مختلف عالمی اور علاقائی تغیرات کے سلسلے میں پارلیمنٹ کی جانب سے اختیار کئے جانے والے موقف کو بالکل درست ٹھہراتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر ملک میں رونما ہونے والے ان اہم ترین سیاسی واقعات اور تغیرات میں کسی بھی موقعے پر پارلیمنٹ سے اندازے کی کوئی غلطی ہوئی ہوتی، یا کوئی موقف طے نہ کرتی یا اس سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے غلط موقف اختیار کر لیتی تو ملک اور انقلاب کو بڑا خسارہ ہو جاتا۔ عالمی سطح کے مختلف سیاسی واقعات کے سلسلے میں، اسلامی جمہوریہ پر دشمنوں کی یلغار کے سلسلے میں پارلیمنٹ پورے استحکام اور مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور اس نے دو ٹوک موقف اختیار کیا جو قابل فخر بات ہے، قابل قدر چیز ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم

خواتین و حضرات آپ سب کو خوش آمدید کہتا ہوں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ آپ برادران و خواہران عزیز کی ہر ہر لمحے کی کوششوں، توجہات اور فرض شناسی پر اجر عظیم عطا فرمائے اور آپ کی توفیقات میں روز افزوں اضافہ کرے۔
پارلیمنٹ کے موقف کی قدردانی
میں شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جناب لاری جانی صاحب ( پارلیمنٹ اسپیکر) کا اس اچھی رپورٹ پر جو انہوں نے پیش کی اور اس صریحی اور روشن موقف کے لئے جو استکباری طاقتوں، امریکہ، دنیا کے توسیع پسندوں اور لن ترانیاں کرنے والی طاقتوں کے سلسلے میں آپ محترم ارکان پارلیمنٹ کی نمائنگی کرتے ہوئے انہوں نے اختیار کیا۔ البتہ یہ باتیں عوامی جذبات کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔ اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہماری قوم کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ ان تین عشروں میں عالمی محاذ بندی، اس محاذ بندی کے مضمرات اور اس کے اہداف کے تئیں اپنے صحیح ادراک کو قائم رکھے بلکہ روز بروز اس فہم و ادراک میں اضافہ کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ قوموں کی ایک بڑی مشکل اس ادراک سے محرومی یا غفلت رہی ہے جس کے باعث عالمی تغیرات اور گوناگوں واقعات میں اسے نقصان اٹھانے پڑتے ہیں اور گہرے سیاسی نشیب و فراز اسے غلط فہمی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ اگر قوموں کی نظر میں عالم سیاست اور عالم معیشت کی وسیع محاذ بندی واضح اور قابل فہم رہے تو وہ اس کے بارے میں پوری آگاہی کے ساتھ غور کر سکیں گی اور اس محاذ بندی کے اہداف ان کے پیش نظر رہیں گے، نتیجے میں دنیا کی استکباری طاقتوں کے حربے کند ہو جائیں گے۔ یہ جو وسیع پیمانے پر پروپیگنڈا آپ دیکھ رہے ہیں، آج استکباری طاقتیں تشہیراتی حربوں کا کتنے وسیع پیمانے پر استعمال کر رہی ہیں؟! ان کا بنیادی ہدف ماحول کو غبار آلود بنانا ہے تاکہ قومیں بصیرت اور آگاہی حاصل نہ کر سکیں اور اگر بصیرت ہے تو اسے قائم نہ رکھ سکیں۔ ہماری قوم نے اپنی بصیرت و آگاہی کی حفاظت کی ہے جس پر قوم کی قدردانی کی جانی چاہئے۔
میں پارلیمنٹ کا بھی شکر گزار ہوں کہ اس نے اپنے اس دورے میں تاحال واضح اور صریحی موقف اختیار کیا اور امید کرتا ہوں کہ دورہ مکمل ہونے تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
اگر ملک میں رونما ہونے والے ان اہم ترین سیاسی واقعات اور تغیرات میں کسی بھی موقعے پر پارلیمنٹ سے اندازے کی کوئی غلطی ہوئی ہوتی، یا کوئی موقف طے نہ کرتی یا اس سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے غلط موقف اختیار کر لیتی تو ملک اور انقلاب کو بڑا خسارہ ہو جاتا۔ عالمی سطح کے مختلف سیاسی واقعات کے سلسلے میں، اسلامی جمہوریہ پر دشمنوں کی یلغار کے سلسلے میں پارلیمنٹ پورے استحکام اور مضبوطی کے ساتھ کھڑی ہو گئی اور اس نے دو ٹوک موقف اختیار کیا جو قابل فخر بات ہے، قابل قدر چیز ہے۔ میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور میری خاص سفارش ہے کہ یہ موقف اسی مضبوطی کے ساتھ اور اسی استحکام کے ساتھ قائم رہنا چاہئے۔ وجہ یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اور عالمی استکبار کے درمیان تنازعہ ایک طویل تنازعہ ہے، مسلسل جاری رہنے والا تنازعہ ہے۔ البتہ اللہ نے چاہا تو یہ سلسلہ ہمیشہ جاری نہیں رہے گا۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اسلامی نظام کا پلہ بھاری ہوتا جا رہا ہے۔ جس دن دشمن پوری طرح مایوس ہو جائے گا، اس کے حملوں کی شدت کم ہو جائے گی اور یہ حملے رفتہ رفتہ ختم ہو جائیں گے لیکن وہ دن آنے تک قوم کی استقامت، قوم کی ممتاز شخصیات کی پائیداری، ضروری اور لازمی ہے۔ اسے جاری رکھنا ہوگا۔ دشمن کے مقابلے میں اسلامی انقلاب کی حکمت عملی کی نازک باتوں اور ظرافتوں کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس وقت انقلاب دشمن عناصر کا منصوبہ کیا ہے۔ ہمیں دشمن کی سازش کا اندازہ لگانا ہوگا، دیکھنا ہوگا کہ وہ کس کوشش میں ہے۔ اگر ہم صحیح اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئے، ہم نے صحیح طریقے سے سمجھ لیا اور دشمن کی اس سازش کے جواب میں اپنے اقدامات کی منصوبہ بندی کر لی تو دشمن کی شکست یقینی ہوگی۔ تمام شواہد و قرائن سے یہ بات ظاہر ہے کہ دشمن نے اس وقت چند بنیادی چیزوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ان میں واضح ترین چیز معیشت کا شعبہ ہے۔ یہ جو ہم نے اس سال کو اقتصادی جہاد کا سال قرار دیا ہے اس کی وجہ یہی ہے۔ ملک کو اقتصادی لحاظ سے زمین بوس کر دینا، معاشی میدان میں ملک کو پسپا کرنا جس کا نتیجہ اقتصاد کا مفلوج ہوکر رہ جانا اور عوام پر مایوسی طاری ہو جانا ہے، دشمن کا بنیادی ہدف ہے۔ یہ بالکل واضح چیز ہے۔ اس بات کو وہ خود اپنی زبان سے کہہ بھی رہے ہیں۔ یہ صورت حال پارلیمنٹ کے لئے، حکومت کے لئے اور مختلف شعبوں میں مصروف کار حکام کے لئے واضح لائحہ عمل کی نشاندہی کرنے کے لئے کافی ہے۔
اداروں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی دشمنوں کی سازش
ایک اور اہم سازش ملک کے انتظامی امور چلانے والے اداروں کے درمیان اختلافات کی آگ بھڑکانا ہے، یہ بھی بالکل واضح ہے اور یہ بھی دشمنوں کی بنیادی سازشوں میں سے ایک ہے۔ اس کو بھی وہ پردے میں رکھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ پوشیدہ رکھنا نہیں چاہتے، وہ چاہتے تو ہیں لیکن یہ سازش چھپائے نہیں چھپتی۔ ان اہم ترین عالمی امور میں دشمن کا طریق کار اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ کرے، کچھ نہ کچھ بولے اسی لئے دشمنوں کی یہ سازشیں خفیہ نہیں رہ پاتیں۔ وہ اختلاف پھیلانا چاہتے ہیں۔ جس طرح بھی ممکن ہو وہ اختلاف پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لہذا ہمیں بیدار رہنا چاہئے۔ پسند نا پسند کا اختلاف، مزاج کا اختلاف اور سیاسی امور میں طرزفکر کا اختلاف ملک کے اہم حلقوں اور اہم ہستیوں کے درمیان تنازعے میں تبدیل نہیں ہونا چاہئے۔ سنہ دو ہزار نو میں (صدارتی انتخابات کے بعد) رونما ہونے والے فتنے کے ذمہ داروں کا گناہ عظیم، اگر ہم حسن ظن سے کام لیتے ہوئے یہ مان لیں کہ ان کے ذہن میں کوئی شبہ پیدا ہو گیا تھا، یہ تھا کہ انہوں نے اپنے اس شبہے کو اسلامی نظام کے لئے ایک چیلنج میں تبدیل کر دیا۔ یہ گناہ عظیم قابل بخشش نہیں ہے۔ اس کے اثرات اب بھی معاشرے میں موجود ہیں۔ البتہ ہمارے عوام بیدار ہیں۔ عوام کے اندر فہم و بصیرت کی یہ سطح باعث بنتی ہیں کہ اس طرح کے بہت سے واقعات رفتہ رفتہ فراموش کر دئے جائیں اور ان کے اثرات بھی زائل ہو جائيں لیکن ان لوگوں نے اسی مقصد کے لئے ضرب لگائی، ایک طوفان کھڑا کر دیا، ایک دوسرے سے الجھ پڑے۔ گہرے اختلافات پیدا کرنا بڑا مذموم فعل ہے، انتہائی قابل سرزنش عمل ہے۔ یہ دشمن کی خواہش کے عین مطابق فعل ہے۔
آپ نے (پارلیمنٹ) مجلس شورائے اسلامی میں اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پارلیمنٹ میں کس رکن کا تعلق کس سیاسی حلقے سے ہے، اس کا سیاسی نظریہ کیا ہے۔ اس سے کوئي فرق نہیں پڑتا۔ یہ ملکی سالمیت کے دفاع کا معاملہ ہے، انقلاب کے دفاع کا معاملہ ہے، اسلام کے دفاع کی بات ہے، عظیم ملت ایران کی محنتوں کے ثمرات کی حفاظت کا مسئلہ ہے۔ یہ تمام سیاسی حلقوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو بیگانے ہیں، غیر ہیں۔
دشمن کے دیگر بنیادی اقدامات میں سے ایک اسلامی عقائد اور اسلامی جذبات کو کمزور کرکے الحادی نظرئے اور اسلامی نما غلط افکار کی ترویج ہے۔ یہ دشمنوں کی پالیسی کا حصہ ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی فکریں بدلنے کے لئے وہ بڑے پیمانے پر رقم خرچ کرکے تشہیراتی اداروں کی مدد سے اور ہمہ گیر کوششوں کے ذریعے اپنا کام کر رہے ہیں۔ البتہ نشانہ صرف ہمارے نوجوانوں کو ہی نہیں بنایا جا رہا ہے۔ اس وقت ان عرب ممالک میں انقلاب آ رہے ہیں تو یہاں بھی وہی سب کچھ دہرایا جا رہا ہے۔ وہاں بھی بڑے پیمانے پر بجٹ خرچ کیا جا رہا ہے۔ قاہرہ کے ایک اسکوائر پر یا تیونس کے ایک اسکوائر پر جمع ہوکر انقلاب برپا کر دینے والے نوجوانوں کی فکروں کو بدلنے کے لئے اربوں ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں۔ یہ واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ یہ کوئی اندازہ اور تجزیہ نہیں ہے، یہ مصدقہ رپورٹ ہے۔ دشمن پوری طرح مصروف ہے، اپنی پوری توانائی سے کام کر رہا ہے۔ اخلاقی برائیاں پھیلائی جا رہی ہیں، فحاشی کی ترویج کی جا رہی ہے۔ عقائد میں شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔
دشمن نے اسلامی نظام، اسلامی تحریک اور اسلامی بیداری کے لئے ایک جامع اور پہلو دار منصوبہ بھی تیار کیا ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے پاس اس منصوبے سے نمٹنے کی ضروری توانائي موجود ہے۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں۔ ہمارے درمیان جو ٹھوس اور قوی اعتقادی، فلسفیانہ اور دینی سرمایہ بالفعل موجودہ ہے۔ با صلاحیت اور رغبت رکھنے والی افرادی قوت کے سہارے اسلامی جمہوری نظام میں مقابلے کی بھرپور طاقت موجود ہے۔ چنانچہ ان بتیس برسوں میں ہم نے کامیابی سے مقابلہ کیا اور اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مسلسل کوششیں ہوئیں، منصوبہ بندیاں کی گئیں، خود ان کے بقول تھنک ٹینک اپنے کاموں میں مصروف رہے۔ پیسے خرچ کئے گئے، مسلسل منصوبے پیش کئے گئے، افراد کو منصوب کیا گيا، لوگوں کو مامور کیا گیا، آمد و رفت کا سلسلہ شروع کیا گيا۔ سفارتی شعبے میں جو بھی ممکن تھا انہوں نے کیا لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ اسلامی جمہوریہ نے مسلسل پیش قدمی کی اور دشمنوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ البتہ اگر ہماری بعض کوتاہیاں نہ ہوتیں، بعض اخلاقی کمزوریاں یا یوں کہیں کہ بد اخلاقیاں نہ ہوتیں تو ہم اور بھی آگے پہنچ چکے ہوتے۔ ظاہر ہے کہ ہمارے اندر بھی خامیاں ہیں لیکن ان خامیوں کے باوجود ہم واضح اور نمایاں طور پر آگے بڑھ چکے ہیں اور دشمن کی پسپائی بالکل آشکارا طور پر نظر آ رہی ہے۔ ریگن کے دور کے امریکہ اور اوباما کے دور کے امریکہ میں زمین آسمان کا فرق آ چکا ہے۔ اسی طرح انیس سو اسی کے عشرے کی اسلامی جمہوریہ کی نسبت دو ہزار گیارہ کی اسلامی جمہوریہ بھی بہت بدل چکی ہے۔ ہم نے مسلسل پیش قدمی کی ہے اور وہ پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ بنابریں ہمارے اندر مقابلے کی صلاحیت موجود ہے۔ تاہم یہ اندیشہ بھی موجود ہے کہ کہیں ہم غفلت کا شکار نہ ہو جائيں یا اپنی طاقت پر ہمیں گھمنڈ نہ ہونے لگے۔ یہ دونوں ہی چیزیں بہت خطرناک ہیں۔ نہ غفلت کا شکار ہوکر فروعی اور ذیلی امور میں الجھنا چاہئے اور نہ گھمنڈ کا شکار ہوکر دشمن کو معمولی اور چھوٹا سمجھنا چاہئے۔ ہمیشہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو فردا فردا اس نصیحت پر توجہ دینا چاہئے۔ یعنی پارلیمنٹ میں آپ دو سو نوے ارکان میں ہر ایک فرد اس خطاب الہی اور اس فریضہ الہی کے لئے مخاطب قرار دیا گيا ہے۔ بہت ہوشیار رہئے۔ حکومت کی بھی یہ ذمہ داری ہے، عدلیہ کے حکام کی بھی یہ ذمہ داری ہے، ملک کے مختلف شعبوں کے حکام کی بھی یہ ذمہ داری ہے، فوجی عہدیداروں کی کسی انداز سے، شہری شعبوں کے حکام کی کسی اور انداز سے، عوام کی کسی الگ انداز سے، سب کی ذمہ داریاں ہیں۔ ہم سب کی ذمہ داریاں ہیں، تاہم حکومتی عہدیداروں کی ذمہ داریاں معین شدہ، واضح اور طے شدہ ذمہ داریاں ہیں۔ میں اپنے کاموں کے سلسلے میں، آپ اپنے کاموں کے سلسلے میں، دوسرے افراد بھی اپنے اپنے کاموں کے سلسلے میں (جوابدہ ہیں)۔

شخصی اور اجتماعی تقوی
ہمارے دوش پر بڑی سنگین امانت ہے۔ اللہ تعالی نے امانت کا یہ بوجھ ہمارے دوش پر رکھا ہے۔ یہ اختیاری مسئلہ نہیں ہے کہ ہم کہہ دیں کہ ہمیں یہ امانت نہیں چاہئے۔ اس امانت کو ہمیں پوری امانت داری کے ساتھ بحفاظت منزل تک پہنچانا ہے۔ ہم جو عمل بھی انجام دے رہے ہیں، خواہ وہ سیاسی عمل ہو، اقتصادی عمل ہو، فکری کام ہو، انتظامی امور ہوں، جو بھی کام ہو اسی طرز‌ فکر کے ساتھ انجام دیا جانا چاہئے۔ اگر ہم نے اس طرز فکر کے بغیر کام کیا تو یہ اندیشہ ہے کہ ہمارا عمل ان اہداف سے الگ کسی اور سمت میں مڑ جائے، جس پر اللہ ہمارا مواخذہ کرے۔ اللہ تعالی اس قسم کے بڑے گناہوں کو کبھی معاف نہیں کرتا۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے متعدد مواقع پر سماجی گناہوں اور سیاسی خلاف ورزیوں کے سلسلے میں اسی طرح کے جملے استعمال کئے ہیں۔ یہ ایسا گناہ ہے جسے اللہ تعالی ہرگز معاف نہیں کرے گا، کیونکہ اس کی توبہ آسانی سے قبول نہیں ہوتی۔ انسان کسی بھی گناہ کے بعد صدق دلی سے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے معاف کر دیتا ہے لیکن اگر انسان سے کوئی ایسا عمل سرزد ہو جائے، اس کا وار ایسا ہو جو پوری قوم کو زخمی کر دے تو اس کی توبہ کیسے قبول ہو سکتی ہے؟ اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ کہاں ممکن ہے کہ انسان اس ضرب سے متاثر ہونے والے افراد سے جاکر فردا فردا معافی مانگیں؟ بنابریں اللہ تعالی اس قبیل کے گناہوں کو ہرگز معاف نہیں کرتا۔ ہماری اور آپ کی پوزیشن کی نزاکت اسی وجہ سے ہے۔
علاقائی مسائل، عالمی تغیرات اور ملکی امور کے سلسلے میں نقطہ نگاہ اور موقف کا مسئلہ ہے جس کے سلسلے میں میں نے عرض کیا کہ پارلیمنٹ اور حکومت نے اس کی بابت بڑی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، استقامت و ثابت قدمی کا ثبوت دیا ہے۔ مختلف مواقع پر ملک کے حکام علاقے میں چھائے شور و غل سے بالاتر ہوکر انقلاب کی دلوں میں اتر جانے والی آواز علاقے کے عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ دشمن نے جو شور شرابا مچا رکھا ہے اس کے باوجود ملت ایران اور ملک کے حکام نے اپنی درست، منطقی اور سنجیدہ باتیں لوگوں کے گوش گزار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بحمد اللہ یہ عمل انجام پایا ہے اور انجام پاتا رہے گا۔
میدان جنگ کا یہی عالم ہوتا ہے۔ انسان ضرب لگاتا ہے تو اسے وار روکنے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ دشمن خاموش تو بیٹھنے والا نہیں ہے۔ وہ بھی وار کرے گا۔ اس عظیم عالمی میدان میں انسان کو چاہئے کو خود کو میدان جنگ میں کھڑے سپاہی کی حیثیت سے دیکھے۔ یہاں صلح و آشتی و مفاہمت کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔ جن گوشوں سے نرم لہجہ سنائی دے رہا ہے وہاں بھی اس نرمی کے پیچھے خنجر چھپا ہوا ہے اور بس یہی انتظار ہے کہ ذرا سی غفلت ہو اور خنجر کو قبضے تک حریف کے سینے میں اتار دیا جائے۔ لہذا بیدار رہنا چاہئے، ہوشیار رہنا چاہئے۔ یہ ہوشیاری اور بیداری موجود ہے۔ میری سفارش یہ ہے کہ اسے آپ قائم رکھئے، محفوظ رکھئے۔
میں یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ اجتماعی تقوے کا مقام ہے۔ ایک ہوتا ہے شخصی تقوی جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان ہمیشہ اپنے اعمال اور حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھے۔ کامل تقوا یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے اعمال کی نگرانی کرتا رہے۔ بالکل اس انسان کی طرح جو کانٹوں سے بھرے کسی راستے پر انتہائی چوکسی اور احتیاط کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ یہ مثال روایات میں بھی ذکر کی گئی ہے اور علمائے کرام کے اقوال میں بھی نظر آتی ہے۔ ہمیشہ حواس بجا رہنے چاہئے۔ ہمیشہ قدم رکھنے کی جگہ کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ اگر آپ نے غفلت برتی تو کانٹا چبھ جائے گا۔ آپ کے لباس کو پارہ پارہ کر دے گا۔ آپ کے پاؤں کو لہولہان کر دےگا۔ تقوی کو کانٹوں کی وادی میں احتیاط سے قدم رکھنے سے تعبیر کیا گيا ہے۔ یہ شخصی تقوی ہے جو اپنی جگہ پر انتہائی اہم اور ضروری ہے۔ فلاح و کامرانی کے حصول کا واحد راستہ یہی ہے۔ کسی کو فلاح اور کامرانی چاہئے، نجات ابدی کی تمنا ہے تو اسے خود کو تقوے سے آراستہ کرنا چاہئے۔ تقوے کی کیفیت جیسے جیسے بڑھتی جائے گی فلاح و کامیابیوں میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔
اجتماعی تقوی بھی ہوتا ہے۔ اجتماعی تقوی یہ ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ اور مجموعہ اسی انداز سے احتیاط کرے۔ افراد بحیثیت ایک مجموعے کے بھی اعمال کی نگرانی کریں۔ اگر اجتماعی کاموں کے سلسلے میں متعلقہ مجموعے نے عدم احتیاط کی تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس مجموعے میں اگر کچھ افراد شخصی تقوے سے مزین ہیں تو وہ بھی اس اجتماعی فعل میں آلودہ ہوکر ایسی منزل پر پہنچ جائیں گے جہاں وہ ہرگز خود کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ ان تیس برسوں میں ہمیں اس طرح کی بہت سی ضربیں کھانی پڑی ہیں۔ جن جگہوں پر ہم سے کوتاہی ہوئی ہے ان میں ایک یہی چیز ہے۔
گزشتہ عشروں میں ملک کے اندر بائیں محاذ کے نام سے ایک سیاسی جماعت وجود میں آئی۔ ان کے نعرے بڑے پرکشش تھے لیکن وہ اپنے اعمال کی نگرانی نہیں کر پائے اور اجتماعی تقوے کے مرحلے میں ان سے لغزش ہو گئی۔ ان کے اندر ایسے افراد تھے جو شخصی طور پر متقی انسان تھے لیکن اجتماعی تقوی ان کے پاس نہیں تھا جس کے نتیجے میں نوبت یہاں تک پہنچی کہ امام حسین علیہ السلام، اسلام، امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور انقلاب سے دشمنی رکھنے والی قوتیں انہیں استعمال کرنے لگیں۔ ان لوگوں نے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور انقلاب کے خلاف آواز نہیں اٹھائی لیکن امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اور انقلاب کے خلاف نعرے بلند کرنے والی طاقتوں کے لئے انہوں نے بیساکھی کا کام ضرور کر دیا۔ وہ آلودہ ہوتے چلے گئے۔ چنانچہ اجتماعی تقوی بھی ضروری ہے۔ میں نے گزشتہ سال آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے اندر آپ اپنی نگرانی آپ کے اصول پر عمل کیجئے۔ یہی اجتماعی تقوا ہے۔ مجموعے کو چاہئے کہ خود اپنی نگرانی رکھے۔ گوشہ و کنار سے یہ آوازیں بھی جوابا سنائی پڑیں کہ رکن پارلیمنٹ کو آزاد رہنا چاہئے! رکن پارلیمنٹ کی آزادی کا کوئی بھی مخالف نہیں ہے لیکن رکن پارلیمنٹ کی کج رفتاری کی مخالفت بیشک ہونی چاہئے۔ کیونکہ ممکن ہے کہ ایک رکن پارلیمنٹ کی کج روی سے پوری پارلیمنٹ کو بدنامی اٹھانی پڑے، اس پر انگشت نمائی ہونے لگے۔ کیا یہ افسوس کی بات نہیں ہوگی؟ پارلیمنٹ کی اپنی خاص عظمت ہے۔ یہ ملک کا بنیادی آئینی ادارہ ہے۔
اسلامی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کی اہمیت
انقلاب کے شروعاتی دور کی بات ہے کہ ہم امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ ہمارے درمیان جو بزرگ حضرات تھے ان میں سے ایک کا نام صدر جمہوریہ کے عہدے کے لئے پیش کریں۔ ہمارا ارادہ تھا کہ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) اگر موافقت کر دیں تو پھر ہم جمہوری اسلامی پارٹی کے اندر بھی انہیں صدر جمہوریہ کے عہدے کے لئے پیش کریں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے کسی وجہ سے موافقت نہیں کی اور ہم سے فرمایا کہ آپ لوگ پارلیمنٹ کی طرف جائیے، پارلیمنٹ زیادہ اہم ہے۔ بانی انقلاب اور اسلامی نظام کے معمار کی نظر میں پارلیمنٹ کا یہ مقام ہے! بنابریں اس ادارے کے وقار کو قائم رکھنا چاہئے، اس کی شبیہ کو درخشاں رکھنا چاہئے۔ اپنی نگرانی آپ کے اصول پرعمل ضروری ہے۔ اگر یہ نگرانی نہ رہے گی تو مشکلات پیش آئیں گی۔ آپ خود بھی اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ میں نے گزشتہ سال اس سلسلے میں‎ سفارش کی تھی۔ حال میں اس تعلق سے کچھ چھوٹے موٹے کام انجام دئے گئے ہیں لیکن اس عمل کی جو اہمیت ہے وہ ابھی اسے حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ یہ نظارت اجتماعی تقوے سے عبارت ہے۔
پارلیمنٹ میں مختلف سیاسی مزاج اور مختلف نظریات کے لوگ موجود ہیں۔ میں یہ اصرار نہیں کرتا کہ سارے سیاسی حلقے آپس می ضم ہو جائیں اور ایک بڑا حلقہ بن جائے۔ بالکل نہیں، مزاج کا اختلاف، پسند کا اختلاف، فکر کا اختلاف، سیاسی نظریات کا اختلاف پایا جاتا ہے اور یہ فطری امر ہے۔ یہ پسند نا پسند کا اختلاف بہت سے مواقع پر بہت مفید واقع ہوتا ہے، البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی کبھی ضرر رساں بھی ثابت ہو۔ اس پر اصرار نہیں ہے کہ یہ تنوع ختم کر دیا جائے۔ اصرار سب سے پہلے تو اسی بات پر ہے جو میں عرض کر چکا ہوں کہ آپس میں دست و گریباں نہ ہوں۔ مزاج اور پسند کا اختلاف تنازعے، کشمکش، رنجش اور با قاعدہ ایک بڑے چیلنج پر منتج نہ ہو، امریکہ کی ریشہ دوانیوں سے غفلت کا باعث نہ بنے۔ بد قسمتی سے بعض سیاسی حلقے اسی مزاج کے ہیں۔ جب وہ کسی سیاسی حلقے کے مخالف بن جاتے ہیں تو پھر امریکہ کی دشمنی بھول جاتے ہیں، اسرائیل ان کے ذہن سے نکل جاتا ہے، دشمنان انقلاب اور دشمنان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کو فراموش کر دیتے ہیں اور مد مقابل سیاسی حلقہ کی دشمنی ان کے اعصاب پر سوار ہو جاتی ہے۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اس طرح کا جھگڑا اور دشمنی نہیں ہونی چاہئے۔ دوسری چیز جس پر میں خاص تاکید کروں گا یہ ہے کہ آپ آپس میں اپنے اندر اپنی نگرانی رکھیں، اپنے اعمال کی نظارت کریں۔ اپنی سیاسی جماعت کو غلط راستے پر نہ جانے دیں۔ ان سیاسی جماعتوں کے اندر اچھے افراد کی کمی نہیں ہے لیکن جب سیاسی پارٹی غلط رخ پر چل پڑتی ہے تو اس کے اچھے افراد بھی اسی سمت میں گھسیٹ لئے جاتے ہیں۔ یہ بالکل واضح اور فطری چیز ہے۔
کارکردگی کے آخری سال میں بے عملی سے اجتناب
ایک اور اہم نکتہ میں عرض کرنا چاہوں گا کیونکہ یہ سال اس پارلیمنٹ اور اس کے ارکان کا آخری سال ہے آپ بہت خیال رکھئے کہ اسی سال کے آخری مہینے اسفند (فروری- مارچ) میں منعقد ہونے والے انتخابات کی وجہ سے باقی ماندہ دس مہینوں میں پارلیمنٹ کی کارکردگی میں کوئی کمی نہ واقع ہو۔ اس بات کا اندیشہ ہے کہ بارہ اسفند کے انتخابات پر محترم ارکان پارلیمنٹ کی توجہ اس طرح مرکوز ہو جائے کہ آج سے بارہ اسفند تک کے درمیانی وقفے میں تمام ضروری کام حاشئے پر چلے جائیں۔ میری خواہش یہ ہے کہ ایسا بالکل نہ ہونے پائے۔ میں نے سبھی حکومتوں سے یہ سفارش کی کہ ان کے دورے کا آخری سال بے عملی کا شکار نہ ہونے پائے۔ پارلیمنٹ کے سلسلے میں یہ چیز اور بھی زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ اس کی بے توجہی کے خطرات زیادہ ہیں۔
سرمایہ داروں کی خوشآمد سے گریز
ایک اور اہم مسئلہ سرمایہ داروں اور با اثر افراد کی قربت حاصل کرنے کا ہے۔ میں یہ بات آپ سے بغیر کسی تکلف کے عرض کرنا چاہوں گا۔ ہم آپس میں بھائي بھائی ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو حق و صداقت اور خیر و نیکی کی سفارش کرنا چاہئے۔ یہ بہت خطرناک چیز ہے کہ کوئي شخص پارلیمنٹ کے ایک دورے کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے سرمایہ داروں کی قربت حاصل کرنے اور بااثر افراد کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ یہ بہت بری چیز ہے۔ یہ فعل ایسے گناہوں کے زمرے میں آتا ہے جسے اللہ تعالی ہرگز معاف نہیں کرتا بلکہ اس کا انتقام ضرور لیتا ہے۔ اس کا منفی اثرا خود اس شخص پر، اس کے انجام پر، ظاہر ہے کہ ہر شخص اچھے انجام اور عاقبت کا متمنی ہوتا ہے، اسی طرح معاشرے پر پڑتا ہے۔
نظارتی سسٹم سے متعلق بل جس کی کلی باتوں کو منظوری دے دی گئی ہے، اس طرح سے تیار کیا جانا چاہئے کہ اس سے حقیقی معنی میں نگرانی کے تقاضے پورے ہوں۔ یعنی کچھ لے دیکر معاملے کو رفع دفع کر دینے کا گنجائش نہ ہو۔ آپ ایسا انتظام کیجئے کہ پارلیمنٹ کے اندر سے ہی ایک حقیقی چشم تیز بیں وجود میں آئے۔ ایسا نہ ہو کہ رواداری کے باعث یہ عمل متاثر ہو جائے۔
مقننہ اور مجریہ کے باہمی تعاون کی ضرورت
ایک اور اہم بات جس پر عموما تاکید کرتا رہتا ہوں مجریہ کے ساتھ بھرپور تعاون ہے۔ مجریہ کے ساتھ بھی اور عدلیہ کے ساتھ بھی۔ تاہم مجریہ کے ساتھ اس کی اور بنیادی اہمیت ہے کیونکہ پارلیمنٹ کا زیادہ سروکار مجریہ سے رہتا ہے تو بھرپور باہمی تعاون ہونا چاہئے۔ امور کو اس انداز سے نہیں آگے بڑھانا چاہئے کہ تنازعے اور اختلاف پیدا ہوں۔ اس چیز کا عوام پر بڑا منفی اثرا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی دیکھنے میں آتا ہے کہ پارلیمنٹ میں کسی نے اپنے بیان میں کوئی بات کہی۔ اب زبان سے نکلی ہوئی بات تو واپس آنے والی نہیں ہے۔ اگر اس بیان میں خدانخواستہ کسی شخص یا گروہ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے تو اس کی تلافی آسانی سے ممکن نہیں ہوگی۔ یہ باتیں عوامی صفوں میں مایوسی پھیلنے کا باعث بنیں گی۔ آج حکام محنت کر رہے ہیں، کام کر رہے ہیں۔ آپ بار بار یہ نہ کہئے کہ فلاں خامی ہے، فلاں کمی برطرف نہیں ہوئی۔ مجھے بھی خامیوں کی اطلاع ہے۔ مجھے تو شاید ایسی بھی بہت سی خامیوں کا علم ہو جن سے دیگر افراد واقف نہیں ہیں۔ ان سب خامیوں کے باوجود آج مجریہ کی کارکردگی پسندیدہ شکل میں نظر آ رہی ہے۔ ملک میں کام سرانجام پا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے لئے تعاون کی ضرورت ہے، مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ پارلیمنٹ حکومت کی مدد کرے اور حکومت پارلیمنٹ سے تعاون کرے۔ قانون حکومت کے طریق کار کے لئے قول فیصل کا مرتبہ رکھتا ہے اور مجریہ کی نشاندہی اور رجحان اشارہ ہوتا ہے قانون سازی کے لئے۔ اس سے پارلیمنٹ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔ میں رکن پارلیمنٹ بھی رہ چکا ہوں اور حکومت کی قیادت کے فرائض بھی انجام دے چکا ہوں۔ مجھے دونوں جگہوں کا تجربہ ہے اور ان برسوں میں مختلف پارلیمانوں کا بھی میں نے مشاہدہ کیا ہے اور کئی حکومتوں کو بھی دیکھا ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایک پارلیمنٹ ایک صحیح، درست، مضبوط اور مدلل قانون اس طرح سے تیار کرے کہ حکومت کے لئے اس قانون پر عمل کرنا آسان ہو، اس کے امکان میں ہو۔ اس انداز سے قانون سازی پارلیمنٹ کی آزادی سے کسی طرح کا تضاد نہیں رکھتی۔ بعض ایسے افراد جو اس پارلیمنٹ کی نابودی کے خواہشمند ہیں آج بظاہر اس کی آزادی عمل کے سب سے بڑے حمایتی بن گئے ہیں۔ صاحب! پارلیمنٹ کو پوری آزادی حاصل رہنا چاہئے۔ پارلیمنٹ کی آزادی اور اس عمل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ انسان یہ دیکھے کہ مجریہ کس طرح عمل کر سکتی ہے، کس طرح بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے، کس طرح اسے آسانی ہوگی؟ اسی طرح قانون سازی کی جائے اور قانون کو وہی رخ عطا کیا جائے۔ یہ ہو سکتا ہے، اس میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ جب قانون بن گيا، ابلاغ کا مرحلہ طے ہو گيا تو حکومت کا بھی فریضہ ہے کہ اپنے پورے وجود سے، پوری توانائی سے بغیر کسی بہانے بازی کے اس قانون پر عمل کرے۔ یعنی دونوں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں، ایک دوسرے کو کمک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ ضروری بھی ہے اور اس پر عمل ہونا چاہئے۔ اگر دونوں طرف سے بہانے تراشے جانے لگیں۔ ایک فریق نے کہا کہ نہیں، چونکہ حکومت اس قانون کو اس شکل میں دیکھنا چاہتی ہے تو ہم یہ کام نہیں کریں گے، دوسرے فریق نے کہا کہ اس قانون میں فلاں خرابی ہے اس لئے ہم اس کو نہیں مانیں گے۔ اس طرح تو نہیں ہو سکتا۔ اس طرح تو ملک چلنے سے رہا۔ باہمی رفاقت کا ماحول ہونا چاہئے، مدارات، باہمی تعاون اور مدد ضروری ہے۔ رفاقت کے سلسلے میں روایات بھی ہیں۔ رفاقت کا مطلب ہوتا ہے سازگار ہونا، انسان خود کو دوسروں کے لئے سازگار بنائے۔ صرف دشمن ہے جس کے لئے خود کو سازگار بنانا درست نہیں ہے۔ دوست کے لئے انسان کو چاہئے کہ خود کو سازگار بنائے۔ تحمل اور برداشت کا جذبہ ہونا چاہئے۔ ایک فریق دوسرے کی باتوں کو تحمل کرے، دوسرا فریق پہلے کی باتوں کو برداشت کرے۔ انتخابات نزدیک ہیں۔ انتخابات کی خاص اہمیت ہے۔ انتخابات اسلامی جمہوری نظام کا اہم مظہر ہیں۔ دشمنوں کو ہمیشہ مایوس کرتے ہوئے ہم نے بحمد اللہ انتخابات کو معینہ وقت پر منعقد کیا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ سنہ انیس سو اناسی میں پہلی دفعہ انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اس وقت سے لیکر آج تک اکتیس بتیس انتخابات ہمیشہ معینہ وقت پر منعقد ہوئے۔ دشمنوں نے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا کہ کسی صورت ایک دفعہ ہی سہی پارلیمانی انتخابات کو موخر کروا دیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ بڑی طاقتوں نے مجلس شورائے اسلامی کے انتخابات کو موخر کروانے کے لئے آپس میں ساز باز بھی کی لیکن وہ بھی کچھ نہیں کر سکیں۔ ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، بحثوں کا بازار گرم ہوا، باتیں بنائي گئیں، اخباروں کے ذریعے ہنگامہ آرائی ہوئی، دستخطوں کا طومار تیار کیا گيا، حکومتی عہدیداروں کو بھی تیار کر لیا لیکن الحمد للہ وہ اپنا مقصد پورا نہیں کر سکے، انشاء اللہ آئندہ بھی ان کے عزائم پورے نہیں ہوں گے۔ انتخابات بہت اہم ہیں۔ انتخابات ہمارا طرہ امتیاز ہے، دینی جمہوریت کا مظہر ہے۔ انتخابات کا انعقاد شاندار طریقے سے ہونا چاہئے۔ اس سے قبل مختلف مواقع پر جو بد اخلاقیاں کی جاتی ہی ہیں، انتخابات سے قبل جو چہ میگویاں ہوتی رہی ہیں وہ اس دفعہ بھی انتخابات سے قبل نظر آئیں گی کہ صاحب! انتخابات میں گڑبڑ کا اندیشہ ہے، ایسا ہوگا ویسا ہوگا۔ اب تک انتخابات بحمد اللہ پوری شفافیت کے ساتھ منعقد ہوتے رہے اور انشاء اللہ آئند بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ انتخابات کو ابھی خاصا وقت باقی ہے لیکن میں ابھی سے یہ سفارش کرنا چاہوں گا کہ ملک کے حکام پوری طرح ہوشیار رہیں، انتخابات کے وقار کو قائم رکھیں۔ اس مسئلے میں اگر کوئی مداخلت کرتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔ عوام کو قانونی روش کے مطابق سمجھنے اور تشخیص دینے کا موقعہ فراہم کیا جانا چاہئے۔
اپنی تعریف کئے جانے پر رد عمل
میرے معروضات اپنے اختتام کو پہنچے۔ بس ایک بات یہ عرض کر دوں کہ ہمارے ایک برادر عزیز نے جناب لاری جانی (پارلیمنٹ کے اسپیکر) کی تقریر کے بعد کچھ باتیں کہیں( ایک رکن پارلیمنٹ کی تقریر کی طرف اشارہ ہے جنہوں نے قائد انقلاب اسلامی کے لئے تعریفی کلمات کہے تھے) اس طرح کی باتوں سے مجھے شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ انہوں نے محبت اور خلوص میں یہ باتیں کہی ہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن اس طرح کی باتیں میرے لئے بھی ضرر رساں ہیں اور خود بیان کرنے والے کے لئے بھی نقصان دہ ہیں۔ یہ باتیں اس طرح سے بیان نہیں کی جانی چاہئے۔ جب ہم اتفاق سے ایک سسٹم کے تحت ایک جگہ پر جمع ہیں، ایک ساتھ کوئی کام کر رہے ہیں، میں کوئی کام انجام دے رہا ہوں اور آپ کوئی اور کام سر انجام دے رہے ہیں تو اس قسم کی باتیں پسندیدہ نہیں ہوتیں اور ان سے کام کی پیشرفت میں بھی کوئی مدد نہیں ملتی۔ ہم سب اللہ کے بندے ہیں اور انشاء اللہ ہمیں عوام کے اچھے خدمت گزار بننے کی توفیق حاصل ہوگی۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہم سب کو اپنے فضل و کرم سے نوازے۔

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته