یوم استاد پرملک کے ممتاز اساتذہ اور وزیر تعلیم و تربیت نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اسلام میں استاد کے بلند مقام کا تذکرہ کیا اور مغربی تہذیب میں استاد کے تعلق سے جاری روئے پر نکتہ چینی کی۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے استاد کے سلسلے میں استثنائي حکم دیا ہے کہ خود کو استاد کے سامنے چھوٹا اور حقیر خیال کریں۔
خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عزیز بہنو اور بھائیو! نیز ملک کے مثالی معلمین و معلمات' خوش آمدید۔ ہم نے معلم کے اعلی مقام و مرتبے کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ملک کے تمام معلمین سے اظہار خلوص کے لئے، اس ملاقات اور آپ بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ اس بے تکلفانہ جلسے کا اہتمام کیا ہے۔ آج ملک کی اس ثقافتی فضا میں عوام کے ذہنوں میں معلمین کے احترام و تکریم میں اضافے کا سب کو احساس ہونا چاہئے کیونکہ معلمین کی حقیقی تکریم و احترام کے معاشرے کی ثقافت اور تعلیم و تربیت پر بہت اہم اثرات مرتب ہوں گے۔
البتہ ممکن ہے کہ دنیا میں مختلف مناسبتوں پر مختلف تقریبات منعقد ہوتی ہوں۔ وہ بھی اپنی جگہ پر ضروری ہیں لیکن وہ تکریم نہیں ہے۔ تکریم یہ ہے کہ معاشرے کا ماحول ایسا ہوکہ ہر ایک یہ احساس کرے کہ اپنے معلم اور تمام معلمین کا دل اور روح کی گہرائیوں سے احترام کرتا ہے اور ان کی عظمت کا قائل ہے۔ یہ تعلیم و تربیت کی سب سے بڑی حوصلہ افزائی ہوگی۔ یہ وہی چیز ہے جو اسلام میں ہے۔ اسلام میں معلم کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ کون ہے کہ معاشرے میں اس کا کوئی معلم نہ ہو؟ اسلام کا یہ حکم اس لئے ہے کہ تعلیم و تربیت کا بازار گرم ہو، اس میں کمی نہ ہو۔ حق اور انصاف یہ ہے کہ پورے ملک میں معلمین کو اس کی ضرورت ہے۔
اسلامی ثقافت و تعلیمات میں آپ نے دیکھا ہے کہ معلم کا کتنا خیال رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ شاگرد اپنے معلم سے جھک کے ملتا ہے اور خود کو اس سے چھوٹا سمجھتا ہے۔ یہ پسندیدہ بات ہے جبکہ آپ جانتے ہیں کہ اسلام میں کسی بھی انسان کو دوسرے انسان کے مقابلے میں خود کو حقیر اور چھوٹا نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن معلم کے سلسلے میں استثناء ہے۔ والدین کا احترام و تکریم بھی استثنائی ہے۔ انسان کو والدین سے جھک کے ملنا چاہئے، ان کے سامنے خود کو چھوٹا بناکے پیش کرنا چاہئے۔ واخفض لھما جناح الذل (1) خود کو ماں باپ کے سامنے حقیر اور چھوٹا کرو۔ جبکہ کسی بھی مسلمان کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ کسی کے سامنے بھی خود کو حقیر اور چھوٹا بناکے پیش کرے لیکن ماں باپ کا معاملہ استثنائی ہے۔ معلم بھی اسی طرح ہے۔
روایتوں میں ہے کہ جب معلم کے ساتھ چلو تو اگر تاریک رات ہو تو معلم کے آگے چلو تاکہ اگر راستے میں گڈھا ہو تو تم گر جاؤ معلم محفوظ رہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معلم کی تکریم کیا ہے۔ اگر معاشرے میں یہ جذبہ عام ہو جائے اور ہر ایک یہ احساس کرے کہ معلم کے لئے اس کے اندر خضوع پایا جاتا ہے تو معلمین کے لئے فضا سازگار ہو جائے گی۔ اگر معاشرے میں معلمین کے دل خوش ہوں گے تو تعلیم عام ہوگی۔ یہ تکریم ہے۔ البتہ میں نے عرض کیا کہ بعض دیگر مادی و معنوی امور بھی ضروری ہیں لیکن اصل قضیہ یہی ہے جو انجام پانا چاہئے۔ لیکن افسوس کہ مادی سوغات کی دنیا میں معاملہ اس کے برعکس ہے اور احترام و تکریم کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ یعنی اس ثقافت میں جو ہم نے یورپ سے لی ہے، معلم کا احترام نہیں ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ معلمین کی بے احترامی کریں۔ لیکن مغربی تہذیب میں معلم کے احترام کی تعلیم مد نظر نہیں رکھی گئی ہے۔ میں نے کسی تقریر میں عرض کیا ہے کہ برسوں بلکہ صدیوں اسلامی ماحول میں شاگرد معلمین کا احترام کرتے رہے ہیں، لیکن چند عشروں سے جب سے ملک میں یورپی تہذیب آئی ہے اور علمی ماحول میں دین کو علم سے الگ کر دیا گیا، کتنے اساتذہ آدھے نمبر کے لئے، یا کلاس میں کسی نامناسب طرز عمل کے سبب شاگردوں کے ہاتھوں قتل کر دیئے گئے۔ یہ یورپی ثقافت ہے۔
البتہ آج خوش قسمتی سے اسی اسلامی اصل کی طرف واپسی ہو رہی ہے۔ آپ معلمین کو بھی اپنی قدر معلوم ہونی چاہئے۔ یعنی اپنے معلم ہونے کو اہمیت دیں۔ معلم ہونے پر فخر کریں ۔ معلم ہونا فخر کی بات ہے۔ یہ سب سے بالاتر ہے۔ یہ بات کہ کوئی معلم ہونے پر فخر کرے، معلم ہونے کی قدر کو سمجھے، تعلیم و تربیت کے لئے کوشش کرے ، اسلامی نظام کی اہم اقدار میں سے ہے۔
امید ہے کہ خداوند عالم نصرت و توفیق عطا کرے کہ ہماے ملک میں تعلیم و تربیت میں روز بروز زیادہ فروغ آئے اور وزارت تعلیم و تربیت کی کوششوں سے ملک میں کہیں بھی تعلیم و تربیت کا خلاء نہ باقی نہ رہے۔ حالیہ برسوں میں، اس میدان میں ہم نے زیادہ کوششوں کا مشاہدہ کیا ہے لیکن اب بھی کافی کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہماری مملکت کے اچھے نوجوانوں کو چاہئے کہ تعلیم و تربیت کے میدان میں زیادہ سے زیادہ سرگرم ہوں اور اپنے سے پہلے کی نسل کے ساتھ مل کے، خود ان کو تعلیم سے آراستہ کرکے ، ملک سے ناخواندگی اور جہالت کو جڑ سے ختم کر دیں۔ طویل برسوں کے دوران یورپی تربیت کے نتیجے میں ہم نے کافی نقصان اٹھایا ہے جس کی تلافی طویل المیعاد مجاہدت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
خدا وند عالم انشاء اللہ آپ کو توفیق عطا کرے، آپ کی نصرت کرے کہ یہ عظیم فرائض انجام دے سکیں۔ میں تعلیم و تربیت کے وزیرجناب نجفی اور اس وزارت کے محترم حکام پر بھی جو واقعی محنت اور کوشش کر رہے ہیں، درود بھیجتا ہوں اور ان زحمتوں پر ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ایک بار پھر آپ تمام بہنوں اور بھائیوں کا جو ملک کے مختلف علاقوں سے تشریف لائے ہیں ، خیر مقدم کرتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1- اسراء 24