چار گھنٹوں تک چلنے والے اس اجلاس میں پہلے دس مفکرین اور نظریہ پردازوں نے انصاف کی بنیادوں، مفاہیم، پہلوؤں، ضرورتوں اور افادیتوں کے بارے میں اپنے اپنے نظریات بیان کئے۔ یاد رہے کہ اس سلسلے کا پہلا اجلاس دو ہزار دس کے دسمبر مہینے میں منعقد ہوا تھا جس میں پیشرفت کے لئے ایرانی و اسلامی نمونے کی تدوین پر گفتگو ہوئی تھی۔
دوسری اسٹریٹیجک نظریاتی نشست میں قائد انقلاب اسلامی نے انصاف کے سلسلے میں اسلام کے حقیقی نظرئے کے تعین کے لئے مفکرین کے درمیان بحث و مباحثے کی ضرورت پر زور دیا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے

بسم‌ اللَّه الرّحمن الرّحيم‌

حاضرین محترم، عزیز بھائیوں اور بہنوں، اسی طرح اس مفید اور با معنی نشست کے مہتمم حضرات خاص طور پر جناب ڈاکٹر واعظ زادہ کا بہت شکر گزار ہوں جنہوں نے نشست کی بڑی اچھی نظامت کی۔ اس بات کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ آپ نے اس نشست کے ذریعے ان بحثوں کا موقعہ فراہم کیا اور انشاء اللہ یہ سلسلہ آگے بھی جاری رہے گا۔ حمد و سپاس ہے خدائے عزیز و حکیم کے لئے جس نے یہاں حاضر افراد اور اس نشست کے تمہیدی امور انجام دینے والے احباب کو یہ موقعہ، وسائل اور جوش و جذبہ عطا کیا اور یہ اہم امر انجام پذیر ہوا۔ اگر اللہ تعالی کی نگاہ کرم نہ ہوتی، اگر مفکرین، دانشور حضرات اور اساتذہ کو فکری آسودگی نہ ملتی تو ممکن ہی نہ تھا کہ اسلامی نظام کو یہ موقعہ ہاتھ آتا۔ یہ بڑا اہم موقعہ ہے جو خوش قسمتی سے اللہ تعالی نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔

اسٹریٹیجک نظریاتی نشست میں انصاف کے موضوع پر گفتگو
آج اس نشست میں جو کچھ انجام پایا وہ ایک شروعات ہے اور ہم پوری امید کے ساتھ اس کوشش میں ہیں کہ یہ سلسلہ بنحو احسن جاری رہے اور مبارک انجام تک پہنچے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں اس انتہائی اہمیت کی حامل بحث یعنی انصاف سے متعلق گفتگو کو اچھے نتیجے تک پہنچانے کی مکمل صلاحیت اور توانائی موجود ہے۔
وہ اہل نظر افراد بھی جو اس نشست میں موجود نہیں ہیں ہماری نظر میں اس بحث کے شرکاء میں ہیں۔ ملک کے اندر یونیورسٹیوں میں، دینی علوم کے مراکز میں، تحقیقاتی مراکز میں جن کا جال بحمد اللہ پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے ایسے صاحب نظر افراد موجود ہیں جو اس موضوع کے سلسلے میں، اس بحث کے سلسلے میں تحقیقات کر چکے ہیں یا تحقیق و مطالعے کی پوری آمادگی رکھتے ہیں۔ ہم ایسے تمام افراد کو اس بحث میں شریک جانتے ہیں۔
انصاف کا موضوع علمی حلقے کے لئے اہم ترین موضوع بحث قرار پانا چاہئے۔ ہمیں اس موضوع پر بحث کو آگے بڑھانا چاہئے، بیچ میں ترک نہیں کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ زمین بھی ہموار ہے اور اس کی احتیاج بھی بہت شدید ہے، جیسا کہ دوستوں کی گفتگو میں ان ضروریات کے ایک حصے کی وضاحت بھی ہوئی۔ یہ بحثیں جو آپ نے کیں اور آئندہ بھی جن کا سلسلہ جاری رہے گا ان کا نتیجہ موجودہ نسل کے لئے بھی اور آئندہ نسلوں کے لئے بھی بہت باارزش اور ضروری ہوگا۔ ممکن ہے کہ آگے چل کر عالم اسلام کے مفکرین سے بھی استفادہ کیا جائے۔ ممکن ہے کہ دیگر ممالک میں ایسے صاحب الرائے افراد ہوں جو انصاف کے موضوع پر بحث کو ایک نچوڑ اور نتیجے تک پہنچانے میں ہماری مدد کریں۔
مجھے یہ محسوس کرکے بڑی خوشی ہوئی کہ احباب نے ایک دوسرے کی بحثوں پر بھرپور توجہ کا ثبوت پیش کیا۔ نشست میں جناب ڈاکٹر واعظ زادہ نے جو اعتراض اور سوال کا وقفہ شامل کر دیا وہ میری نظر میں بہت دلچسپ رہا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ حاضرین نے بحث کو بہت غور سے سنا۔ اس عمل سے باہمی پیشرفت حاصل ہوتی ہے۔ آپ سب کے پاس کچھ افکار و نطریات ہیں۔ آپ نے اس موضوع پر غور کیا ہے اور آئندہ مزید غور و خوض فرمائیں گے۔ تا ہم اس نشست جیسے ماحول میں جب آپ یکجا ہوتے ہیں تو افکار کا تبادلہ عمل میں آتا ہے۔ ہم نے جو غور و خوض کیا ہے اس میں مزید گیرائی و گہرائی پیدا ہوگی اور سرانجام ہم ایک اہم نقطے پر پہنچیں گے جس کی جانب میں اشارہ کروں گا۔
میں تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ موضوع کے مندرجات کے سلسلے میں آج بحث آپ کے ذریعے شروع ہوئی ہے اور اسی مرکز میں جس کا ذکر ڈاکٹر واعظ زادہ نے کیا یہ بحث جاری رہے گی اور ہمارے مفکرین اور دانشوروں کے افکار و نظریات سے حتمی اور آخری نتیجہ اخذ کیا جائے گا۔ بنابریں میں اس عمل میں مداخلت نہیں کروں گا۔ میں صرف چند نکات بیان کرنا چاہوں گا۔
انصاف، انسانی معاشرے کی دیرینہ آرزو
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ انصاف ایسا موضوع ہے کہ انسان ہمیشہ سے اس کی فکر میں رہا ہے۔ پوری تاریخ کے دوران اور تاحال انصاف کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے انسانی معاشروں کے مفکرین، فلاسفہ اور دانشور اس موضوع پر کام کرتے رہے اور اس کی بابت ہمیشہ انہیں فکر لاحق رہی۔ بنابریں تاریخ کے قدیمی ادوار سے زمانہ حال تک عدل اور سماجی انصاف کے بارے میں بحثیں ہوئیں، نظریہ پردازی کی گئی لیکن پھر بھی اس وادی میں ادیان الہی کا کردار بالکل منفرد اور نمایاں ہے۔ یعنی تاریخ میں جو باتیں انصاف کے تعلق سے ادیان نے پیش کیں، جن باتوں پر ان کی خاص توجہ اور تاکید رہی وہ بے مثال اور استثنائی ہیں۔ فلاسفہ اور مفکرین کے یہاں وہ اہتمام نظر نہیں آتا۔
انصاف، انبیائے کرام کا نصب العین
پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے تو ادیان نے انصاف کو اپنا نصب العین قرار دیا ہے۔ «لقد ارسلنا رسلنا بالبيّنات و انزلنا معهم الكتاب و الميزان ليقوم النّاس بالقسط» (1) اس آیت میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ انبیاء کو مبعوث کرنے، آسمانی کتابوں کے نزول اور بینات یعنی محکم اور ناقابل انکار دلائل کی پیشکش جو انبیائے کرام کی جانب سے ہوتی تھی، کتاب یعنی دینی معارف، احکام اور اخلاقیات پر مشتمل منشور، میزان یعنی مخصوص معیار، یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ انصاف قائم کیا جائے، لیقوم الناس بالقسط البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عدل کا قیام اور وہ تمام چیزیں جن کا تعلق دنیا کی انفرادی اور سماجی زندگي سے ہے اصلی ہدف کی تخلیق کا مقدمہ ہیں۔ «و ما خلقت الجنّ و الانس الّا ليعبدون» (2) یعنی خلقت انسان کا اصلی ہدف عبادت پروردگار اور بندگی خدا ہے۔ بیشک سب سے بڑی فضیلت بھی اللہ تعالی کی عبادت ہی ہے۔ اسی ہدف کے حصول کی راہ میں انبیاء کی بعثت بھی ہوئی ہے۔ قرآن کی دوسری آیات میں انبیاء کو مبعوث کئے جانے کے دیگر اہداف کو بھی بیان کیا گيا ہے۔ ان الگ الگ اہداف کو ایک نقطے پر جمع کیا جا سکتا ہےاور وہ ہے انصاف۔ نظاموں کی تشکیل کا ہدف، تہذیبوں کے منصہ ظہور میں آنے کا ہدف، معاشرے میں انسان کی نقل و حرکت کا ہدف انصاف ہے۔ یہ چیز کسی دوسرے مکتب فکر میں نظر نہیں آتی، یہ ادیان الہی کی منفرد خصوصیات میں ہے۔
ادیان الہی کی دوسری خاص بات یہ ہے کہ تاریخ بشریت میں انبیاء ہمیشہ مظلوموں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ یعنی انہوں نے انصاف کے لئے عملی طور پر مجاہدت کی ہے۔ آپ غور کیجئے! قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کیا گيا ہے کہ طاغوتی طاقتوں سے انبیاء کا مقابلہ ہے، زیادتی کرنے والے لوگوں سے انہیں مقابلہ کرنا پڑا ہے، ایسے افراد سے انہیں مقابلہ کرنا پڑا ہے جو ستمگر طبقات میں شامل ہیں۔ «ما ارسلنا فى قرية من نذير الّا قال مترفوها انّا بما ارسلتم به كافرون» (3) کوئی پیغمبر ایسا نہیں ہے جسے مترفین کا مقابلہ نہ کرنا پڑا ہو۔ یعنی پیغمبر کو مترفین سے جنگ کرنی پڑی ہے۔ تو ظالم و مظلوم کی جنگ میں انبیائے کرام ہمیشہ مظلوموں کے ناصر و مددگار رہے ہیں۔ یعنی وہ ہمیشہ انصاف کے لئے میدان میں اترے اور نبرد آزما ہوئے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ فلاسفہ نے بھی انصاف کے سلسلے میں بہت کچھ بیان کیا ہے لیکن بہت سے روشن خیال افراد کی مانند انہوں نے باتیں تو بیان کی ہیں لیکن عملی طور پر وہ میدان میں نہیں آئے ہیں۔ یہ چیز ہم نے اپنی انقلابی تحریک کے دوران بھی محسوس کی اور اس کے بعد مقدس دفاع کے زمانے میں بھی دیکھی اور آج تک ہم دیکھتے آ رہے ہیں۔ انبیاء کا طریق کار یہ تھا کہ وہ خود میدان میں اترتے اور سینہ سپر ہو جاتے تھے۔ جب مترفین ان سے کہتے تھے کہ آپ لوگ کیوں مظلوم طبقات کے حمایتی بنے ہوئے ہیں، آپ ان سے الگ ہو جائیے تو وہ مترفین کا مقابلہ کرتے تھے۔ آیۃ شریفہ «و لا اقول للّذين تزدرى اعينكم لن يؤتيهم اللَّه خيرا»(4) جو مخالفین کو حضرت نوح کی جانب سے دیئے جانے والے دو ٹوک جواب کی عکاسی کرتی ہے، اسی سلسلے میں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جو لوگ ظلم و زیادتی کا شکار تھے پیغمبروں کے گرویدہ ہو گئے۔
تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ تمام ادیان اس بات پر متفق ہیں کہ اس عظیم تاریخی تحریک کا انجام انصاف کی امید کی تکمیل کی صورت میں سامنے آئے گا۔ یعنی پورے وثوق کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک زمانہ وہ آئے گا جب عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا، جب دنیا میں دین کامل کا نفاذ ہوگا۔ زیارت آل یاسین کے بعد پڑھی جانے والی مخصوص دعا میں آیا ہے؛ «يملأ اللَّه به الأرض قسطا و عدلا كما ملئت ظلما و جورا» (اللہ تعالی امام زمانہ علیہ السلام کے ذریعے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ پہلے ظلم و جور سے بھری ہوئي ہوگی) تمام انبیائے کرام، تمام ادیان میں اس انجام کا ذکر کیا گيا ہے، اس پر خاص تاکید کی گئی ہے، اس نکتے کو بار بار دوہرایا گيا ہے اور کہا گيا ہے کہ ہم اسی منزل کی جانب گامزن ہیں۔ بنابریں پیغمبروں کے مشن کی شروعات میں، درمیانی وقفے میں اور آخری حصے میں ہمیشہ انصاف پر خاص تاکید نظر آتی ہے۔ یہ چیز بے مثال ہے۔
اسلامی انقلاب میں انصاف کی اہمیت
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمارے اسلامی انقلاب میں جو ایک دینی تحریک تھی، فطری طور پر انصاف کو خاص مقام حاصل تھا اور آج بھی حاصل ہے۔ عوامی نعروں میں، آئين میں، عظیم الشان امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) کے بیانات میں، مختلف مواقع پر ہونے والی گفتگو میں اور مختلف مناسبتوں سے اسلامی جمہوریہ ایران میں انصاف کا موضوع ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور اسے خاص اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ مقدس دفاع کے دوران بھی جب زبردست دباؤ ڈالا جا رہا تھا اور مفاہمت و آشتی کی باتیں کی جا رہی تھیں کہ اسلامی جمہوریہ کو میدان سے باہر نکال دیا جائے، اس وقت بھی اسلامی جمہوریہ نے منصفانہ امن کی بات کی تھی۔ امن و آشتی ہمیشہ مستحسن نہیں ہے، یہ ایسی چیز ہے جو کبھی اچھی ہوتی ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آشتی اچھی نہیں ہوتی بلکہ جنگ قابل تعریف متبادل قرار پاتی ہے۔ انصاف کے سلسلے میں ایسا نہیں ہے۔ یہ ان قدروں میں ہے جو ہمیشہ مستحسن سمجھی جاتی ہیں، کوئی موقعہ ایسا نہیں ہو سکتا جب انصاف کو پسندیدہ نہ سمجھا جائے۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ چیز ہمیشہ دیکھنے میں آئی ہے، انصاف ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایجنڈے میں سر فہرست رہا ہے۔ انصاف اور مساوات کے سلسلے میں واقعی بنیادی کام انجام دیئے گئے ہیں تاہم اسی پر اکتفا نہیں کیا جا سکتا۔ بعض دوستوں نے اب تک انجام دیئے جانے والے کاموں کے سلسلے میں بڑی اچھی اطلاعات پیش کیں۔ جو کام انجام پائے ہیں ان کے بارے میں میری اطلاعات شاید اس سے کہیں زیادہ ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ اوائل انقلاب سے تا امروز بہت بڑے پیمانے پر کام انجام دیئے گئے ہیں لیکن پھر بھی ہم ابھی مطمئن نہیں ہیں۔ ہمارا نصب العین اور ہماری منزل مقصود ہے انتہائی درجے کا انصاف، ایک محدود سطح تک انصاف ہمارا نصب العین نہیں ہے۔ تا حد ممکن انصاف کا قیام دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں ناانصافی کا کوئی وجود باقی نہ رہے۔ اس منزل تک پہنچنے کے لئے کافی فاصلہ طے کرنا ہے لہذا اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔
انصاف کے موضوع پر بحث کیوں؟
اسی ضمن میں یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ آج جو ہم انصاف کی بحث کر رہے ہیں، اس نشست کا اہتمام اور اس میں انصاف کے موضوع پر تبادلہ خیال ہوا ہے، یہ در حقیقت اسی بنیادی فکرمندی کا تسلسل ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ گزشتہ برسوں کے دوران ہم انصاف کی شناخت حاصل نہیں کر سکے یا اسلامی جمہوریہ میں انصاف کی کبھی کوئی تعریف موجود نہیں تھی۔ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ ایک کلی تعریف کچھ طے شدہ نکات ہمیشہ سے تھے اور ان سے سب واقف بھی تھے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، بہت سے کام انجام بھی دئے گئے۔ آج جو ہم اس موضوع پر بحث کر رہے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انصاف کا موضوع ایک زندہ موضوع کی حیثیت سے ہمیشہ زیر بحث رہنا چاہئے۔ دانشور طبقے کے درمیان، حکام کے درمیان، عوام کے درمیان بالخصوص نئی نسلوں کے درمیان انصاف کا مسئلہ اور انصاف کا موضوع ایک بنیادی موضوع کی حیثیت سے دائمی طور پر زیر بحث رہے۔ اس نشست اور اس میں انصاف کے موضوع پر تبادلہ خیال کا ایک مقصد یہ بھی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہم انصاف کے سلسلے میں اپنی موجودہ صورت حال اور مطلوبہ منزل کے درمیان فاصلے کو کم کرنا چاہتے ہیں تو نئی اور موثر روش اور طریقوں کی احتیاج ہمیں پیش آئے گی۔ ہمیں یہ معلوم کرنا ہوگا کہ انصاف کے سلسلے میں موثر اور نتیجہ بخش روشیں کیا ہیں؟ ہمیں اب یہ سمجھنا چاہئے کہ اس سلسلے میں ہم تجرباتی دور سے آگے نکل آئے ہیں۔ ان تیس برسوں میں متعدد مواقع پر ہم نے کبھی صحیح اور کبھی غلط اقدام کیا۔ پہلے عشرے میں بھی جب خاص طرز فکر کے ساتھ امور انجام دئے گئے اور دوسرے عشرے میں بھی جب الگ طریقے سے کاموں کو سرانجام دیا گیا۔ اس مدت میں گوناگوں روشیں دیکھنے میں آئيں۔ اب درست نہیں ہے کہ ہم اسی روش سے کام کریں۔ اب ہمیں طے شدہ تعریف کی بنیاد پر ٹھوس اور محکم روش اختیار کرنا چاہئے۔ صحیح شناخت کے ساتھ ہمیں حرکت کرنا چاہئے۔
بڑے فیصلوں میں انصاف کی اہمیت
تیسری چیز یہ ہے کہ اس وقت ملک برق رفتاری سے ترقی کر رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ خوش قسمتی سے ملک کی ترقی کی رفتار بہت تیز ہے۔ آج کے دور کا بیس سال قبل کی صورت حال سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ آج ہماری پیشرفت بہت تیز ہے۔ جب یہ برق رفتاری ہو تو بڑے فیصلوں کی ضرورت پیش آتی ہے، بڑے فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ اب اگر ان بڑے فیصلوں میں انصاف کے موضوع کو نظر انداز کر دیا جائے تو اس کے نقصانات کیا ہوں گے؟ اس کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ لہذا اس وقت انصاف کے موضوع پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ترقی اور انصاف کے باہمی رابطے کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔
نشست کے دوران یہ بات بھی ہوئی کہ پیشرفت کے نمونے کے لئے ایک مرکز کا خاکہ تیار کر لیا گيا ہے، ضروری تیاریاں بھی پوری کر لی گئی ہیں اور انشاء اللہ پوری سنجیدگی کے ساتھ کام شروع ہو جائے گا، اسی مرکز میں انصاف کے موضوع پر بھی کام ہونا چاہئے۔

اسلامی نقطہ نگاہ کی بنیاد پر انصاف کا تعین
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ فکری مرحلے میں ہم جو چیز حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ انصاف کے سلسلے میں حقیقی اسلامی نظریہ ہے۔ تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ اسلامی منابع اور مآخذ پر تجدد پسندانہ انداز میں نظر ڈالی جائے اور اسلامی تعلیمات کے بطن سے جدید علمی و فنی تقاضوں کے مطابق انصاف کے تصور کو اخذ کرنا ہے۔ استنباط (عقلی دلائل کی بنیاد پر نتائج اخذ کرنا) کے لئے ہمارے پاس پوری طرح آزمودہ اور طے شدہ علمی روشیں اور طریقے موجود ہیں۔ ان سے استفادہ کرنا چاہئے۔ بنابریں فکری اور نظری مرحلے میں، نظریہ پردازی کے مرحلے میں اسلامی منابع سے، اسلامی متون سے، عدل و انصاف کے سلسلے میں اسلام کے خالص نظرئے کو اخذ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں میری تاکید یہ ہے کہ عدل و انصاف کے باب میں مفکرین کی جانب سے اب تک پیش کئے گئے نظریات کو ایک ساتھ رکھ کر کسی نئے نظرئے کو اخذ کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس مسئلے میں ہمیں خوشہ چینی سے بالکل پرہیز کرنا چاہئے۔ متعدد مواقع پر ہم سے یہ غلطی ہوئی ہے۔ ناخواستہ طور پر ہم تقلید میں الجھ کر رہ گئے۔ اس سے باہر نکل پانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمیں بالکل صحیح طریقے سے اسلامی منابع کی ورق گردانی کرنا چاہئے۔ منابع بہت زیادہ بھی ہیں، جس کا حوالہ بعض احباب نے اپنی گفتگو میں دیا۔ قرآن میں، احادیث میں، نہج البلاغہ میں، فقہی تحریروں میں، کلامی اور فلسفیانہ بحثوں میں بڑی تفصیلات موجود ہیں جنہیں ہم منابع کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں اور ان کی روشنی میں خالص اسلامی نقطہ نگاہ کا تعین کر سکتے ہیں۔
البتہ دیگر تمام امور کی مانند اس مسئلے میں بھی دوسرے افراد کے نظریات سے آشنائی اسلامی متون اور منابع کو سمجھنے میں ہمارے لئے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ ہر معاملے میں یہ چیز دیکھی گئی ہے، فقہی اور قانونی بحثوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ جب ہم کسی نئے نظرئے سے آگاہ ہوتے ہیں اور ہمارے ذہن میں لازمی کشادگی پیدا ہو جاتی ہے تو ہم اسلامی منابع سے بہتر طریقے سے اور مکمل طور پر استفادہ کرنے پر قادر ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس مسئلے میں بھی یہ چیز ہے۔ تاہم ہمیں یہ احتیاط رکھنا ہے کہ ہم حقیقی اسلامی نظرئے کی جستجو میں مصروف رہیں، دوسروں کے نظریات کی تقلید سے پرہیز کریں۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ ہم جو بار بار کہہ رہے ہیں کہ خالص اسلامی نظریہ ہونا چاہئے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عدل و انصاف کا مسئلہ نظریہ کائنات اور نظریہ حقیقت ادراک پر مبنی ہے۔ اگر ہم مغربی مفکرین کے نظریوں کو ماخذ قرار دیں گے جن کی بڑی کثرت بھی ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم نے ایسے فلسفیانہ نظریات پر تکیہ کیا ہے جنہیں ہم خود صحیح نہیں مانتے اور جنہیں ہم تسلیم نہیں کر سکتے۔ یہ فلسفیانہ نظریات در حقیقت ان کے نظریہ کائنات پر استوار ہیں۔
انصاف سے متعلق نظریات کا تقابلی جائزہ
اس نکتے کی تکمیل کے لئے یہ بھی عرض کر دوں کہ انصاف کے سلسلے میں اسلامی نقطہ نگاہ مغربی نظاموں کے نقطہ نگاہ سے بالکل الگ اور مختلف ہے۔ اسلام میں انصاف کا سرچشمہ حق اور حقانیت ہے جیسا کہ بعض احباب نے اپنی گفتگو میں اشارہ بھی کیا ہے۔ بہت خوشی کا مقام ہے کہ اس نشست میں بڑے اچھے نکات بیان کئے گئے جس کی وجہ سے مجھے زیادہ وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں پڑ رہی ہے۔ اس کے علاوہ عدل و انصاف کے باب میں کچھ احکام اور فرائض ہیں۔ یعنی اسلام کے نقطہ نگاہ سے انصاف پسندی ایک فریضہ الہی ہے جبکہ مغربی مکاتب فکر میں ایسا نہیں ہے۔ مغربی مکاتب فکر میں عدل و انصاف کا موضوع مختلف شکلوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ سوشیلزم میں کسی شکل میں اور لبرلزم میں کسی اور شکل میں۔ ان مکاتب فکر نے بڑی ترقی بھی کی اور انصاف کو مختلف شکلوں میں پیش کیا لیکن کوئی بھی شکل دین اسلام کی مانند اصولی اقدار پر مبنی ایک بنیادی شکل نہیں ہے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ نظریہ پردازی کے مرحلے میں ہمیں مباحثے کی ضرورت ہے۔ ہم جو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ایک نظریہ اخذ کرنا ہے، حقیقی اسلامی نظریئے کی نشاندہی کرنا ہے تو اس کے لئے کسی حد تک طولانی اور وسیع بحث اور مقدمات کی ضرورت ہے۔ ان مقدمات میں ایک اہم چیز یہی ہے کہ مفکرین کے نظریات سامنے آئيں، مختلف خیالات پیش کئے جائيں۔ یہ بہت ضروری ہے اور اسی کو علمی شادابی کہا جاتا ہے۔ یہ تصور پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ ہم پہلے سے ہی ایک نظریہ قائم کر چکے ہیں اور اسی کو حتمی نتیجے کے طور پر اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے۔ ہمیں ضرورت ہے نظریات کے تنوع اور تصادم کی۔ نظریات کے ٹکراؤ پر غور کرکے ہمیں صحیح نظرئے کی نشاندہی کرنا ہے۔ بنابریں نظریات کا تصادم ضروری ہے۔ اس کے لئے کوئی حد بھی معین نہیں کی جا سکتی۔ یعنی جب ہم اس دور کے لئے کسی حتمی نتیجے تک پہنچ گئے تو اس کے بعد بھی یہ احتمال باقی رہے گا کہ مستقبل میں نئے افکار اور جدید نظریات سامنے آئیں گے۔ اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ لیکن بہرحال یہ ضروری ہے کہ ہم کسی متفق علیہ نتیجے پر پہنچیں، جس کی بنیاد پر ملک کے لئے دراز مدتی منصوبے ترتیب دیئے جا سکیں۔ لہذا مختلف افکار و نظریات کو پیش کیا جانا ضروری ہے۔ ہاں ایک نتیجے تک پہنچنا بھی ضروری ہے اور اسی مدلل اور محکم نتیجے کی بنیاد پر ملک کےمنصوبے تیار کئے جائیں گے۔ جب ہم اس نتیجے تک پہنچ گئے تو تحقیق و مطالعے کا نیا باب شروع ہوگا اور اجرائی طریقوں اور روشوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ آج میں نے غور کیا کہ بحث کا ایک بڑا حصہ متعلق تھا اجرائی مرحلے سے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ اس بحث کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ یعنی جب ہم عدل و انصاف کے باب میں ایک مدلل نتیجے تک پہنچ گئے تو اس پر عملدرآمد کے طریقوں اور اجرائی روشوں کی ایک نئی بحث شروع ہوگی۔ اس کے لئے بھی بہت زیادہ تحقیق و تجزئے کی ضرورت ہے۔ اسی مرحلے میں ہم دوسرے انسانی سماجوں کے تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
دوسروں کے تجربات سے بھی استفادہ
بعض صاحبان نے ایک بات کہی جس سے میں بھی متفق ہوں کہ روش اور طریق کار اہداف سے متاثر رہتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ ہم دوسروں کے طریقوں اور روشوں سے بالکل استفادہ نہیں کر سکتے۔ ہم استفادہ کر سکتے ہیں۔ اجرائی مرحلے میں دوسروں کے تجربات سے استفادے کا مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر بنکاری کے شعبے میں یا دیگر میدانوں میں، اقتصادی مسائل میں، سماجی امور میں، عدلیہ سے متعلق امور میں کسی قوم نے کچھ تجربات حاصل کئے ہیں اور انہی تجربات کی بنیاد پر اس نے ایک مدت تک کام کیا ہے، اس کے نتائج بھی سامنے ہیں۔ اس سے استفادہ کرنے میں کوئي حرج نہیں ہے، اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ بنابریں دوسروں کے تجربات سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔
فکری و نظری مرحلے میں ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ انصاف شناسی کو ہمیں یونیورسٹی کی سطح پر ایک کورس کا درجہ دینا ہوگا۔ یہ چیز اس وقت نہیں ہے۔ نہ دینی علوم کے مرکز میں اور نہ ہی یونیورسٹیوں میں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک فقیہ دینی علوم کے مرکز میں فقہی روش سے جن موضوعات پر بحث و تحقیق کرتا ہے ان میں ایک موضوع انصاف شناسی کا بھی ہو۔ یہی عدل و انصاف کا قاعدہ جس پر آج بات ہوئی تنقیدی مباحثے کے مراحل سے گزارا جانا چاہئے۔ اس کی خامیوں کو دور کرکے اسے نکھارا جانا چاہئے۔ یہ ابھی تنقیح کے مراحل سے نہیں گزرا ہے جبکہ فقہی بحثوں میں اس قاعدے کو بنیاد قرار دیکر استدلال کیا جاتا ہے لیکن یہ استدلال مستحکم نہیں ہوتا۔ یعنی اس کی بنیاد پر استدلال ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح دوسرے موضوعات میں بھی یہی مشکل پیش آتی ہے۔ بحمد اللہ اس نشست میں دینی علوم کے مرکز سے تعلق رکھنے والے فضلائے کرام تشریف فرما ہیں۔ کیا مشکل ہے کہ فقہ کے موضوع پر ان کی استدلالی بحثوں میں عدل و انصاف کے موضوع کو بھی شامل کیا جائے؟ سماجی انصاف کے موضوع پر بحث کی جائے، مضبوط فقہی بحث۔
یونیورسٹی میں بھی اسے ایک نئے کورس کے طور پر شامل کیا جائے۔ اس پر بحث ہو، علمی کام ہو۔ اس پر علاحدہ سے سرمایہ کاری کی جائے۔ میرے خیال میں تو نظری اور فکری سطح پر اس موضوع پر کام بہت ضروری ہے۔ اس سے نظریہ پردازی کو بھی وسعت ملے گی اور اس شعبے میں ماہر افرادی قوت کی تربیت کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
انصاف کے معیاروں کا تعین
ایک اور اہم کام معیاروں کے تعین کا ہے۔ انصاف کے معیاروں کا تعین۔ ہمارے نظری اور فکری کاموں میں ایک اہم ترین کام یہی ہے کہ انصاف کے معیاروں کی نشاندہی کریں۔ اس وقت مغرب میں جو معیار طے پائے ہیں انہیں مشروط طور پر ہم قبول کر سکتے ہیں۔ ان میں بعض تو کسی صورت سے معیار نہیں ہیں، بعض معیار ایسے ہیں جو ناقص ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو خاص حالات میں معیار قرار دئے جا سکتے ہیں۔ ہمیں مل بیٹھ کر انصاف کے معیاروں کو، معاشرے میں انصاف کے قیام کی تفصیلات کو واضح کرنا ہوگا۔ ہمارے کام کا ایک اہم ترین حصہ یہی ہے۔ عملی مرحلے میں بھی بہت زیادہ کام انجام دینے ہوں گے جن میں سے ایک یہی ہے کہ قانون سازی کے وقت انصاف کو بنیاد قرار دیا جائے۔ یہ نکتہ ارکان پارلیمنٹ اور شورائے نگہبان (نگراں کونسل) کے لئے قابل توجہ ہے۔ انہیں چاہئے کہ قانون سازی کے موقعے پر انصاف کو خاص طور پر مد نظر رکھیں اور بعد میں (قانون پر عملدرآمد کے وقت) بھی اس کا خیال رکھیں۔

انصاف اور نظریہ کائنات کا باہمی رشتہ
آخر میں دو باتیں اور عرض کرنا چاہوں گا۔ البتہ ہماری آج کی بحث سے ان کا تعلق نہیں ہے تاہم ان کی یاد دہانی مناسب ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ انصاف کے مسئلے میں خالق ہستی اور قیامت کا عقیدہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمیں اس کی جانب سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ یہ توقع عبث ہے کہ کسی ایسے معاشرے میں جو خالق کائنات اور روز قیامت پر ایمان نہ رکھتا ہے اور اس میں حقیقی انصاف کا قیام عمل میں آئے۔ جہاں بھی خالق ہستی اور روز قیامت کا عقیدہ نہ ہو انصاف ایک اجباری اور مسلط کردہ چیز سے بہتر کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ جو انصاف کے سلسلے میں مغربی معاشروں کے بعض انتہائی پرکشش منصوبے جامہ عمل نہیں پہن پاتے اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے پاس عقیدے کا سرمایہ نہیں ہے۔ بات بڑی اچھی ہے، کم از کم اس کی ظاہری صورت تو بہت اچھی ہے، خواہ وہ بہت مدلل نہ بھی ہو، عملی میدان میں دیکھا جائے تو مغربی معاشرے اور مغربی زندگیاں اس سے بالکل عاری ہیں۔ عملی طور پر یہ باتیں کہیں دکھائی ہی نہیں دیتیں، وہاں تو سراسر نا انصافی پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں خالق ہستی اور روز قیامت کا عقیدہ نہیں ہے۔ قیامت کا عقیدہ، روز قیامت اعمال کے مجسم ہوکر سامنے آنے کا عقیدہ، اس کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ ہم اگر انصاف پسند ہیں، عادل ہیں، عدل کی تعریف کرتے ہیں، عدل و انصاف کے لئے محنت کرتے ہیں تو یہ چیزیں قیامت کے دن مجسم ہوکر ہماری نظروں کے سامنے آئیں گی۔ اسی طرح اس کا برعکس بھی ہوتا ہے۔ یہ عقیدہ انسان کو حوصلہ عطا کرتا ہے، قوت عطا کرتا ہے۔ اگر انسان کو معلوم ہو کہ اس کے ظالمانہ افعال حتی ظالمانہ خیالات قیامت کے دن مجسم ہوکر سامنے آئيں گے اور وہ کس بڑی مصیبت میں گرفتار ہو جائے گا تو فطری طور پر انصاف کا دامن تھامنے کی کوشش کرے گا۔

ای دریدہ پوستین یوسفان- گرگ برخیزی از این خواب گران

جس کا یہ عقیدہ ہو کہ دنیا میں گرگ صفت انسان موت کے گہرے خواب سے جب قیامت کے دن جاگے گا تو خود کو بھیڑیئے کی صورت میں دیکھے گا تو اس عقیدے کا اس کے اعمال پر گہرا اثر ہوگا۔ بنابریں انصاف کے موضوع سے متعلق مطالعے اور تحقیقات میں اس نکتے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
اپنے اوپر ظلم
دوسری بات میں یہاں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک ذاتی انصاف بھی ہوتا ہے جس کا سماجی انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن کی آیات میں اپنے نفس پر ظلم کی بات کئی جگہ بیان کی گئی ہے۔ ظلم کی ضد عدل ہے۔ (امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے منقول) دعائے کمیل میں بھی ہم پڑھتے ہیں؛ ظلمت نفسی (میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے) مناجات شعبانیہ میں بھی ہم پڑھتے ہیں؛ «قد جرت على نفسى فى النّظر لها فلها الويل ان لم تغفر لها» گناہیں، لغزشیں، خواہشات کی پیروی، ہوائے نفسانی پر عمل اپنے نفس پر ظلم ہے۔ یہ بھی بہت اہم چیز ہے۔ جب ہم انصاف کے موضوع پر بات کر رہے ہیں، سماجی روابط میں انصاف، سماجی نظام کی تشکیل میں انصاف پر جب ہماری گفتگو ہو رہی ہے تو ہم اپنے نفس کے ساتھ انصاف کے موضوع کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنے ساتھ بھی انصاف کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنے نفس پر ظلم و جور نہیں کرنا چاہئے۔ اگر اللہ تعالی نے یہ توفیق عطا کی کہ ہم ظلم سے اجتناب کر سکیں تو مجھے قوی امید ہے کہ معاشرے کی سطح پر بھی ہم عدل و انصاف قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

) حديد: 25
2) ذاريات: 56
3) سبا: 34
4) هود: 31