تفصیلی خطاب حسب ذیل ہے؛
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلاۃ والسلام کی ولادت باسعادت کی تمام مسلمانوں، ایران کی عظیم قوم، تمام محبان اہلبیت علیھم السلام، آپ عزیز حاضرین خصوصا اس دن کے معزز مہمانوں، وہ مہمان جو غیرممالک سے تشریف لائے ہیں اور وہ عزیز مہمان بھی کہ جو ملک کے دور دراز علاقوں سے، بلوچستان اور دیگر علاقوں سے اس اجتماع میں موجود ہیں اور خاص طور پر شہداء کے محترم اہل خانہ، جنگی معذوروں اور (جنگی قیدی کی حیثیت سے ایک عرصہ گزارنے کے بعد) آزاد ہونے والے جنگي قیدیوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال اس عظیم دن کی برکت سے پوری امت اسلامی اور مسلمان معاشروں پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے گا۔
نبی اکرم (ص) کے مقدس وجود کے بارے میں پہلے یہ کہنا چاہوں گا کہ اس نورانی ہستی کی معرفت ہم جیسوں کے لیے میسر ہی نہیں ہے۔ اس معظم و مکرم وجود اور پوری تاریخ میں اس برترین انسانی مخلوق اور عالم ہستی میں عزیز ترین مخلوق کی حقیقت مادی پہلوؤں سے بالاتر ہے۔ انسان اپنی عقل تجربے اور حواس کے ذریعے ذہانت و فطانت، خردمندی اور تجربوں سے جو چیز حاصل کرتے ہیں اور کسی شخصیت کو اعلی و ارفع مقام و منزلت پر بٹھاتے ہیں؛ ایک کو اس سے اوپر اور پھر دوسرے کو اس سے اوپر، یہ عزیز مخلوق اور موجود اس سلسلۂ مدارج سے بالاتر ہے۔
اگر کوئی آیت، کوئی روایت اور کوئی شرعی تعلیمات موجود نہ بھی ہوتیں تو انسان دلائل اور نشانیوں سے سمجھ سکتا تھا۔ یہ معنی انتہائی اعلی و ارفع معنی ہے۔ جو ان معانی کو سمجھنے والے ہیں وہ اس نورانیت کا ادراک کر سکتے ہیں۔ ہم اسی ظاہری حواس اور اپنی محدودیت کے ساتھ اس عزیز اور عظیم مخلوق کو دیکھتے ہیں، پہچانتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں۔
انہی پہلوؤں میں کہ جنہیں تمام انسان سمجھ سکتے ہیں، اس عظیم الشان مخلوق کا کسی بھی عظیم انسان سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا آپ ملاحظہ فرمائیے، علی بن ابی طالب علیہ الصلوۃ والسلام کے مقدس وجود نے ماضی اور حال کی بہت سی عالم و فاضل شخصیات کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائي ہے اور انہوں نے آپ کو ایک عظیم شخصیت اور افسانوی شخصیت جیسا قرار دیا ہے لیکن یہی شخصیت عظمت کے ان پہلوؤں کے ساتھ، نبی اکرم(ص) کے مقدس وجود کے سامنے ایک شاگرد، ایک چھوٹا بچہ اور وہ شخص ہے کہ جو اس عظمت کے سامنے اپنی کوئي حیثیت نہیں سمجھتا۔ اس طرح آپ ملاحظہ کیجیے کہ نبی اکرم (ص) کے باعظمت وجود میں کہ جو بحر بیکراں کی مانند ہے، امیرالمؤمنین کی شخصیت گم ہے۔ اس سے اس عظمت کے پہلوؤں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
جو چیز ہماری آج کی دنیا سے تعلق رکھتی ہے اور وہ نکتہ کہ جس پر میں بار بار تاکید کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اسلامی فرقوں کے درمیان- کہ آج مسلمانوں کی بہت سی مشکلات اور مسائل ہیں اور ان کا ان کو سامنا ہے اور انہیں اپنے آپ کو ان سے باہر نکالنے کے لیے ہر وسیلہ اور ذریعہ استعمال کرنا چاہیے- ایک مسلمہ نکتہ موجود ہے کہ اس نکتے میں ان کے درمیان کوئي اختلاف نہیں ہے۔ حتی کہ توحید کے عقیدے میں بھی کہ جو متفق علیہ ہے، ممکن ہے کسی کے پاس کوئی تشریح اور بات ہو جسے دوسرے قبول نہ کرتے ہوں لیکن اس نکتے میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے اور یہ پیغمبر اکرم حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت ہے۔ یہ، اجتماع اور اتحاد کا ایک محور ہے اور اس پر کوشش کی جانی چاہیے۔ ہم نے پہلے بھی یہ کہا ہے، بعض باہمت لوگوں نے بھی کوشش کی ہے کہ اس بنیاد پر مسلمانوں کے فرقوں کے درمیان اتحاد پیدا ہو جائے۔ آج بھی وہ لوگ جو باہمت ہیں انہیں اس بنیاد پر بھرپور طریقے سے توجہ دینا چاہئے اور مسلمانوں کو اس نقطۂ وحدت کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔
اس مولود کی برکتوں کی مناسبت سے میں عالم اسلام سے متعلق مسائل کے بارے میں ایک جملہ عرض کروں گا اور وہ جملہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی صورت حال کو سمجھیں اور جانیں اور محسوس کریں کہ دشمنان اسلام نے مسلمانوں کے مستقبل کے لیے کتنے دہشت ناک خواب دیکھے ہیں! انہوں نے اب تک جو کچھ انجام دیا ہے اس کے علاوہ صرف صورت حال کی اسی معرفت کو، بیدار انسانوں کو علاج کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔ علاج ایک سادہ اور معمولی امر نہیں ہے؛ لیکن دو تین بنیادی نکتوں کا حامل ہے۔
پہلے درجے میں مسلمانوں کی وحدت و اتحاد کا مسئلہ ہے۔ اتحاد مسلمین کے اس معاملے کو تمام اسلامی فرقوں کو - چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی، چاہے اہل سنت کے مختلف مکاتب فکر ہوں یا شیعہ کے- سنجیدگي سے لینا چاہیے۔ آج مسلمانوں کو وحدت اسلامی کے مسئلے کو سنجیدگي سے لینا چاہیے۔ وحدت اسلامی کا معنی بھی معلوم ہے۔ مقصود یہ نہیں ہے کہ تمام مذاہب ایک مذہب میں ضم ہو جائيں۔ بعض لوگ اتحاد مسلمین کو حاصل کرنے کے لیے مذاہب کی نفی کرتے ہیں۔ مذاہب کی نفی مسئلے کا حل نہیں ہے؛ مذاہب کا اثبات مشکلات اور مسائل کو حل کرتا ہے۔ یہی جو مذاہب ہیں، اپنے دائرہ کار میں اپنے معمول کے کام انجام دیں لیکن ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات اچھے رکھیں۔
میں اپنی آنکھوں سے سازشی ہاتھوں کو دیکھ رہا ہوں کہ خاص طور پر گزشتہ برسوں کے دوران- اس حملے کے بعد جو انہوں نے انقلاب کی کامیابی کے بعد شروع کیا؛ لیکن اسلامی انقلاب اور ہمارے عظیم الشان رہبر اور بزرگوار امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے ٹھوس اقدام سے یہ ناکام ہوا- وہ مسلمانوں اور مذاہب کے درمیان اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کے لیے کوشش کرتے رہے ہیں۔ دشمن ہمیشہ سے مسلمانوں کے اتحاد کے مخالف رہے ہیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے لیکن آج جب کہ اسلام کا عظیم پرچم دنیا کے اس علاقے میں عظمت و عزت کے ساتھ لہرا رہا ہے تو وہ ہمیشہ سے زیادہ وحدت اسلامی سے ڈر رہے ہیں۔
میرے عزیزو! اس بڑی دنیا میں اسلامی جمہوریہ کی موجودگی، اس طاقتور حکومت، اس مضبوط اور آزاد و خودمختار نظام، اس شجاع سربلند فعال کارآمد اور مؤمن قوم، اس بڑے ملک اور اس انقلاب کی موجودگي نے کہ جس نے آج تک اکثر میدانوں میں اپنی کامیابی ثابت کی ہے اور مکمل صورت میں اپنی قومی وحدت کا تحفظ کیا ہے، دشمنان اسلام کو سخت تشویش میں ڈال دیا ہے، وہ ڈر رہے ہیں؛ کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ انقلاب کشش رکھتا ہے۔ دنیا میں جہاں پر بھی کوئي مسلمان ہے، جب وہ سر اٹھاتا ہے اور اس کی نظر اس لہراتے ہوئے پرچم پر پڑتی ہے تو اس میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور اس میں اسلامی جذبات و احساسات زندہ ہو جاتے ہیں۔ آپ دیکھیے! اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اسلامی جذبات و احساسات اور تحریکوں اور اسلامی علاقے میں مسلمان گروہوں کی کامیابیوں میں کتنا اضافہ ہو گیا ہے! آپ شمالی افریقہ اور الجزائر سے لے کر یہاں تک آئیے اور مشرق کی طرف جائیے، یہ اسی بلند اور اونچے پرچم کی برکت سے ہے۔ اسلامی معاشروں میں خودمختاری کا احساس، اسلامی تشخص کا احساس اور شخصیت کا احساس زندہ ہو گيا اور اسلام اور مسلمانوں کے دشمن خوف زدہ ہو گئے ہیں۔ جنہوں نے مسلمانوں کو کمزور، مردہ دل اور تشخص سے عاری کرنے کے لیے دسیوں سال کوشش کی، انہوں نے اچانک دیکھا کہ ان کی تمام تر محنتوں پر پانی پھر گيا اور ان کے تمام منصوبے ناکام ہو گئے ہیں۔ اس اسلامی حکومت کے قیام نے مسلمانوں کو عزت کا احساس دیا۔ دشمنوں نے مختلف طریقوں سے ایران میں اسلامی حکومت اور دنیا کے مختلف علاقوں میں اسلامی معاشروں کے درمیان تعلق اور رابطے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ کام اب بھی کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ مذہبی اختلاف ہے، شیعہ و سنی لڑائی، شیعہ و سنی جھگڑا، مذہبی اختلاف کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، کہ وہ شیعہ ہیں اور ان کا تم سے کوئي مطلب نہیں ہے، جب کہ ہم نے یہاں اسلام و قرآن کی حکومت اور پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک نام کا پرچم بلند کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے کہ جس کے تمام مسلمان مشتاق اور عاشق ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے۔ ایک اور راستہ یہ ہے کہ وہ دہشت گردی وغیرہ کی تہمت اور الزام لگا کر اسلامی جمہوریہ، اس عظیم قوم اور اس معنوی، اخلاقی اور اقدار کی پابند حکومت کو دنیا کی نظروں سے گرا دیں۔
یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ انسانی حقوق کی تہمت، انسانی حقوق کی مخالفت، انسانی حقوق کی پامالی، قتل و غارت گری وغیرہ میں ملوث ہونے کی باتیں کرتے ہیں تو یہ اس لیے ہے کہ اسے دنیا میں پھیلائیں! وہ خود بھی جانتے ہیں کہ جھوٹ ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ دنیا کی رائے عامہ اسلامی جمہوری نظام سے دور ہو جائے۔ یہ وہی شگاف پیدا کرنے کے لیے ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ اسلام و قرآن کے اس عظیم مرکز اور پوری دنیا میں مسلمان معاشروں کے درمیان تعلق اور باہمی کشش پیدا نہ ہو۔ خداوند متعال ان کے دھوکے اور فریب کو باطل کرتا ہے: > ، > ان چند برسوں کے دوران انہوں نے جو بھی کام کیا، خداوند متعال نے اس کو باطل کیا ہے۔ لیکن بہرحال دشمن رکاوٹیں کھڑی کرتا اور مشکلات و مسائل پیدا کرتا ہے؛ کئی جگہ پر رسوا ہوتا ہے لیکن باز نہیں آتا! یہاں پر اتحاد، وحدت اسلام اور اسلامی مفاہمت معنی و مفہوم پیدا کرتی ہے۔ دیکھیے یہ مسئلہ کتنا اہم ہے! دیکھیے کہ یہ مسئلہ عالم اسلام کے مستقبل کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے! یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جسے آسانی سے نظرانداز کر دیا جائے۔ سب کو چاہیے کہ وہ خود کو اس کلام کا مخاطب سمجھیں۔ میں سب سے کہتا ہوں؛ اہل سنت سے بھی اور شیعہ سے بھی، مصنفین سے بھی اور شعرا سے بھی اور ان لوگوں سے بھی کہ جنہیں عوامی مقبولیت حاصل ہے۔ وہ بات کرتے ہیں تو اس کو سننے والے موجود ہیں۔ سب کو یہ حقیقت جان لینی چاہیے اور دشمن کو پہچان لینا چاہیے۔ محتاط رہیے کہ دشمن آپ کے مورچے میں نہ گھس آئے۔ محتاط رہیے کہ آپ دشمن پر حملہ کرنے کے بجائے خود پر حملہ نہ کر بیٹھیں۔ حالات سے آگاہ رہیں؛ یعنی دشمن دوست اور مقابلے کے میدان کو پہچانیے۔ یہ بہت ہی اہم ہے۔ میرا خطاب سب سے ہے۔ شیعہ و سنی کی بات نہیں ہے، کوئي فرق نہیں ہے، ایرانی اور غیرایرانی کی بات نہیں ہے۔ ایران میں خوش قسمتی سے ہمارا اہل سنت بھائيوں کے ساتھ کوئي تنازعہ نہیں ہے۔ انقلاب کے بعد کے سترہ اٹھارہ برسوں کے دوران ہم نے ہمیشہ پیار محبت اور بھائی چارے سے زندگي گزاری ہے؛ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ہمارے بھائيوں نے ان علاقوں میں کہ جہاں اہل سنت کی زیادہ آبادی ہے، اسلامی نظام اور حکومت کی زیادہ مدد کی ہے۔ مسئلہ عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔ مسئلہ اسلام کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔
میرے عزیزو! آج حکومتیں، ممالک، عالمی ادارے اور تنظیمیں زندگي کی جدوجہد کے میدان میں خود کو کامیاب کرنے کے لیے اپنے تمام وسائل، جغرافیائي وسائل، تاریخی وسائل اور قومی وسائل سے استفادہ کرتے ہیں تو مسلمان پروردگار کی طرف سے عطا کردہ اس عظیم امکان اور وسیلہ سے اسفادہ کیوں نہیں کرتے؟ آج مسلمانوں کا جغرافیائی علاقہ، دنیا کے اہم ترین علاقوں میں سے ہے۔ ان کے ممالک قدرتی دولت کے لحاظ سے دنیا کے دولت مند ترین ملکوں میں شامل ہیں۔ آج یورپ کے لیے ایشیا کا دروازہ، ایشیا اور افریقہ کے لیے یورپ کا دروازہ، اور یورپ اور ایشیا کے لیے افریقہ کا دروازہ مسلمانوں کے پاس ہے۔ یہ اسٹریٹجک علاقہ اور بابرکت سرزمین کہ جو مسلمانوں کے پاس ہے، آج تیل و گيس اور اس جیسے وسائل سے مالا مال ہے کہ جس کی انسان کو اپنے تمدن کے لیے ہرروز ضرورت ہے۔ ایک ارب اور کئی کروڑ افراد مسلمان ہیں یعنی دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے سے زیادہ۔ یہ ساری آبادی، ایسے علاقے میں وہ بھی اس علاقے کے قلب میں، یعنی ایران اسلامی میں کہ جو آج عالم اسلام کا قلب اور اصلی مرکزہے، پرچم اسلام بلند کیے جانے سے استفادہ کیوں نہ کرے؟ یہ ایک عظیم امکان اور وسیلہ مسلمانوں کے پاس ہے۔ سیاست سے دین کی جدائي کا وسوسہ، کہ ایک دن انگریزوں نے کہا، ایک دن امریکیوں نے اس کی ترویج کی اور ایک دن ان کے ایجنٹوں اور پٹھوؤں نے اس کا راگ الاپا، اس لیے ہے کہ مسلمان اس امکان و وسیلے اور اس پوزیشن کو بھول جائيں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ فریضہ خواص کا ہے، یعنی علما، روشن خیال افراد، شعرا، خطبا، صحافیوں اور عوامی حلقوں میں اثرورسوخ رکھنے والے افراد کا، یہ وہ لوگ ہیں کہ جن پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اب وقت آ پہنچا ہے کہ عالم اسلام خود کو پہچانے اور اسلام کو الہی صراط مستقیم اور راہ نجات کے طور پر منتخب کرے اور اس راستے میں مضبوطی سے قدم بڑھائے۔ اب وقت آ پہنچا ہے کہ عالم اسلام اپنے اتحاد کی حفاظت کرے اور مشترکہ دشمن کے مقابلے میں کہ تمام اسلامی گروہوں نے جس دشمن سے نقصان اٹھایا ہے- یعنی سامراج اور صیہونزم- متحد ہو کر ڈٹ جائیں، ایک ہی نعرے لگائیں، ایک ہی بات کہیں اور ایک ہی راستہ طے کریں۔ انشاءاللہ پروردرگار کی تائید اور حمایت بھی حاصل ہو گي اور آگے بڑھیں گے۔
ہمیں امید ہے کہ خداوند متعال مسلمانوں معاشروں کو بیدار کرے گا، اسلامی حکومتوں کو اپنے فرائض سے آشنا کرے گا۔ خدا ہم سب کو اس الہی صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے اور حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کے قلب مقدس کو مسلمان معاشروں کی طرف متوجہ فرمائے اور اس بزرگوار کی دعا تمام مسلمان گروہوں کے شامل حال قرار دے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1- طارق: 15 ، 16
2- آل عمران: 54