اور بسیج کی درخشاں کارکاردگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ رضاکار بنے رہنا اور اخلاص و بصیرت و استقامت کے جذبے کی تقویت ایران کی با ایمان قوم کی آخری فتح کے سلسلے میں کبھی نہ بدلنے والے وعدہ الہی کی تکمیل کا راز ہے۔ آپ نے تمام ملت ایران اور انصاف و حریت کے دلدادہ افراد کو عید غدیر کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ غدیر کا ما حصل اور اس کی حقیقت کا تعلق تمام مسلمانوں اور ان تمام افراد سے ہے جو انسانیت کی فلاح و بہبود کے متمنی ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی خلافت کے سلسلے میں شیعہ فرقے کے محکم عقیدے کو یقینی اور ناقابل انکار دلائل پر مبنی و استوار قرار دیا اور غدیر کی متواتر حدیث کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جسے تمام بڑے محدثین نے نقل کیا ہے، فرمایا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولایت میں جو مفہوم مراد لیا گيا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیکر امیر المومنین علیہ السلام کو (عہدہ خلافت پر) خدا کی جانب سے منصوب کئے جانے کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں بھی وہی مفہوم اخذ کیا گيا ہے۔
اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين‌.
الحمد للَّه الّذى جعلنا من المتمسّكين بولاية علىّ اميرالمؤمنين و الائمّة المعصومين الطّاهرين‌.

میں اس باشکوہ اجتماع میں شریک تمام حضرات کی خدمت میں، ملک بھر کے بسیجیوں (رضاکارو) ، روئے زمین پر خود کو اسلام اور اسلامی حاکمیت کے تئیں ذمہ دار سمجھنے والے تمام افراد کو اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے عقیدت رکھنے والے تمام انسانوں کی خدمت میں عید غدیر کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
عید غدیر ویسے تو شیعہ فرقے کی شناخت کا جز ہے لیکن اپنے وسیع اور عمیق مفاہیم اور مضامین کے باعث یہ واقعہ اور یہ عید تمام مسلمانوں سے متعلق ہے بلکہ اس تشریح کی روشنی میں جو میں آپ کی خدمت میں پیش کروں گا اس کا تعلق ان تمام افراد سے ہے جو انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے سعادت و نجات کے لئے فکر مند رہتے ہیں۔
ہم شیعہ محکم اور ناقابل انکار دلائل کی بنیاد پر حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بارے میں پختہ عقیدہ رکھتے ہیں اور غدیر کی متواتر روایت کو، جسے اسلام کے تمام بڑے محدثین نے بشمول شیعہ و سنی کے نقل کیا ہے، اپنے اس عقیدے کی بنیاد اور اساس قرار دیتے ہیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک تپتے ہوئے دن میں ایک حساس مقام پر لوگوں کے سامنے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو اپنے بعد مسلمانوں کا امام اور ولی امر مسلمین منصوب کیا۔ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ (1) یہ جملہ ایسی متعدد آیات کی بنیاد پر کہا گيا ہے جن میں اللہ تعالی کی جانب سے پیغمبر اسلام کی ولایت کو ثابت کیا گيا ہے۔ انما ولیکم اللہ و رسولہ (2) اور اسی طرح دیگر آیات۔ ارشاد پیغمبر ہے کہ جس کا میں ولی ہوں یہ علی بھی اس کے ولی ہیں۔ پیغمبر اسلام نے جس انداز سے حضرت علی علیہ السلام کو نصب کیا ہے اور آپ کو پہچنوایا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام کی ولایت سے جو مفہوم نکلتا ہے وہی حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی ولایت سے بھی مراد لیا گيا ہے۔ یہ ایک محکم اور ناقابل انکار حدیث ہے۔ اس سلسلے میں بزرگ علماء نے بہت اچھی بحثیں کی ہیں۔ یہاں اعتقادی بحثوں میں نہیں جانا ہے، یہ اپنی جگہ مسلمہ حقیقت ہے۔
اس وقت تک سب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو پہچان چکے تھے اور کسی کو بھی امیر المومنین علیہ السلام کے ولی منصوب کئے جانے پر کوئي شک و شبہ نہیں تھا۔ یہ حقیقت آفتاب نصف النہار کی مانند روشن تھی کہ یہ سراپا اخلاص و ایثار انسان، ایمان و تقوا کی اس بلند منزل پر فائز یہ ہستی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فی الحقیقت خدائے متعال کی جانب سے یہ عہدہ عطا کئے جانے کی حقدار ہے۔ امیر المومنین کو نبی اکرم نے منصوب نہیں کیا بلکہ اللہ نے منصوب کیا اور اللہ تعالی کی مرضی کے مطابق پیغمبر اسلام نے لوگوں کو اس بارے میں مطلع فرمایا۔
جب حضرت امیر المومنین علیہ السلام پیغمبر اسلام کے ساتھ مدینے میں داخل ہوئے تو بائیس تیئیس سالہ نوجوان تھے۔ آج کے بائیس تیئیس سالہ نوجوان اپنا موازنہ کریں ان کارناموں سے جو اس بے مثال نوجوان نے تاریخ انسانیت میں انجام دئے ہیں۔ جنگ بدر کی فتح کا سہرا اسی نوجوان کے سر بندھا، یہی نوجوان جنگ احد میں مانند آفتاب اس طرح سے ضوفشاں ہوا کہ تمام مسلمانوں کی نگاہیں اس پر مرکوز ہوئیں۔ یہی نوجوان مختلف امتحانوں اور آزماشوں میں، غزوات پیغمبر اسلام میں، کفار اور زمانے کے استکبار کے شدید دباؤ کے مقابلے میں پیغمبر اسلام کے ساتھ استقامت و پائيداری کی تاریخ رقم کرتا رہا۔ یہی وہ نوجوان ہے جو دنیا کو کبھی خاطر میں نہ لایا۔ جس وقت پیغمبر اکرم نے حضرت علی علیہ السلام کو جو اس وقت نوجوان تھے منصوب کیا اس وقت بھی مسلمانوں کی نگاہوں میں اس نوجوان کی اتنی عظمت تھی کہ کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ اس حقیقت کا انکار نہ اس وقت کسی نے کیا تھا اور نہ ہی بعد کے ادوار میں کوئي اس کا منکر ہوا۔
غدیر کا واقعہ صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین کے تعین کا واقعہ نہیں ہے۔ غدیر کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو جانشین کے اعلان کا ہے اور دوسرا پہلو مسئلہ امامت پر توجہ اور خاص اعتنا کا ہے۔ امامت سے وہی مفہوم و معنی مراد لیا گیا ہے جو تمام مسلمین اس لفظ سے مراد لیتے ہیں۔ امامت یعنی انسانوں کی پیشوائی، دینی اور دنیوی امور میں معاشرے کی پیشوائی۔ انسانیت کی طویل تاریخ میں ہمیشہ یہ ایک اہم موضوع رہا ہے۔ امامت کا مسئلہ مسلمانوں یا شیعوں سے مخصوص نہیں ہے۔ امامت کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان یا ایک گروہ معاشرے پر حکومت کرے اور دنیاوی امور میں نیز دینی اور اخروی معاملات میں معاشرے کو صحیح سمت سے آشنا و آگاہ کرے۔ یہ ایک عمومی مسئلہ ہے جو تمام انسانی معاشروں سے متعلق ہے۔
امام دو طرح کے ہو سکتے ہیں۔ ایک امام وہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے؛ «و جعلنا هم ائمّة يهدون بأمرنا و اوحينا اليهم فعل الخيرات و اقام الصّلوة و ايتاء الزّكوة و كانوا لنا عابدين» (3) یہ وہ امام ہے جو اللہ تعالی کے حکم کے مطابق انسانوں کی ہدایت کرتا ہے۔ انسانوں کو خطرات سے، خطرناک پیچ و خم سے اور لغزشوں والے مقامات سے بحفاظت آگے لے جاتا ہے۔ وہ انسانوں کو اس دنیوی زندگی کی حقیقی منزل پر پہنچاتا ہے، اللہ تعالی نے انسانوں کو دنیا کی یہ زندگي اسی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے عطا کی ہے۔ تو امام کی ایک قسم یہ ہے جس کے مصداق انبیائے کرام علیہم السلام ہیں۔ اس کی مثال پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں۔ چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام نے منا میں لوگوں کو جمع کرکے ارشاد فرمایا کہ ان رسول اللہ کان ھو الامام تو پہلے امام خود پیغمبر اسلام ہیں۔ انبیائے خدا، ان کے اوصیائے کرام، امام کی اس پہلی قسم کے برگزیدہ ترین افراد ہیں۔ ان کا کام لوگوں کی ہدایت کرنا ہے۔ اللہ تعالی ان کی ہدایت کرتا ہے اور وہ لوگوں تک یہ ہدایت منتقل کرتے ہیں۔ و اوحینا الیھم فعل الخیرات وہ نیک عمل اور کار خیر انجام دیتے ہیں، و اقام الصلاۃ نماز قائم کرتے ہیں، نماز ہی اللہ سے بندے کے رابطے کا ذریعہ ہے، و کانوا لنا عابدین وہ اللہ کے بندے ہیں، جیسے دوسرے لوگ اللہ کے بندے ہیں۔ ان کا دنیوی عز و وقار ان کے وجود میں سمائی ہوئی بندگي خدا کو ذرہ برابر متاثر نہیں کرتا۔ یہ ہے پہلی قسم۔
دوسری قسم بھی ہے؛ و جعلناھم ائمۃ یدعون الی النار (4) قرآن کی یہ آیت فرعون کے بارے میں ہے۔ فرعون بھی امام تھا بالکل اسی معنی میں جو پہلے والی آیت میں مراد لئے گئے۔ اس آيت میں بھی امام کا مطلب وہی ہے۔ یعنی لوگوں کی دنیا، ان کا دین و آخرت، جسم م جان سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے لیکن وہ یدعون الی النار لوگوں کو آتش جہنم کی جانب لے جاتے ہیں، لوگوں کو ہلاکت و نابودی کی دعوت دیتے ہیں۔
دنیا کی سیکولر ترین حکومتیں بھی اپنے تمام تر دعوؤں کے باوجود دانستہ یا نادانستہ طور پر عوام الناس کے دین و دنیا کو اپنے اختیار میں لئے ہوئے ہیں۔ یہ بڑے بڑے ثقافتی ادارے جو دنیا بھر میں نوجوان نسل کو تباہی و بربادی اور اخلاقی دیوالئے پن کی جانب گھسیٹ رہے ہیں فی الواقع وہی امام ہیں جو یدعون الی النار (کے مصداق ہیں)۔ یہ بڑی طاقتوں کے حربے اور وسائل ہیں جو ان کے مفادات کے لئے، ان کی ظالمانہ حکومت کے لئے اور گوناگوں سیاسی اہداف کے حصول کے لئے لوگوں کو گھسیٹ رہے ہیں۔ عوام الناس کی دنیا بھی ان کے اختیار میں ہے، ان کی آخرت بھی ان کے قبضے میں ہے اور لوگوں کے جسم و جان پر بھی انہی کا اختیار ہے۔
یہ جو دعوی کیا جاتا ہے کہ عیسائی مذہب میں کلیسا دین و آخرت کے امور سنبھالتا ہے اور حکومت دنیوی امور کی دیکھ بھال کرتی ہے، ایک مغالطہ ہے۔ جہاں اقتدار دین و اخلاق سے بیگانہ افراد کے ہاتھ میں ہو وہاں کلیسا بھی انہیں کے قبضے میں ہوتے ہیں اور دین و معنویت کو مٹا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انسانوں کے جسم و جان اقتدار پر قابض عناصر کے اختیار میں ہیں، یہ انسانی زندگی کی دائمی حقیقت ہے۔
معاشرہ یا تو امام عادل کی سرپرستی میں ہوتا ہے جو اللہ کی جانب سے آيا ہے، جو نیکیوں اور حق و صداقت کا درس دیتا ہے، یا پھر ان انسانوں کا محکوم ہوتا ہے جو حق سے بيگانہ ہیں، حق سے نابلد ہیں اور بسا اوقات حق سے بر سر پیکار رہتے ہیں کیونکہ حق ان کے ذاتی اغراض و مقاصد سے، ان کے مادی مفادات سے میل نہیں کھاتا۔ اس لئے وہ حق سے لڑتے ہیں۔ تو ان دونوں میں سے ایک صورت حال رہتی ہے۔
اسلام نے مدینہ منورہ میں حکومت تشکیل دیکر اور مدنی معاشرہ قائم کرکے یہ ثابت کر دیا کہ اسلام صرف وعظ و نصیحت اور زبانی تبلیغ کا نام نہیں ہے۔ اسلام معاشرے میں الہی احکامات کے نفاذ کے لئے آیا ہے اور یہ دینی اقتدار کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی عمر مبارک کے آخری ایام میں اللہ کے حکم کے مطابق اور الہام خداوندی کی بنا پر اپنا جانشین معین فرما دیا۔ پیغمبر اسلام اور دین اسلام کا منشاء یہی تھا، البتہ اسلامی تاریخ کسی اور سمت میں چلی گئی۔ تاریخ میں یہ منصوبہ اسی شکل میں باقی رہا۔ یہ خیال ذہن میں نہیں آنا چاہئے کہ پیغمبر اسلام کا یہ منصوبہ ناکام ہو گیا، بالکل نہیں، ناکام نہیں ہوا۔ اس دور میں رو بہ عمل نہیں آ سکا لیکن اسلامی معاشرے میں اور اسلامی تاریخ میں یہ معیار اپنی جگہ باقی رہا۔ آج آپ دنیائے اسلام کے اس خطے میں اس کے نتائج کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور اللہ تعالی کے فضل و کرم اور نصرت و مدد سے یہ منصوبہ اور یہ معیار عالم اسلام میں روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ہے غدیر کا مطلب۔
بنابریں غدیر کا مسئلہ صرف شیعوں کا مسئلہ نہیں، تمام مسلمانوں کا مسئلہ بلکہ تمام انسانوں کا معاملہ ہے۔ جو لوگ اہل فکر و نظر ہیں وہ آگاہ ہیں کہ یہ واضح و نمایاں معیار تمام انسانوں کے لئے ہے اور لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہیں ہے۔ اگر انسانی معاشروں میں اقتدار شیطان صفت افراد کے ہاتھ میں ہو تو معاشرے کا انجام وہی ہوگا جس کا آج آپ ماڈرن معاشروں میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ دنیا جتنی زیادہ ماڈرن ہوگی اس طرح کی حکومتوں کا خطرہ اتنا ہی زیادہ بڑھ جائے گا تاہم علم و دانش کے لحاظ سے دنیا جتنی پیشرفت کرے گی ہدایت کے راستے سے آشنائی کی امید بھی بڑھے گي۔ ایسا نہیں ہے کہ علم و دانش کی پیشرفت سے راہ ہدایت کے نظر انداز کر دئے جانے کا اندیشہ ہے۔
اس وقت ہمارے ملک میں عوامی رضاکار فورس اور مستضعفین رضاکار فورس ایک روشن و نمایاں حقیقت ہے۔ آپ ملک میں بسیج (رضاکار فورس) کے عظیم گلستاں کا ایک حصہ ہیں۔ یہ گلستاں ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے لگایا اور اپنے اقوال سے، اپنی رفتار و گفتار سے اس کی آبیاری کی۔ یہ پودے اب بحمد اللہ تناور درخت بن کر ثمر دینے لگے ہیں۔ اس وقت بسیج ہمارے ملک میں ایک عظیم، بے مثال اور ناقابل انکار حقیقت ہے۔ دشمنوں کے پرچاروں میں اور ان کی ایما پر کام کرنے والے ان کے مہروں کے بیانوں میں بے شک بسیج کی تحقیر کرنے کی کوشش ہوتی ہے، توہین کی جاتی ہے۔ ان عناصر نے تو کلام اللہ کی بھی بے حرمتی کی، پیغمبر اسلام کی شان میں بھی گستاخی کی۔ لیکن جس شئے کا باطن عظمت و جلالت سے آراستہ ہے توہین کرنے والوں کی توہین سے اور الزام لگانے والوں کے الزامات سے اس کی عزت و عظمت میں کوئی کمی ہوتی ہے نہ اس کی درخشنگی و تابناکی میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے۔
اس وقت ہمارے ملک میں بسیج ایک عظیم تابناک حقیقت ہے جس کی کوئی اور مثال نہیں ہے۔ آپ دیکھئے! مرد، عورت، پیر و نوجواں، بچے اور ادھیڑ عمر کے لوگ، مختلف صنفوں سے تعلق رکھنے والے جیسے طلبہ، اساتذہ، مزدور، ملازمت پیشہ، کاشتکار، تاجر سبھی بسیج کے رکن ہیں، اس میں شریک ہیں۔ یعنی اس میں صنف کی کوئی قید نہیں ہے، اس میں جنس کی کوئی قید نہیں ہے۔، اس میں قومیت اور زبان کی کوئي قید نہیں ہے۔ اس وقت اس اجتماع میں بھی ترک، کرد، لر، فارس، بلوج اور دیگر ایرانی قومیتوں کے لوگ موجود ہیں اور پورے ملک میں یہی صورت حال نظر آتی ہے۔ بسیج ایک منظم اور با ہدف تنظیم ہے، اپنی اس وسعت اور تنوع کے ساتھ، اپنی اس عظیم تعداد اور بلند ایمانی درجات کے ساتھ، جس کی مثال شاید ہی کہیں اور ملے۔
آپ دل و جان سے بسیج سے جڑے ہوئے ہیں۔ دنیا میں پارٹیاں ہوتی ہیں اور ممکن ہے کہ بعض پارٹیوں کے ارکان کی تعداد بہت زیادہ ہو، ویسے تعداد کے لحاظ سے بھی بسیج میں جو دسیوں لاکھ لوگ نظر آتے ہیں وہ دنیا کی کسی بھی پارٹی میں نہیں ملیں گے، تاہم دنیا کی دیگر جماعتوں میں ارکان کی جو تعداد ہے وہ زبان کے اعتبار سے جسم کے اعتبار سے اور مادی توانائی کے اعتبار سے پارٹی کے خدمت گار ہوتے ہیں اس کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ ان کے دل اور ان کا جذبہ ایمانی بھی اس پارٹی سے وابستہ ہو لیکن بسیج تو دلوں اور قلوب کی تنظیم ہے، ایمان و عقیدے کی تنظیم ہے۔ قوم پر سخت وقت آنے کی صورت میں یہی کارساز ثابت ہوتی ہے۔ جب قومیں دشواریوں میں پڑ جاتی ہیں تو پھر جسموں سے بات نہیں بنتی بلکہ دلوں کو میدان میں اترنا پڑتا ہے، صف شکنی کرنا پڑتی ہے۔ جن لوگوں نے دشمنوں کی صفیں توڑیں وہ ضروری نہیں ہے کہ جسمانی طور پر تنومند اور طاقتور رہے ہوں، انہوں نے اپنے محکم ایمان کے ذریعے پہاڑوں کا سینہ شگافتہ کر دیا، دشوار گزار راستوں کو طے کیا، لغزش کے مقامات سے آسانی سے گزر گئے اور خود کو منزل مقصود تک پہنچایا۔ اسی کو بسیج کہتے ہیں۔ اس کی قدر کرنا چاہئے۔ سب سے پہلے تو خود بسیجیوں کو اپنی قدر و قیمت سے آگاہ ہونا چاہئے۔ جیسا کہ ہم نے ابھی بسیج کے اس میثاق نامے میں سنا جسے ان نوجوانوں نے بسیجیوں کی نمائندگی میں پڑھا، انہوں نے بسیج کا رکن ہونے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ واقعی اللہ کا شکر ادا کرنے کا مقام ہے کہ جس نے ایسی تنظیم میں داخل ہونے کی توفیق عطا کی۔
بسیج کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ تنطیم کسی ایک ہدف، ایک پہلو اور ایک مقصود تک محدود نہیں ہے۔ بسیج نے بیشک فوجی میدان میں صف اول میں جاکر اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے اور جہاں بھی ضرورت پڑی خود کو پہنچایا ہے، دشوار ترین کاموں کو اپنے ذمے لیکر بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔ تاہم یہ تنطیم ہر درد کی دوا ہے۔ یعنی تمام میدانوں میں بسیج پیش پیش رہتی ہے۔ اس وقت ہمارے بسیجی نوجوان سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں بھی پیش پیش ہیں۔ ہمارے بسیجی اساتذہ بھی تعلیم و تربیت کے میدان میں سب سے زیادہ کامیاب اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔ ہمارے بسیجی فنکار بھی، جو بسیجی جذبے کے ساتھ فن و ہنر کے میدان میں اترے ہیں، زیادہ بڑی کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں اور انہیں زیادہ مقبولیت اور پذیرائي ملی ہے۔ جس میدان میں بھی بسیجی جذبے کے ساتھ، بسیجی اخلاص کے ساتھ، بسیجی ایمان کے ساتھ، بسیجی شجاعت و ہمت کے ساتھ اور بسیجی خلاقیت کے ساتھ قدم رکھے جاتے ہیں، کارہائے نمایاں انجام پاتے ہیں۔ یہ بسیج کا طرہ امتیاز ہے۔
عزیز بسیجیوں کو اس کی قدر کرنا چاہئے اور اپنے اندر بسیجی ماہیت کی تقویت کرنا چاہئے۔ بسیجی بننے کے لئے چند بنیادی خصوصیات ضروری ہیں۔ ہمیں اپنے اندر یہ خصوصیات پیدا کرنا چاہئے۔ عزیز نوجوانو! ہم نے بارہا کہا ہے کہ سب سے پہلے اخلاص کا جذبہ اور بصیرت ضروری ہے۔ اخلاص اور بصیرت ایک دوسرے پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ آپ کی بصیرت جتنی زیادہ ہوگی آپ اخلاص کی منزل کے اتنے ہی قریب ہوں گے۔ آپ جتنے خلوص سے عمل انجام دیں گے اللہ تعالی آپ کی بصیرت میں اسی انداز سے اضافہ کر دے گا۔ اللہ ولی اللذین آمنوا یخرجھم من الظلمات الی النور اللہ آپ کا ولی ہے۔ آپ کو اللہ کا جتنا تقرب حاصل ہوتا جائے گا آپ کی بصیرت اتنی ہی بڑھتی جائے گی اور آپ حقائق سے اتنا ہی زیادہ آگاہ ہوں گے۔ نور ہو تو انسان حقائق کو بآسانی دیکھ سکتا ہے۔ اگر نور نہ ہو تو انسان حقائق کو نہیں دیکھ پاتا۔ «والّذين كفروا اوليائهم الطّاغوت يخرجونهم من النّور الى الظّلمات».(5) جب طغیان انسان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے، جب خواہشات جو حقیقی معنی میں طاغوت سے عبارت ہیں اور جو ہمارے اندر فرعون سے بھی زیادہ مذموم انداز میں موجود ہیں، ہماری آنکھوں پر پردہ ڈال دیتی ہیں، جب جاہ طلبی، حسد، دنیا پرستی اور خواہشات نفسانی پردہ بن کر ہماری آنکھوں پر پڑ جاتی ہیں تو ہم سامنے کے حقائق کو بھی نہیں دیکھ پاتے۔
آپ نے دیکھا کہ بعض لوگ بالکل سامنے کے حقائق کو بھی سمجھ نہیں پائے۔ سن تیرہ سو اٹھاسی (ہجری شمسی مطابق 2009 عیسوی ) کے منصوبہ بند فتنے کے دوران حقائق عوام الناس کی نظروں کے سامنے تھے لیکن کچھ لوگ ان حقائق کو بھی نہیں دیکھ پائے، سمجھنے سے قاصر رہے۔ جب کسی ملک میں کچھ ایسے شر پسند عناصر پیدا ہو جاتے ہیں جو اپنی جاہ طلبی کے لئے، اقتدار کے لئے، اپنے دل و دماغ میں بیٹھی اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ایک پورے ملک کے مفادات اور ایک راستے کی حقانیت کو نظر انداز کرنے کے لئے، پامال کر دینے کے لئے آمادہ ہوں تو ان سے ایسی حرکتیں سرزد ہونے لگتی ہیں جن سے مغربی حکام اور ملت ایران کے جانی دشمن وجد میں آجاتے ہیں اور ان عناصر کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ روز روشن کی طرح واضح ایک حقیقت ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جسے انسان روشنی میں بھی نہ دیکھ سکے لیکن پھر بھی کچھ لوگوں نے نہیں دیکھا اور کچھ لوگ نہیں دیکھ پا رہے ہیں، کچھ لوگ سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔ بعض لوگوں کے دل ایسے تاریک ہو گئے ہیں کہ وہ ادراک کرنے کے باوجود اس کے مطابق عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ سب خواہشات نفسانی کے عواقب ہیں، یہ ہمارے اندر چھپے بیٹھے اسی فرعون کے احکامات اور فرامین کے نتائج ہیں، یعنی ہوا و ہوس کی صورت میں موجود وہی بد مست ہاتھی کہ اللہ تعالی نے اپنے مومن بندوں کو تقوا و پرہیزگاری کی ہتھوڑی دیکرجس کے سر پر ضربیں لگاتے رہنے کا حکم دیا ہے، تاکہ وہ رام ہوکر بیٹھ جائے۔ اگر ہم نے اسے قابو میں کرکے خاموش بٹھا دیا تو دنیا نورانی ہو جائے گی، ہم ہر چیز کا مشاہدہ کر سکیں گے، ہماری آنکھیں تیزبیں ہو جائیں گی۔ لیکن اگر خواہشات نفس کے اسیر ہو گئے تو کچھ بھی نہیں دیکھ پائیں گے۔ آپ بسیجی ہیں، نوجوان ہیں، آپ کے دل پاکیزہ ہیں، نورانی ہیں۔ آپ اپنے صفائے باطن کے ذریعے اپنے اندر یہ کیفیت پیدا کر سکتے ہیں، اس جذبے کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔ بسیجی پاکیزہ ہوتا ہے، نورانی ہوتا ہے۔
میرے عزیزو! آپ بسیجی بن گئے، آپ کو بہت بہت مبارک ہو لیکن ضروری ہے کہ بسیجی بنے رہئے۔ اس راہ میں استقامت و ثابت قدمی بہت اہم ہے۔ بسیجی بنے رہنے کا انحصار اس پر ہے کہ ہم ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتے رہیں، محتاط رہیں کہ راستے سے بھٹک نہ جائيں۔ ملت ایران نے بڑا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ اس کا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ اس دنیا کے ایک حصے کو، جو بڑے شد و مد سے دوزخ کے راستے پر رواں دواں تھی، اپنی آواز بلند کرکے اس راستے الگ کر دیا۔ آج دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی حقیقت سے روشناس ہو چکی ہے اور ملت ایران اس میدان میں سب سے پیش پیش ہے۔ اس نے راستہ تبدیل کر دیا ہے۔ انسانی معاشروں کا سفر اللہ کی جانب ہونا چاہئے، بہشت کی جانب ہونا چاہئے، حقیقت کی جانب ہونا چاہئے۔ عظیم ملت ایران نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اہل باطل بھی خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ وہ لوگ جن کی زندگی باطل پر منحصر ہے، ظلم و استبداد پر ٹکی ہوئي ہے، قوموں کی سرکوبی پر موقوف ہے، وہ اس پر خاموش نہیں بیٹھیں گے کہ ملت ایران ندائے حق بلند کرے، دنیا کو بیدار کرے، اس کی ہدایت کرے، بشریت میں بیداری کی لہر پیدا کر دے۔ ظاہر ہے وہ اس کے سد باب کی کوشش کریں گے۔ اب اگر ہم اپنی استقامت و ثابت قدمی کو جاری رکھیں تو اس ٹکراؤ کا انجام بالکل واضح ہے و لینصرن اللہ من ینصرہ (6) بے شک اللہ تعالی نے اپنی نصرت و مدد ان لوگوں کے لئے قرار دی ہے جو حق کی جانب بڑھتے اور دوسروں کو اس کی دعوت دیتے ہیں۔ ہم نے اس کا باقاعدہ تجربہ بھی کیا ہے۔ دشمن تیس سال سے ملت ایران کے خلاف جی توڑ کوششوں میں مصروف ہے، گوناگوں اقدامات کر رہا ہے لیکن ملت ایران اپنی پائیداری و ثابت قدمی کی برکت سے، اپنے ایمان کی برکت سے روز بروز زیادہ طاقتور بنتی جا رہی ہے اور دشمن کے قوی مضمحل ہوتے جا رہے ہیں۔ آج ہماری استقامت و پائیداری کی طاقت بیس سال قبل کی نسبت کہیں زیادہ ہے، تیس سال قبل کی نسبت اور بھی زیادہ ہے۔ یہ ہمارا تجربہ ہے۔ تو اس ٹکراؤ اور مقابلہ آرائی کا انجام اسلام اور مسلمین کی فتح و کامرانی ہے۔ لیکن اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ ہمارے سامنے چیلنج اور ٹکراؤ کی صورت موجود ہے۔ خود کو آمادہ رکھئے، عصری تقاضوں کے مطابق اپنے اندر تبدیلی لاتے رہئے، اپنی بصیرت میں اضافہ کرتے رہئے، اپنے اخلاص میں اضافہ کرتے رہئے، بسیجی بنے رہئے۔ یہ ملت ایران اور عظیم ایرانی معاشرے کی کامیابی و پیروزی کا راز ہے۔
آپ نوجوان انشاء اللہ وہ دن بھی یقینا دیکھیں گے جب یہ قوم افتخارات کی بلندیوں پر پہنچ چکی ہوگی۔ جیسا کہ قرآن کریم نے وعدہ کیا ہے لتکونوا شھداء علی الناس (7) آپ دنیا کے لوگوں پر شاہد و گواہ بنیں گے، آپ چوٹی پر ہوں گے اور قومیں آپ کو دیکھتے ہوئے ان چوٹیوں کی سمت بڑھیں گی۔
پروردگارا! اپنے ولی کے ظہور میں اور عالم خلقت کے درد و غم کی گشائش میں تعجیل فرما۔ پالنے والے! ہمیں امام زمانہ اور آپ کے اجداد طاہرین علیہم السلام کی ولایت سے متمسک رہنے والے افراد میں قرار دے۔ پالنے والے! ہمیں حقیقی معنی میں مومن، بسیجی اور انقلابی بنا۔ پروردگارا! بحق محمد و آل محمد، ایران کی عظیم قوم کو اس کے بلند اہداف کے حصول میں کامیاب فرما۔ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رضوان اللہ علیہ) اور عزیز شہدا کی ارواح کو اپنے دائمی الطاف و فیوضات کے سائے میں رکھ۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

 

1) كافى، ج 1، ص 420
2) مائده: 55
3) انبياء: 73
4) قصص: 41
5) بقره: 257
6) حج: 40
7) بقره: 143