قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس موقع پر تاریخ بشر کی عظیم ترین خاتون کی ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کی اور اہل بیت اطہار کی تعلیمات و معارف کی ترویج اور لوگوں کی ایمانی بنیادوں کی تقویت کو معاشرے کے با اثر افراد و شخصیات کی سب سے اہم ذمہ داری قرار دیا اور فرمایا کہ دنیا کے استبدادی عناصر اور دولت و طاقت کے گینگ ملت ایران کے قیام کو، جس نے ان کے استکباری غلبے کو کمزور کر دیا تھا آج نئے اور موثر حربوں اور روشوں کی مدد سے روک رہے ہیں اور دلوں کو روشن دینی ایمان اور اس کے ترغیب آمیز مضامین سے خالی کر دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن احساس ذمہ داری اور مجاہدتوں کے نتیجے میں ان کی سازشیں ناکام رہ گئی ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تیس سال کے عرصے میں ملت ایران کے ہاتھوں انجام پانے والے عظیم اور دور رس اثرات والے کارناموں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ملت ایران اس راہ روشن کو اپنا کر سامراجیوں کے لئے قوموں کے ذخائرے اور سرمائے پر غلبے اور لوٹ کھسوٹ کے راستے کو دشوار نہ بنا دیتی تو اسے اس طرح دشمنی اور کینہ توزی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
قائد انقلاب اسلامی نے مجمعے میں موجود مداح یا روضہ خواں حضرات کو خاص ہدایت دیں۔ روضہ خواں یا مداح ایران میں ان افراد کو کہا جاتا ہے جو نظم اور نثر کی صورت میں مناقب پیغمبر اور اہل بیت پیغمبر بیان کرتے ہیں۔
تفصیلی خطاب حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

 اللہ تعالی اس عید سعید کو اس عظیم یوم ولادت کو تاریخ اسلام کے اس مسعود دن کو آپ تمام بھائیوں بہنوں، ذاکرین و شعرا اور مناقب حضرت زہرا بیان کرنے والے حضرات نیز تمام ملت ایران کے لئے با برکت قرار دے۔ اللہ تعالی کا اپنے پورے وجود سے شکر گزار ہوں کہ اس نے یہ مہرآمیز قلوب اور یہ خروشاں جذبہ محبت کسی سرمائے کی مانند ہماری قوم کے لئے، ہماری خوشبختی کے لئے اور ہماری عزت و آبرو کے لئے مرحمت فرمایا۔ اگر ان الہی و ربانی ہستیوں کا عشق و علاقہ اور اہل بیت علیہم السلام کی محبت و مودت (ہمارے دلوں میں) نہ ہوتی تو شیعہ مسلک اپنی تمام تر مستحکم تعلیمات کے باوجود تاریخ اور وقت کے پر پیچ و خم راستے میں ان دشمنیوں کا سامنا ہونے کے بعد باقی نہ رہ پاتا۔ ان جذبات کو، اس جوش و ولولے کو معمولی شئے نہیں سمجھنا چاہئے۔ بے شیک حق بات کو ثابت کرنے کے لئے منطقی استدلال کا زیادہ اثر ہوتا ہے اور منطق و فلسفے کی مدد کے بغیر حق بات کو بھی باقی رکھ پانا ممکن نہیں ہے لیکن حق کی جانب میلان و رحجان کا یہ پھیلتا دائرہ اور طول تاریخ اسلام میں اس حق کی بقاء محبت و مودت اور قلبی و جذباتی علاقہ و لگاؤ کے بغیر ممکن نہ تھی۔ چنانچہ آپ دیکھئے کہ آغاز اسلام سے اب تک فکری و عقلی امور قلبی و جذباتی رابطوں سے منسلک رہے ہیں۔
آپ تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، فتح مکہ کے ایام میں یعنی ہجرت پیغمبر کے آٹھ سال بعد، وضو کر رہے ہیں اور آپ کے اصحاب کرام آپ کے چہرے سے ٹپکنے والے وضو کے پانے کے قطرے جمع کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ ان قطروں کو بعنوان تبرک اپنے چہروں پر ملیں تو وہی قلبی رشتے اور علاقے کی نشانی ہے۔ یہ قلبی خضوع و خشوع اور نبوی تعلیمات و معارف پر عقیدہ و یقین رکھنے سے الگ ایک چیز ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو ابو سفیان جیسے بد ترین دشمن کو حیرت زدہ کر دیتی ہے۔ اس نے یہ منظر دیکھا تو بے ساختہ کہنے لگا کہ میں نے بہت سلطنتیں، حکومتیں اور طاقتیں دیکھیں لیکن کسی کو اس طرح لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتے نہیں دیکھا جس طرح آج میں اسلام کی طاقت کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ قلبی اور جذباتی رشتہ ہے۔ اس کی حفاظت کرنی چاہئے۔
صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تاریخ بشر کی سب سے عظیم خاتون، افتخار اسلام، اس دین اور اس قوم کے لئے مایہ ناز ہستی ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مقام و مرتبہ ایسا عظیم مقام و مرتبہ ہے کہ ہم جیسے معمولی انسانوں کے لئے اس کا تصور نا ممکن یا پھر بے حد دشوار ہے۔ کیونکہ وہ معصوم ہیں۔ فرائض اور منصب کے اعتبار سے نہ تو آپ پیغمبر ہیں اور نہ ہی منصب کے اعتبار سے امام یا جانشین پیغبمر لیکن آپ کا رتبہ پیغمبر و امام کی مانند ہے۔ ائمہ معصومین علیھم السلام بھی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا نام بڑے احترام اور عقیدت سے لیتے تھے۔ صحیفہ فاطمیہ کے معارف و تعلیمات کو بیان کرتے تھے۔ یہ بہت با عظمت باتیں ہیں۔ یہ ہے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا مرتبہ۔
اس با عظمت ہستی کی پوری زندگی میں ایک طرف علم و حکمت اور عرفان و معرفت موجزن ہے اور نتیجے میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کے معروف خطبہ فدکیہ میں جسے تمام شیعہ علماء نے نقل کیا ہے اور ساتھ ہی بعض سنی علمائے کرام نے بھی اس کے چند فقرے اور بعض نے پورا خطبہ نقل کیا ہے۔ جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو خطبے میں حمد و ثنائے پروردگار والے حصے میں، تمہیدی حصے میں آپ کی زبان سے علم و معرفت لا متناہی سلسلہ جاری و ساری نظر آتا ہے جو آج ہمارے پاس بحمد اللہ محفوظ ہے حالانکہ آپ مقام تعلیم میں نہیں تھیں، علم و دانش کے موضوع پر خطبہ نہیں دے رہی تھیں، یہ تو ایک سیاسی بحث تھی۔ ہماری قوت ادراک جس بلندی تک جا سکتی ہے اتنے با عظمت معارف اور الہی تعلیمات ہمیں اس خطبے میں ملتے ہیں۔ اس خطبہ مبارکہ میں الہی معرفتوں اور تعلیمات کا ذکر ہے۔ دوسری جانب آپ کی زندگی مجاہدت و جانفشانی سے پر نظر آتی ہے۔ ایک جانباز اور فداکار سپاہی کی مانند آپ مختلف شعبوں میں فعال اور سرگرم کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ بچپنے سے ہی مکے میں، شعب ابو طالب میں، اپنے والد گرامی کی معاونت و مدد سے لیکر مدینہ میں زندگی کے دشوار مراحل میں حضرت امیر المومنین کی ہمراہی و معیت تک، جنگوں میں، غربت میں، خطرات میں، مادی زندگی کی سختیوں اور گوناگوں مشکلات میں، پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد حضرت علی کو پیش آنے والے پرمحن دور میں، خواہ وہ مسجد النبی ہو یا علالت کا زمانہ ہر لمحہ آپ مجاہدت و سعی و کوشش میں مصروف رہیں، ایک مجاہد حکیم کی مانند، ایک مجاہد عارف کی طرح۔ نسوانی فرائض کے نقطہ نگاہ سے بھی آپ نے زوجہ اور ماں کا کردار ادا کرنے، بچوں کی تربیت اور شوہر کی خدمت کا ایک مثالی نمونہ پیش کیا۔ اس با عظمت ہستی کا امیر المومنین علیہ السلام سے جو خطاب نقل کیا گیا ہے وہ امیر المومنین علیہ السلام کے تئیں آپ کی فرماں برداری و اطاعت شعاری اور خضوع و خشوع کی علامت ہے، اس کے علاوہ بچوں کی تربیت، امام حسن اور امام حسین جیسے بچوں کی تربیت اور حضرت زینب جیسی ہستی کی تربیت یہ ساری چیزیں نسوانی فرائض کی ادائیگی، تربیت اولاد اور نسوانی مہر و محبت کے اعتبار سے ایک نمونہ خاتون کی علامتیں اور نشانیاں ہیں اور یہ ساری کی ساری خصوصیات و صفات اٹھارہ سال کی عمر میں! ایک اٹھارہ انیس سالہ لڑکی جس میں یہ روحانی و اخلاقی خوبیاں ہوں، جس کا یہ طرز سلوک ہو وہ کسی بھی معاشرے، کسی بھی تاریخ اور کسی بھی قوم کے لئے قابل فخر اور مایہ ناز ہستی ہے۔ اس عظیم ہستی کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ ان معارف اور حقائق سے آگاہی پاکر انسان آپ کے اخلاق و کردار سے آشنا ہوتا ہے لیکن اگر جذباتی لگاؤ نہ ہو، محبت نہ ہو، وہ اشتیاق و عقیدت نہ ہو، جس کے باعث آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں خواہ مصیبتیں سن کر یا منقبت بیان کئے جانے کے وقت، تو انسان کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے گا۔ یہ ایک الگ بات ہے۔ یہی روحانی و دینی رابطہ اور رشتہ ہے جس کی حفاظت ضروری ہے۔
تاریخ تشیع کے آغاز سے اب تک اس مکتب فکر کا ایک بنیادی اور اساسی عنصر یہ جذباتی رشتہ رہا ہے۔ البتہ منطق پر استوار جذباتی رشتہ، حقائق پر مرکوز جذباتی رشتہ، جھوٹے جذبات پر استوار رشتہ نہیں۔ چنانچہ آپ قرآن میں بھی دیکھتے ہیں کہ اجر رسالت ہے، قرابت داروں سے محبت و عقیدت۔ قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی (1) یہ بہت اہم نکتہ ہے جس پر توجہ دینا چاہئے۔ اس محبت و عقیدت کے باب میں کوئی غلط فہمی پیدا کرنا خواہ وہ کسی بھی صورت میں ہو، اہل بیت اطہار سے محبت و عقیدت اور ان کی پیروی کے عظیم مکتب فکر سے خیانت ہے۔ اس محبت و عقیدت کی حفاظت کرنی چاہئے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ ائمہ علیہم السلام کے دور میں محدثین اور فقہا کی ایک بڑی تعداد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام اور دیگر ائمہ علیہم السلام کی خدمت میں حاضر رہ کر تعلیمات اور احکام نقل کرتی تھی۔ شرعی باتیں نقل کرتی تھی، اخلاقی اقدار نقل کرتی اور اسے تحریری شکل دیتی تھی لیکن غور کیجئے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان تمام لوگوں کے درمیان دعبل خزا‏عی پر خاص توجہ ہے، سید حمیری پر خاص نگاہ ہے، کمیت ابن زید پر خاص التفات ہے۔ ائمہ علیہم السلام کی درس گاہ میں زرارہ اور محمد ابن مسلم جیسی عظیم ہستیاں نظر آتی ہیں لیکن امام علی رضا علیہ السلام دعبل پر خاص نظر عنایت رکھتے ہیں، امام جعفر صادق علیہ السلام سید حمیری پر خاص نظر لطف رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قلبی اور جذباتی رشتہ جو شعرا کے اشعار میں، مدح خوانوں کی مدح سرائی میں اور ذاکرین کے ذکر میں بنحو اتم پایا جاتا ہے وہ دوسروں کے ہاں نہیں ملتا اور اگر ملتا بھی ہے تو کمزور ہوتا ہے یا یوں کہیں کہ خاص موثر نہیں ہوتا۔ تاریخ تشیع میں شعر، تذکرے اور مدح سرائی میں یہ خصوصیت بنحو اتم موجود ہے۔
اس جلسے میں موجود آپ حضرات کی اکثریت ذاکر و مداح اہل بیت کی ہے تو یہ آپ کے لئے ایک بلند مرتبہ ہے۔ میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ نے جو پیشہ اختیار کیا ہے اور جو فرائض اپنے دوش پر اٹھائے ہیں اس کی حقانیت ثابت کروں، یہ تو ثابت شدہ ہے۔ آپ اپنی رغبت و چاہت سے اس وادی میں وارد ہوئے ہیں، انشاء اللہ آپ رحمت الہی کے حقدار اور اہل بیت علیہم السلام کی توجہ و التفات کے مستحق قرار پائیں گے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اس طر‌ز فکر کو بخوبی پہچاننا چاہئے اور جو چیز ائمہ علیہم السلام کی توجہ کا مرکز ہے اس سے فیض یاب ہونا چاہئے۔ میں ذاکرین اہلبیت اطہار کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ کا یہ عمل بڑا با شرف اور اہم عمل ہے۔ تشیع کی بقا میں، شیعیت کے ایمان کی حفاظت میں اور پیروی اہل بیت کے سلسلے میں اس کا بڑا اہم کردار ہے۔ آپ اس کی قدر کیجئے۔
بیس سال سے زائد عرصے سے ہر سال آج کے دن یہ نشست منعقد ہوتی ہے۔ شعراء و ذاکرین اور شاعری و سخنوری کے بارے میں بہت سی باتیں بیان کی جا چکی ہیں۔ ہم نے بھی عرض کی ہیں، ویسے اچھے اقدامات، اچھی پیشرفت بھی دیکھنے میں آ رہی ہے لیکن میں یہ کہوں گا کہ گنجائش اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سالانہ جلسے میں شرکت کرنے والے حضرات سے شائد میں یہ بات کئی بار کہہ چکا ہوں کہ کبھی ممکن ہے کہ آپ کا ایک شعر ایک ماہر مقرر کی ایک گھنٹے کی مدلل تقریر سے زیادہ موثر ثابت ہو۔ تو اس میدان میں گنجائش بہت زیادہ ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس طریقے کا استعمال کرکے اور جذباتی پہلوؤں کی مدد سے معارف اہل بیت کو ملک کے گوشے گوشے میں جاکر لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اتارا اور مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ آج ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس کی دائمی احتیاج ہے۔ ہمیں اپنے ایمان کو مستحکم بنانے کی ضرورت ہے، اسے پائیدار بنانے کی ضرورت ہے۔ دشمن کی محتلف النوع تشہیراتی مہم ہمیں ورغلا نہ دے، اس کے لئے ہمیں ہمیشہ اس چیز کی ضرورت ہے۔ اس وقت حق و صداقت کے دشمن، اسلام کے دشمن، معرفت اہل بیت اطہار کے دشمن موثر حربوں کے ساتھ میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ آج وہ ہمیشہ سے زیادہ لیس ہیں، مختلف طریقے استعمال کر رہے ہیں کہ اس معاشرے کو جس نے حق کے لئے قیام کیا اور پورے عالم اسلام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی، جس نے سامراج کے پنجے کو مروڑ کیا، اسے یعنی جمہوری اسلامی معاشرے، یعنی ایران اسلامی کے معاشرے کو کمزور کر دیں، اس کی طاقت و توانائی محدود کر دیں، مسلمان قوموں اور امت اسلامیہ کی نگاہ میں اس کے عز و وقار کا خاتمہ کر دیں۔ وہ ان کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
آپ ایرانی عوام نے ان تیس برسوں میں بڑے کارہائے نمایاں انجام دئے۔ ملت ایران کے دشمن بڑے ڈھیٹ لوگ ہیں۔ تمام تسلط پسند، لٹیرے، بڑے سرمایہ دار، طاقتور گینگ، دولت و ثروت کے مافیائي گروہ آپ کے مقابلے میں کھڑے ہیں۔ آپ نے ان لوگوں پر لگام لگائی ہے، ان کے لئے مشکلیں ایجاد کی ہیں۔ ملت ایران نے ان تیس برسوں میں بڑا موثر کردار ادا کیا ہے۔ یہ جو دشمنی برتی جا رہی ہے، ملت ایران سے جو یہ کینہ نکالا جا رہا ہے وہ بلا وجہ نہیں ہے۔ اگر آپ نے اس لوٹ اور غارت گری کا راستہ بند نہ کیا ہوتا، اگر سامراجی طاقتوں کے تسلط اور توسیع پسندی کی راہ میں مشکلات اور دشواریاں کھڑی نہ کی ہوتیں تو آپ سے اس طرح دشمنی نہ نکالی جاتی۔ آج یہ دشمن اس کوشش میں ہیں کہ ملت ایران کو جوش و جذبہ بھر دینے والے سرچشمے یعنی روشن و مدلل عقیدے و ایمان سے محروم کر دیں۔ وہ طرح طرح کی روشیں استعمال کرتے ہیں، باطل کی ترویج کرتے ہیں، گوناگوں مشغلے ایجاد کرتے ہیں، فکری مشغلے پیدا کرتے ہیں، شہوانی باتوں کی ترویج کرتے ہیں، سیاسی ایشو چھیڑتے ہیں، فتنہ پروری کرتے ہیں، یہ سب ایک ہی منصوبے کے مختلف حصے ہیں۔ اب ان کے مقابلے میں کیا کرنا چاہئے؟ اس ایمان کی تقویت کرنی چاہئے جو ملت ایران کے قیام اور ثابت قدمی و پائیداری کا سرچشمہ ہے۔
اس عظیم کام کی انجام دہی میں جو چیزیں موثر اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتی ہیں ان میں ایک یہی اسلامی تعلیمات اور روحانی و انقلابی معارف کی واضح اور روشن طریقے سے ترویج کرنا اور دلوں کو محبت اہل بیت سے معمور اور انسانی وجود کو ان کے عشق سے معطر کرنا ہے۔ یہ فریضہ آج ہم سب کے دوش ہر ہے۔ اس فریضے کا ایک حصہ شعراء کے دوش پر ہے جو بہت اہم حصہ بھی ہے۔ آپ کو اپنے فن کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔ جب آپ مدح سرائی کے لئے کھڑے ہوں تو آپ کے اندر یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ آپ مبلغ دین کی حیثیت سے، دینی حقائق کا پیغام نشر کرنے والے کی حیثیت سے بہت موثر جگہ پر کھڑے ہیں۔ جب یہ احساس پیدا ہو جائے گا تو آپ شعر کا انتخاب بھی احتیاط سے کریں گے، ادائیگی اور پیش کرنے کے انداز کے سلسلے میں بھی احتیاط سے کام لیں گے۔ جو لوگ اس فریضے کی ادائیگی کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے کچھ محدودیتیں ہوتی ہیں، کچھ باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ کام خود آپ حضرات کو کرنا ہے۔ آج اگر کوئي سوال کرے کہ جناب مداحی یا روضہ خواں کے پیشے کے لئے کیا چیزیں ضروری ہیں؟ اگر کوئی مداح بننا چاہتا ہے تو اسے کن چیزوں کی ضرورت ہے؟ جواب میں آپ دو تین چیزیں گنوائیں گے۔ آپ کہیں گے کہ اس کی آواز اچھی ہو، اچھا حافظہ ہو کہ اشعار یاد کر سکے، ساتھ ہی مزاج بھی مداحی کا ہو۔ ایک انسان بس اچھی آواز اور اچھے حافظے کی بنا پر مداح یا روضہ خواں بن جائے! میری نظر میں اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ آپ مداح یا روضہ خواں کو ایک معلم کی حیثیت سے دیکھئے جو اپنے سامعین کو کچھ چیزیں سکھانا چاہتا ہے۔ آپ سب میں اس کی صلاحیت ہے۔ کسی کو اس دائرے سے باہر نہیں نکالنا چاہئے۔ جس میں بھی یہ شوق ہے آگے آئے۔ بہت اچھی بات ہے لیکن اپنے اندر اس کی صلاحیت پوری طرح پیدا کرے۔
آپ جو اشعار پڑھیں وہ معرفت کے اشعار ہوں، سبق آموز اشعار ہوں۔ خواہ حالات حاضرہ سے متعلق ہوں جیسے آج بعض صاحبان نے اشعار پڑھے جن میں معاشرے کے موجودہ مسائل کو موضوع بنایا گيا تھا، یہ بہت اہم چیز ہے، اگاہی بخش عمل ہے۔ خواہ دوسرے اشعار ہوں جن کا موضوع کچھ اور ہو۔ مثال کے طور پر آپ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو پہچنوانا چاہتے ہیں تو اس انداز سے متعارف کرائیے کہ مسلمان انسان، مسلمان خاتون، مسلمان نوجوان اس سے سبق حاصل کرے۔ اس سراپا تقدس و پاکیزگی، جہاد و سعی، حکمت و معنویت ہستی کے تئیں اپنے دل میں خضوع و خشوع کے جذبات اور یگانگت کا احساس کرے۔ یہ انسانی فطرت ہے۔ انسان کمال کی جانب راغب و مائل ہے۔ اگر ہو سکا تو ہم اپنے اندر کمالات پیدا کرتے ہیں اور اگر ممکن نہ ہوا تو جو بھی صاحب کمال ہے اس کی جانب فطری طور پر راغب ہو جاتے ہیں۔ تو ہمیں چاہئے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، حضرت امیر المومنین علیہ السلام اور ائمہ اطہار علیہم السلام کے ذوات مقدسہ میں پائے جانے والے کمالات کو سامعین کے سامنے پیش کریں اور ہمارا سامع شعر کے پیرائے میں مقفی کلام کی صورت میں اور ساتھ ہی اچھی آواز میں پیش کئے جانے والے معرفت کے اس جام کو نوش کرے جو اس کے پورے وجود میں اتر جائے۔ یہ کام بہت سے مقررین نہیں کر پاتے، بہت سے فنکار اس سے قاصر نظر آتے ہیں، اساتذہ عاجز دکھائے دیتے ہیں لیکن آپ اس پر قادر ہیں۔ میں نے بارہا سفارش کی ہے اور ایک بار پھر اس کا اعادہ کرنا چاہوں گا کہ آپ اپنے بیان کو دو حصوں میں تقسیم کیجئے۔ ایک حصہ اخلاقیات اور تعلیمات پر مبنی ہو، ہمیں آج اخلاقیات کی اشد ضرورت ہے، تعلیمات کی بےحد ضرورت ہے۔ ضروری ہو گیا ہے کہ ہماری موجودہ نسل، ہماری نوجوان نسل امید و بلند ہمتی سے سرشار، مستقبل کے تعلق سے اچھی فکر کی مالک، مومن باللہ اور اہل بیت اطہار سے قلبی وابستگی رکھنے والی ہو۔ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے نوجوان اسلامی مملکت ایران سے اپنے تعلق پر فخر کریں، امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) پر فخر کریں، اسلامی جمہوریہ پر فخر کریں، اپنے دین و مذہب پر فخر کریں اور پیروی اہل بیت پر نازاں رہیں۔ آج ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اس نظرئے کا حامل ہو کہ اس کا مستقبل، اس کے معاشرے کا مستقبل اور اس کے اس عظیم کنبے کا مستقبل اس کی محنت و مشقت اور جانفشانی پر منحصر ہے۔ وہ محنتی ہو، اہل عمل ہو، سنجیدہ و متین ہو، تندہی سے کام کرنے والا ہو، سست، کاہل اور لا ابالی نہ ہو۔ یہ تربیت کیسے کی جا سکتی ہے؟ آپ اس میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ لہذا آپ کے بیان کے ایک حصے میں ایسے اشعار ہوں جو ان مفاہیم کی ترویج کریں۔ بیان کا سب سے بہترین اسلوب بالواسطہ بیان ہے۔
اچھے اشعار کی صورت میں آپ معارف اہل بیت کی ترویج کیجئے، اسی مقام پر شعرا کے کردار کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ آج خوش قسمتی سے ہمارے ہاں اچھے شعرا کی کمی نہیں ہے۔ آج ہی جو اشعار یہاں پڑھے گئے، بہت اچھے اشعار تھے۔ آج بحمد اللہ اچھے شعراء، خوش اسلوبی بیان کے مالک افراد جو حقائق کی ادائیگی اور انہیں شعری پیرائے میں ڈھالنے میں مہارت رکھتے ہیں، موجود ہیں، ان افراد کو تلاش کیجئے۔ آپ مداح ہیں اگر آپ اچھے اشعار کے متلاشی ہوں تو شاعر کا چشمہ شعری بھی اپنی فیاضی شروع کر دے گا۔ آپ کو ضرورت ہوگی تو شاعر شعر کہے گا۔ جب آپ شاعر کا کلام پیش کریں گے تو شعر لکھنے کا اس کا شوق اور بھی بڑھ جائے گا، اس طرح دوطرفہ فروغ وجود میں آئے گا۔ شاعر آپ کی مدد کرےگا اور آپ شاعر کی معاونت کریں گے۔
آپ کے بیان کا دوسرا حصہ اہلبیت علیہم السلام کی مدح سرائی اور مصائب کے بیان پر مبنی ہونا چاہئے۔ مصائب پڑھنے کے سلسلے میں ہم نے اسی جلسے میں کئی بار اور دوسرے مواقع پر بھی یہ عرض کیا کہ واقعے کی صحیح ترجمانی ہونی چاہئے۔ یہ صحیح ہے کہ آپ اپنے محاطب کو گریاں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن گرئے کے لئے آپ واقعے کی ترجمانی کے اپنے انداز اور اسلوب کو موثر بنائیے ایسی باتیں نہ پڑھئے جن کا اصلی واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ماضی میں ہمیں معلوم ہے بعض افراد مجلسوں میں ایسی باتیں پڑھتے تھے جو اصلی واقعے سے الگ ہیں، دوران مجلس اچانک ذہن میں بات آئی اور لگا کہ سامعین کو رلانے کے لئے مناسب ہے فورا پڑھ ڈالا اور سامعین کو گریہ کروایا دیا۔ یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ لوگوں کے آنسو نکالنا مقصود نہیں ہے۔ مقصود اس غمگیں دل کو پاکیزہ معرفتوں سے متصل کر دینا ہے جو آنکھوں میں اشک پیدا کرتا ہے اور آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں، البتہ فن کی مدد سے۔
ہمارے ہاں مشہد میں ایک مداح یا روضہ خواں بڑے معروف تھے، رکن الواعظین۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ یہ پچاس سال پرانی بات ہے۔ وہ منبر پر جاتے تو سامع حضرات کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات شروع ہو جاتی۔ وہ بارہا یہ بات کہتے تھے کہ میں کبھی بھی نیزہ و خنجر کا نام نہیں لیتا، واقعی ایسا ہی تھا۔ میں نے بارہا انہیں دیکھا اور سنا۔ واقعے کی اتنی فنکارانہ انداز میں ترجمانی کرتے تھے کہ مجلس منقلب ہو جاتی تھی۔ کبھی نہیں کہتے تھے کہ قتل کر دیا کبھی نہیں کہتے تھے کہ تیر چلائے کبھی نہیں کہتے تھے کہ اس طرح تلوار ماری کبھی نہیں کہتے تھے کہ اس طرح خنجر چلایا تو فنکارانہ انداز میں مصائب پڑھے جا سکتے ہیں۔ البتہ یہ بھی بتا دوں کہ مداح حضرات جنہیں پہلے روضہ خوان کہا جاتا تھا جنہیں سننے کا اب کم ہی اتفاق ہوتا ہے لیکن بعض اوقات مداح حضرات سے مستفیض ہونے کا موقع مل جاتا ہے، یہ جو زور دیتے ہیں کہ بآواز بلند گریہ کیا جائے، یہ ضروری نہیں ہے، بے آواز بھی گریہ کیا جا سکتا ہے۔ جب سینہ زنی کرنا ہوتی ہے تو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ آواز گریہ اتنے بڑے مجمعے کی آواز گریہ نہیں ہے، اسی طرح جب سامعین صلوات پڑھتے ہیں تو بھی اصرار کرتے ہیں کہ یہ صلوات اتنی بڑی تعداد کی صلوات کی آواز نہیں ہے۔ صلوات کا مسئلہ یہ ہے کہ دل ہی دل میں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ ان چیزوں کے ذریعے مجلس میں سماں باندھنا ضروری نہیں ہے۔ آپ ایسا کچھ کیجئے کہ سامعین کی ساری توجہ آپ کی جانب خود بخود مرکوز ہو جائے۔ جب سامعین کے دل آپ کے ہاتھ میں آ گئے تو سمجھئے کہ مقصود حاصل ہو گیا۔ اب اگر سامعین آہستہ گریہ کرتے ہیں تو بھی مقصود حاصل ہے۔ سامعین نے آپ کی جانب توجہ مرکوز کی تو آپ کا مقصود حاصل ہو گیا۔ بنابریں ہماری آج کی گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ مداحی یا روضہ خوانی بہت با عظمت عمل ہے، بہت اہم عمل ہے، بہت موثر فن ہے، یہ جہاد فی سبیل اللہ کا نمایاں مصداق بن سکتا ہے۔ یہ جو آپ فرماتے ہیں کہ ہم میدان میں اترنے کے لئے آمادہ ہیں، یہ آمادگی کئی طرح کی ہوتی ہے۔ کبھی فوجی جنگ ہوتی ہے تو کبھی انسان کو ایسے دشمن کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ثقافتی یلغار اور نرم جنگ کا ماہر ہے۔ یہ بھی ایک طرح کی جنگ ہے، اس کے اپنے تقاضے ہیں۔ آپ مداح حضرات کے لئے جہاد یہ ہے کہ اپنی موثر باتین فنکارانہ انداز میں لوگوں کے دلوں میں اتاریں۔ فنکارانہ انداز کے بارے میں یہ عرض کروں گا کہ آواز تو آپ سب کی اچھی ہے، جو اشعار آپ پڑھ رہے ہیں ان میں بعض اشعار اچھے نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ چند لوگوں کو یہ پسند آ جائیں لیکن مناسب یہ ہے کہ آپ کے اشعار میں متانت ہو آپ کے پیغام کے مطابق ہوں۔ یہ بھی بہت بنیادی نکتہ ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے طفیل میں آپ سب کو کامیاب کرے اور آپ کی زحمتوں کو درجہ قبولیت عطا کرے۔ پالنے والے! محمد و آل محمد کا صدقہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی برکتوں سے ہمارے ملک، ہمارے معاشرے اور ہمارے قلوب کو ہمیشہ معمور رکھ۔ پالنے والے! دنیا و آخرت میں ہمیں اس خاندان سے جدا نہ کرنا۔ پالنے والے! ہمیں حضرت بقیۃ اللہ الاعظم امام زمانہ علیہ السلام ارواحنا فداہ کی دعاؤں سے مستفیض فرما۔ ہمیں دنیا و آخرت میں انہی برگزیدہ ہستیوں کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا! ہمارے شہدا اور ہمارے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ائمہ اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ محشور فرما۔

 

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

1) شورى: 23