قائد انقلاب اسلامی نے قدرت اور عمومی اعتماد کو عدلیہ کے لئے لازمی دو اہم ستونوں سے تعبیر کیا اور فرمایا کہ تینوں شعبوں (عدلیہ، مقننہ، مجریہ) اور خاص طور پر عدلیہ کے حکام کے اعداد و شمار، رپورٹوں اور کارکردگی پر سوالیہ نشان لگانے کے لئے کسی بھی طرح کا اقدام بالکل غلط، عمومی اعتماد کے منافی اور ملکی مفادات کے برخلاف ہے۔ اس ہم نکتے پر تمام حکام، بااثر افراد اور ذرائع ابلاغ کی توجہ ہونا چاہئے۔
ایران میں جمہوری اسلامی پارٹی کے دفتر میں اٹھائيس جون سنہ انیس سو اکیاسی کو ہونے والے دہشت گردانہ دھماکے کی برسی کی مناسبت سے منعقدہ اس سالانہ اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے سانحے کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ اس حملے میں عدلیہ کے سربراہ آيت اللہ بہشتی اور بہتر دیگر انقلابی رہنما شہید ہو گئے تھے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اٹھائيس جون کا واقعہ واقعی ایک بڑی آزمائش تھی لیکن ملت ایران نے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) سے ملنے والی بصیرت اور صبر و ضبط کی طاقت کے ساتھ اس آزمائش کو نعمت میں تبدیل کر دیا اور طوفان کا رخ دشمنوں کی جانب موڑ دیا۔
قائد انقلاب اسلامی نے عدلیہ کے محکمہ جاتی امور پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ عمومی اعتماد اور قدرت و استحکام عدلیہ کے دو بنیادی ستون ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم

بہت بڑا سانحہ
سب سے پہلے تو میں تمام بھائیوں، بہنوں، عدلیہ کے عہدیداران، کارکنان، جج صاحبان سات تیر (مطابق اٹھائیس جون) کے سانحے کے شہداء کے معزز و معظم خاندانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں عدلیہ کے سربراہ جناب آملی کا شکرگزار ہوں جنہوں نے اپنی پرمغز اور عالمانہ رپورٹ میں عدلیہ کے تعلق سے انتہائی اہم نکات پر روشنی ڈالی اور عدلیہ کی سطح پر جو قابل تحسین اقدامات انجام دئے گئے ہیں ان سے عوام کو باخبر کیا۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ عدلیہ کے سربراہ اور شعبے میں مختلف سطح کے ان کے معاونین کار کی توفیقات میں اضافہ کرے اور اس نورانی اور پرخیر و برکت سفر کو جاری رکھنے میں ان کی مدد فرمائے۔ محترم کی ذات سے جو بحمد اللہ علم و خلاقیت اور جوش و جذبے کے لحاظ سے نمایاں مقام پر فائز ہیں، ہمیں یہی توقع بھی ہے۔ خداوند عالم سب کی زحمتوں کو درجہ قبولیت عطا فرمائے۔
صبر و بصیرت سے آزمائش نعمت میں تبدیل ہو جاتی ہے
کچھ باتیں اٹھائیس جون کی تاریخ میں رونما ہونے والے سانحے کے بارے میں عرض کرنا چاہوں گا اور چند جملے عدلیہ کے تعلق سے حاضرین کی خدمت میں پیش کروں گا۔ اٹھائیس جون کا واقعہ در حقیقت ایک سخت آزمائش کی گھڑی تھی۔ یہ واقعی ملک اور نظام کے لئے ایک کاری ضرب تھی، انتہائی تلخ اور ہلا کر رکھ دینے والا واقعہ تھا۔ ملک کے انتظامی ڈھانچے کے مرکز میں شہید مظلوم آیت اللہ بہشتی جیسی شخصیت اور عدلیہ، پارلیمنٹ، مجریہ کے دیگر اہم افراد اور عہدیداران، اہم سیاسی و علمی شخصیات کے لئے اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا۔ ایسا بڑا سانحہ پیش آیا تو یہ واقعی بہت سخت امتحان کی گھڑی تھی۔ تاہم اس موقعے پر ایک اہم ترین بات ایسی نظر آئی جو پوری تاریخ میں ہمیشہ دکھائی پڑتی ہے اور محسوس کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی قوم، کوئی جماعت، کوئی شخص در پیش آزمائش میں صبر و بصیرت سے کام لیتا ہے تو وہ آزمائش اس کے لئے نعمت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ تاریخ میں انسانوں کے درمیان حق کی فتح، کلمہ حق کی کامرانی، حق کی ترویج اور توحید کی پذیرائی کا راز یہی ہے۔ انبیائے کرام نے، اسی طرح ان بزرگوں کی رہنمائی میں آگے بڑھنے والی اقوام نے کتنی سختیاں اور آزمائشیں برداشت کیں؟! ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پیغمبروں کے پیغام اور تحریک کا تاریخ میں کوئی نام و نشان باقی نہ رہتا، ان کے افکار، ان کے نظریات، ان کا راستہ تلخ واقعات کی آندھی میں پوری طرح مٹ جاتا ہے، تہہ و بالا ہوکر ختم ہو جاتا۔ لیکن نہیں، ایسا نہیں ہوا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس کے بر عکس جیسے جیسے تاریخ اپنا سفر طے کر رہی ہے پیغام نبوت لوگوں کے درمیان، رائے عامہ کے درمیان اور بھی زندہ و پائندہ بنتا جا رہا ہے۔ اس کا راز یہی نکتہ ہے۔ مصیبتوں اور آزمائشوں کے وقت صبر و بصیرت کا دامن پکڑنا۔
ہمارے عوام نے اٹھائیس جون کے سانحے کے وقت اسی عظمت کا مظاہرہ کیا۔ مایوسی میں مبتلا ہونے کے بجائے، خود اعتمادی میں کوئی کمی آنے دینے کے بجائے، دشمن سے ہراساں ہونے اور اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے بجائے، کمزوری یا پسپائی ظاہر کرنے کے بجائے اس بصیرت کی وجہ سے جو ان میں موجود تھی اور ان کے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی طرف سے ان کے اندر مسلسل ودیعت کی جا رہی تھی، پھیلائي جا رہی تھی اسی کی بنیاد پر انہوں نے صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا، استقامت و پائیداری کا ثبوت دیا اور طوفان کا رخ دشمن کی جانب موڑ دیا۔
میں نے اٹھائیس جون کے واقعے کی خبریں بعد میں سنیں۔ اٹھائيس جون کے دن اور بعد کے چند دنوں کے دوران میری حالت ٹھیک نہیں تھی، بیہوشی اور نیم بیہوشی کی کیفیت طاری تھی۔ بعد میں جب مجھے معلوم ہوا کہ کیسا سانحہ رونما ہوا ہے عوام نے اس کے بعد کیا موقف اختیار کیا تو باہر کھڑے تماشائی کی مانند میں مبہوت رہ گيا۔ ہمارے عوام اپنی اس صلاحیت کی حفاظت کریں! ہمیں چاہئے کہ اسے ایک سبق کے طور پر، ایسے سبق کے طور پر جس پر ہم نے عمل کیا اور تاریخ کے اوراق کی زینت بنا دیا، ہمیشہ یاد رکھیں۔
ایران جیسی قوم کے لئے جو اتنے بلند اہداف کے ساتھ، معاشرے میں اسلامی اقدار کی ترویج اور اسلامی اصولوں پر عمل آوری اور دنیا بھر میں اس کے نشر و اشاعت کے نصب العین کے ساتھ میدان میں اتری ہے، مشکلات اور حادثات کا پیش آنا فطری امر ہے۔ آپ اس دین اسلام پر عمل کر رہے ہیں جو ظلم کا مخالف ہے، زور زبردستی کا مخالف ہے، دشمنوں اور جابر قوتوں کے جبر و استبداد میں قوموں کے جکڑے جانے کا مخالف ہے۔ جو دوسروں کے سلسلے میں بھی دنیا کے استبدادی روئے کو نظر انداز نہیں کرتا۔ آپ کی اس مہم اور آپ کے اس راستے کا مخالف کون ہوگا؟ ظاہر ہے کہ دنیا کی استبدادی قوتیں، ظلم و جبر کی خوگر طاقتیں، استعماری حلقے، دنیا کے ستم پیشہ عناصر، بے رحم ڈکٹیٹر۔ یہ سب آپ کے خلاف صف آراء ہوں گے۔ ان کے پاس دولت ہے، میڈیا کی طاقت ہے، سیاسی قوت ہے، تشہیراتی وسائل ہیں، نتیجے میں وہ مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ تاہم ان کے مقابلے میں پائیداری سے ڈٹ جانے کی ضرورت ہے۔ ہماری قوم اس امتحان پر پوری اتری ہے۔

استقامت و پائيداری کا ثمرہ
آج اسلامی جمہوری نظام طاقت کے لحاظ سے، ترقی و پیشرفت کے اعتبار سے، گوناگوں صلاحیتوں کے اعتبار سے، عالمی ساکھ کے اعتبار سے، قوموں میں امید کے چراغ روشن کرنے کے لحاظ سے اٹھائيس جون سنہ انیس سو اکاسی کی نسبت بہت آگے بڑھ چکا ہے، دونوں حالتوں میں زمین و آسمان کا فرق صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری عزیز ملت ایران کی استقامت و پائیداری کا نتیجہ ہے۔ بنابریں اٹھائيس جون کے واقعےکے سلسلے میں یہ سبق ہمارے ذہن میں ہمیشہ محفوظ رہنا چاہئے کہ جب بھی ہمارے اوپر سختیاں اور مشکلات مسلط کی جائيں اور ہم ان کے سلسلے میں صبر سے، استقامت سے اور بصیرت سے کام لیں تو وہ سختیاں عروج و ارتقاء کی سیڑھی بن جائیں گی۔ اس کا ہم تجربہ بھی کر چکے ہیں چنانچہ آئندہ بھی انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔
عدلیہ کے بارے میں چند باتیں
عدلیہ کو دو چیزوں کی ضرورت ہے جو اسے کامیاب بنا سکتی ہیں۔ ہر نظام میں اور ہر معاشرے میں عدلیہ کا کام اختلافات کو حل کرنا اور ظلم و جارحیت و فساد کا سد باب کرتے ہوئے عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔ اس عظیم ہدف کے حصول کے لئے ہمیں دو چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک ہے قدرت و طاقت، یعنی عدلیہ کو قوی و مقتدر ہونا چاہئے اور دوسرے اعتماد۔ یعنی اس پر عوام کا بھرپور اعتماد ہونا چاہئے۔ عدلیہ کو ان دونوں چیزوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ شعبے کی قدرت و طاقت کے لئے انہی بنیادی افرادی اور فنی وسائل کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حاصل ہونے والی پیشرفت کی کچھ تفصیلات عدلیہ کے محترم سربراہ نے بیان کیں اور خود میں بھی کسی حد تک کاموں کی انجام دہی سے باخبر ہوں۔ عدلیہ اپنی اندرونی طاقت کے ذریعے لیاقت مند، فاضل، امین و فرض شناس افراد کی خدمات حاصل کرکے اور ان کی تربیت کرکے قوت و طاقت میں اضافہ کر سکتی ہے۔ عدلیہ درست قوانین وضع کرکے، بھرپور نگرانی کے ذریعے، فنی اور محکمہ جاتی پیشرفت سے استفادہ کرتے ہوئے، دنیا میں دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے اندر یہ طاقت پیدا کر سکتی ہے۔ ہم بار بار کہتے ہیں کہ دوسروں سے سیکھنے میں ہمیں کوئی عار نہیں ہے۔ ہم دنیا کے ہر اس ملک، ہر اس قوم اور ہر اس نظام سے کچھ سیکھنے کے لئے تیار ہیں جس کے اندر کوئی اہم خوبی موجود ہے۔ البتہ ہم آنکھیں بند کرکے کبھی کسی کی اور کبھی کسی دوسرے کی تقلید نہیں کرنا چاہتے۔ کیونکہ یہ غلط بات ہے۔ چونکہ دنیا میں اسی طرح کام ہو رہا ہے تو ہم بھی وہی کرنے لگیں! یہ ٹھیک نہیں ہے۔ «و ان تطع اكثر من فى الارض يضلّوك عن سبيل الله ان يتّبعون الّا الظّنّ و ان هم الّا يخرصون».(1) فلاں کی اور فلاں کی روش کے ہم تابع و مطیع نہیں بننا چاہتے۔ مغرب والے اس طرح عمل کرتے ہیں، اہل مشرق اس طرح عمل کرتے ہیں، فلاں ملک کی یہ روش ہے تو ہم بھی یہی کریں! نہیں، یہ غلط ہے۔ ہم اپنی تشخیص اور شناخت کے مطابق عمل کریں گے۔ یعنی جب ہم یہ دیکھیں گے کہ دنیا کے کسی دور افتادہ ملک میں خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، عدالتی نظام میں کوئی خاص نکتہ ہے جس کی وجہ سے عدالتی نظام میں آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں اور اس کے ثمرات سامنے آئے ہیں، جب ہماری عقل اس کا تعین کر لے گی تو ہم بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ کورانہ اطاعت نہیں ہے، یہ عقل کی پیروی ہے اور یہ اچھی چیز ہے۔ اس سے عدلیہ کی طاقت بڑھتی ہے۔ بہت زیادہ سعی و کوشش، روز بروز نئی نئی اختراعات اور خلاقانہ اقدامات سے طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ انسان اپنی جگہ بیٹھا رہے اور تمام امور معمول کے مراحل طے کرتے رہیں۔ عدلیہ کے عہدیداروں کو چاہئے کہ غور کریں، خامیوں کی نشاندہی کریں، مشکلات کا تعین کریں، گرہوں کو کھولیں، ان کاموں کے لئے اختراعی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ اچھے اور ممتاز اذہان اس سلسلے میں بڑی مدد کر سکتے ہیں اور بحمد اللہ عدلیہ کے اندر ایسے ذہن موجود ہیں۔ باہر کی افرادی قوتوں سے بھی استفادہ کیا جائے۔ محکمے کے باہر کے افراد کی بھی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح ادارے کا ڈھانچہ مضبوط ہوگا، ادارے کی افرادی بنیاد مضبوط ہوگی۔ اس کے نتیجے میں عدلیہ کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ ایسی عدلیہ جو اپنے بلند اہداف کی سمت گامزن رہنا چاہتی ہے، یہ اس کے لئے پہلی حیاتی ضرورت ہے۔
دوسری اہم ضرورت ہے عوامی اعتماد، اس کے لئے عدل و انصاف کا قیام لازمی ہے، قانون پر باریک بینی کے ساتھ اور حکیمانہ انداز میں عمل آوری ضروری ہے۔ عوام کا اعتماد جیتنے کی ضرورت ہے۔ جب عوام محسوس کریں گے کہ عدل و انصاف قائم کرنے کے تعلق سے عدلیہ اپنے وعدے پر عمل پیرا ہے تو ان کا اعتماد بڑھے گا۔ حتی وہ شخص بھی جس کے خلاف فیصلہ سنایا گيا ہے جب تنہائی میں بیٹھ کر غور کرے گا تو یہی کہے گا کہ عدلیہ کا فیصلہ درست ہے۔ ممکن ہے کہ اپنی زبان سے اعتراف نہ کرے، اس کا اظہار نہ کرے لیکن دل ہی دل میں وہ اس کا قائل ضرور ہو جائے گا۔ نتیجے میں عدلیہ پر اعتماد پیدا ہوگا۔ یہ اعتماد بہت ضروری ہے۔
انصاف بہت اہم ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عدلیہ کے اندر انصاف پوری وسعت اور جامعیت کے ساتھ دائمی بنیادوں پر قائم ہو جائے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ چھوٹے بڑے جن معاملات میں بھی عدلیہ سے رجوع کیا جا رہا ہے ان میں عدلیہ کا عمل بالکل غیر جانبدارانہ اور تقوائے الہی کے مطابق ہو۔ اس کا خیال اوپر سے نیچے تک سب کو رکھنا چاہئے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ اس سے اعتماد پیدا ہوگا۔

بدگمانی ایک بری عادت
اس کے بر عکس صورت یہ ہوتی ہے کہ عوام عدلیہ، مقننہ یا مجریہ کے سلسلے میں ہمیشہ شک و شبہے میں مبتلا رہیں۔ یہ بہت بری چیز ہے۔ البتہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ چیزیں ہمیشہ رہی ہیں لیکن اس نئے دور میں چونکہ مواصلاتی ذرائع کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہو گيا ہے اس لئے اس چیز کا دائرہ بھی وسیع تر ہو گيا ہے، یہ چیز زیادہ دیکھنے میں آنے لگی ہے۔ رپورٹوں کو ہمیشہ مشکوک نگاہ سے دیکھنا بری عادت ہے۔ عدلیہ کی جانب سے کوئی رپورٹ پیش کی جاتی ہے تو کوئی شخص اٹھ کر کہتا ہے کہ کیسے یقین کیا جائے کہ یہ رپورٹ صحیح ہے؟ شبہ پیدا کر دیتا ہے۔ مجریہ کی جانب سے رپورٹ پیش کی جاتی ہے، ایک انسان اٹھ کر کہتا ہے کہ کیسے تصدیق کی جائے کہ یہ اعداد و شمار درست ہیں؟! بالکل یہی چیز مقننہ کے بارے میں بھی کہی جاتی ہے۔ مصروف کار افراد کے ایک پورے مجموعے کی زحمات کو ایک بیجا بد گمانی کی بنا پر یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ غلط ہے۔ البتہ ایسے افراد کا کوئی منہ تو بند کرنے سے رہا جو اپنی مرضی اور اختیار سے گفتگو نہیں کرتے۔ تاہم حکام کو بہت ہوشیار رہنا چاہئے۔ جو ذرائع ابلاغ اپنے فریضے سے آشنا ہیں وہ ہوشیار رہیں۔ نظام کے اعلی عہدیداروں کی سرکاری رپورٹوں کو بلا وجہ شک کے دائرے میں لانے کی کوشش نہ کریں۔ یہ بات عدلیہ کے سلسلے میں بھی اہم ہے، مجریہ کے سلسلے میں خاص اہمیت رکھتی ہے اور مقننہ کے تعلق سے بھی اہم ہے۔ کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا دینے سے زحمات و خدمات کی ناقدری ہوتی ہے۔ آج کل دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مجریہ کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں، عدلیہ کے اعداد و شمار کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ مقننہ کے تعمیری اقدامات اور بہترین سرگرمیوں کے سلسلے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ اس طرح تو عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔ ہم ان رپورٹوں کو سننے اور دیکھنے والے ہیں تو ہمیں بہت باریک بینی سے ان کا جائزہ لینا چاہئے لیکن رپورٹ کو مجموعی طور پر تو قبول کرنا ہوگا۔ رپورٹ کو قبول کریں۔ ممکن ہے کہ اس پوری رپورٹ میں اعداد و شمار میں کہیں کوئی غلطی بھی ہو لیکن پوری رپورٹ کو غلط قرار نہیں دینا چاہئے۔ اس سے نظام کے اداروں اور محکموں سے عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا۔ حکام اس نکتے پر توجہ رکھیں! یہ اعتماد بہت قیمتی ہے۔
ملزمین کی بھی عزت نہ اچھالی جائے!
عدلیہ کے تعلق سے، اس کی کارکردگی کے تعلق سے اور اس کارکردگی پر باہر سے آنے والے رد عمل کے سلسلے میں ایک اور اہم چیز جس کا ذکر عدلیہ کے محترم سربراہ نے بھی کیا اور جس پر خاص توجہ دی جانی چاہئے، یہ ہے کہ عدلیہ کا واسطہ ملزم قرار پانے والے شخص سے پڑتا ہے۔ کسی شخص پر کوئی الزام عائد ہوتا ہے۔ اب عدلیہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ قانونی راستوں سے تحقیق کرے، تفتیش کرے اور یہ طے کرے کہ الزام صحیح ہے یا غلط ۔ الزام عائد ہونا تو جرم نہیں ہے۔ کسی پر بھی ممکن ہے کہ الزام عائد ہو جائے۔ جب تک قانونی طریقوں سے جرم ثابت نہیں ہو جاتا اس وقت تک نہ تو عدلیہ کے اندر، نہ ہی عدلیہ کے باہر، نہ منبر سے، نہ ہی کسی اور پلیٹ فارم سے، نہ ذرائع ابلاغ میں، کہیں بھی کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی مسلمان کی عزت اچھالے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ بعض اوقات سننے میں آتا ہے کہ عدلیہ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ افشاء کیا جائے۔ جی نہیں! کوئی ضرورت نہیں ہے افشاء کی۔ بعض مخصوص مواقع کے لئے شریعت مقدسہ نے ہدایت کی ہے کہ سزا عوام کی نظروں کے سامنے دی جائے، یا سزا یافتہ شخص کو لوگ پہچانیں لیکن یہ حکم صرف معدودے چند مواقع کے لئے ہے، ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ اگر معاشرے میں ایسے حالات ہوں کہ ایک چیز رونما ہو جائے تو اس کا اطلاق سب پر کیا جانے لگتا ہے تو انسان کو بہت زیادہ محتاط رہنا چاہئے۔ جب تک جرم ثابت نہیں ہوا ہے اس وقت تک منظر عام پر ہرگز نہیں لانا چاہئے۔ الزام بھی منظر عام پر نہیں آنا چاہئے۔ کیونکہ رائے عامہ کی سطح پر ایسا ملزم شخص جس نے حقیقت میں کوئی جرم انجام نہیں دیا ہے اور اس ملزم شخص کے درمیان جس پر عائد الزام کے لئے ثبوت دستیاب ہیں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا۔ جرم ثابت ہونے کے بعد بھی منظر عام پر بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جو مخصوص مواقع ہیں ان کے بارے میں میں نے عرض کر دیا کہ «و ليشهد عذابهما طائفة من المؤمنين».( ان کو دی جانے والی سزا کو مومنین کی ایک جماعت دیکھے) 2 بعض مواقع کے لئے یہ حکم ہے۔ بنابریں مان لیا جائے کہ کسی شخص نے کسی جرم کا ارتکاب کیا، یہ جرم معتبر عدالت میں ثابت ہو گیا، اس شخص کو سزا بھی سنا دی گئی اور وہ بالفرض جیل میں بھی ڈال دیا گيا ہے تو بھی کیا ضروری ہے کہ ہم اس کا نام اخبارات میں شائع کریں اور نتیجہ یہ نکلے کہ اس انسان کا بچہ جو اسکول جا رہا ہے اب دوسرے بچوں کا سامنا کرنے کی جرئت اس میں نہیں ہے؟ اس میں کیا مضائقہ ہے کہ وہ شخص خاموشی سے اپنی سزا کاٹے، جیل سے باہر آئے اور اپنے بال بچوں کے ساتھ دوبارہ معمول کی زندگی شروع کرے؟ بیشک اس نے جرم کیا تھا تو اسے سزا بھی مل گئی، اب یہ معاملہ ختم۔ کیا ضروری ہے کہ اس کی بدنامی بھی ہو؟ یہ بہت اہم چیز ہے۔
اس سلسلے میں میرا خطاب صرف عدلیہ سے نہیں ہے۔ میرا خطاب، عدلیہ کے حکام سے بھی ہے، اس شعبے کے باہر ذرائع ابلاغ اور دیگر افراد سے بھی ہے۔ کوئی دوسرا محکمہ عدلیہ کی کارکردگی کو مشکوک بنانے کی کوشش نہ کرے کہ جیسے ہی عدلیہ نے کوئی اقدام کیا، کہنے لگے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے، کوئی نہ کوئی مفاد ضرور وابستہ ہے۔ جی نہیں، اس طرح کی باتیں درست نہیں ہیں۔ یہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ جیسے ہی کسی شخص پر کوئی الزام لگے فورا اسے منظر عام پر لایا جائے، رائے عامہ کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ رائے عامہ کو اس سے کیا حاصل ہوگا؟ اس سے عوام کو کیا فائدہ پہنچے گا کہ انہیں یہ بتایا جائے کہ فلاں شخص یا فلاں شخص نے کیا جرم کیا ہے؟ ان باتوں پر توجہ دی جانی چاہئے۔
علاج
میں نے عرض کیا کہ ان سب کا علاج تقوی ہے۔ تقوی یہ ہے کہ ہم اپنی بات، اپنے کام، اپنے موقف اور اپنے عمل پر گہری نظر رکھیں۔ ہمارے چھوٹے سے چھوٹے اعمال بھی لکھے جا رہے ہیں۔ «فمن يعمل مثقال ذرّة خيرا يره. و من يعمل مثقال ذرّة شرّا يره» (3) ہمارے اعمال، ہماری گفتار، ہمارے الفاظ سب ضبط تحریر میں لائے جا رہے ہیں۔ بعد میں ہمیں سوال و جواب کا مرحلہ در پیش ہوگا۔ ایک منصف مزاج عدالت ہے جس میں انسان کو پیش کیا جائے گا، جواب دینا ہوگا۔ تقوی کا مطلب ہے کہ انہی باتوں کا دھیان رکھا جائے۔
بحمد اللہ انقلاب کے بعد سے عدلیہ اپنے ہر ٹرم میں پیشرفت کرتی آ رہی ہے۔ ہر ٹرم میں بڑی گراں قدر پیشرفت دیکھنے میں آئی ہے۔ آج عدلیہ کی سطح پر جو پیشرفت دیکھنے میں آ رہی ہے جو کام انجام پا رہے ہیں واقعی انہیں دیکھ کر حوصلہ بڑھتا ہے۔ جب انسان اس جوش و جذبے کو دیکھتا ہے، اس ہمت و حوصلے کو دیکھتا ہے، ان اختراعی کاوشوں کا نظارہ کرتا ہے، اس قوی جذبہ امید کو دیکھتا ہے جو عدلیہ کے حکام کے اندر موجود ہے اور وہ بحمد اللہ عالمانہ اور خلاقانہ انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں تو بڑی خوشی ہوتی ہے، یہ اچھے مستقبل کی نوید ہے۔
دعا کرتا ہوں کہ خداوند عالم آپ سب کی دعائیں مستجاب فرمائے اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائيں آپ کے شامل حال قرار دے اور حضرت کے قلب مبارک کو آپ سے راضی و خوشنود رکھے۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمارے عزیز شہیدوں کی ارواح طیبہ کو، ہمارے عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی روح مطہرہ کو ہم سے خوشنود رکھے۔

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته

1) انعام: 116
2) نور: 2
3) زلزله: 7 و 8