قائد انقلاب اسلامی نے کابینہ کے ارکان کو چار سالہ دور کے ہر دن کو فرائض منصبی کی ادائیگی کے سلسلے میں بھرپور طریقے سے استعمال کرنے کی سفارش کی۔ قائد انقلاب اسلامی نے کابینہ کے اہم کردار پر روشنی ڈالی اور طریق کار کے سلسلے میں اہم ہدایات دیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے سامراجی طاقتوں کی سازشوں اور منصوبوں سے نمٹنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جناب احمدی نژاد صاحب کے پر معنی خطاب پر ان کا شکر گزار ہوں۔ شہید رجائی اور شہید باہنر کو یاد کرنے کا یہ مناسب موقع ہے۔ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ یہ دونوں، اصولوں کے پابند اور اسلامی جمہوریہ کی قد آور شخصیات میں سے تھے۔ مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ خداوند عالم ان کی مغفرت کرے گا اور ان پر رحمتیں نازل کرے گا اور ہمیں اس بات کی توفیق دے گا کہ ہم ان کے راستے پر چلیں۔
نئی حکومت کےکام کی شروعات رجب و شعبان کے مبارک مہینے اور ذکر و عبادت کے ایام کے موقع پر ہو رہی ہے۔ یہ بہت اہم مناسبت ہے۔ اسے معمولی نہ سمجھیں اور خدا کے نام اور اس کے ذکر سے کام کا آغاز کریں۔ یہ عزم کر لیں کہ تمام حالات اور ان موقعوں پر جو خدا نے آپ کو عطا کئے ہیں، اپنے آپ کو، اپنے دلوں کو اور اپنے اعمال کو خداوند عالم کی مرضی کے خلاف نہيں جانے دیں گے۔ خدا سے رابطہ، عمل کی اصابت اور صراط مستقیم کی پائیداری کو یقینی بناتا ہے۔ اگر ہم اس راہ پر صحیح طریقے سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں، اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ظاہری چمک دمک اور زود گزر دل فریب چیزیں ہمیں راستے سے نہ بھٹکائيں اور ہم سیدھے طور پر اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہیں تو پھر یقینی طور پر اس کے لئے خدا کی یاد، خدا پر توکل اور اس سے مستقل رابطے کی ضرورت ہے۔ اس کی یاد کو ہمیں اپنے روزمرہ کے کاموں میں شامل کرنا چاہئے۔ یہ جو شاعر نے کہا ہے کہ خوشا آنان کہ دائم در نمازند تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے ہمیشہ رو بقبلہ بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر رکوع یا سجدہ کیا جائے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ نماز کا اصلی مقصد اللہ کا ذکر اور اس کی یاد ہے۔ ہمیشہ خدا کو یاد رکھنا چاہئے۔ ہر فیصلے، ہر اقدام اور ہر بات میں۔ کیونکہ ہماری اور آپ کی باتیں کسی عام آدمی کی باتیں نہیں ہیں۔ ہماری باتوں کے اثرات بڑے وسیع ہوتے ہيں۔ ہر انتخاب میں، ہر قربت اور ہر دوری میں، خدائی معیار کو نظر کے سامنے رکھنا چاہئے۔ خدائی معیار یہ ہے کہ ذاتی مفادات اور اغراض مد نظر نہ ہوں کیونکہ جہاں بھی ذاتی خواہشات کا دخل ہوتا ہے وہاں الہی جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ اگر اس قسم کے جذبات نہ ہوں تو پھر ہر کام میں اہم عنصر فرض کی ادائیگی ہوگا اور یہ الہی جذبے سے عبارت ہے۔ اسے ہمیشہ یاد رکھیں۔
یہ جو آپ نے نیا کام شروع کیا ہے، در حقیقت آپ کے پہلے والے کاموں سے مختلف ہے البتہ ان چند لوگوں کےعلاوہ جو اس سے قبل حکومت میں فرائض منصبی سنبھال چکے ہیں۔ حکومت میں ہر قسم کا کام اہم ہے لیکن (کابینہ میں شمولیت کے بعد) اس نئے کام کی شکل مختلف ہے۔ یہ ایک اجتماعی کام ہے، وہ بھی عظیم قومی سطح کا۔ آپ سب کو ہمیشہ یہ حقیقت یاد رکھنی چاہئے کہ آپ لوگوں کے کام بھلے ہی مختلف ہوں لیکن در حقیقت وہ سارے کام ایک ہیں اور اس یگانگت کا مظہر کابینہ ہے جہاں آپ اکٹھا ہوتے ہیں۔ سمت کا تعین کرنے والا جسے میں بیس بائیس راستوں کا تعین کرنے والا ٹریفک پولیس کہتا ہوں، صدر مملکت ہے جو عظیم کاموں کی انجام دہی کے لئے وزراء میں ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں۔ عظیم کاموں سے مراد ملک کا ان اہداف کی سمت بڑھنا ہے جن کا تعین ہم نے خود کیا ہے اور جو در حقیقت انقلاب کے اہداف ہیں اور جنہیں بیس سالہ قومی ترقیاتی منصوبہ میں بیان کیا جا چکا ہے۔ اس عظیم کام کے لئے ایک ایک دن کو اہم سمجھنا چاہئے۔ آپ لوگوں کے پاس چار برسوں کا یعنی تقریبا ایک ہزار چار سو پچاس دن کا موقع ہے۔ گزرنے والے ہر دن کے ساتھ ہی اس مدت میں ایک دن کم ہو جاتا ہے اور یہ مدت صفر سے نزدیک ہوتی جاتی ہے۔ آپ لوگوں کے لئے ایک ایک دن اہم ہے۔ یہ ایک ہزار چار سو پچاس دن، بڑا اہم موقع ہے۔ اس نسبتا طولانی مدت کے دوران بہت سے کاموں کو انجام دیا جا سکتا ہے۔ امیر کبیر جو ہماری تاریخ کی ایک اہم شخصیت ہیں اور در حقیقت جنہوں نے بہت بڑے کام انجام دئے ہيں، ان کی حکومت کی کل مدت صرف تین برس تھی یعنی آپ لوگو جتنی مدت تک اس حکومتی عہدے پر فائز رہنے والے ہيں اس سے ایک برس کم ، لیکن ان کا کام اتنا اہم اور عظیم تھا کہ تاریخ کبھی بھی امیر کبیر ( مظفر الدین شاہ کے وزیر اعظم) کو بھلا نہیں سکتی۔ ورنہ وزارت عظمی کے عہدے پر فائز ہونے سے پہلے اور کاشان جلا وطن ہونے کے بعد انہوں نے کوئي خاص کام انجام نہيں دیا۔ سب کچھ انہی تین برسوں میں کیا۔ اس بنا پر یہ چار برسوں کی مدت کم نہیں ہے۔ اچھی خاصی مدت ہے۔ اگر آپ ابھی سے شروع کریں اور اپنے سامنے پھیلے وسیع افق پر نظر ڈالیں تو سب کچھ کر سکتے ہیں۔ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ جب آپ نظر ڈالیں گے اور دیکھيں گے کہ اب بالکل وقت نہيں بچا ہے۔ مثال کے طور پر تین یا چھے مہینے ہی بچے ہیں۔ پھر ان تین اور چھے مہینوں کے دوران کوئی خاص کام انجام نہيں دیا جا سکتا، سوائے جاری کاموں کو انجام تک پہنچانے کے۔ ابھی سے سوچیں اور ایک ایک دن کی اہمیت کو سمجھیں۔ مطلب یہ ایک دن بھی ضائع نہ ہونے دیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہم کہیں ابھی چار برسوں کا موقع ہے، انشاء اللہ اطمینان سے کام کریں گے نہيں، آج پہلے دن اور پہلی گھڑی سے ہی دلجمعی کے ساتھ کام شروع کر دیں۔ چونکہ مجھے علم ہے کہ آپ لوگوں کی نیت پاکیزہ ہے اور آپ لوگ عوام کی خدمت کے لئے اس میدان میں آئے ہيں۔ اسی لئے مجھے یقین ہے کہ اگر آپ لوگوں کی انشاء اللہ یہی نیت قائم رہی تو خداوند عالم بھی آپ لوگوں کی مدد کرے گا۔ البتہ یہ جان لیں کہ نعمت کا تحفظ اس کے حصول سے کئ گنا زيادہ سخت ہے۔ قرآن مجید میں آیا ہے کہ ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا صرف یہ کہنا کہ ہمارا رب اللہ ہے کافی نہيں ہے، اس کے بعد استقامت بھی ضروری ہے۔ اس کے بعد ان پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔
استقامت اور پائيداری ہر کامیابی کی بنیاد ہوتی ہے۔ ورنہ بھاری وزن تو میرے جیسا کمزور آدمی بھی ایک لمحے کے لئے اٹھا سکتا ہے، لیکن اسے تا دیر اٹھائے نہيں رکھ سکتا بلکہ اسے گرا دے گا۔ مضبوط اور کارساز انسان وہ ہے جو ضروری مدت تک بھاری بوجھ اٹھائے رکھنے کی طاقت رکھتا ہو ۔ ہم لوگوں میں سے بہت سے لوگوں کی نیت نیک ہوتی ہے اور ہم نیک نیتی کے ساتھ میدان میں آتے ہيں لیکن اس نیت کو باقی نہیں رکھ پاتے۔ کیونکہ راستے میں بہت سی رکاوٹیں سامنے آتی ہیں، جن کا ہماری نیتوں پر اثر پڑتا ہے اور وہ کمزور پڑ جاتی ہیں۔ کبھی کبھی کوئی مخالف کشش دل کو جو نیت کا مرکز ہے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اب جو ہم غور کرتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس نیت کا کہیں وجود ہی نہيں ہے بلکہ نیت بدل چکی ہے۔ ایسے وقت میں انسان کا راستہ بدل جاتا ہے۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے ربنا اللہ کہا لیکن آج کعبہ کے بجائے بت خانے کی سمت سجدہ ریز ہیں، ان لوگوں کا نعرہ تو ٹھیک تھا لیکن وہ اس نعرے کی مخالف سمت حرکت کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ استقامت سے کام نہیں کر سکے۔ کیوں نہیں کر سکے؟ کیونکہ منزل تک پہنچتے پہنچتے بہت سی پر کشش چیزیں انہیں نظر آ گئيں۔
آپ نے یقینا سنا ہوگا کہ کسی نے چالیس دنوں تک ریاضت کی نیت کی۔ لیکن دوسرے دن، پانچویں دن یا بیسویں دن شیطانی عناصر نے مداخلت شروع کر دی۔ پر کشش عورت سامنے آ گئ، اچھے کھانے پیش کردئے گئے، بڑی رقم دی جانے لگی۔ اسی لئے وہ اپنے فیصلے پر قائم نہیں رہ سکا اور ہتھیار ڈال ديئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بیس تیس دن تک جو اس نے محنت کی تھی وہ بھی ضائع ہو گئی۔ ممکن ہے کہ اس واقعے میں سچائی ہو لیکن اگر حقیقت نہ بھی ہو تب بھی اس میں ہمارے لئے ایک درس موجود ہیں۔
اسلامی حکومت کے بارے میں ایک نکتہ بیان کرتا چلوں؛ صدر مملکت نے ایک اچھا نعرہ جو انتخابات کے دوران بھی اور انتخابات کے بعد بھی بار بار دوہرایا وہ اسلامی حکومت کا نعرہ ہے۔ میں نے اس موضوع کی طرف جمعے کی نماز میں اشارہ کیا ہے لیکن اس موضوع پر تھوڑی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالنی چاہئے۔ اسلامی نظام، اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد تشکیل پایا۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اسلامی انقلاب کامیاب ہوتا لیکن غیر اسلامی حکومت کی تشکیل عمل میں آ جاتی۔ بہت سے ملکوں میں ایسا ہی ہوا ہے۔ الجزائر میں ایسا ہی ہوا۔ الجزائر میں تحریک، اسلامی تھی۔ بنیادی طور پر تحریک کا مرکز اور اس کے رہنما مسلمان تھے لیکن جب تحریک کامیاب ہو گئ تو اقتدار پر ایسے لوگوں کا قبضہ ہو گیا جنہیں اسلامی اصولوں میں یقین نہیں تھا۔ یہاں پر بھی یہی ہونے جا رہا تھا۔ اکیس بائيس اور تیئس بہمن (دس، گیارہ، بارہ فروری) کو یہ سب کچھ ہونے والا تھا میں نے خود نزدیک سے بعض واقعات کا مشاہدہ کیا ہے۔ کچھ لوگ یہ کوشش کر رہے تھے کہ نام نہاد مزدور تحریک کو اس عام تحریک پر مسلط کر دیں۔ یعنی وہی فارمولا جس پر دنیا میں سوشلسٹ نظام لانے کے لئے عمل کیا جاتا ہے۔ مزدور انقلاب کا نعرہ دیکر کچھ لوگوں کو بر سراقتدار لانے کی کوشش کی لیکن ان لوگوں نے امام خمینی رحمت اللہ علیہ کو مد نظر نہیں رکھا۔ یعنی اس لا زوال عظیم شخصیت کو بھول گئے تھے۔ اسی لئے انہیں سخت ہزیمت اٹھانی پڑی یہاں تک کہ انقلاب کی کامیابی کے تیسرے دن آئے اور علوی اسکول کے سامنے ( جہاں امام خمینی عارضی طور پر قیام پذیر تھے) امام خمینی رحمت اللہ کے گھر کے سامنے مظاہرے بھی کئے اور نام نہاد سوشلزم کے نفاذ کا مطالبہ بھی کیا لیکن اسلامی نظام کی تشکیل عمل میں آئی۔
اسلامی نظام کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ یہ واضح ہو گیا کہ ملک میں قانون سازی کا منبع اور عمل درآمد اور فیصلوں کا معیار کیا ہے۔ حکومت کے ارکان، متعلقہ اداروں، قانون سازی کے مرکز، اعلی قیادت اور عدلیہ وغیرہ کی تشکیل عمل میں آئی اور آئين نے ان سب کو استحکام بخشا۔ اس طرح سے بنیادی ڈھانچہ تیار ہو گیا۔ یہ اسلامی نظام صرف ظاہری شکل کا نام نہيں ہے بلکہ یہ انتہائی عمیق معنی پر استوار ہے۔ تمام امور عوام کی زندگی کے حقائق کے مطابق انجام دئے جائيں۔ عوام کی زندگی میں اس کی عملی شکل اسی وقت ممکن ہو سکے گی جب اس کے لئے صاحب ایمان اور ایسے افراد موجود ہوں جنہیں اس نظام پر پورا ایمان ہو اور جن میں ضروری خصوصیات موجود ہوں۔ اسے کہتے ہیں اسلامی حکومت۔ اسلامی حکومت میں اسلامی نظام کے تمام ارکان شامل ہیں۔ صرف مجریہ نہيں بلکہ حکام اور عام کارکن سب شامل ہیں۔ ان لوگوں کو چاہئے کہ وہ اپنے کردار، اپنے نظریات اور اجتماعی و انفرادی رفتار و گفتار اور عوام سے اپنے رابطے کو اسلامی اصولوں کے سانچے میں ڈھالیں تاکہ طے شدہ مقاصد کی تکمیل ہو سکے۔ انہيں اپنے اہداف کا تعین کرکے اس کی سمت تیزی کے ساتھ بڑھنا چاہئے۔ اسے کہتے ہیں اسلامی حکومت۔
ابتدا سے ہی اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے کوشش شروع ہو گئی۔ کچھ لوگ کہتے ہيں آپ ( احمدی نژاد ) ستائیس برسوں کے بعد اسلامی حکومت کی تشکیل چاہتے ہیں؟ ایسا نہيں ہے، اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے کوشش و اقدام تو پہلے دن سے ہی شروع ہو گیا تھا البتہ اس میں نشیب و فراز آئے، یہ عمل کبھی آگے بڑھا، کبھی رکاوٹوں کا سامنا ہوا، کچھ جگہوں پر کامیابی حاصل ہوئی اور کچھ مدت کے لئے کامیابی سے ہم دور رہے۔ ہم سے کچھ لوگوں کے قدم بیچ راستے میں ہی ڈگمگا گئے اور ہم میں سے کچھ لوگ اصل ہدف کے بارے میں تذبذب کا شکار ہو گئے۔ ہم میں سے کچھ اپنے آپ کو روک نہ سکے اور شاہانہ طرز زندگی میں گرفتار ہو گئے۔
صرف ہمارا نام اسلامی حکومت رہے یہ کافی نہيں ہے۔ خدا کی قسم ہم سے قبل بھی ہمارے علاقے اور افریقا میں کئ اسلامی حکومتیں رہی ہیں اور اب بھی ہيں۔ انقلاب سے قبل کسی ملک میں اسلامی حکومت بنتی تھی اور ہم مذاق میں کہتے تھے کہ فلاں ملک میں اسلامی امریکی حکومت ہے۔ یوں تو اس حکومت کو بھی اسلامی جمہوری حکومت کہا جاتا تھا۔ اس بنا پر صرف ہمارا نام اسلامی حکومت رہے یہی کافی نہيں ہے ۔ ہمارے عمل اور اقدامات کو بھی اسلامی ہونا چاہئے۔ اگر اس عمل میں رکاوٹ پیدا ہوئی تو مکمل شکل میں اسلامی حکومت کی تشکیل کے لئے ضروری مسلسل عمل میں بھی رکاوٹ پیدا ہو جائے گی اور فطری طور پر اس سے اس پورے عمل میں کندی پیدا ہو جائے گی۔ البتہ مکمل اسلامی حکومت، صحیح معنی میں تو انسان کامل کے زمانے میں تشکیل پائےگی انشاء اللہ۔ کتنے خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جو اس زمانے میں زندہ ہوں گے۔ ہم سب ناقص انسان ہیں۔ ہم اپنی طاقت اور سکت بھر یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ارکان حکومت کو، جن کے ہم ایک جزء ہیں، ایسے مقام پر پہنچا دیں جہاں وہ اسلامی جمہوریہ کے معیار کے مطابق ہو سکیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ خود کو اس معیار سے قریب کریں۔ اگر کوئی حکومت یہ کہے کہ اس کی کوشش یہ ہے کہ اس مقصد کی تکمیل کرے تو یہ بہت با برکت اور اچھی چیز ہے۔
میں نے چار پانچ برس قبل اسی امام بارگاہ میں یہ بات ارکان حکومت کے سامنے کہی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ اسلامی انقلاب، اسلامی نظام، اسلامی حکومت اور پھر اسلامی ملک۔ اگر ہماری حکومت اسلامی ہو گئی تو پھر ہمارا ملک بھی اسلامی ہو جائے گا۔ اگر ہم اور آپ اپنی معاشرت میں، اپنی رفتار میں، اپنی آمدنی میں، اپنی کاوشوں میں، اس معیار کے قریب نہ پہنچ سکے تو پھر کسی طالب علم سے، کسی نوجوان تاجر سے، حکومت کے عام کارکن سے، مزدور سے، دیہی یا کسی شہری باشندے سے کس طرح توقع رکھ سکتے ہيں کہ اس کے کام اسلامی ہوں؟ ہم کیوں بلا وجہ عوام کی ملامت کریں؟ ہمیں ان کی ملامت نہيں کرنی چاہئے۔ اگر کوئی کمی ہے تو ہمیں اپنی ملامت کرنی چاہئے لوموا انفسکم ۔
پہلے ہمیں اسلامی ہونا چاہئے جب ہم اسلامی ہو گئے تو پھر کونوا دعاۃ الناس بغیر السنتکم اس صورت میں ہمارا عمل عوام کو حقیقی مسلمان بنا دے گا اور ملک بھی اسلامی ہو جائے گا۔ قوانین و ضوابط بھی اسلامی ہیں اور ان پر عمل درآمد کا طریق کار بھی اسلامی ہے۔ حکام بھی اسلامی ہيں تو عوام بھی حکام کی تقلید میں طور طریقوں کے لحاظ سے اسلامی ہو جائيں گے۔ البتہ شیطان مرا نہیں، شیطان زندہ ہے۔ ہمیشہ کچھ لوگ، کچھ تحریکیں اور گروہ ایسے ہوتے ہيں جو شیطان کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہيں۔
اسلامی حکومت کے نعرے کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ چاہتے ہيں کہ اپنے ذاتی عمل کو، عوام کے ساتھ اپنے روئے کو، خود اپنے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ اختیار کئے جانے والے سلوک اور بین الاقوامی نظام اور موجودہ تسلط پسند عالمی نظام کے ساتھ اپنی پالیسی کو اسلامی قوانین و معیارات سے زیادہ نزدیک کریں۔ یہ بہت اہم ہدف ہے۔ انشاء اللہ آپ لوگ اس کے پابند رہيں گے اور اس ہدف کو مزید سنجیدگی و حقیقت پسندی کے ساتھ آگے بڑھائيں گے۔ کیونکہ یہ ان اہداف کی تکمیل کی سمت ایک بڑا قدم ہوگا اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے؛ ان اہداف کی تکمیل کے لئے خاص قسم کے افراد کی ضرورت ہے۔ افراد سے مراد مرد ہی نہیں ہیں بلکہ اس میں خواتین بھی شامل ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان اہداف کی تکمیل کے لئے خاص قسم کے انسانوں کی ضرورت ہے۔
دوسرا نکتہ یہ کہ اس حکومت کا ایک نعرہ سماجی انصاف کا قیام ہے۔ یقینی طور پر سماجی انصاف انقلاب کا ایک محوری موضوع رہا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں ہے۔ شروع سے آج تک کوئی ایسی حکومت نہيں آئی جس نے واضح طور پر یہ اعلان کیا ہو کہ ہم انصاف کے تقاضوں کے مطابق کام نہيں کریں گے لیکن مجھے احمدی نژاد صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے نیا کام شروع کیا۔ انہوں نے سماجی عدل و انصاف کو ایک نعرے کی شکل میں سب کے سامنے پیش کیا۔ یہ بہت اہم کام ہے۔ ان کی انتخابی مہم کے دوران میں اپنے گھر والوں سے کہتا تھا کہ اگر احمدی نژاد صاحب انتخابات میں کامیاب نہ بھی ہوئے تب بھی انہوں نے سماجی عدل و انصاف پسندی کو مرکزیت عطا کرکے انقلاب کی بہت بڑی خدمت کی ہے اسے طاق نسیاں کی نذر ہونے سے بچایا ہے۔ یہ نعرہ سامنے آیا اور لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ خوش قسمتی سے عوام کی بھی سمجھ میں آ گیا۔ انہوں چاہا، اس نعرے کو پسند کیا اور انہیں ووٹ دیا۔ یہ کام بہت اہم ہے۔ اس بنا پر ان کی حکومت میں انصاف کو مرکزیت حاصل ہونا بہت اہم بات ہے۔ حکومت کا محوری موضوع در حقیقت ایک تبدیلی ہے جس کے لئے دلجمعی سے کام کرنا ہوگا۔
سماجی انصاف پر عمل درآمد کے لئے بہت سے کام انجام دئے گئے ہيں۔ اسلامی انقلاب کے آغاز سے محروم طبقات کے لئے جو کچھ بھی کیا گیا ہے، یعنی رفاہی، تعلیمی اور طبی سہولتوں کو ملک کے دور دراز کےعلاقوں تک پہچانے کا کام کہ جسے در حقیقت شمار بھی نہیں کیا جا سکتا یہ سب کے سب سماجی انصاف کی راہ میں انجام پانے والے کام ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان سہولتوں نے حالات کو پوری طرح سے بدل کر رکھ دیا۔ جن لوگوں نے ماضی میں محروم طبقات کے حالات کا مشاہدہ کیا ہے وہ اسے اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہيں۔ میں خود محروم علاقوں میں رہا ہوں اور اس دور کے محروم علاقوں کو دیکھ چکا ہوں اور اب بھی اکثر ان علاقوں میں جاتا ہوں تو مجھے نظر آتا ہے کہ در حقیقت حالات یکسر بدل چکے ہيں۔ یہ بنیادی ضرورتوں کی چیزیں جو عام لوگوں کے استفادے کے لئے ہیں، یہ سب سماجی عدل و انصاف کی راہ میں بہت اہم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ بس اہم یہ ہے کہ سماجی انصاف کو، دوسرے درجے یا کم اہمیت کی چیز سمجھ کر بھلا نہ دیا جائے۔ ہمارے نظام میں اس بات کا خطرہ موجود تھا۔ دوسری اقدار بھی بہت اہم ہیں۔ مثال کے طور پر ترقی و پیشرفت، تعمیر نو، آزادی و جمہوریت۔ خاص طور پر سماجی انصاف کی بات کرنے کا مطلب ان اقدار کی نفی نہيں ہے لیکن جب ہم ان اقدار کو بنیادی اور اہم قرار دیتے ہیں اور عدل و انصاف، غیر امتیازی سلوک اور سماج کے محروم طبقات کی ضرورتوں پر توجہ کم ہو جاتی ہے تو یہ بہت بڑا خطرہ بن جاتی ہے لیکن اگر کوئی حکومت عدل و انصاف کو مرکزیت عطا کرتی ہے تو یہ خطرہ دور ہو جاتا ہے یا پھر بہت کم ہو جاتا ہے۔
انصاف ہے کیا؟ انصاف بظاہر بہت آسان مفہوم ہے اور سب لوگ اس کے بارے میں بات کرتے اور اسے بار بار دوہراتے ہيں لیکن عمل اور مصداق کی منزل میں انصاف تک رسائی بہت مشکل ہے۔ یہ وہی بات ہے جو حضرت علی علیہ السلام نے حق کے بارے میں ارشاد فرمائی ہے کہ الحق اوسع الاشیاء فی التواصف و اضیقھا فی التناصف انصاف کے بارے میں بھی صورت حال بالکل اسی طرح کی ہے کیونکہ عدل و انصاف بھی حق ہے بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہيں ہیں۔ ایک معنی میں حق عین انصاف ہے اور انصاف حق ہی ہے۔ اس کی توصیف آسان ہے لیکن عمل میں انصاف تک رسائی مشکل ہے بلکہ عدل و انصاف کے مواقع اور مصایق کی شناخت بھی کبھی کبھی بہت مشکل ہوتی ہے۔ کہاں انصاف ہے کہاں نا انصافی ہے؟ میں اس وقت انصاف کی تعریف نہیں پیش کرنا چاہتا کہ وہ کیا ہے۔ انصاف کی کلی و مجموعی تعریفیں پیش کی جا چکی ہیں جیسے مراعات کی منصفانہ تقسیم وغیرہ اور یہ صحیح بھی ہیں لیکن اس پر غور و فکر کی بھی ضرورت ہے۔ یعنی آپ سب کو اپنے اپنے شعبوں میں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ انصاف کیا ہے اور کس چیز سے وہ حاصل ہوتا ہے۔
میں اس نکتے کو بھی بیان کرنا چاہوں گا کہ اگر ہم انصاف کو اس کے حقیقی معنوں میں سماج میں قائم کرنا چاہتے ہیں تو دھیان رکھنا ہوگا کہ انصاف ديگر دو مفاہیم سے پوری طرح جڑا ہوا ہے۔ ایک معقولیت اور دوسرے معنویت۔ اگر انصاف معقولیت اور معنویت سے الگ ہو جائے گا تو پھر جس انصاف کی تلاش میں آپ ہیں اس کا کہیں پتہ نہیں ہوگا بلکہ سرے سے کوئی انصاف ہی نہيں ہوگا۔ معقولیت اس لئے کہ اگر انصاف کے تقاضوں کی شناخت میں عقل و خرد کو بروئے کار نہ لایا جائے تو انسان غلطی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ وہ کچھ کاموں کو انصاف کے مطابق سمجھتا ہے جبکہ ایسا ہوتا نہیں اور کچھ ایسے کام جو انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہیں وہ اسے نظر ہی نہيں آتے۔ اس بنا پر معقولیت اور صحیح ا ندازے انصاف تک رسائی کے لئے ایک ضروری شرط ہے۔
یہ میں جو معقولیت اور صحیح اندازے کی بات کر رہا ہوں؛ اس کا مطلب فورا یہ نہ نکالا جائے کہ اس سے مراد احتیاط، عقل کو مرکزی حیثیت دینا اور اسی کا اتباع کرنا ہے۔ عاقل ہونے اور عقل سے کام لینے اور احتیاط کرنے میں بہت فرق ہے۔ احتیاط کرنے والا معروضی حالات کا تابع ہوتا ہے۔ اسے ہر تبدیلی کی طرف سے تشویش لاحق رہتی ہے۔ وہ ہر قسم کی تبدیلی کو قبول نہیں کرتا اور تبدیلی و تغییر سے خوفزدہ رہتا ہے۔ لیکن معقولیت ایسی نہیں ہے۔ عقل کی بنا پر لگائے جانے والے اندازے کبھی کبھی بہت بڑی تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارا عظیم اسلامی انقلاب ایک قسم کی معقولیت کا ہی نتیجہ تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ عوام بغیر سوچے سمجھے سڑکوں پر نکل آئے اور ایک حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو گئے۔ عقل کی بنا پر سوچ سمجھ کر کئے گئے فیصلوں کے نتیجے میں یہ کامیابی حاصل ہوئی۔ کئی برسوں کے دوران، آج کی زبان میں عوام کے درمیان حق کے مطالبے، انصاف پسندی اور حریت پسندی کی سوچ پیدا ہو گئی تھی جس کے نتیجے میں عوامی طاقتیں میدان میں آئيں اور دشمن کے مقابلے میں صف آرا ہو گئيں اور انہیں کامیابی حاصل ہوئی۔ اس بنا پر معقولیت کبھی کبھی اس قسم کے عظیم انقلاب کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ آج بھی ایسا ہی ہے۔ آج ہمارے نظام میں بہت سی ایسی تبدیلیاں ہيں جو موجودہ حالات اور عالمی صورت حال پر ایک عاقلانہ ، محققانہ اور دقیق نظر کا نتیجہ ہیں۔ میں مختلف میدانوں میں یہ چیز دیکھ رہا ہوں۔ خواب غفلت اور عالمی اقتصاد و سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا ہمارے سماج کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اگر کوئی صحیح ڈھنگ سے سوچے اور غور کرے تو وہ سمجھ جائے گا کہ ایک تحریک اور جنبش سے اس موجودہ حالت کو بدلنا چاہئے۔ اقتصادی میدان میں بھی اور سیاسی میدان میں بھی۔ بنابریں معقولیت اور احتیاط میں فرق ہے۔ عقل کی بنا پر کئے گئے فیصلوں اور احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے کئے گئے فیصلوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہئے، یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔
ہم جیسے ہی غور خوض اور معقولیت کی بات کرتے ہیں کچھ لوگ کہتے ہیں؛ ہوشیار رہنا کوئی غلطی نہ ہونے پائے، عقل کے تقاضے پورے کریں! کہیں کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکل جائے جس سے پوری دنیا میں ہنگامہ کھڑا ہو جائے، کہیں کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جس سے پوری دنیا صف آرا ہو جائے۔ یہ احتیاط پر مبنی معقولیت ہے اور میرا اس پر بالکل یقین نہیں ہے۔ اس بنا پر اگر آپ انصاف کے تقاضوں کو حقیقت میں پورا کرنا چاہتے ہيں تو آپ کو عقل کی بنا پر غور و فکر اور مختلف میدانوں میں عقل و خرد کے حساب سے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آپ کو علم ہو سکے کہ کون سی چیز انصاف قائم کر سکتی ہے اور کون سی چیز اس اعتدال تک ہمیں پہنچا سکتی ہے جس خداداد اعتدال کو ہم زمین و زمان کی بنیاد مانتے ہیں اور جس کا مظہر سماجی انصاف ہے۔
اگر ہم انصاف کو معنویت سے الگ کر دیں، یعنی ایسا انصاف جس کے ساتھ معنویت نہ ہو تو انصاف بھی حقیقی انصاف نہیں ہوگا۔ جس انصاف میں معنویت اور عالم وجود و کائنات کے معنوی آفاق کو مد نظر نہ رکھا گیا ہو وہ ریاکاری، جھوٹ، گمراہی، دکھاوے اور تصنع میں بدل جائے گا۔ کمیونسٹ نظاموں کی طرح کہ جن کا بنیادی نعرہ سماجی انصاف کا تھا۔ انصاف اور آزادی کی بات کرتے تھے لیکن آزادی ان کے نعرے میں تھی ہی نہیں۔ جن ممالک میں بھی انقلاب یا فوجی بغاوت کے جیسے کسی بھی طریقے سے کمیونزم کی تحریک اٹھی اور کامیاب ہوئی ان سب ملکوں میں سماجی انصاف اہم ترین نعرہ تھا لیکن ان کی زندگی کے حقائق میں انصاف کی جھلک تک نظر نہيں آتی تھی بلکہ زندگی کی صورت حال انصاف کے بر خلاف تھی۔ کچھ لوگ مزدور کے نام پر اقتدار میں آئے لیکن در اصل وہ لوگ شاہی نظام کے تعیش پسند و مالدار لوگ تھے۔ وہ لوگ بالکل انہی لوگوں کی طرح تھے۔ مارکسسٹ ممالک کے سربراہوں کی زندگی ایسی ہی تھی۔ میں نے اپنی صدارت کے زمانے میں کچھ سوشلسٹ ملکوں کے نچلے طبقے کے عوام کی حالت کا مشاہدہ کیا ہے۔ جسے سماجی انصاف کہا جاتا ہے اور انصاف کے جو معنی ہیں اس کا وہاں کہیں پتہ نہیں تھا۔ سماج کے اونچے طبقے کی ایک نئی قسم وہاں تھی جو اپنی پارٹی کے اور خاص سیاسی معیاروں کی بنیاد پر بر سراقتدار آئی تھی اور ان لوگوں کو تمام وسائل حاصل تھے اور عوام فقر و تنگ دستی میں زندگی بسر کرتے تھے۔ یہ صورت حال کچھ اول درجے کے کمیونسٹ ملکوں میں بھی دیکھی جاتی تھی۔ اس بنا پر اس قسم کی انصاف پسندی پائیدار نہیں ہوتی اور خود اپنے بانیوں کے ذریعے ہی گمراہ کن نعرہ، دکھاوا اور جھوٹ ثابت ہو جاتی ہے۔
سماجی انصاف معنویت کے ساتھ ہونا چاہئے۔ یعنی آپ خدا کے لئے اور اس کی جانب سے پاداش کے لئے انصاف چاہيں۔ اس صورت میں ہی آپ انصاف کے دشمنوں کا سامنا اور ان کا مقابلہ کر سکتے ہيں۔ البتہ انصاف کی جانب جھکاؤ کے بغیر معنویت بھی ادھوری رہتی ہے۔ کچھ لوگوں کو معنویت سے لگاؤ ہوتا ہے لیکن وہ انصاف کے تقاضوں سے نابلد ہوتے ہیں، یہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اسلام میں، سماجی مسائل اور لوگوں کے مستقبل کی جانب توجہ کے بغیر معنویت قابل قبول نہیں ہے من اصبح ولم یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم روحانیت و معنویت سے سروکار رکھنے والا جو آدمی ظلم سے سمجھوتا کر لیتا ہے وہ ظالم سے بھی سمجھوتا کر سکتا ہے، ظالمانہ و تسلط پسندانہ نظام سے بھی سمجھوتا کر سکتا ہے۔ یہ کیسی معنویت ہے؟ اس قسم کی معنویت ہماری سمجھ میں نہيں آتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معنویت و انصاف ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
سماجی انصاف کے سلسلے میں میں یہ بھی عرض کر دوں کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ سماجی انصاف یعنی غربت کی تقسیم۔ جی نہیں، جو لوگ سماجی انصاف کی بات کرتے ہيں ان کی مراد، غربت کی تقسیم قطعی نہیں ہوتی۔ بلکہ ان کی مراد دستیاب وسائل کی منصفانہ تقسیم سے ہوتی ہے۔ اس فکر کے لوگوں کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ سماجی انصاف کی کوشش نہ کرو، مال و ثروت جمع کرنے کی کوشش کرو تاکہ جو چیز تقسیم ہو وہ ثروت ہو، انصاف کے تقاضوں کو پورا کئے بغیر مال و ثروت پیدا کرنے کی کوشش، وہی چیز ہو جائے گی جس کا آج ہم مالدار ممالک میں مشاہدہ کرتے ہيں۔ دنیا کے سب سے زيادہ مالدار ملک یعنی امریکا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بھوک اور گرمی و سردی سے مر جاتے ہیں۔ یہ کوئی سیاسی نعرہ نہیں ہے یہ عین حقیقت ہے جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو تین چار کمروں کے ایک فلیٹ کے لئے کئی برسوں تک کوشش کرتے ہيں اور جب کامیاب نہیں ہوتے تو غداری کرتے ہيں تاکہ یہ وسائل انہيں حاصل ہو جائيں۔
دو تین برس قبل سی آئي اے کا ایک اعلی افسر سابق سوویت یونین اور پھر روس کے لئے جاسوسی کے جرم میں پکڑا گیا۔ ایک انٹرویو میں اس سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟ تو اس نے کہا کہ ایک تین کمرے والے بنگلے کی مجھے بڑی خواہش تھی لیکن میں نے سوچا کہ اس آمدنی اور تنخواہ میں یہ ممکن نہيں ہے۔ اسی لئے میں سوویت یونین کے لئے کام کرنے پر مجبور ہو گیا۔ وہ بھی اس دشمنی و مخاصمت کے عالم میں جو اس وقت ان دونوں ملکوں کے درمیان شباب پر تھی۔ جب دولت و ثروت، انصاف کے تقاضوں کو نظرانداز کرکے تلاش کی جائے گی تو اس کی منزل یہی ہوگی کہ ایک سماج میں، جو لوگ زیادہ چالاک و ہوشیار ہیں راتوں رات ڈھیروں دولت جمع کرکے مالدار بن جائیں گے جبکہ اسی سماج میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہوگی جو عام سی زندگی حسرت و یاس میں گزارنے پر مجبور نظر آئیں گے، لوگوں کی بہت بڑی تعداد نہایت سخت اور ناگوار حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوگی۔ اس بنا پر اگر ہم کہیں کہ سماجی انصاف کی بات نہ کی جائے بلکہ مال و دولت اکٹھا کرنے کی بات کریں اور اس کے لئے بہانہ بھی یہ پیش کریں کہ مال و دولت اکٹھا کرنے کے بعد سماجی انصاف کی طرف جائيں گے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ سماجی انصاف یعنی ملک میں جو وسائل ہيں انہیں منصفانہ و عاقلانہ طور پر تقسیم کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کوشش کریں کہ ان وسائل کو بڑھائيں تاکہ سب لوگوں کو حاصل ہو سکیں۔ ایسا نہ ہو کہ خاص طبقے یا خاص گروہ کو زیادہ ملے۔ یہ اسلامی حکومت کا ایک فریضہ ہے جس کا نعرہ آپ نے لگایا ہے۔ آپ نے بہت اچھا کام کیا۔ اب اس کے لئے کوشش بھی کریں۔ اس کے پابند بھی رہيں۔ یہ آپ کے کام کی اچھی بنیاد ہے۔
سماجی انصاف کو حقیقی معنوں میں اپنے تمام منصوبوں کی بنیاد قرار دیں اور دیکھيں کہ مختلف شعبوں میں کس طرح سے سماجی انصاف قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں، خاص طور پر پروگرام و منصوبہ ساز متعلقہ ادارے کا بہت زیادہ کردار ہے اور پھر اس کے بعد حکومت کے اقتصادی و مالی اداروں اور سروسز اور دیگر شعبوں کا کردار اہم ہے۔
اسلامی حکومت کا دوسرا مسلمہ فریضہ، علم و دانش کی توسیع ہے۔ کیونکہ اسلامی حکومت علم و دانائی کی توسیع کے بغیر کچھ نہيں کر سکتی۔ آزادی فکر کی توسیع بھی اہم ہے۔ یعنی لوگ آزاد فضا میں سوچ سکیں۔ آزادی بیان، آزادی فکر کا ایک نتیجہ ہے۔ جب سوچنے کی آزادی ہوگی تو فطری طور پر بولنے کی بھی آزادی ہوگی۔ بنیاد، آزادی فکر ہے۔ یعنی لوگ آزادی کے ساتھ سوچ سکیں۔ افکار کی آزادی کے ماحول سے ہٹ کر، ترقی و پیشرفت ممکن نہیں ہے۔ ہم نے کلام و فلسفے کے میدان جو بھی ترقی کی ہے وہ سب بحث و مباحثے اور فکری زور آزمائی کی وجہ سے ہے۔ نظریاتی ٹکراؤ ہونا چاہئے لیکن افکار کے تصادم کو ایسا نہ بنا دیں کہ ہم، بقول سعدی؛ سگ را بگشاییم و سنگ را ببندیم کتے کو کھول دیں اور پتھر کو باندھ دیں۔ اہل حق اور جن افکار کو ہم صحیح سمجھتے ہیں ان کے مالکوں کو نہتا کر دیں لیکن اہل باطل کے ہاتھ کھلے رکھیں تاکہ وہ جیسا چاہیں ہمارے نوجوانوں کا حال کریں۔ نہيں، وہ اپنی بات کہیں، آپ بھی اپنی بات کہیں اور سماج کو فکر عطا کریں۔ ہم نے تجربے سے یہ سمجھ لیا ہے کہ جہاں سچی بات منطق اور ضروری تیاریوں کے ساتھ کہی جاتی ہے وہاں سچی بات کے مقابلے میں کوئی بات بھی تاب مقابلہ نہيں لا پاتی-
بدعنوانی سے مقابلہ بھی ایک نہایت اہم فریضہ ہے۔ بدعنوانی کے بارے میں میں نے عام و خاص جلسوں میں اتنی باتیں کی ہیں کہ اب مجھے لگتا ہے کہ ساری باتیں دوہرائی جا رہی ہيں البتہ حکومت کے کچھ ارکان الحمد للہ خود ہی اس طرف پوری توجہ دے رہے ہیں۔
ایک اور اہم چیز قومی وقار کا تحفظ ہے۔ جو قوم عزت نفس اور خودداری کا جذبہ رکھتی ہے وہ ترقی کرتی اور ابھرے نمایاں مقام حاصل کرتی ہے۔ اگر اس کے اندر حقارت اور فرومایگی کا احساس پیدا ہو جائے گا تو اس کی صلاحیت تباہ ہو جائيں گی۔ قومی وقار و حمیت کے جذبے کو پروان چڑھانا چاہئے تاکہ قوم کو عزت و طاقت کا احساس ہو۔ جو چیزیں کسی قوم کو خوددار بناتی ہیں جیسے علمی و ثقافتی و فکری میراثیں، انہیں قوم کے سامنے لانا چاہئے، ان کی عظیم شخصیتوں، ان کے روشن ماضی اور اعلی صلاحیتوں سے انہيں روشناس کرانا چاہئے۔
تسلط پسندی سے مقابلہ بھی اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔ تسلط پسندانہ نظام ایسا نظام ہے جو ایک بلا کی طرح انسانی سماجوں پر نازل ہوتا ہے اور نازل ہو چکا ہے۔ انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ تسلط کے اس نظام کے دو فریق ہوتے ہیں، تسلط پسند فریق اور تسلط کا شکار فریق، اس نظام کے خلاف جد و جہد کرنی چاہئے اور یہ جد و جہد تلوار سے نہیں بلکہ عقل، پیشہ ورانہ سیاسی سرگرمیوں اور بہادری کے ساتھ کرنا چاہئے۔
اسلامی حکومت کے دشمن بھی ہیں۔ اسلامی حکومت کے دو قسم کے دشمن ہوتے ہیں۔ دشمنوں کی ایک قسم جانی پہچانی ہوتی ہے۔ دنیا کی تمام تسلط پسند طاقتیں اور ڈکٹیٹر واضح وجوہات کی بنا پر اسلامی حکومت کے دشمن ہیں۔ اسلامی حکومت اصولی طور پر تسلط پسندی اور آمریت کی مخالف ہے۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہيں دین، شعبہ ہائے زندگی میں دین کا عمل دخل پسند نہیں ہے۔ یعنی وہی الحادی نظرئے کے لوگ۔ یہ لوگ بھی اسلامی حکومت کے مخالف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ معیشت کو دین سے الگ رہنا چاہئے، سیاست کو دین سے الگ رہنا چاہئے، سماجی زندگی کو دین سے الگ رہنا چاہئے، عوام کی اجتماعی سرگرمیوں کو دین سے الگ ہونا چاہئے۔ مخالفت بھی وسیع پیمانے پر ہوتی ہے۔ خود مخالفت کرتے ہيں اور دوسروں کو بھی مخالفت پر اکساتے ہیں اور باقاعدہ طور پر دشمنی کی راہ اپناتے ہیں۔ بین الاقوامی دولتمند لوگ یعنی دنیا کے وہ نہایت مالدار لوگ جو تیل اور دنیا کے عظیم اور قیمتی ذخائر پر اپنا ہی قبضہ چاہتے ہیں اور اس کے لئے ممکنہ حد تک علمی و عملی کوشش کرتے ہيں۔ یہ لوگ اسلامی حکومت کے بیرونی دشمن ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ سارے دشمن ضروری نہيں ہے کہ دشمنی کریں بھی۔ ان میں سے کچھ دشمن ایسے ہیں جن کی دشمنی مخالفت اور اعتراض کی حد تک محدود رہتی ہے۔ کچھ دوسرے دشمن ہیں جو میدان میں وارد ہو کر بھڑ جاتے ہيں۔ اس بنا پر مختلف قسم کی دشمنیاں ہوتی ہيں اور ان سب کے مقابلے میں خاص روش اختیار کی جانی چاہئے۔
دشمنوں کی دوسری قسم داخلی ہے۔ ہماری موت کا سب سے بڑا سبب بجائے اس کے کہ کوئی آکر ہمیں مار ڈالے یہ ہو سکتا ہے کہ خود ہمارے اندر اختلاف پیدا ہو جائے۔ جیسے ہماری موت کی بڑی وجہ وائرس، جراثیم یا پھر کینسر بنانے والے سیلز ہوتے ہیں، ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی آکر کسی کو مار ڈالے۔ اسلامی حکومت بھی ایسی ہی ہے اسے اندرونی دشمنوں کی طرف سے بہت ہوشیار رہنا چاہئے، یہ اس کے لئے مہلک بیماری ہے۔
اس کی ایک دو مثاليں پیش کرتا ہوں۔ گفتگو کی شروعات میں میں نے اس کی ایک دو قسموں کی جانب اشارہ کیا تھا، غفلت اور راستے سے ہٹ جانا۔ اسلامی حکومت کی بلاؤں اور بیماریوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم دین کی زبان کو ثقیل کر دیں بھلے ہی عملی طور پر اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو۔ یہ چیز ہمیں ریاکاری میں مبتلا کر دیتی ہے اور لوگوں کو ریاکاری کی ترغیب بھی دیتی ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ دینداری و دینی رجحان کو مضبوط کیا جانا چاہئے تو اس کی میں قطعی مخالفت نہيں کر رہا ہوں لیکن اس کا نتیجہ خیز ہونا بہت ضروری ہے۔ ہم عملی طور پر اسلام کو مد نظر رکھنے سے زیادہ زبانی دعوے کریں اور اسلامیت کا اظہار کریں، قالب کو اصل مضمون سے زیادہ اہمیت دیں! یہ انہی بلاؤں اور بیماریوں میں سے ہے۔
موضوعات و مفاہیم کو اسلامی بنانا چاہئے۔ اگر ہم حقیقت میں اسلامی ملک بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی انتظامیہ میں تبدیلی لانی ہوگی۔ انتخابی مہم میں صدر مملکت کی ایک اچھی بات جو میری نظر میں بہت سے لوگوں کی توجہ کا باعث بنی انتظامیہ میں تبدیلی سے متعلق بات تھی۔ انتظامیہ میں تبدل و تغیر کون لائے گا؟ خود ہمیں یہ کام کرنا ہوگا۔ تغیر و تبدل کے میدان میں پہلا قدم یہ ہے کہ خود ہمارا رویہ، ہمارے کام کی کیفیت، کسی کی بھی تقرری اور معزولی، ہمارے انتظامات، ہمارے جذبات، ہماری جانب سے دکھائی جانے والی لچک، متعلقہ عوامی طبقے کے ساتھ ہمارا رویہ اسلامی ہو۔
البتہ یہ جو ہم نے کہا ہے کہ بغیر کسی نتیجے کے دینی مفاہیم کو گاڑھا بنا دینا ایک مصیبت ہے تو اس سے یہ شبہہ نہ پیدا ہو کہ ہم ان لوگوں کی تائید کر رہے ہیں جو ادھر ادھر سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اسلامی پرچم اور اسلامی علامتوں کو عوام کے درمیان سے اٹھا لیں۔ جی نہيں، میرا یہ مطلب نہيں ہے۔ کسی بھی شکل میں اسلامی علامتوں کو کمزور نہيں کیا جانا چاہئے، من یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب اصولی طور پر شعائر کی بنیاد وضعداری، دکھانے، پیش کرنے اور آنکھوں کے سامنے رکھنے پر ہوتی ہے۔ شعائر کو کسی بھی قیمت پر کمزور نہيں کیا جانا چاہئے۔ کچھ لوگ اس بہانے سے کہ ہم ریاکار نہیں ہیں اور دکھاوا نہيں کرنا چاہتے، شعائر اسلامی کو، اسلامی علامتوں کو، اسلامی ظواہر اور نشانیوں کو، اسلامی رنگ کو، اسلامی روئے کو اپنی اور عوام کی زندگی سے نکال دیتے ہيں۔ یہ درست نہیں ہے، میں بالکل اس کی حمایت نہیں کرتا۔ بلکہ اس کے برعکس، میں کہتا ہوں کہ ان چیزوں کے پابند رہیں لیکن بس اتنا خیال رہے کہ اگر مصلی بچھایا جا رہا ہے تو اس پر نماز بھی پڑھی جائے ورنہ اگر انسان جانماز تو بچھائے مگر اس پر نماز نہ پڑھے اور ویسے ہی پڑا رہنے دے تو اس سے کوئی فائدہ نہيں ہے۔
یہ جو کچھ لوگ کہتے ہيں کہ آپ شدت پسند ہیں اور طالبان کی طرح کام کرتے ہيں تو اس قسم کی باتوں پر بہت زيادہ توجہ نہ دیں۔ اس طرح کی باتیں ہمیشہ کی جاتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ ہم طالبان کی طرح کی ہر تحریک و رجحان کے بنیادی و اصولی طور پر مخالف ہيں۔ وہ لوگ تو بنیادی طور پر عقل کے ہی خلاف ہیں، وہ لوگ بنیاد پرست تھے بلکہ جو لوگ عبادت گزار اور فرض شناس لوگوں کے مقابلے پر کمربستہ ہیں وہ لوگ ایک طرح سے زیادہ بنیاد پرست اور طالبانزم کے قریب ہیں۔ کیونکہ ان میں بھی مغربی تعلیمات و ثقافت کے حق میں شدت پائی جاتی ہے۔ جو کچھ بھی مغرب نے کہا ہے اس پر سو فیصدی عمل در آمد ہونا چاہئے! یہ شدت پسندی نہيں تو اور کیا ہے؟ شدت پسندی یہی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ مغرب کی نئی باتیں ہمارے سامنے نہیں کرتے بلکہ انیسویں صدی کی باتیں، پرانی باتیں اور منسوخ شدہ باتیں سماج میں عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، چاہے سیاست کے میدان کی باتیں ہوں یا اخلاقیات کے میدان سے متعلق ہو، یا حکومتی رجحان کے سلسلے میں ہوں، یا دین کے معاملے میں یا پھر معیشت کے میدان میں ہوں، اڑیل رخ اپنا کر کھڑے ہو جاتے ہيں۔ یہ صورت حال تو طالبانزم سے زیادہ قریب ہے۔ اصولی طور پر طالبانزم کا مظہر شدت پسندی ہے، شدت پسندی اور عقل سے دوری، اس کا مظہر یہی ہے۔ ہم عقل استعمال کرنے کی بات کرتے ہیں۔ قرآن نے بنیادی طور پر شروع سے ہی عقل و منطق پر زور دیا ہے۔
ایک دوسری بات جو کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ آپ لوگ ایسا کام کریں کہ آّپ کی خدمات نظر آئيں۔ اصل میں ایسا بھی ہوا ہے کہ کچھ حکومتوں نے کسی میدان میں سرمایہ کاری کی، جو بہت زيادہ بھی نہيں تھی لیکن اس کے اثرات کو عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ایسا بھی ہوا ہے کہ ہم اس سے کئی گنا زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہيں اور یہاں وہاں کہا بھی جاتا ہے کہ فلاں جگہ پر سرمایہ کاری کی گئی ہے، یا زر مبادلہ کے ذخیرہ سے اتنی رقم نکال لی گئ ہے لیکن اس کا کوئی نتیجہ عوام کی زندگی میں نظر نہيں آتا۔ کوشش کریں کہ آپ کی خدمات نتیجہ خیز ہوں۔ یعنی تمام شعبوں اور تمام وزارتوں میں اس سلسلے میں ایک بڑی تبدیلی پیدا کرنی ہوگی۔
اس کے ساتھ ہی جوابدہی کے نظام کو اپنے لئے ناگزیر قرار دیں۔ حقیقی معنوں میں وزیر کو اپنے شعبے میں، وزارت ک دیگر عہدیداروں کو دائرہ کار میں، نائب وزراء کو اپنے دائرہ کار میں جوابدہ ہونا چاہئے۔ یعنی ہر اس غلطی کے بارے میں جو سرزد ہو گئی ہے جواب دینا چاہئے۔ ایسے ضروری کام کے سلسلے میں جسے انجام دیا جانا چاہئے تھا لیکن انجام نہيں دیا جا سکا جوابدہ ہونا چاہئے۔ بہت سے شعبوں میں کوئی غلط کام نہيں ہوتا لیکن غلط یہ ہوتا ہے کہ بہت سے کام انجام دئے جانے چاہئے تھے لیکن انجام نہيں دئے گئے۔ ضروری حد تک کام نہ کرنا بھی ایک قسم کی بدعنوانی ہے۔
ایک اور اہم بات ہے سادہ زیستی پر توجہ۔ جناب احمدی نژاد کا ایک اچھا نعرہ سادہ زیستی کا نعرہ ہے۔ یہ نعرہ بہت اہم نعرہ ہے۔ اسے معمولی نہ سمجھیں۔ ایک یہ صورت ہوتی ہے کہ ہم اپنی ذاتی زندگی میں مثال کے طور پر شاہانہ انداز سے رہتے ہيں۔ یہ ہمارے اور خدا کے درمیان کا مسئلہ ہے، اگر حرام ہے تو حرام ہے، اگر مکروہ ہے تو مکروہ ہے، اگر مباح ہے تو مباح ہے لیکن ایک یہ بھی صورت ممکن ہے کہ ہم عوام کے سامنے شاہانہ ٹھاٹ باٹ کا مظاہرہ کریں، اس میں مباح اور مکروہ کی بات نہيں ہے۔ یہ پوری طرح سے حرام ہے۔ کیونکہ یہ شاہانہ طرز زندگی کو رائج کرنا ہے۔ سب سے پہلے تو ماتحتوں کے درمیان یہ چیز رائج ہوتی ہےاور پھر عوام کو بھی اس سے ترغیب ملتی ہے۔ ہمیں، لوگوں کو اس طرف مائل نہيں کرنا چاہئے۔ ہو سکتا ہے کہ سماج میں کچھ لوگوں کے پاس دولت ہو اور وہ ٹھاٹ باٹ کی زندگی گزاریں ۔ یہ کوئی بری بات نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق اس کی ذات سے ہے۔ لیکن ہمارا ٹھاٹ باٹ پہلی بات تو ہماری جیب سے نہیں ہوتا سرکاری خزانے سے ہوتا ہے اور دوسری بات یہ کہ ہمارا یہ طرز عمل دوسروں کو ترغیب دیتا ہے۔ سچ ہی کہا گیا ہے کہ لوگ اپنے حاکموں کے دین پر ہوتے ہیں۔ یہاں پر حاکم کے معنی بادشاہ کہ ہی نہیں ہیں جو ہم یہ کہیں کہ ہمارے ہاں بادشاہت نہیں ہے۔ جی نہیں، حاکم آپ لوگ بھی ہیں، لوگ ہمارے دین پر ہيں۔
میں نے تاریخ میں پڑھا کہ جب ولید بن عبد الملک خلیفہ بنا تو چونکہ وہ مال و دولت اور ہیرے جواہرات اور قیمتی چیزیں جمع کرنے کا بہت زیادہ شوقین تھا، اس لئے لوگ جب بازار یا گلی کوچے میں ایک دوسرے سے ملتے تھے تو ان کی باتیں اس طرح کی ہوتی تھیں: جناب! آپ وہ کپڑا لے آئے، آپ نے خرید لیا؟ جناب فلاں نگینہ فلاں شخص لے آیا، آپ نے بھی خریدا؟ یعنی عوام سب کے سب آرائشی اور زینت کی اشیاء کی خرید و فروخت کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔ ولید کے بعد سلیمان بن عبد الملک خلیفہ بنا۔ اسے عمارتیں بنانے میں بڑی دلچسپی تھی۔ اسے محلوں کی تعمیر بہت پسند تھی۔ مورخ کا کہنا ہے کہ لوگ یہاں تک کہ جب مسجد میں نماز پڑھنے آتے تھے تب بھی ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ کیا آپ نے اپنے گھر کی تعمیر کا کام مکمل کر لیا؟ دوسرا اسے جواب میں دریافت کرتا تھا کہ جناب آپ نے وہ گھر یا فلاں زمین خرید لی؟ کوئی کہتا: جناب آپ نے دو نئے کمرے بنوا لئے؟ سب لوگوں کی باتیں یہی ہوا کرتی تھیں۔ ان دونوں کے بعد عمر بن عبد العزیز آیا۔ وہ عبادت میں دلچسپی رکھتا تھا۔ مورخ کا کہنا ہے کہ جب لوگ گلی کوچوں میں ایک دوسرے سے ملتے تھے تو کوئی پوچھتا کہ جناب آپ نے کل رجب کی دعا پڑھی؟ کوئی کہتا: وہ دو رکعت نماز پڑھی؟ اس بنا پر ہمارا (حکمراں طبقے کا) رویہ ، ناگزیر طور پر لوگوں کے طرز زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ سادہ زیستی بہت اچھی چیز ہے۔
پیارے بھائیو اور بہنو! آپ کی ذمہ داری بھاری اور کام بہت مشکل ہے۔ اگر اچھی طرح سے کام کریں تو آپ کی پاداش دوگنا ہے لیکن اگر خدانخواستہ غلط کام کریں تو حساب بھی دوگنا لیا جائے گا۔ لہذا اس راستے پر صحیح طور سے چلنے کے لئے اور آنے والے ایک ہزار چار سو پچاس دنوں کو اچھی طرح سے گزارنے کے لئے خود کو خدا سے منسلک کر لیں، ہر روز قرآن پڑھنا نہ بھولیں۔ ہر دن قرآن ضرور پڑھیں! جتنا بھی ہو سکے۔ جو لوگ قرآن کی آیتیں سمجھتے ہيں وہ ان کے معانی پر خوب غور کریں اور جو لوگ نہيں سمجھتے وہ ترجمہ والا قرآن لے لیں کہ خدا کا شکر! بہت سے ترجمے دستیاب ہیں، اسے اپنے پاس رکھیں اور ترجمہ کو دیکھتے جائيں۔ ہو سکتا ہے کہ دس منٹ لگيں اور آپ ایک یا دو صفحے پڑھ لیں لیکن ہر روز پڑھیں۔ اسے اپنی ناگزیر روش قرار دے لیں۔ نشان لگا لیں، دوسرے دن اس کے بعد سے پڑھیں، جہاں تک ہو سکے نماز اور نماز میں ذکر و نوافل کو خاص اہمیت دیں۔ خداوند عالم نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا ہے قم اللیل الا قلیلا نصفہ او انقص منہ قلیلا او زد علیہ و رتل القرآن ترتیلا انا سنلقی علیک قولا ثقیلا یعنی آدھی رات تک جاگتے رہیں یا پھر دو تہائی رات تک جاگیں اور عبادت کریں۔ یہ پیغمبر کے لئے ہے۔ ہم لوگوں کا دل بہت چاہتا ہے کہ ہم اپنے بارے میں ایسی بات کریں۔ کیوں انا سنلقی علیک قولا ثقیلا ہم تمہیں بھاری بات کی تلقین کرنا چاہتے ہيں، ہم تم سے بڑی بات کرنا چاہتے ہيں، اس بنا پر تمہیں خود کو تیار کرنا ہوگا۔
بھاری بوجھ کے لئے ذہنی آمادگی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ذہنی آمادگی یونہی حاصل نہیں ہوتی۔ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ جناب جائيں اپنا دل پاک کریں! یہ بہت اہم ہے۔ بنیادی چیز دل کی طہارت ہی ہے لیکن دل کی پاکیزگی صرف نماز، توسل، خشو‏ع اور ذکر خدا سے ہی ممکن ہے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دل اور روح کو بغیر ان امور کے پاکیزہ کیا جا سکتا ہے تو وہ سخت غلطی پر ہے۔ آدھی رات کو اٹھ کر گڑگڑانے، غور و فکر کے ساتھ قرآن پڑھنے، صحیفہ سجادیہ کی دعائیں پڑھنے سے انسان کا دل پاکیزہ ہوتا ہے۔ ورنہ ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں؛ جناب جائيں جیسے بھی ممکن ہو اپنا دل پاک کریں۔
یہی دعا ہے کہ خداوند عالم ان باتوں کو پہلے تو خود میرے دل پر اثر انداز کرے تاکہ تھوڑا انسان بن جاؤں، اس کے بعد آپ دوستوں، بھائیوں اور بہنوں کے دلوں کو متاثر کرے۔ خداوند عالم انشاء اللہ آپ لوگوں سے راضی رہے اور آپ لوگ اس مدت میں اپنے الہی فریضے کے مطابق عمل کریں اور اس دورانیہ کے خاتمے کے بعد بھی خوش و خرم رہيں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ