اس ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے عالم اسلام کے موحودہ حالات کو انتہائی نازک اور تاریخی قرار دیا اور فرمایا کہ اس نازک دور کی صحیح شناخت، عوام کے جذبہ ایمانی کی تقویت، اتحاد کی حفاظت، امریکہ کی دھونس میں نہ آنا اور نصرت الہی کی طرف سے پرامید رہنا عالم اسلام میں دسیوں لاکھ افراد کی شراکت سے شروع ہونے والی عدیم المثال تحریک کی کامیابی اور فتح کی تمہید ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے عالم اسلام کے موجودہ حساس حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ موجودہ تاریخی دور کی اہمیت اس لئے ہے کہ اگر صحیح شناخت اور رہنمائی ہو تو اس سے عالم اسلام کی مشکلات حل ہو جائيں گی لیکن اگر صحیح شناخت اور اس کا صحیح استعمال نہ ہوا تو عالم اسلام کے لئے نئی مشکلات کا راستہ ہموار ہو گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے عالم اسلام میں اس وقت دسیوں لاکھ افراد کے باہر نکل آنے کو بے مثال واقعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی فتح بھی دسیوں لاکھ کی تعداد میں عوام کی میدان (عمل) میں موجودگی کی مرہون منت تھی اور دسیوں لاکھ کی تعداد میں لوگوں کا میدان میں اتر پڑنا جذبہ ایمانی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے عوام کے ملین مارچ کے ساتھ ہی نصب العین کے حصول تک میدان میں ان کی موجودگی کے تسلسل اور حاصل ہونے والے نتیجے کی حفاظت و پاسبانی کو دو اہم ترین عوامل کا نام دیا اور فرمایا کہ دشمنوں کی کوشش ہے کہ مصر، تیونس اور عالم اسلام کے دوسرے خطوں کی عوامی تحریکوں کو غیر اسلامی تحریک ظاہر کریں جبکہ فی الواقع ان عوامی تحریکوں کی ماہیت اسلامی ہے جس کی تقویت کی جانی چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے امریکہ کو عالم اسلام کی سب سے بڑی مشکل قرار دیا اور فرمایا کہ اس مشکل کو عالم اسلام سے دور اور امریکہ کو کمزور کر دینا چاہئے جس کا واحد راستہ اللہ تعالی کی ذات سے آس لگانا اور وعدہ الہی کے سلسلے میں پرامید رہنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللَّه الرّحمن الرّحيم
برادران عزیز کی گفتگو سن کر بہت لطف اندوز ہوا۔ کاش دامن وقت میں گنجائش ہوتی اور میں تمام حاضرین کی باتیں سن سکتا۔ جب یہ باتیں آپ کی زبانوں سے سنتا ہوں تو اسلام کی عظمت، اسلام کی ہمہ گیریت اور اسلام کی کامیابی میری نظروں میں اور بھی واضح طور پر مجسم ہو جاتی ہے۔
آج کی یہ ملاقات اور آپ کی نشستیں اتحاد کے عنوان سے منعقد ہوئیں، عالم اسلام کے اتحاد اور اتحاد بین المسلمین کے عنوان سے۔ اتحاد بنیادی ترین شئے ہے۔ اگر حقیقی معنی میں اتحاد بین المسلمین قائم ہو جائے تو مسلمانوں کی اکثر مشکلات حل ہو جائیں گی۔ چنانچہ ہم سب کو کوشش کرنا چاہئے، سب کو اجتماعی طور پر یہ سعی کرنا چاہئے کہ دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لائیں، صرف زبانوں کو نہیں۔ جب دل ایک دوسرے کے قریب آ جائیں تو ہاتھ خود ہی ایک دوسرے کی جانب دراز ہو جائیں گے اور عمل میں بھی ہم آہنگی پیدا ہو جائےگی۔
اس وقت عالم اسلام ایک تاریخی دور سے گزر رہا ہے۔ ہمیں اس دور کو بخوبی پہچاننے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس (تاریخی) دور کے سلسلے میں ذرہ برابر بھی غفلت نہیں برتنا چاہئے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد کے تیس برسوں میں عالم اسلام کی سطح پر ایسی صورت حال کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یہ جو میں ایک خاص دور کی بات کر رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ گزشتہ تیس برسوں میں عالم اسلام پرسکون، ساکت اور غافل رہا ہے۔ ہرگز نہیں۔ میرا خیال یہ ہے، جو حقیقت کے عین مطابق بھی ہے، کہ برسہا برس سے مصلحین کی کاوشوں، جاں نثاروں کی محنتوں، اہل فکر و نظر کی تعلیمات اور اسلامی انقلاب نے عالم اسلام پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ دل و ذہن منقلب ہوئے ہیں، خاص سمتوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور جوش و جذبہ رفتہ رفتہ بڑھتا رہا ہے، یہاں تک کہ آج اس موقعے پر یہ جذبات کا آتشفشاں پھٹ پڑا ہے۔ یہ دور بہت حساس دور ہے۔ یہ عالم اسلام کی جملہ مشکلات کے حل پر بھی منتج ہو سکتا ہے اور اگر اس دور کا ہم نے صحیح طور پر ادراک نہ کیا اور اس سے کما حقہ استفادہ نہ کیا گيا تو ممکن ہے کہ کچھ نئی مشکلات ہمارے سامنے کھڑی ہو جائیں۔
جو چیز نظروں کے سامنے آئی ہے، وہ ہے دسیوں لاکھ کی تعداد میں عوام کا میدان میں اتر آنا۔ یہ ایک بے مثال چیز ہے۔ ایران میں یہی منظر پیش آیا تو ایران کو نجات حاصل ہو گئی۔ اگر دسیوں لاکھ عوام کے بجائے سیاسی جماعتیں، تنظیمیں، چند شخصیتیں وغیرہ میدان میں اتری ہوتیں تو اس میں یہ تاثیر ہرگز نہ ہوتی۔ دسیوں لاکھ کی تعداد میں عوام الناس کے میدان میں اتر پڑنے کا جو اثر ہوتا ہے وہ کسی اور چیز سے ممکن نہیں ہے اور بغیر قلبی ایمان کے دسیوں لاکھ کی تعداد میں عوام الناس کا میدان میں آنا بھی ممکن نہیں ہے۔ سب سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ لوگ میدان میں آئيں، دوسرے یہ کہ اصلی نتیجہ حاصل ہونے تک میدان میں ثابت قدمی سے موجود رہیں، تیسرے یہ کہ حاصل شدہ نتیجے کی حفاظت کریں۔ ان چیزوں کے لئے اسلامی جذبہ اور مذہبی طرز فکر لازمی ہے۔
اس نشست میں فرانس کے انقلاب کا نام لیا گيا۔ فرانس کا عظیم انقلاب ایک عوامی تحریک کا نتیجہ تھا جو کامیابی سے ہمکنار ہوا لیکن یہ فتح محفوظ نہ رہ سکی۔ سنہ سترہ سو نواسی میں فرانس کا عظیم انقلاب رونما ہوا۔ سنہ اٹھارہ سو میں یعنی گیارہ سال بعد فرانس میں دوبارہ سلطنتی نظام قائم ہو گیا اورنیپولین کو اقتدار حاصل ہو گیا۔ گویا سب کچھ نیست و نابود ہو گیا۔ نیپولین کی موت واقع ہوئی تو عظیم انقلاب کے نتیجے میں جس بوربن خاندان کو اقتدار کی مسند سے نیچے اتار دیا گیا تھا اسی نے زمام مملکت دوبارہ اپنے ہاتھ میں لے لی۔ برسوں گزر گئے اور سنہ اٹھارہ سو ساٹھ تک فرانس کا اقتدار ایک بادشاہ سے دوسرے بادشاہ کو منتقل ہوتا رہا۔ معلوم ہوا کہ انقلاب عوام کے ہاتھوں کامیاب ہوا لیکن عوام اس کی پاسبانی نہ کر سکے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ ہم نے اپنے انقلاب کی کامیابی سے حفاظت کی۔ ایمان کی برکت سے، اسلام کی برکت سے قوم کے پیکر میں اور عوام الناس کے دل و دماغ میں قرآنی روح کی گردش کے نتیجے میں (اس کی حفاظت ہوئی)۔ یہی چیز تحریکوں کی بقاء اور دوام کو یقینی بناتی ہے۔ اس کا ہونا ضروری ہے۔
مصر میں، تیونس میں اور بعض ديگر خطوں میں آج عوام میدان میں اتر پڑے ہیں، ان کی صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے۔ دشمن اس تحریک کو غیر اسلامی ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ یہ بالکل غلط بات ہے۔ یہ تحریکیں سو فیصدی اسلامی ہیں۔ مصر کا ماضی بھی اس کا گواہ ہے اور مصر کے آج کے حالات بھی اس کی غمازی کر رہے ہیں۔ عوام کے نعرے، نماز جمعہ میں ان کی شرکت وغیرہ، اسی کی غمازی کر رہی ہے۔ بنابریں یہ تحریکیں یقینی طور پر اسلامی ہیں۔ دشمن اس کوشش میں ہے کہ مصر اور دوسری جگہوں پر اسلامیت والی ماہیت کو مستحکم نہ ہونے دے۔ لہذا ان تحریکوں کو زیادہ سے زیادہ تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے۔
عالم اسلام کی مشکلات کی جڑ امریکہ ہے۔ عالم اسلام میں استکباری اور استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے قوموں کے اسلامی تشخص پر کاری ضربیں پڑتی رہی ہیں۔ آپ عالم اسلام کے مشرقی خطوں، ملیشیا، انڈونیشیا اور ہندوستان سے لیکر افریقہ تک کا جائزہ لیجئے! آپ کو ہر جگہ استعماری طاقتوں کا وجود نظر آئے گا جنہوں نے قوموں کو عاجز و ناتواں بنا کر رکھ دیا ہے، ان کا خون چوسا ہے اور ان کے ارادوں کو کمزور کیا ہے۔ آج یہ استکباری اور استعماری طاقت امریکہ ہے، باقی (طاقتیں) حاشئے پر چلی گئي ہیں۔ امریکہ کا وجود سب سے بڑی مشکل ہے۔ جیسا کہ کہا گيا ہے؛ وجودک ذنب لا یقاس بھا ذنب (تیرا وجود ہی ایسا گناہ ہے، جس سے کسی بھی گناہ کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا) تو آج عالم اسلام کی سب بڑی بد قسمتی امریکہ کی موجودگی ہے۔ اس کا کوئی علاج تلاش کرنا ضروری ہے۔ امریکہ کو میدان سے باہر نکال دینا چاہئے، اسے کمزور بنا دینے کی ضرورت ہے اور خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ وہ کمزور ہو چلا ہے۔ آج کا امریکہ بیس سال قبل اور تیس سال قبل والا امریکہ نہیں رہا۔ آج امریکہ بہت کمزور اور ناتواں ہو چکا ہے۔ اس سلسلے کو قائم رکھنا چاہئے، مایوس نہیں ہونا چاہئے۔
صدر اسلام کا زمانہ ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ میں یہ دعوی تو نہیں کرتا کہ ہمارے تمام واقعات بعینہ صدر اسلام کے واقعات ہیں، ظاہر ہے کہ دنیا بدل چکی ہے، جذبات تبدیل ہو چکے ہیں، شکلیں مختلف ہیں لیکن پھر بھی صدر اسلام کا زمانہ ایک بڑا پیچیدہ، فنکارانہ اور تہہ در تہہ منظرنامہ ہے۔ تا حال اور ابد تک امت اسلامیہ کی زندگی کے گوناگوں پہلوؤں کو اس منظرنامے کے مختلف اجزاء میں دیکھا جا سکتا ہے۔ انسان اس کے متعلقہ حصے کو دیکھ کر اپنے زمانے سے اس کا موازنہ کرکے اسے بخوبی سمجھ سکتا ہے۔
آپ غور فرمائیں! دشمن کے مقابلے میں ہمیشہ دو طرح کی فکر کے انسان نظر آتے ہیں۔ «و اذ يقول المنافقون و الّذين فى قلوبهم مرض ما وعدنا اللَّه و رسوله الّا غرورا. و اذ قالت طائفة منهم يا اهل يثرب لا مقام لكم فارجعوا».(1) یہ ایک فکر ہے، ایک نقطہ نگاہ ہے، اس طرح کے حالات کے سلسلے میں۔ دوسری فکر اور نقطہ نگاہ والے لوگ کہتے ہیں؛ «و لمّا رأى المؤمنون الأحزاب قالوا هذا ما وعدنا اللَّه و رسوله و صدق اللَّه و رسوله و ما زادهم الّا ايمانا و تسليما».(2) یہ دوسری فکر ہے۔ دونوں کا تعلق ایک ہی واقعے سے ہے۔ دونوں کا تعلق جنگ احزاب سے ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جو دشمن کے لشکر کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے؛ «ما وعدنا اللَّه و رسوله الّا غرورا» اور دوسرا گروہ اسی لشکر کو دیکھنے کے بعد اپنے تاثرات اس طرح بیان کرتا ہے؛ هذا ما وعدنا اللَّه و رسوله و صدق اللَّه و رسوله و ما زادهم الّا ايمانا و تسليما» یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ یہ موجودہ صورت حال کے صحیح ادراک میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔
ہم بھی دو طرح کے لوگوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ایک جماعت ان لوگوں کی ہے جو امریکہ کی ہیبت کو دیکھتے ہیں، اس کی فوجی طاقت کا مشاہدہ کرتے ہیں، اس کی سفارتی توانائیوں پر نظر ڈالتے ہیں، اس کے تشہیراتی وسائل کی طاقت کا اندازہ لگاتے ہیں، اس کی بے پناہ دولت پر نظر دوڑاتے ہیں تو مرعوب ہوکر کہنے لگتے ہیں کہ جب ہمارے بس میں کچھ نہیں ہے تو ہم بلا وجہ اپنی توانائی کیوں ضائع کر رہے ہیں؟ اس طرح کے افراد آج بھی ہیں اور ہمارے انقلاب کے دور میں بھی ہوا کرتے تھے۔ ہمارا واسطہ ایسے افراد سے بھی تھا جو کہتے تھے کہ جناب آپ عبث ہی مصیبت پال رہے ہیں۔ تھوڑے بہت حقوق حاصل کرکے خاموش ہو جائیے اور مسئلے کو رفع دفع کیجئے۔ ایسے لوگوں کا بھی ایک گروہ تھا۔
دوسری جماعت ان لوگوں کی ہے جو دشمن کی طاقت کا موازنہ اللہ تعالی کی قدرت مطلقہ سے کرتے ہیں۔ دشمن کی ہیبت کو پروردگار عالم کی عظمت و جلالت کے سامنے رکھ کر دیکھتے ہیں تو انہیں بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ دشمن حقیر کیڑے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ یہ تو ہیچ ہے۔ یہ لوگ وعدہ الہی کو سچا وعدہ سمجھتے ہیں اور وعدہ الہی کے سلسلے میں حسن ظن رکھتے ہیں۔ یہ بھی بہت اہم نکتہ ہے۔ اللہ تعالی نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ : «و لينصرنّ اللَّه من ينصره انّ اللَّه لقوىّ عزيز»؛(3) یہ اللہ تعالی کا اٹل وعدہ ہے۔ جس پر بار بار تاکید کی گئی ہے۔ اگر ہمیں وعدہ الہی پر یقین کامل ہوگا تو ہماری روش کچھ اور ہوگی اور اگر وعدہ الہی کے سلسلے میں ہم بد گمانی کے شکار ہوں تو ہمارا انداز کچھ اور ہوگا۔ بد گمانی کے شکار لوگوں کے انداز کو اللہ تعالی نے بیان فرما دیا ہے؛ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»؛(4) یہ «الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء» کے مصداق افراد آج بھی موجود ہیں۔ چند آیتوں کے بعد ارشاد ہوتا ہے؛«بل ظننتم ان لن ينقلب الرّسول و المؤمنون الى اهليهم ابدا و زيّن ذلك فى قلوبكم و ظننتم ظنّ السّوء و كنتم قوما بورا».(5) اللہ تعالی کے سلسلے میں بد گمانی اس بات کا باعث بنتی ہے کہ انسان ہمت ہار کر بیٹھ جائے اور سعی و کوشش کرنا بند کر دے۔ جبکہ اللہ تعالی کے سلسلے میں حسن ظن ہو تو ہم پیش قدمی جاری رکھنے پر قادر ہوتے ہیں۔
ہم تو اللہ تعالی کے سلسلے میں حسن ظن رکھتے ہیں اور اللہ تعالی نے آج تک ہمارا یہ بھرم قائم رکھا ہے۔ ان تیس بتیس برسوں میں اللہ تعالی نے اسی حسن ظن کے مطابق ہم پر عنایات کی ہیں۔ بےشک ہمیں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن ہمیں کامیابی ملتی رہی۔ اقتصادی ناکہ بندی کوئی معمولی بات نہیں تھی اور نہ ہے لیکن ہم نے اس بائیکاٹ کو ناکام بنا دیا۔ ابھی حال ہی میں ( بائيکاٹ کرنے والے ممالک نے) ہم سے کہا کہ ہم آپ کو پیٹرول نہیں دیں گے۔ ظاہر ہے کہ ہمارا ملک خام تیل برآمد اور پیٹرول درآمد کرنے والا ملک ہے۔ ہم سے کہہ دیا کہ آپ کو پیٹرول نہیں بیچا جائے گا۔ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے، اس جیسی سیکڑوں دوسری چیزیں بھی ہیں۔ ہمارے افراد نے اللہ کی ذات پر توکل کے ساتھ محنت شروع کی اور ایک سال سے کم کے عرصے میں ہم پیٹرول درآمد کرنے سے بے نیاز ہو گئے۔ ہم پر آٹھ سالہ جنگ مسلط کر دی گئی۔ ہمارے سامنے صدام حسین جیسا انتہائی خبیث اور بد طینت دشمن کھڑا کر دیا اور اپنی پوری توانائی سے اس کی مدد بھی کی لیکن پھر بھی ہم الحمد للہ حالات پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ لطف خدا سے ہم تمام میدانوں میں پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ علم و دانش کے میدان میں ہم نے ترقی کی ہے۔ ہمارے ایٹمی پروگرام کی بات کی گئی۔ الحمد للہ ہم ایٹمی مسئلے کو حل کرکے آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے۔ مغرب والے تو خیر اب بھی شورشرابا کرتے رہتے ہیں لیکن اب ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا۔ وہ تہمتیں لگاتے ہیں، باتیں بناتے ہیں، پروپیگنڈے کرتے ہیں، دباؤ ڈالتے ہیں لیکن سب کچھ لا حاصل ہے۔ وقت کا گذرنا ہمارے فائدے میں ہے۔ ہم آگے بڑھتے جا رہے ہیں اور وہ ہیں کہ اپنا سر پیٹ رہے ہیں، گلا پھاڑ رہے ہیں۔ جب اللہ تعالی کی ذات پر توکل کے ساتھ کام شروع کیا جائے تو یہ ثمرہ حاصل ہوتا ہے۔
ایٹمی شعبے میں ہمارے جو نوجوان مصروف کار ہیں، دو تین سال قبل انہوں نے مجھ سے ملاقات کا اصرار کیا۔ اسی حسینیہ (حسینیہ امام خمینی) میں ایک نمائش لگائی کہ میں ان کی ایجادات و مساعی کے نتائج اور ثمرات کو قریب سے دیکھ سکوں۔ میں نے جب دیکھا تو سب سے پہلی چیز تو یہ نظر آئی کہ سب نوجوان تھے، دوسری بات یہ تھی کہ سارے کے سارے دیندار لوگ تھے۔ ایک زمانے میں یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ جو بھی جدید علوم کی وادی میں پہنچ جاتا ہے اور کوئی مہارت حاصل کر لیتا ہے اس کا دین سے دور ہو جانا اور دین سے اس کی بے اعتنائی بالکل یقینی اور لازمی چیز ہے۔ لیکن میں نے دیکھا کہ نہیں، یہ تو سب با ایمان اور اخلاص عمل والے لوگ ہیں۔ اس وقت ہمارے ملک کے مختلف شعبوں میں یہی عالم ہے۔ یہ ہمارا کامیاب تجربہ ہے اور یہ عالم اسلام کے لئے حاضر ہے۔
مصر کی قوم اور دیگر اقوام بحمد اللہ اسلامی تعلیمات سے آراستہ ہیں۔ مصر میں مختلف ادوار میں اسلامی علوم اور اسلامی تعلیمات جس طرح عام رہی ہیں اس سے ہم آگاہ ہیں۔ میں نے نماز جمعہ کے خطبے میں کہا کہ مصری قوم مغربی ثقافت سے آشنا ہونے والی پہلی قوم تھی۔ نیپولین مغربی تہذیب کے ساتھ مصر میں وارد ہوا۔ یہ پہلی قوم ہے جس نے مغربی تہذیب و ثقافت کے عبیوب کو سمجھا اور اس کا مقابلہ کیا۔
شیخ محمد عبدہ، سید جمال الدین اور دوسرے (مفکرین) کا مرکز مصر ہی تھا۔ مغربی تہذیب کے سامنے سینہ سپر ہو جانے والے یہ سب سے پہلے مفکرین تھے۔ اس کے بعد بھی مصر اور دوسرے بہت سے عرب ممالک سے اسلامی افکار کے چشمے جاری رہے اور پورے عالم اسلام کو اس کا فیض پہنچتا رہا۔
آج یہی (مصری) عوام میدان میں آ گئے ہیں۔ اب یہ کوشش ہونا چاہئے کہ دشمن مصری عوام کی تحریک کو یرغمال نہ بنانے پائے، اسے غلط سمت میں نہ موڑ سکے، مصر میں طاغوتی حکومت اور فرعونی اقتدار کی کسی نشانی کو باقی رکھ کر بتدریج دوبارہ اس ملک پر قابض نہ ہو سکے۔ ان چیزوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ذمہ داری مصری عوام کے ساتھ ہی تمام عالم اسلام کی بھی ذمہ داری ہے۔
قوموں کے درمیان کوئی فرق نہیں رہنا چاہئے۔ اسلامی اتحاد کا پہلا اثر یہ ہونا چاہئے کہ قوموں کے اندر ایک دوسرے کے لئے جذبہ ہمدردی پایا جائے کہ جب کوئی قوم مسرور و شادماں ہو تو دیگر اقوام کے اندر بھی خوشی کی لہر دوڑ جائے اور جب غمگین ہو تو بقیہ بھی غمزدہ نظر آئیں، جب کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو بقیہ قومیں بھی اس مصیبت کو اپنی مصیبت تصور کریں، جب مدد کے لئے آواز دے تو سب اس کی مدد کو دوڑ پڑیں۔ یہ ہمارا فریضہ ہے اور یہ چیز حاصل ہوکر رہے گی۔ ہم اللہ تعالی کے اس وعدے کو مانتے اور اس پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہیں کہ «و الّذين جاهدوا فينا لنهدينّهم سبلنا».(6) اللہ تعالی با ایمان افراد کی مدد کرتا ہے۔
ہم سب کو چاہئے کہ اس طرح کی نشستوں کی قدر کریں۔ دلوں کا ایک دوسرے کے قریب آنا بہت اہم ہے۔ شیعہ سنی اختلافات اور دونوں فرقوں کے تنازعات کو دشمنان اسلام (اپنی سازشوں کی) بنیاد بنانا چاہتے ہیں۔ جو لوگ آج بہت زیادہ شیعہ شیعہ یا سنی سنی کرتے رہتے ہیں اور خود کو ان کا خیر خواہ ظاہر کرتے ہیں، انہیں حقیقت میں نہ تو اہل سنت سے کوئی لگاؤ ہے اور نہ ہی شیعوں سے کوئی دلچسپی، نہ بزرگان اسلام سے انہیں کوئی عقیدت ہے اور نہ دور حاضر کے علماء کا ان کی نظر میں کوئی احترام۔ ان افراد کے کچھ خاص اہداف ہیں۔ ان تمام مسائل پر قابو پانا اور باہمی اتحاد قائم کرنا چاہئے۔ انشاء اللہ یہ اتحاد عالم اسلام کی فتح کی بنیاد قرار پائے گا۔
میں ایک بار پھر آپ حضرات کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته
1) احزاب: 12 و 13
2) احزاب: 24
3) حج: 40
4) فتح: 6
5) فتح: 12
6) عنكبوت: 69