آپ نے فرمایا کہ علاقے کی قوموں میں پھیلنے والی اسلامی بیداری راہ نبوی پر جاری پیش قدمی ہے اور مسلم اقوام اور عظیم ملت ایران پوری ہوشیاری کا ثبوت دیتے ہوئے امریکیوں اور صیہونیوں کو ہرگز یہ موقعہ نہیں دیں گی کہ وہ اپنے حیلوں اور تفرقہ انگیزیوں کے ذریعے اس عظیم انقلابی تحریک کو منحرف یا اپنے مفادات کے لئے استعمال کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے انسانیت کی تاریخ اور سرنوشت میں خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کے تیئیس سالہ دور کے اثرات کو انتہائی عمیق، فیصلہ کن اور انقلاب آفریں قرار دیا اور فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی نبوت کی انہی دس برسوں میں جن میں آپ نے اسلامی نظام کی تشکیل کا عمل انجام دیا، ایمان، مجاہدت، وقار اور خرد پسندی کی بنیادوں پر ایسے معاشرے کی تعمیر کر دی کہ آج انسانی تہذیبیں انہی بنیادوں پر تشکیل یافتہ اسلامی تمدن کی دین سمجھی جاتی ہیں۔
آپ نے بعثت کی عظیم نعمت کی ناقدری کو امت اسلامیہ کے ماضی اور حال کی مشکلات اور درد و آلام کی وجہ قرار دیا اور فرمایا کہ اگر مسلمان قومیں اپنے دل اور عمل کو ایمانی رنگ سے سجا دیں، عقل و خرد انسانی کو عظیم الہی عطیئے کی حیثیت سے بروئے کار لائیں، دفاعی، سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں جہاد فی سبیل اللہ کی خوگر بن جائیں اور انسانی عزت وقار پر توجہ دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اپنے شایان شان مقام تک نہ پہنچیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم

میں اس بڑی عید کی، اس باعظمت دن کی مبارکباد پیش کرتا ہوں تمام حاضرین محترم، ملک کے عزیز حکام کو، اسلامی ممالک کے محترم سفراء کو، عزیز ملت ایران، تمام امت اسلامیہ اور پورے عالم بشریت کو۔
سب سے عظیم دن
اگر دن کی اہمیت کا انحصار اس پر ہو کہ اللہ تعالی نے اس دن انسانیت کے لئے کون سی بڑی نعمت نازل فرمائی، کیا لطف کیا تو یقینا عید بعثت کا دن سال کا سب سے اہم اور سب سے باعظمت دن قرار پائے گا۔ کیونکہ پیغمبر اعظم کا انتخاب اور آپ کا مبعوث برسالت ہونا بنی آدم کے لئے تاریخ کی تمام الہی نعمتوں میں سب سے بالاتر اور اہم ترین نعمت ہے۔ بنابریں یہ بات جرئت کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ بعثت پیغمبر اسلام کا دن پورے سال کا سب سے برتر، سب سے بڑا اور سب سے زیادہ بابرکت دن ہے۔ ہمیں عقیدت سے اس دن کی یاد منانی چاہئے اور اس دن رونما ہونے والے واقعے کو اپنے ذہن میں مجسم کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ «ارسله على حين فترة من الرّسل و طول هجعة من الأمم» بعثت پیغمبر کا واقعہ ایسے عالم میں رونما ہوا کہ انسانی معاشرہ طویل عرصے سے انبیائے الہی کے وجود کی برکتوں سے محروم تھا۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا زمانہ گزرے ہوئے چھے سو سال بیت چکے تھے۔ سیکڑوں سال گزر گئے تھے کہ بشر نے سفیر الہی کی زیارت نہیں کی تھی۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا تھا؟ «و الدّنيا كاسفة النّور ظاهرة الغرور»؛(1) دنیا تاریک تھی، ظلمت کدے میں تبدیل ہو چکی تھی، معنویت و روحانیت کوچ کر چکی تھی، انسان جہالت، گمراہی اور غرور کی تاریکیوں میں سرگرداں تھا۔ ایسے حالات میں اللہ تعالی نے پیغمبر کو بھیجا۔
مختصر مدت میں عظیم کارنامہ
نبی مکرم وہ عظیم ہستی تھے کہ جنہیں تاریخ بشریت کے اس عظیم انقلاب کے لئے اللہ تعالی نے تیار کیا تھا۔ چنانچہ تیئیس سال میں آپ نے انقلابات کا ایسا دریا جاری کر دیا جو تمام تر رکاوٹوں، بے شمار مشکلات کو اپنے راستے سے ہٹاتا ہوا آج تک جاری ہے اور آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ تیئیس سال کا وقت بہت چھوٹی مدت ہے۔ اس میں سے بھی تیرہ سال تنہائی کی جدوجہد میں گزر گئے۔ مکے میں پہلے پانچ، دس اور پچاس افراد سے مہم آگے بڑھی۔ بہت چھوٹی تعداد تھی جو متعصب، جاہل اور عقل کے اندھے دشمنوں کی جانکاہ سختیوں کا سامنا کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اسلامی معاشرے اور اسلامی تمدن کی عمارت تعمیر کرنے کے لئے بڑے محکم اور مضبوط ستون اور بنیادیں تیار کی گئیں۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ پیغمبر اسلام مدینے کی طرف ہجرت کر گئے اور وہاں اس نظام اور اس معاشرے کی بنیاد ڈالی اور اس تہذیب کے خد و خال طے کئے۔ وہ پوری مدت جس میں پیغمبر اسلام نے اس نوتشکیل یافتہ نظام پر توجہ دی، اسے سنوارا، پوری طرح تیار کرکے اسے آگے بڑھایا، محض دس سال کی مدت ہے۔ یعنی بہت چھوٹی سے مدت۔ اس طرح کی کاوشیں عموما حوادث زمانہ کے طوفانوں میں بہہ جایا کرتی ہیں، فراموش کر دی جاتی ہیں۔ دس سال بہت چھوٹی مدت ہے۔ لیکن اسی مدت میں پیغمبر اسلام یہ پودا لگانے، اس کی آبیاری کرنے، اس کے نشو نما کے وسائل فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ایسی تحریک شروع کی جس کے نتیجے میں ایک تہذیب وجود میں آئی جو سازگار حالات میں انسانی تمدن کے بلند ترین مقام پر پہنچی۔ یعنی تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں۔ اس دور میں پوری دنیا میں کوئی بھی تہذیب، گوناگوں تاریخی میراث سے مالامال کوئی بھی طاقتور حکومت ایسی نہیں نظر آتی جو اسلامی تہذیب و تمدن کے ہم پلہ ہو۔ یہ اسلام کا کرشمہ ہے۔
یہ سب کچھ ایسے حالات میں ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس دس سالہ دور کے بعد امت اسلامیہ کو گوناگوں تلخ حوادث کا سامنا کرنا پڑا، مشکلات رونما ہوئیں، اختلافات کی آگ بھڑک اٹھی، داخلی تصادم شروع ہو گیا۔ ایک طرف یہ سب ہوا اور دوسری طرف وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انحرافات بھی ابھرنے لگے، اسلام میں تحریف کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کے باوجود بھی تین چار صدیوں میں پیغمبر اکرم کا پیغام ایسا باعظمت بن کر سامنے آیا کہ آج پوری دنیا اور تمام تہذیبیں تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے مسلمانوں کے تمدن کی احسانمند ہیں۔ یہ ایک کامیاب تجربہ ہے۔
انسانیت اگر غور کرے اور انصاف سے فیصلہ کرے تو اس کی تصدیق ہو جائے گی کہ بشر کی نجات اور کمال کی سمت اس کی پیش قدمی صرف اور صرف اسلام کی برکت سے ہی ممکن ہے کسی اور راستے سے نہیں۔ ہم مسلمانوں نے ناقدری کی ہے، ہم نے نمک کھایا لیکن اس کا حق ادا نہیں کیا، ہم نے اسلام کی قدر و منزلت کو نہیں پہچانا، پیغمبر اسلام نے پرشکوہ اور راہ کمال پر گامزن انسانی معاشرے کی عمارت کھڑی کرنے کے لئے جو ستون تعمیر کئے تھے ہم نے ان کی حفاظت نہیں کی، ہم نے ناشکری کی اور اس کا نتیجہ بھی ہمیں بھگتنا پڑا۔ اسلام میں یہ توانائی تھی اور ہے کہ انسانیت کو سعادت سے ہم کنار کرے، منزل کمال تک پہنچا دے اور معنوی و مادی لحاظ سے اس کے نشونما کی ضمانت دے۔ پیغمبر اسلام نے جن ستونوں کی تعمیر کی ہے، یہ ایمان کا ستون، معقولیت کا ستون، مجاہدت کا ستون، عزت و وقار کا ستون، یہی اسلامی معاشرے کے اصلی ستون ہیں۔
ہمیں اپنے دلوں اور اعمال کو زیور ایمان سے آراستہ کرنا ہوگا، عقل انسانی سے جو بشر کے لئے عظیم ہدیہ الہی ہے بھرپور استفادہ کرنا ہوگا، ہمیں جہاد فی سبیل اللہ کرنا ہوگا، حسب ضرورت فوجی میدان میں بھی اور دوسرے میدانوں میں بھی جیسے سیاست کا میدان، معیشت کا میدان اسی طرح دوسرے میدان، ہمیں اپنے انسانی واسلامی وقار کے احساس کی قدر و قیمت کو سمجھنا ہوگا۔
نور اسلام سے کسب فیض کے ثمرات
جب ان باتوں کا کسی بھی سماج میں احیاء ہو جائے گا تو وہ معاشرہ نبی اکرم کے اسی راستے پر اور اسلام کے راستے پر گامزن نظر آئے گا۔ اسلام کے پیغام کی برکت سے، عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کی ہدایات کی برکت سے ہم ایرانی عوام ان میں بعض باتوں کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوئے تو آج اس کے ثمرات اور اثرات ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔
آج عالم اسلام کو احساس ہے کہ شمالی افریقہ اور مشرق وسطی کے خطے کے بعض ممالک میں جو تحریکیں نظر آ رہی ہیں وہ نور اسلام سے کسب فیض کرنے اور پیغمبر اکرم کے فرامین پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کا مستقبل، ان ممالک کا مستقبل، توفیق پروردگار سے، نصرت و تائید الہی کی برکت سے روشن اور تابناک ہے۔
ایک نئے باب کا آغاز
اہل مغرب بلا وجہ اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں، بلا وجہ اپنے غلط موقف پر اصرار کر رہے ہیں۔ آج جو کچھ مصر میں، تیونس میں اور بعض دیگر ممالک میں رونما ہو رہا ہے، نظر آ رہا ہے وہ اس بات پر دلیل ہے کہ علاقے کی تاریخ کا ورق پلٹا ہے اور ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ اس علاقے پر سو سال، ڈیڑھ سو سال سے مغربی استعماری طاقتوں اور استکباری حکومتوں نے جو حالات مسلط کر دیئے تھے اور اس عظیم اور حساس علاقے کی سرنوشت جس انداز میں رقم کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ سب درہم برہم ہو گیا اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔
اٹل حقیقت
البتہ اس وقت مغرب کی استکباری طاقتیں بڑی مزاحمت دکھا رہی ہیں، اس عظیم اور ناقابل انکار حقیقت کے سامنے کہ علاقے کی قومیں بیدار ہو گئي ہیں، علاقے کی قوموں نے اسلام کا رخ کر لیا ہے یہ طاقتیں ہتھیار ڈالنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے۔ مسلم ممالک میں نسیم اسلام چل پڑی ہے۔ مغرب اور امریکہ کے گماشتہ اور پٹھو حکام نے ان قوموں کے ساتھ وہ سلوک کیا ہے کہ قوموں کو یقین ہو گیا کہ قیام کرنے، عظیم عوامی تحریک شروع کرنے اور انقلاب برپا کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ لہذا انہوں نے اس راستے پر قدم رکھے اور مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہ تحریکیں اپنے منطقی انجام تک پہنچیں گی۔
مغرب کی لا حاصل کوششیں
مغربی طاقتیں بڑی کوششیں کر رہی ہیں۔ اس وقت امریکہ کے تمام تشہیراتی، سیاسی و اقتصادی ادارے اور اس علاقے میں امریکہ کے مہرے جی توڑ کوششیں کر رہے ہیں کہ کسی صورت سے ان عوامی انقلابات کو، ان عظیم تحریکوں کو ان کے اصلی راستے سے ہٹا دیں، ان کی اسلامی ماہیت پر پردہ ڈال دیں، اس کا انکار کر دیں، ایسے افراد مل جائیں جو عوام کو فریب دیکر اقتدار میں پہنچ جائیں اور حالات کو مغربی مفادات کے مطابق موڑ دیں۔ یہ کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن لا حاصل ہیں کیونکہ قومیں بیدار ہو چکی ہیں۔ جب ایک قوم بیدار ہو گئی، جب ایک قوم میدان میں اتر پڑی، جان ہتھیلی پر رکھ کر سامنے آ گئی تو پھر اسے پسپا نہیں کیا جا سکتا، اسے فریب نہیں دیا جا سکتا۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ انقلابی جدوجہد میں مصروف قومیں اسی طرح وہ قومیں جن کے ہاں اس جدوجہد کی زمین ہموار ہو چکی ہے آگے بڑھیں اور ان کی منزل نزدیک سے نزدیک تر ہو۔ کامیابی یقینی ہے، ہاں یہ ممکن ہے کہ راستہ طولانی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ راستہ چھوٹا ہی ہو۔
اس وقت امریکی، صیہونیوں کی مدد سے اور علاقے میں اپنے ہمنواؤں اور مہروں کی مدد سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ ان انقلابات کو منحرف کر دیں، انہیں اپنے قابو میں کر لیں، انہیں اپنے مفادات کے لئے استعمال کریں، لیکن یہ کوششیں بے سود ہیں۔ البتہ قوموں کے لئے وہ مشکلات تو پیدا کر دیتے ہیں تاہم یہ مشکلات فطری ہیں۔ اختلافات کی آگ بھڑکاتے ہیں، ہم تو ان تمام چیزوں کا تجربہ کر چکے ہیں۔ ہمارے انقلاب میں بھی انہوں نے اختلافات پیدا کئے، دراندازی کی، گروہوں کو ایک دوسرے سے لڑوایا، داخلی تصادم کی کیفیت پیدا کر دی، ایک بیرونی دشمن کو ہمارے اوپر لشکر کشی کے لئے اکسایا، یہ سب کچھ ہوا لیکن ہماری قوم ثابت قدمی سے کھڑی رہی، پوری قدرت سے اپنے راستے پر آگے بڑھتی رہی، ان تمام سازشوں کو نقش بر آب کرتی رہی اور انشاء اللہ آئندہ بھی ہمیشہ غالب رہے گی۔ بنابریں ان مشکلات کا سامنا تو کرنا ہوگا۔
ہوشیار رہنے کی ضرورت
آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ مصر میں اور دیگر ممالک میں داخلی اختلافات کی آگ بھڑکا رہے ہیں، ٹکراؤ کروا رہے ہیں۔ یہ طے ہے کہ وہ ٹارگٹ کلنگ اور فتنوں کا بازار بھی گرم کریں گے۔ اس کا علاج ہے عوام کی بیداری، دانشوروں کی ہوشیاری، علمی شخصیات، سیاسی شخصیات ملک کے مستقبل سے دلچسپی رکھنے والے ہمدرد حکام کی چوکسی۔ ان سب کو بیدار رہنا ہوگا، دھیان رکھنا ہوگا، انشاء اللہ تمام امور بہترین شکل میں آگے بڑھیں گے۔ یہ اسی بعثت پیغمبر اسلام اور نبی اکرم کے ذریعے شروع کی جانے والی تحریک کا تسلسل ہے جو آج اس شکل میں ہماری نظروں کے سامنے ہے۔
مظلوم قومیں اپنا وقار پانا چاہتی ہیں، وہی وقار جو پیغمبر اسلام کی تحریک کا ایک ستون تھا۔ برسہا برس سے دشمنوں نے، استکباری طاقتوں نے، قابض قوتوں نے اور مداخلت پسند عناصر نے ہماری قوموں کا استحصال کیا اور ساتھ ہی ساتھ ان کی تحقیر بھی کرتے رہے، انہیں ذلیل و خوار سمجھتے رہے۔ قومیں چونکہ اسلام سے بہرہ مند ہیں لہذا ان میں وقار کی خواہش ہے، عزت نفس پر ان کی تاکید ہے۔ یہی اسلامی تحریک ہے اور یہی اسلامی تحریک کا مفہوم ہے۔
ہم مسلم اقوام کو چاہئے کہ پوری طرح بیدار رہیں، اسلامی ممالک کے دانشور بیدار رہیں، خود کو لاحاصل اور عبث بحث و تکرار میں نہ الجھائيں۔ مذہبی اختلافات، قومیتی اختلافات، پسند و ناپسند کے اختلاف اور دوسری فروعی بحثوں کو نہ اٹھائیں۔ اس وقت جو کچھ خطے میں رونما ہو رہا ہے وہ بے حد عظیم تبدیلی ہے۔
ایران کے اسلامی انقلاب کا موقف
ہم ایرانی عوام بھی یہ دیکھ کر خوش ہیں کہ مسلم اقوام نے حرکت شروع کر دی ہے اور اپنی آزادی و وقار کو بحال کر رہی ہیں۔ ایران میں انقلاب کی تحریک شروع ہونے اور اس کی فتح کے وقت سے ہی علاقے کے مسائل کے سلسلے میں، علاقے کی عوامی تحریکوں کے سلسلے میں، علاقے کے انقلابات کے سلسلے میں اسلامی انقلاب کا موقف واضح اور روشن رہا ہے۔ جہاں کہیں بھی تحریک، استکبار کے خلاف شروع ہوئی ہے، صیہونیوں کے خلاف شروع ہوئی ہے، عزیز مملکت فلسطین کے غاصب صیہونیوں کے خلاف شروع ہوئی ہے ہم نے اس کی پذیرائی اور تائید و حمایت کی ہے۔ جہاں بھی امریکہ کے خلاف قیام شروع ہوا ہے، اس بین الاقوامی ڈکٹیٹر کے خلاف قیام ہوا ہے امریکہ آج بین الاقوامی ڈکٹیٹر بن چکا ہے، اسی طرح جہاں بھی کسی ملک کے ڈکٹیٹر کے خلاف قوم نے اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے قیام کیا ہے ہم ان کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
سب کو ہوشیار رہنا چاہئے، ہمیں بھی، عوام کو بھی۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ دشمن کے حیلے اور چالیں بہت پیچیدہ اور مختلف النوع ہوتی ہیں۔ ہمیں بصیرت کو اپنے اقدام کی کسوٹی قرار دینا چاہئے۔ قوموں کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ امریکی، صیہونی، ان کے کاسہ لیس اور ان کے ہمنوا اس کوشش میں ہیں کہ انقلابوں کو اصلی راستے سے منحرف کر دیں۔ جن ممالک میں اسلامی بیداری کی لہر پھیلی ہوئی ہے ان پر ان کی توجہ زیادہ ہے۔ وہ قوموں کی تحریک کو منحرف کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
عوامی تحریکوں کی بنیادی شناخت
بحرین کے مظلوم عوام بھی مصری قوم کی مانند ہیں، تیونس کے عوام کی مانند ہیں، یمن کے عوام کی مانند ہیں۔ وہاں بھی یہی صورت حال ہے۔ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ آج ہم ایسے افراد کو دیکھ رہے ہیں جو قوموں کے دل کی آواز پر توجہ دینے کے بجائے ان قوموں کے دشمنوں کی باتیں دوہرا رہے ہیں۔ آج امریکہ اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ جو کچھ مصر میں ہوا، تیونس میں ہوا، یمن میں، لیبیا میں اور دیگر جگہوں پر ہو رہا ہے شام کے واقعات کو بھی اسی کی مانند ظاہر کرے جو سامراج کے خلاف مزاحمت کے ہراول دستے میں شامل ملک ہے۔ شام کے حالات کی نوعیت ان ممالک کے حالات سے مختلف ہے۔ ان ممالک میں امریکہ اور صیہونزم کے خلاف عوام کی تحریکیں چل رہی ہیں جبکہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں امریکہ کی ریشہ دوانیاں بالکل واضح ہیں، اس کے پس پردہ صیہونیوں کا ہاتھ ہے۔ ہمیں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے۔ ہمیں کسوٹی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ جہاں تحریک، امریکہ مخالف اور صیہونزم مخالف ہے وہاں تحریک حقیقت میں عوامی تحریک ہے لیکن جہاں امریکہ اور صیہونزم کے حق میں نعرے سنائی دے رہے ہیں وہاں انحرافی مہم چل رہی ہے۔ ہم اس منطق کو، اس معیار اور پیمانے اور اس رہنمائی کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے دشمن اس سے اور بھی آگ بگولہ ہوں گے، چراغ پا ہوں گے، ہمارے خلاف سازشیں اور بھی تیز کر دیں گے۔ ہم نے ان سازشوں کا ثابت قدمی سے سامنا کیا ہے۔ قوم تجربہ کار ہو چکی ہے۔ ان تیس برسوں میں انواع و اقسام کی سازشوں کا سامنا کرتے کرتے، استقامت کا مظاہرہ کرتے کرتے پختہ ہو چکی ہے۔ یہ (دشمن) بعض داخلی واقعات کو دیکھ کر بلا وجہ ہی خوش ہونے لگتے ہیں، آس لگا بیٹھتے ہیں۔
خوشی کا مقام ہے کہ ملک کے مختلف ادارے قوی جذبہ امید کے ساتھ، دلچسپی اور شوق کے ساتھ اپنے امور انجام دے رہے ہیں۔ اسی حالیہ عرصے میں، گزشتہ سال آپ نے خود دیکھا کہ ملک میں کتنے کام سرانجام دیئے گئے؟! ہم پیٹرولیم اشیاء درآمد کرنے والے ملک سے ان اشیاء کے ایکسپورٹر بن گئے۔ ملک مختلف شعبوں میں بحمد اللہ کام کر رہا ہے۔ یہی کابینہ کو چھوٹا کرنے کا مسئلہ جو مجریہ اور مقننہ نے مل کر انجام دیا ہے بہت اہم اور بڑا کام ہے۔ ایسے کاموں کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے اور انشاء اللہ جاری رہے گا۔
ملت ایران نے اپنی استقامت سے، اپنی پائیداری سے، اپنے اتحاد سے، نصرت الہی کی بابت اپنی کبھی نہ ختم ہونے والی امید سے اسی طرح ملک کے عوام باہمی اتحاد کے ساتھ، باہمی تعاون کے ساتھ، انشاء اللہ ملت ایران کے دشمنوں کو ایک بار پھر مایوسی میں مبتلا کر دیں گے۔
اللہ تعالی سےدعا کرتا ہوں کہ اس قوم کی برکتوں میں اضافہ کرے، اس عظیم اور بابرکت دن کے صدقے میں اور حضرت خاتم الانبیاء کے وجود مبارک کے صدقے میں ملت ایران اور تمام مسلم قوموں کو اپنے لطف و کرم اور نصرت و تائيد سے بہرہ مند فرمائے، حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سب سے راضی و خوشنود رکھے۔

و السّلام عليكم و رحمة الله و بركاته

1) نهج‌ البلاغه، خطبه‌ى 89