آپ نے ماہ رمضان کو ماہ توبہ، احکام خدا وندی کے سامنے دل و جان سے خود سپردگی کر دینے، پاکیزہ ہونے اور آلودگیوں سے نجات حاصل کرنے کا مہینہ قرار دیا اور فرمایا کہ ہر سال ماہ رمضان، ہر روز کی پنج وقتہ نمازوں کی مانند جاگ اٹھنے، اللہ کی بارگاہ میں راز و نیاز کرنے اور دل و جان میں اجالا پھیلانے کا موقع ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران کے دشمنوں کے محاذ میں روز افزوں کمزوری اور اسلامی جمہوریہ کی مسلسل ترقی و پیشرفت کو قابل لحاظ تبدیلی قرار دیا اور فرمایا کہ اگرچہ اسلامی جمہوریہ کے مد مقابل محاذ ایک بہت بڑی دروغگوئی کے ساتھ خود کو عالمی برادری سے تعبیر کرتا ہے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ اس محاذ میں امریکا اور صیہونی حکومت کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ آپ نے اس حقیقت کا تجزیہ کرتے ہوئے سطحی اور بنیادی قسم کی مخالفتوں کی جانب اشارہ کیا اور فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ سے امریکا اور صیہونی حکومت کی محالفت بنیادی قسم کی مخالفت ہے۔ تفصیلی خطاب مندرجہ ذیل ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين.
صحیفہ سجادیہ اور دوسری جگہوں پر ماہ رمضان سے متعلق جو دعائیں ماثور ہیں ان میں اس مہینے کے لئے کچھ صفات اور خصوصیات کا ذکر ہے جن میں سے ہر صفت قابل غور و خوض ہے۔ شہر التوبۃ و الانابۃ میں بعد میں توبہ و انابہ کے تعلق سے کچھ باتیں بیان کروں گا۔ شہر الاسلام اس کا ذکر صحیفہ مبارکہ سجادیہ میں ہے۔ اسلام سے مراد وہی مفہوم ہے جو اس آیہ شریفہ میں مراد لیا گیا ہے؛ «و من يسلم وجهه الى اللَّه و هو محسن فقد استمسك بالعروة الوثقى».(1) اسلام الوجه للَّه، يعنى دل و جان سے خود سپردگی کر دینا ارادہ پروردگار کے سامنے، شریعت الہی کے سامنے اور حکم الہی کے سامنے۔ سر تسلیم خم کر دینا۔ شہر الطھور طہور کے معنی یا تو پاک و طاہر کرنے والے کے ہیں یعنی وہ مہینہ جس میں چیزوں کو پاک کر دینے کا خاصیت پائی جاتی ہے جو انسان کو پاکیزگی و طہارت عطا کرتی ہے یا پھر اسسے مصدر کے معنی لئے جائیں اور اس سے آلودگیوں اور آلائشوں سے پاک ہونے کا مہینہ مراد لیا جائے۔ شہر التمحیص تمحیص یعنی خالص ہونا۔ کسی اور دھات سے آمیختہ قیمتی دھات کو مثلا سونے کو جب بھٹی میں ڈال کر اسے خالص بنایا جاتا ہے تو اس عمل کو تمحیص کہتے ہیں یعنی پاکیزہ ذات انسانی کو آلودگی اور ملاوٹ سے الگ کرنا۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو اس مہینے کے بارے میں ذکر کی گئی ہیں۔
انسان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماہ رمضان سال کے دنوں اور مہینوں کے دوران وہی مقام رکھتا ہے جو چوبیس گھنٹے کے اندر پنج وقتہ نمازوں کا ہے۔ یعنی اسی طرح جیسے مقدس اسلامی شریعت نے ہمارے لئے جو مادی عناصر اور عوامل سے گھرے ہوئے ہیں کچھ مواقع فراہم کئے ہیں اور ان مواقع میں نماز کے اوقات ہیں۔ صبح کے وقت، ظہر کے وقت، عصر کے وقت، مغرب کے وقت، عشاء کے وقت متنبہ کرنے کے لئے الارم کی گھنٹی رکھی گئی ہے، دل و جان میں نورانیت پیدا کرنے کے لئے فرصت کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ شب و روز میں ہمارے لئے نمازیں رکھی گئی ہیں کہ ہم غرق نہ ہو جائیں، مادیت کے جال سے چند لمحوں کے لئے باہر نکل آئیں، تازہ دم ہو جائیں، روحانیت و معنویت کی وادی میں قدم رکھیں، مادیت میں ہی غرق نہ رہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ سال کے دوران آنے والا ماہ رمضان بھی یہی درجہ رکھتا ہے، روح انسانی اور انسان کی روح ملکوتی، اس کے نفس اور خواہشات کو مارنے کا ذریعہ ہے۔ یہ ایک ایسا موقع ہے کہ ایک مہینے کی ریاضت کے نتیجے میں نفس مادی عوامل کے چنگل سے نجات حاصل کر لیتا ہے، گلو خلاصی ہو جاتی ہے، تازہ دم ہو جاتا ہے، نورانیت حاصل کرتا ہے۔ شارع مقدس نے ماہ رمضان کو اس لئے رکھا ہے۔ تو یہ ایک موقع ہے۔ جن خصوصیات کا ذکر کیا گیا وہ سب کی سب اہم ہیں لیکن میرے لئے جو خصوصیت خاص طور پر جاذب توجہ ہے اور جس کا ذکر ہمارے اور آپ کے درمیان جو ملک کے عہدہ دار ہیں موضوع بحث ہے وہ اس مہینے کا شہر التوبۃ و الانابۃ ہونا ہے، توبہ اور انابہ کا مہینہ ہونا ہے۔ توبہ کا مطلب ہے غلط کام، غلط راستے اور غلط فکر سے واپسی اور انابہ یعنی اللہ تعالی کی جانب رجوع، خدا وند عالم کی جانب واپسی۔ توبہ اور انابہ میں فطری طور پر ایک خاص مفہوم مضمر ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ غلطی کے راستے سے واپس لوٹیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ غلط بات اور غلط راستے کی شناخت بھی حاصل کریں۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ ہم جو زندگی کے سفر میں آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں عام طور پر ہماری حالت یہ ہوتی ہے کہ اپنے عمل سے، اپنی غلطی سے اور اپنی تقصیر سے غافل رہتے ہیں، اپنے عمل کی خامیوں کی جانب متوجہ نہیں رہتے۔ یہ چیز شخصی سطح پر بھی ہوتی ہے اور اجتماعی سطح بھی پائی جاتی ہے۔ ہماری قوم، ہماری پارٹی، ہماری تحریک، ہمارا حلقہ اور ہر وہ چیز جو ہم سے منسوب اور مربوط ہے اس کے عیوب عام طور پر نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ایسے افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں ہمارا عیب بتائیں۔ یہ تو توبہ و انابۃ کے عمل کا جز ہے اس کا سب سے پہلا قدم ہے اپنے عمل کی کمیوں پر توجہ، یہ سمجھنے کی کوشش کی ہمارے عمل میں کہاں خامی ہے، ہماری غلطی کیا ہے، کہاں ہم سے گناہ سرزد ہو رہا ہے، ہماری تقصیر کیا ہے؟ شروعات اپنی ذات سے کرنی چاہئے اور پھر اجتماعی دائرے تک پہنچنا چاہئے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنا محاسبہ نفس کرنا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ غلطی کہاں ہوئی ہے۔ یہ ہم سب کا فریضہ ہے۔ ہم جیسے معمولی انسانوں کے کاموں میں غلطیاں، خامیاں اور کوتاہیاں بہت ہوتی ہیں۔ آپ خدا کے صالح بندوں، برگزیدہ انسانوں اور اولیائے خدا کو بھی دیکھئے! ان کے ہاں بھی یہی صورت حال ہے، انہیں بھی استغفار کی ضرورت ہے، انہیں بھی توبہ کی احتیاج ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک روایت منقول ہے جسے شیعہ سنی دونوں فرقے کے علماء نے نقل کیا ہے، حضرت نے فرمایا ہے کہ انہ لیغان علی قلبی میرے قلب پر غبار جمع ہو جاتا ہے، دھندھ چھا جاتی ہےیغان، غین کا مطلب ہے بادل۔ جیسے بادل خورشید کو ڈھانپ دیتا ہے، چاند کو ڈھانپ دیتا ہے اس کی درخشندگی کو روک دیتا ہے۔ ارشاد ہوا کہ لیغان علی قلبی کبھی کبھی میرے دل پر غبار چھا جاتا ہے دھندھ چھا جاتی ہے۔ و انی لاستغفر اللہ کل یوم سبعین مرۃ ہر روز میں ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ یہ جملہ پیغمبر کا ہے، اس ملکوتی شخصیت کا ہے، اس پاکیزہ ذات کا ہے۔ ایک اور روایت میں جو ہمارے راویوں سے منقول ہے ارشاد ہوتا ہے کہ «كان رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و اله يتوب الى اللَّه فى كلّ يوم سبعين مرّة» یہاں توبہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کے حوالے سے منقول ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم روزانہ ستر مرتبہ توبہ کرتے تھے من غیر ذنب بغیر کسی گناہ کا ارتکاب کئے۔ پیغمبر تو معصوم ہیں، وہ توبہ کس بات پر کر رہے ہیں؟ مرحوم فیض (کاشانی، معروف عارف) رحمت اللہ علیہ کہتے ہیں کہ «انّ ذنوب الأنبياء و الأوصياء عليهم السّلام ليس كذنوبنا بل انّما هو ترك دوام الذّكر و الاشتغال بالمباحات» ممکن ہے کہ کوچہ و بازار کی معمول کی زندگی میں نبی یا ولی خدا سے لمحہ بھر کی کوئی غفلت ہو جائے۔ ہماری زندگی کا بیشتر حصہ جس غفلت میں بیتتا ہے ممکن ہے وہ لمحہ بھر کے لئے کسی نبی یا ولی خدا کے یہاں بھی پیش آئے، وہ کسی مباح فعل میں مصروف ہو جائے۔ ایسا کرنے پر پیغمبر کے لئے توبہ رکھی گئی ہے۔ بنابریں استغفار صرف ہم سے مخصوص نہیں ہے، یہ سب کے لئے ہے۔
جو لوگ امور مملکت کے ذمہ دار ہیں ان پر اس سلسلے میں زیادہ سنگین فریضہ ہے۔ یعنی ہم اور آپ جو ملک کے امور کے کسی ایک شعبے میں فرائض منصبی کے حامل ہیں یا اثر و رسوخ رکھتے ہیں، ہمیں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کبھی کبھار ہمارے ما تحت عملے میں کوئی خلاف ورزی ہوتی ہے، اگر کسی بھی طرح یہ خلاف ورزی ہم سے منسوب ہو تو ہم اس کے لئے جوابدہ ہیں۔ مثال کے طور پر بات کو صحیح طور پر پہنچانے میں ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی یا کسی شخص کی تقرری میں ہم سے کوتاہی سرزد ہوئی اور اس کے نتیجے میں وہ خلاف ورزی سرزد ہوئی۔ «قوا انفسكم و اهليكم نارا وقودها النّاس و الحجارة».(2) تو معلوم یہ ہوا کہ ماہ رمضان میں ہمیں اپنی توانائی بھر محتاط رہنا چاہئے، اپنی رفتار و گفتار کی اصلاح کرنی چاہئے، اپنی فکر و نظر کی اصلاح کرنی چاہئے، اپنے قول اور اپنے فعل کی اصلاح کرنی چاہئے، اپنے فعل کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرنی چاہئے اور پھر ان خامیوں کو دور کرنا چاہئے۔ یہ اصلاح تقوا کے مد نظر ہونا چاہئے۔ روزے سے متعلق آیت شریفہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ لعلکم تتقون (3) روزے کا مقصد ہے تقوا۔ بنابریں ماہ مبارک رمضان میں انجام پانے والی مساعی کا مقصد ہوتا ہے تقوائے الہی کا حصول۔ میں نے تقوا کے بارے میں ایک جملہ نوٹ کیا ہے جسے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ جب تقوا اور پرہیزگاری کی بات آتی ہے تو ذہن انسانی شریعت کے ظاہری احکام یعنی محرمات و واجبات کی پاسداری کی جانب جاتا ہے جو ہماری نظروں کے سامنے ہوتے ہیں، نماز پڑھیں، رقوم شرعیہ کی ادائیگی کریں، روزے رکھیں، جھوٹ نہ بولیں وغیرہ۔ ویسے یہ چیزیں بہت اہم ہیں، ان کی بڑی خاص اہمیت ہے لیکن تقوا کے دوسرے پہلو بھی ہیں جن سے ہم عام طور پر غافل رہ جاتے ہیں۔ دعائے مکارم الاخلاق میں ان دوسرے پہلوؤں کی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ «اللّهم صلّ على محمّد و اله و حلّنى بحلية الصّالحين و البسنى زينة المتّقين»؛(4) اللہ تعالی کی بارگاہ میں التجا کی جا رہی ہے کہ پالنے والے! ہمیں نیک و صالح بندوں کے زیور سے آراستہ فرما، ہمیں پرہیزگاروں کے لباس میں ملبوس کر دے۔ سوال یہ ہے کہ پرہیزگاروں کا لباس کیا ہے؟ اس کی تشریح بہت دلچسپ ہے۔ فی بسط العدل پرہیزگاروں کا لباس عدل و انصاف کی ترویج سے عبارت ہے، و کظم الغیظ غصے کو پی جانے سے عبارت ہے، و اطفاء النائرۃ آگ کو ٹھنڈا کرنے سے عبارت ہے، وہ آگ جو معاشرے کے افراد کے مابین بھڑک اٹھی ہے۔ یہ سب تقوا ہے۔ و ضم اہل العرفۃ جو لوگ آپ کے درمیان رہنے والے ہیں لیکن جدا ہو چکے ہیں، آپ کوشش کیجئے کہ وہ دوبارہ یکجا ہو جائیں، یہ بھی تقوا کا ایک مصداق ہے۔ اس کی جانب صحیفہ سجادیہ کی بیسویں دعا، دعائے مکارم الاخلاق میں اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ بہت ہی اہم دعا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ سب کے ساب خاص طور پر امور مملکت کے ذمہ دار افراد اس دعا کو ضرور پڑھیں اور اس کے مندرجات پر غور و خوض کریں، یہ بڑی تعلیم بخش دعا ہے۔ اصلاح ذات البین آتش افروزی، چغلی کے بجائے، ایک دوسرے کو لڑوانے کے بجائے آپس میں میل جول کروایا جائے۔ ایمانی بھائیوں کے مابین، مسلم بھائیوں کے درمیان یگانگت پیدا کی جائے۔ یہ بھی تقوا ہے۔
دیکھئے! یہ سب آج کے مسائل ہیں۔ عدل و انصاف کی ترویج، عدالتی نظام میں انصاف، معاشی انصاف، تقرریوں میں انصاف، مختلف گروہوں کے درمیان ملک کے ذخائر اور مواقع کی تقسیم میں انصاف، جغرافیائی معاملات میں انصاف، یہ سب بہت ہی اہم مسائل ہیں۔ یہ سب ہماری ضرورتیں ہیں۔ عدل و انصاف کی ترویج تقوا کی بلند ترین منزل ہے۔ یہ ایک اچھی نماز، موسم گرما کے تپتے ہوئے دن میں رکھے جانے والے روزے سے بالا تر ہے۔ ایک روایت میں ارشاد ہوتا ہے کہ کوئی بھی حاکم ہو، حاکم سے مراد ہے ہر وہ شخص جو کسی ادارے یا شعبے کا عہدہ دار ہے، وہاں اس کا حکم چلتا ہے، اگر ایک دن منصفانہ حکم جاری کرتا ہے تو ایسا ہی ہے گویا اس نے ستر سال عبادت کی ہے۔ یہ بہت اہم باتیں ہیں اس سے ہمیں انصاف کی اہمیت اور منصفانہ رفتار کی اہمیت سے روشناس کرایا گیا ہے۔
دوستوں کے سامنے غصے کو پی جانا۔ دوستو! موضوع بحث نکتہ یہی ہے۔ دشمن کے سامنے تو غضبناک رہنا چاہئے«و يذهب غيظ قلوبهم».(5) اس دشمن کے خلاف آپ کا غیظ و غضب جو آپ کی شناخت اور آپ کے وجود کا مخالف ہے، مقدس غیظ و غضب ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہاں مومنین کے درمیان، ان افراد کے درمیان جن کے ساتھ ہمیں اسلامی برتاؤ کرنا ہے، خشمگیں ہونا، غضبناک ہونا ٹھیک نہیں ہے۔ غصہ کرنے والے شخص کو خود بھی نقصان پہنچتا ہے، غصے کے عالم میں کوئی بھی فیصلہ کرنا ضرر رساں ہوتا ہے، غصے کے عالم میں بات کرنا نقصان دہ ہوتا ہے، غصے کے عالم میں کام کرنا زیاں کا سودا ہے، انسان عام طور پر غلطیوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو بد قسمتی سے ہم لوگوں کو بار بار پیش آتی ہے۔ غصے پر قابو، انحراف کا باعث بننے والے غصے اور فکر و عمل میں خامی پیدا کر دینے والے غصے سے پرہیز تقوا کے مصادیق میں سے ایک ہے، و کظم الغیظ۔ دوسرا کام ہے اطفاء النائرۃ بعض لوگ ہیں جو سیاسی اور تنظیمی آتش افروزی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تو گویا اسی کام پر مامور ہو گئے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ملک کے اندر کچھ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ مختلف عناصر کو، مختلف سیاسی حلقوں کو، الگ الگ حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیں، اختلافات کو ہوا دیں۔ گویا نزاع افروزی سے وہ محظوظ ہوتے ہیں۔ یہ تقوا کے بر خلاف عمل ہے۔ تقوا عبارت ہے اطفاء النائرۃ سے ۔ جس طرح مادی فضا میں لگی آگ بجھاتے ہیں انسانی فضا میں بھی، اخلاقی فضا میں بھی اور روحانی فضا میں بھی آگ پر پانی ڈالئے، لگی آگ بجھائیے۔ اسی طرح ہے و ضم اھل الفرقۃ کا مسئلہ۔ ہم نے عرض کیا کہ زیادہ سے زیادہ کو ساتھ لیکر چلنا اور کم سے کم افراد کو خود سے دور کرنا چاہئے۔ البتہ اس کے لئے معیار اصولوں اور اقدار کو بنایا جانا چاہئے۔ انسان ایمان کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں۔ ہمارے درمیان ایسے انسان ملیں گے جو ضعیف الایمان ہیں اور ایسے بھی ملیں گے جو پختہ ایمان کے مالک ہیں۔ ہمیں رواداری کرنا ہوگی۔ مناسب نہیں ہے کہ ضعیف الایمان کو اپنے سے الگ کر دیا جائے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ صرف پختہ ایمان والوں تک ہی محدود رہا جائے۔ کمزور ایمان والوں کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے۔ جو لوگ خود کو قوی و توانا سمجھتے ہیں وہ کمزور محسوس ہونے والے افراد کا خیال رکھیں، ان کے ساتھ رواداری کا برتاؤ کریں، انہیں خود سے دور نہ کریں۔ جن لوگوں کا رشتہ ہماری اپنی جماعت سے ہے لیکن کسی غلطی کی وجہ سے یا غفلت کے نتیجے میں الگ ہو گئے ہیں انہیں جھنجھوڑا جائے، انہیں نصیحت کی جائے، ان کی رہنمائی کی جائے، انہیں صحیح راستے سے آگاہ کیا جائے، انہیں واپس لایا جائے۔ یہ بنیادی مسائل ہیں۔
تو یہ ہے تقوا، یہ ہے توبۃ و انابۃ کا راستہ شھر التوبۃ، شہر الانابۃ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مہینہ اور روزہ اجتماعی فعل ہے، شخصی فعل نہیں۔ یعنی ہم سب کے سب روزے سے ہیں، اس مہینے میں داخل ہوئے ہیں۔ ہم سب اس دسترخوان پر بیٹھے ہوئے ہیں، اسلامی معاشرے کے تمام افراد، امت اسلامیہ کی ہر فرد۔ جب ہم ان نصیحتوں پر اور قرآن و سنت کی سفارشات پر عمل کرنا چاہیں اور ہم سب کے سب خود کو ان سفارشات کا مخاطب تصور کریں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا صورت حال پیدا ہوگی اور اس سے محدود دائرے میں یعنی ملک کے اندر کیا تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ اس مہینے کی قدر و منزلت کو پہچاننا چاہئے۔ اس کی قدر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صحیح طور پر ہم اس مہینے کو توبہ کا مہینہ سمجھیں، ماہ انابہ تصور کریں، ماہ تطہیر قرار دیں، ماہ تمحیص مانیں، ان باتوں کی جانب قدم بڑھائیں۔ اس نشست میں ہماری اصلی عرضداشت یہی تھی۔
ملک کے موجودہ مسائل کے سلسلے میں صدر مملکت نے بہت اچھی مفصل اور کارآمد رپورٹ پیش کی۔ اگر ہم ملک کے موجودہ مسائل کا صحیح تجزیہ کرنا چاہتے ہیں اور تجزئے میں غلطی اور انحراف سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس نقطے سے جائزہ لینا ہوگا کہ اسلامی مملکت ایران اور ایک گروہ کے درمیان شروع سے ہی محاذ آرائی رہی ہے۔ اس مقابلہ آرائی کو اکتیس-بتیس سال کا عرصہ ہو رہا ہے، یہ کوئی آج کی نئی بات نہیں ہے۔ البتہ ہمارے حریف محاذ میں کچھ تبدیلیاں بھی ہوئی ہیں لیکن ہمارے ہاں کوئی دگرگونی نہیں ہوئی۔ ہماری بات آج بھی اپنی جگہ اٹل ہے، ہمارے اصول آج بھی وہی ہیں، ہمارا راستہ آج بھی وہی پرانا راستہ ہے۔ ہم نے تیزی سے ایک راستے کا انتخاب کیا اور آج تک اسی راستے پر رواں دواں ہیں۔ ہم نے اپنے اہداف کا تعین کر لیا ہے، یہ اہداف شروع سے ہی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے فرمودات اور انقلاب کی بنیادوں کے تناظر میں واضح اور جگ ظاہر رہے ہیں۔ ہم اپنی توانائیوں اور صلاحیت کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں لیکن ہمارے حریف محاذ میں تبدیلیاں ہوئی ہیں، کمی بیشی ہوئی ہے، کچھ لوگ اس محاذ سے باہر نکل گئے ہیں اور کـچھ نئے لوگ اس میں داخل ہوئے ہیں۔ اس وقت اس محاذ آرائی میں دو چیزیں خصوصیت سے نظر آ رہی ہیں۔ ایک چیز تو یہ ہے کہ ہمارا حریف محاذ ماضی کی نسبت کمزور ہو چکا ہے، یعنی ہمارے حریف محاذ میں زوال کا عمل دیکھنے میں آ رہا ہے، ضعف محسوس ہو رہا ہے جبکہ دوسری حقیقت یہ ہے کہ ہمارا محاذ روز بروز مستحکم سے مستحکم تر ہو رہا ہے اور ہم بلندی کی جانب گامزن ہیں۔ یہ دونوں حقیقتیں ایسی ہیں جن کو باقاعدہ دلیلوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے، یعنی یہ صرف نعرے بازی نہیں بلکہ حقیقت محض ہے۔ میں حریف محاذ کے بارے میں ایک نکتہ یہ بیان کرنا چاہوں گا کہ ہمارا حریف محاذ ہے کیا؟ اس محاذ نے اپنی تشہیراتی مہم میں تو خود کو عالمی برادری قرار دیا ہے جو بہت بڑا جھوٹ ہے۔ اسے کسی بھی طرح عالمی برادری سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، یہ مٹھی بھر معدودے چند ممالک ہیں۔ دشمن محاذ کا محور ہے صیہونی حکومت اور ریاستہائے متحدہ امریکا، بقیہ ممالک یا تو پالیسی کے لحاظ سے ان کے پیرو ہیں یا تکلفات میں پڑ کر ایسا کر رہے ہیں اور یا پھر اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ ان میں کچھ کرنے کی سکت ہی نہیں ہے۔ ان دو بنیادی محوروں کے گرد کچھ زیادہ ممالک مجتمع نہیں ہیں، نہ تو آج جمع ہیں اور نہ ہی ماضی میں کبھی تھے۔ دعوؤں کو آپ جانے دیجئے، امر واقع وہ ہے جو میں عرض کر رہا ہوں۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم ان دو حکومتوں یا ان دو مجموعوں کو اس محاذ آرائی میں اپنا اصلی مخالفت کیوں مانتے ہیں؟ یہ مخالفت کس نوعیت کی ہے؟ دیکھئے! مخالفتیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ بنیادی سطح کی مخالفت اور سطحی مخالفت۔ سطحی مخالفت اور اختلاف سے مراد ہے زمین سے متعلق اختلاف یا تجارتی مسائل میں اختلاف یا دو ممالک کی پالیسیوں میں پایا جانے والا اختلاف۔ بنیادی مخالفت سے مراد ہے وجود کی مخالفت یعنی ایسے دو ممالک کا اختلاف جو ایک دوسرے کے وجود کے مخالف ہیں۔ صیہونی حکومت کے بارے میں ہماری یہی صورت حال ہے۔ ہم صیہونی حکومت کے وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے، ہمارا ماننا ہے کہ یہ حکومت ایک جعلی حکومت ہے، جبری مسلط کردہ حکومت ہے، مشرق وسطی کی جغرافیائی حدود کے اندر ایک بد نما دھبہ ہے اور یہ دھبہ بلا شبہ مٹ جانے والا ہے۔ اس کی نابودی میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ بہرحال ہم اس کی ماہیت اور اس کے وجود کے مخالف ہیں اور دوسری طرف وہ حکومت بھی اسلامی نظام کی مخالف ہے۔ ایران کو وہ کسی طاغوتی نظام کے چنگل میں جکڑا ہوا دیکھنا چاہتی ہے، اسلامی نظام اسے قطعی برداشت نہیں ہے۔ اسی کو کہتے ہیں بنیادی مخالفت۔
امریکا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اسلامی نظام کے خاتمے کا خواہشمند ہے۔ یہ بات ہم ان برسوں میں بخوبی سمجھ چکے ہیں۔ خود وہ لوگ تو اس کے انکاری ہیں اور روئے میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔ روئے کی جس تبدیلی کی بات وہ کرتے ہیں، البتہ اس پر بھی ہمیشہ ان کا اصرار نہیں ہوتا، وہ عبارت ہے ماہیت اور شناخت کی نابودی سے۔ یعنی وہ بنیادی طرز عمل اور اسلامی شناخت کا معیار ہی بدل دیا جائے۔ امریکا کے بارے میں ہمارا بھی مطمح نظر یہ ہے کہ اس کی سامراجی ماہیت کا خاتمہ ہو جائے ورنہ امریکی حکومت بھی دوسری حکومتوں کی مانند ایک حکومت ہے۔ امریکا کی سامراجی ماہیت، تسلط پسندانہ ماہیت اور سپر پاور ہونے کا اس کا زعم ہماری نظر میں قابل قبول نہیں ہے، ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔ یہ ہے بنیادی مخالفت۔ یہ بنیادی مخالفت کبھی کبھی بہت فعال ہو جاتی ہے اور کبھی اس کی شدت میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے۔ اس طرح کی بنیادی مخالفت ممکن ہے کہ دنیا کے بعض دیگر ممالک کے ساتھ بھی ہو۔ ہمارے اور ان کے درمیان بنیادی قسم کی مخالفت ہو لیکن یہ مخالفت فعال نہیں ہے، کسی وجہ سے ٹھنڈی پڑی ہے۔ اس کے لئے ممکن ہے کہ دیگر ممالک کے پاس کچھ وجوہات اور جواز ہوں اور ہمارے پاس بھی اپنی وجوہات ہوں۔ ان دونوں حکومتوں کی مخالفت فعال مخالفت ہے۔ یہ ہے مخالف محاذ اور یہ مخالف محاذ زوال پذیر ہے، تنزل کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ یعنی اگر تیس سال قبل کی حالت سے اس کی موجودہ صورت حال کا موازنہ کیا جائے تو اس کی سیاسی حالت، معاشی حالت، سماجی حالت خراب اور دنیا میں اس کا اثر و رسوخ محدود ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اس سلسلے میں چند مثالیں پیش کروں گا۔ ہمارا مد مقابل محاذ دنیا میں عوامی حمایت سے پوری طرح محروم ہے یعنی دنیا میں آپ کو ایک بھی ملک نہیں ملے گا جہاں کے عوام امریکی حکومت یا اسرائیلی حکومت کے حامی و طرفدار ہوں۔ انہیں کبھی بھی عوامی حمایت حاصل نہیں رہی ہے، حتی ان ممالک میں بھی جہاں کی حکومتیں جی جان سے امریکا کی حمایت کر رہی ہیں، عوام امریکا کے مخالف ہیں جبکہ ان میں بڑی تعداد غیر مسلموں کی ہے۔ انہی دنوں آپ نے اخبارات میں دیکھا کہ صیہونی حکومت کا صدر ایک یورپی ملک کے دورے پر گیا، خبروں کے مطابق ہزاروں افراد جمع ہوئے اور انہوں نے بیک آواز اس سے کہا کہ دفع ہو جاؤ، یہاں سے نکل جاؤ۔ یہی چیز جگہ جگہ دیکھنے میں آتی ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں یہی ہوتا ہے۔ تو وہ عوامی مقبولیت سے محروم ہیں۔ صیہونی حکومت کو جانے دیجئے، اپنی تمام تر طاقت، سیاسی اثر و نفوذ اور دباؤ کے باوجود امریکا کا یہی عالم ہے۔ ہمارا مد مقابل محاذ دنیا کی قوموں میں منفور ہے اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی نہیں کہ اس محاذ کو حمایت حاصل نہیں ہے بلکہ ان کے لئے نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں، ان کے پرچم جلائے جاتے ہیں، ان کی تصویریں جلائی جاتی ہیں، ان کے پتلے پیروں تلے روندے جاتے ہیں۔ یہ ہے ان کی حالت۔ انہیں ان کے حالیہ فوجی اقدامات کا بہت تلخ تجربہ ہوا ہے۔ افغانستان میں امریکا کو تلخ تجربہ ہوا، عراق میں اسے تلخ تجربہ ہوا، ناکامی ہاتھ لگی۔ فلسطین کے سلسلے میں بھی امریکا کی سیاسی تگ و دو بے نتیجہ رہی، صرف ناکامی ملی۔ رہی صیہونیوں کی بات تو تینتیس روزہ جنگ اور غزہ پر حملے کے دوران ان کی شکست اور ان کے خلاف پائی جانے والی نفرت ساری دنیا نے دیکھی۔
ہمارا مد مقابل محاذ اسی طرح معاشی بدحالی سے بھی دوچار ہے۔ تمام تر کوششوں کو باوجود وہ سنگین معاشی جمود اور اقتصادی بد حالی سے نکل نہیں پایا۔ وہ کہتے ضرور ہیں کہ کچھ اقدامات کئے گئے ہیں لیکن اب تک کوئی کامیاب قدم نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔ اب بھی وہ معاشی دباؤ میں ہیں۔ مالیاتی مراکز کو جو بڑی بڑی رقمیں دی گئی ہیں ان سے بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا ہے، اب بھی وہ بد ترین اقتصادی حالت میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔
فلسطین ہو، لبنان ہو یا شام ہر جگہ ان کی مشرق وسطی پالیسی کو شکست ہوئی ہے۔ اتنی بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں کہ اب ان کے حکام کوئی فیصلہ کرنے سے عاجز ہیں، ان پر سراسیمگی طاری ہے۔ واقعی اس وقت امریکیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ افغانستان میں کیا کریں اور وہ کیا کر سکتے ہیں۔ ان میں آپس میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ انہیں اپنے کسی بھی فیصلے کے بارے میں یقین نہیں ہے کہ نفع بخش اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکے گا۔ افغانستان سے باہر نکل جاتے ہیں تو بھی بدنامی ہوگی اور انہیں بد بختی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا اور اگر افغانستان میں باقی رہتے ہیں تو ایک الگ طرح کی ناکامی اور بد بختی ان کے دامنگیر رہے گی۔ کم و بیش یہی صورت حال عراق میں بھی ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا کریں۔ مداخلتیں کر رہے ہیں، مسلسل اقدامات انجام دے رہے ہیں لیکن سب لاحاصل ہے۔ ان کے حکام کی خود اعتمادی اب ماضی کی بنسبت نہیں کے برابر ہے۔ آج کے امریکا کا آپ موازنہ کیجئے انقلاب کے اوائل میں ریگن کے دور حکومت کے امریکا سے۔ جو خود اعتمادی ان دنوں ان کے اندر تھی اب وہ باقی نہیں رہی۔ جو اثر و رسوخ اس دور میں تھا اب نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ دشمن کا زوال ہو رہا ہے اور آج وہ بہت کمزور ہو چکا ہے۔ دوسری جانب اس کے بالکل بر عکس صورت حال ہے۔ اسلامی جمہوریہ اور اسلامی نظام ارتقائی منزلیں طے کر رہا ہے۔ بلندی کی جانب گامزن ہے۔ تمام شعبوں کا یہی عالم ہے۔ ترقی و پیشرفت کے لحاظ سے ہم بہت اچھی پوزیشن میں ہیں۔ میں نے ایک اجلاس میں کچھ اعداد و شمار پیش کئے البتہ یہ اعداد و شمار انگریزوں کے دئے ہوئے ہیں، میں نے کہا تھا کہ ایران میں سائنسی ترقی کی رفتار دنیا کی اوسط رفتار سے پندرہ گنا زیادہ ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم سائنسی ترقی کے لحاظ سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ بن گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ترقی کر رہے ہیں، تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ کسی بھی قوم کے لئے یہ بہت بڑی اور قابل قدر بات ہوتی ہے۔ اگر ترقی کا یہ سلسلہ یونہی جاری رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہماری قوم اور ہمارے نوجوان اس مقام پر پہنچ چکے ہوں گے جہاں انہیں پہنچنا ہے۔ سائنسی شعبے میں بھی یہی عالم ہے، ٹکنالوجی کے میدان میں بھی یہی صورت حال ہے، ملک میں تعمیراتی شعبے میں بھی یہی نظارہ ہے۔ صدر محترم نے ابھی اعداد و شمار پیش کئے۔ یہ اعداد و شمار صحیح ہیں۔ تعمیراتی شعبے میں، صنعتی شعبے میں، توانائی کے شعبے میں، نقل و حمل کے شعبے میں اور دیگر مختلف شعبوں میں بہت اہم کام انجام دئے جا رہے ہیں۔ تیس سال قبل کے مقابلے میں جب ہم نے کام شروع کیا تھا، حتی بیس سال قبل کے مقابلے میں اس وقت ہم کافی زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ ترقی انہیں مادی شعبوں تک محدود نہیں ہے، سماجی اور دینی میدانوں میں بھی یہی صورت حال ہے۔ آج ہمارے حوصلے بہت بلند ہیں، ہمارے ملک میں جوش و جذبہ بہت زیادہ ہے۔ ہمارے نوجوانوں میں جوش و خروش ہے۔ سیاسی میدان میں بڑی بلند ہمتی دکھائی دیتی ہے۔ جب انتخابات کا موقع آتا ہے تو (سات کروڑ آبادی والے ملک میں ) چار کروڑ رائے دہندگان شرکت کرتے ہیں اور ڈھائی کروڑ ووٹوں سے (صدر مملکت کا) انتخاب عمل میں آتا ہے۔ یہ بڑی اہم باتیں ہیں، یہ بڑے قیمتی حقائق ہیں۔ صحیح ہے کہ انتخابات کے بعد کچھ تلخ واقعات رونما ہوئے جن کی خاص وجوہات اور عوامل تھے، ہر واقعے کا ایک خاص عامل تھا لیکن عوام کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت اپنی جگہ بہت اہم ہے، بہت بڑی کامیابی ہے۔ ہمارے دشمنوں کو یہ امید تھی کہ انقلاب کو تیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور ہمارے ہاں تقریبا تیس انتخابات ہو چکے ہیں لہذا ہمارے ملک میں انتخابات سے عوامی دلچسپی رفتہ رفتہ کم ہوتی جائے گی اور عوام کی نگاہ میں انتخابات کی خاص اہمیت نہیں رہ جائے گی اور انتخابات میں وہ پرانا جوش و خروش نظر نہیں آئے گا۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ انتخابات بہت سنجیدہ تھے، یہ پوری طرح عوامی انتخابات ثابت ہوئے۔ یہ سب بہت اہم باتیں ہیں۔
دنیا کے ممالک میں اسلامی جمہوری نظام کی عوامی مقبولیت کی متعدد مثالیں ہیں۔ ہمارے اعلی رتبہ حکام جس ملک کا بھی دورہ کرتے ہیں انہیں عوامی سطح پر خیر مقدم کہا جاتا ہے لوگ ان کا والہانہ استقبال کرتے ہیں۔ یہ چیز آپ کو کسی اور ملک کے (حکام کے) لئے نہیں دکھائي دے گی اور یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے، اوائل انقلاب سے ہی یہ چیز دیکھی جا رہی ہے۔ ہمارے ملک کے حکام جہاں بھی جاتے ہیں، ہمارے صدور جہاں بھی گئے، حتی ان ممالک میں جن کی ہمارے ملک کے ساتھ کوئی لسانی، نسلی یا جغرافیائی مماثلت نہیں ہے، عوام نے ان کا خیر مقدم کیا۔ یعنی لوگ جمع ہوئے اور اپنی محبت کا اظہار کیا۔ آج اسلامی نظام کی عوامی حمایت ماضی کے مقابلے میں اگر بڑھی نہیں ہے تو کم بھی نہیں ہوئی ہے۔ مستقبل کے تعلق سے ہم بہت پر امید ہیں۔ ہم نہیں سمجھ رہے تھے کہ اتنی جلدی ہم تعمیر و ترقی کے لحاظ سے اس جگہ پہنچ جائیں گے جہاں آج کھڑے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہم پر کرم کیا۔ آج ہمارے نوجوان علم و دانش کے میدان میں اور ٹکنالوجی کے میدان میں ایسے ایسے کام کر رہے ہیں کہ ہمارے لئے، ان افراد کے لئے جو پندرہ سال قبل، بیس سال قبل اور پچیس سال قبل ملک کے مستقبل کے بارے میں کوئی پیشین گوئی کرنا چاہتے تھے، یہ اقدامات قابل تصور نہیں تھے لیکن آج عملی طور پر یہ سب کچھ انجام پا رہا ہے۔ اس سے مستقبل کے تعلق سے ہماری امیدیں اور بھی بڑھ گئی ہیں، ہماری امیدیں بہت زیادہ ہیں۔ ہمارا سیاسی تجربہ بھی بہت کامیاب تجربہ رہا ہے۔ حریف محاذ کے بر خلاف، جس کی پالیسیاں مشرق وسطی میں ناکام ہو گئیں، عراق میں شکست ہو گئی، افغانستان میں ہزیمت اٹھانی پڑی، مختلف خطوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، اس کے بر خلاف ہم نے جہاں بھی قدم رکھا، کامیابی سے خود کو ہمکنار ہوئے۔ انہی جگہوں پر جن کا نام میں نے لیا جس حد تک اسلامی جمہوریہ ایران وارد ہوا ہے، جہاں تک اس نے اپنا فریضہ سمجھا ہے، جس حد تک کوئی موقف اپنایا ہے، کوئی اقدام کیا ہے ہمیں اس مقدار میں کامیابی ملی ہے۔ اس کا اعتراف سب کرتے ہیں، اسی بات پر تو ہمارے حریف تلملاتے ہیں۔ ہماری ایک کامیابی یہ ہے کہ آج ہمارا دشمن عالمی نفرت کے حصار میں مقید و محصور ہے۔ یہ ہماری کامیابی ہے۔ تو یہ دو نمایاں چیزیں ہیں۔ یعنی مد مقابل حریف زوال کے راستے پر گامزن ہے اور ہم ارتقائی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ جب آپ اس طرح موازنہ کریں اور ملک کے تمام معاملات کو اس زاوئے سے دیکھیں تو صحیح تجزیہ کر سکتے ہیں اور صحیح نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔
ہم اس محاذ آرائی کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں، اس کا تجزیہ کرتے ہیں، تدبیریں سوچتے ہیں، بیٹھ کر منصوبہ بندی کرتے ہیں، دشمن بھی یی سب کچھ کرتا ہے۔ وہ بھی بیٹھتا ہے اسلامی جمہوریہ کے لئے، اسلامی جمہوریہ کے خلاف انجام دئے جانے والے اقدامات کے لئے، مطلوبہ ضربیں لگانے کے لئے، منصوبہ بندی کرتا ہے۔ دشمن ہم کو مد نظر رکھ کر دفاعی پالیسیاں بھی طے کرتا ہے اور جارحانہ پالیسیاں بھی وضع کرتا ہے۔ اسی طرح ہم نے بھی دشمن کے لئے کچھ تیاریاں کر رکھی ہیں۔ یہ بات ہم سب کو مل جل کر پوری طرح سمجھنا چاہئے۔ ہم سب کو میدان میں ایک ساتھ آگے بڑھنا چاہئے، جیسا کہ آج تک ہم بحمد اللہ پوری یکجہتی کے ساتھ ایسا کرتے آئے ہیں۔ دشمن جو کچھ کر رہا ہے اس کی جانب میں ایک ہلکا سا اشارہ کرنا چاہوں گا۔ اس کے منصوبے یہ ہیں؛ معاشی دباؤ بنایا جائے، فوجی دھمکیاں دی جائیں اور ملک کے اندر اور عالمی سطح پر رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لئے نفسیاتی جنگ میں تیزی لائی جائے۔ وہ یہ سارے کام انجام دے رہے ہیں۔ ملک کے اندر سیاسی خلفشار اور تخریبی اقدامات۔ بلا شبہ ملک کے اندر کچھ ایسے مراکز ہیں جو دشمن کے اشاروں پر کام کرتے ہیں، دشمن کے احکامات کے مطابق اس کی خواہشات کے مطابق یہ مراکز بعض کاموں میں مصروف ہیں۔ «انّ الشّياطين ليوحون الى اوليائهم ليجادلوكم».(6) ایسے لوگ ہیں، ایسے مراکز موجود ہیں۔ ان تمام حرکتوں کے بعد بھی امریکی، مذاکرات کے نعرے لگانے سے بھی باز نہیں آتے۔ یکطرفہ پابندیاں بھی ہیں، قرارداد بھی ہے، فوجی دھمکیاں بھی ہیں لیکن ساتھ ہی مذاکرات کی تجویز بھی ہے۔ بار بار رٹے جا رہے ہیں کہ ہم ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے تیار ہیں۔ تو مد مقابل محاذ کی یہ تدبیریں فی الواقع ہمارے دشمنوں کی چالیں ہیں جن میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ میرے خیال میں جس نکتے پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے یہ ہے کہ ان میں کچھ نیا نہیں ہے۔ پابندیاں تو تیس سال سے جاری ہیں، فوجی دھمکیاں بھی ماضی کے تمام ادوار میں اسی طرح جاری رہیں۔ میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کر رہا ہوں اور دوسرے ہر شخص سے زیادہ یہ باتیں جانتا ہوں۔ میرے خیال میں کلنٹن کی صدارت کے زمانے میں فوجی حملے کی دھمکی اتنی تیز ہو گئی تھی کہ اس وقت کے صدر مملکت نے مجھ سے غالبا یہ کہا تھا کہ آئیے مل بیٹھ کر کچھ سوچتے ہیں، کچھ کرتے ہیں۔ بہت افسوسناک بات ہوگی کہ وہ حملہ کر دیں اور ہم نے جو کچھ کام کئے ہیں، جو تعمیراتی منصوبے رو بہ عمل لائے گئے ہیں سب کو نیست و نابود کر دیں۔ معلوم ہوا کہ حملے کا اندیشہ کچھ کم نہیں تھا۔ دھمکیوں پر دھمکیاں مل رہی تھیں۔ اسی نویں صدارتی دور سے قبل فوجی حملے کی دھمکیاں اتنی زیادہ ہو گئی تھیں کہ ملک کے اندر حکام تشویش میں مبتلا ہو گئے تھے۔ اجلاس منعقد ہو رہے تھے جن کی بہت سی یادیں ہمارے ذہن میں آج بھی تازہ ہیں۔ اس وقت کی بہت سی باتیں میرے پاس نوٹ ہیں۔ تو فوجی دھمکیاں ہمیشہ سے تھیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمارے خلاف ابتدائے انقلاب سے ہی پروپیگنڈہ شروع کر دیا گیا تھا۔ ملک کے اندر جس چیز پر بھی ممکن ہوا الزامات عائد کئے۔ خود امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ذات سے لیکر عوام، عوامی اجتماعات اور نماز جمعہ تک سب کی توہین کی گئی، غلط نسبتیں دی گئیں، ان تشہیراتی وسائل کے ذریعے جو ان کے پاس ہیں۔ تو یہ چیز کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے لیکن ماضی میں یہ حرکتیں آج سے کم نہیں زیادہ ہی ہوتی تھیں۔ داخلی سطح پر تخریبی اقدامات بھی آج کی نئی بات نہیں ہے۔ دو ہزار تین میں عراق پر حملے اور غاصبانہ قبضے کے بعد تہران میں چند دنوں تک گڑبڑ ہوتی رہی۔ امریکی صدر کی سیاہ فام خاتون مشیر نے جو بعد میں وزیر خارجہ بن گئی صریحی طور پر کہا تھا کہ ہم تہران میں ہونے والے ہر بلوے اور بد امنی کی حمایت کرتے ہیں، یہ اعلان اس نے صریحی طور پر کیا۔ ان کی امیدیں جاگ اٹھی تھیں، انہیں محسوس ہوا تھا کہ تہران میں بھی کوئی بڑا واقعہ رونما ہو رہا ہے۔ یہ سنہ دو ہزار تین کی بات ہے۔ اس وقت یہ چیز دیکھنے میں آئی اور اس کے بعد بھی اس کا مشاہدہ کیا گيا اور سن دو ہزار نو میں تو یہ چیز سب نے دیکھی، آپ نے بھی ملاحظہ کیا۔ تو آج کل دھمکی کی زبان میں جو باتیں کہی جا رہی ہیں ان میں کچھ نیا نہیں ہے۔ میں ان تمام باتوں کے بارے میں چند نکات بیان کروں گا۔
سب سے پہلے مذاکرات کے بارے میں بات ہو جائے جس کا چرچہ آج کل بہت زیادہ ہے۔ مذاکرات کی تجویز میں کوئی برائی نہیں ہے، مذاکرات کی یہ تجویز ظاہر ہے کہ نئی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی امریکی حکومتیں ہمارے سامنے مذاکرات کی تجویز پیش کرتی رہی ہیں اور ہم نے ہمیشہ ان تجاویز کو مسترد کیا ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بالکل واضح وجہ یہ ہے کہ دھمکی اور دباؤ کے ماحول میں مذاکرات کو ہم مذاکرات نہیں سمجھتے۔ ایک طرف سپر پاور کی مانند دھمکی بھی دے، دباؤ ڈالے، پابندیوں پر پابندیاں لگائے اور آہنی ہاتھ آگے بڑھا کر دوسرے فریق سے کہے کہ آئیے مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں اور گفتگو کرتے ہیں! اسے مذاکرات نہیں کہا جا سکتا۔ اس طرح کے مذاکرات تو ہم کسی کے ساتھ بھی نہیں کریں گے۔ امریکا ہمیشہ اسی انداز سے مذاکرات کے لئے سامنے آیا ہے۔ ہمارے پاس دو کوتاہ مدت تجربات بھی ہیں۔ ایک تو عراق کے سلسلے میں مذاکرات کا تجربہ جس کے بارے میں میں نے ایک تقریر میں اعلانیہ کہا تھا کہ ہم اس گفتگو کے لئے تیار ہیں۔ گئے، مذاکرات کئے ایک ایسے موضوع کے بارے میں جس کے تعلق سے امریکیوں نے یہ پیغام دیا تھا کہ سیکورٹی کا بہت اہم مسئلہ ہے۔ ہماری حکومت نے دو تین دور کے مذاکرات کئے۔ مذاکرات میں امریکیوں کا طرز عمل عام طور پر یہ رہتا ہے کہ جب کوئی مدلل بات پیش کر دی جاتی ہے اور وہ جواب میں کوئی مدلل اور منطقی بات نہیں پیش کر پاتے تو زبردستی کی باتیں شروع کر دیتے ہیں اور چونکہ دھونس اور دھمکی کا اسلامی جمہوریہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لئے وہ یکطرفہ طور پر اعلان کر دیتے ہیں کہ مذاکرات ختم! مذاکرات کا یہ کونسا طریقہ ہے؟! یہ تجربہ ہمیں ہو چکا ہے۔ دونوں معاملات میں ایسا ہی ہوا اور میں اس پہلے معاملے میں یہ پیشین گوئی کر چکا تھا۔ مذاکرات کی نوعیت سے میں سمجھ گیا تھا کہ وہ کس سمت میں جا رہے ہیں۔ مذاکرات کی رپورٹ مجھے پیش کی جا رہی تھی۔ دو تین ادوار کے مذاکرات ہو چکے تھے، میں نے اسی وقت وزارت خارجہ سے کہہ دیا کہ مذاکرات ختم کر دئے جائیں۔ ابھی وزارت خارجہ نے اس پر عمل نہیں کیا تھا کہ امریکیوں نے یکطرفہ طور پر مذاکرات بند کر دینے کا اعلان کر دیا۔ ان کا طرز عمل یہ ہے۔ یہ جو اعلان کیا جاتا ہے اور صدر محترم اور دیگر حکام کہتے ہیں کہ ہم اہل گفت و شنید ہیں وہ بالکل درست ہے۔ بیشک ہم اہل گفتگو ہیں لیکن امریکا کے بارے میں نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا عام مذاکرات کار کی مانند صدق نیت کے ساتھ سامنے نہیں آتا، سپر پاور والے انداز میں گفتگو کرنا چاہتا ہے۔ ہم سپر پاور کی اکڑ رکھنے والے سے مذاکرات نہیں کرتے۔ یہ اکڑ چھوڑ دیجئے، دھونس اور دھمکی دینا چھوڑ دیجئے، پابندیاں لگانا بند کیجئے۔ مذاکرات کے لئے پہلے سے ہی کوئی نتیجہ طے نہ کر دیں کہ ہر صورت میں وہی نتیجہ نکلے۔ میں نے چند سال قبل شیراز میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ ہم نے مذاکرات نہ کرنے کی قسم نہیں کھائی ہے۔ ہم مذاکرات اس لئے نہیں کرتے کہ ہمارا فریق اہل گفت و شنید ہے ہی نہیں، وہ طاقت کی زبان بولنا چاہتا ہے۔ اس لفنگے کی مانند جو دوکان میں گھس گیا، اسے شہد بہت پسند تھا، پوچھتا ہے کہ ایک شیشی شہد کتنے کا ہے؟ جواب ملا کہ مثال کے طور پر سو تومان (تقریبا پانچ روپئے)۔ وہ دوکاندار کا ہاتھ پکڑ کر تیزی سے دبا دیتا ہے، دوکاندار ظاہر ہے ڈر گیا۔ ڈری ڈری آواز میں کہتا ہے کہ جو آپ کی مرضی ہے وہ قیمت لگائیں، وہ کہتا ہے کہ تیس تومان۔ دوکاندار جواب دیتا ہے کہ جی بہت بہتر۔ تو یہ کوئی سودا تو ہوا نہیں، اسے مذاکرات کا تو نام نہیں دیا جا سکتا۔ ٹھیک ہے، وہ دوسروں کو ڈرا سکتے ہیں اور انہیں سو تومان سے تیس تومان تک نیچے لا سکتے ہیں لیکن اسلامی جمہوریہ کے ساتھ یہ ممکن نہیں ہے، ایران کسی بھی دباؤ میں آنے والا نہیں ہے، وہ اس کا اپنے انداز میں جواب دے گا۔ طاقت کی زبان استعمال کرنا چھوڑ دیں اور سامراجیت کے جس بوسیدہ زینے پر وہ کھڑے ہیں اس سے نیچے اتریں تب ان سے بات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن جب تک وہ اس انداز کو اپنائے رہیں گے (مذاکرات) ممکن نہیں ہیں۔
جہاں تک ایٹمی مسئلے کا سوال ہے تو ایٹمی فیول سائیکل ڈیولپ کرنا ہمارا حق ہے اور ہم اپنے اس حق سے ہرگز دست بردار نہیں ہوں گے اور اس سے کبھی بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے، یہ ہمارا حق ہے۔ ہم ایٹمی فیول تیار کرنا چاہتے ہیں۔ کئی ہزار میگاواٹ بجلی کے لئے ہمیں ایٹمی ایندھن کی ضرورت ہے۔ ایٹمی بجلی گھروں کی تعمیر کی جانی ہے تو ان بجلی گھروں کا ایندھن بھی ملک کے اندر تیار کیا جانا چاہئے۔ اگر ایسا ہو کہ ہم ان بجلی گھروں کے ایندھن کے لئے بیرونی ممالک پر منحصر اور ان کے محتاج ہوں تو ملک کے معاملات چل نہیں پائیں گے، ملک کے اندر اس کی پیداوار کی صلاحیت ہونی چاہئے، تو یہ ہمارا حق ہے اور ہم اس کے لئے کوشش کریں گے۔ وہ لوگ اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ایران کو ایٹمی فیول کی ضرورت ہے تو ہم اسے فراہم کریں گے۔ ورلڈ بینک بنائیں گے، ایسا کریں گے، ویسا کریں گے اور ایندھن تیار کرکے ایران کو دے دیں گے۔ یہ سراسر بکواس ہے۔ یہ مہمل باتیں ہیں۔ بیس فیصدی کی سطح تک افزودہ یورینیم کے تبادلے کے اسی نئے معاملے میں پتہ چل گیا کہ ان کی بات میں کتنی سچائی ہے! ہماری چھوٹی سی تجرباتی تنصیب کے لئے بیس فیصدی افزودہ یورینیم کی ضرورت تھی، ظاہر ہے کہ یہ بہت معمولی سی چیز تھی۔ دنیا میں لوگ حاصل کرتے ہیں، ہم خود بھی کئی سال قبل، پندرہ سولہ سال پہلے حاصل کر چکے ہیں، خرید چکے ہیں اور اس میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی لیکن ان کو جیسے ہی اندازہ ہوا کہ ایران کو اس کی احتیاج ہے انہوں نے چالبازی شروع کر دی اور اسے ایک بڑے مسئلے میں تبدیل کر دیا۔ میری نظر میں یہ امریکا اور مغرب کی بہت بڑی غلطی تھی۔ ایندھن والے اس معاملے میں ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی ہے۔
ایک تو انہوں نے اپنی اس حرکت سے ہمیں بیس فیصدی افزودہ یورینیم تیار کرنے پر اکسایا۔ ہم نہیں چاہتے تھے، ہمارا ارادہ نہیں تھا کہ یورینیم کو بیس فیصدی کی سطح تک افزودہ کریں، ہمارے لئے وہی ساڑھے تین فیصدی افزودہ یورینیم ہی کافی تھا۔ انہوں نے اپنی حرکتوں سے ہمیں اکسایا، ہمیں مجبور کیا، ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کر دیا کہ ہمیں خود بیس فیصدی افزودہ یورینیم تیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہم نے ایسا ہی کیا بھی۔ یہ ان کی پہلی غلطی تھی۔ ان کی دوسری غلطی یہ تھی کہ پوری دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ امریکا اور دیگر ممالک جو یہ ایندھن تیار کر سکتے ہیں قابل بھروسہ نہیں ہیں کہ کوئی ملک ان کے بھروسے پر ایندھن تیار نہ کرے کیونکہ جیسے ہی انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو اس کی ضرورت ہے وہ فورا اپنے تمام مطالبات کی لمبی فہرست تیار کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ مطالبات کو پورا کریں تب ہم یہ ایندھن آپ کو دیں گے۔ یہ تو کوئی سودا نہیں ہوا! تو ایٹمی مسئلے میں ان کے پاس کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں ہے، ان کے پاس کوئی مدلل بات نہیں ہے۔ ہم نے راستہ تلاش کر لیا ہے اور اس پر مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں اور انشاء اللہ ہم اسی راستے پر بڑھتے رہیں گے۔
فوجی دھمکی کا جہاں تک معاملہ ہے تو بہت بعید ہے کہ وہ کوئی حماقت آمیز اقدام کریں لیکن اگر یہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے تو سب جان لیں کہ یہ مقابلہ صرف ہمارے اسی علاقے تک محدود نہیں رہے گا، مقابلے کا میدان بہت زیادہ وسیع تر ہو جائے گا۔
اسلامی جمہوریہ کے خلاف امریکیوں کی پروپیگنڈہ مہم کے سلسلے میں بھی میرا نظریہ یہ ہے کہ دشمن انتہائی غلط باتیں کر رہے ہیں کیونکہ انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کرنے والے خود امریکی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ انہیں جہاں بھی اپنے مفادات کا حصول مقصود ہوتا ہے بے شمار انسانوں کی جانیں ان کے لئے بے وقعت ہو جاتی ہیں، وہ کسی انسان کے لئے کسی بھی حق کے قائل نہیں ہیں۔ عراق پر قبضے اور حملے کے دوران بصرے پر لشکر کشی کے دوران انہوں نے دس ٹن وزنی بم گرائے! بڑی تعداد میں بے گناہ لوگوں کو، عام شہریوں کو، بہت سی عورتوں اور بچوں کو انہوں نے قتل کر دیا۔ بصرے میں بھی قتل کیا اور دوسری جگہوں پر بھی قتل عام کیا۔ انہیں دنوں کچھ امریکی پائلٹ جن کے جہاز گر گئے تھے بعثی حکومت نے انہیں گرفتار کرکے ٹی وی پر ان کا انٹرویو نشر کیا۔ امریکیوں نے واویلا مچا دیا کہ یہ تو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ جنگی قیدی کا انٹرویو نشر نہیں کیا جانا چاہئے۔ یہ دوغلاپن ہے، یہ دوہرا فیصلہ کرنا ہے۔ جمہوریت کو سب سے زیادہ پامال کرنے والے یہی لوگ ہیں۔ امریکیوں نے بہت سے ممالک میں انتخابات کے نتائج کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ اس کی ایک مثال غزہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں ہیں جن کا نام لینا میں مناسب نہیں سمجھتا۔ سب سے بدترین کارروائیاں یہی لوگ کر رہے ہیں۔
جس چیز پر خاص طور سے دھیان دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ یہ حملے اور یہ دشمنیاں نئی نہیں ہیں اور اسلامی جمہوریہ کے پاس ان تمام مشکلات کے لئے راہ حل موجود ہے۔ پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے حکام نے الحمد للہ بہت اچھے اور محکم فیصلے کئے ہیں۔ میں نے صدر محترم سے گزارش کی کہ وزیر خزانہ آکر رپورٹ پیش کریں۔ انہوں نے آکر سلامتی کونسل کی قرارداد کے مقابلے میں جو پابندیوں کی راہ ہموار کرتی ہے، اسی طرح امریکا اور یورپ کی یکطرفہ پابندیوں کے جواب میں جو فیصلے کئے اسے بیان کیا۔ بہت اچھے فیصلے کئے گئے ہیں اور انشاء اللہ حکام کی کوشش یہ رہے گی کہ یہ پابندیاں، مواقع میں تبدیل ہو جائیں۔ واقعی ضرورت اسی بات کی ہے کہ پابندیوں کو مواقع میں تبدیل کر دیا جائے۔ ہمیں قومی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا، اس کی تقویت کرنی ہوگی، ملکی مصنوعات کے استعمال کی عادت ڈالنی ہوگی، گھریلو مصنوعات کو معیاری بنانا ہوگا۔ اس سلسلے میں ملک کے حکام اور قانون ساز اداروں کے فرائض بہت زیادہ ہیں۔ میں نے امپورٹ کے ذریعے ملک کے اندر آنے والی چیزوں کو کنٹرول کرنے کے لئے متعلقہ حکام سے اقدام کی سفارش کی اور اس وقت بھی اسی بات پر تاکید کروں گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ امپورٹ کا سلسلہ روک دیا جائے کیونکہ بعض مواقع ایسے آتے ہیں کہ باہر سے کچھ چیزوں کا امپورٹ کرنا لازمی ہو جاتا ہے، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس پر نظر رکھی جائے اور اسے کنٹرول کیا جائے۔ بعض شعبے ایسے ہیں جن میں بالکل بھی امورٹ نہیں ہونا چاہئے جبکہ بعض شعبے ایسے ہیں جہاں امپورٹ لازمی ہے۔ امپورٹ کو کنٹرول کیا جانا چاہئے۔ حکام نے ہمیں مطلع کیا کہ پارلیمنٹ نے جو قوانین پاس کئے ہیں ان کے مد نظر ہمارے لئے امپورٹ کو روک پانا ممکن نہیں ہے، میں چاہوں گا کہ یہ مسئلہ یہیں حل ہو جائے۔ اگر واقعی کوئی قانون ایسا ہے جو امپورٹ پر روک لگانے کے سلسلے میں حکام کے راستے کی رکاوٹ بن گیا ہے تو اس کی اصلاح کی جانی چاہئے۔ ملکی پیداوار کو فروغ دینا چاہئے۔
خردمندانہ تدبیر کا ان شعبوں میں سہارا لیا جانا چاہئے۔ عقلمندی بہت ضروری ہے۔ فیصلے کرنے میں عقل پسندی سے کام لینا بہت اہم ہے، خردمندانہ اور شجاعانہ فیصلہ۔ عقلمندی کا مطلب خوف و ہراس اور پسپائی ہرگز نہیں ہے۔ شجاعت کے ساتھ دانشمندی کی اہمیت ہے۔ انبیائے الہی سب سے زیادہ عقلمند انسان تھے۔ ایک روایت میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ «ما بعث اللَّه نبيّا و لا رسولا حتّى يستكمل العقل»؛(7) اللہ تعالی نے کسی بھی پیغمبر کو اس وقت تک مبعوث برسالت نہیں کیا جب تک اس کی عقل کامل نہیں ہو گئی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہی پیغمبر سب سے زیادہ جہاد کرتا ہے، سب سے زیادہ جد و جہد کرتا ہے، سب سے زیادہ خطرات مول لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شجاعت اور عقلمندی کا ساتھ ساتھ ہونا ضروری ہے۔ عزم راسخ کے ساتھ، ہر طرح کے تزلزل سے دور رہتے ہوئے، دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اتحاد و ہمدلی کی حفاظت کرتے ہوئےکام کرنا۔
میں اتحاد پر خاص تاکید کرنا چاہوں گا۔ ملک کے حکام کے درمیان اتحاد و ہمدلی ایک فریضہ ہے اور عمدا اس کی مخالفت کرنا خلاف شرع فعل ہے، خاص طور پر اعلی سطح پر۔ سب کو چاہئے کہ اس پر توجہ دیں۔ دشمن چھوٹے سے اختلاف کو بہت بڑے بحران کی صورت میں پیش کرنا چاہتا ہے اسے اس کا موقع نہ دیجئے۔ ایسا نہیں ہے کہ دو عہدہ داروں یا دو محکموں کے درمیان کوئی اختلاف رائے بہت بڑا بحران ہے۔ یہ بات عین ممکن ہے کہ کسی معاملے میں پارلیمنٹ کا خیال کچھ ہو اور مجریہ کا نظریہ کچھ اور ہو، ان کی پسند الگ الگ ہو لیکن یہ بحران تو نہیں ہے۔ اگر کوئي ان اختلافات کو گہری خلیج میں تبدیل کر دینا چاہے یا لا علاج زخم بنا دینے کی کوشش کرے تو یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ ویسے وہ لوگ کچھ بہانے بھی پیش کرتے ہیں۔ ہم نے حال ہی میں نگراں کونسل سے گذارش کی کہ ایک جلسہ منعقد کیا جائے اور حکومت اور مقننہ کے مابین جن امور میں اختلاف ہے انہیں معین کیا جائے اور محکموں کے اختیارات کی حدود طے کی جائیں تاکہ محکموں کو ایک دوسرے سے الگ اور آزاد رکھنے کے ضابطے پر عمل ہو جو آئين کا جز بھی ہے۔ اتحاد کی حفاظت، اصولوں کی پابندی و عمل آوری وہ چیزیں ہیں جن پر ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے ہمیشہ تاکید کی۔
دشمن کے حربوں پر توجہ اور اس کے منصوبے مکمل کرنے والے کام کرنے سے گریز ضروری ہے۔ دشمن کی ایک کوشش تو یہ ہوتی ہے کہ عوام کو حکام سے بد ظن کر دیا جائے۔ ہمیں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے، ایسی کوئي بات منہ سے نہ نکالیں کہ ملک کے حکام، سرکاری عہدہ داروں، عدلیہ کے ذمہ داروں اور مقننہ کے ارکان سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے۔ دشمن اسی کوشش میں لگا ہوا ہے تو ہمیں اپنے عمل سے اس کی مدد نہیں کرنا چاہئے۔ میں دیکھتا ہوں کہ بعض اوقات جو اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں بغیر کسی دلیل کے شکوک و شبہات پیدا کئے جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ اعداد و شمار کے بارے میں بیجا شکوک و شبہات پیدا کرنے کا کیا تک ہے؟ ایک ذمہ دار ادارہ اعداد و شمار جاری کر رہا ہے، اس کی بات سنی جانی چاہئے۔ اللہ تعالی کے سچے وعدے پر یقین رکھنا بھی ضروری ہے۔ تمام بڑے کاموں کی بنیاد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالی کے وعدہ حقہ پر یقین رکھیں۔ اللہ تعالی نے ان لوگوں پر جو اس کے وعدوں کی بابت شکوک و شبہات رکھتے ہیں لعنت بھیجی ہےو يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»؛(8) یعنی اللہ تعالی ان لوگوں کی جو وعدہ الہی کے بارے میں شک اور گمان کا شکار ہیں مذمت کرتا ہے۔ اللہ تعالی نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ؛ «لينصرنّ اللَّه من ينصره»؛(9) «أوفوا بعهدى أوف بعهدكم».(10) اللہ کی راہ میں قدم بڑھاؤ، اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ ویسے یہ وعدے محض وعدے ہی نہیں ہیں بلکہ اگر ہم بد گمانی میں مبتلا افراد ہیں اور ہم اللہ تعالی کے وعدوں کو صحیح ماننے کو تیار نہیں ہیں تب بھی ہمارے تجربات عملی طور پر اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ انقلاب کے اصلی ارکان میں، انقلاب کے حامیوں میں، انقلاب کے طرفداروں میں کون ایسا ہے جو چالیس سال قبل یہ سوچ سکتا تھا کہ ملک میں اتنی بڑی تبدیلی آئے گی؟ اتنا عظیم واقعہ رونما ہوگا اور اتنی بلند و بالا عمارت معرض وجود میں آ جائےگی؟ لیکن ایسا ہوا، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کے نتیجے میں، عزم راسخ کے نتیجے میں، موت سے نہ گھبرانے کے نتیجے میں، شکست سے خوفزدہ نہ ہونے کے نتیجے میں، اللہ تعالی پر بھروسہ کرکے آگے بڑھتے رہنے کی نتیجے میں۔ انشاء اللہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
پالنے والے! محمد و آل محمد کے صدقے میں ہمارے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) تر اپنی رضا و مغفرت نازل فرمایا جنہوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا۔ پروردگارا! عزیز شہدا کو بلند ترین درجات عنایت فرما۔ پالنے والے! ملت ایران کو اس کے اعلی اہداف و مقاصد میں کامیاب فرما۔ پالنے والے اس قوم اور اس ملک کو دشمنوں کی دست برد سے دور رکھ۔ پالنے والے! نظام کے خدمت گاروں کو اور عوام کی مخلصانہ خدمت کرنے والوں کو اپنی رحمت و برکت سے نواز۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
1) لقمان:آیت 22
2) تحريم: آیت 6
3) بقره:آیت 183
4) صحفيهى سجاديه، دعا نمبر 20
5) توبه:آيت 15
6) انعام: آيت 121
7) مشكاةالانوار، صفحہ 251
8) فتح: آیت 6
9) حج:آيت 40
10) بقره: آيت 40