جنوبی بیڑے کے کنٹرول اینڈ کمانڈ سینٹر میں پہنچنے کے بعد مسلح فورسز کے سپریم کمانڈر آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو ولایت نامی دوسرے زون اور کنارک نامی تیسرے زون کے کمانڈروں نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے اپنے اپنے علاقے کے آپریشنوں کی بریفنگ دی۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کی مسلح فورسز کے کمانڈروں سے خطاب کرتے ہوئے بحریہ کی پیشرفت کے لئے دستیاب صلاحیتوں اور میدانوں کا ذکر کیا. آپ نے فرمایا کہ بین الاقوامی پانیوں میں بحریہ کی موجودگی، فعالیت اور اس موجودگی کے لازمی اقدامات کی انجام دہی بحریہ کے ایک واقعی اسٹریٹیجک فورس میں تبدیل ہو جانے کی تمہید ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے باب المندب، خلیج عدن، بحیرہ احمر اور نہر سویز میں بحریہ کی عزت بخش اور اقتدار آفریں موجودگی کے پیغام اور اس کے عالمی اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس موجودگی سے دشمن پر شدید سراسیمگی اور خوف طاری ہو گيا کیونکہ بین الاقوامی بحری حدود میں اسلامی جمہوریہ ایران کے بحری دستوں کی موجودگی قوموں کے لئے سبق آموز اور امید افزا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران جارح ملک نہیں ہے لیکن بین الاقوامی بحری حدود میں اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی لیاقت رکھتا ہے کیونکہ بین الاقوامی بحری علاقوں پر سب کا حق ہے اور یہ ثقافتوں کے لین دین کا پلیٹ فارم ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ان اسٹریٹیجک خصوصیات کی حامل بحریہ، ملک کی سیاست، قومی وقار اور خود مختاری کے لئے اہم کردار رکھتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم الله الرّحمن الرّحيم
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے آپ عزیزوں، کمانڈروں، جوانوں اور اہلکاروں سے ایک اور ملاقات، دوبارہ تجدید عہد اور تہہ دل سے اظہار تشکر کے لئے اس میدان میں حاضر ہونے کا موقعہ مرحمت فرمایا۔
آپ یقین جانئے! آج ایک موثر ترین عمل یہی کام ہے جو بحریہ اور پاسداران انقلاب فورس کے بحری شعبے کے تحت آپ انجام دے رہے ہیں۔ یعنی برسہا برس کی پسماندگی کی تلافی جو طاغوتی حکومتوں نے بحری شعبے میں ایران کی شراکت کی زمین ہموار نہ کرنے کی وجہ سے مسلط کر دی۔ آج آپ کی محنتوں سے اس دیرینہ پسماندگی کی تلافی ہو جانی چاہئے۔
ہم سب کو معلوم ہے کہ کسی بھی ملک کے پاس بحری حدود کا ہونا قومی مفادات کی حفاظت اور ترقی کے لئے سنہری موقعہ تصور کیا جاتا ہے۔ کسی بھی ملک اور قوم کے لئے سمندر سے وابستہ مفادات اسٹریٹیجک قسم کے مفادات ہوتے ہیں، بڑے اہم مفادات ہوتے ہیں۔ بعض طاقتوں نے بحری علاقوں پر تسلط قائم کرکے کئی صدیوں تک، تقریبا چار سو سال تک اپنے عالمی تسلط کو دور دواز کے خطوں تک پھیلایا۔ قوموں پر مظالم ڈھائے گئے، زمینیں غصب کی گئيں، قوموں کے ذخائر تاراج ہوئے۔ یہ توسیع پسند ممالک اور حکومتیں جن کا سمندروں پر تسلط تھا اپنے ظالمانہ اقدامات کے ذریعے مادی طاقت اور مقام و مرتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ ہمارے علاقے کی قومیں خواہ وہ خلیج فارس کے علاقے میں بسنے والی قومیں ہوں یا بحیرہ احمر کے ساحل پر آباد قومیں ہوں، برسوں تک شاید دسیوں سال تک جنگی کشتیوں پر سوار ہوکر دور دراز کے علاقوں سے اس خطے میں آنے والوں کے جبر و استبداد کو برداشت کرنے کی عادی ہو گئی تھیں۔ ان کے سامنے دم سادھے کھڑی رہتی تھیں، سانس لینے کی ہمت بھی نہیں کر پاتی تھیں۔
ایک زمانہ تھا کہ اسی خلیج فارس میں، اس انتہائی حساس بحری علاقے میں برطانوی جہاز آتا تھا، جہاز کا کمانڈر اندر سے فرمان جاری کرتا تھا، حکم دیتا تھا اور لوگ اس کی اطاعت کو اپنا فرض سمجھتے تھے۔ اس علاقے میں برسوں تک یہ سلسلہ چلا ہے۔
آج حالات بدل چکے ہیں۔ دور تک پھیلا ہوا یہ طویل ساحل ایران کی ملکیت ہے، آج یہ ایک خود مختار حکومت اور سرفراز و بیدار قوم کے اختیار میں ہے، ایسی قوم کے اختیار میں جس کی تکیہ گاہ خداوند عالم ہے، جسے اپنی صلاحیتوں کا علم اور اس پر فخر ہے، وہ ہر سیاسی و فوجی طاقت کے تسلط پسندانہ عزائم پر اپنی قوت ارادی کی فوقیت ثابت کرتی ہے اور جو لوگ قوموں پر استبدادی انداز میں حکومت کرنا چاہتے ہیں انہیں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
آج خلیج فارس اور بحیرہ احمر کا علاقہ مختلف ممالک، امریکہ اور یورپ کے جہازوں کی ضرررساں اور ناپسندیدہ موجودگی کے باوجود ایک آزاد اور خود مختار علاقہ ہے، اس کی وجہ اسلامی جمہوریہ، سربلند مملکت ایران اور مقتدر ملت ایران کا وجود ہے۔
ماضی کا وہ دور قصہ پارینہ بن چکا ہے جب بعض طاقتیں آکر اپنی فوجی توانائیوں کے ذریعے اس علاقے کی تقدیر کے فیصلے کرتی تھیں۔ ممکن ہے کہ آج بھی اس علاقے کے حکمرانوں اور عہدیداروں میں بعض ایسے بھی ہوں جو اغیار کے سر سے سر ملانے کی خواہش رکھتے ہوں لیکن اب قومیں بیدار ہو چکی ہیں۔ اب قومیں پوری طرح ہوشیار ہو چکی ہیں۔ قوموں کو بخوبی علم ہے کہ صرف ہمارے علاقے میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی گوشے میں اغیار کی فوجی اور مسلحانہ موجودگی اس علاقے کی بد امنی اور عدم تحفظ کا باعث بنتی ہے۔ یہاں بھی اغیار کا وجود بد امنی کا باعث ہے۔ خلیج فارس اور بحیرہ احمر کی سلامتی صرف علاقے کے ملکوں کی شرات اور باہمی تعاون سے یقینی بن سکتی ہے۔ بحری حدود کے مفادات کا تعلق سب سے ہے۔ اس بابرکت سمندر میں موجود وسائل اس علاقے کی تمام قوموں کی ملکیت ہیں۔ ان برکتوں کو کس طرح قومی مفادات کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور ملک کو ان سے بہرہ مند کیا جا سکتا ہے؟ اپنے اندر طاقت پیدا کرکے۔ یہ طاقت آپ مسلح فورسز کے ذریعے حاصل ہو سکتی ہے جو جہاد اور ایثار جیسے مفاہیم سے آشنائی رکھتی ہیں۔
اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے آغاز سے اب تک ہم نے کبھی کسی ملک کو، کسی بھی طاقت کو جنگ اور ٹکراؤ کے لئے مشتعل نہیں کیا اور نہ کریں گے۔ جہاں تک ممکن ہوگا منصوبہ بند یا اتفاقیہ طور پر پیش آنے والے ٹکراؤ سے بچیں گے۔ یہ بات اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ ہم ایک امن پسند قوم ہیں۔ لیکن جو لوگ اپنے امور کو فوجی طاقت کے ذریعے، فوجی غلبے کے ذریعے اور زور زبردستی سے آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے انہیں اپنے مقابل ایک مقتدر قوم کھڑی نظر آئے گی اور بحری علاقے میں اس قوم کی طاقت و قوت کا مظہر بحریہ سے تعلق رکھنے والے آپ جیسے اہلکار ہیں جو اس طویل ساحل کے چپے چپے پر تعینات ہیں۔
آپ کے شب و روز، آپ کے فرائض منصبی سے تعلق رکھنے والے دورے، آپریشن، کمک یا تربیت سے متعلق آپ کی ہر ذمہ داری ایک حسنہ ہے، ملت ایران کے مفادات اور اسلامی جمہوریہ ایران کی سربلندی کی راہ میں اٹھایا جانے والا ایک قدم ہے۔ اللہ تعالی اس مجاہدت کو، ایسی مجاہدت جس سے بہت سے افراد آشنا نہیں ہیں، اس خاموش مجاہدت کو دیکھتا ہے اور آپ کے لئے دیوان الہی میں اجر و ثواب لکھا جاتا ہے۔ جہاں تک ہو سکے اس مقدس فریضے کے سلسلے میں صادقانہ و مخلصانہ انداز سے اور اپنی پوری طاقت و توانائی سے مجاہدت کیجئے۔ اس سلسلے کو جاری رکھئے اور یقین جانئے کہ یہ ملک، یہ نظام اور یہ قوم آپ جوانوں کی ممنون کرم ہے کیونکہ آپ اس کی طاقت و توانائی کی عملی تصویر پیش کرتے ہیں۔
یہ علاقہ مسلح فورسز کے وجود کی برکت سے عظیم کام انجام دے رہا ہے۔ خواہ بحیرہ احمر کا علاقہ ہو یا خلیج فارس کا ساحلی خطہ۔ مختلف شعبوں اور اداروں کے حکام کا فرض ہے کہ مسلح فورسز سے تعاون کریں تا کہ یہ کام بنحو احسن انجام پائیں۔
میں مسلح فورسز سے تعلق رکھنے والے آپ عزیز جوانوں، حکام اور کمانڈروں کے درمیان آکر بہت خوش ہوں۔ اللہ تعالی کے لطف و کرم کا سایہ آپ پر قائم رہے اور حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی دعائے خیر آپ کے شامل حال رہے۔
والسّلام عليكم و رحمة الله و بركاته