قائد انقلاب اسلامی نے دشمنوں سے اپنی حدود واضح رکھنے کے سلسلے میں فرمایا کہ اگر کوئی دین اور انقلاب کے دشمنوں سے اپنے فاصلے اور حدود کو واضح نہ رکھے تو اس نے اپنی قدر و قیمت گھٹائی ہے اور اگر اس میں ان کی جانب میلان پیدا ہو گیا ہے تو وہ نظام کے دائرے سے خارج ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے زحمتیں برداشت کرنے کو وسیع تر مفادات کے حصول کی تمہید قرار دیا اور فرمایا کہ اس وقت یونیورسٹیوں کی بڑی ضرورت علمی اور تحقیقاتی کاوشیں، دینی و روحانی کوششیں، تمام علمی سرگرمیوں میں جہاد اور مجاہدت کا جذبہ پیدا کرنے، دائمی اور بر وقت موجودگی اور یونیورسٹی کے ماحول میں بصیرت و تدبر کی ترویج ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں یونیورسٹیوں میں اساتذہ بالخصوص مومن اور انقلابی اساتید کے مقام و کردار نیز یونیورسٹیوں سے اسلامی نظام کی توقعات اور یونیورسٹیوں اور علمی مراکز کی موجودہ ضروریات پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ بسیجی (رضاکار) استاد کا فرض یونیورسٹی میں بروقت، پر خلوص، مجاہدانہ اور موثر خدمت کرنا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں سے توقعات کے سلسلے میں فرمایا کہ ملت و تاریخ ایران کے شایان شان بلند علمی مقام پر پہنچنے تک ملک کی علمی پیش قدمی کا تسلسل یونیورسٹیوں اور علمی مراکز سے بنیادی ترین مطالبہ اور توقع ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

بہت شکر گزار ہوں اور بہت خوش قسمت ہوں کہ دوستوں نے اس ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ یہ اجتماع در حقیقت علم و ایمان کے امتزاج کی عملی تصویر ہے۔ رضاکاری کے الہی رنگ مین رنگے ہوئے اساتذہ علم و ایمان کے امتزاج کا مظہر ہیں۔ جلسہ بھی بڑا بے تکلفی کا جلسہ ہے۔ میں نے اپنے ان احباب کی تقریر بغور سنی یہ ہمارے فرزانہ افراد ہیں۔ ان احباب نے بڑی اچھی تجاویز پیش کیں۔ ان میں بعض تجاویز کا تعلق حکومت سے ہے، وزرائے محترم اور حکام تشریف فرما ہیں، حکومتی محکموں کو چاہئے کہ ان تجاویز پر توجہ دیں۔ بعض تجاویز مختلف ہیں۔ انتظامیہ کے دائرہ کار سے بالاتر ہیں، ان کا جائزہ لینے اور ان سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ تجویز بھی دی گئی کہ شہید چمران کی شہادت کے دن کو رضاکار اساتذہ کے دن سے موسوم کیا جائے۔ میرے خیال میں یہ بڑی با معنی اور اہم تجویز ہے۔ چمران شہید واقعی، انسان جن چیزوں کو پسند کرتا ہے، جس سے محبت کرتا ہے، اس کا مظہر اور نمونہ تھے۔ ہمارے نوجوانوں اور یونیورسٹی طلبہ کی تربیت کے سلسلے میں اس سمت میں پیش قدمی کی جائے تو برا نہیں ہے۔
اس شہید کا ہماری گردن پر جو حق ہے اس کا تقاضا ہے کہ شہید چمران کے بارے میں کچھ باتیں بیان کروں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ شہید ایک سائنسداں تھے، ایک انتہائی با صلاحیت اور نمایاں شخصیت کے مالک انسان تھے۔ انہوں نے خود مجھے بتایا کہ امریکا کی جس یونیورسٹی میں وہ اعلی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف تھے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اس یونیورسٹی میں اپنے شعبے کے دو سب سے زیادہ با صلاحیت طلبہ میں ایک تھے۔ انہوں نے سائنس میں اپنی پیشرفت اور اساتذہ کے سلوک کے بارے میں بتایا تھا۔ وہ واقعی ایک مسلمہ سائنسداں تھے۔ لیکن اس سائنسداں کے عاشقانہ ایمان کا یہ عالم تھا کہ بظاہر انتہائی اہم نظر آنے والی شہرت و دولت، مقام و مرتبے اور دنیوی مستقبل سب کو چھوڑ کر لبنان میں امام موسی صدر کی خدمت میں پہنچ گئے اور جہادی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب لبنان اپنی تاریخ کے سب سے خطرناک اور تلخ دور سے گزر رہا تھا۔ ہم یہاں انیس سو اٹھہتر میں سنتے تھے کہ بیروت کی سڑکوں پر مورچے بنائے گئے ہیں۔ صیہونیوں کی سازش تھی۔ کچھ لوگ لبنان کے اندر سے (اسرائیل کی ) مدد کر رہے تھے۔ وہاں بڑی عجیب اور دردناک صورت حال تھی، سب کچھ بالکل درہم برہم ہو چکا تھا۔ اسی زمانے میں شہید چمران کی ایک کیسیٹ ہمیں مشہد میں ملی جو مرحوم چمران سے ہماری آشنائی کا پہلا ذریعہ بنی۔ اس کیسیٹ میں دو گھنٹے کی تقریر تھی جس میں انہوں نے لبنان کی صورت حال کی وضاحت کی تھی اور یہ سمجھایا تھا کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ ہمارے لئے یہ بڑی دلچسپ چیز تھی۔ واضح نقطہ نگاہ اور شفاف سیاسی نظرئے کے ساتھ اس دو گھنٹے کی کیسیٹ میں سمجھایا گيا تھا کہ اس قیامت خیز میدان میں کس کا کس سے مقابلہ ہے، کون سے عناصر بیروت کے اندر یہ قتل عام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ وہاں گئے اور بندوق اٹھائی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان میں سیاسی بصیرت اور فتنے کے وقت کام آنے والا سیاسی شعور بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ فتنہ کہرے کی مانند فضا کو دھندلا بنا دیتا ہے۔ اس موقع پر کہرے کی تاریکی چھانٹ کر راستے کو نمایاں کر دینے والی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، اسی کو بصیرت کہتے ہیں۔ وہاں انہوں نے جنگ کی اور فتح حاصل کی۔ پھر یہاں تشریف لائے۔ انقلاب کے اوائل سے ہی حساس ترین مراحل میں فعال رہے۔ کردستان گئے اور وہاں جاری جنگوں میں با قاعدہ شریک رہے، اس کے بعد تہران آئے اور وزیر دفاع بنے۔ جب (آٹھ سالہ) جنگ شروع ہو گئی تو عہدہ وزارت اور دیگر منصبوں سے کنارہ کشی کرکے اہواز پہنچ گئے اور اکتیس خرداد تیرہ سو ساٹھ (مطابق اکیس جون انیس سو اکیاسی) کو جام شہادت نوش کرنے تک لڑتے رہے۔ یعنی ان کی نظر میں عہدہ و منصب کی کوئی اہمیت نہیں تھی، دنیا کی کوئی وقعت نہیں تھی، دنیا کے جلوؤں میں کوئی کشش نہ تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ خشک مزاج انسان رہے ہوں اور زندگی کی لذتوں سے واقفیت نہ رکھتے ہوں۔ وہ اس کے بر خلاف ایک لطیف مزاج، با ذوق اور ماہر فوٹوگرافر تھے۔ ایک بار انہوں نے خود مجھ سے کہا کہ میں نے ہزاروں تصویریں کھینچیں لیکن میں خود ان تصاویر میں کہیں نہیں ہوں، کیونکہ میں فوٹوگرافر تھا۔ وہ ایک فنکار تھے۔ بڑے پاکیزہ دل انسان تھے۔ انہوں نے عرفان نظری کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور شاید کسی بھی توحیدی مسلک اور سیر و سلوک کے سلسلے میں کسی کی شاگردی نہیں کی تھی لیکن پھر بھی خدا شناس دل رکھتے تھے، پاکیزہ دل، خدا کا متلاشی دل، روحانیت و معنویت سے سرشار دل۔
بڑے منصف مزاج انسان تھے۔ یقینا آپ کو پاوہ کا واقعہ معلوم ہوگا کہ پاوہ میں پہاڑی علاقوں میں کئی دنوں کی جنگ لڑنے کے بعد چمران مرحوم اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ نرغے میں آ گئے۔ انقلاب مخالف عناصر نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا تھا اور ان تک پہنچنے ہی والے تھے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو اس صورت حال کا علم ہو گیا۔ ریڈیو پر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا ایک پیغام نشر ہوا کہ سب لوگ پاوہ کی جانب بڑھیں۔ یہ پیغام دوپہر دو بجے کے بعد نشر ہوا اور چار بجے میں نے تہران کی سڑکوں پر دیکھا کہ ٹرکوں اور گاڑیوں میں فوجی اور عام شہری جوق در جوق روانہ ہو گئے۔ دوسرے اضلاع کا بھی یہی عالم تھا۔ پاوہ کے قضیئے کے بعد شہید چمران تہران آئے اور ایک نشست میں جس میں میں بھی موجود تھا وزیر اعظم کو اپنی رپورٹ دے رہے تھے۔ ان دونوں کے ما بین بھی ایک دیرینہ جذباتی رشتہ تھا۔ اس اجلاس میں چمران نے بیان کیا کہ جب دو بجے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا پیغام نشر ہوا اور ابھی اس مقام کی جانب لوگوں کی پیش قدمی کے کوئی آثار نہیں دکھائی دئے تھے ہم نے اسی لمحہ محسوس کیا کہ گویا محاصرہ ٹوٹ گیا ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی موجودگی، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا فیصلہ اور امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا پیغام اتنا موثر ثابت ہوا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا پیغام پہنچتے ہی برق رفتاری سے گویا سارا دباؤ ختم ہو گیا۔ انقلاب مخالف عناصر کے حوصلے پست ہو گئے اور ہمیں نیا حوصلہ ملا۔ ہم نے حملہ کیا اور محاصرے کو توڑ کر باہر نکل آئے۔ وزیر اعظم کو یہ سن کا غصہ آ گیا اور وہ چمران مرحوم پر برس پڑے کہ ہم نے کیا کیا اقدامات کئے، کتنی محنت کی؟! تم سب کچھ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے کیوں جوڑ رہے ہو؟ بہرحال وہ تکلفات میں پڑنے کے قائل نہیں تھے، منصف مزاج انسان تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کی یہ بات ناراضگی کا سبب بنے گی لیکن انہوں نے پھر بھی یہ بات کہہ ڈالی۔
وہ ہمیشہ آمادہ رہنے والے انسان تھے۔ ہم یہاں سے ایک ساتھ اہوا‌‌ز گئے۔ محاذ پر پہلی بار ہم ایک ساتھ گئے تھے۔ رات کی تاریکی میں ہم اہوا‌ز پہنچے، چاروں طرف سناٹے کا راج تھا۔ دشمن اہواز سے گیارہ بارہ کلومیٹر کی دوری پر موجود تھا۔ شہید چمران تہران سے اپنے ساتھ ساٹھ ستر آدمی لیکر گئے تھے، میں اکیلا ہی گيا تھا۔ ہم سب سی 130 طیارے کے ذریعے وہاں گئے تھے۔ وہاں پہنچتے ہی ہمیں ایک فوجی بریفنگ دی گئی۔ شہید چمران نے کہا کہ سب تیار ہو جائيں، وردی پہنیں تاکہ محاذ کی جانب روانہ ہوں۔ رات کے نو یا دس بجے ہوں گے۔ وہیں بغیر کوئی لمحہ ضائع کئے ان کے ہمراہ جانے والے افراد کے لئے فوجی وردی لائی گئی، سب نے وردی پہنی اور روانہ ہو گئے۔ میں نے بھی ان سے پوچھا کہ میں بھی چل سکتا ہوں؟ کیونکہ مجھے ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ فوجی جنگ میں شرکت کر پاؤں گا۔ انہوں نے حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ ہاں کیوں نہیں؟ آپ بھی چل سکتے ہیں۔ میں نے بھی وہیں لباس تبدیل کیا اور فوجی وردی پہن لی۔ کلاشنکوف میرے پاس تھی، میں نے وہ اٹھائی اور ان کے ساتھ چل پڑا۔ یعنی پہنچتے ہی کام شروع کر دیا۔ وقع ضائع نہیں ہونے دیا۔ اسے کہتے ہیں آمادگی۔ بسیجی فکر اور بسیجی (رضاکار) انسان کی ایک خصوصیت ہے دائمی آمادگی، اس جگہ سے ایک لمحہ بھی غائب نہ ہونا جہاں ان کی موجودگی ضروری ہے۔ یہ ایک بسیجی کی ابتدائي ترین خصوصیت ہے۔
سوسنگرد کی فتح کے دن، آپ جانتے ہیں کہ سوسنگرد پر دشمن کا قبضہ ہو گیا تھا جسے آزاد کرایا گيا لیکن دشمن نے دوبارہ قبضہ کر لیا چنانچہ دوبارہ مزاحمت کی گئي اور اسے آزاد کرا لیا گيا۔ اس دن فورسز کو، فوج کے جوانوں کو حملہ شروع کرنے پر تیار کرنے کے لئے بڑی کوشش کی گئی۔ جس دن صبح اہواز کی طرف سے سوسنگرد پر حملہ ہونا طے پایا تھا اس سے پہلے والی رات میں تقریبا ایک بجے خبر ملی کہ حملے میں شرکت کرنے والی ایک بٹالین کو باہر نکال لیا گيا ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ یہ حملہ انجام نہ دیا جائے اور اگر انجام دیا گيا تو شکست یقینی ہے۔ میں نے اہواز میں تعینات کمانڈر کو خط لکھا، میری تحریر کے نیچے شہید چمران نے بھی لکھا۔ اس محترم کمانڈر نے حال ہی میں ہماری اس تحریر کو فریم کرواکر ہمیں دیا۔ یہ تقریبا تیس سال پرانی یادگار ہے، وہ پرچہ اب بھی میرے پاس ہے۔ ہم ایک بجے کے بعد تک ایک ساتھ تھے اور یہی کوشش کر رہے تھے کہ صبح یہ حملہ ہر حال میں انجام پائے۔ اس کے بعد میں جاکر سو گیا اور ہم دونوں ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ صبح جلدی ہم اٹھ گئے۔ فوج نے حرکت کی اور ہم بھی چند افراد کے ساتھ اس کے پیچھے چل پڑے۔ جب ہم اس علاقے میں پہنچ گئے تو میں نے پوچھا کہ چمران کہاں ہیں؟ جواب ملا کہ چمران صبح ہی آ گئے تھے اور اس وقت آگے چل رہے ہیں۔ یعنی قبل اس کے کہ فوج منصوبے کے مطابق حرکت کرے اور روانہ ہو چمران روانہ ہو چکے تھے اور اپنے افراد کے ساتھ کئی کلومیٹر آگے پہنچ گئے تھے۔ الحمد للہ یہ بڑا آپریشن انجام پایا اور چمران زخمی ہو گئے۔ اس شہید پر خدا کی رحمتیں نازل ہوں۔ اس مزاج کے تھے شہید چمران۔ دنیوی مقام و منصب کی ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ دولت و شہرت کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ سہرا کس کے سر بندھے اس سے انہیں کوئی مطلب نہیں تھا۔ منصف مزاج تھے، شجاع تھی، مضبوط اعصاب کے مالک تھے، بے جا تکلفات میں نہیں پڑتے تھے۔ شاعرانہ و عارفانہ اور لطیف و نازک مزاج کے باوجود میدان جنگ میں جانفشانی کرنے والے محنتی جانباز تھے۔ میں نے خود دیکھا کہ جن اہلکاروں کو آر پی جی داغنا نہیں آتا تھا وہ انہیں سکھاتے تھے کیونکہ آر پی جی فورس کے اسلحے میں شامل نہیں تھا۔ ہمارے پاس نہیں تھا اور نہ ہم اسے چلانا جانتے تھے۔ انہوں نے لبنان میں اسے چلانا سیکھا تھا اور عربی لہجے میں اسے آر بی جی کہتے تھے۔ ہم کہتے تھے آر پی جی وہ کہتے تھے آر بی جی۔ انہوں نے وہاں اسے چلانا سیکھا تھا۔ کہیں سے انہوں نے ایک محدود مقدار میں آر پی جی حاصل کر لی تھی اور دوسروں کو سیکھاتے تھے کہ آر پی جی کیسے چلائي جاتی ہے۔ یعنی میدان عمل میں واقعی بیحد کارساز اور محنتی انسان تھے۔
اب آپ غور کیجئے کہ فیزیالوجی میں پلازما کا اول نمبر کا ماہر، فوجی آپریشن کی تربیت دے وہ بھی بے حد جذباتی انداز میں، پختہ ایمان کے ساتھ، سختیاں برداشت کرتے ہوئے۔ یہ کیسا امتزاج ہے! بسیجی سائنسداں ایسا ہوتا ہے۔ بسیجی استاد ایسا ہوتا ہے۔ یہ ایک کامل نمونہ ہے جس کا ہم نے نزدیک سے مشاہدہ کیا۔ ایک ایسی شخصیت کے بارے میں پھر روایتی انداز اور جدیدیت کے تضاد کا کوئی معنی و مفہوم نہیں رہ جاتا۔ دین اور سائنس کے مابین تضاد کی بات واقعی مضحکہ خیز ہے۔ یہ جھوٹا اور من گھڑت تضاد، جو نظریہ کے عنوان سے پیش کئے جاتے ہیں اور کچھ افراد جو اس بارے میں بڑے ملتزم ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں، ایک ایسی شخصیت کو دیکھنے کے بعد لا یعنی ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس شخصیت میں سائنس بھی ہے، ایمان بھی ہے، روایات کی پاسداری بھی ہے، جدیدیت بھی ہے۔ وہ اہل فکر و نظر بھی ہے، اہل عمل بھی ہے، اہل عشق و معنویت بھی ہے اور اہل عقل و دانش بھی ہے۔ اسی لئے شاعر نے کہا ہے کہ؛

با عقل آب عشق به يك جو نمی‌رود
بيچاره من كه ساخته از آب و آتشم‌
(عقل و عشق متضاد چیزیں اور ان کا راستہ الگ الگ ہوتا ہے لیکن میری حالت تو دیکھئے کہ میں آب و آتش کا مجموعہ بن گیا ہوں)
تو ان میں آب و آتش کا امتزاج تھا۔ اس ایمانی و معنوی عقل اور عشق خداوندی میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ یہ عقل تو اس پاکیزہ عشق کی حامی و مددگار ہے۔
ہمیں جو توقع ہے اور یقینا یہ کوئی بہت بڑی توقع نہیں ہے کیونکہ جو آثار نظر آ رہے ہیں یہ آپ کا جوش و جذبہ، یہ پاکیزہ و شفاف قلوب، یہ روشن خیالی، یہ تیز رو فکریں جن کا انسان بالکل قریب سے مشاہدہ کر رہا ہے، ان باتوں کو دیکھ کر انسان کو جو توقع ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی یونیورسٹی کی پیداوار اور اس کا ثمرہ استثنائی طور پر اور اکا دکا نہیں بلکہ عمومی طور پر شہید چمران کی مانند ہو۔ چمران جیسی شخصیتیں اکا دکا نہ ہوں۔ یہ توقع ایک بجا توقع ہے۔ انیس سو ستانوے میں بسیجی اساتذہ کے عنوان سے مشہد، اصفہان اور علم و صنعت یونیورسٹی میں کچھ اساتذہ جمع ہوئے اور خود کو منظم کیا۔ اس وقت جب یہ کہا جاتا تھا کہ دس سال بعد یا بارہ سال بعد اسی جذبے اور حوصلے والے، اسی عشق و مزاج والے کئی ہزار اساتذہ پورے ملک میں نظر آئیں گے تو کوئی یقین نہیں کرتا تھا، لیکن ایسا ہوا۔ میں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لینا چاہتا، حقیقت کو اپنے اور آپ کے سامنے زیادہ پرکشش بنا کر پیش نہیں کرنا چاہتا، خود کو توہم کی بنا پر خوش نہیں کرنا چاہتا۔ بالکل نہیں، یہ باتیں تو پوری طرح عیاں ہیں کہ ہم سب ایک ہی سطح پر نہیں ہیں۔ ہم میں بعض بالاتر ہیں، کچھ ایسے ہیں جن کی سطح کم ہے۔ ہمارے ایمان، ہمارا عشق حقیقی، ہمارے حوصلے، ہمارے جذبات سب کچھ۔ لیکن چھوٹا چشمہ، جس کے بارے میں بعض کا یہ خیال تھا کہ باقی نہیں رہ پائے گا جبکہ بعض دیگر اسے بند کر دینے پر تل گئے، اب دریا میں تبدیل ہو گيا ہے جسے روک دینے کا کوئی سوال نہیں اٹھتا۔ یونیورسٹی کی فضا میں مختلف شعبوں میں اور اعلی تعلیمی سطح پر بسیجی، با ایمان اور انقلابی اساتذہ کا دریا۔
چنانچہ یہ توقع بیجا نہیں کہی جا سکتی۔ جب انسان اس پیش قدمی کو دیکھ رہا ہے، اس نشو نما کو محسوس کر رہا ہے تو پھر یہ توقع کوئی بیجا نہیں ہےکہ اسلامی جمہوریہ ایران کی یونیورسٹیاں مستقبل میں شہید چمران جیسے دانشوروں کی تربیت کریں۔ ایسا ہو جائے تب آپ دیکھئے کہ کیا کامیابی ملی ہے، مستقبل کیسا ہو گیا ہے؟! یہ اعلی سطح پر عالمی پیغامات اور مطالبات رکھنے والا ایک نظام ہے۔ (یہ مطالبات اور پیغامات) انسان کے بارے میں، حکومت کے سلسلے میں، حقوق نسواں کے سلسلے میں، اخلاقیات کے تعلق سے اور علم و سائنس کی نسبت ہیں۔ آج ہمارے مطالبات بین الاقوامی مطالبات کے آئینہ دار ہیں۔ کچھ لوگ ہیں جو رسائل و اخبارات یا دیگر شعبوں سے وابستہ ہیں، جیسے ہی بین الاقوامی لفظ سنتے ہیں تمسخر آمیز مسکراہٹ ان کے چہرے پر آ جاتی ہے۔ یہ بات ان کی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے، انہیں اس کا ادراک نہیں ہے کہ وسیع النظری کسے کہتے ہیں؟ اگر آپ کی نگاہیں چوٹی پر نہیں ہیں تو آپ پہاڑ کے دامن کے تک بھی نہیں پہنچ سکیں گے، چوٹی پر پہنچنے کی بات تو چھوڑئے۔ ہمت بلند رہنی چاہئے۔ روایات میں مومنین سے سفارش کی گئی ہے کہ اپنے حوصلے اور ہمتیں بلند رکھیں۔ اوليائے الہی، سالک راہ خدا سے بھی کہتے ہیں کہ آپ کی ہمت بلند ہونی چاہئے۔ یہ ابتدائي کامیابیاں اور شروعاتی قدم مطمئن ہو جانے کا باعث نہ بنیں۔ حوصلہ بلند رہنا چاہئے۔ نگاہ بھی انسانی نگاہ ہو یعنی دنیا میں جو کوئی بھی ہے اما اخ لک فی الدین اور نظیر لک فی الخلق یا آپ کا دینی بھائی ہے اور اگر تمہارا برادر دینی نہیں ہے تو خلقت میں تمہاری مانند ہے۔ یہ ہے انسانیت۔ نگاہ میں یہ وسیع النظری ہونی چاہئے۔
آج اس عظیم دنیا کے لئے جو اہداف اور امنگیں ہمارے ذہنوں میں ہیں انہیں دنیا کی کوئي بھی قوم، کوئی بھی فرزانہ دانشور اور کوئی بھی انصاف پسند سیاستداں مسترد نہیں کرتا۔ ہم تسلط پسندانہ نظام کے خاتمے و نابودی کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ تسلط پسند اور تسلط کا شکار ہوکر خاموش رہنے والوں کے مابین جو تعلق اور رابطہ ہے (ہم اسے ختم کرنے کے خواہشمند ہیں) اس بات کو وہ انسان بھی جو کسی ایسے ملک میں رہ رہا ہے جہاں کی حکومت حقیقی معنی میں تسلط پسند حکومت ہے، اس نعرے کو مسترد نہیں کرےگا۔ یعنی عالمی روابط اور تعلقات میں تسلط پسند اور تسلط کے شکار ملکوں والا رابطہ کہیں نہ ہو۔ اسی طرح انصاف اور سائنس کا فقط بشریت کی آسائش کے لئے، نہ کہ اسے خطرات سے دوچار کرنے کے لئے، استعمال ہے۔ خاص طور سے دنیا میں سائنسی تحریک نشئاۃ ثانیہ کے بعد اور خصوصا اس گزشتہ صدی میں علم و دانش کے شعبے میں جو کچھ ہوا وہ بشریت کے لئے آسائش و سکون فراہم کرنے کے بجائے یا جانوں کے لئے خطرہ بنا، یا اخلاقیات کے لئے خطرہ بنا، یا کنبے اور خاندان کے لئے خطرہ بنا، یا صارف کلچر کی ترویج اور عالمی لٹیروں اور کمپنیوں اور انڈسٹریز گروپ کے مالکان کی جیبیں بھرنے کا باعث ہوا۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ علم و دانش کا استعمال ان چیزوں کے بجائے انسانیت کی خدمت کے لئے ہونا چاہئے۔ انسانوں کو آسائش و آسودگی فراہم کرنے کے لئے ہونا چاہئے، انسان کی روح و جان کی طمانیت اور اس کے ذہن و دل کے سکون و اطمینان کا باعث ہونا چاہئے۔ ان باتوں کو دنیا میں کوئی بھی مسترد نہیں کر سکتا۔ آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی نظام ان اہداف اور امنگوں کے ساتھ یا کوئی قوم تمام میدانوں میں پیشرفت و ترقی حاصل کرنے کے لئے قوت ایمانی کو بروئے کار لانے، مومنین کو حاصل ہونے والی غیبی امداد کے وعدہ قرآنی سے آس لگانے، موت سے نہ ڈرنے اور موت کو اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ اور شہادت فی سبیل اللہ کا وسیلہ ماننے جیسی خصوصیت کی حامل اور شہید چمران جیسی صاحب علم اور فرزانہ شخصیات سے مزین ہو تو وہ کہاں پہنچے گی؟! یہ وہ امید ہے جو ہم نے لگا رکھی ہے۔
بسیج (رضاکار فورس) کے بارے میں بھی چند باتیں عرض کروں گا۔ بسیج ایک عجیب اور بے مثال تحریک تھی جو انقلاب کے تناظر میں رونما ہوئی۔ یہ بھی حکمت الہی کے سرچشمے سے بہنے والے دریا کی مانند ہے، جس کا خیال اللہ تعالی نے اس برگزیدہ انسان یعنی ہمارے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے ذہن میں ودیعت کر دیا۔ امام واقعی صاحب حکمت انسان تھے، حقیقی معنی میں صاحب حکمت شخص تھے۔ ہم بسا اوقات حکیم کا لفظ بعض معمولی انسانوں کے لئے بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ لیکن وہ حقیقی معنی میں صاحب حکمت انسان تھے۔
«و من يؤت الحكمة فقد اوتى خيرا كثيرا» اللہ تعالی نے انہیں حکمت سے نوازا تھا۔ آپ کے دل اور وجود سے حقائق کا دریا بہتا تھا۔ اس کی متعدد مثالوں میں ایک یہی بسیج ہے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے انقلاب کی کامیابی کے شروعاتی ایام میں بلکہ کامیابی کے کچھ قبل سے ہی عوام کو میدان میں لاکر، عوام کے دوش پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال کر، عوام پر اعتماد کرکے، بسیج کی بنیاد رکھی۔ آپ نے عوام پر اعتماد کیا تو قوم کے اندر جذبہ خود اعتمادی پیدا ہو گیا۔ اگر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے عوام پر بھروسہ اور اعتماد نہ کیا ہوتا تو عوام میں بھی خود اعتمادی پیدا نہ ہو پاتی۔ یہیں سے بسیج کی بنیاد پڑی۔ حقیقت یہ ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب فورس بھی بسیج کے ہی بطن سے نکلی۔ تعمیراتی جہاد بھی اسی کے بطن سے نکلا۔ حالانکہ بسیج کا ادارہ جیسا بعد کے برسوں میں بن گیا ویسا اس وقت با قاعدہ منظم ادارہ نہیں تھا لیکن بسیجی (رضاکارانہ) ثقافت، بسیجی حقیقت اس وقت بھی ملک میں، ہمارے معاشرے میں اور اسلامی نظام میں بے پناہ برکتوں کا سرچشمہ رہی۔ اس سچائی کا نام ہے بسیج۔ بسیج در حقیقت ملکی سطح پر ایک ہمہ گیر اور بے لوث خدمت کرنے والی فوج ہے۔ یہ فوج صرف فوجی میدان میں نہیں بلکہ ہر میدان میں جد و جہد کرنے والی فوج ہے۔ فوجی میدان میں تو کبھی کبھی ضرورت پیش آتی ہے۔ ہمیشہ تو جنگ نہیں رہتی۔
بسیج کی سرگرمیوں کا علاقہ فوجی شعبے سے بہت زیادہ وسیع تر ہے۔ یہ جو میں نے کہا ہے اور مسلسل کہتا رہتا ہوں کہ بسیج کوئی فوجی ادارہ نہیں ہے، یہ کوئی تکلف کی بات نہیں ہے، امر واقع یہی ہے۔ بسیج کا کام ہے جہاد نہ کہ قتال۔ قتال جہاد کا ایک چھوٹا جز ہے۔ جہاد کے معنی ہیں میدان میں پوری محنت، جذبہ ایمانی اور ہدف کے ساتھ ڈٹے رہنا۔ اسے کہتے ہیں جہاد۔ اسی لئے ہے جاھدوا باموالکم و انفسکم فی سبیل اللہ مال سے جہاد، نفس سے جہاد۔ نفس کے ذریعے جہاد کہاں ہوتا ہے؟ صرف وہیں ہوتا ہے کہ ہم میدان جنگ میں جائیں اور جان ہتھیلی پر رکھ کر کود پڑیں؟ نفس کے ذریعے جہاد کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ رات سے صبح تک کسی تحقیقاتی پروجیکٹ پر کام کرتے رہیں اور آپ کو رات بیت جانے کا احساس تک نہ ہو۔ نفس سے جہاد کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آپ اپنی تفریح کو فراموش کر دیں، جسمانی آرام و آسائش کو درکنار کر دیں، موٹی آمدنی والے کام کو ترک کر دیں اور سارا وقت اسی تحقیقاتی اور علمی فضا میں گزاریں، اس امید پر کہ کوئی نیا سائنسی و علمی انکشاف کرکے اسے گلدستے کی مانند معاشرے کی خدمت میں پیش کر سکیں۔ اسے کہتے ہیں نفس سے جہاد۔ جہاد کا ایک چھوٹا حصہ جہاد بالمال بھی ہے۔
بہرحال بسیج ایک عمومی ادارہ ہے۔ کسی خاص طبقے سے مختص نہیں ہے اور نہ ہی ملک کے کسی مخصوص جغرافیائی علاقے تک محدود ہے اور نہ کسی خاص وقت سے مخصوص ہے اور نہ ہی کسی خاص شعبے اور میدان سے مخصوص ہے۔ ہر جگہ، ہر مقام پر، ہر زمانے میں، ہر شعبے میں اور ہر طبقے میں اس کا وجود ہے۔ یہ ہے بسیج کی حقیقت۔
آپ حضرات یونیورسٹی میں رہ کر بسیج کا کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کیا کچھ کرنا ہے وہ واضح ہے۔ یونیورسٹیوں کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ ملک کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ چند سالوں سے ہم نے علم و دانش کا موضوع اٹھایا ہے تو آج آپ دیکھ لیجئے کہ ہماری علمی و سائنسی پیشرفت ایسی ہوئی کہ اس کی وجہ سے ہمارے عالمی دشمن پیچ و تاب کھا رہے ہیں، حسد میں مرے جا رہے ہیں، اپنی پسماندگی کے احساس میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آج جو لوگ ملت ایران کی تعریف و تحسین کرتے ہیں اس کے علم و دانش کی بنا پر کرتے ہیں اور جو لوگ دشمنی برت رہے ہیں وہ بھی اس قوم کے علم کی وجہ سے ہی برت رہے ہیں۔ آپ کی علمی پیشرفت کے یہ اثرات ہوتے ہیں اور یہ تو ابھی شروعات ہے۔ ابھی تو ہم نے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ یقینا نینو ٹکنالوجی، بایوٹکنالوجی، جوہری ٹکنالوجی، ایرو اسپیس ٹکنالوجی اور دیگر گوناگوں شعبوں میں بڑی اہم اور قابل لحاظ ترقی و پیشرفت ہوئی ہے لیکن ایک ملک کی علمی و سائنسی تحریک کے اعتبار سے یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ دوستوں میں سے ایک صاحب نے بتایا اور خود میرے پاس بھی یہ اعداد و شمار ہیں کہ ہمارے ملک میں علمی پیشرفت اور نئی ایجادات کی رفتار دنیا کی اوسط رفتار سے گیارہ گنا زیادہ ہے۔ یہ اعداد و شمار کینیڈا میں واقع ایک مغربی تحقیقاتی مرکز نے پوری تفصیلات کے ساتھ شائع کئے ہیں۔ گیارہ گنا بھی اوسط شرح ہے ورنہ بعض شعبوں میں ہماری ترقی کی رفتار دنیا کی رفتار سے پینتیس گنا زیادہ ہے اور بعض شعبوں میں اس سے کمتر ہے۔ مجموعی طور پر گیارہ گنا ہے۔ یعنی ہماری علمی و سائنسی ترقی کی رفتار ان دس پندرہ برسوں میں دنیا کی ترقی کی رفتار سے گیارہ گنا زیادہ رہی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے لیکن پھر بھی یہ وہ منزل نہیں ہے جس پر ہماری نظریں ٹکی ہوئی ہیں۔ یہ اس سے بہت کمتر ہے۔ یہ رفتار اسی شدت کے ساتھ جاری رہنی چاہئے تاکہ ہم اپنے مطلوبہ مقام پر پہنچ جائیں۔ یہ چیز یونیورسٹیوں میں بہت ضروری ہے۔
یونیورسٹی میں شہید چمران جیسے انسانوں کی تربیت لازمی ہے، ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ تو یونیورسٹی میں بسیجی استاد کو معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ بسیجی استاد کی دائمی خدمت، بر محل اور بر وقت موجودگی اور پر خلوص و مجاہدانہ محنت کا مطلب وہی ہے جس کا ابھی ذکر کیا گيا، اس تعلق سے استاد کا کردار بہت اہم ہے۔ تعلیمی میدان میں استاد کا کردار بے حد اہم اور فیصلہ کن کردار ہے۔ استاد صرف سبق پڑھانے والا نہیں ہوتا بلکہ استاد کا کردار اور اس کی روش بھی نمونہ ہوتی ہے تو استاد تربیت کرنے والا ہوتا ہے۔ متعلم کی علمی، معنوی اور مادی پیشرفت میں موثر عوامل کے درمیان استاد کی تاثیر بظاہر بہت زیادہ ہے، بعض عوامل سے واقعی کافی زیادہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ استاد طلبا کی پوری کلاس کو اپنے ایک جملے سے متغیر کر دے، انہیں دینداری کے زیور سے آراستہ کر دے۔ یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ کلاس دینی کلاس ہو۔ نہیں، ممکن ہے کہ آپ فیزیالوجی کی کلاس میں، ریاضیات کی کلاس میں کسی اور موضوع کی کلاس میں اپنی زبان سے ایک جملہ ادا کریں، یا کسی آیت کی بر محل تلاوت کریں یا حتی قدرت الہی اور صناعی خدا کی جانب اپنی انگلی کا ایک اشارہ کریں اور یہی چیز ایک نوجوان کے دل میں اتر جائے اور وہ پختہ ایمان کا مالک انسان بن جائے۔ استاد ایسا ہوتا ہے۔ البتہ اس کے برعکس بھی مثالیں ہیں۔ بد قسمتی سے ہماری یونیورسٹیوں میں ایسے بھی اساتذہ ہیں جو اس کے بالکل بر خلاف عمل کرتے ہیں البتہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔ وہ کوئی بھی کلاس لے رہے ہوں، موقع محل ہو یا نہ ہو اپنے ایک جملے سے ایک نوجوان میں ناامیدی اور مایوسی بھر دیتے ہیں، ملک کے مستقبل کی جانب سے اسے مایوس کر دیتے ہیں، ملک کی خدمت میں اس کے کردار کو تاریک ظاہر کرتے ہیں، اسے اس کی (علمی) میراث سے لا تعلق بنا دیتے ہیں، اس میں بیگانوں اور اغیار کے آلودہ و غیر صحتمند چشموں سے سیراب ہونے کا تجسس پیدا کر دیتے ہیں اور پھر اسے یونہی چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ بہرحال استاد اس طرح کے کردار کا مالک ہوتا ہے۔ ہم بسیج سے جو کچھ مراد لیتے ہیں، استاد کا جو مفہوم ہمارے ذہن میں آتا ہے اور بسیجی استاد سے ہم جو مفہوم اخذ کرتے ہیں اس کی بنا پر واضح ہے کہ یونیورسٹیوں میں آپ کا کردار کتنا اہم ہے۔ اسلامی نظام کے لئے اس مجموعے کا وجود ایک نعمت ہے، بہت بڑی نعمت ہے۔ اتنے مومن و متدین اساتذہ کسی بھی اسلامی ملک میں نہیں ملیں گے، غیر مسلم ممالک کی تو خیر بات ہی چھوڑئے۔ یونیورسٹی پروفیسر، سائنسداں، اپنے شعبے میں پوری طرح ماہر، اللہ پر ایمان رکھنے والے، جہاد پر ایقان رکھنے والے، راہ خدا اور اہداف الہی کے گرویدہ اساتذہ وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں! دنیا میں اس کی کوئی اور مثال نہیں ہے۔ یہ بھی ہمارے عظیم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی برکتوں کا جز ہے۔ اس کی قدر کرنی چاہئے، اسے دونوں ہاتھوں سے سنبھال کر رکھنا چاہئے، اسے اور فروغ دینا چاہئے، اہداف کا تعین کرنا چاہئے، جو سرگرمیاں بسیجی استاد کو انجام دینی چاہئے انہیں واضح کیا جائے، سامنے لایا جائے۔ آپ جہاد فی سبیل اللہ کے اس عظیم میدان کے مرد مجاہد بنیں۔ یہ بہت اہم کام ہے۔ آج ملک کو ان چیزوں کی اشد ضرورت ہے، ویسے یہ صرف آج کی بات نہیں ہے، یہ ضرورت تو دائمی ہے لیکن آج ہم ایک انتہائی حساس اور نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ میں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے اسے اس کم وقت میں اگر پیش کرنا چاہوں تو شائد اس کے دلائل کی وضاحت نہ ہو پائے، یہ چیزیں مدلل ہیں لیکن شائد چند جملوں میں ان دلائل کو بیان کر پانا ممکن نہ ہو۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسلامی بیداری کی تحریک جس کا حقیقی مظہر اسلامی جمہوریہ ایران ہے اس کے مقابلے میں عالمی سامراجی مراکز اس وقت اپنی آخری کوششیں کر رہے ہیں۔ بہت سے شعبوں میں ان کی کوششیں اور سازشیں رائگاں گئی ہیں اور وہ کچھ نہیں کر پائے ہیں۔ ان مراکز نے عالمی امور کے گرد جو حصار قائم کیا تھا وہ دنیا کے ایک حساس ترین علاقے یعنی مشرق وسطی میں ٹوٹ گیا ہے یا پھر بہت کمزور پڑ چکا ہے، میری نظر میں تو ٹوٹ چکا ہے، ان کے قابو سے باہر نکل چکا ہے۔ اللہ تعالی اپنی رحمتیں نازل فرمائے بزرگ سیاستداں اور عالم دین شیخ حسین لنکرانی مرحوم پر۔ وہ انیس سو چوہتر پچہتر میں یا اس سے قبل شاہ کی طاغوتی حکومت کی تشبیہ دیتے تھے ایسے شخص سے جو گنبد کے اوپر ہاتھ میں ریشمی رومال لئے بیٹھا ہے جس میں آخروٹ بندھے ہوئے ہیں، اچانک اس رومال کا ایک گوشہ کھل جاتا ہے اور آخروٹ اس میں سے مسلسل گرنے لگتے ہیں۔ وہ شخص آخروٹ پکڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک آخروٹ پکڑتا ہے تو دوسری طرف سے دوسرا آخروٹ گر جاتا ہے، تیسرا آخروٹ گر جاتا ہے۔ خود گنبد کے اوپر پھنسا ہوا ہے۔ اگر مسطح زمین ہوتا تو شاید کسی طرح آخروٹ جمع کر لیتا۔ میری نظر میں اس وقت اسلامی تحریک کے سامنے سامراجی نظام کی یہی حالت ہے۔ اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھسکتی جا رہی ہے۔ کیونکہ اس کے بہت سے تشہیراتی حربے جو ماضی میں بڑے مضبوط تھے دنیا والوں کے سامنے واضح ہو چکے ہیں۔ اس وقت امریکی معاشرے میں طاقتور صیہونی لابی کی موجودگی پر بے چینی بتدریج بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکا میں، جو صیہونیوں، صیہونی طاقتوں اور صیہونی سرمایہ داروں کی سرگرمیوں اور ریشہ دوانیوں کا مرکز ہے، عوام میں بے چینی پیدا ہو رہی ہے، البتہ امریکی حکومت عوام کے ساتھ سخت گیر رویہ اپناتی ہے، خاص طرح کی سخت گیری کرتی ہے، انہیں زندگی کے مسائل میں اس طرح الجھا دیتی ہے کہ انہیں سر کھجانے کی فرصت بھی نہیں ملتی لیکن پھر بھی یہ بے چینی پیدا ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں۔ یورپی ممالک میں یہ چیز کسی اور انداز سے ہے۔ اسلامی ممالک کی صورت حال تو سامنے ہے، مشرق وسطی کے ممالک کی صورت حال عیاں ہے۔ قوموں کے اندر ریاستہائے متحدہ امریکا اور عالمی سامراجی نظام کی نسبت نفرت بلکہ بسا اوقات کینہ نظر آتا ہے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں لیکن حالات ان کے قابو میں نہیں آ رہے ہیں۔
اگر دنیا میں اسلامی جمہوری نظام کا ظہور نہ ہوا ہوتا تو انہیں اتنی جلدی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا، ممکن تھا کہ پچاس سال بعد انہیں یہ دشواری پیش آتی۔ اسلامی جمہوریہ کی موجودگی اور اسلامی جمہوریہ کے ظہور نے ان کے لئے مشکلات کھڑی کر دیں۔ اسی لئے وہ اس کے پکے دشمن بن گئے ہیں اور دشمنی نکال بھی رہے ہیں، لیکن سراسیمگی اور بوکھلاہٹ کے عالم میں۔ دشمنی کی یہ صورت حال ہے۔ جو اقدامات کرتے ہیں، جو تدبیریں کرتے ہیں، جو ہنگامے کرتے ہیں، جو پروپیگنڈہ کرتے ہیں، اقوام متحدہ میں ایک قرارداد کی منظوری، کچھ پابندیاں عائد کرنا، پھر ان پابندیوں کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، حقیقت سے کہیں زیادہ ان پابندیوں کو اہمیت دینا، پھر ڈھکے چھپے انداز میں فوجی دھمکیاں بھی دینا، یہ سب اس لئے ہے کہ یہ لوگ پورے عالم اسلام میں معرض وجود میں آنے والی اس بنیادی، سنجیدہ اور عظیم اسلامی تحریک کو دیکھ کر مبہوت رہ گئے ہیں اور ملت ایران اس تحریک میں پیش پیش ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کچھ زحمتیں کھڑی کر دیتے ہیں۔ ہر سماجی ٹکراؤ میں کچھ زحمتیں تو ہوتی ہیں لیکن انسان ان زحمتوں کو برداشت کرتا ہے تاکہ اپنے وسیع تر مفادات اور بلندی تک رسائی حاصل کرے۔ آج یہی صورت حال ہے۔ بنابریں اس زاوئے سے جس کی جانب میں نے اشارہ کیا، یہ نازک اور حساس دور ہے، اس میں محنت اور تندہی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
تو پہلے درجے میں یونیورسٹیوں کے اندر علمی کام، تحقیقاتی کام، ایجادات سے متعلق امور، روحانی و ایمانی پہلو، تمام سرگرمیوں پر اور اقدامات میں جہاد اور مجاہدت کے جذبے کو عام کر دینا، وہ اہم خصوصیات ہیں جن کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد اس تحریک کو منظم کیا جائے۔ البتہ میرا ایقان ہے کہ دیندار اور ملک کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے اساتذہ بس یہی اتنے نہیں ہیں جو بسیجی اساتذہ کے زمرے میں شامل ہیں، ان سے کہیں زیادہ تعداد میں ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جن کے پاس بسیج کا شناختی کارڈ نہیں ہے، بسیجی اساتذہ میں شامل نہیں ہیں لیکن ان کا باطن بسیجی ہے، ان کی ماہیت میں دینداری ہے، باطنی طور پر پوری طرح آمادہ ہیں۔ ویسے آمادگي کی سطح ہمیشہ یکساں نہیں رہتی، اسی طرح ایمان کا درجہ بھی ایک نہیں ہوتا۔ ہمیشہ سے یہ چیز رہی ہے اور آئندہ بھی دیکھنے میں آتی رہے گی۔ اس کے باوجود سب کا تعلق ایک ہی مجموعے سے ہے۔ انہیں منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ عاقلانہ امور مدبرانہ نقطہ نگاہ سے دیکھنا چاہئے، منصوبوں کو طے کرنا چاہئے، اہداف کو واضح کرنا چاہئے۔ کام انجام پانا ہے اور اس کی ذمہ داری آپ کے اس مجموعے کے دوش پر ہے۔ انفرادی اور شخصی طور پر آپ طلبہ کی تعلیم اور طلبہ کی فکری فضا میں موجود رہنے کے لئے کوشش کیجئے۔ بسیجی اساتذہ طلبہ کے دل و دماغ میں، ان کی فکر و نظر کی وادی میں ایک رہنما اور سکون بخش ہستی کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بصیرت و آگاہی پیدا کرنے کی ذمہ داری خود اساتذہ کی صنف کے اندر اساتذہ کے مخاطب افراد یعنی طلبہ کے اندر بہت اہم ہے۔ بصیرت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دائمی آمادگی اور موجودگی کی مشق؛ جیسا کہ میں نے شہید چمران کے بارے میں بتایا۔ ایک بجے رات تک بلکہ اور دیر تک کاموں میں مصروف رہتے تھے اور صبح پو پھٹنے سے قبل محاذ جنگ پر یا جہاں کہیں بھی ضرورت ہو، پہنچ جاتے تھے۔ جہاں ضرورت ہے اس جگہ پر بر وقت حاضر رہنے کی عادت ڈالنی چاہئے، مشق کرنی چاہئے۔ اپنی صنف کے اندر اتحاد و یکجہتی اور ہمدلی و ہم خیالی کی ترویج کرنی چاہئے۔
بھائيو، بہنو، عزیزو! آج ملک کو اتحاد کی بہت ضرورت ہے۔ میں ہر اس تقریر، تحریر اور اقدام کا مخالف ہوں جو انتشار اور خلیج پیدا کرے خواہ اس کے پیچھے صحیح اور سچا جذبہ ہی کیوں نہ کارفرما ہو۔ اگر کوئی میرا خیال جاننا چاہتا ہے تو میرا خیال یہی ہے جو میں نے بیان کیا۔ ہمیں اتحاد و یکجہتی پیدا کرنا چاہئے۔ ہمیں اس عظیم صنف کے اندر رواداری اور نرمی پیدا کرنی چاہئے۔ آپ حضرات جو یہاں تشریف فرما ہیں اس مجموعے کو مختلف بہانوں سے کیا درجنوں حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا؟ بہت آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ لوگوں کے لباس کے رنگ، لوگوں کی روایات اور علاقوں کی بنیاد پر انہیں تقسیم کیا جا سکتا ہے، دیوار کھینچی جا سکتی ہے۔ انقلاب کا کمال یہ تھا کہ اس نے درمیان سے دیواروں کو گرا دیا۔ ہم بلند دیواروں کے بیچ چھوٹے چھوٹے آشیانوں میں زندگي بسر کرتے تھے۔ انقلاب نے آکر ان دیواروں کو گرا دیا اور ان چھوٹے چھوٹے گھروں کو ایک وسیع پلیٹ فارم میں تبدیل کر دیا، ملت ایران کا پلیٹ فارم، انقلابی قوم کا پلیٹ فارم۔ ہمارے یونیورسٹی طلبہ دینی طالب علموں سے دور تھے، دینی طلبہ یونیورسٹی کے طلبہ سے دور تھے۔ ہمارے درمیان دیواریں کھڑی کر دی گئی تھیں۔ ہمارے اساتذہ، تاجروں کو برا سمجھتے تھے اور تاجروں کے تعلقات کسانوں سے کشیدہ تھے۔ ہمارے درمیان دیواریں کھڑی کر دی گئی تھیں۔ انقلاب نے آکر یہ دیواریں گرا دیں۔ اب ہم آگے بڑھ کر دوبارہ دیوار کھڑی کر دیں؟ وہ بھی غلط دیوار، ناحق دیوار۔ یہ ٹھیک نہیں۔ ہماری بنیادیں واضح ہیں، ہمارے اصول روشن و عیاں ہیں، ہماری سمت معین ہے۔ جو بھی ان اصولوں کے ساتھ اس سمت میں حرکت کر رہا ہے وہ اس صنف کا جز ہے۔ اس پر توجہ رکھئے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ ظلم اور زیادتی نہیں کرنی چاہئے۔ یہ بہت بنیادی چیز ہے۔ ظلم بہت بری اور خطرناک شئے کا نام ہے۔ ظلم صرف اسے نہیں کہتے کہ کوئی شخص سڑک پر کسی کو طمانچہ رسید کر دے۔ کبھی کبھی کسی شخص کے خلاف غلط طریقے سے ایک جملے کا استعمال بھی، ایک غلط تحریر بھی اور بیجا اقدام بھی ظلم بن جاتا ہے۔ دل کی طہارت اور عمل کی پاکیزگی کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔
میں یہ بات غالبا کسی موقع پر بیان کر چکا ہوں۔ پیغمبر اکرمۖ کھڑے ہوئے ایک شخص کو دیکھ رہے تھے جس پر زنا کی حد جاری کی جا رہی تھی۔ دوسرے لوگ بھی کھڑے دیکھ رہے تھے۔ دو لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے؛ ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ کتے کی موت مر گیا۔ پیغمبر اکرم مسجد یا گھر کی جانب روانہ ہوئے اور یہ دو لوگ بھی پیغمبر کے ساتھ چل پڑے۔ راستے میں ایک مردار پڑا نظر آیا، کتا تھا یا کوئی اور جانور تھا جو وہاں پڑا ہوا تھا۔ پیغمبر نے ان دونوں کی جانب مڑ کر فرمایا کہ اس (مردار) کا گوشت کھاؤ۔ دونوں نے تعجب سے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ ہمیں مردار کھانے کی دعوت دے رہے ہیں؟! آپ نے فرمایا کہ جو کام آپ نے اپنے اس (سزا یافتہ) بھائی کے ساتھ کیا وہ مردار کھانے سے بدتر تھا۔ وہ بھائی کون تھا؟ ایسا برادر دینی تھا جس نے شادی شدہ عورت سے زنا کیا تھا اور اسے سنگسار کیا گيا تھا۔ اس کے بارے میں ان دونوں نے دو باتیں کہہ دیں تو پیغمبر نے اس انداز سے ان کی ملامت کی!
تو بات جتنی ہے اس سے بڑھا چڑھا کر بیان نہ کیجئے۔ ہمیں انصاف سے کام لینا چاہئے، عدل کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔ یہ ہمارے فرائض ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ چونکہ ہم مجاہد ہیں، چونکہ ہم انقلابی ہیں اس لئے ہم ہر اس شخص کے بارے میں جو ہمارے خیال میں اور ہماری تشخیص کے مطابق ہم سے کمتر ہے جو چاہیں کہہ دیں۔ نہیں یہ بالکل درست نہیں۔ یقینا ایسا ہوتا ہے کہ سب کے ایمان کے درجے یکساں نہیں ہوتے، بعض ایسے ہیں جو دوسروں سے بالاتر ہیں۔ اللہ بھی اس چیز کو جانتا ہے اور ممکن ہے کہ اللہ کے صالح بندے بھی اس سے واقف ہوں۔ لیکن جہاں تک باہمی برتاؤ اور سلوک کا معاملہ ہے تو اتحاد و یکجہتی کی حفاظت ضروری ہے، تفریق و امتیاز سے گریز لازمی ہے۔
جو چیز کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے وہ ہے اہداف اور بنیادی معیارات۔ یہ بات میں بارہا عرض کر چکا ہوں اور آج ایک استاد محترم نے بھی اس کا ذکر کیا۔ سامراج کی مخالفت، کفر اور نفاق آمیز حرکتوں کا ڈٹ کر مقابلہ، ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر، انقلاب کے دشمنوں اور دین کے دشمنوں سے اپنے فاصلے اور فرق کو واضح اور عیاں رکھنا۔ یہ سب معیار ہیں۔ اگر کوئي شخص اس فاصلے اور فرق کو واضح نہیں رکھے گا وہ در حقیقت اپنی اہمیت خود بخود کم کرے گا اور اگر (دشمنوں کی جانب) رجحان اور رغبت پیدا ہو گئی تو دائرے سے خارج ہو جائے گا۔ یہ بنیادی اصول اور ضوابط ہیں۔ انقلاب کی تحریک بالکل واضح اور عیاں ہے۔ یہ تحریک انشاء اللہ اسی طرح جاری رہے گی۔
ہم چاہ رہے تھے کہ ان بسیجی حضرات کی مانند جنہوں نے پانچ منٹ کے اندر اتنی ساری باتیں بیان کر دیں، اس طولانی مدت میں اپنی تمام باتیں ذکر کر دیں لیکن پھر بھی نہیں ہو سکا۔ ساری باتیں بیان نہیں ہو پائیں تاہم میری نظر میں جو باتیں ضروری تھیں وہ میں نے بیان کر دیں۔ اب اور زحمت نہیں دوں گا۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کی حفاظت کرے، آپ کو توفیق عطا کرے، آپ کی بصیرت و آگاہی میں روز بروز اضافہ کرے۔ خدا وند عالم آپ سب کو علمی جہاد، عملی جہاد اور علم و دانش کی فضا میں، یونیورسٹی کے ماحول میں اور معاشرے کی سطح پر بصیرت کی ترویج کے جہاد میں زیادہ سے زیادہ کامیاب کرے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌