اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خدا وند عالم کا اس کی بے شمار نعمتوں اور رحمتوں پر بالخصوص مسلح افواج کے تعلق سے اس کے خصوصی الطاف پر شکریہ ادار کرتا ہوں۔ یقینا مسلط کردہ جنگ کے سخت برسوں اور ایام میں اسلامی وطن کے فرزندان عزیز کی سعی و کوشش اور فداکاریاں خداوند عالم کے الطاف بیکراں کا باعث بنی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس علاقے میں مسلح افواج اس جذبے کے ساتھ جو اس علاقے کے شایان شان ہے، خدمت میں مشغول ہیں۔ یہ علاقہ بہت اہم اور تاریخی تجربات کے لحاظ سے بہت عبرت انگیز اور درس آموز ہے۔ یہ علاقہ خلیج فارس کے دیگر علاقوں کی طرح کسی زمانے میں غاصبوں اور تسلط پسندوں کی جن کی نگاہ میں اقوام کی خودمختاری اور ان کی قدر کی کوئی حیثیت نہیں تھی، طاقت کی نمائش کا مرکز تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسی بوشہر میں اس وقت کی ایران کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے برطانیہ نے اپنی فوج اتار دی تھی اور اس سوق الجیشی اہمیت کے ساحل پر قبضہ کرلیا تھا۔ یہ روش مختلف شکلوں میں، اگر چہ براہ راست قبضے کی شکل میں نہیں تھی، لیکن بہرحال طویل برسوں تک ان علاقوں میں جاری رہی۔
آج آپ ان ساحلی علاقوں کے امن و سلامتی کے محافظ ہیں اور کسی اور طاقت کے بھروسے نہیں بلکہ اپنی زمینی افواج اور قوم کی پشت پناہی کے ساتھ خدمت میں مصروف ہیں۔ ماضی قریب میں یعنی اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس خود مختاری اور سرفراز انسان کی طرح خود انحصاری کی جس کا اسلامی انقلاب اور اسلامی عظمت کی برکت سے آپ میں سے ایک ایک فرد میں مشاہدہ کیا جاتا ہے، قدر کریں۔ آج ہماری مسلح افواج جہاں بھی ہیں اور جس ادارے میں بھی خدمت میں مصروف ہیں، احساس کرتی ہیں کہ کسی بھی بیرونی طاقت پر انحصار نہیں کرتیں اور اپنی ذاتی قوت اور قومی طاقت اور ان سب کے سرچشمے یعنی ایمانی اعتقاد کے علاوہ کسی اور پر بھروسہ نہیں کرتی ہیں۔ یہ افتخار ہے۔
جو افواج آج خلیج فارس میں بعض جگہوں پر غاصبانہ طور پر موجود ہیں، ہماری قوم اور ہماری مسلح افواج کے لئے ایسی چیز ہیں کہ جو جلد یا دیر ختم ہوجائیں گی۔ خلیج فارس اس کی ساحلی اقوام کا ہے۔ خلیج فارس کی سلامتی کی فراہمی ان اقوام کا فریضہ ہے جودنیا کے اس اہم علاقے میں رہتی ہیں اور چونکہ اسلامی جمہوریہ ایران کا ساحل طولانی ہے اس لئے اس علاقے کی سلامتی کا بڑا حصہ ہم سے تعلق رکھتا ہے اور ہم انشاء اللہ اپنا یہ فریضہ خدا کے فضل سے ادا کریں گے۔ یہ ہمارا تاریخی، جغرافیائی اور علاقائی فریضہ ہے۔
آپ مسلح افواج اس آمادگی اور تیاری کے ساتھ جس کوہمیشہ پہلے سے زیادہ کر رہے ہیں، ملت ایران کی طاقت و توانائی کی مظہر بن سکتی ہیں۔ جس طرح آپ کی طرف سے قوم کی پشت پناہی ظاہر ہے اسی طرح قوم کی نگاہیں بھی اپنی سرحدوں، حیثیت اور عزت کے محافظ آپ فرزندوں پر ہیں۔
مسلح افواج کی تیاری بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس علاقے میں ہماری بحری فوج کے سپاہی جو الحمد للہ ماضی کی نسبت، بہت بہتر اتحاد ویکجہتی کے ساتھ فریضے کی انجام دہی میں مصروف ہیں، اپنی یہ ہم آہنگی، تعاون اور ہمدلی روز بروز زیادہ کریں۔ دو ادارے ہوں لیکن جذبہ اور ہدف ایک ہو یعنی ایک روح اور دو قالب ہوں۔ قالب ایک دوسرے میں نہ ملیں لیکن جذبات و احساسات روز بروز نزدیک تر ہوں۔ تعاون اور ہمفکری اعلا حد پر ہو اور انشاء اللہ خدمت میں، قدم سے قدم ملاکر اس تعاون اور ہم فکری کا اظہار ہو۔ یہ دونوں بحری فوجوں کے لئے بہت اچھا موقع ہے۔
(ضرورت کے نئے وسائل کی) تعمیر اور حفاظتی ذمہ داریوں کی تاکید کے ساتھ سفارش کروں گا۔ آج یہ آپ کا بہت اہم فریضہ ہے۔ وسائل کی تعمیر کا اچھا موقع ہے۔ یہ کام پوری سنجیدگی اور جدت کے ساتھ کریں اور آپ جیسے انقلابی اور عزم راسخ کے مالک انسانوں سے جو توقع ہے، اس کے مطابق درمیانی راستہ تلاش کریں اور آگے بڑھیں۔ ملک میں ہر جگہ تمام مسلح افواج کو چاہئے کہ فوجی وسائل کی مرمت اور تعمیر نو اور ان کی حفاظت کو بہت اہم سمجھیں۔ آپ کے اندر استعداد اور صلاحیت ہے۔ مسلح افواج کے تعلق سے بالخصوص اس شعبے میں جو بہت اہم اور حساس ہے، اپنی استعداد اور لیاقت کو ظاہر کریں۔
الحمد للہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کی جو پوزیشن ہے، اس کے پیش نظر ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اپنی ضرورت کے وسائل دنیا میں اکثر جگہوں سے حاصل کریں۔ اس سلسلے میں ہمیں ماضی کی مشکلات کا سامنا نہیں ہے اور بعض شعبوں میں کوئی مشکل ہے ہی نہیں لیکن اس کے باوجود زیادہ بھروسہ اپنے آپ پر، اپنی ایجادادت پر، اپنی دولت پر، اپنے فنکار ہاتھوں پر اور اپنی فعال ذہانت پر ہونا چاہئے۔ تمام شعبوں میں اس کو ایک کلی دستور اور اصول سمجھیں اور اس کی اساس پر منصوبہ بندی کریں۔ اس کے ساتھ ہی افرادی قوت کی تیاری اور تمام شعبوں میں استعداد اور صلاحیتوں میں نکھار کو سرفہرست رکھیں۔
برادران عزیز ' مسلح افواج کے سپاہیو' تاریخ کے تجربے کے مطابق جو چیز تمام اقوام کے لئے باعث افتخار ہے، وہ دفاعی توانائی اور تعمیر کی صلاحیت ہے۔ اقوام کی تقدیر اور اہمیت کے معیار میں جو چیز سب سے اوپر ہے، وہ یہی دونوں توانائیاں ہیں۔ تاریخ میں، سطحی باتوں تک رسائی رکھنے والے دماغوں اور سطحی باتیں کرنے والی زبانوں کے علاوہ کوئی بھی، کسی بھی ملک کی اس کی تجارت کی وسعت، یا تجملات زندگی، یا اشیائے صرف کے زیادہ استعمال اور اس طرح کی دوسری چیزوں پر تعریف نہیں کرتا لیکن ان اقوام کی جنہوں نے اہم مواقع پر اپنا دفاع کیا ہے، تاریخ تعریف کرتی ہے اور گہری نظر رکھنےوالے، ان کو تحسین آمیز نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ تاریخ ان اقوام کی تعریف کرتی ہے جنہوں نے ہولناک وار لگنے اور وسیع تباہی آنے کے بعد تعمیر نو اور ايجادادت کی قوت سے اپنی حالت پہلے جیسی بلکہ پہلے سے بہتر بنا لی۔
آپ مسلح افواج اور پوری ایرانی قوم نے ایک مرحلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کی، دوسرے مرحلے یعنی تعمیر نو کے مرحلے میں بھی ملک کی ہر سطح پراسی طاقت و توانائی کامظاہرہ کرے اور ہر اس جگہ جہاں سربلند اور لائق ایرانی عوام کو موجود رہنا چاہئے، موجود رہے۔ مقدس دفاع کے دوران پوری قوم ایک ساتھ تھی، آگے آگے تھی، مسلح افواج، فوج، سپاہ پاسداران اور عوامی رضاکار فورس بسیج کے سمندر نے مختلف میدانوں میں ایسے ‏عظیم کارنامے انجام دیئے کہ دنیا کی نگاہیں اس پر مرکوز ہو گئيں۔ آج بھی ہم ماضی کے برسوں کی طرح بلکہ اس سے زیادہ ہم دنیا کی توجہ اور حیرت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
دوسرے حصے میں بھی مسلح افواج کو تعمیر میں شرکت کرنا چاہئے۔ پہلے جہادی انداز میں، عام لام بندی کی شکل میں، ان انقلابی انسانوں کی شکل میں جو تمام وسائل فراہم ہونے کا انتظار کئے بغیر جو معمولی لوگوں کے لئے ضروری اور موثر ہوتے ہیں، ایک لمحے کے لئے بھی آرام سے نہیں بیٹھتے، عاشقانہ جوش و جذبے کے ساتھ استعداد اور ایجادی صلاحیتوں کے ساتھ، اس کے بغیر کہ یہ کہا جائے کہ یہ نہیں ہے اور وہ نہیں ہے، حتی خالی شرکت کریں۔ تعمیر اگر انسانوں کے شوق و اشتیاق اور خلاقیت پر استوار ہو تو تمام تر کمیوں اور چیزوں کے فقدان کے باوجود ہوسکتی ہے۔ ہم الحمد للہ فقدان کا شکار بھی نہیں ہیں۔ ہم ابھرنا چاہتے ہیں، ہم اپنی استعداد کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ دوسرے مسلح افواج سے باہر، فوج اور سپاہ پاسداران ملک کی تعمیر نو میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں۔ جس طرح کہ آج دونوں ادارے، بالخصوص سپاہ پاسداران نے ملک کی تعمیر نو کے بڑے پروجکٹ اپنے ذمے لئے ہیں اور اس میں شریک ہیں۔
ہماری عزیز قوم کو محسوس ہونا چاہئے کہ مسلح افواج صرف جنگ کے دوران ہی نہیں بلکہ تعمیر نو میں بھی پیش پیش رہ سکتی ہیں۔ البتہ مسلح افواج میں پہلا مسئلہ جنگی تیاری کی حفاظت اور زیادہ سے زیادہ تربیت، نظم وضبط، مختلف قسم کی توانائیوں کا حصول اور مسلح افواج کے ادارے کے اندر تعمیر نو ہے اور بعد کے درجے میں ملکی سطح پر تعمیر نو کا مسئلہ ہے۔
خدا کو ہرگز فراموش نہ کریں۔ اپنے دل کو طاقت کے غیبی منبع یعنی وجود کے سرچشمہ فیاض یعنی خدا ئے عظیم سے متصل رکھیں۔ خدا سے زیادہ سے زیادہ انس حاصل کریں۔ انسان طاقت کے اس لایزال سرچشمے کی پشت پناہی سے ایسا ہوجاتا ہے کہ نہ اس کو شکست دی جاسکتی ہے اورنہ ہی اس کو کوئی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ آپ بالخصوص نوجوان، اپنے پاکیزہ دلوں اور روشن روح کے ساتھ خدا سے متصل ہوکے اپنے اندر یہ کیفیت پیدا کریں۔ خدا وند عالم بھی آپ کے لئے اپنے تفضل کا سرچشمہ کھول دے گا۔ انشاء اللہ کامیاب رہیں۔ حضرت ولی عصر ( ارواحنا فداہ ) کی عنایات آپ کے شامل حال ہوں اور آپ ہمیشہ حق و فضیلت کے سپاہی شمار کئے جائیں۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ