آپ نے گزرے ہوئے ہجری شمسی سال کے دوران حکومت کی کارکردگی اور ملک کی ترقی و پیشرفت کا جائزہ لیا اور نئے ہجری شمسی سال میں لائحہ عمل کے سلسلے میں اہم سفارشات کیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں علاقے کے حالات اور عوامی انقلابات کا جائزہ لیا اور ان تغیرات کے تعلق سے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف اور سامراجی طاقتوں کی سازشوں کو بیان کیا۔ قائد انقلاب اسلامی کے اس سالانہ خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
الحمدللّہ ربّ العالمین و الصّلوۃ و السّلام علی النّبیّ الاعظم و الصّراط الاقوم و اشرف ولد ادم، سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمد؛ و علی الہ الاطیبین الاطہرین المنتجبین الھداۃ المھدیین المعصومین؛ سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین ۔

ہم خداوند متعال کے شکرگزار ہیں کہ اس نے عمر دی اور ایک بار پھر توفیق عطا کی کہ یہ نہایت ہی مبارک اور مغتنم موقعہ ہمیں نصیب ہوا، (ہجری شمسی) سال کے پہلے دن حضرت علی ابن موسی الرضا ( ارواحنا فداہ و صلوات اللہ علیہ) کے آستانۂ مقدسہ کے جوار میں آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو اور ان سبھی لوگوں کو جو عظمتوں سے معمور اس پرشکوہ مجلس میں تشریف فرما ہیں، چاہے وہ اس وسیع و عریض شبستان میں ہوں یا ہماری ملت کے وہ عزیز بھائی اور بہن ہوں جو اس کے متعدد صحنوں میں ہیں اور یہ گفتگو سن رہے ہیں ہم عید سعید نوروز، سال کے پہلے دن کی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ یہ اجتماع در حقیقت ملت ایران کا ایک نمونہ ہے۔ آج کے دن ملک کے مختلف حصوں سے، مختلف شہروں سے، دور اور قریب کے علاقوں سے، ہمارے عزيز عوام اس بارگاہ میں، حضرت ابوالحسن امام علی رضا علیہ السلام کے بلند ستونوں کے سائے میں آتے ہیں اور برکتیں حاصل کرتے ہیں، مشہدی بھائیوں اور بہنوں کی بڑی تعداد بھی اس عظیم مجمع میں موجود ہے میں سب کو سلام عرض کرتا ہوں اور مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
ایرانی عید نوروز ایران کے ہم تمام لوگوں کے لئے اور ان مسلمانوں کے لئے بھی جو دوسرے ملکوں میں عید نوروز سے آشنا ہیں اور جشن مناتے ہیں، ایک اچھا موقع ہے کہ ہم سب اس روز اور اس مناسبت سے اسلامی تحریک کی سمت و رخ پر آگے بڑھنے کے لئے استفادہ کریں۔ ان کاموں کی طرف کہ اسلام نے جن کی ہم کو دعوت دی ہے۔ اسلامی احکام کی جانب رخ کریں اور اسلامی معارف کی طرف حرکت کریں۔ ہم خود کو اسلام کے بلند مقاصد سے آشنا بنائیں۔ ان ایام میں صلہ رحمی (عزيز و اقارب کی ملاقات و خبرگیری) خداوند متعال کی طرف توجہ، ایک دوسرے کی اچھی باتیں سننے اور دینی و معنوی مراکز میں اکٹھا ہونے کے لئے موقع کو غنیمت سمجھنا اور بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے عزيز عوام نے برسہا برس سے مسلسل خصوصا اس ملک پر اسلامی نظام حکمفرماں ہونے کے زمانے میں عید نوروز سے بھی معنویت و معرفت کے اکتساب اور خدا سے تقرب و توسل کی راہ میں استفادہ کیا ہے۔ گواہ خود یہ حقیقت ہے کہ تحویل کے وقت اگر آپ ملاحظہ فرمائیں تو دیکھیں گے زیادہ تر عوام دینی مراکز میں، آستانوں میں، زیارت گاہوں میں اور مساجد میں دعا اور ذکر و تسبیح میں مشغول نظر آتے ہیں۔ اس عظیم حرکت کا مطلب یہ ہے کہ ملت ایران اس آئین اور اس روایتی تقریب سے بھی دین و مذہب پر عمل آوری کے لئے فائدہ اٹھاتی ہے۔ ہمارے لئے تمام امور میں یہی معیار ہونا چاہئے کہ ہم ہر موقع سے اپنی معرفت، اپنی معنویت، اپنے دین اور اسلامی احکام کے استحکام کے لئے، اسلامی تعلیمات اور اسلامی اخلاق سے فائدہ اٹھائیں۔ مجھے امید ہے کہ خداوند متعال ہم سب کو پوری ملت ایران کو اس سلسلے میں توفیق و کامرانی عطا کرے گا۔
آج یہ موقع جو خداوند متعال نے اس مبارک و مسعود ملاقات کے ذریعے مجھ کو نصیب کیا ہے تین باتیں آپ تمام بھائیوں، بہنوں، اہل مشہد اور محترم زائروں سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔
پہلی بات سنہ 1389 ھجری شمسی سے متعلق اجمالی جائزہ ہے۔ ایک وسیع و جامع نگاہ سے آپ دیکھیں! سنہ 1389 ھجری شمسی ( یعنی 21 مارچ سنہ 2010 سے بیس مارچ سنہ 2011) کے دوران ملت ایران اور اس ملک کے حکام نے کس سمت میں حرکت کی ہے اور کس طرح یہ راہ طے کی ہے۔
دوسری بات سال نو سے متعلق ہے کہ جس کا آج آغاز ہو رہا ہے۔ اس سال کے نعرے یعنی معاشی جہاد کے پیش نظر جو اپنی عزيز ملت کے لئے میں نے تجویز دیا ہے اور جو کچھ اس میدان میں انجام پانا مناسب ہے اس سے متعلق ہے۔ گفتگو کے تیسرے حصے میں علاقے کے مسائل پر ایک نگاہ ڈالنا ہے۔ مشرق وسطی کے مسائل ہیں، شمالی افریقہ کے مسائل ہیں اور وہ مسائل ہیں جو اس اسلامی علاقے میں رونما ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ ان چالوں اور ہتھکنڈوں کے پیش نظر جو امت اسلامیہ کے دشمنوں نے اس سلسلے میں اپنا رکھا ہے۔
پہلے حصے میں کہہ سکتا ہوں کہ سن تیرہ سو نواسی کا نعرہ یعنی بلند ہمتی اور دگنی محنت پورے سال کے دوران توجہ کا مرکز رہا اور ہماری ملت نے مختلف شعبوں میں حقیقت یہ ہے بہت ہی بلند و بالا ہمت دکھائی اور کئی گنا کام انجام دئے۔ البتہ اس بلند ہمتی اور دگنی محنت کے نتائج دراز مدت میں سامنے آئیں گے لیکن پھر بھی اسی ابتدائی نظر میں جب انسان سن تیرہ سو نواسی کے حالات پر نگاہ ڈالتا ہے اور جو کچھ ملک کے حکام نے انجام دیا ہے اور جو کچھ ہماری ملت عزيز نے خود بھی اور حکام کے دوش بدوش رہ کر انجام دیا ہے وہ ان کی بلند ہمتی اور دگنی محنت کی نشان دہی کے لئے کافی ہے۔ بہت سے میدانوں میں یہ چیز قابل مشاہدہ ہے۔
سائنس اور ٹکنالوجی سے شروع کرتے ہیں۔ سنہ 1389 کے آغاز میں ایام عید کے دوران بندے کو توفیق نصیب ہوئی کہ ملک کے ایک بہت ہی حساس صنعتی شعبے کا معائنہ کروں اور (سال کے آخری مہینہ) اسفند کے آخری ایام میں بھی توفیق مل گئی کہ ایک نمائش میں سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے کے کچھ اہم کارناموں کا معائنہ کروں اور اس ایک سال کی کارکردگی کے نتائج اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کروں جو خود ایک طویل المیعاد فعالیت کا نتیجہ ہیں۔ یہ بات میں آپ لوگوں سے کہہ سکتا ہوں، کچھ برس پہلے سے مختلف شعبوں میں نمایاں علمی سرگرمیاں شروع ہو چکی ہیں جو خوش قسمتی سے روز افزوں سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔
میں نے ایک موقع پر یہ روایت جو معصوم ( علیہ السلام ) سے ہے عرض کی تھی کہ فرماتے ہیں : العلم سلطان یعنی علم و دانش ایک ملت اور ایک فرد کے لئے سرچشمۂ اقتدار ہے من وجدہ صال و من لم یجدہ صیل علیہ جس نے یہ قوت و اقتدار حاصل کر لیا برتری حاصل کرلے گا اور جس نے علمی اقتدار حاصل نہ کیا، ماتحت بنارہے گا اور دوسرے لوگ اس پر بالادستی حاصل کرلیں گے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی یہی خصوصیت ہے۔
آج علم و ٹکنالوجی کے حصول کی راہ میں ملک کی حرکت، بہت سے شعبوں خصوصا جدیدترین و اعلی ترین میدانوں میں پوری طرح نمایاں اور قابل مشاہدہ ہے۔ مختلف شعبوں میں، بایوٹکنالوجی میں، فضائی اور خلائی میدانوں میں، نینو ٹکنالوجی کے شعبے میں، اسٹم سیلز کے میدان میں، بہت ہی اہم اور حساس قسم کی نیوکلیئر میڈیسن کی پیداوار کے شعبے میں، کینسر کی دواؤں کے سلسلے میں، ( بجلی پیدا کرنے والے) ونڈ ٹربائن انجنوں کی پیداوار کے شعبے میں۔ جو بڑی حد تک تیل پر ملک کی توانائی کے انحصار کو ختم کر دے گی، سوپر کمپیوٹروں کی ساخت کے میدان میں جو ملک کے لئے بہت ہی اہم ہے، متبادل انرجی کی ٹکنالوجی میں کے شعبے میں جو تمام دنیا کی اہم ترین ٹکنالوجی شمار ہوتی ہیں، خوش قسمتی سے انسان دیکھ رہا ہے کہ ہمارے دانشور، ہمارے نوجوان کئی گنا سرعت کے ساتھ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہیں، جیسا کہ میں نے اپنے نوروز کے پیغام میں بھی عرض کیا ہے کہ معتبر بین الاقوامی مراکز کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس میدان میں آپ کا ملک دنیا کے ملکوں سے زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور ملک کی ( ترقی کی ) رفتار دنیا کی اوسط رفتار سے کئی گنا زيادہ ہے۔
علم اور ٹکنالوجی کی ترقی کے مسئلے میں دو تین اہم باتیں ہیں جن کو عرض کر دینا میں مناسب سمجھتا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ زيادہ تر جوان سائنسداں کاموں کو انجام دے رہے ہیں۔ جوان سائنسدانوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ان سائنسدانوں کی اوسط عمر، پینتیس سال ہے۔ یعنی اکثریت جوانوں کی ہے۔ چنانچہ حتمی طور پر ان جوانوں پر اعتماد کرنا چاہئے۔ البتہ پختہ عمر والے اور تجربہ کار مومن و دیندار اساتذہ بھی اس کام میں مشغول ہیں اور یہ چیز بہت ہی مغتنم اور نعمت غیر مترقہ ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وہ مجموعہ جو اس عظیم و وسیع کام میں جٹا ہوا ہے اپنے نفس پر اعتماد اور خود اعتمادی کے بلند حوصلوں سے سرشار ہے اور یہی اس سلسلے میں اصلی سرمایہ ہے۔ ملک کا اصل سرمایہ افرادی قوت ہوتی ہے۔ وہ چیز جو ہمارے ملک کے پاس ہے، یہی سرمایہ ہے۔ ہمارے جوان قوی جذبوں اور حوصلوں کے ساتھ اس میدان میں آگے بڑھ رہے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ تمام کام کہ جن کی بنیادیں ملک میں آمادہ ؤ تیار ہیں ان کے ہاتھوں قابل تکمیل ہیں۔ علمی ترقی کے ذیل میں ایک اور بات یہ ہے کہ سائنس، ٹکنالوجی، تخلیق و انکشاف اور تجارت کی کڑیاں ایک دوسرے سے جڑ گئی ہیں، جو در اصل بڑی ہی اہم کڑیاں ہیں اور اس طرح ایک سلسلہ تیار ہو گیا ہے؛ یعنی پہلے کوئی نئی سائنسی تحقیق کرتے ہیں، پھر اس کو ٹکنالوجی میں تبدیل کرتے ہیں پھر ان اس سے با قاعدہ پیداوار شروع کرتے ہیں اور سرانجام ان مصنوعات کو عالمی منڈی میں فروخت کرتے اور ملک کے لئے سرمایہ تیار کرتے ہیں۔ یہ علم صرف دل ٹھنڈا کرنے کی چیز نہیں ہے کہ ہم اسی پر خوش ہوں کہ ہم نے اس میدان میں ترقی کر لی ہے۔ جی نہیں! یہ علم ملک کو دولتمند بناتا ہے، اس کا فائدہ تمام لوگوں تک پہنچتا ہے۔ علم کی پیداوار کا یہ راستہ قومی ثروت کی پیداوار کی طرف جاتا ہے اور ملت کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے۔ یہ چند نکتے علمی میدان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو اس شعبے میں بلند ہمتی اور دگنی محنت کے اثرات پوری طرح نمایاں ہیں۔
ایک اور میدان کہ جس میں بلند ہمتی اور دوگنی محنت کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور جس کے ذیل میں کاموں کا ایک طویل سلسلہ وجود میں آ گیا ہے، اقتصادیات سے متعلق ہے کہ جس کا ایک نمونہ سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کے منصوبے پر عمل آوری کا اہم ترین اقدام ہے۔ اچھا ہے ہماری ملت کو یہ بات معلوم ہو جائے کہ تقریبا تمام ماہرین اقتصادیات، چاہے وہ ایران کی موجودہ حکومت کے اقتصادی نظریوں سے اتفاق رکھتے ہوں یا وہ لوگ ہوں کہ جن کے اقتصادی نظریات موجودہ حکومت کے نقطۂ نگاہ کے مخالف ہیں، سب اس بات پر متفق ہیں کہ سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم بہت ہی ضروری، بہت ہی اساسی اور بہت ہی مفید اقدام ہے۔ یہ ان آرزوؤں کا حصہ ہے کہ جن کا گزشتہ برسوں میں حکومتوں سے مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ اس میدان میں اترنا ایک سخت و دشوار کام تھا۔ زمین بھی فراہم نہیں تھی، بحمد اللہ اب یہ کام شروع ہو چکا ہے۔ اس میدان میں عوام اور حکومت کا باہمی تعاون، انصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو بہت ہی عالیشان رہا ہے۔ سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کے سلسلے میں عوام کا تعاون بہت عمدہ رہا ہے۔ اس کام کے اثرات مستقبل میں آہستہ آہستہ آشکار ہوتے جائیں گے۔ اگرچہ اس مختصر عرصے میں بھی اس کے بعض مثبت اثرات ظاہر ہو چکے ہیں۔ اس کام کے اہم مقاصد میں پہلے درجے میں سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم ہے۔ ملک کی انتظامیہ سبسیڈی کو لوگوں کے درمیان تقسیم کر رہی ہے، منصوبے پر عملدرآمد سے قبل جن لوگوں کے پاس زیادہ پیسہ تھا وہ سبسیڈی سے زيادہ فائدہ اٹھا رہے تھے۔ ان کو اس کا زيادہ حصہ مل رہا تھا اور جن لوگوں کے پاس کم پیسے تھے انہیں کم فائدہ پہنچ رہا تھا اور وہ اسے بہت کم استعمال کر پا رہے تھے۔ منصوبے پر عملدرآمد سے سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم انجام پا رہی ہے۔ یعنی سب کو یکساں طور پر سبسیڈی مل رہی ہے۔ یہ سماجی انصاف قائم کرنے کی راہ میں ایک بلند اقدام ہے۔
ایک اور مقصد، ملک کے قومی ذخیروں جیسے پانی، بجلی وغیرہ کا صحیح استعمال ہے۔ دوسال پہلے ہم نے سال کا نعرہ معیار صرف کی اصلاح قرار دیا تھا اور فضول خرچی اور اسراف سے پرہیز کی دعوت دی تھی۔ یہ ( سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کا منصوبہ) حقیقی معنی میں معیار صرف کی اصلاح کر سکتا ہے۔ جیسا کہ اس مختصر مدت میں اس کے اثرات ظاہر بھی ہونے لگے ہیں۔ ان ہی چند مہینوں میں کہ جب سے سبسیڈی کی منصفانہ تقسیم کا عمل شروع ہوا ہے، انرجی کے استعمال کا گراف نیچے آیا ہے اور یہ ملک کے فائدے میں ہے۔ روٹی کے سلسلے میں اسراف، روٹی پھینکنا اور اس طرح گیہوں ضائع کرنا، جو خدا کی ایک عظیم نعمت ہے اور کس زحمت و مشقت کے بعد حاصل ہوتی ہے؟! کم ہوا ہے۔ استعمال میں اعتدال پیدا ہوا ہے۔ یہ منجملہ ان فوائد میں سے ہے جو اب تک حاصل ہوئے ہیں اور انشاء اللہ بہت سے فوائد ہیں جو آئندہ ظاہر ہوں گے۔ ملک کے معاشی ڈھانچے کی اصلاح بھی اسی قبیل سے ہے۔
منجملہ وہ امور کہ جن سے اقتصادی میدان میں بلند ہمتی نمایاں ہوئی ہے تیل کے علاوہ دیگر اشیاء کی برآمدات میں ہونے والا اضافہ ہے۔ ہمارے ملک کا بجٹ، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دسیوں سال سے تیل پر منحصر رہا ہے۔ اس صورت حال کو تمام ہمدرد ماہرین اقتصادیات مسترد کرتے ہیں، یہ روش ہمارے ملک کے لئے معمول بن گئی ہے۔ تیل نکالیں، بیچیں اور اس کے پیسے سے ملک چلائیں۔ یہ ایک غلط طریقہ ہے، میں نے برسوں پہلے یہ بات کہی تھی کہ میری آرزوؤں میں سے ایک یہ ہے کہ ایک دن ایسا آئے جب ہم اس ملک کو تیل کا ایک قطرہ بھی برآمد کئے بغیر چلانے میں کامیاب ہوں اور ملک اس انداز سے چلے۔ ایسا آج تک ہوا نہیں ہے اور یقینا یہ کام آسان بھی نہیں ہے، بہت مشکل کام ہے۔ تیل کے علاوہ دیگر اشیاء کی برآمدات میں اضافہ ہمیں اس منزل کے قریب پہنچا سکتا ہے اور یہ کام انجام بھی دیا جا رہا ہے۔ سن نواسی (ہجری شمسی) کے دوران اس راہ میں بلند قدم اٹھایا جا چکا ہے۔
اسی طرح وہ چیز جو اقتصادی میدان میں بلند ہمتی اور دوگنی محنت کی نشان دہی کرتی ہے امریکہ کی سربراہی میں مغرب کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا پوری ہوشیاری کے ساتھ کامیاب مقابلہ ہے۔ افسوس یہ ہے کہ بعض یورپی حکومتیں بھی ایران کے خلاف امریکہ کی اندھی پیروی کر رہی تھیں۔ ان لوگوں نے بخیال خود سن نواسی (ہجری شمسی) کے اوائل سے ایران کے خلاف پابندیوں میں اور زيادہ شدت اور سختیاں پیدا کر دی تھیں۔ خود وہ لوگ اپنی اندازوں اور تخمینوں کی بنیاد پر، کہ جس کی خبریں ہم تک پہنچی ہیں، باتیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ پابندیاں پانچ چھے مہینوں میں ہی اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گی۔ وہ اسی خیال میں تھے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ پابندیوں کے ذریعے ملت ایران کی زندگی اس قدر دشوار بنا دیں گے اور ملت ایران پر عرصہ حیات اتنا تنگ کر دیں گے کہ ایرانی عوام خود اپنے نظام اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف احتجاج پر مجبور ہو جائیں گے۔ ان کا مقصد یہی تھا۔ ان پابندیوں سے مقابلے کے لئے پوری ہوشیاری کے ساتھ ایک مقتدرانہ روش اختیار کی گئی، جس نے دشمن کی تلوار کند کر دی اور دشمن ان پابندیوں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ خوش قسمتی سے زيادہ سعی و کوشش اور شب و روز کی مسلسل محنت کے سبب ملک کے حکام نے مختلف شعبوں میں اس زبردست مشکل پر قابو پا لیا۔ آج خود مغرب کو اعتراف ہے کہ ایران کے خلاف پابندیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا ہم (ایران کو) پیٹرول (فروخت کرنے پر) پابندی لگا رہے ہیں۔ ایک عرصے سے ہمیں یہ مشکل در پیش رہی ہے کہ ہم تیل پیدا کرنے والے ممالک بھاری رقمیں ادا کرکے تیل کی مصنوعات کہ جن میں ایک یہی پیٹرول ہے باہر سے درآمد کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا یہ اسلامی جمہوریہ کا ایک کمزور پہلو ہے، ہم اس کو پیٹرول درآمد کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
ہمارے ملک کے حکام، قبل اس کے کہ وہ لوگ اس سمت میں کوئی قدم اٹھائیں، ضروری تیاریوں میں لگ گئے، کام یہاں تک پہنچا کہ پیٹرول کی پیداوار کے میدان میں ہمارا وطن عزیز خود کفیل ہو گیا، یہ ان لوگوں کی پابندیوں کی برکت تھی۔
ان اللہ یؤید ھذا الدّین باقوام لا خلاق لھم
ان کے بائیکاٹ کے مد نظر ہمارے حکام اس فکر میں مصروف ہو گئے، کوششیں کیں اور ہم پیٹرول درآمد کرنے سے بے نیاز ہو گئے۔ میں نے یہ بات اسی نمائش میں جہاں ہم اسی مارچ کے مہینے میں گئے تھے، چند جواں سال سائنسدانوں کی زبان سے سنی ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم چاہتے تھے یہ مشین تیار کریں، گئے کہ اس کے وسائل باہر سے فراہم کرکے لائیں، ہم سے کہا گيا کہ آپ پر پابندی لگی ہوئی ہے، ہم آپ کو نہیں دیں گے؛ ہم نے سمجھ لیا کہ یہ وسائل ہم کو خود ہی تیار کرنا ہوں گے، وطن واپس آ گئے، غور و فکر سے کام لیا، زحمتیں اٹھائیں، کوششیں کیں، غیروں کی مدد کے بغیر اس کو تیار کر لیا، یہی دانشمندی کا رویہ ہے۔ ملک کے حکام نے بھی اور ملک کے عام افراد نے بھی دشمنوں کے بائیکاٹ کا اسی طرح عاقلانہ جواب دیا۔ یعنی دشمن کو خود اس کے ہاتھوں میں موجود اہم ترین ہتھیار سے بھی محروم کر دیا۔ اس کی مثال وہی ہے کہ ایک جنگ میں آپ دشمن کے ہاتھ سے اس کا ہتھیار چھپن لیں اور آپ نے چھین لیا۔ یہ بھی بلند ہمتی کا ایک اور مظاہرہ ہے۔
روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے میدان میں بھی اچھے کام انجام پائے ہیں۔ حکومت کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سن نواسی ( ہجری شمسی) کے دوران سولہ لاکھ افراد کے لئے روزگار فراہم ہوئے ہیں، دیہی علاقوں میں رہائشی مکانات، شہری علاقوں میں رہائشی عمارتیں، شاہراہوں کی تعمیر، مواصلاتی لائنیں وغیرہ وغیرہ کہ یہ تمام کی تمام چیزیں ملک کی بنیادی تنصیبات میں شمار ہوتی ہیں۔ یہ اقتصادی میدان میں ترقی کی مثالیں ہیں۔
دوسرے میدانوں میں بھی بہت زیادہ کام انجام پائے ہیں لیکن وقت چونکہ محدود ہے اس لئے ہم ان کے ذکر سے گریز کر رہے ہیں۔ بہر صورت سن نواسی (ہجری شمسی) کے دوران جو چیز ہمارے لئے بالکل مسلمہ ہے، یہ ہے کہ بحمداللہ اس سال صحیح معنی میں بلند ہمتی اور دوگنی محنت دیکھنے میں آئی ہےاور یقینا یہ نعرہ سن نواسی (ہجری شمسی) سے مخصوص نہیں ہے؛ اس سال بھی اور بعد کے برسوں میں بھی، دس سال بعد بھی بلند ہمتی اور دوگنی محنت کا سلسلہ برقرار رہنا چاہئے۔ ایرانی قوم اور حکومت کو ہر دور میں اسی بلند ہمتی اور دوگنی محنت کا مظاہرہ کرنا ہوگا تا کہ ہم انشاء اللہ اس مقام تک پہنچ جائیں جو ملت ایران کے شایان شان ہے۔
اب جہاں تک اس سال کے نعرے اور اس سال انجام پانے والے کاموں کا سوال ہے تو یقینا اس کے ذیل میں بہت ہی اہم موضوعات آتے ہیں اور جو خاص ترجیحات کے حامل ہیں۔ مثلا دفتری نظام کی اصلاح ایک لازمی امر ہے، جو ہونا ہی چاہئے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے میں انقلاب ایک بنیادی کام ہے۔ یونیورسٹیوں میں اور تعلیمی و تحقیقی مراکز میں آرٹس کے موضوعات کو ان کا صحیح مقام دیا جانا ایک اساسی کام ہے۔ ثقافت سے متعلق مسائل ہیں، معاشرتی اخلاق سے متعلق مسائل ہیں اور یہ تمام کام، بڑے ہی اہم کام ہیں لیکن صاحبان نظر کی نگاہ میں آج زمانہ کے اس حساس دور میں معاشی اور اقتصادی مسئلہ ملک کے تمام مسائل میں سب سے زيادہ فوری اور ترجیحی مسئلہ ہے۔ اگر ہمارا وطن عزيز معاشی مسائل کے میدان میں مجاہدانہ انداز میں اقدام کرتا ہے تو گویا اس کا یہ بلند قدم، جو اس نے اٹھایا ہے بعد کے بلند قدم کی تمہید بنے گا جو بلا شبہ ملک کے لئے اور ملک کی ترقی اور ملت ایران کی عزت و سرافرازي میں بہت زيادہ موثر ثابت ہوگا۔ ہمارا فریضہ ہے کہ معاشی اور اقتصادی مشکلات حل کرنے کے سلسلے میں اسلامی نظام کی قوت و قدرت کو دنیا کے سامنے نمایاں کریں۔ نمونہ و مثال پیش کر دیں تا کہ قومیں دیکھ لیں۔ ایک قوم، اسلام اور اسلامی تعلیمات کے سائے میں کس طرح ترقی کر سکتی ہے۔
وہ چیز جو اس سلسلے میں معیار اور پیمانہ کی حیثیت رکھتی ہے اور اہم ہے پانچویں ترقیاتی منصوبے میں معین شدہ میزان تک تیزی کے ساتھ ملک کو پہنچانا ہے، جس کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔ یعنی کم سے کم آٹھ فی صدی ترقی تو ہونی ہی چاہئے۔ اس ترقی میں بڑا حصہ بھرپور استفادے سے تعلق رکھتا ہے۔ یعنی ہم ملک کے وسائل و امکانات سے بہتر صورت میں استفادہ کریں۔ میں نے دو سال پہلے فضول خرچی سے پرہیز اور ملکی وسائل سے صحیح استفادے کے سلسلے میں سال کی اسی پہلی تقریر میں چند مطالب عرض کئے تھے، لوگوں کو وہ باتیں یاد ہوں گی۔ میں ملک کے حکام سے تاکید کرتا ہوں کہ ملک کی اقتصادی ترقی میں ملکی وسائل سے صحیح استفادے کا کتنا اہم کردار ہے؟! آمدنی میں فاصلہ، معاشرے کے مختلف حصوں کے درمیان اقتصادی شگاف توجہ طلب ایشو ہے۔ یہ فاصلے اور یہ شگاف ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہیں۔ اسلام اس کو پسند نہیں کرتا؛ اس حد تک ( یہ فاصلے ختم ہوجائیں) کہ جس کا پانچویں منصوبے میں تعین کیا گیا ہے۔
بیروزگاری کی شرح میں کمی اور روزگار میں اضافہ ملک کے ان بنیادی مسائل میں سے ہیں جو بہت زيادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اسی طرح نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں اضافہ اور پرائیویٹ سیکٹر کی مدد کہ وہ ملک کے اقتصادی شعبے میں سرمایہ کاری کرے ملک کے اہم اور اساسی مسائل میں سے ہے۔ چنانچہ اس سلسلے کے اہم کاموں میں سے ایک کو آپریٹئو ادارے کھولنا بھی ہے۔ کیونکہ ان کے ذریعے بڑے سرمائے اکٹھا ہوتے ہیں اور ان سے ملک کے اہم اقتصادی مسائل میں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے اور اہم مشکلات حل ہوسکتی ہیں ۔ حکومت یہ کام انجام دے سکتی ہے ( اس کے لئے ) قانونی طور پر فضا تیار کرنا چاہئے اور اس کا مطلب ہے کام کے نشونما کی حمایت و پشتپناہی۔

بنیادی ضرورتوں کی اشیاء کے سلسلے میں فضول خرچی سے پرہیز منجملہ پانی کے استعمال میں اسراف سے پرہیز کیا جائے کیونکہ آج ہمارے ملک میں پانی جو استعمال ہو رہا ہے اس کا نوے فی صدی پانی زراعت کے شعبے میں مصرف ہو رہا ہے اور حکومت الہی توفیق کے تحت اگر کھیتوں ( اور باغوں ) کی سینچائی کے شعبے میں مروجہ طریقوں کی اصلاح کرے اور یہ نوے فی صدی سے دس فی صدی کی بھی بچت ہو جائے تو آپ دیکھیں گے کہ کتنی بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے؟! زرعی شعبوں کے علاوہ دوسرے تمام شعبوں میں مثلا گھریلو استعمال میں، صنعتوں میں اور دوسرے شعبوں میں جہاں پانی کی ضرورت پڑتی ہے ہم صرف اپنے ملک کا دس فی صدی پانی صرف کر رہے ہیں۔ اب اگر زرعی شعبے میں دس فی صدی پانی کی بچت ہو جائے تو دیکھئےگا کیا اتفاق پیش آتا ہے۔ در حقیقت زراعت کے علاوہ دوسرے تمام شعبوں میں پانی کی افادیت کے لئے دو برابر مواقع فراہم ہو جائيں گے اور یہ بہت ہی اہم چیز ہے اور بڑی قیمت رکھتی ہے۔
اقتصاد میں عوام کی براہ راست مشارکت لازمی ہے۔ اس کے لئے توانائي کی ضرورت ہے، اطلاعات کی فراہمی لازم ہے، عوام کی اس سلسلے میں، حکام کو مدد کرنا چاہئے۔ مجھے امید ہے انشاء اللہ اس مہم میں روز بروز فروغ و ترقی پیدا ہوگي ، یقینا اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ کا اہم کردار ہے۔ ریڈیو اور ٹیلیویژن اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لوگوں کو آگاہی عطا کر سکتے ہیں۔ حکومت کو بھی فعال رویہ اپنانا چاہئے تا کہ انشاءاللہ اقتصاد کو فروغ و ترقی کی طرف آگےبڑھایا جا سکے۔
اب اگر ہم ملک کے اندر سنہ تیرہ سو نوے ہجری شمسی میں یہ عظیم اقتصادی مہم شروع کرنا چاہتے ہیں تو اس کے اپنے کچھ تقاضے بھی ہیں۔ میں ان تقاضوں کو ایک ایک کرکے ذکر کروں گا۔ سب سے پہلی چیز جو ضروری ہے وہ ہے مجاہدانہ جذبہ۔ اوائل انقلاب سے تاحال ہماری قوم جب بھی مجاہدانہ جذبے کے ساتھ وارد میدان ہوئی ہے، کامیابی اس کا مقدر بنی ہے۔ اس کا مشاہدہ ہم نے مقدس دفاع کے دوران کیا، تعمیراتی جہاد ( ملک کی تعمیر نو) کے دوران کیا، آج علمی و سائنسی تحریک میں یہی چیز ہم دیکھ رہے ہیں۔ اگر ہم مختلف شعبوں میں مجاہدانہ جذبے کے ساتھ کام کریں یعنی خوشنودی پروردگار کے لئے پوری سنجیدگی اور تندہی سے کام کریں صرف سر سے فریضے کا بوجھ اتارنے کے لئے نہیں، تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی نہ کریں۔
دوسری چیز ہے معاشرے میں جذبہ ایمانی و دینداری اور روحانیت و معنویت کو فروغ دینا۔ میرے عزیزو! یہ چیز آپ سب کے پیش نظر رہے کہ معاشرے میں دینداری، ہمارے نوجوانوں کی دینداری، دنیوی امور میں بھی قوم اور معاشرے کی مددگار بنتی ہے۔ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ دینداری کا اثر صرف مساجد میں اعتکاف کے ایام یا شب جمعہ پڑھی جانے والی دعائے کمیل تک محدود رہتا ہے۔ اگر کسی قوم کے نوجوان دینداری کے زیور سے آراستہ ہو جائیں تو لا ابالی پنے سے نجات حاصل کر لیں گے، نشے کی لت میں نہیں پڑیں گے، ایسی علتوں سے دور رہیں گے جو نوجوانوں کو زمیں بوس کر دیتی ہیں، ان کی صلاحیتیں متحرک ہو جائیں گی، وہ کام کریں گے، محنت کریں گے۔ علم و دانش کے شعبے میں، سماجی سرگرمیوں کے میدان میں، سیاسی سرگرمیوں کے میدان میں ملک ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھے گا۔ معاشی میدان میں بھی اسی طرح روحانیت و دینداری کے جذبے کا بڑا اہم کردار ہے۔
ایک اور شرط یہ ہے کہ ملک غیر اہم اور فروعی باتوں میں نہ الجھے۔ بسا اوقات ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ ملک کو ایک بنیادی مسئلہ در پیش ہے، چنانچہ حالات کا تقاضا یہ ہے کہ سارے افراد اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے کمر ہمت باندھیں، اسے ملک کے سب سے مرکزی مسئلے کے طور پر دیکھیں، لیکن یکبارگی کسی گوشے سے کوئی آواز بلند ہوتی ہے اور ایک فروعی اور جزوی مسئلہ کو طول دیا جانے لگتا ہے اور تمام اذہان اسی کی طرف مرکوز ہو جاتے ہیں۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی کارواں یا کوئی ریل گاڑی کسی اہم سفر پر رواں دواں ہے۔ اسے کسی خاص منزل پر پہنچنا ہے۔ اچانک بیچ راستے میں، بیابان میں سب کی توجہات کسی معمولی چیز کی طرف موڑ دی جائیں اور سفر وہیں ختم جائے۔ فروعی باتوں کو سد راہ نہیں بننے دینا چاہئے۔ الحمد للہ ہمارے عوام کے اندر مسائل کے تجزئے کی صلاحیت موجود ہے، وہ با شعور ہیں، بیدار ہیں، وہ فروعی اور بنیادی باتوں کے فرق کو سمجھ سکتے ہیں۔ یہ خیال رکھا جانا چاہئے کہ فروعی باتیں رائے عامہ کی توجہ کا مرکز نہ بنیں۔
ایک اور اہم شرط ہے قومی اتحاد و یکجہتی کی حفاظت۔ یہ اتحاد اور ہم خیالی جو عوام کے اندر اور حکام و عوام کے مابین موجود ہے، عوام الناس اپنے حکام سے محبت کرتے ہیں، ان پر اعتماد کرتے ہیں، ان کی مدد کے لئے آمادہ رہتے ہیں، ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، خود عوام کے اندر بھی اتحاد و یگانگت کا ماحول ہے، یہ رشتہ اسی طرح قائم رہے اور روز بروز زیادہ سے زیادہ مضبوط ہو۔ ملت ایران کے دشمنوں کی ایک اہم سازش یہ رہی ہے کہ اندرونی خلیج اور تفرقہ پیدا کیا جائے، قومیت کے نام پر، مذہب کے نام پر، سیاسی نظریات کے نام پر، گروہ بندی کے نام پر اور دوسری متعدد باتوں کے نام پر۔ تو اتحاد کی حفاظت کرنا چاہئے۔ الحمد للہ ہماری قوم بیدار ہے۔ وہ تمام افراد جنہیں اپنے ملک سے لگاؤ ہے، دینی جمہوری نظام سے جو آج ملت ایران کا طرہ امتیاز ہے، انس و محبت ہے، انہیں چاہئے کہ آپس میں ہم آہنگی اور یکجہتی قائم رکھیں۔ یہ ذمہ داری حکام کی بھی ہے، انہیں بھی چاہئے کہ ایک دوسرے سے اگر کوئی گلہ شکوہ بھی ہے اور یہ شکوہ بجا بھی ہے تو بھی اسے عوامی سطح پر نہ اٹھائیں! یہ قومی اتحاد پر ضرب لگانے کی مانند ہے۔ اس کا خیال سب کو رکھنا چاہئے۔ میں ملک کے ذمہ داران کو پوری سنجیدگی سے یہ انتباہ دینا چاہتا ہوں۔ بعید از امکان نہیں کہ حکام کے درمیان ایک دوسرے سے کچھ شکایتیں ہوں، یہ چیز ہمیشہ رہی ہے، ہمارا تو اوائل انقلاب سے ہی ملکی امور سے سروکار رہا ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ کبھی مجریہ کو مقننہ سے کچھ شکایات ہیں تو کبھی مقننہ کو عدلیہ کے تعلق سے کچھ اعتراضات ہیں اور کبھی عدلیہ کو مجریہ سے عدم اتفاق ہے۔ یہ چیز فطری بھی ہے۔ شکایتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ شکایت بجا اور درست بھی ہو لیکن بہرحال اسے عوامی سطح پر نہیں لانا چاہئے۔ عوام الناس میں اضطراب اور مایوسی نہیں پھیلانا چاہئے۔ مسائل کو آپس میں ہی حل کر لینا چاہئے۔ دنیا کا بڑا سے بڑا مسئلہ بھی گفت و شنید سے حل کیا جا سکتا ہے تو جزوی مسائل کا حل کون سی بڑی بات ہے؟! بہرحال (تینوں) محکموں کا باہمی اتفاق اور یکجہتی اور آپسی ہم آہنگی بہت اہم ہے۔
میں ایک اور نکتے کی بھی یاددہانی کرانا چاہوں گا۔ ہر سال کے لئے ہم ایک نعرے کا تعین کرتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ تہران اور دیگر شہروں کے در و دیوار ایسے بینروں اور ہورڈنگ سے رنگین ہو گئے جن پر یہ نعرہ درج ہے۔ یہ چیز بے سود ہے۔ اس پر اچھا خاصا بجٹ صرف ہو جاتا ہے۔ اس کی کیا ضرورت ہے؟ حکام اور عوام سے میری یہ توقع ہوتی ہے کہ اس نعرے کو سنیں اور تیقن کے ساتھ اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ بینر اور ہورڈنگ تیار کرنے، انہیں در و دیوار پر چسپاں و آویزاں کرنے، تصاویر لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اس پر کوئی خرچ نہ آئے تب بھی یہ ایک غیر ضروری چیز ہے اور اگر اس پر خرچ آ رہا ہے تب تو اس میں (شرعی لحاظ سے) اشکال بھی ہے۔ ایسے خرچیلے کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
میں نے معیشت کو محور و مرکز قرار دینے کی بات کہی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دیگر شعبوں سے غافل رہا جائے۔ دوسرے میدانوں میں بھی، خاص طور پر سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں، جواں سال سائنسدانوں کی مدد کی جانی چاہئے، ان پر اعتماد کیا جانا چاہئے تاکہ وہ بڑے کام پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں۔

اور اب علاقے کے مسائل! علاقے میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات، مصر کے واقعات، تیونس کے واقعات، لیبیا کے تغیرات، بحرین کی تبدیلیاں۔ یہ انتہائی اہم واقعات ہیں۔ اس اسلامی اور عرب خطے میں بڑی بنیادی قسم کی تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ یہ امت مسلمہ کی بیداری کی نوید ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران دسیوں سال سے جو نعرہ بلند کرتا آیا ہے، آج ان ممالک کے اندر متن زندگی میں اس کے اثرات عملی شکل میں نظر آنے لگے ہیں۔
ان تغیرات کی دو اہم خصوصیتیں ہیں۔ ایک ہے عوام الناس کی براہ راست موجودگی اور دوسری خصوصیت ہے ان تحریکوں کی دینی ماہیت۔ یہ دونوں ہی بنیادی عناصر ہیں۔ عوام کا براہ راست میدان میں آنا بالکل وہی چیز ہے جو اسلامی انقلاب کے سلسلے میں رونما ہوئی۔ پارٹیاں، بیوکریٹس، فلک بوس ٹاوروں کے مکیں اور ذہنی جولان گاہوں کے شہ سوار کچھ بھی نہ کر سکے۔ ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کا معجزہ یہ تھا کہ آپ عوام الناس کو میدان میں لے آئے۔ جب عوام الناس میدان میں اتر پڑے، دل و جان سے بھرپور ارادے اور بلند ہمتی کے ساتھ وارد عمل ہو گئے تو مشکلیں حل ہونے لگیں، بند دروازے کھلنے لگے۔ آج یہی عمل دوسرے ملکوں میں بھی دوہرایا جا رہا ہے۔ مصر اور تیونس میں عوام میدان میں اترے، ورنہ روشن خیال لوگ اور بلند و بالا عمارتوں کے باسی تو ہمیشہ موجود تھے، ہمیشہ باتیں کرتے تھے، بسا اوقات عوام کو بھی دعوت دیتے تھے لیکن کوئی ان کی بات پر خاص اعتنا نہیں کرتا تھا۔ اس دفعہ خود عوام میدان میں آئے ہیں اور ان کا رجحان و میلان بھی دینی ہے۔ نماز جمعہ ادا کی جا رہی ہے، نماز جماعت قائم ہو رہی ہے، زبانوں پر اللہ کا نام ہے، علمائے دین پیش پیش ہیں، مبلغین دین اور بعض ممالک میں جدید دینی فکر کے بانی منظر عام پر ہیں۔ یہ لوگ میدان میں آئے تو عوام نے بھی ان کی تقلید کی۔ اس قضیئے کی اہم خصوصیت یہی ہے۔ یہ لوگ کیوں میدان میں آئے؟ جو چیز انہیں میدان میں لائی وہ نمایاں طور پر ان کی عزت نفس اور انسانی وقار تھا۔ مصر میں، تیونس میں اور دیگر ممالک میں عوام کی غیرت و حمیت کو ان ظالم حکام نے کچل کے رکھ دیا۔ آپ ذرا سوچئے! مصر کے عوام کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے ملک کی باگڈور جس کے ہاتھ میں ہے وہ اسرائیل کی نمائندگی میں پست ترین حرکتیں اور جرائم انجام دے رہا ہے۔ غزہ کی ناکہ بندی کے معاملے میں اگر حسنی مبارک نے اسرائیل سے تعاون نہ کیا ہوتا تو اسرائیل غزہ پر اس طرح دباؤ ڈال پاتا نہ ہی ان بھیانک جرائم کو انجام دے سکتا تھا۔ حسنی مبارک سامنے آ گیا، اس نے مدد کی، غزہ سے مصر آنے جانے کا راستہ بند کر دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ غزہ کے عوام نے زمین دوز سرنگیں بنا لی ہیں اور ان کے ذریعے آمد و رفت ہو رہی ہے تو غزہ کے مظلوم عوام کا یہ راستہ بھی بند کرنے کے لئے تیس میٹر اونچی فولادی دیواریں بنائی گئیں اور زمین کے اندر ان دیواروں کے ذریعے سرنگوں کو بند کر دیا گیا۔ یہ سارے کام حسنی مبارک نے کئے۔ ظاہر ہے، مصر کے عوام یہ سب دیکھ رہے تھے، اس سے ان کی غیرت و حمیت کو ٹھیس پہنچی۔ دوسرے ممالک میں بھی اس طرح کے کچھ واقعات پیش آئے۔ مثلا لیبیا میں قذافی اپنے اقتدار کے ابتدائی برسوں میں مغرب مخالف موقف کا حامل تھا لیکن حالیہ برسوں میں اس نے مغرب کی بہت بڑی خدمت کی۔ ان مغربی ممالک نے بھی دیکھا کہ ایک گڈر بھبکی سے اس نے اپنے تمام ایٹمی وسائل جمع کرکے ایک سمندری جہاز پر لادا اور مغرب والوں کے حوالے کر دیا کہ لے جائیے! اب آپ غور کیجئے کہ ہماری قوم کس پوزیشن میں ہے اور وہ کس حالت کو پہنچ گئے تھے۔ ہماری قوم نے دیکھا کہ امریکہ کی سرکردگی میں پوری دنیا ایران کی ایٹمی پیشرفت کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو گئی، پابندیاں عائد کیں، تنازعہ کھڑا کیا، فوجی دھمکیاں دیں، دھمکی دی کہ حملہ کر دیں گے، ایسا کر دیں گے، ویسا کر دیں گے۔ لیکن ملک کے حکام نے تمام تر دشمنی کا سامنا کیا اور اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کے بجائے ہر سال اپنے ایٹمی وسائل میں اضافہ کیا۔ لیبیا میں عوام نے دیکھا کہ ان کے ملک کا حاکم حکم دے رہا ہے کہ جو بھی وسائل تھے انہیں مغربی ممالک کی دھمکیوں سے گھبراکر یا بقول ان کے ترغیبات سے متاثر ہوکر ختم کر دیا۔ جیسے کسی بچے کے منہ میں چاکلیٹ رکھ دی جاتی ہے اسی طرح اسے بھی کچھ دے دیا اور روانہ ہو گئے! ظاہر ہے کہ عوام تو اسے دیکھ رہے ہیں اور ان کا دل خون ہو رہا ہے، ان کی غیرت مجروح ہو رہی ہے۔ ان تمام ملکوں میں جہاں عوامی تحریکیں چل رہی ہیں یہ قضیہ دیکھنے میں آیا ہے۔
امریکیوں نے کیا موقف اختیار کیا؟ یہ سوال ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ ابتدا میں تو امریکی ان واقعات پر دم بخود رہ گئے، خالی الذہنی کی کیفیت پیدا ہو گئی، ان کی سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے، انہیں یقین ہی نہیں ہوا۔ جب یہ واقعات رونما ہوتے چلے گئے تو چونکہ وہ ان واقعات کا صحیح تجزیہ نہیں کر پائے تھے اور انہیں عوام کی شناخت نہیں تھی اس لئے متضاد باتیں کرنے لگے۔ ان ملکوں اور دیگر ممالک کے سلسلے میں امریکہ ڈکٹیٹروں کی حمایت و پشت پناہی کرتا دکھائی دیا ہے۔ آخری لمحے تک جتنا ممکن تھا انہوں نے حسنی مبارک کی حمایت کی۔ جب دیکھا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا تو اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا۔ یہ امریکہ کی غلامی کرنے والے حاکموں کے لئے درس عبرت ہے کہ جب ان کی افادیت ختم ہو جاتی ہے اور ان کے استعمال کی مدت ختم ہو جاتی ہے تو یہ مغربی ممالک انہیں کسی بوسیدہ کپڑے کی طرح دور پھینک دیتے ہیں اور پھر انہیں مڑکر دیکھتے بھی نہیں! انہوں نے جب تک ممکن تھا ڈکٹیٹر کی حمایت کی۔
مغرب اور امریکہ کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ واقعی ناقابل تحمل تھا اور ہے۔ امریکہ کی مشرق وسطی اسٹریٹیجی کے لئے مصر ایک اہم ستون کا درجہ رکھتا تھا، انہوں نے اپنی اس اسٹریٹیجی پر بڑا بھروسہ کیا تھا۔ وہ اس ستون کو اپنے مفادات کے مطابق قائم نہیں رکھ سکے۔ قومیں غالب آ گئيں۔ امریکیوں نے اب یہ کوشش کی کہ اسی سابقہ نظام کے بنیادی ڈھانچے کو برقرار رکھیں۔ یہ مغربی اور امریکی حربے اور چالیں ہیں۔ انتہائی موذیانہ، خباثت آمیز اور ساتھ ہی بے حد سطحی۔ اگر قومیں ہوشیار ہوں تو ان حربوں کی حقیقت جان سکتی ہیں، انہیں ناکام بنا سکتی ہیں۔ تیونس میں بن علی اور مصر میں حسنی مبارک سے ہاتھ دھو لینے کے بعد امریکیوں نے کوشش کی کہ سابقہ نطام کا ڈھانچہ قائم رہے۔ افراد بدل جائیں لیکن ڈھانچہ وہی رہے۔ اسی لئے انہوں نے بڑے جتن کئے کہ کم سے کم ایک وزیر اعظم باقی رہے لیکن قوموں کا احتجاج جاری رہا اور انہوں نے اس حربے کو بھی ناکام بناتے ہوئے ان حکومتوں کو گرا دیا۔ توفیق خداوندی سے، لطف الہی سے اس علاقے میں امریکہ کی شکستوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
جب ان ممالک میں ان کے مہرے پٹ گئے تو انہوں نے دو نئی چالیں چلیں۔ ایک موقع پرستی اور دوسری نظیر تراشی۔ موقع پرستی کی چال سے ان انقلابوں کو ہائی جیک کرنے یعنی عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی۔ عوام سے اظہار ہمدردی کیا اور اپنے افراد کو دوبارہ اقتدار میں پہنچانے کی کوشش کی۔ اس میں بھی انہیں ناکامی ہی ہاتھ لگی۔ دوسری چال تھی نظیر تراشی کی۔ نظیر تراشی سے مراد یہ تاثر دینے کی کوشش ہے کہ جو کـچھ مصر میں، تیونس میں، لیبیا میں اور دیگر ممالک میں رونما ہوا ہے وہی ایران میں بھی، دینی جمہوریت والے ایران میں بھی، قوم کی مرضی سے چلنے والے ایران میں بھی رونما ہو رہا ہے! ملک کے اندر ان کے مہروں نے، ان فرومایہ، خواہشات نفسانی کے اسیر پست لوگوں نے یہ کام کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے یہاں مضحکہ خیز انداز میں نقل اتارنے کی کوشش کی لیکن یہاں ایرانی عوام نے زناٹے دار طمانچہ رسید کر دیا۔ ( قائد انقلاب اسلامی کے اس جملے پرحاضرین نے منافق مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے) حقیقی معنی میں منافق امریکہ ہے۔ حقیقی منافقت تو وہ عمل ہے جو امریکی انجام دے رہے ہیں، قوموں کی حمایت کے بلند بانگ دعوے۔ مصر کے بارے میں منافقانہ چال چلتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم عوام کے حامی ہیں، وہ سراسر جھوٹ بول رہے ہیں۔ انہوں نے قوم دشمن شخص کے ساتھ آخری لمحے تک بھرپور تعاون کیا۔ تیونس کے بارے میں بھی من و عن یہی باتیں کر رہے ہیں، کہتے ہیں کہ عوام کے طرفدار ہیں۔ ہمارے عزیز عوام کو بھی امریکی صدر نے یہ پیغام دیا ہے کہ ہم آپ کے خیر خواہ ہیں! دعوے کرتے ہیں کہ ہم ڈکٹیٹروں کے مخالف اور قوموں کے حمایتی ہیں۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ یہ نہ فقط یہ کہ دوسری قوموں سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے عوام پر بھی کوئي رحم نہیں کرتے۔ موجودہ امریکی صدر نے ملکی معیشت کی انتہائی بدحالی اور شدید کساد بازاری کے باوجود ہزاروں ارب ڈالر امریکی عوام سے وصول کرکے بینکوں کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے، اسلحہ ساز کمپنیوں کو جانکنی کے عالم سے نکالنے کے لئے، تیل کی صنعت کو حالت نزع سے باہر لانے کے لئے یعنی بڑی بڑی کمپنیوں کے لئے خرچ کر دئے۔ عوام الناس کی جیب خالی کرکے کمپنیوں پر خرچ کر رہے ہیں، کمپنیوں کی جھولی بھر رہے ہیں، بینکوں کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ اپنے عوام پر بھی رحم کرنے کے تیار نہیں ہیں۔ اس وقت امریکی قوم انتہائی عمیق اور ہمہ گیر اقتصادی بحران میں بے بسی سے ہاتھ پیر مار رہی ہے۔ کوئی راہ نجات نظر نہیں آتی۔ گوانتانامو، عراق کے ابو غریب اور دیگر مقامات کے عقوبت خانوں کی بھی ایک الگ اور بڑی تفصیلی داستان ہے۔ یہ لوگ قوموں کے مزاج سے واقف نہیں ہیں، انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کیا موجودہ امریکی صدر کو اس کا ادراک ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ کیا انہیں علم ہے کہ ان کی پالیسیوں کے پس پردہ کون سے عناصر کارفرما ہیں یا وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر، بے خبر اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں؟ یہ چیز سمجھ میں نہیں آ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تہران کے آزادی اسکوائر پر جمع ہونے والے افراد وہی مصر کے التحریر اسکوائر پر جمع ہونے والے عوام ہیں۔ وہ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔ ہر سال بائیس بہمن ( مطابق گیارہ فروری، اسلامی انقلاب کی سالگرہ) کے دن یہی عوام جمع ہوتے ہیں اور ان کی زبانوں پر امریکہ مردہ باد کا نعرہ ہوتا ہے۔
علاقے کے واقعات کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف روز روشن کی طرح واضح ہے۔ ہمارا موقف قوموں کے دفاع اور ان کے حقوق کی حمایت پر مبنی ہے۔ ہم دنیا کے کسی بھی گوشے میں بسنے والی مسلمان اور مظلوم قوم کے حمایتی ہیں اور جابروں، استکباری طاقتوں، ڈکٹیٹروں، توسیع پسند اور لٹیرے عناصر کی، خواہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں ہوں، مخالفت کرتے ہیں۔ یہ ملت ایران اور اسلامی جمہوری نظام کا صریحی موقف ہے۔ یہی سیاست ہے، یہی دلی کیفیت ہے، یہی منطق ہے اور یہی بیان ہے، ہمارے عوام کا بھی اور ہمارے حکام کا بھی۔
دو بڑے اہم نکات اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ ایک لیبیا کا مسئلہ ہے اور دوسرا بحرین کا۔ لیبیا کے معاملے میں ہم، عوام کے خلاف حکومت نے جو رویہ اپنایا ہے، عوام کا قتل عام، عوام کی سرکوبی، شہروں پر بمباری، بے گناہ شہریوں کا قتل، اس کی بھی شدت سے مذمت کرتے ہیں اور امریکیوں کی مداخلت، امریکہ اور مغرب کی دخل اندازی کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ ان کے دعوے تو یہ ہیں کہ ہم لیبیا کےعوام کی مدد کے لئے لیبیا میں داخل ہوئے ہیں اور فوجی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ یہ دعوی بالکل قابل قبول نہیں ہے۔ وہ اگر واقعی لیبیا کے عوام کے خیر خواہ تھے، انہیں واقعی اگر لیبیا کے عوام سے ہمدردی تھی تو ایک مہینے سے لیبیا کے عوام پر بمباری ہو رہی ہے، آپ ان کی مدد کرتے، انہیں اسلحہ فراہم کرتے، وسائل مہیا کراتے، اینٹی ایئرکرافٹ دیتے! انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ ایک مہینے تک عوام کو قتل ہوتے دیکھا، اب مداخلت شروع کی ہے! اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ عوام کی مدد کے لئے نہیں آئے ہیں، آپ لیبیا کے تیل کے لالچ میں پڑے ہوئے ہیں، آپ لیبیا میں پیر جمانے کی کوشش کر رہے ہیں، آپ لیبیا کو اپنا اڈا بنانا چاہتے ہیں تاکہ لیبیا کی دونوں سرحدوں پر واقع مصر اور تیونس کی آئندہ کی انقلابی حکومتوں کی نگرانی کر سکیں۔ آپ کی نیت میں کھوٹ ہے۔ امریکہ کی سرکردگي میں مغربی ممالک نے یہ جو حرکت شروع کی ہے ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ جسے قوموں کے مفادات کی نگراں و پاسباں ہونا چاہئے، ان ممالک کی آلہ کار بن کر رہ گئی ہے، انہیں جس چیز کی بھی ضرورت پڑ جائے وہ فراہم کرتی ہے۔ یہ اقوام متحدہ کے لئے ایک کلنک ہے۔ لیبیا میں باہری طاقتوں کی مداخلت اور مغربی ممالک کی دخل اندازی قابل قبول نہیں ہے۔ اگر وہ لیبیا کے عوام کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو عوام کی مدد کا راستہ کھلا ہوا ہے، عوام کی مدد کر سکتے ہیں، انہیں وسائل فراہم کر سکتے ہیں کہ وہ خود قذافی اور دوسروں سے اپنا حساب چکا لیں۔ آپ بن بلائے مہمان کی طرح بیچ میں کیوں کود پڑے؟
اور اب بحرین کا مسئلہ۔ ماہیت اور نوعیت کے لحاظ سے بحرین کا مسئلہ علاقے کے دیگر ممالک کی مانند ہے۔ یعنی مسئلہ بحرین مسئلہ مصر سے، مسئلہ تیونس سے اور لیبیا کے قضیئے سے ذرہ برابر بھی مختلف نہیں ہے۔ یہ بھی ایک قوم ہے جس پر ایسی حکومت مسلط ہے جو عوام کے حقوق کو در خور اعتنا نہیں سمجھتی۔ بحرین کے عوام اپنے قیام سے کون سے مطالبہ پورا کروانا چاہتے ہیں؟ ان کا سب سے بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ انتخابات کرائے جائیں، ہر شہری کو ایک ووٹ دینے کا حق حاصل ہو۔ کیا یہ کوئی بہت بڑا مطالبہ ہے؟ یہ بہت زیادہ توقع ہے؟ بحرین میں یوں تو بظاہر انتخابات ہوتے ہیں لیکن عوام کو یہ جمہوری حق حاصل نہیں ہے کہ ہر شخص ایک ووٹ ڈال سکے۔ ان کے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے۔ یہاں مغربی ممالک نے علاقے کے معاملات میں اپنا عمل دخل شروع کرنے کے لئے ایک بہانہ تلاش کر لیا۔ انہوں نے شیعہ سنی فرقہ واریت کی بات شروع کر دی۔ چونکہ بیچارے بحرین کے عوام شیعہ ہیں اس لئے کوئی ان کی حمایت کرنے کو تیار نہیں ہے! وہ ٹیلی ویزن چینل جو علاقے کے واقعات کی تمام تر تفصیلات نشر کرتے ہیں بحرین کے مسئلے میں مہر بلب بیٹھے ہیں، بحرین کے بے گناہ عوام کے قتل عام کی خبریں نشر کرنے کے روادار نہیں ہیں۔ خلیج فارس کے ممالک میں کچھ لوگ ایسے بھی سامنے آئے جن میں سیاستداں بھی ہیں اور نامہ نگار بھی، انہوں نے یہ اول جلول بکنا شروع کر دیا کہ بحرین کا مسئلہ شیعہ سنی جنگ کا مسئلہ ہے! کیسی شیعہ سنی جنگ؟! یہ تو ایک قوم کی صدائے احتجاج ہے اس ظلم کے خلاف جو اس پر روا رکھا جا رہا ہے، جیسا کہ تیونس میں ہوا، جیسا مصر میں ہوا، جیسا لیبیا میں ہوا، جیسا یمن میں ہوا۔ کوئی فرق نہیں ہے۔ امریکی بغلیں بجا رہے ہیں کہ علاقے میں اپنے تشہیراتی لاؤ‎‎ڈ اسپیکروں کے ذریعے مسئلہ بحرین کو شیعہ سنی اختلاف کا رنگ دے دیں گے اور اس طرح اس ملک کے مظلوم عوام کے لئے ممکنہ مدد اور حمایت کا راستہ بھی بند ہو جائے گا اور قضیئے کی ماہیت بدل کر رہ جائے گی۔ کہتے ہیں کہ ایران بحرین کے عوام کی پشت پناہی کیوں کر رہا ہے؟ ہم نے سب کی حمایت کی۔ ہم بتیس سال سے فلسطینی عوام کی حمایت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان بتیس برسوں میں کس قوم اور کس حکومت نے اس انداز سے فلسطینی عوام کی مدد و حمایت کی ہے؟ کیا فلسطینی عوام شیعہ ہیں؟ غزہ کے مسئلے میں ہمارے عوام نے کتنی محنت کی؟ ہمارے نوجوان ایئر پورٹ تک پہنچ گئے کہ غزہ جائیں! نکل پڑے تھے کہ غزہ جائیں اور اسرائیل کے خلاف جنگ کریں! انہیں لگ رہا تھا کہ راستہ کھلا ہوا ہے۔ لیکن راستہ بند تھا۔ جانا ممکن نہیں تھا۔ ہم نے انہیں روکا اور کہا کہ نہ جائیے! کہ کہیں بیچ راستے میں انہیں سرگرداں نہ ہونا پڑے کیونکہ ان کے لئے راستہ بند تھا۔ ہمارے عوام نے غزہ کے سلسلے میں، فلسطین کے سلسلے میں، مصر کے تعلق سے، تیونس کی نسبت اور ہر مسئلے میں اپنے جذبات کا برملا اظہار کیا۔ ان ممالک کے لوگ شیعہ تو نہیں ہیں۔ لہذا یہ مسئلہ شیعہ سنی کا مسئلہ نہیں ہے۔ بد خواہ اور کج فہم عناصر بحرین کے مسئلے کو شیعہ سنی اختلاف کا مسئلہ بناکر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بد قسمتی سے بعض ایسے افراد بھی جن کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ نیت کے برے نہیں ہیں وہ بھی اس جال میں پھنس گئے۔ اس درمیان جو خیر خواہ افراد ہیں میں ان سے کہنا چاہوں گا کہ اس مسئلے کو شیعہ سنی جنگ کا رنگ نہ دیجئے کیونکہ یہ حرکت امریکہ کی بہت بڑی خدمت ہے، یہ امت اسلامیہ کے دشمنوں کی بہت بڑی مدد ہے۔ استبدادی نظام کے خلاف ایک قوم کی تحریک کو شیعہ سنی تنازعے پر محمول کرنا امت اسلامی کے دشمنوں کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ شیعہ سنی کا جھگڑا یہاں نہیں ہے۔
ہم غزہ، فلسطین، تیونس، لیبیا، مصر، بحرین اور یمن کے مسئائل میں کسی امتیاز اور تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ جہاں بھی قوموں پر ظلم و زیادتی ہو رہی ہے اس کی مذمت کی جانی چاہئے۔ اسلامی نعرے کے ساتھ آزادی کے حصول کی سمت میں شروع ہونے والی ہر تحریک کے ہم حامی ہیں۔ امریکیوں کی بے شرمی کی حد یہ ہے کہ وہ بحرین کے دار الحکومت منامہ کی سڑکوں پر سعودی عرب حکومت کے ٹینکوں کی گشت کو مداخلت ماننے پر تیار نہیں ہیں لیکن جب ہمارے بزرگ علمائے کرام، خیر خواہ افراد کہتے ہیں کہ عوام کے قتل عام کا سلسلہ روکا جائے تو کہتے ہیں کہ آپ نے مداخلت کر دی! اسے مداخلت کہتے ہیں؟! ہم اگر کسی ظالم حکومت کو مخاطب کرکے اتنا کہہ دیں کہ آپ اپنے عوام کو قتل نہ کیجئے! تو یہ بہت بڑی مداخلت ہو گئی اور بحرین کی سڑکوں پر غیر ملکی ٹینک درانہ پھریں تو وہ مداخلت نہیں ہے! یہ امریکیوں اور علاقے میں ان کے حاشیہ برداروں کی بے شرمی کی انتہا ہے کہ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں، ایسے کام کر رہے ہیں، اس طرح کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ ہماری نظر میں سعودی عرب کی حکومت نے بہت بڑی غلطی کی ہے، اسے یہ کام نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس طرح علاقے میں وہ خود کو قابل نفرت بنا رہی ہے۔ امریکہ تو یہاں سے ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اگر اس علاقے میں اس کے خلاف نفرت کے جذبات پائے جائیں تو یہ امریکیوں کے لئے اتنی بڑی بات نہیں ہے لیکن سعودی عرب تو اسی علاقے میں آباد ہے۔ اگر قومیں اس سے نفرت کرنے لگیں، وہ قوموں کی نگاہ میں منفور ہو تو یہ اس کے لئے بہت بڑا خسارہ ہوگا۔ انہوں نے یہ بہت غلط قدم اٹھایا ہے۔ دوسرا بھی کوئی اگر یہ کام کرتا ہے تو بہت بڑی غلطی کا مرتکب ہوگا۔
میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ توفیق پروردگار سے علاقے میں ایک نئی تحریک شروع ہو گئی ہے، یہ قوموں کی تحریک ہے، یہ امت اسلامیہ کی تحریک ہے، اسلامی نعروں کے ساتھ آگے بڑھنے والی تحریک ہے، اسلامی اہداف و مقاصد کی جانب بڑھنے والی تحریک ہے۔ یہ قوموں کی عمومی بیداری کی نوید ہے اور اللہ تعالی کے وعدے کے مطابق اس تحریک کی فتح یقینی ہے۔ ملت ایران اس بات پر سربلند، نازاں اور شادماں ہے کہ اس نے یہ نیا راستہ چنا اور ثبات و استحکام کے ساتھ اس پر قائم رہی۔ آج کی نوجوان نسل نے اسلامی انقلاب کا زمانہ نہیں دیکھا ہے لیکن ان دنوں کے انقلابیوں سے یہ نسل اگر زیادہ پرعزم نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کے صدقے میں ہمارے ان عزیز نوجوانوں کی حفاظت فرما۔ پروردگارا! ہماری عزیز قوم پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ پروردگارا! اس قوم، اس تحریک، اسلام اور مسلمین کی خدمت کرنے والوں کی عزت و سربلندی میں روز بروز اضافہ فرما۔ پروردگارا! امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔ پروردگارا! محمد و آل محمد کے صدقے میں شہدا کی ارواح طیبہ اور ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو ہم سے خوش رکھ۔ تونے انہیں جو فیض و الطاف عنایت فرمائے ہیں ہمیں بھی ان سے بہرہ مند فرما۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌