خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی سب سے پہلے مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے (1) آپ تمام برادران عزیز کا کہ جنہوں نے قرار داد نمبر پانچ سو اٹھانوے کو آگے بڑھانے میں کافی محنت اور مشقت کے ساتھ کوشش کی اور اسی طرح مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کا جنہوں نے اس کام میں آپ کا ساتھ دیا پرخلوص شکریہ ادا کرتاہوں۔ الحمد للہ آپ کی زحمتیں نتیجہ خیز ہوئیں، آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ہم نے جنگ کے دوران اور مختلف شعبوں میں نصرت الہی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ یہ بھی انہیں نصرتوں میں سے ایک ہے۔ ہر جنگ میں فوجی محاذ کے ساتھ ہی ایک سیاسی محاذ بھی ہوتا ہے جس کے حالات کم وبیش فوجی محاذ جیسے ہی ہوتے ہیں۔ یعنی اگر فرض کریں کہ اگر فوجی جنگ کے میدان میں دنیا کے کچھ لوگ مثال کے طور پر ایک بڑا مجموعہ دشمن کی مدد کرے تو یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ سیاسی محاذ پر وہی لوگ ہماری مدد کریں گے۔ یہ تقریبا نامعقول چیز ہے۔ ہمارے دشمن کی دونوں محاذوں پر مدد ہو رہی تھی۔ اگرچہ سیاسی محاذ تمام لوگوں اور تمام اداروں کے لئے واضح اور آشکارا نہیں تھا لیکن آپ کے لئے اور ان تمام لوگوں کے لئے جو خارجہ پالیسی کے مسائل سے سروکار رکھتے تھے، پوری طرح واضح تھا۔ وہ ڈپلومیسی کی سرد فضا، وہ دنیا میں ہونے والی عجیب و غریب سازشیں، گوشہ وکنار سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف سر اٹھا رہی تھیں۔ وہ پوری دنیا میں ہم آہنگ تشہیراتی لہر، جس میں، مشرق سے لیکر مغرب اور رجعت پسندوں تک سبھی شریک تھے، یہ وہی سلسلہ تھا جس کا ایک سرا ہم جنگ کے میدانوں میں، دشمن کو دیئے جانے والے جدید ترین ہتھیار اور جنگی وسائل کی شکل میں دیکھتے تھے۔
الحمد للہ دونوں میدانوں میں ایمان، ہدف کی لگن اور خدا کے لئے اخلاص نے اپنا کام کیا۔ جنگ کے میدان میں بھی، الحمد للہ ہمارے سپاہیوں نے، فوج، سپاہ پاسداران اور عوامی رضاکار فورس بسیج کے بہادر سپاہیوں، کمانڈروں اور ہمارے ایک ایک فرد نے فداکاری کے ساتھ جنگ کی اور دشمن کو مبہوت کردیا اور اسی تناسب سے ڈپلومیسی کے محاذ پر بھی ہمارے افراد فعال تھے۔ ہم نے واقعی اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ برادران کتنی زحمت کررہے ہیں۔ کتنی کوشش کررہے ہیں۔ کتنی محنت اور مشقتیں برداشت کررہے ہیں۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے۔
یہ وعدۂ خدا کہ فرماتاہے کہ ان تنصراللہ ینصرکم (2) جھوٹ نہیں ہے۔ یہ اتنا واضح وعدہ ہے کہ نہ آیت متشابہ ہے اور نہ ہی اس کے مضمون میں کوئی شک ہے۔ پوری طرح واضح ہے۔ ممکن ہے کہ آپ یہ توقع رکھیں کہ وعدۂ ان تنصراللہ ینصرکم اسی لمحے پورا ہوجائے۔ نہیں، یہ توقع زیادہ ہے۔ اسی لمحے نہیں ہوگا لیکن ہوگا ضرور۔ بیشک خدا آپ کی نصرت کرے گا۔ ینصرکم یہ اس کا نمونہ ہے۔ یہ ہمارے لئے درس ہونا چاہئے۔ چنانچہ، الحمدللہ، ہے۔
جو لوگ اسلامی جمہوریہ کے مقابلے پر تھے وہ واقعی ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشۃ ضنکا (3) کے مصداق ہوگئے۔ انہوں نے اعراض کیا اور خدا وند عالم نے ان پر سختی کی۔ خدا کی سختی عجیب چیزوں میں سے ہے۔ جہاں گمان نہیں ہوتا ہے وہاں ظاہر ہوتی ہے۔
دیکھئے اس وقت کیا ہورہا ہے۔ میں نے جب مشرقی یورپ کے ان حوادث (4) کو دیکھا اور دیکھتا ہوں تو جس دن سے ان کی شروعات ہوئی ہے، اسی دن سے کچھ چیزیں محسوس ہورہی ہیں۔ ملکوں کے موقف اور ان کے طرز عمل، ان حوادث سے جو اس وقت یہاں رونما ہورہے ہیں، کتنا واضح طور پر مرتبط ہوگئے ہیں۔ یہ کون سا ہاتھ اور کون سا عنصر ہے؟ یہ ہم لوگوں کی زندگی میں کون سا غیر مرئی قانون ہے جو اس طرح تمام مسلمہ قوانین پر غلبہ حاصل کررہا ہے؟ آپ نے دیکھا کہ ناگہاں ایک قلعہ ڈھیر ہو گیا۔ ٹوٹ رہا ہے اور ختم ہورہا ہے۔ یہ کسی علت کے بغیر نہیں ہے۔ وہ غیر مرئی عوامل یہاں اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں۔ یقینا ان تباہ شدہ ممالک میں اور اس اجڑی ہوئی سلطنت میں ایمان الہی کی نسبت موقف یعنی خدا پر عدم اعتقاد، ان جملہ عوامل میں سے ایک ہے۔
آج شاید مغرب والوں میں یا کم سے کم ان کے پروپیگنڈوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ سوویت یونین سوشلزم کے تجربے کی ناکامی کے سبب اس نتیجے سے دوچار ہوئی ہےکہ وہ اقتصاد غلط تھا۔ ستر سال کے بعد اس کی سمجھ میں آیا کہ یہ اقتصاد صحیح ہے۔ یعنی سوشلزم کے نظام کے خاتمے کو ایک دوسرے تجربے کے لئے یا سرمایہ داری نظام کی بنیادوں کے استحکام کو بیان کرنے کے لئے تجربہ قرار دینا، یہ غلط ہے۔ یہ اندازہ ہرگز صحیح نہیں ہے۔ اس کا اس قضیے سے کوئی ربط ہی نہیں ہے۔ اس کی علت اور سبب کو کہیں اور تلاش کرنا چاہئے۔ اصل مسئلہ دین کی دشمنی اور معنوی ایمان سے جدائی ہے۔ ہر جگہ جہاں بھی یہ منفی عنصر جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی انتشار اور نابودی اس کے انتظار میں ہوگی۔ البتہ میں نے عرض کیا کہ یہ تصور نہیں رکھناچاہۓ کہ بس کل ہی ہوجائے۔ دوسرے ممالک بھی جو دوسری شکلوں میں، اگرچہ اتنی آشکارا اور واضح شکل میں نہیں، دین کی مخالفت کریں انہیں بھی اسی حالت کا منتظر رہنا چاہئے۔ یہ صدی جیسا کہ نظر آرہی ہے، انشاء اللہ معنویت کی سمت اور دین کی طرف بشریت کے عمومی رجحان کی صدی ہے۔
بہرحال ہمارے پاس جو ہے وہ اسلام کی برکت سے ہے۔ انقلاب آنے اور اسلام کی برکت سے ہے۔ اگر دلوں کی گہرائیوں میں یہ اسلامی ایمان نہ ہوتا تو ممکن نہیں تھا کہ اس ملک کے اس ماضی کے بعد جس سے آپ سب خاص طور پر موجودہ صدی میں اس کی جو حالت تھی اس سے واقف ہیں، کوئی بھی طاقتور ہاتھ اس ملک کے عوام کو حرکت میں لاسکتا۔ جو چیز ہمارے لئے وہ بے نظیر رہبری لائی وہ مذہبی ایمان تھا۔ یعنی آپ جتنا بھی امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے معنوی اقتدار اور استحکام کا اندازہ کرسکیں اتنا ہی آپ کی دینداری، ایمان اور معنویت کا بھی اندازہ لگانا چاہئے۔ یعنی آپ کی طاقت و قوت کا سرچشمہ دینداری اور دینی ایمان اور وہ جذبۂ معنوی تھا جو آپ کے وجود میں موجزن تھا۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد عوام کی پائیداری،اسلامی جمہوریہ کی تشکیل، اس کی بقا، اس کی جڑوں کا مضبوط ہونا، اس کی موجودہ حالت، مختلف پہلوؤں سے حاصل ہونے والی پیشرفتیں، مسلط کردہ جنگ کا انجام، اور ان بے شمار جنگوں کا انجام جن کا اقتصادی اور سیاسی دنیا میں ہمیں اب تک سامنا کرنا پڑا اور سب میں حق کو کامیابی ملی، اگرچہ ان میں سے بعض میں ہم ابھی آدھے راستے میں ہیں، یہ سب ہمارے اسلامی ایمان اور ہمارے عوام کے اسلامی اعتقادات کا نتیجہ ہے۔ ہمیں اس کی حفاظت کرنی چاہئے۔ اپنے بیانات میں، اپنی کارکردگی میں، اپنی جہت اور سمت کے تعین میں اور ہماری مختلف پالیسیوں میں اس کو ہمارے لئے معیار ہونا چاہئے۔ کسی بھی رجحان کو ہمارے دینی رجحان میں نہ حائل ہونا چاہئے اور نہ ہی اس پر غالب آنا چاہئے۔ ہمارے تمام رجحانات اور فیصلوں کو مذہبی ایمان کے معیار اور دین اور اسلام کے احکام کے معیار پر پرکھنے کے بعد یہ حکم لگایا جائے کہ یہ صحیح ہے اور یہ غلط ہے۔ یہ ہماری پیشرفت کا راستہ ہے۔ وہ چیز ہے کہ جو قوم میں حکام کی محبت بڑھائے گی اور انہیں ان کی پشت پر باقی رکھے گی۔
آپ اس وقت سوویت یونین کی سلطنت کو بکھرتے دیکھ رہے ہیں۔ جو چیز اس کا شیرازہ بکھرنے کااہم ترین اور بنیادی سبب ہے وہ عوام سے دوری ہے۔ عوام سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔ سوویت یونین کے لیڈروں اور عوام کے درمیان کوئی رابطہ نہیں ہے۔ یعنی ان کی قیادت عوام پر انحصار نہیں کرسکتی۔ ورنہ اگر وہ اپنے عوام پر بھروسہ کرتے تو کیا اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں، امریکیوں اور ان کے سیاستدانوں کے پروپیگنڈے سوویت یونین کے حالات کو اتنے فیصلہ کن موڑ تک لاسکتے تھے؟ سوویت یونین کی موجودہ حالت میں کوئی بھی چیز امریکیوں کے پروپیگنڈوں اور ان کی سیاسی بازیگری جتنا موثر نہیں رہی ہے۔ وہ قدم بہ قدم معاملات کو بڑھاکر یہاں تک لائے۔ اب اس کے بعد خدا ان ریاستوں بالخصوص بڑی ریاستوں کی مدد کو آئے کہ ان کے ساتھ کیا ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے عوام کو اپنے ساتھ نہیں رکھا ہے۔ کوئی بھی نظام جو عوام سے مرتبط اور متصل نہ ہو، طویل مدت کے لئے، مستقبل کے لئے، اطمینان بخش منصوبہ بندی نہیں رکھ سکتا۔
ہمارے عوام مذہبی اور متدین ہیں۔ اس عقیدے اور اس رابطے کی حفاظت کا اہم ترین عامل وہ تحریک ہے جو الحمد للہ آپ چلارہے ہیں۔ دین کے احترام اور اسلامی اصولوں کی پابندی کی دینی تحریک۔ بہرحال میں آپ حضرات کا بہت زیادہ شکر گزار ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ایرانی قوم کو یہ کامیابی عطا کی اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اگرچہ اس کے بعد کے مراحل کی پیروی بھی جیسا کہ حضرات نے منصوبہ بندی کی ہے، ضروری اور بہت اہم ہے لیکن شروع سے ہی کامیابی کی عظمت نمایاں ہوگئی ہے۔ شاید ضروری ہو کہ جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ پوری طرح ایرانی قوم کے لئے بیان کیا جائے کہ کتنی عظیم کامیابی ہے۔ یہ بہت اہم ہے اور درحقیقت پوری ایرانی قوم اور ان لوگوں کے لئے جنہوں نے مسلط کردہ جنگ کے نقصانات برداشت کئے ہیں، باعث تسلی ہے۔
دعا ہے کہ انشاء اللہ خدا کا فضل آپ پر، تمام حکام پر اور ملت ایران پر جاری رہے اور خدا وند عالم اپنے تفضل اور حضرت ولی عصر ( ارواحنا فداہ) کی خاص عنایات سے روز بروز زیادہ خوشیاں نصیب کرے۔ انہیں میں سے ایک بڑی خوشی ہمارے صدر محترم (5) کا حالیہ دورہ تھا جس نے واقعی عوام کو خوش کردیا اور ان کے دلوں سے بہت سے غم دور کر دیئے۔ میری نظر میں اس سے بڑا کوئی اچھا کام نہیں ہے کہ انسان عوام کو جو واقعی خوشی کے مستحق ہیں، خوش کرے اور اس دورے نے ، اس کانفرنس میں شرکت بھی (6) اور سوڈان کے سفر نے بھی اور آپ حضرات کے اقدام نے واقعی عوام کو خوش کر دیا۔ یہ چیزیں اتفاقیہ حاصل نہیں ہوتیں۔ ہم کام کرچکے ہیں، جانتے ہیں کہ جو کچھ پیش آتا ہے وہ بے شمار مشقتوں فداکاریوں، زحمتوں اور کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے اور الحمد للہ نتیجہ اس شکل میں سامنے آیا۔ انشاء اللہ کامیابی اور تائید الہی آپ کو حاصل ہو۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

1-اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد نمبر پانچ سو اٹھانوے کا جائزہ لینے والی کمیٹی کے اہم ارکان یہ تھے؛ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی ( اس وقت کے وزیر خارجہ) حجت الاسلام والمسلمین روحانی( قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری) حجت الاسلام والمسلمین فلاحیان ( انٹیلیجنس کے وزیر ) جناب مہاجرانی ( صدر کے مشیر برائے قانونی امور )
2- محمد ؛ 7
3- طہ ؛ 124
4- گورباچوف کے دور میں سابق سوویت یونین میں جو تغیرات آئے، اس کی لہر مشرقی یورپ اور ان ملکوں میں بھی پہنچی جو سوویت یونین کے زیر اثر تھے اور قومیت پرستی اور خود مختاری کے رشد میں موثر واقع ہوئی۔ اس درمیان مغربی دنیا بالخصوص امریکا نے ان ملکوں کو سوویت یونین کے تسلط سے نکالنے میں کافی کوششیں کیں جو سرانجام سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور وارسا پیکٹ کے ختم ہونے پر منتج ہوئیں۔
5- افریقی ملکوں، سنیگال اور سوڈان کا دورہ جس میں ان ملکوں کے عوام نے مثالی استقبال کیا۔
6- اسلامی کانفرنس تنظیم کا چھٹا سربراہی اجلاس جو آٹھ دسمبر انیس سو اکانوے کو سنیگال کے دارالحکومت ڈاکار میں شروع ہوا اور چار دن تک جاری رہا۔