آپ نے ملکی حالات، اسلامی نظام کی خصوصیات، عالمی تغیرات اور اسلامی جمہوریہ ایران کی عالمی ساکھ پر سیر حاصل بحث کی۔
تفصیلی بیان پیش خدمت ہے۔

بسم اللّٰہ الرّحمن الرّحيم
و الحمد للّٰہ ربّ العالمين و الصّلاۃ و السلام عليٰ سيّدنا و نبيّنا ابي القاسم محمّد و عليٰ آلہ الآطيبين الاطھرين و صحبہ المنتجبين سيّما بقيّۃ اللّٰہ في الارضين، قال اللّٰہ الحکيم في کتابہ: بسم اللّٰہ الرّحمن الرّحيم ۔ يايھا الّذِينَ آمَنُوا اذکُرُوااللّٰہَ ذِکراً کثيراً وَّسَبِّحُوہُ بُکرَۃً وَّ اَصِيلاً۔ً ھُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيکُم وَ مَلآئِکَتُہ لِيُخرِجَکُم مِّنَ الظّلُمَاتِ اِلٰي النُّورِ وَ کَانَ بِا المُومِنِينَ رَحِيماً۔ تَحِيَّتُھُم يَومَ يلَقَونَہُ سَلَام وَاَعَدَّ لَھُم اَجراً کَرِيماً۔

دل اور ايمان کي باتيں تمام باتوں پر مقدم ہيں
يہ موقع اور لمحات بہت قيمتي ہيں، ملک کا نظم و نسق چلانے والے تقریبا سبھی اہم عہدہ دار اور حکام يہاں اِس اہم اجلاس ميں موجود ہيں۔ ملکي سياست اور مختلف داخلی مسائل کے بارے ميں بابِ سخن ہميشہ کھلا ہے۔ کہنےکے لئے باتيں بھي بہت زيادہ ہيں اور ان کا بیان کرنا لازمي بھي ہے ليکن ميں غور کرنے کے بعد اِس نتيجے پر پہنچا ہوں کہ ہميں ان روحانی اور معنوی لمحات کو ایک ایسے فعل میں بسر کرنا چاہئے جو ہمارے تمام فیصلوں اور منصوبوں کی روح رواں ہو۔ میری مراد تقوی الہی ہے۔ اگر ہمارے فیصلوں، منصوبوں اور کارکردگی میں تقوی و ایمان کی روح داخل ہو جائے تو ہمیں ہمارا نصب العین حاصل ہو جائے گا۔ ميں نے سورہ مبارکہ احزاب کي اِن آيات کا انتخاب کيا ہے تا کہ ہم مل کر اِن ميں تآمل اور غور و فکر کريں۔
جب بھي ميں آيہ شريفہ کے اس ٹکڑے ''اُذکُرُوااللّٰہَ ذِکراً کثيراً وَّسَبِّحُوہُ بُکرَۃً وَّ اَصِيلاً‘‘ پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ مجھے اس آیت پر غور کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، ميں نے محاسبہ نفس کیا تو ايسا نظر آیا کہ خود سازی کے لئے اس آیت پر غور و فکر اور عمل اکسیر کا درجہ رکھتا ہے۔

ہدف و مقصد سے غفلت، انسانوں کی سب سے بڑي مشکل
ارشاد ربّ العزت ہے''يآيھاالّذِينَ آمَنُوا‘‘ يہ خطاب اس وقت ہو رہا ہے کہ جب اسلامي معاشرے کي بنياديں رکھ دي گئي تھيں اور نوخیز اسلامي معاشرہ بڑے بڑے امتحانات ميں سر بلند و کامياب ہو چکا تھا۔ يہ سورہ احزاب کي آيات ہيں جو ہجرت کے چھ سال بعد نازل ہوئيں، يعني جنگ بدر و اُحد و احزاب اور ديگر متعدد جنگيں ہو چکي تھيں، اِس قسم کے حالات ميں قرآن مسلمانوں سے کہتا ہے کہ''اُذکُرُو االلّٰہَ ذِکراً کثيراً ‘‘خدا وندعالم کابہت زيادہ ذکرکرو۔ ذکر يعني ياد، ذکر و ياد انسان کي غفلت و فراموشي کي ضد ہے۔ زندگی کی سرگرمیوں میں الجھ کر اپنے نصب العین کو فراموش کر دینا ہم انسانوں کی بہت بڑی کمزوری ہے۔ ہر انسان چاہتا تو یہی ہے کہ اصل ہدف کسی آن بھی اس کے ذہن سے نکلنے نہ پائے لیکن عملی میدان میں منظر کچھ اور ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے اسی سلسلے میں متنبہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی کا بہت زیادہ ذکر کرو۔
يہاں ميں حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ايک روايت ذکر کر نا چاہتا ہوں''ماَ مِن شَيئٍ اِلّا وَلَہُ حَدُّ يَنتَھي اِلَيہِ اِلّا الذِّکر فَلَيسَ لَہُ حَدّ يَنتَھي اِلَيہِ، فَرَضَ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ الفَرَائِضَ فَمَن اَدَّاھُنَّ فَھُوَ حَدُّھُنَّ؛ وَ شَھرُ رَمَضَانَ فَمَن صَامَہُ فھُوَ حَدُّہُ، وَ الحَجُّ فَمَن حَجَّ فَھُوَحَدُّہُ، اِ لَّا الذِّکرُ فاِنَّا اللّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ لَن يَّرضِ مِنہُ بِالقَلِيلِ وَلَم يَجعَل لَّہُ حَدّاً يَنتھِي اِلَيہِ، ثُمَّ تَلَا يآيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا اذکُرُوااللّٰہَ ذِکراً کَثِيراً‘‘ ''تمام فرائض و واجبات اور احکام الٰہي کي ايک معین حد اور انتہا ہے، جب اس حد اور انتہا تک کوئي شخص پہنچ گیا تو وہ عمل مکمل ہو جاتا ہے اور وہ ذمہ داري اور واجب کام تمام ہو جاتا ہے، سوائے ذکر الٰہي کے، اِ س ذکر الٰہي کي نہ تو کوئي حد ہے اور نہ کوئي معین اندازہ ہے کہ ہم يہ کہيں کہ اتنا ذکر کر ليا تو ہم عہدہ برآ ہو گئے اور اب اِس کے بعد اِس کي کوئي ضرورت نہيں ہے۔
اِس کے بعد حضرت خود وضاحت فر ماتے ہيں کہ''اللہ تعاليٰ نے فرائض و واجبات کو فرض فرمايا ہے کہ جو بھي اِن واجبات کو ادا کرتا ہے وہ اِن واجبات کو اُن کي آخری حد تک پہنچا ديتا ہے۔ مثلاً ماہِ رمضان کہ جس نے اِس ماہ ميں آخر تک روزے رکھے اُس نے اِس واجب کو پورا کر ديا اوراُ س پر سے روزے کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی حج بجا لا ئے اور مناسک حج تمام ہو جائيں تو اُس نے فريضہ حج بھي ادا کر دیا ہے اور اس وجوب سے وہ سبکدوش ہو گیا ہے ليکن ذکر دوسرے واجبات اور فرائض جيسا نہيں ہے۔ يہاں امام ٴ نے دوسرے واجبات کوذکر نہيں فرمايا، بس يہ کہا کہ ذکرِ الٰہي دوسرے فرائض جيسا نہيں ہے۔ جب آپ نے زکات ادا کر دي اور اُس کي مقررہ مقدار کو ادا کر ديا تو اس کا وجوب ختم ہو جاتا ہے، خمس بھي اِسي طرح، صلہ رحم بھي اِسي طرح اور دوسرے واجبات بھي اِسي طرح ہيں، سوائے ذکرخدا کے کہ خداوند عالم اِس کي کم مقدار پر راضي نہيں ہوتا ہے اور نہ اُس نے ذکر کيلئے کو ئي حد اور مقدار مقرر کي ہے کہ جس پر پہنچ کر ذکر روک ديا جائے، اُس کے بعد حضرت نے اِس آیت کي تلاوت فرمائي،''يآيھا الّذِينَ آمَنُوا اذکُرُو اللّٰہَ ذِکراً کثيراً‘‘۔ يہ ہے ذکر کي اہميت!

صاحب تفسير الميزان کا ايک لطيف نکتہ!
اِس آيت کے بعد ارشاد ہوتا ہے کہ ''ھُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيکُم وَ مَلآئِکَتُہُ‘‘، صاحب تفسير الميزان علامہ طباطبائي فرماتے ہيں کہ''آيہ شريفہ ''ھُوَ الَّذِي يُصَلِّي‘‘ امر ''اذکُرُوااللّٰہَ ذِکراً کثيرا‘‘ کے مقام تعليل ميں ہے، يعني ذکرِ کثير کہ جس کا حکم دیا گيا ہے اس کي وجہ يہ ہے کہ تم خدا کو ياد کرو، وہي خدا کہ جو تم پر درود و سلام بھيجتا ہے، خدا ہی نہیں اُس کے فرشتے بھي صلوات بھيجتے ہيں،''ھُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيکُم وَ مَلآئِکَتُہ‘‘ خداوند عالم کي يہ صلوات در اصل اُس کي رحمت ہے جبکہ ملائکہ کا درود و سلام مومنين کيلئے استغفار ہے''وَيَستَغفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا‘‘ يہ سب آیات قرآنی ہيں۔

صاحبانِ ذکرِ کی جزا تاريکيوں سے نجات اور نور کي طرف سفر!
آخر کيا وجہ ہے کہ خداوند عالم اور اُس کے ملائکہ عالم غيب سے آپ کيلئے درود و سلام اور صلوات بھيجتے ہيں؟ ''لِيُخرِجَکُم مِّنَ الظّلُمَاتِ اِلٰي النُّورِ‘‘ تا کہ آپ کو ظلمات اور تاريکيوں سے نجات دلاکر نور کي طرف لے جائيں، اِس نور و ظلمت کي داستان بہت طويل ہے۔ يہ ظلمت و تاريکي ہمارے افکار وخيالات، ہمار ے دل و دماغ اور اخلاق سے تعلق رکھتی ہے جبکہ اور انوار کی جگہیں بھی یہی ہیں۔ ہمارا عمل تاریکی کا باعث بھی ہو سکتا ہے اور نورانيت کا سرچشمہ بھي۔ انساني ذہن، افکار و نظريات اور اُس کے عقائد نوراني بھي ہو سکتے ہيں اور ظلمت و تاريکي کی آماجگاہ بھي۔ اِسي طرح انساني اخلاق و کردار بھي تاریک و نوراني ہوسکتے ہيں، بالکل اِسي طرح ايک قوم کي تحريک اور اجتماعي جدوجہد، ظلمت و تاريکي کي سمت بھي مڑ سکتي ہے اور نور کي جانب بھي۔

ظلمت و تاريکي اور نور سے کيا مراد ہے؟
اگر کسي ملک و قوم پر حکومت کرنے والے گروہ یا فرد پر شہوت نفسانی، نفس امارہ، حرص و لالچ اور دنيا داري غالب آ جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تاریکیوں میں غرق ہو گیا ہے۔ اِس عالم ميں انجام ديا جانے والا ہر کام تاریکی کا مظہر ہوگا ليکن اگر وہ معنويت و روحانيت، دين، انسانيت، اخلاق و صداقت سے آراستہ ہو تو ہر سمت نورانیت ہی نورانیت ہوگی۔ اسلام و قرآن ہميں اِسي کي دعوت ديتے ہيں، خداوند متعال اور اُس کے ملائکہ ہميں اِسي کيلئے تيار کرتے ہيں کہ ہميں اِن ظلمات و تاريکيوں سے نکال کر نور کي وادي ميں لے جا ئيں۔ تو اس مقام پر ذکر الہی کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

ذکرِالٰہي کے درجات
ذکرِ الٰہي کے بہت سے مراتب اور درجات ہيں۔ ہم تمام انسان ايک ہی مقام و مرتبے پر فائز نہيں ہيں بلکہ ہمارے درجات مختلف ہيں۔ بعض افراد اپني روح کي بلندي کي وجہ سے بالا ترين درجات کے حامل ہوتے ہيں، مثلاً انبيا و اوليائے کرام اور صالحين۔ بعض افراد ہم جیسے بھی ہیں جو ذکر الہی تو کرتے ہیں لیکن اس ذکر کے درجات اتنے بلند نہیں ہیں جبکہ بعض افراد ایسے بھی ہیں جن کو ان بلند درجات کی کوئي خبر ہی نہیں ہے! اس سب کے باوجود ذکرخدا سب انسانوں کيلئے لازمي و ضروري ہے۔ ہم جيسے عام انسانوں کيلئے بھي اور بلند ترين درجات پر فائز شخصيات کيلئے بھي۔ يہ وہي چيز ہے کہ جسے امير المومنين عليہ السلام نے ايک روايت ميں اِس طرح بيان کيا ہے کہ''الذّکرُ مجَالِسَۃُ المَحبُوبِ‘‘ ''ذکر محبوب کی ہم نشيني ہے‘‘ يہ اوليائے خدا کی منزل ہے کہ ذکر الہی محبوب کی ہم نشيني کا درجہ رکھتا ہے۔ ايک اور روايت ميں آيا ہے کہ''اَلذِّکرُ لَذَّۃُ المُحِبِّينَ‘‘ ذکرِالٰہي در اصل عاشقوں اور محبت کرنے والوں کے لئے خاص لذت والی شئے ہے۔ يہ لذت اوليائے خدا، اہل دل اور اللہ والوں کا خاصہ ہے۔

ذکر ِخدا کے درجات کي روشني ميں اوليائے الٰہي اور ہم عام انسانوں کے مراتب
ہم میں بڑے خوش قسمت ہیں وہ افراد جن کي زندگي میں لذت ذکر خدا کا رس گھل جائے اور ماہ مبارک رمضان کی اس روحانی فضا میں جن کے قلوب ذکر الہی سے منور ہو جائیں۔ ہم عام انسانوں کے لئے ایسا لمحہ کبھی کبھی آتا ہے لیکن انبيا و اوليائے الٰہي تو مسلسل اسی فضا میں سانس لیتے ہیں، خوش قسمت ہیں وہ افراد جو ہر آن ذکر الہی میں مصروف رہتے ہیں، خدا والوں کے شب و روز اسی انداز سے گزرتے ہیں۔ البتہ عام انسان جن کے درجات اتنے بلند نہیں ہیں وہ بھی ممکن ہے کہ کسی لمحہ اس روحانی و معنوی لذت کا احساس کریں، ایسے ہر لمحے کی قدر کرنا ہمارا فرض ہے۔ اولیائے الہی کی زبان سے ذکر خدا کا انداز الگ ہوتا ہے۔ ان کے درجات بلند ہیں لیکن ہم عام انسانوں کی زبان پر بھی اگر ذکر خدا آتا ہے تو اپنی تاثیر ضرور دکھاتا ہے۔ ہمارے لئے اتنا بھی غنیمت ہے۔ ذکر خدا، جب انسان کی زبان پر جاری ہوتا ہے تو اس کا پورا وجود مادیت اور دنیوی آلودگیوں سے پاک و منزہ ہو جاتا ہے۔

ذکرِ خدا؛ محافظ اور مددگار!
ذکرِ الٰہي سے انسان کی قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے اور وہ خواہشات پر بآسانی قابو پا لیتا ہے۔ دنیا کے بازار میں ہمارا نفس اور دل کب کس بہکاوے میں آ جائے یہ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ بہت سي چيزوں سے ہم بہت جلد متآثر ہو جا تے ہيں اور ہمارا دل بہت سی دلکش چیزوں کی جانب مائل ہو جاتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا دل اللہ تعالی کی یاد کا مرکز، اولیائے الہی کی محبت کا پیکر اور اعلی انسانی جذبات کا سرچشمہ بنے تو اس کی حفاظت کرنا ضروری ہے اور ہمارا سب سے بڑا محافظ ''ذکر خدا‘‘ہے۔

ذکرِ الٰہي کرنے والے کا درجہ
ذکر خدا قلب انسانی کو خواہشات اور نفسانی میلانات سے بچاتا ہے اس کی حفاظت کرتا ہے۔ اِس بارے ميں مَيں نے ايک روايت ديکھي ہے کہ جو بہت با معنی ہے، معصوم ٴارشاد فرماتے ہيں کہ''اَلذَّاکِرُ فِي الغَافِلِينَ کَالقَاتِلُ فِي الفَارِّينَ‘ ‘،''خدا سے غافل انسانوں ميں ذکر خدا کرنے والا ايسا ہي ہے جيسا ميدانِ جنگ سے فرار ہونے والوں ميں جہاد کرنے والا ‘‘ آپ ميدانِ جنگ ميں ايک مجاہد کا تصور کيجئے کہ جو دفاع کرتا ہے، استقامت سے لڑتا ہے اور تمام وسائل کو دشمن پر کاري ضرب لگانے اور اُس کے حملوں کو روکنے کيلئے استعمال کرتا ہے ليکن اُسی محاذِ جنگ پر ايک اور سپاہي ہے جو ميدانِ جنگ سے فرار اختیار کرتا ہے، اس کے پیروں میں لرزش پیدا ہو جاتی ہے، وہ دشمن کے مقابلے پر آتا ہے تو گھبرا جاتا ہے۔ معصوم ٴ ارشاد فرما رہے ہيں کہ غافلوں ميں ذکر کرنے والا ايسا ہي ہے جيسا مفرور لوگوں کے درميان ثابت قدم مجاہد۔ توجہ فرمائيے کہ يہ تشبيہہ اِس جہت سے ہے کہ وہ مجاہد حملہ آور طاقتوں کے مقابلے ميں استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے، ذکر الہی بھی استقامت کا درجہ رکھتا ہے، ذکرِ خدا انسان کي ايماني سرحدوں کي حفاظت کرتا ہے اور آپ کے دل کو اللہ تعالی کا میزبان بناتا ہے۔

ذکرِ خدا دلوں کو استحکام اور بدن کو استقامت عطا کرتا ہے
يہي وجہ ہے کہ آپ قرآن کريم ميں جہاد کو بيان کرنے والي آيات ميں ملاحظہ کرتے ہيں کہ خداوند عالم فرماتا ہے کہ ''وَاِذَا لَقِيتُم فِئَۃ ً فَاثبِتُوا وَاذکُرُو اللّٰہَ کَثِيراً لَعَلَّکُم تُفلِحُونَ‘‘؛''جب تم ميدان جنگ ميں دشمن کے مقابلے پر جاؤ تو ڈٹ کر اُس کا مقابلہ کرو اور اللہ کا ذکرکثير کرو‘‘ ثابت قدم رہو، استقامت دکھاؤ اور کثرت سے ذکرِ خدا کرو، يہ وہ مقام ہے کہ جہاں ذکر خدا تمہارے کام آئے گا۔ ''لَعَلَّکُم تُفلِحُونَ‘‘ يہ ذکر خدا وسيلہ ہے کاميابي تک رسائي کا۔ ليکن سوال يہ ہے کہ آخر ذکر خدا ہي کيوں کاميابي کا پيش خيمہ ثابت ہو گا؟ جواب يہ ہے کہ ذکر ِالٰہي، قلب ِانسان کو مستحکم اور مضبوط بناتا ہے۔ جب دل مستحکم ہو جا تا ہے اور انسان ثابت قدمي کا مظاہرہ کرتا ہے تو ميدانِ جنگ ميں کسی پہاڑ کی مانند دشمنوں کا سامنا کرتا ہے۔ ميدانِ جنگ ميں بھي ہم کمزور ايمان و اعتقاد والوں کے قدم قبل اِس کے کہ محاذِ جنگ سے اکھڑیں، ان کا دل فرار ہو چکا ہوتا ہے، يہ ہمارے دل کا خوف اور کمزور ايمان ہے کہ جو ہمارے جسم کو فرار اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے، اگر ہمارا دل مستحکم ہو اور مضبوط ايمان کا حامل ہو تو ہمارا جسم بھي ڈٹ کے دشمن کا مقابلہ کرے گا۔

زندگي کے تمام ميدانوں ميں ذکر خدا
زندگي کے ميدان میں دشمن کا مقابلہ ہو يا سياسي جنگ کے نشيب وفراز، اقتصادي ميدان کا مد و جزر ہو يا ميڈيا کا سيلاب، آپ کو چاہئے کہ ذکر خدا کريں کہ جو آپ کي کاميابي کا ضامن اور آپ کے ثبات قدم اور استقامت کا سرچشمہ ہے۔ ذکرِ الٰہي ہمیں صراط مستقیم کا راہرو بنا دیتا ہے۔ ايک مومن و مسلمان اور ايک ترقي پسند مکتب فکر کے پيروکار ہونے کي حيثيت سے اگر ہم نے اعلی اہداف مقرر کئے ہیں اور ہم نے خود کو اس عظیم اسلامی عمارت کا حصہ سمجھا ہے جو آئندہ آنے والي صديوں ميں عالم انسانیت کی پناہ گاہ بننے والی ہے تو ہميں ذکر خدا کي اشد ضرورت ہے تاکہ مضبوطي سے اپنے قدم جماتے ہوئے اِس راہ پر آگے بڑھ سکيں۔

اعليٰ حکام کو ذکرِ خدا کي ضرورت دوسروں سے زيادہ ہے!
ہمیں اور آپ کو دوسروں سے کہیں زيادہ ضرورت ہے ذکر خدا کی۔ ميري نظر ميں اِس جلسے کی اہميت کي وجہ يہ ہے کہ آپ اور عوام الناس کے درميان ايک بہت بڑا فرق يہ ہے کہ آپ ايک اعليٰ مقام ومنصب کے حامل ہيں اور ملک کی باگڈور آپ کے ہاتھوں ميں ہے۔ ملک کے نظام میں آپ کا خاص اثر اور بھرپور عمل دخل ہے۔ اگر آپ اِس نظام حکومت کو خوش اسلوبی سے نہ چلائيں، اپنے فرائض کے سلسلے میں سستي و کاہلي سے کام ليں تو اس کے نتيجے ميں سامنے آنے والي بدحالی کی ذمہ داری آپ کی ہوگی اور اس کے لئے آپ ہی جوابدہ ہوں گے عوام الناس نہیں۔ لہذا آپ اعليٰ حکام کو دوسروں سے زيادہ ذکرِ الٰہي کي ضرورت ہے۔ اگر يہ ''ذکر الٰہي‘‘ہمارے دل و جان میں بس جائے تو ہمارے عمل اور کردار پر اس کا اثر انداز ہونا یقینی ہو گا۔ ذمہ داريوں کی تکمیل اور فرائض کي انجام دہي ،ہمیں واجبات کے ادا کرنے اور حرام باتوں سے پرہیز میں بھی کامیاب کرتی ہے۔ اب سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ يہ ذکر ہے کيا؟ حضرت امام محمد باقر عليہ السلام سے ايک روايت ہے، اسی طرح ايک اور روايت ہے کہ جو ميري نظرميں پہلي روايت سے زيادہ قابل توجہ ہے۔ ميں دونوں روايتیں آپ کي خدمت ميں پيش کروں گا۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہيں کہ'' ثَلاَث مِن اَشَدِّ مَا عَمِلَ العِبَادُ؛ اِنصَافُ المُومِنُ مِن نَفسِہِ وَمُواسَاۃُ المَرئِ اَخَاہُ وَ ذِکرُاللّٰہِ عَليٰ کُلِّ حَالٍ‘‘ مومنين کی ذمہ داریوں ميں تين چيزيں سب سے زيادہ سخت و دشوار ہيں۔ اول : مومن کا اپنے نفس سے انصاف کرنا‘‘۔''اِنصَافُ المُومِنُ مِن نَفسِہِ‘‘،يعني جب انسان اپنے اور دوسروں کے درميان ايک ایسے دوراہے پر پہنچ جائے جہاں وہ یا تو اپنے مادي مفادات کي خاطر حق کو پائمال کرے یاحق کے لئے اپنے آپ اور اپنے مفادات سے صرفِ نظر کرے تو وہ اِس دوسرے کام کو انجام دے۔ جب حق دوسرے کے ساتھ ہو اور آپ کسي بھي طرح حق نہ رکھتے ہوں تو آپ کو چاہئے کہ وسعت قلبي کا مظاہرہ کرتے ہوئے حق اُسے دے ديں اور اپنے آپ کو چھوٹا اور حقير خيال کرتے ہوئے حق کو صاحب حق تک پہنچا ديں۔ يہ کام سخت و دشوار ضرور ہے ليکن لازمي اور بہت اہميت کا حا مل ہے۔ امام باقرعليہ السلام فرماتے ہيں کہ يہ کام بہت اہميت کا حامل ہے ليکن سخت و دشوار بھي ہے اور کوئي بھي اچھا اور بڑا کام سختي و دشواري کے بغير ممکن نہيں ہے۔

برادر مومن سے مواسات اور اُس کي مدد و اعانت
دوسرا کام ''َمُواسَاۃُ المَر ئِ اَخَاہ‘‘،''اپنے برادر مومن سے بھائي چارے اور مواسات کا سلوک کرنا‘‘ مواسات اور مساوات ميں فرق ہے؛ مساوات ، برابري ہے جبکہ مواسات، تمام امور زندگي ميں اپنے مومن بھائي کي زندگي کي سختيوں اور کٹھن حالات ميں ہمراہي اور اُس کي مدد کرنا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اِ س بات کو اپنی ذمہ داری سمجھے کہ وہ اپنے برادر مومن کي فکري، مالي ،جسماني اور اُس کي عزت و آبرو کے لحاظ سے مدد کرے۔

ہر حال ميں ذکر ِخدا يعني باب معصيت و نافرماني کو بند کرنا!
تيسري چيز ''ذِکرُاللّٰہِ عَليٰ کُلِّ حَالٍ‘‘ ہے، يعني ہر وقت ذکر خدا کرے۔ اِسي روايت ميں امام محمد باقر عليہ السلام '' ذِکرُاللّٰہِ عَليٰ کُلِّ حَالٍ‘‘کا معنيٰ بيان کرتے ہيں کہ''وَھُوَ اَن يَذکُرَاللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ عِندَ المَعصِيَۃِ يَھَمُّ بِھَا‘‘،''ہر حال ميں ذکر خدا کرنے کا مطلب يہ ہے کہ انسان جب معصيت خدا کي طرف قدم بڑھائے تو ذکر خدا اُس روک دے‘‘، يعني اِس ذکر کے ذريعہ خدا کو ياد کرے اور وہ گناہ انجام نہ دے. گناہ و معصيت کي مختلف اقسام ہيں. حقيقت کے خلاف کہنا، جھوٹ بولنا، غيبت کرنا، حق کو چھپانا، بے انصافي کرنا، اہانت و تذليل کرنا، عوام الناس، بيت المال اور معاشرے کے کمزور لوگوں کے مال ميں خورد برد کرنا یا اِن مسائل کو بے اہميت شمار کرنا۔ يہ سب گناہ اور خداوند عالم کي نافرمانی ہے، اِن تمام حالات ميں انسان خدا کو ياد رکھے اور اُسي کا ذکر کرے۔ حقيقي ذکر خدا وہي ہے کہ انسان گناہ کو انجام نہ دے۔

ذکرِ خدا، انسان اور معصيتِ خدا کے درميان حائل ہو جائے۔
آگے فرماتے ہيں کہ ''فَيَحُولُ ذِکرُ اللّٰہِ بَينَہُ وَ بَينَ مَعصِيَتِہِ وَھُوَ قَولُ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَ اِنَّ الَّذَينَ اتَّقَوا اِذَا مَسَّھُم طَآئِفُ مِّنَ الشَّيطَانَ تذَکَّرُوا فَاِذَاھُم مُبصِرُونَ‘‘، يعني ''ذکر خدا اُس کے اور اُس کی معصيت کے درميان حائل ہو جائے اور يہ اِس آيت کہ تفسير ہے کہ جس ميں خداوندعالم فرماتا ہے کہ جو لوگ صاحبان تقويٰ ہيں جب شيطان اُنہيں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قبل اس کے کہ اُس کا تير درست نشانے پر لگے وہ ذکر الہی کرتے ہو ئے صاحب بصيرت ہو جاتے ہيں‘‘(اور خود کو شيطان کے چنگل سے نجات ديتے ہيں)، ذکر خدا کا نتيجہ يہ ہوتا ہے کہ يہ لوگ صاحب بصيرت ہو جاتے ہيں، يہ ہے ''ذِکرُاللّٰہِ عَليٰ کُلِّ حَالٍ‘‘کا معنيٰ۔
دوسري روايت جو ميري توجہ کا خا ص مرکز ہے، اِس پہلي روايت سے ملتي جلتي ہے کہ جس ميں ''ذِکرُاللّٰہِ عَليٰ کُلِّ حَالٍ‘‘کا جملہ موجود تھا ليکن اِس دوسري روايت ميں جو حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے،''ذِکرُاللّٰہِ فِي کُلِّ المَوَاطِن‘‘کا جملہ ملتا ہے۔ يعني ''انسان ہر جگہ خدا کا ذکر کرے‘‘، ليکن جو نکتہ ميرے نزديک قابل توجہ ہے اُس ميں امام معصوم ارشاد فر ماتے ہيں کہ''اَمَّا اِنِّي لَا اَقُولُ سُبحَانَ اللّٰہِ وَ الحَمدُ لِلّٰہِ وَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکبَرُ، وَاِن کَانَ ھَذَا مِن ذَاکَ، وَلٰکِن ذِکرُہُ فِي کُلِّ مَوطِن ٍاِذَا ھَجَمَت(ھَمَمَت)عَليٰ طَاعَتِہِ و َمَعصِيَتِہِ‘‘،''ميں يہ نہيں کہتا کہ ''تسبيحات اربعہ‘‘(سُبحَانَ اللّٰہِ وَالحَمدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکبَر) کا ذکر نہ کرو؛ صحيح ہے کہ يہ تسبيحات اربعہ بھي ذکر خدا ہي ہے ليکن ہر جگہ ذکرِالٰہي کرنے کا مطلب يہ ہے کہ جب خدا کي اطاعت یا معصيت کي طرف تمہارے قدم اٹھيں تو تم ياد خدا کرو‘۔ جس روايت کو ميں نے ديکھا ہے اُس ميں ''ھَجَمَت‘‘کا لفظ ہے ليکن ميرا خیال ہے کہ يہاں''ھَمَمَت‘‘کا لفظ ہوگا۔ يہ ''ذکر خدا ‘‘ ميرے نزديک قابل توجہ ہے۔ البتہ يہ تمام اذکار جو ہماري روايات ميں، دعاؤں اور تسبيح حضرت فاطمہ عليہاالسلام کي شکل ميں موجود ہيں، يہ سب ذکر کي مختلف شکليں ہيں کہ جنہيں بیان کيا گيا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ اِن اذکار کو اِن کے معنوں کي طرف توجہ اور اِن کے حقائق پرغور کرتے ہوئے انہیں اپني زبان پر جاري کرے کیونکہ ايسے ذکر کي بہت اہميت ہے۔

اخلاق، کردار اور تزکيہ نفس کے ميدان ميں ہماري سست رفتاري!
البتہ اِس قسم کي باتوں کے بارے ميں گفتگو کرکے کبھي بھي فارغ البال نہيں ہوا جا سکتا، اگر ہم اِن معنوي مسائل کے بارے ميں جو ہمارے درد دل کي دوا ثابت ہو سکتے ہيں، کئي گھنٹے مسلسل گفتگو کريں تو يہ زيادہ نہيں ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ ميں آپ کي خدمت ميں عرض کروں کہ ہم نے اسلامي نظام کے تقاضوں کے مطابق اسلامي تربيت کے شعبے ميں پيش رفت نہيں کي ہے، يہ جو بعض افراد کہتے ہيں کہ ہم مثلاً ملکي تعمير و ترقي، ٹيکنالوجي کے حصول اور مختلف شعبہ ہائے زندگي ميں اِس موجودہ صورتحال سے زيادہ ترقي کر سکتے تھے ليکن ہم نے نہيں کي۔ ہميں اِن شعبہ ہائے زندگي سے زيادہ جس ميدان ميں سب سے زيا دہ ترقي کرني چاہئے تھي اور ہم نے نہيں کي وہ يہي معنويت و خود سازي، تزکيہ نفس، تطہير قلب اور روح کو اخلاق سے زينت دينے کا ميدان ہے؛ حق تويہ ہے کہ ہم اِس ميدان ميں بہت پيچھے ہيں۔

خود سازي اور تزکيہ نفس کي ايک واضح مثال؛ آٹھ سالہ جنگ اور دفاع
اگر آپ اِس کي ايک ايسي مثال لانا چاہيں کہ جو ہمارے لئے بالکل بر محل ہو تو آپ اِسي آٹھ سالہ جنگ اور ہماري قوم کے دفاع کو ملاحظہ کيجئے، آپ ديکھيں گے کہ ہمارے جو نوجوان محاذِ جنگ پر تھے، اِ ن نوجوانوں کے والدين جو اِن کو محاذِ جنگ پر بھيجتے تھے اور اِن نوجوانوں کے خاندان والے کس جوش و ولولے کے ساتھ اِن کي حمايت و تائيد کرتے تھے، وہ کن احساسات و جذبات کے مالک تھے! يہ سب بہترين مثاليں ہيں، ميں يہ نہيں کہتا کہ يہ اعليٰ ترین مثاليں ہيں ليکن يہ بہترين مثاليں ہماري تاريخ کا حصہ ہيں۔ جنگ کے بعد بھي ہميں اُسي جوش و جذبے اور لگن و اميد کے ساتھ آگے قدم بڑھاتے رہنا چاہئے تھا مگر ہم نے اُسي طرح قدم آگے نہيں بڑھائے، ہمارے ہي کچھ افراد اُن چيزوں کو فراموش کرتے جا رہے ہيں اور افسوسناک بات يہ ہے کہ بعض کا انکار کر رہے ہيں اور اِ س سے بھي زيادہ خطرنا ک بات تو يہ ہے کہ بعض افراد اُن حالات، دفاع و جنگ اور اُن سے حاصل ہونے والے تجربوں کو غلطي اور ايک بڑي خطا قرار دے رہے ہيں! اِن تمام باتوں اور افکار و نظريات ميں سے بعض کا آپ خود مشاہدہ کر رہے ہيں،غير سنجيدہ اور غير نپي تلي باتيں گوشہ و کنار سے سنائي ديتي ہيں، يہاں تک کہ اُس آٹھ سالہ دفاع، محاذ جنگ کے معنوي حالات اور ہمارے مجاہدوں کے جذبہ شہادت کو ايک غلطي اور خطا کہا جا رہا ہے! البتہ اِس بات کي طر ف توجہ بھي ضروري ہے کہ ہم کو اُن تمام حالات کي جزئيات کي خبر نہيں ہے۔ حتيٰ وہ افراد بھي لا علم ہيں کہ جو وہاں موجود تھے، محاذ جنگ پرصفات ِ عاليہ اور انساني کمال و فضائل کي جانب اتني زيادہ راہيں موجود تھيں اور اتنے افراد وہاں موجود تھے کہ جن کا شمار ممکن نہيں!
کچھ عرصہ قبل ميں نے ايک کتاب کا مطالعہ کيا جو ايک چند روزہ حملے کي تفصيلات کي وضاحت کے بارے ميں تحرير کي گئي تھي، يہ تفصيلات کسي بڑے لشکر يابٹالين کے افراد کي جانب سے مرتب نہيں کي گئي تھیں بلکہ ايک گروہ کے باقي ماندہ افراد نے اِسے مرتب کيا ہے۔ اِس با ذوق مصنف اور محقق نے فاو نامي جزيرے پرحملہ کرنے ميں شامل ايک ايک فرد کي زباني تمام جزئيات کو جمع کيا اور چھ سات سو صفحات کي ايک کتاب تحرير کي ہے جبکہ ہم صرف '' فاوآپریشن ‘‘کے بارے ميں سنتے ہي آئے ہيں۔ فاو نامي جزيرے پر دشمن کے قبضے کو ختم کرنے اور وہاں قابض دشمن پر حملے ميں بہت ہي اہم کام انجام دئے گئے ہيں، ہم صرف اتنا ہي جانتے ہيں کہ مجاہدين ''اروند ندی‘‘ کو عبور کر کے فاو پر پہنچ کر اُس پر حملہ کرکے اُسے دوبارہ اپنے قبضے ميں لے ليتے ہيں اور نمک کے کار خانے کو فتح کر ليتے ہيں۔ ہم '' فاوآپریشن ‘‘ سے متعلق صرف اِنہي چيدہ چيدہ باتوں کو جا نتے ہيں ليکن وہاں قدم قدم پر کيا گذري اِس سے لا علم ہيں۔
نقاشي اور مصوري کا ايک نہايت ہي حسِين فن پارہ اپني تمام تر زيبائي اور خوبصورتي کے ساتھ ہمارے سامنے سے گذر گيا اور ہم دور کھڑے اُس کي تعريفيں کر رہے ہيں کہ''سبحان اللہ کيا زبردست اور خوبصورت فن پارہ ہے! ہم قريب جا کر اِس فن پارے کو نہيں ديکھتے کہ اِس کے ايک ايک ملي ميٹر ميں ہنر و زيبائي کا کتنا زبردست کام کيا گيا ہے! بعض افراد يہ کام انجام ديتے ہيں اور اُنہوں نے انجام ديا بھي ہے( لیکن بعض صرف دور سے کھڑے ہوکر اِس آٹھ سالہ جنگ ميں ہماري شجاعت و دلیری، قرباني و ايثار و فدا کاري، مظلوميت، روحانيت و عرفان کي تعريف کرتے ہيں اور قريب جا کر نہيں ديکھتے کہ اِس ميں کيا زيبائي و خوبصورتي اور کيا اسرار و رموز پوشيدہ ہیں! )۔
محا ذ جنگ پرہمارے نوجوانوں کي يہ اخلاقي کاملیت ہي تھي کہ جہاں انسان يہ سمجھتا تھا کہ اسلام و خدا پر ايمان و اعتقاد رکھنا انسان کو کن اخلاقي فضائل و کمالات سے نزديک کرتا ہے اور يہ انساني زندگي پر کتنے گہرے اثرات مرتب کرتے ہيں۔ اِن اخلاقيات کوجس طرح رشد حاصل کرنا چاہئے تھا اُس طرح حاصل نہ کر سکيں؛ ہميں اِس سے زيادہ اپني تہذیب نفس کيلئے کام کرنا چاہئے۔

بين الاقوامي سطح پر آپ کي ايک بڑي ذمہ داري
محترم اعليٰ حکام اور مختلف اہم اداروں اور محکموں کے سربراہ حضرات! اب جو نکتہ ميں آپ کي خدمت ميں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ يہ ہے؛ اے وہ لوگو کہ جن کے پاس پارليمنٹ، صدارتي کا بينہ، عدليہ، افواج اور ديگر محکموں کي ذمہ دارياں ہیں يا وہ حضرات کہ جن کے پاس آپ سے قبل يہ ذمہ داري تھي اور اُنہوں نے کام اور خدمت انجام دي؛ میرا خطاب آپ سب کے سب افراد سے ہے، آپ نے ايک بڑا کام انجام ديا ہے، آپ سب نے روزِ اول سے لے کر آج تک ايک عظيم تاريخ رقم کي ہے اور يہ ايک بہت بڑا کام ہے۔

ماضي کي بادشاہت و سلطنت اور آمرانہ نظام حکومت!
اگر آپ ہزاروں سال قبل جب سے ہماری تاریخ کی تدوین شروع ہوئی آج تک کی اس تاريخ پر ايک نگاہ ڈاليں تو آپ ملاحظہ کريں گے کہ یہاں ايک شخص کي مطلق العنان اور آمرانہ حکومت اور ايک فرد کي سربراہي ميں چند افراد کے مجموعے کي حکومت تھي کہ جس ميں عوام الناس کو معمولي سا بھي اختيار حاصل نہيں تھا۔ يہ ہے ہماري تاريخ! ماضي کي تمام حکومتيں اور سلطنتيں سب اِسي طرح کي تھيں، دورِ ماضي کے جاہ و جلال اور حشمت و شوکت رکھنے والے تمام بادشاہ کہ جنہيں ہم عزت و احترام سے ياد کرتے ہيں مثلاًغزنوي اور سلجوقي بادشاہ اور اِس کے بعد آنے والے صفوي خاندانِ حکومت کے بادشاہ؛ شاہ عباس، شاہ اسماعيل اور شاہ طھماسب، سب اِسي طرح تھے۔ يہ سب ہماري تاريخ کے اچھے بادشاہوں ميں شمار کئے جاتے ہيں ليکن سوال يہ ہے کہ يہ لوگ اپني سلطنت و حکومت کو کس طرح چلاتے تھے اور اتني بڑي بادشاہت کو چلانے کيلئے اِن کے پاس کون سا حکومتي نسخہ تھا؟ اِن کا طرزِ حکومت يہ تھا کہ ايک فرد سربراہِ مملکت و سلطنت بنتا تھا اور باقي سب اُس کي کامل اطاعت کرتے تھے، بادشاہ کا وزير اور درباري سب بادشاہ کے مطيع ہوتے تھے اور مملکت و سلطنت کا فيصلہ اور اُس کا مستقبل اِنہی چند افراد کے ہاتھوں ميں ہوتا تھا۔ يہ لوگ ہوتے تھے اور اِن کي سلطنت۔ اِن کي رعايا اور عوام الناس کو اِس ميں کوئي عمل دخل نہيں تھا۔
بادشاہ اپنے وزير اور درباريوں سے يہ کہتا تھا کہ اے ميرے خدمت گذارو! اور اے ميرے نوکرو! وہ سب حقيقتاً اُس کے نوکر و غلا م تھے۔ ناصر الدين شاہ، محمد شاہ، فتح علي شاہ اور بقيہ دوسرے بادشاہ سب اپنے اپنے وزيروں اور درباريوں کو کہتے تھے کہ تم لوگ اچھے نوکر و غلام ہو! يہ تھي ہماري سياسي فضا اور ماحول۔ جب وزيروں اور درباريوں کي يہ صورتحال تھي تو عوام الناس تو کسي گنتي ميں نہيں آتے ہيں۔ پورا ملک چند لوگوں کے ہاتھ ميں ہوتا بلکہ درحقيقت صرف ايک ہي شخص سے متلعق ہوتا تھا۔ يہ ہے ہماري تاريخ!

ہمارا موجودہ پارليماني اور سياسي نظام
آپ اِس انقلاب اور اِس قوم کے سربراہ ہيں اور آپ کے ہاتھوں ميں ايک ايسے نظام کي باگ ڈور ہے کہ جس کی فرد فرد کا انتخاب عوام کے ہاتھوں ميں ہے؛ قائد انقلاب کا انتخاب بھي عوام ہي کرتے ہیں۔ (عوام ماہرین کی کونسل کے ممبران کا انتخاب کرتے ہیں او ر يہ کونسل رہبر کا انتخاب)، صدر مملکت کو بھي عوام ہي لے کر آتے ہيں اور پارليمنٹ کا چناو بھي عوام ہي کے ہاتھوں انجام پاتا ہے اور اِن تمام اداروں اور محکموں کو چلانے والے افراد کا چناو بھي عوام ہي کے ہاتھوں ميں ہے کہ جو ايک معقول اور منطقي امر ہے۔ اِس بات کي طرف بھي توجہ ضروري ہے کہ دنيا ميں کہيں بھي مسلح افواج اور عدليہ کا انتخاب نہيں کرايا جاتا ہے، اِن دونوں کا حساب کتاب بالکل الگ اور جدا ہے۔ اِن کے اپنے خاص الخاص معيار و ضوابط ہيں اور يہ عوام کے منتخب افراد کے ذريعہ چنے جاتے ہيں۔ آپ نے اپنے ملک ميں ايک ايسا نظام بنايا ہے اور تقريباٍ ٢٨ سال ہو رہے ہيں کہ اِس ملک ميں اِس نظام کے تحت انتخابات ہو رہے ہيں۔ ہمارے ملک کے انتخابا ت کے بارے ميں (ہمارے اپنے اور بيگانے افراد کي جانب سے) بہت سي بے بنياد باتيں کہي جاتي ہيں۔ ویسے کائنات کي وہ کون سي حقيقت ہے کہ جس کے بارے ميں بے بنياد اور لغو و بيہودہ باتيں نہيں کہي جاتيں؟ خود خداوندعالم کے بارے ميں بھي يہ باتيں کہي جاتي ہيں اورحقيقت دين کے بارے ميں بھي لوگ اپني زبانيں کھولتے ہيں؛ عوامي حکومت (اور آزادي رائے) کي اِ س سے زيادہ بڑي اور کون سي مثال ہو سکتي ہے؟!

آپ نے دنيا ميں ايک نئے دورکا آغاز کيا
دنيا کے موجود ہ حالات پر ايک نگاہ ڈاليے! آپ دنيا ميں ايک نئي اور جديد حقيقت کو متعارف کرا رہے ہيں۔ دنيا ميں ايک نئے نظام نے جنم لیا ہے کہ جو نظام استعمار کے وجود ميں آنے کے بعد خصوصاً گذشتہ دو صديوں ميں اور خاص طور پر استعماري تسلط کے اِس دور کے بعد سامنے آيا ہے جو دوسري قوموں پر مسلط ہونے اور قبضہ کرنے کي سيا ست کے مطابق اِس صدي کي بڑي جنگوں کا پیش خیمہ بنا۔ يہ طاقتيں کئي بہانوں اور وجوہات کے ذریعے چند ممالک اور بعض حکومتوں پر قبضہ جماتي ہيں اور خود اُن کے نظرئے کے مطابق اُنہيں يہ کام کرنا چاہئے! دوسري حکومتوں اور قوموں کو بھي چاہئے کہ اُن کے اِس تسلط و قبضہ کو قبول کر يں۔ مغرب کے اِس معروف ماہرسماجیات مصنف کے بقول جو امريکي اور مغربي سياست کا نقاد ہے،''تسلط پسند طاقتوں کے ثروتمند افراد در اصل اِن قبضہ جمانے والے ممالک کے غني ترين افراد ہيں، تسلط و قبضہ جمانا اِن طاقتوں کا کام ہے نہ کہ اُن کے ممالک (اور اُن کي قوموں ) کا۔ استعمار شدہ ممالک کے ثروت مند افراد کو اِن طاقتوں کي خدمت ميں ہونا چاہئے اور وہ طاقتيں اُنہيں استعمال بھي کرتي ہيں‘‘۔ اُس مغربي محقق کي بات اور تجزيہ و تحليل بالکل درست ہے۔
آپ ميدانِ عمل ميں آئے اور آپ نے دنيا ميں موجود اِس تسليم شدہ اور بين الاقوامي مستحکم ظالمانہ نظام کا انکار کر ديا اور اپني بات پر ڈٹ گئے، يہ بذات خود ايک اہم ترين بات ہے۔''اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہ ُ ثُمَّ استَقَامُوا''جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا پروردگار ہے اور اُس کے بعد اپني کہي بات پر ڈٹ گئے اور استقامت کا مظاہرہ کيا، اہم بات يہ ہے۔ دنيا ميں متعدد مقامات پر کئی انقلاب آئے، عوامی حکومتیں قائم ہوئیں ليکن بات تو جب ہے کہ يہ انقلاب اور حکومتیں قائم رہيں، زمين ميں اپني جڑيں مضبوط کريں اور مختلف خطرات اور حملوں سے اپني حفاظت کر سکیں کہ جيسا آپ کے نظام نے ثابت کيا ہے۔ آپ کے اِس انقلاب کي کاميابي اور عوامي حکومت کي تشکيل کو ٢٨ سال گذر رہے ہیں، جو بڑے بڑے کام انجام دينے ميں کامياب ہوا ہے اور جس نے اپنے مخالفوں اور مد مقابل طاقتوں کو حيران و پريشان کر ديا ہے؛ اور وہ بھي ايسي متکبر طاقتيں کہ جو کبھي بھي اِس بات کيلئے تيار نہيں تھيں کہ وہ تيسري دنيا کے کسي ايک (چھوٹے سے) ملک کے مقابلے پر آئيں! يہ سب اِس بات کي علامت ہے کہ آپ نے ايک نئے دور کا آغا ز کيا ہے، اِس کي قدر کيجئے اور اپني اِس بڑي اور عظيم ذمہ داري کو اہم شمار کيجئے۔
اِس ذمہ داري کے مقام و منزلت کي پہچان اور معرفت کا کيا نتيجہ نکلے گا؟ اِس کا نتيجہ يہ ہوگا کہ جب آپ کو اِس کام کي عظمت کا اندازہ ہو گا تو آپ اِس کام کو پايہ تکميل تک پہنچانے کيلئے تن من دھن کي بازي لگا ديں گے، آپ اپنے آپ سے يہ کہيں گے کہ ہمیں يہ حق نہيں ہے کہ اِس کام کو ادھورا چھوڑ ديں، مشکلات اور راہ کي سختيوں سے نہ گھبرائيں اور ايک لمحے کيلئے بھي ہمارا کام توقف کا شکار نہ ہو۔ آپ کو چاہئے کہ اپني شکست اور ناکامي کے عوامل کو اچھي طرح پہچانيں اور خود کو اُن سے دور کريں۔

قوموں کو شکست و نا کامي سے دوچار کرنے والے عوامل
بہت سي چيزيں ہيں کہ جو قوموں کو شکست اور نا کا مي سے دوچار کرتي ہيں، يہ کوئي نئي چيزيں نہيں ہيں اور ہم اِن کو جانتے ہيں۔ ملک وقوم کے اندروني اور داخلي اختلافات شکست کے عوامل ميں سے ايک عامل ہے۔ دشمن کے نفوذ کي راہوں کو کھولنا اِس کي ايک واضح مثال ہے، اپني ذمہ داري کو چھوٹا اور سبک خيال کرنا اور اُس کي انجام دہي ميں سستي اور کوتاہي سے کام لينا بھي قوموں کي ناکامي کا سبب بنتا ہے، اپنے ہدف تک نہ پہنچنے سے نااُميد ہو جانا بھي قوم کو شکست سے دوچار کرتا ہے، اپنے دشمن کو خا طر ميں نہ لانا، اُسے بے اہميت خيال کرنا اور دشمن کو ديکھ کر اپني آنکھيں بند کر لينا بھي کسی قوم کي کمزوري اور اندروني ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنتا ہے اور يہ سب غلط باتیں ہيں۔ شکست اور داخلي انتشار کے تمام عوامل کو اپنے آپ سے دور کيجئے۔
اپني پست خواہشات کي پيروي کرنا اور اُن کا دلدادہ و عاشق ہونا بھي اجتماعي شکست کے من جملہ عوامل سے تعلق رکھتا ہے؛ يعني ايک بہت بڑے اور اہم ادارے کا سربراہ ايک بہت بڑے کام کي انجام دہي کے دوران لالچ و حرص میں لگ جائے کہ جو ذاتي و انفرادي طور پر اُس کيلئے بہت مفيد ثابت ہو، مثلاً رشوت لينا اور رشوت دينا اور بعض مثاليں اور ہيں جو اِس سے بھی زيادہ ظريف تر ہيں، اُن کي ظاہري شکل مختلف ہوتي ہے ليکن اُن سب کي حقيقت يہي ہے۔ بعض اوقات انسان ايسے دو راہے پر کھڑا ہوتا ہے کہ جہاں ايک طرف اُسے مادي فائدہ نظر آ رہا ہوتا ہے اور دوسري طرف ايمان؛ اگر ايمان کي طرف قدم بڑھائے تو اُسے اپنے مادي فائدے سے صرف نظر کرنا پڑے گا اور اگر دوسري راہ پر قدم اٹھائے تو اُسے ايک بڑا مادي فائدہ نصيب ہوگا۔ يہ چیز بھي کمزوري کے عوامل سے تعلق رکھتي ہے اور يہاں انسا ن کو چاہئے کہ وہ حقير اور پست خواہشات کو اُن کے مقابل ميں موجود چيز کي عظمت اور اپنے انجام ديئے جانے والے کام کي عظمت کي وجہ سے نظرانداز کرے۔

اسلامي نظام ايک کار آمد و بہترين نظام ہے!
آپ يہ بات اچھي طرح جان ليں کہ آپ کا نظام ايک بہت کار آمد اور بہترين نظام ہے، آپ کے دشمن کي پوري کوشش ہے کہ آپ کو زور و زبردستي سے يہ بات سمجھائے، زبردستي قبول کرائے اور ہر ممکن طريقے سے آپ کو يہ يقين کرائے کہ آپ کا نظام ايک ناکارہ نظام ہے جبکہ حقيقت يہ ہے کہ يہ نظام بہت کا رآمد اور بہترين نظام ہے کہ جس نے مختلف ميدانوں ميں اپنے وجود کا لوہا منوا ليا ہے۔ عوامي فلاح و بہبود اور ترقياتي کاموں ميں آج کا ايران، طاغوتي حکومت کے زمانے کے ايران سے ہرگز قابل موازنہ نہيں ہے۔

اندرونِ ملک ترقي و پيشرفت
ايک اور ميدان کہ جس ميں ايران نے ترقي کي ہے وہ قومي خود اعتمادی کا ميدان ہے کہ جس نے علمي، سياسي اور ٹيکنالوجي کے ميدانوں ميں بہت ترقي کي ہے۔ شاہ کے زمانے ميں ہمارے انجينئر اِس بات کي جرئت بھي نہيں کر سکتے تھے کہ وہ برقي توانائي ايجاد کرنے کے پلانٹ، ايئرپورٹ اور ڈيم بنانے کا نام بھي اپني زبان پر لے آئيں؛ اِن تمام کاموں کو بيرون ملک سے آئے ہوئے انجينئر ہي انجام ديتے تھے، ايراني انجينئروں کي اوقات تو يہ تھي کہ وہ اُس پروجيکٹ ميں کہ جسے بيرون ملک کي کمپني یا انجينئر نے اپنے ذمہ ليا ہے، اس کے پاس کھڑا ہو کرصرف تماشا ديکھے، بشرطيکہ وہ کمپني يا انجينئر اِس بات کو قبول کر لے۔ بعض جگہ تو یہ بھی قبول نہيں کرتے تھے! شاہ کي طاغوتي حکومت ميں بننے والے دژ ڈيم اور اسلامي انقلاب کی کاميابي کے بعد بننے والے کارون ٣ ڈيم کا ميں نے خود موازنہ کيا ہے جو پاني اور بجلي کي گنجائش کے لحاظ سے ايک دوسرے کے بہت نزديک ہيں۔ دز ڈيم ميں ہماري کتني تحقير و اہانت کي گئي تھي اورکارون ٣ ڈيم کے اِس عظيم الشان پروجيکٹ کو ہمارے اپنے انجينئروں نے اپني مدد آپ کے تحت بنايا ہے جو اپني ٹيکنالوجي کے لحاظ سے بہت پيش رفتہ ہے۔
تباہ شدہ زراعت کو اِس انقلاب نے ايک نئي حيات بخشي، يہ ہمارا اسلامي نظام ہي ہے کہ جس نے ہماري ايک سادہ سی صنعت کو ايٹمي توانائي کي اعليٰ ترين اور حساس صنعت تک پہنچا ديا۔ صديوں سے اِس ملک میں موجود منحوس طاغوتي نظام کي جڑوں کو اُکھيڑ کر اِس نے عوامي حکومت کي بنيادوں کو مضبوط و پائيدار بنايا ہے، سياسي استحکام کي اِس سے زيادہ اور کيا مثال ہو سکتي ہے کہ انقلاب کے بعد اِن ٢٨ سالوں ميں ہمارے ملک ميں تقريباً ٢٨ انتخابات منعقد ہوئے ہيں؛ يہ خود مستحکم عوامي حکومت کي واضح دليل ہے۔

بين الاقومي سطح پرہمارے اسلامي نظام کي عزت و شہرت!
انقلاب کي کاميابي کے بعد ہماري دن دُگني اور رات چوگني بين الاقوامي عزت و آبرو اور سياسي شہرت ميں اضافے کا کون انکار کر سکتا ہے؟ مشرق وسطيٰ کے خطے بلکہ اِس خطے سے باہر بھی رائج سياست پر اسلامي جمہوريہ ايران کي حکومت کے اثرات کا کون منکر ہے؟ کون ہے جو مسلمان اقوام کے درميان ہماري قوم کي عزت کے بلند و بالا مينار کا انکار کرے؟ وہ کون سا ملک ہے کہ جو يہ دعويٰ کرے کہ دوسرے ممالک کے دورے پر اُس کے صدر کے استقبال پر وہاں کي عوام اپني حکومتوں کي مخالفت کے باوجود اُس کيلئے جلوس نکاليں اور اُس کے حق ميں جوش و خروش اور والہانہ انداز ميں نعرے لگائيں؛ سوائے اسلامي جمہوريہ کي حکومت کے؟! ہمارے ملک کے صدور مملکت ہيں کہ جو دوسري اقوام ميں سياسي، روحاني اور حقيقي مقام رکھتے ہيں۔ کيا يہ ہمارے نظام کے کارآمد ہونے کی دلیل نہيں ہے؟! بين الاقوامي سطح پر ہمارے نظام کي ايک اور کاميابي اسلامي مما لک کي سطح پر ايک نئے ڈائيلاگ يا مکالمے کا آغاز ہے کہ جو اسلامي تشخص اور خود مختاري کي حفاظت اور استعماري تسلط کو قبول نہ کرنے سے عبارت ہے۔ ہميں اپنے اِس نظام کي افادیت کو اپنے علم کے ذريعہ عالمانہ انداز سے، اپني عقل کے ذريعہ عاقلانہ انداز سے اور اپنے عزم کے ذريعہ اور زيادہ بہتر اور فعال بنانا چاہئے کيونکہ سستي و کاہلي سے پيش رفت نہيں کي جا سکتي۔

ہم مظلوم ہيں ليکن کمزور نہيں ہيں!
ہمارا ملک، قوم اور حکومت مظلوم ہے، ليکن ہم ضعيف و کمزور نہيں ہيں۔ بالکل حضرت امير المومنين عليہ السلام کي ما نند جو مظلوم ضرور تھے مگر اپنے زمانے کے تمام مردوں سے زيادہ مضبوط اور قوي تھے۔ بالکل تمام اہل حق کي مانند جو مظلوم تھے، جن کا انکار کيا گيا اور جن پر ظلم ہوا مگر وہ کمزور نہيں تھے۔ ہم اپني مظلوميت کواب مزيد بڑھنے نہيں ديں گے اور ہم اِس کو تحمل نہيں کر سکتے اور اِسے تحمل نہ کرنا اِس طرح ہے کہ اپنے علم،عقل اور عزم کو مضبوط بنائيں اور يہ ساري چيزيں ذکر الٰہي سے حاصل ہو تي ہيں کہ جسے آپ کي خدمت ميں پہلے عرض کر چکا ہوں۔

دشمن کي دھمکيوں کي کوئي اہميت نہيں ہے!
دشمن آپ کو ڈراتا دھمکاتا ہے۔ ميں آپ کي خدمت ميں عرض کروں کہ اُس کے ڈرانے اور دھمکانے کي کوئي اہميت نہيں ہے۔ کیونکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اُس کا ڈرانا دھمکانا کوئي نئي بات نہيں ہے، جنگ کے خاتمہ کے بعد ١٩٨٩ سے اب تک ہم کو کئي مرتبہ فوجي حملے سے ڈرايا دھمکايا گيا ہے۔ ميں يہ نہيں کہتا کہ يہ دھمکياں ''جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں‘‘ کے مصداق کے تحت کبھي عملی صورت اختيار نہيں کريں گي، ممکن ہے کہ حقيقي صورت اختيار بھي کريں ليکن حقيقت تو يہ ہے کہ يہ دھمکياں ہميں اور زيادہ مضبوط بنائيں گي۔ دوسری بات یہ ہے کہ ايران کو دھمکيا ں دينے والے يہ بات اچھي طرح جان ليں کہ ايران کو فوجي حملے کي دھمکي دينا اور اُس پر فوجي حملہ کرکے بھاگ جانا ممکن نہيں ہے، جو بھي ايران پر حملہ کرے گا اُسے سنگين نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ اِن ڈرانے دھمکانے والوں کا مقصد يہ ہے کہ ہمارے اعليٰ حکام کو دلوں کو ہراساں کریں اور عوام کے دلوں پر اپنا خوف و دہشت بٹھائيں۔ ميں آپ کي خدمت ميں عرض کروں کہ اعليٰ حکام ميں سے نہ کسي کا دل لرزے گا نہ عوام کے دل پر خوف طاري ہو گا؛ بلکہ اِس دھمکي کا اثر يہ ہوگا کہ يہ ہمارے حکام کو مضبوط بنائيں گی۔ ميں جب ماضي کے اوراق پر نگاہ ڈالتا ہوں تو ديکھتا ہوں کہ ١٩٩٧ ميں کلنٹن انتظاميہ کي جانب سے ايران پر فوجي حملے کا خدشہ بہت بڑھ گيا تھا ليکن يہ چيز باعث بني کہ ہمارے اعليٰ حکام نے فني شعبوں ميں بہت سے کارہائے نماياں انجام دئے اور ترقي کی۔
چوتھي بات یہ ہے کہ يہ دھمکياں اِس با ت کي علا مت ہيں کہ لبرل ڈيموکريسي کا ہاتھ اپني منطق کے لحاظ سے با لکل خالي ہے۔ جب اِن کا سامنا صدام جيسے آمر سے ہوتا تھا تو کہتے تھے کہ اِس نے فوجي حملہ کيا ہے اور ٹھيک ہي کہتے تھے؛ صدام نے ايران پر فوجي حملہ کيا اور کويت پر لشکر کشي کي ليکن سب جانتے ہيں کہ اسلامي جمہوريہ ايران نے کسي ملک پر حملہ نہيں کيا اور نہ ہي اُس کو کوئي شوق و ارادہ ہے کيونکہ وہ اہل جنگ و جدل نہيں ہے۔ بين الاقوامي سياست ميں اسلامي جمہوريہ ايران کي موجودگي ايک خاص منطق کے مطابق ہے، ايک خاص فکر اور لائحہ عمل کے تحت ہے اور وہ معنوي جذبے اور روحاني شوق کے ساتھ مصروف عمل ہے۔ ہمارے مد مقابل طاقتوں کے ہاتھ اِس جہت سے با لکل خالي ہيں اور وہ مقابلہ نہيں کر سکتیں۔ يہ مسئلہ اِس بات کي نشاندہي کرتا ہے کہ استعماري طاقتوں کا حکومتي اور سياسي نظام ايک ايسي لبرل ڈيموکريسي پر قائم ہے جو ايک اَن پڑھ آدمي کي مانند ہے اور ايک عالم و فاضل انسان کے سامنے آنے پر اپني جھينپ مٹانے کيلئے جس کے پاس اِس کے علاوہ کوئي چارہ نہيں ہوتا کہ اپني شخصيت کو ظاہر کرنے کيلئے اپنے کندھوں کو ايک خاص طريقے سے اُچکائے يا اپني مٹھي کو زور سے بھينچ لے! معلوم ہے کہ اُس کے پاس کچھ بھي نہيں ہے اور وہ معلومات سے خالي ہے؛ يہ سب اِن طاقتو ں کے خالي ہا تھ ہونے کي علامت ہے۔

دعائيہ کلمات!
خداوندا! تجھے محمد و آل محمد کے حق کا واسطہ، ہم نے جو کچھ کہا اور سنا اُسے اپنے لئے اور اپني راہ ميں قرار دے؛ اُسے ہم سے قبول فرما؛ ہميں روز بروز اپني اور دين کي حقيقت کي نسبت متوجہ اور زيادہ ذکر کرنے والا قرار دے؛ ہميں بلند و بالا اہداف تک رسائي کيلئے سنجيدہ اورپرعزم قرار دے۔ بار الٰہا! ہمارے شہدا اور امام خميني رحمۃ اللہ عليہ کو اپنے اولیائے خاص کے ساتھ محشور فرما؛ ہميں اُن کي راہ پر چلنے والا قرار دے اور حضرت امام زمانہ کے پاکيزہ قلب کو ہم سے راضي و خوشنود فرما۔

والسّلام عليکم و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ