19/10/1383 ہجری شمسی مطابق 8/1/2005 عیسوی کو اس سالانہ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے انیس دی کے واقعے کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور ساتھ ہی ملکی و علاقائی حالات کا جائزہ لیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے سامراج کی ریشہ دوانیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ سامراجی طاقتوں نے دنیا کے ممالک پر قبضے کا نیا طریقہ اپنایا ہے اور وہ ہے قوموں کے اندر دراندازی۔ اسی کو میں نے کچھ عرصہ قبل پوسٹ ماڈرن استعمار کہا تھا۔ اس طرح جدید استعمار سے بھی آگے پوسٹ ماڈرن استعمار وجود میں آ گیا ہے۔ یہ طاقتیں اب اپنے مہرے دنیا کے ملکوں میں بھیجتی ہیں جو پروپیگنڈے اور تشہیراتی مہم کے ذریعے ظالم سامراجی طاقتوں کی شبیہ بہت خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں اور قوموں کو ورغلاتے ہیں۔ انشاء اللہ یہ حربہ بھی کارگر نہیں ہوگا۔ کیونکہ سامراج کا چہرا اتنا کریہ المنظر ہو چکا ہے کہ اس کے ظلم و سمت اور مذموم حرکتوں پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس کی مثال عراق ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
میں آپ تمام عزیزوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ نے زحمت فرمائی اور بلند ہمتی اور شوق و جذبہ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سال بھی انیس دی کے یادگار دن کی سالگرہ منانے کے لئے یہ جذبہ محبت سے لبریز اجتماع منعقد کیا۔ ہماری قوم کی سیاسی تاریخ میں انیس دی کا دن سنگ میل کا درجہ رکھتا ہے۔
اگر آپ اس واقعے پر باریک بینی کے ساتھ تجزیاتی نظر ڈالیں تو محسوس کریں گے کہ انیس دی کا واقعہ ملت ایران کی سیاسی زندگی کا بہت اہم موڑ ہے اور اس واقعے کا سہرا اہل قم کے سر ہے۔ اس موقع پر اور بعد کے مراحل میں قم کے نوجوانوں، مومنین اور دینی تعلیمی مراکز نے حقیقی معنی میں اپنا کردار ادا کیا۔
مسئلہ یہ تھا کہ عوام ایک طرف شاہ کی مطلق العنان حکمرانی اور دوسری طرف زندگی کے مسائل و مشکلات، اخلاقیات سے بے بہرہ ثقافت مسلط کئے جانے کی سازشوں اور غیر ملکی بلکہ یوں کہا جائے کہ امریکی عناصر اور مہروں کےغلبے اور ریشہ دوانیوں سے تنگ آ چکے تھے۔ عوام کا یہ غیظ و غضب ان کے جذبہ ایمانی کی آمیزش کے ساتھ رونما ہوا۔ یہ وہ غصہ نہیں تھا جو انسان کو اندھا کر دیتا ہے۔ اس کا محرک کوئی نا معلوم جذبہ نہیں تھا۔ عوام پوری طرح واقف اور باخبر تھے کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔ یہ معجزہ تھا اسلامی تعلیمات کا۔ رہبر بزرگ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی بے مثال قیادت میں کئی برسوں سے جاری نوجوان طلبا اور علمائے افاضل کی تحریک سے عوام میں اتنی بیداری آ گئی تھی کہ انہیں بخوبی اس کا ادراک تھا کہ موجودہ صورت حال کسی بھی قوم اور ملک کے لئے شرمناک صورت حال ہوتی ہے اور حالات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تبدیلی عوام کے ہاتھوں ہی ممکن ہے۔ عوام کو اس کا بخوبی علم تھا۔ عوامی غیظ و غضب پورے ایران میں پھیلا ہوا تھا لیکن بہرحال دوسرے کسی بھی واقعے اور تبدیلی کی مانند اس تبدیلی کا بھی آغاز کسی ایک جگہ سے ہونا تھا۔ کسی کو آگے بڑھنا تھا۔ آغاز ہوا قم کے عوام اور علمائے کرام کے ذریعے۔ تو اس واقعے کی اہمیت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے پیچھے جو جذبہ کارفرما تھا وہ جذبہ اسلامی تھا، جو اہداف تھے ان کا تعین اسلامی اور ایمانی معرفت کے ذریعے ہوا تھا۔ امیدیں امداد الہی سے اور قومی جد و جہد کی طاقت سے وابستہ تھیں۔ یہ وہ خصوصیات تھیں جو ملت ایران نے انیس دی کے واقعے اور اس کے بعد کے واقعات سے اپنے اندر پیدا کی تھیں۔ انیس دی کا یہ واقعہ ایک طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ وہ طوفان جس میں حق و صداقت کے دشمنوں، طاغوتی عناصر اور اہل شر کی فنا یقینی تھی۔ و لقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون یہ وعدہ الہی ہے ( کہ زمین کے مالک اللہ تعالی کے نیک و صالح بندے ہوں گے) تاہم جب تک عوام کی جانب سے حق کی حمایت نہ ہو وہ حق ایک ذہنی اور معنوی حقیقت رہتا ہے اور یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ یونہی نافذ بھی ہو جائے گا۔ لیکن جب حق کو انسانوں کے جذبہ ایمانی کا سہارا مل جائے اور وہ ( کسی تحریک کی صورت میں) آگے بڑھے تو نظام کائنات کے مطابق عملی جامہ پہنتا ہے اور اس نے عملی جامہ پہنا بھی۔ اگر امت مسلمہ کی ابتدائی صدیوں سے آج تک کی پوری تاریخ کا جائزہ لیں (تو دیکھیں گے کہ) مسلمانوں کی کمزوری اور زوال اس وقت سے شروع ہوا جب حق کو نظر انداز کیا جانے لگا۔ یہ اسی کوتاہی کا نتیجہ تھا۔ اس جذبہ ایمانی کا فقدان تھا جو حق کو معاشرے میں نمایاں کرتا، پرچم حق کو لہراتا، حق کے ستونوں کو عوام کی زندگی میں مستحکم کرتا، اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ امت مسلمہ کی زندگی بدحالی کا شکار ہو گئی جس کا ہم دنیا کے مختلف علاقوں میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ملت ایران نے قانون الہی پر عمل کیا یعنی حق کا دامن تھام لیا، حق کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنا بھرپور تعاون پیش کیا، میدان عمل میں قدم رکھے اور اللہ تعالی نے قرآن میں مذکور اپنے وعدے کے مطابق ان کی نصرت کی۔ یہ عظیم عمل قم سے شروع ہوا۔ آپ اس دن کی قدر کیجئے! یہ ایک تاریخی موقع تھا۔ اس کی قدردانی اور اس کے رموز و دروس کو عام کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔
ملت ایران نے میدان عمل میں قدم رکھے اور اغیار کے اشارے پر چلنے والے آمرانہ نظام کو اکھاڑ پھینکا۔ اپنی سرزمین سے لٹیرے دشمنوں کو مار بھگایا۔ بے راہروی کی ثقافت اور اغیار کے طور طریقوں کے غلبے کو جتنا ممکن تھا ختم کیا اور حق کا بول بالا ہوا۔ طاغوتی حکومت کا خاتمہ ہوا اور ملک میں ایسی حکومت تشکیل پائی جس کا دارو مدار عوامی طاقت پر تھا اور جس کا سرچشمہ تھا جذبہ ایمانی۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ہے، اس کی برکتیں نازل ہوئیں و لو ان اھل القری آمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکات من السماء و الارض اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ہے کہ اگر ایمان و تقوی میدان عمل میں آ جائے تو وہ اپنی رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دے گا اور ایسا ہی ہوا۔ آگر آپ ملک میں نظر دوڑائیں تو آج جو حالات ہیں طاغوتی (شاہی) دور سے ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ ملک مادی ترقیوں کے لحاظ سے بھی بہت آگے ہے، اخلاقیات و معنویت کے لحاظ سے بھی اس زمانے کے مقابلے میں آج حالات بہت بہتر ہیں۔ اس زمانے میں یہ ملک پوری طرح امریکیوں کے اختیار میں تھا۔ معیشت، سیاست، تعلقات، ہر لحاظ سے۔ جو کچھ بھی یہاں انجام پاتا تھا اس کا ایران کے سر پر سوار تسلط پسند بیرونی طاقتوں کے مفادات کے مطابق ہونا لازمی تھا۔ اس وقت ملک کے اعلی عہدہ داروں کے انتخاب میں عوام کو بالکل دخیل نہیں کیا جاتا تھا۔ اس وقت رائے عامہ کے بارے میں کوئی سوچتا بھی نہیں تھا اور اس کی در حقیقت کوئی وقعت ہی نہ تھی۔ علمی میدان میں ملک شدید پسماندگی کا شکار تھا۔ ملک میں خروشاں یہ صلاحیتیں اس وقت پوری طرح فراموش اور نظر انداز کر دی گئی تھیں۔ اگر کسی کو موقع ملتا تھا تو وہ کسی اور ملک میں جاکر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتا تھا۔ بہت بڑی تعداد چلی گئی۔ ان دنوں ہم معمولی سی چیز کی پیداوار کے لئے بھی اغیار کے محتاج تھے۔ تمام اشیاء یا درآمد کی جاتی تھیں یا ملک کے اندر ہی غیر ملکی آکر تیار کرتے تھے۔ ان دنوں ہم خاردار تار جیسی چیزیں بھی دوسرے ممالک سے خریدتے تھے۔ انقلاب کی برکت سے ملک میں جنبش پیدا ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے حالات یکسر بدل گئے۔ اس وقت ملک کی ساڑھے تین کروڑ یا چار کروڑ کی آبادی میں طلبا کی تعداد بہت کم تھی۔ آج آبادی تقریبا دگنا ہے لیکن طلبا کی تعداد میں تقریبا پندرہ گنا کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اساتذہ اور یونیورسٹیوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ جو صنعتیں ایرانیوں نے خود اپنے ہاتھ سے لگائی ہیں حیرت انگیز ہیں۔ اس وقت یہ عالم تھا کہ معمولی سی چیز بھی غیر ملکی آکر تیار کرتے تھے، ہم سے اس کی اجرت بھی لیتے تھے اور ہم پر رعب بھی جماتے تھے۔ اس سب کے بعد جو چیز ہمارے لئے بناتے تھے وہ بہت گھٹیا درجے کی ہوتی تھی۔ آج یہ عالم ہے کہ ہمارے نوجوان پیچیدہ سے پیچیدہ اور اہم ترین ٹکنالوجیاں حاصل کر چکے ہیں۔ جو کچھ عوام کے سامنے ہے وہ ان کے کارناموں کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔ اس زمانے میں اگر کسی دریا پر پل بنانا ہوتا تھا تو کئی ملکوں سے مدد لی جاتی تھی اور انہیں بہت بڑا بجٹ فراہم کیا جاتا تھا تب جاکر کہیں وہ پل بناتے تھے اور وہ بھی بسا اوقات مخدوش ہوتا تھا۔ آج یہ عالم ہے کہ ہمارے نوجوان اس سے دس گنا زیادہ اور بہتر چیزیں اپنے ہاتھوں سے تیار کر رہے ہیں۔ ملک نے ترقی کی ہے، سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں پیشرفت ہوئی ہے، معاشی ترقی کی شرح بدرجہا بہتر ہو گئی ہے۔ ملک کے ترقی یافتہ بننے کے عمل کی رفتار بہت بڑھ چکی ہے۔ اخلاقی اور معنوی لحاظ سے بھی آج کے حالات کا اس زمانے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ آج خود اعتمادی سو گنا بڑھ چکی ہے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ملک آج خود مختار ہے۔ یہ جو عالمی سطح پر ہنگامہ اور بد اخلاقی آپ دیکھ رہے ہیں اسی خود مختاری کی وجہ سے ہے۔ عوامی جد و جہد سے یہ خود مختاری حاصل ہوئی ہے۔ ہم اس راستے سے اب واپس لوٹنے والے نہیں ہیں۔ یہ بات پوری دنیا کو ذہن نشین کر لینا چاہئے۔ ملت ایران اب امریکیوں کو اپنے امور مملکت میں مداخلت کی اجازت نہیں دینے والی ہے۔ روز اول سے اسی لٹیری حکومت یعنی امریکی حکومت کی ریشہ دوانیاں شروع ہو گئیں جو آج تک جاری ہیں اور آئندہ بھی جاری رہیں گی۔ اب تک یہ دشمنی بے اثر اور بے نتیجہ رہی ہے اور آئندہ بھی اللہ تعالی کی مدد رہی تو یہ بے اثر ہی رہے گی۔ سامراج کے منصوبہ ساز اور تجزیہ نگار اس غلط فہمی میں ہیں کہ اسلامی انقلاب کے لئے جس طرح عوام نے آگے بڑھ کر کردار ادا کیا اور ملک میں عظیم تبدیلی رونما ہو گئی اور ایک نیا نظام حکومت معرض وجود میں آیا، اسی طرح عوام کے ذریعے سامراج کے شیطانی اہداف کے لئے بھی ایسی ہی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ وہ (اسی غلط فہمی میں) سعی عبث کر بھی رہے ہیں۔ گزشتہ دس پندرہ برسوں میں عالمی سامراج، امریکہ اور صیہونی حکومت کے جاسوسوں اور مہروں نے عوام کو مشتعل کرنے کی بارہا کوششیں کیں تاکہ انقلاب کو الٹ دیا جائے۔ ان احمقوں کو یہ نہیں معلوم کہ اسلامی انقلاب اندرونی خواہش تھی، اس کا سرچشمہ جذبہ ایمان تھا، اس کی تکیہ گاہ ملت ایران کی ایک ایک فرد کا دل تھا۔ یہ باہر سے مسلط کی جانے والی کوئی چیز نہیں تھی۔ یہ پیسے سے خریدی جانے والی کوئی چیز نہیں تھی۔ ایسی کوئی چیز اگر کبھی رونما ہوئی تو وہ امریکی حکومت اور اس کے مہروں کے خلاف رونما ہوگی۔
ایمانی بنیادوں پر استوار مستحکم نظام جس کی جگہ لوگوں کے دلوں میں ہے، ان طوفانوں سے ڈگمگانے والا نہیں ہے۔ وہ اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اس لئے ملت ایران کو بھی ہوشیار رہنا چاہئے۔
عزیزو! آپ جانتے ہیں کہ ان پچیس برسوں میں بر وقت عوامی مشارکت اور تعاون کی صورت میں ہم نصرت الہی کا مشاہدہ کرتے رہے۔ ہمارے نوجوانوں کا ایمانی جوش و خروش اور تمام مردوں اور عورتوں کا دینی جذبہ ہی تھا جس کی وجہ سے یہ ملک اور یہ انقلاب محفوظ رہا اور اسی کے زیر سایہ عظیم قومی ترقی ہوئی ہے۔ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ حق یعنی ایمانی بنیادوں پر استوار اسلامی نظام ایک دن باطل پر فتحیاب ہوگا۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ عوام بالخصوص نوجوان میدان عمل میں موجود رہیں اور حالات پر گہری نظر رکھیں۔ آپ دیکھئے کہ اس وقت عالمی سامراج کے پنجے میں جکڑی دنیا کی کیا حالت ہو گئی ہے۔ آج بھی وہی سامراجی جال پھیلا ہوا ہے لیکن اس کی شکل بدل گئی ہے۔ پہلے پرانا سامراج تھا جو دنیا کے ممالک پر قبضہ کر لیتا تھا۔ جیسا کہ ہندوستان، الجزائر اور دیگر ممالک پر قبضہ کیا گیا۔ رفتہ رفتہ قوموں میں بیداری آئی تو یہ سامراج ختم ہو گیا کیونکہ اب اس کے لئے اپنا وجود باقی رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔ البتہ سامراجی تسلط کے ان برسوں میں متاثرہ قوموں کو نچوڑ لیا گیا۔ بہرحال یہ پرانا سامراج تو ختم ہوا لیکن جدید سامراج نے اس کی جگہ لے لی۔ جدید سامراج کا انداز یہ نہیں تھا کہ ان کے افراد آئیں اور کسی ملک پر قبضہ کرکے اس کی باگڈور اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ جس طرح برطانیہ کا حاکم ہندوستان پر حکومت کرتا تھا۔ جدید سامراج نے خود انہی ممالک کے افراد کو خرید کر ان ممالک کا حاکم بنا دیا۔ جس طرح ایران میں رضا خان اور اس کے بیٹے کی حکومت تشکیل دی گئی اور اسی طرح تیسری دنیا کے دوسرے ممالک منجملہ اسلامی ممالک میں یہی چیز نظر آئی اور اس کا وہ خود بھی اعتراف کرتے ہیں۔ برسہا برس تک انہوں نے قوموں کو لوٹا، ظالم و مستبد حکمراں ان پر مسلط کر دئے۔ بغاوتیں کروا کے حکومتیں بنوائیں اور جہاں تک ہو سکا قوموں کو آگے آنے کا موقع نہیں دیا۔ لیکن آج عالم یہ ہے کہ یہ حربہ بھی ناکام ہو چکا ہے۔ لہذا سامراجی طاقتوں نے دنیا کے ممالک پر قبضے کا نیا طریقہ اپنایا ہے اور وہ ہے قوموں کے اندر دراندازی۔ اسی کو میں نے کچھ عرصہ قبل پوسٹ ماڈرن استعمار کہا تھا۔ اس طرح جدید استعمار سے بھی آگے پوسٹ ماڈرن استعمار وجود میں آ گیا ہے۔ یہ طاقتیں اب اپنے مہرے دنیا کے ملکوں میں بھیجتی ہیں جو پروپیگنڈے اور تشہیراتی مہم کے ذریعے ظالم سامراجی طاقتوں کی شبیہ بہت خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں اور قوموں کو ورغلاتے ہیں۔ انشاء اللہ یہ حربہ بھی کارگر نہیں ہوگا۔ کیونکہ سامراج کا چہرا اتنا کریہ المنظر ہو چکا ہے کہ اس کے ظلم و سمت اور مذموم حرکتوں پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس کی مثال عراق ہے۔ آپ دیکھئے کہ یہ لوگ عراق میں کیا کر رہے ہیں؟! اس وقت امریکہ اور برطانیہ کے ہاتھوں میں انسانی حقوق کا پرچم مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ ابوغریب جیل اور گوانتانامو کی جیل کا ماجرا اور قوموں کے ساتھ برطانوی اور امریکی فوجیوں کا اہانت آمیز برتاؤ منظر عام پر آ چکا ہے۔ ممکن ہے کہ اس وقت قومیں اس پر اپنا رد عمل ظاہر نہ کریں لیکن ان کے دل میں یہ چیزیں جمع ہو رہی ہیں جو کسی دن آتشفشاں کی مانند پھٹ پڑیں گی۔ مسلم قوموں میں امریکہ اور سامراجی طاقتوں سے نفرت اپنے اوج پر پہنچی ہوئی ہے۔ وہ آتشفشاں کی مانند ابل پڑنے کے لئے مناسب موقع کے انتظار میں ہیں۔ سامراجی نظام جو قوموں پر ظلم و ستم اور ان کی جان، مال، عزت آبرو اور سرمائے کے ضیاع پر استوار ہے، اب اس کا دور ختم ہو چکا ہے۔ ممکن ہے کہ قومیں ابھی اور بھی کچھ عرصے تک سختیاں برداشت کریں لیکن اب وہ غنڈہ گردی سے تنگ آ چکی ہیں۔ اب ان میں مزید تحمل کی طاقت نہیں رہ گئی ہے۔ جو قوم چاہتی ہے کہ اپنا کردار ادا کرے اسے چاہئے کہ سب سے پہلے تو اپنے اندر آگاہی پیدا کرے اور ایمان، ارادے اور فہم و فراست کا سہارا لے۔ ایسی قوم میدان سے فتحیاب ہوکر باہر نکلے گی۔ اس سلسلے میں ایرانی قوم بڑی خوش قسمت ثابت ہوئی ہے۔ یہ قوم بھرپور توانائیوں کی بھی مالک ہے اور اس میں فہم و فراست بھی بے مثال ہے، اس کا ایمان پختہ ہے اور اس نے قیمتی تجربات بھی حاصل کئے ہیں۔ دوسری قوموں کے پاس ہمارے تجربات نہیں ہیں۔ ظالمانہ سامراجی نظام اور پوسٹ ماڈرن سامراجی مظالم کے خلاف ہماری قوم ایک عظیم عالمی تحریک کا سرچشمہ بن سکتی ہے۔
نوجوانوں کو اس نکتے کی جانب خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ممکن ہو آپ خود کو آمادہ رکھیں، اپنی فکری صلاحیتوں میں اضافہ کریں اور سیاسی و معاشی میدانوں میں اپنی سرگرمیاں اور شراکت بڑھائیں۔ نوجوان طلبا اور مختلف شعبہ ہای زندگی سے تعلق رکھنے والے نوجوان خواہ وہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے، یہ دھیان رکھیں کہ انہیں دنیا کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ مستقبل میں دنیا کے سیاسی جغرافیا کا خاکہ انسانوں کے ایمان و ارادے کی طاقت سے طے پائے گا۔ یہ کام آپ کو کرنا ہے۔ البتہ ملک کے اعلی حکام خواہ وہ ثقافتی اور علمی امور کے ذمہ دار ہوں، سیاسی امور کے ذمہ دار ہوں یا پھر نوجوانوں کے امور کے ذمہ دار، ان سب کی بھی ذمہ داریاں بہت اہم اور سنگین ہیں۔ میں جو علمی اور سائنسی میدان میں پیشرفت پر اتنی تاکید کرتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس و ٹکنالوجی کے حصول اور سائنسدانوں کا، مستقبل کے تعین میں بہت کلیدی کردار ہے۔ مستقبل آپ نوجوانوں کا ہے اور آپ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ قوموں کی شان و شوکت اور شکوہ و عظمت کا دور انشاء اللہ تعالی آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور اس استقامت کا ثمرہ آپ کو حاصل ہوگا۔ اس وقت ہمارے ملک میں بحمد اللہ اتحاد ہے، ایمان ہے، بیداری و آگاہی ہے اور جوش و جذبہ ہے۔ البتہ دوسری طرف سازشیں بھی جاری ہیں۔ یہی انتخابات کا مسئلہ لے لیجئے! انتخابات میں عوام پورے جوش و خروش سے بھرپور شرکت کریں گے۔ اس کے آثار ابھی سے بالکل نمایاں ہیں۔ انتخابات جس کی گہما گہمی ابھی سے نظر آنے لگی ہے، جب نزدیک آ جائیں گے تو آپ خود دیکھیں گے کہ انتخابات کے بائيکاٹ کے شوشے چھوڑے جائیں گے تاکہ عوام انتخابات میں شرکت نہ کریں، سامنے نہ آئیں، اپنے حق رائے دہی کا استعمال نہ کریں اور ایران اور اسلامی جمہوری نظام کے سیاسی عمل سے بالکل دستبردار ہو جائیں۔ یہ شگوفے سب سے پہلے تو امریکہ اور اسرائيل کے سیاسی اور منصوبہ ساز حلقوں کی طرف سے چھوڑے جاتے ہیں اور پھر رفتہ رفتہ کچھ ضمیر فروش افراد اندرونی سطح پر بھی وہی باتیں دہرانے لگتے ہیں۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ انتخابات آزادانہ منعقد نہیں ہو رہے ہیں۔ کچھ کہیں گے کہ انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اس سب کا مقصد عوام کے حوصلے پست کرنا ہے۔ کچھ انتخابی دوڑ میں شامل امیدواروں کی شبیہ خراب کرنے پر تل جائیں گے۔ یہ سب اپنے اپنے طور پر کوشش کریں گے کہ انتخابات کی رونق ختم ہو جائے۔ میں پرزور سفارش کرتا ہوں ملک کے حکام اور پوری قوم سے کہ انتخابات کے لئے بھرپور تیاری کریں۔ حالانکہ ابھی انتخابات میں زیادہ دن ہیں اور ہمارے پاس تقریبا پانچ چھے مہینے کا وقت ہے لیکن ابھی سے لوگوں میں انتخابات کے سلسلے میں دلچسپی اور انتخابی جذبہ بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ رائے دہندگان کو یہ علم رہے کہ وہ ایک عظیم کام انجام دینے جا رہے ہیں۔ وہ ایسی حکومت تشکیل دیں جو امنگوں کی سمت ایک بڑا قدم بڑھائے۔ یہ بنیادی ہدف ہے۔ انتخابی مقابلے میں شامل ہونے والے مختلف امیدواروں کو چاہئے کہ اس نکتے کو ذہن میں رکھیں۔ یہ قوم عمل اور محنت و مشقت دیکھنا چاہتی ہے۔ انجام دینے کے لئے کام بہت زیادہ ہیں اور اس کے لئے میدان بھی ہموار ہے۔ عوام کی دلی خواہش اور چاہت یہ ہے کہ ایسا صدر ملک کی باگڈور سنبھالے جس کا سارا ہم و غم اور جس کی ساری دلچسپی کام اور محنت ہو۔ جو اقتصادی، ثقافتی، سائنسی، اخلاقی، سیاسی اور دیگر تمام شعبوں میں تندہی سے کام کرے اور کام کے جذبے سے سرشار ہو۔ یہ چیزیں ایمان کے زیر سایہ ہی ممکن ہیں۔ انتخابات میں شرکت کرنے والے امیدواروں کو اس پر توجہ رکھنا چاہئے۔ عوام امیدواروں سے ان کے منصوبوں اور ارادوں کے بارے میں سننا چاہتے ہیں۔ امیدوار وضاحت کریں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے پروگرام، اہداف اور حکمت عملی سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ اسے کہتے ہیں انتخابی گہما گہمی۔ میں نے عید الفطر کے دن ملت ایران کی خدمت میں بھی عرض کیا کہ اس روش کے نتیجے میں عوام کی بھرپور شرکت ممکن ہوگی۔ عوام کو بھی تیار رہنا چاہئے اور اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ کون امیدوار ان کے اہداف کے تئیں وفادار ہو سکتا ہے اور ان اہداف کے سلسلے میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میں انتخابات کا وقت آنے تک قوم کی خدمت میں اور بھی تفصیلات عرض کروں گا تاہم ابھی سے جس نکتے پر سب کی توجہ مرکوز رہنا چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ قوم اور یہ ملک کام اور محنت و مشقت دیکھنے کا متمنی ہے۔ ان اہداف کے سلسلے میں محنت و مشقت جن کے لئے قوم نے انقلاب برپا کیا، جن کے لئے اپنی سرزمین کا دفاع کیا، جن کے لئے وہ سراپا پائيداری و استقامت بن گئی۔ ان اہداف کے لئے کہ جن کے لئے اس قوم نے سعی و کوشش کے ذریعے سائنسی اور فکری میدانوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔ البتہ ملت ایران کو ہمیشہ غیبی امداد ملتی رہی ہے اور میں نے اس کا خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ ایک دفعہ امام (خمینی رہ) کی طبیعت ناساز تھی۔ میں آپ کی عیادت کے لئے گیا، میں نے ایک جملہ کہا جس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں نے ان چند برسوں میں جس چیز کا مشاہدہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ دست قدرت خدا ملت ایران کی نصرت کر رہا ہے اور کاموں کو انجام تک پہنچا رہا ہے۔ میں نے بھی ان چند برسوں میں اس دست قدرت خداوندی کا مشاہدہ کیا ہے۔ اس قوم کے خلاف کتنی سازشیں کی گئیں؟! اس قوم کو دبائے رکھنے، اس کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرکے اس پر غلبہ حاصل کر لینے کے لئے کتنا پیسہ خرچ کیا گیا؟! لیکن عوام کی بلند ہمتی اور نصرت الہی کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔ انشاء اللہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں نصرت و ہدایت کی دعا کرتا ہوں۔ حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی خدمت میں درود و سلام بھیجتا ہوں اور پوری ملت ایران اور یہاں موجود تمام عزیزوں کے لئے آپ کی مدد، توجہ اور لطف و عنایت الہی کی التجا کرتا ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ