آٹھ اردیبشہت سن تیرہ سو نواسی ہجری شمسی مطابق اٹھائيس اپریل سن دو ہزار دس عیسوی کویوم محنت کشاں کے موقع پر ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے محنت کش طبقے کے سلسلے میں دین اسلام کے نقطہ نگاہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ مادی نقطہ نگاہ کے برخلاف جس کے مطابق مزدور کام کا وسیلہ ہے، اسلام مزدور کو راہ خدا کا مجاہد مانتا ہے اور اس کے کام اور محنت و مشقت کے لئے خاص اہمیت اور الہی اجر و ثواب کا قائل ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی نقطہ نگاہ کے تناظر میں محنت کشوں کے عز و شان کی حفاظت کو بہت اہم قرار دیا اور فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی فتح کے اوائل سے اب تک محنت کش طبقہ اپنے امتحان میں پورا اترا ہے جس کا ایک نمونہ مقدس دفاع کا زمانہ ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملک کی ترقی کا انحصار علم اور پیداوار پر ہے جبکہ ایران میں طاغوتی (شاہی) اقتدار کے زمانے میں نہ تو علم کو اہمیت دی جاتی تھی اور نہ ہی علم و دانش پر استوار پیداوار کو لہذا ملت ایران برسوں تک پسماندگی کا شکار رہی جس کی تلافی کے لئے علم اور پیداوار پر پہلے سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ سامراجی طاقتوں کے لئے ملت ایران کی پیشرفت ناقابل برداشت ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ملت ایران کے سامنے صف آرا ہوکر دشمنی نکال رہی ہیں لیکن جس طرح وہ گزشتہ تیس برسوں کے دوران کچھ نہیں بگاڑ سکی ہیں، آئندہ بھی وہ کچھ نہیں کر سکیں گی۔ قائد انقلاب اسلامی کا خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

ہفتہ محنت کشاں کے ایام صرف محنت کش طبقے سے متعلق نہیں ہیں، ان کا تعلق تمام ایرنیوں سے ہے کیونکہ محنت کش طبقہ در حقیقت ملک کے مستقبل کی تعمیر کے لئے ملک کی عمومی مساعی میں پیش پیش رہنے والے طبقات میں سے ایک ہے۔ اسلام نے محنت کش کے بارے میں جو باتیں بیان کی ہیں وہ محض رسمی باتیں نہیں ہیں، صرف خوش کن الفاظ نہیں ہیں۔ اگر عظیم الشان پیغمبر اسلام جھک کر ایک مزدور کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے ہیں تو اسے تکلفات پر حمل نہیں کیا جا سکتا، یہ ایک نئی ثقافت کی بنیاد رکھنے کے معنی میں ہے، یہ سبق ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ امت اسلامیہ میں، تاریخ میں، زمانے میں مزدور کی مشاق انگلیوں اور محنتی بازوؤں کی قدر کی جائے۔ ہم مزدور طبقے کو اس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ عام مزدور، فنکار مزدور، انجینئر، ڈیزائنر اور وہ تمام افراد جو اشیاء کی پیداوار اور مصنوعات کی تیاری کے مرحلہ وار عمل میں تعاون کرتے ہیں، اسلام کی نظر میں اس عزت و احترام کے مستحق ہیں۔
مزدور طبقے کے جو مادی مطالبات ہیں وہ اپنی جگہ درست ہیں، ہر ایک کا فرض ہے کہ ان مادی مطالبات کا جو بجا مطالبات ہیں جائزہ لے اور انہیں پورا کرے۔ ایک معنوی و روحانی مطالبہ بھی ہے، جس کا تعلق ہے مزدور کی شان و منزلت سے، مزدور کی محنت و مشقت کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے سے۔ اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ یہ بھی ایک جہاد ہے، یہ بہت اہم ہے۔ مشین پر بیٹھ کر، کھیت کے اندر، ڈیزائننگ کے عمل میں یا کسی دوسری جگہ پر کام کرنے والا محنت کش جو پیداواری سرگرمیوں میں مصروف ہے اور کچھ بنا رہا ہے، اسے یہ علم ہونا چاہئے، یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ ایک بڑا کام انجام دے رہا ہے، ایک قیمتی کام پورا کر رہا ہے۔ اسلام یہ چیز سمجھانا چاہتا ہے اور یہی ہمارا عقیدہ ہے۔ اس نقطہ نگاہ اور مادی نقطہ نظر میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ پھر وہ مادی نقطہ نگاہ سرمایہ دارانہ نظام کا ہو یا اشتراکیت کا جہاں مزدور کو آلہ کار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام میں بعض محنت کشوں کی حالت مادی وسائل اور سہولیات کے لحاظ سے اچھی ہے، سب کی حالت تو اچھی نہیں ہے ہاں کچھ افراد بہتر حالت میں یقینا دکھائی دیتے ہیں، لیکن (اچھی حالت میں زندگی گزارنے والا) یہ محنت کش انسان بھی سرمایہ کاروں، منصوبہ سازوں اور مالکان کی نظر میں ایک آلہ کار سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اسکرو اور نٹ بولٹ کی طرح اس کی بھی اسی وقت تک اہمیت ہے جب تک اس سے کوئی مادی فائدہ حاصل ہو رہا ہے، پیسہ کمانے میں مدد مل رہی ہے۔ اس نقطہ نگاہ میں اور محنت کش کو مجاہد فی سبیل اللہ قرار دینے والے نقطہ نگاہ میں بہت فرق ہے۔ وہ (مجاہد فی سبیل اللہ قرار دیا جانے والا محنت کش انسان) جو کام بھی کرتا ہے اس کا مادی محنتانہ تو ہوتا ہی ہے اس کے علاوہ اجر الہی اور جزائے الہی بھی اسے نصیب ہوتی ہے۔ ان دونوں نظریات میں بہت فرق ہے۔ یہ (آخر الذکر) نظریہ بہت ضروری ہے، یہ بہت لازمی ہے۔
اسلامی نظام میں، ہمارے ملک کے جمہوری اسلامی نظام میں اوائل انقلاب سے اب تک محنت کش طبقہ اپنے امتحان میں کھرا اترا ہے۔ مسلط کردہ جنگ کے دوران جو لوگ بھی موجود تھے محنت کش طبقے کو، شہری و دیہی مزدوروں کو، صنعتی و زراعتی مزدوروں کو دیگر سروسز فراہم کرنے والے مزدوروں کو فوجی محاذوں پر اور ان محاذوں کو کمک پہچانے کے عمل میں پیش پیش دیکھتے تھے۔ سب نے دیکھا کہ ہمارے محنت کش طبقے نے ان آٹھ برسوں میں کیسا فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ بھی ابتدائے انقلاب سے آج تک محنت کش طبقہ اسلامی جمہوری نظام میں ہمیشہ امتحان میں پورا اترا ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں مزدور طبقے اور اس طبقے کی حمایت میں سنائي دینے والے سیاسی نعرے ہمیشہ حکومتوں پر دباؤ ڈالنے کے حربے کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام میں بھی روز اول سے ہی کچھ ایسے عناصر تھے جنہوں نے اسلامی جمہوریہ پر دباؤ ڈالنے کے لئے اس حربے کے استعمال کی کوششیں کیں۔ نو فروری، دس فروری اور گیارہ فروری سن انیس سو اناسی کو ایک واقعے کی تسلسل سے خبریں دی گئيں۔ میں یہ خبریں پاکر کرج روڈ پر واقع ایک کارخانے میں گیا بھی۔ ہمیں خود ملازمین نے بتایا، کارخانے سے ہمیں اطلاع ملی کہ مارکسسٹ گروہ سے وابستہ عناصر وہاں پہنچے۔ وہ اس کارخانے کو اپنا ٹھکانہ بنانا چاہتے تھے، وہاں ظاہر ہے کہ جوشیلے مزدور موجود ہیں اور کرج روڈ پر کارخانوں کی تعداد بھی خاصی زیادہ ہے۔ ان کا ارادہ تھا کہ وہاں مزدوروں اور ملازمین کو جمع کریں اور مدرسہ علوی کی جانب روانہ ہوں جہاں امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) قیام پذیر تھے اور وہاں جاکر حالات کی باگڈور اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ میں اس کارخانے میں گیا۔ اس کارخانے میں کام کرنے والوں کی تعداد تین سو چار سو تھی جبکہ اس بڑے ہال میں موجود افراد کی تعداد سات سو آٹھ سو تھی یعنی ملازمین کے علاوہ باہر سے بھی کچھ افراد وہاں پہنچ گئے تھے۔ کئی دن ایسا ہوا کہ میں صبح اس کارخانے میں گیا اور شام کو لوٹا، یا پھر لوٹتے لوٹتے رات ہو گئي۔ ایک دن تقریبا سات گھنٹے میں نے بات کی، تقریر کی۔ ان میں سے ایک شخص اٹھ کر سامنے آیا، اس نے پہلے نعرہ لگایا اور پھر اپنی بات کہی۔ میں نے جواب دیا۔ آخرکار یہ ہوا کہ ملازمین نے خود ہی ان تخریب پسند عناصر کو باہر نکال دیا۔ اس دن سے آج تک اسلام اور اسلامی نظام کے خلاف مزدور طبقے کو سیاسی حربے کے طور پراستعمال کرنے کی کوشش، اسلام اور اسلامی جمہوری نظام کے دشمنوں کے منصوبے میں شامل رہی ہے۔ وہ تیس سال سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف یہ حربہ استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور تیس سال سے ہمارے ملک کے مزدوروں اور ملازمین سے انہیں منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ محنت کش طبقے کے سلسلے میں یہ ہماری شناخت ہے۔ اسلامی نظام اور محنت کش طبقے کے مابین قربت اور اپنائیت کا یہ عالم ہے جس کی بنیاد ایمان اور وہ مستحکم ستون ہیں جن کے سہارے اسلامی جمہوری نظام وجود میں آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محنت کش اور سرمایہ کار دونوں کی محوریت کے ساتھ ملک کی مجموعی پیش قدمی جاری رہے گي اور اس میں کوئی بھی رخنہ اندازی نہیں کر سکے گا۔
اب آئیے اس مسئلے کی ماہیت کا جائزہ لیتے ہیں۔ ملک کی مادی پیشرفت کا بنیادی طور پر دو عناصر پر انحصار ہوتا ہے۔ ایک علم و دانش کا عنصر ہے اور دوسرا پیداوار کا عنصر ہے۔ اگر علم و دانش نہ ہو تو پیداوار متاثر ہوتی ہے، علم و دانش کی مدد سے ملک آگے بڑھتا ہے۔ اسی طرح اگر علم و دانش تو ہو لیکن اس علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کی بنیاد پر پیداواری اور صنعتی شعبے کو ترقی حاصل نہ ہو، فروغ نہ ملے تو ملک آگے نہیں بڑھ پائے گا۔ طاغوتی حکومتوں کے دور میں ہمارے سامنے بڑی مشکل یہ تھی کہ نہ ہمارے پاس سائنس و ٹکنالوجی تھی اور نہ جدید ٹکنالوجی پر مبنی ترقی پذیر صنعت۔ یہی وجہ تھی کہ جب جب دنیا نے صنعتی میدان میں قدم رکھے تو اسے ترقی ملی، ایشیا بر اعظم جو یورپ کے بعد صنعتی میدان میں اترا، اس نے بھی ترقی کی لیکن ہم ان طاغوتی حکومتوں اور دگرگوں حالات کی وجہ سے پیچھے رہ گئے۔ اب اگر ہم اس کی تلافی کرنا چاہیں اور ظاہر ہے کہ ہم ایسا چاہتے ہیں اور ہماری قوم اس سلسلے میں پیش قدمی شروع بھی کر چکی ہے اور خاصا آگے بھی پہنچ گئی ہے، تو ہمیں علم و دانش اور صنعت و پیداوار کو اہمیت دینی ہوگی۔ ہمیں علمی و سائنسی مراکز میں، تحقیقاتی مراکز میں جدید روشوں کے ذریعے آگے بڑھنا ہوگا۔ چند برسوں سے میں علم و دانش کے موضوع پر خاص طور سے تاکید کر رہا ہوں۔ الحمد للہ سائنسی پیشرفت اور نئے علوم کی دریافت کا سلسلہ ملک میں شروع ہو چکا ہے۔ البتہ ہم ابھی آغاز سفر میں ہیں، ہمیں اپنی رفتار تیز کرنا ہوگی۔
دوسرا مسئلہ ہے پیداوار کا۔ وہ صنعتی شعبہ ہو یا زراعتی میدان، پیداوار کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ جس ملک کے پاس پیداوار نہ ہو وہ بہرحال دوسرے پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر پوری دنیا کا تیل اور گيس ہماری زمین کے اندر اور ہمارے کنوؤں میں جمع ہو جائے تو بھی ہمارے کسی کام آنے والا نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ایسے ممالک موجود ہیں جو معدنی ذخائر کے لحاظ سے اور قدرتی دولت کے لحاظ سے خواہ وہ توانائي کے ذخائر ہوں یا کمیاب اور قیمتی دھات کی معدنیات، دولت کے ڈھیر پر کھڑے ہوئے ہیں لیکن اسی زمین پر جس کے نیچے یہ خزانہ چھپا ہوا ہے عسرت و بدبختی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تو ملک میں پیداوار کو خاص طور پر سائنس و ٹکنالوجی اور مہارتوں پر مبنی پیداوار کو فروغ دیا جانا چاہئے اور اس کا دار و مدار محنت کش طبقے اور سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں پر ہے جبکہ اس کی انتظامی ذمہ داریاں حکومت پر عائد ہوتی ہیں۔ اسے منظم کرنا چاہئے تاکہ کام بخوبی انجام پائے۔ ہم نے دفعہ چوالیس کی جو پالیسیاں چند سال قبل حکومتی اداروں اور مقننہ کو بھیجیں ان سے اس سلسلے میں مدد مل سکتی ہے البتہ اس کے لئے سب کو پوری توجہ دینی ہوگی۔
انسان بہت عجیب مخلوق کا نام ہے۔ میرے عزیزو! کبھی کبھی یہ نماز شب اور عبادت بھی شیطان کے غلبے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ خود اس انسان کے فریب نفس کا ذریعہ بن جاتی ہے جو نماز شب ادا کر رہا ہے۔ ہر اچھا خیال اور ہر اچھی فکر شیطان کی در اندازی کا دریچہ بھی بن سکتی ہے۔ دفعہ چوالیس کی پالیسیاں بہت اچھی ہیں، یہ بہت اہم اور ضروری پالیسیاں ہیں جن پر وسیع پیمانے پر عمل ہونا چاہئے لیکن یہ خیال بھی رہے کہ وہ نماز شب کی مانند شیطان کا جال نہ بن جائیں۔ یہاں بھی ممکن ہے کہ شیطان دراندازی کر لے۔ میں نے بارہا کہا ہے کہ مفاد پرست انسان، قانون شکنی کرنے والے قانونداں، مالک، نوکر عہدہ دار، ملازم اور گلی و بازار کے افراد کا سرمایہ ہضم کر لینے کے ماہر افراد اپنا کوئي الو سیدھا کرنے کے لئے کبھی کبھی کوئي کارخانہ خرید لیتے ہیں، پھر اسے مختلف بہانوں سے دیوالیہ کر دیتے ہیں، وہاں کام کرنے والوں کو بے روزگار بنا دیتے ہیں، کارخانے کی مشینیں بیچ کر اپنا پیسہ نکال لیتے ہیں، کارخانے کی زمین کو اربوں اور کھربوں میں بیچتے ہیں۔ اس طرح کی حرکتیں ہوئی ہیں، لہذا سب کو چاہئے کہ ہوش و حواس بجا رکھیں۔
کام کے سلسلے میں دوسرا مسئلہ ہے محنت کش طبقے اور سرمایہ کار یا صنعت کار کے باہمی رابطے کا۔ ہمارے زمانے میں رائج دونوں اشتراکیت اور سرمایہ داری کی روشیں غلط ہیں۔ اشتراکی نقطہ نگاہ سے محنت کش طبقہ اور سرمایہ کاروں کا طبقہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن تھے، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ اس نقطہ نگاہ کا یہ تجزیہ تھا۔ جو راہ حل پیش کی گئی وہ بھی پوری طرح غلط تھی۔ تمام پیداواری شعبوں اور پیداواری وسائل پر حکومت کی مالکیت کی بات کی گئي۔ چند عشروں کے اندر ہی اس نظرئے کے نتیجے میں کیسی کیسی سیاہ کاریاں ہوئیں۔ وہ نظریہ محنت کش طبقے اور سرمایہ دار طبقے کے مابین دشمنی اور مخاصمت کا نظریہ تھا۔ دوسرا نقطہ نگاہ مغربی دنیا کا ہے جس کے مطابق سرمایہ کار محنت کش طبقے کا حاکم ہوتا ہے، مالک و مختار ہوتا ہے جبکہ محنت کش کی حیثیت ایک آلہ کار اور مشین کے ایک پرزے کی ہوتی ہے۔ یہ انسان کی شخصیت کو کچلنا ہے جو سراسر غلط ہے۔ اس طرح دونوں ہی نظریات نا درست ہیں۔
اسلام کا نقطہ نگاہ بالکل محتلف ہے۔ اسلام کا نقطہ نظر تعاون کا نقطہ نگاہ ہے۔ یہ دو عناصر ہیں جن کے باہمی تعاون سے کام انجام پاتا ہے، مارکسسٹ نظرئے کے برخلاف جو ہر چیز کو تضاد پر مبنی قرار دیتا ہے۔ الحمد للہ یہ نظریہ دنیا میں فلسفیانہ افکار کے صفحے سے مٹ بھی گيا۔ اسلامی نقطہ نگاہ رواداری کی بات کرتا ہے، باہمی تعاون کی بات کرتا ہے۔ دو فریق ایک دوسرے کے دشمن بن کر مصنوعات تیار کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے قریب ہو جائیں اور مصنوعات تیار کریں، یہ اسلامی نقطہ نگاہ ہے، جو فطری اور قوانین خلقت سے ہم آہنگ نقطہ نگاہ ہے۔ تمام دنیاوی امور میں یہی چیز ہے۔ فطری امور سے لیکر سیاسی، تاریخی، معاشی اور غیر معاشی باتوں تک تضاد کی بات کرنے والے مارکسسٹ نظرئے کے بر خلاف اسلام کا نظریہ باہمی دوستی، تعاون اور یگانگت کا نظریہ ہے۔ محنت کش اور سرمایہ کار کے سلسلے میں بھی ایسا ہی ہے۔ یہ دو طبقات ہیں جنہیں ایک دوسرے کا ہاتھ آگے بڑھ کر تھام لینا چاہئے تاکہ کام انجام پائے اچھی پیداوار ہو سکے۔ سرمایہ کار نہ ہو تو محنت کش طبقہ کام انجام نہیں دے سکتا، اسی طرح محنت کش طبقے کے بغیر سرمایہ کار کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں جب ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں اور اپنے درمیان ایک اچھا صحتمند اخلاقی و انسانی رشتہ قائم کر لیں تو پھر پیداوار میں تیزی سے اضافے کی زمین ہموار ہو جائے گی۔ مادی ترقی کے ساتھ ہی معنوی و روحانی ارتقاء بھی حاصل ہوگا، یہ ہمارا نقطہ نگاہ ہے۔ ہم نہ تو سرمایہ کار اور صنعت کار کو مارکسسٹ نقطہ نگاہ کے مطابق قابل نفرت سمجھتے ہیں اور نہ ہی اسے سرمایہ دارانہ نطام کی طرح مطلق العنان مالک مانتے ہیں۔ ہمارے نقطہ نگاہ سے سرمایہ کار اور صنعت کار بھی ایک با شرف انسان ہو سکتا ہے، اگر وہ تعاون کر رہا ہے تو واقعی شریف انسان ہے۔ یہ شریف انسان دوسرے شریف انسان یعنی محنت کش کے ساتھ مل کر، دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کرانسانی و اسلامی روابط کے تناظر میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ یہی کام کی بنیاد ہے۔ سب کو اس سمت میں آگے بڑھنا چاہئے۔ منصوبہ ساز، پالیسی ساز، سیاستداں اور اجرائی عہدہ داران سب کو چاہئے کہ اس سمت میں کام کریں۔ اس کے علاوہ سرمایہ کاروں اور محنت کش طبقے کو بھی چاہئے کہ پورے اخلاص کے ساتھ کوشش کریں کہ ان کے کام سے ملک کی ترقی ہو۔
عزیزو! ہم بہت پیچھے ہیں۔ البتہ اگر طاغوتی دور سے موازنہ کیا جائے تو ہم بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ (شاہی حکومت کے) طاغوتی دور میں ہم صنعتوں، کارخانوں اور مشینوں کے چھوٹے چھوٹے پرزے کے لئے اغیار کے محتاج تھے۔ جو کارخانے لگائے گئے تھے وہ بھی پوری طرح اغیار پر منحصر تھے۔ ہمیں نہ مشینوں کی ڈیزائننگ کا علم تھا، نہ کچھ ہم بنا سکتے تھے اور نہ ہی ہمیں ضروری عناصر کی کوئی شد بد تھی۔ سب کچھ دوسروں سے لینا پڑتا تھا۔ ضرورت پڑنے پر ہم التجاء کرتے پھرتے تھے، تیل دیتے تھے، پیسے دیتے تھے، بے عزتی اٹھاتے تھے، اپنی سیاسی طاقت دیتے تھے، اغیار کے حلقہ بگوش بنتے تھے تب جاکے ہمیں کچھ مل پاتا تھا۔ آج یہ عالم ہے کہ ملت ایران ٹکنالوجی ایکسپورٹ کر رہی ہے۔ آج آپ کا ملک ڈیم کی تعمیر اور بجلی گھر کی تعمیر میں دنیا کا سب سے اہم ملک بن چکا ہے۔ تو یہ پوزیشن کہاں اور وہ ماضی کی حالت کہاں؟ آج جو کام آپ انجام دے رہے ہیں، صنعتی کام اور فنی کام، دنیا میں اس کی مانگ بہت ہے۔ آپ دنیا کے بہت سے ملکوں میں پروڈکشن لائن چلا رہے ہیں۔ (شاہ کے) طاغوتی دور میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہم ایک ملک میں جاکر، بڑی آبادی والے ایک ملک میں جاکر جس کے پاس تیل ہے، قدرتی دولت ہے، پروڈکشن لائن شروع کر دیں؟ صنعتی پیداوار شروع کر دیں؟ اس بارے میں کوئي سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن آج ایسا ہو رہا ہے۔ بنابریں ماضی کی بنسبت ہم نے بہت ترقی کی ہے لیکن ملت ایران کی جو شان ہے اور ہماری تاریخی میراث کا جو تقاضا ہے، دنیا کے ملکوں میں ایران کا جو مقام و مرتبہ ہونا چاہئے اس کی بنسبت ہم ابھی پیچھے ہیں، ہمیں آگے جانا ہے۔ ہمیں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں جو دوہرے عزم کی بات کرتا ہوں اس کی وجہ یہی ہے۔ ہمارا عزم بس اتنا نہیں ہونا چاہئے کہ اپنے راستے میں موجود پتھر کو ہٹا دیں، یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمیں بلند ترین چوٹی کو سر کرنے کا عزم رکھنا چاہئے۔ دوہرے عزم کا یہی مطلب ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ چیز مفت ہاتھ نہیں آئے گی۔ خالی باتیں بنانے سے یہ چیز حاصل ہونے والی نہیں ہے۔ یہ چیز میدان عمل میں حقیقی معنی میں قدم رکھنے اور خلاقی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے حاصل ہوگی۔
محنت کش طبقے کا عزم، انجینئر کا عزم، ڈیزائنر کا عزم، تحقیقی مرکز کے محقق کا عزم جو کاموں میں ٹکنالوجیکل تعاون کر رہا ہے، سرمایہ کار کا عزم، بجٹ فراہم کرنے والے کا عزم، حکومتی عہدہ دار کا عزم، ان سب کا عزم دوہرا عزم ہونا چاہئے اور یہ حد امکان میں بھی ہے۔ ہماری اور آپ کی صلاحیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئي انسان کسی کو اس کی توانائي سے بڑا کوئي کام سونپنا چاہتا ہے۔ یہ درست نہیں ہے لیکن جب آپ ایک نوجوان کو دیکھ رہے ہیں، اس کے ہیکل کا جائزہ لے رہے ہیں، اس کے بازوؤں کی ابھری ہوئی مچھلیوں کو دیکھ رہے ہیں، آپ کو محسوس ہو رہا ہے کہ وہ نوجوان ایک اچھا پہلوان بن سکتا ہے، صف اول کا جمناسٹ بن سکتا ہے یا کسی اور شعبے میں نمایاں مقام تک پہنچ سکتا ہے، اسٹار بن سکتا ہے، اب اگر آپ اس سے کہیں کہ بیٹے جاؤ محنت کرو تو وہ ظاہر ہے کہ اس نحیف و لاغر شخص سے الگ ہے جو بیس سال بھی مشق کرے تو ایک اچھا کشتی گیر نہیں بن سکتا۔ ملت ایران اسی قوی الجثہ اور با اسعتداد نوجوان کی مانند وسیع صلاحیتوں کی مالک ہے۔ اگر وہ محنت کرے تو بلند چوٹیوں پر پہنچ سکتی ہے، چیمپین بن سکتی ہے۔ ملت ایران کا یہ عالم ہے، یہ قوم اس بات کو ثابت بھی کر چکی ہے۔ یہ صرف دعوے نہیں ہیں، یہ صرف نعرے نہیں ہیں۔ یہ زمینی حقائق ہیں جو مطالعے میں سامنے آئے اور جو ان تیس برسوں کے تجربات کے نتیجے میں روز روشن کی مانند عیاں ہو گئے۔
ایک ایسی قوم جس کی کوئی بھی مدد نہیں کر رہا ہے۔ جس کے لئے صنعتی مصنوعات اور سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ہونے والی پیشرفت کے دروازے بند کر دئے گئے ہیں۔ اس سب کے بعد یہ قوم دوسری، تیسری اور چوتھی نسل کی سنٹری فیوج مشینیں بنا لے تو ظاہر ہے کہ دنیا میں ایٹمی صنعت کے مالک ممالک اور ایٹمی طاقتوں کا مبہوت رہ جانا یقینی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس قوم نے کہاں سے یہ مہارت حاصل کی؟ بیالوجی کے شعبے میں جس قوم کی کسی نے مدد نہیں کی، اچانک لوگ کیا دیکھتے ہیں کہ یہی قوم اسٹیم سیلز سے جانور پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ دنیا میں کتنے ممالک کے پاس یہ ٹکنالوجی ہے؟ سات، آٹھ یا نو ممالک کے پاس۔ اتنے سارے ممالک کے درمیان سے، اتنے بڑے بڑے دعویداروں کے بیچ سے اچانک ہم دو سو نمبر سے آکر آٹھویں نمبر پر اپنی جگہ بنا لیتے ہیں، اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ کیا یہ غیر معمولی صلاحیتوں کی علامت نہیں ہے؟ (آٹھ سالہ) جنگ کی شروعات ہوئی تو ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ آر پی جی کیا ہے؟ آر پی جی چھوٹا میزائل ہے۔ جو لوگ جنگ میں تھے انہوں نے دیکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ یہ ہمارے پاس نہیں تھا اور نہ ہم اسے چلانا جانتے تھے اور نہ ہی وہ فوج کے اسلحے میں شامل تھا۔ اس عالم میں بھی چند سال گزرنے کے بعد اور پابندیوں کا سامنا ہونے کے باوجود ہمارا ملک سجیل میزائل بنا لیتا ہے، سیٹیلائٹ کیریئر خلائی راکٹ بنا لیتا ہے اور دنیا حیرت میں ڈوبی نگاہوں سے یہ ماجرا کھڑی دیکھ رہی ہے۔ پہلے تو سب منکر ہو گئے، کہنے لگے کہ ایران جھوٹ بول رہا ہے، فضول باتیں کر رہا ہے، اس کے پاس صلاحیت ہی نہیں ہے۔ لیکن بعد میں کیا دیکھا کہ نہیں، صورت حال کچھ اور ہے۔ دوسرے تمام شعبوں میں بھی یہی ہوا۔ ان چیزوں سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ نوجوان نسل بڑی با صلاحیت ہے، یہ قوم بے پناہ صلاحیتوں کی مالک ہے۔ یہ افرادی قوت بڑی با ارزش اور لائق قدر ہے۔ اس سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے۔ معلوم ہوا کہ ہمارے اندر صلاحیت موجود ہے۔ دوہرے عزم کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس صلاحیت کو رو بہ عمل لائيں۔
ایران کے سامنے جو طاقتیں صف آرا ہیں، جو غرا رہی ہیں، جو بد اخلاقیوں پر تلی ہوئی ہیں اور جو حتی المقدور مشکلات کھڑی کرنے کی کوششوں میں لگی رہتی ہیں، وہ سامراجی طاقتیں ہیں، وہ استکباری دنیا ہے، ظالم و ستمگر سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل میں گرفتار دنیا ہے۔ وہ ( ملت ایران کی اس پیشرفت کو) برداشت نہیں کر سکتی۔ کیونکہ یہ چیز اس کے اصولوں کے بر خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران سے دشمنی نکالی جاتی ہے اور آپ ان تیس برسوں میں اس دشمنی کا مشاہدہ مسلسل کرتے رہے ہیں۔ یہ طاقتیں کچھ بھی بگاڑ نہ سکیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی وہ کچھ نہیں کر پائیں گی۔
ہمارا سارا بھروسہ الطاف خداوندی پر ہے، توفیقات الہی پر ہے۔ ہمارا تکیہ اسی ایمان پر ہے جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا اور جو آپ کے دلوں میں اور ملت ایران کی ہر فرد کے دل میں رچا بسا ہے۔ جب یہ سہارا موجود ہو اور انسان اپنی طاقت و توانائی کو بروئے کار بھی لائے اور اپنے طور پر پوری کوشش کرے تو یہ عبارت ہوگا «انّ الّذين امنوا و عملوا الصّالحات» سے۔ یہ ہوگا آپ کا ایمان اور عمل صالح۔ قرآن میں عمل صالح انجام دینے والے مومن کو جو مژدہ سنایا گيا ہے دنیا میں کامرانی، عالم آخرت میں فلاح و نجات اور دنیا و آخرت میں سربلندی و سرفرازی اور عزت و وقار کا، وہ اسی ایمان اور عمل صالح کا ثمرہ ہے۔ ہمیں اسی راہ میں آگے بڑھنا چاہئے۔
خدا کی رحمت اور درود و سلام ہو ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) پر جنہوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا۔ انہوں نے ہمیں اس راستے پر پہنچایا، انہوں نے ہماری مدد کی، انہوں نے اپنی الہی ماہیت سے ہمیں بیدار کیا اور اس وادی میں پہنچایا۔ اب یہ قوم جیسے جیسے ترقی کرے گی اللہ تعالی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی حسنات میں اضافہ کرتا جائے گا۔ اللہ کا درود و سلام ہو ہمارے شہدا پر، ہمارے مجاہدین اور ان لوگوں پر جنہوں نے اس راہ میں فداکاری و جاں نثاری کی، جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں پہنچ گئے، وہ خود بھی، ان کے اہل خاندان بھی۔ خواہ وہ جام شہادت نوش کرنے والے ہوں، یا جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے جانباز ہوں اور خواہ وہ افراد جو (کامیابی سے جنگ لڑنے کے بعد) بحمد اللہ ہمارے درمیان باقی ہیں۔ اللہ ان سب کو ماجور و مثاب فرمائے۔ دعا کرتا ہوں کہ توفیقات الہی اور حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی دعائیں آپ کے شامل حال ہوں۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته