ہوں۔ لیکن ان مشکلات کو حل کرنا اور اپنے حقیقی فریضے تک پہنچنا ضروری ہے۔
بھائیو! آج اگر کسی شہر میں امام جمعہ، بالفرض، دو سرکاری افسروں کا اختلاف حل نہ کر سکا تو آسمان زمین پر نہیں آجائے گا۔ البتہ اگر اصلاح کر سکا تو بہت بہتر ہے لیکن اگر میں کسی شہر میں رہوں، دین خدا کے بیان کا یہ عظیم منبر اور پلیٹ فارم میرے پاس ہو اور نوجوان، گروہ در گروہ بے دین ہوتے جا رہے ہوں تو یہ المیہ ہے۔
ہمیں سب سے پہلے یہ فکر کرنی چاہئے کہ نوجوانوں کو نماز جمعہ میں کیسے لایا جائے۔ میں پورے ملک حتی بعض چھوٹے شہروں اور قصبوں کی نماز جمعہ کی رپورٹوں کو دیکھتا ہوں۔ ان رپورٹوں سے میرے ذہن میں جو بات آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس مسئلے پر غور و فکر کرنا چاہئے۔ سارا قصور دوسرے کی گردن پر ڈال دینا بہت آسان ہے۔ یہ کہہ دیں کہ اقتصادی حالت یہ ہے، گرانی ایسی ہے، فٹبال کی حالت یہ ہے، اس لئے لوگ نہیں آتے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے لیکن صحیح نہیں ہے۔
یہ گوشہ و کنار میں موجود عوامل ہیں جو موثر بھی ہیں ، بے تاثیر نہیں ہیں لیکن نماز جمعہ میں نوجوانوں کے نہ آنے، یا کم آنے یا شوق سے نہ آنے کا عامل یہ نہیں ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ اس مرکز میں کشش ہونی چاہئے تاکہ انہیں اپنی طرف کھینچا جا سکے۔ اگر کشش ہو تو کھینچے گی حتی ہر قسم کے لوگوں کو ٹیلیویژن چھوڑ کر اٹھنے پر بھی مجبور کر دے گی۔
حضرات اس مسئلے پر فکر کریں۔ میری درخواست اور توقع یہ ہے کہ حضرات ان جلسوں میں اس مسئلے پر غور کریں کہ اس مسئلے کے لئے کن عوامل کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ کون سا طرز بیان اختیار کیا جائے۔ کشش پیدا کرنے اور لوگوں کو اپنی طرف لانے کے لئے کیا کیا جائے۔ ممکن ہے کہ بعض حضرات کے پاس صحیح اسلوب بیان کی شناخت کے لئے ضروری جدت عمل نہ ہو۔ بیٹھیں اور جو کہنا ہے اس کو بہترین انداز بیان کے ساتھ (تحریری شکل میں) تیار کریں اور سب کو دیں۔
ہمیں اتنے اہم مرکز کو یونہی نہیں چھوڑ دینا چاہئے۔ ہمارے کام کی بنیاد یہاں ہے۔ نماز جمعہ دلوں کو محکم اور ایمان کو قوی کرتی ہے۔ لوگوں کو اقدام کی ہمت عطا کرتی ہے۔ ان عظیم سپاہیوں اور جنود اللہ کو وقت ضرورت حرکت میں لاتی ہے۔ اگر یہ حربہ کند ہو گیا تو بہت سی مشکلات وجود میں آ جائیں گی۔
الہی نظام عوام پر استوار ہے۔ عوام ہر چیز سے زیادہ ، اپنے ایمان اور جذبات کے ساتھ میدان میں آتے ہیں۔ ان کے جذبات کو اپنی طرف موڑنا اور ان کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں میرے پیش نظر کچھ باتیں ہیں جو آئمہ جمعہ سے ہی مخصوص نہیں ہیں بلکہ ان کا تعلق تمام علماء سے ہے۔ ان باتوں کو ہمیں ایسے اجتماع میں عرض کرنا چاہئے کہ جو صرف آئمہ جمعہ حضرات سے مخصوص نہ ہو کہ گھر کا سارا بوجھ انہیں حضرات پر آ جائے لیکن یہاں جو میں عرض کر سکتا ہوں یہ ہے کہ یہ ایک منبر ہے۔ یہ منبر جو ہمارے اختیار میں ہے، یہ بہت سنگین ذمہ داری ہے۔ اس ذمہ داری کو اس کی تمام خصوصیات اور شرائط کے ساتھ قبول کرنا چاہئے اور اسی انداز میں اس سے استفادہ کرنا چاہئے جو ضروری ہے۔
آج لوگوں کی نگاہیں آپ پر ہیں۔ آج لوگوں کے معنوی اعتماد اور امید کا مرکز علماء ہیں اور ملک میں ہر جگہ آئمہ جمعہ، علمائے دین کے عمومی مظہر ہیں۔ البتہ دینی تعلیم کے مراکز میں اساتذہ اور مراجع ہیں لیکن دینی تعلیم کے مراکز ملک کے چند مخصوص علاقوں میں ہیں۔ جو چیز ملک کے ہر حصے میں عمومیت کے ساتھ موجود ہے وہ امامت جمعہ ہے۔ امامت جمعہ، علمائے دین کی بھی نمائندگی ہے اور نظام کی نمائندگی بھی ہے کیونکہ نظام، اسلامی نظام ہے۔
اس اہم مرکز میں اس نقطہ نگاہ ، اس تاثر اور توجہ کے ساتھ آنا چاہئے اور اسی مناسبت سے موضوع کا انتخاب کرکے عوام کے سامنے بیان کرنا چاہئے۔ میرا خیال ہے کہ اس بنیاد پر کچھ کرنا چاہئے۔ مجھے اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے کہ جو کام بھی انجام پائے میں خود بھی اس میں شریک رہوں۔ اگرچہ میری مشغولیت زیادہ ہے لیکن میں اس مسئلے کو بہت اہم سمجھتا ہوں اور میرا نظریہ ہے کہ اس کام کے بارے میں بنیادی فکر کی ضرورت ہے۔
اسلامی مسائل پر مشتمل مسودہ تیار کیا جائے، اسے مناسب انداز میں لکھا جائے، پیش کیا جائے اور ملک میں ہر جگہ اس طرح بیان کیا جائے کہ دلوں اور اذہان میں اتر جائے۔ ایسے اسلامی مسائل سے متعلق باتوں کا انتخاب کیا جائے جن میں موجودہ اور ممکنہ شبہات کا جواب موجود ہو۔ میں جانتا ہوں کہ مختلف وسائل کے ذریعے اس طرح کے شبہات عوام کے مخصوص طبقات میں پھیلائے جاتے ہیں۔
مغرب کے مادہ پرست مفکرین، فلاسفہ اور مصنفین کے افکار آج یونیورسٹیوں کی سطح پر ان کی کتابوں اور ان کے تراجم کی شکل میں موجود ہیں۔ ان کو آنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ ممکن نہیں ہے، مصلحت کے خلاف بھی ہے۔ افکار و نظریات آئیں، موجود ہوں۔ ان افکار کے مقابلے میں اکسیر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک کے علمائے دین نے ملک کے نوجوانوں کو پرکشش مارکسی افکار کے مقابلے مین اکسیر دیکر انہیں ان افکار سے محفوظ بنا دیا ۔
کیا اس ملک میں مارکسسٹوں نے کم کام کیا ہے۔ کم رسائل شائع کئے ہیں۔ کم بحث کی ہے۔ یہی اسلامی مفکرین اور علمائے دین تھے جو ان کی شیریں، پر کشش اور پر فریب باتوں سے، جن کی دلفریبی باتیں کہیں اور شاذ و نادر ہی نظر آتی ہیں، ہمارے نوجوانوں کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہے۔ ہمارے نوجوانوں میں ایسے افراد بھی تھے جو مارکسسٹوں سے علمی مناظرہ کرتے تھے۔ اب کوئی بھی فکر ہو ان کی فکر جیسی پر کشش تو نہیں ہوگی ۔
ہمیں ایسا مسودہ تیار کرنا چاہئے جو ان انحرافات تحریفات اور غلط افکار کے جواب میں ہو جو مختلف کتابوں اور رسائل کے توسط سے ہمارے نوجوانوں میں فکری خوراک کے عنوان سے تقسیم کئے جاتے ہیں۔ حتی کبھی کبھی نا دانستگی میں یونیورسٹیوں کے نصاب کی کتابوں اور کتابچوں نیز ہمارے ذرائع ابلاغ عامہ کی گفتگو میں بھی اس قسم کی باتیں آ جاتی ہیں۔ ہمیں ان کا جواب تیار کرنا چاہئے۔ اچھی فکر کے مالک اور دانشور حضرات وقت دیں اور تیار کریں تاکہ تمام آئمہ جمعہ کے درمیان اس کو تقسیم کیا جائے، اس کا مطالعہ کیا جائے اور اس پر کام کیا جائے۔ باریک بینی کے ساتھ سیاسی تحلیل و تجزیئے تیار کئے جائیں، موجودہ سیاسی مسائل کا دقت نظر اور گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جائے اور انہیں ائمہ جمعہ کے حوالے کیا جائے۔ یہ وہ کام ہیں جو اس مجموعے کو انجام دینا چاہئے۔ یہ مجموعہ، ملکی سطح پر ایک منظم مجموعہ ہے جس کو اپنے کام خود اپنے اندر ہی تیارکرنا چاہئے۔ البتہ مرکز میں لازمی طور پر بعض برادران کے ذمے کچھ فرائض ہیں۔
ان طریقوں کا انتخاب کرنا چاہئے۔ جمعہ کے منبروں کو پر کشش بنانا چاہئے اور نوجوانوں کو اس کی طرف لانا چاہئے۔ ان چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔ جو چیزیں لوگوں میں علمائے دین سے اعتماد اٹھ جانے کا باعث ہوں ان سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اس اعتماد کی حفاظت کرنا بھی علمائے دین کے اہم فرائض میں شامل ہے۔ کیونکہ علماء پر اعتماد دین پر ایمان کا لازمہ ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ملیں گے جو علمائے دین کو قبول نہ کرتے ہوں لیکن دین پر صحیح عقیدہ رکھتے ہوں۔ بعض لوگوں نے یہ دعوا کیا ہے مگر ہمیں بہت کم ملے ہیں۔ لوگوں نے دین کو اسی راستے سے پہچانا ہے۔ دین پر لوگوں کا ایمان اس صنف پر ان کے اعتماد کے ساتھ ہے۔
کمیشنوں میں ان مسائل پر بحث کی گنجائش ہے۔ الحمد للہ چند دنوں کا وقت ہے۔ ان موضوعات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ ان پر غور و خوص جا سکتا ہے۔ خلوص کے ساتھ جائزہ لیکر راستہ نکالا جا سکتا ہے۔ خدا بھی مدد کرے گا۔
خدا کے فضل سے ملک کے، امامت جمعہ کے ادارے نے اب تک عظیم خدمات انجام دی ہیں۔ ملک اور انقلاب کی حفاظت کی ہے۔ لوگوں میں امید اور شادابی پیدا کی ہے۔ آئندہ بھی انشاء اللہ اسی طرح رہے اور خدا کے فضل سے رہے گا۔ اس کے وسائل ہمارے اختیار میں ہیں۔ ہمیں سعی و کشش کرنی چاہئے۔ تاکہ انشاء اللہ رحمت الہی حاصل ہو۔ امید ہے کہ خدا وند عالم آپ حضرات کو توفیق عنایت فرمائے گا ، ہم سب کی رہنمائی کرے گا اور رشد و ہدایت کے راستے ہمارے لئے کھول دے گا۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1-بحار الانوار، ج 68 ص 173

2- بحار الانوار، ج 7 ص 322

3- سورۂ توبہ، آیت 67

4- سورۂ توبہ، آيت 71

5- سورۂ نور، آيت 54