قائد انقلاب اسلامی نے اس موقعے پر اپنے خطاب میں فرمایا کہ ایثار کا جذبہ کسی بھی قوم اور ملک کے لئے نجات کا باعث ہوتا ہے اور کوئی بھی معاشرہ جذبہ ایثار کے بغیر عزت و عظمت حاصل نہیں کر سکتا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران کا نظام اسلامی جمہوری یعنی اسلامی عوامی نظام ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام شعبوں میں عوام کا حقیقی کردار ہو اور عوام کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حالات اور تغیرات کی پیچیدگي کا حوالہ دیتے ہوئے بروقت احساس ذمہ داری اور دانشمندانہ اقدام کو ضروری قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ لطف خدا سے آج ایران کے باایمان، دیندار اور فرض شناس عوام کی ہوشیاری اور امنگوں کی پابندی بہت زیادہ ہے۔
خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
 
بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
 
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ معنوی عظمتوں سے معمور اس نشست میں حاضر ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ مختلف شہروں کے دوروں کے موقعے پر جو ملاقاتیں ہوتی ہیں ان میں میرے لئے ایک انتہائی اہم اور خاص عظمت رکھنے والی ملاقات شہدا کے اہل خانہ، اور (ملک کا دفاع کرتے ہوئے زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے) جانبازوں سے ملاقات ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایثار و قربانی میں ایک ایسی عظمت نہفتہ ہوتی ہے کہ اس جیسی عظیم اور فیصلہ کن خوبیوں سے عاری معاشرہ کبھی بھی عزت و وقار حاصل نہیں کر پاتا۔ شہیدوں کی شہادت اور مجاہدین کے ایثار و قربانی کے محدود پہلو ہی ہماری نظروں کے سامنے آ پاتے ہیں اور ہم بہت کم ہی چیزیں دیکھ پاتے ہیں۔ ورنہ حقیقت میں معاشرے میں ایثار و قربانی کا جذبہ جو بعض افراد کی شہادت اور بعض کے جسمانی طور پر معذور ہو جانے پر منتج ہوتا ہے عمیق مفاہیم کا حامل ہے، اس کے متعدد پہلو ہوتے ہیں جن میں ہر ایک بحث طلب پہلو ہے۔ انہی میں سے ایک اہم پہلو موقع شناسی اور وقت کی ضرورت کے مطابق عمل کرنا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ بعض افراد میں احساس ذمہ داری ہو لیکن ضرورت کے وقت وہ صحیح تشخیص اور صحیح اقدام کرنے میں ناکام رہ جائیں۔ اس سے بالکل مختلف صورت یہ ہے کہ عین ضرورت کے وقت انسان اپنی ذمہ داری کا تعین کرے اور اس کے مطابق اقدام انجام دے۔ باغیرت، با ایمان، با شجاعت اور وفادار نوجوانوں نے جو ملک کی ضرورت کو سمجھا اور خطرات سے گھبرائے نہیں بلکہ مشکلات کو گلے لگایا، یہ قابل تعریف بات ہے کہ انہوں نے بر وقت ضرورت کا احساس کیا اور اس کی تکمیل کے لئے آگے آئے۔ یہ بہت اہم پہلو ہے۔ یہ ہمارے لئے سبق آموز چیز ہے۔
میں نے کل بھی اس نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ اسلامی انقلاب کی فتح کے ایک مہینے بعد کرمانشاہ کے نوجوانوں کو احساس ہو گیا کہ انہیں آگے آنا ہے تو وہ آگے آئے۔ سید محمد سعید جعفری شہید جو جام شہادت نوش کرنے والوں میں پیش پیش تھے، اپنے احباب کے ساتھ گئے اور سنندج کی لشکر فوجی چھاونی کا دفاع کیا۔ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اس دفاع کی اہمیت کیا ہے؟! ایک فوجی چھاونی پر دشمن کا تسلط قائم ہو جانے کا کیا مطلب ہے؟ جلد سمجھ جانا، بر وقت محسوس کر لینا اور بر وقت اقدام کرنا، ضرورت کی تکمیل کے لئے قدم بڑھانا بہت نمایاں خوبی ہے جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
پورے ملک میں ہمارے عزیز شہداء کے اندر یہ خصوصیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ دوستوں نے کئی شہروں کے نام گنوائے اور صوبے کے ان علاقوں سے وابستہ یادیں دوہرائیں جہاں جنگ ہوئی۔ یوں تو ملک کے دیگر علاقوں سے بھی لوگ آئے اور اسی سرزمین پر خاک و خوں میں غلطاں ہوئے تاہم اس صوبے کے عوام کا کردار، با ایمان نوجوانوں کا کردار، ان نوجوانوں میں پایا جانے والا وہ عظیم اور نایاب احساس، ان کی دانشمندی، ان کی موقعہ شناسی، ان سب چیزوں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کی ہمیں ہمیشہ ضرورت رہے گی۔
دنیا کے ممالک اور معاشرے موقعہ کی شناخت نہ رکھنے اور حالات کا علم نہ ہونے کی وجہ سے چوٹ کھا جاتے ہیں۔ جب دشمن گھات لگائے ہو اور ہمیں معلوم نہ ہو کہ وہ گھات میں بیٹھا ہے، ہم اسے پہچانتے نہ ہوں یا اگر ہمیں اس کی اطلاع بھی ہوئی تو ہم نے بر وقت کوئی اقدام نہ کیا تو ہم پر ضرب پڑ جائے گی۔
برادر عزیز نے یہاں ایک بڑا اچھا جملہ ارشاد فرمایا کہ خاندانوں کے لوگ کہتے تھے کہ اگر ہم مجاہدین کو گھر سے باہر نہ بھیجیں گے تو کل کو دشمن ہمارے دروازے پر آن پہنچے گا اور اس وقت بھی ہمیں لڑنا پڑے گا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ یہ وہی نکتہ ہے جس کا ذکر حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے کیا کہ جو جماعت اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے دشمن کی یلغار کا نشانہ بنے یعنی اس بات سے غافل ہو کہ دشمن اس کی طرف بڑھ رہا ہے، اس کی شکست یقینی ہے، اسے ہارنا ہی ہے۔ دشمن کو دور سے ہی دیکھ لینا چاہئے، اسے دور سے ہی پہچان لینا چاہئے۔ یہ ان افراد کی بڑی غلطی تھی جنہوں نے دشمن کو اس وقت نہیں پہچانا جب پہچان لینا چاہئے تھا۔ تہران میں جب کہا جاتا تھا کہ دشمن کرمانشاہ کے علاقے میں یا ایلام کے علاقے میں فوجی تیاریوں میں مصروف ہے تو وہاں جو افراد سیاسی امور میں مصروف تھے جواب دیتے تھے کہ نہیں ایسا نہیں ہے، ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ تہران پر بمباری شروع ہو گئی۔ جنگ حقیقت میں دیکھا جائے تو 31 شہریور سنہ 1359 ہجری شمسی مطابق 22 ستمبر 1980 عیسوی کو شروع نہیں ہوئی، اس دن تو تہران پر بمباری ہوئی، جنگ تو اور پہلے سے ہی شروع ہو چکی تھی۔ اس وقت جن عہدیداروں کے ہاتھوں میں زمام امور تھی اگر صحیح طور پر سمجھ جاتے، صحیح تشخیص دینے میں کامیاب ہو جاتے اور اپنی تیاریاں مکمل کر لیتے تو خرم شہر میں وہ سب نہ ہوتا جو ہوا، نہ قصر شیریں میں وہ واقعات رونما ہوتے جو ہوئے اور نہ دیگر علاقوں کو اس طرح کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا۔ بعد میں ان افراد کی نااہلی بھی سامنے آ ہی گئی۔
اسی شروعاتی غفلت کی وجہ سے اس علاقے میں اور خوزستان کے علاقے میں غم و اندوہ کا پہاڑ ٹوٹا جس کا میں نے تھوڑی سی مدت کے لئے قریب سے مشاہدہ کیا، بعض مناظر کو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا، ان باتوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جب بھی امور عوام کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، جب عوامی صلاحیتوں کو اور عوامی شراکت کو میدان عمل میں آنے کا راستہ مل جاتا ہے تو یہ غفلتیں پھر رونما نہیں ہوتیں۔ اس وقت اسی چیز کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ انہیں علاقوں میں جگہ جگہ لوگ جمع ہوتے تھے اور بڑی مشکل سے اسلحہ حاصل کر پاتے تھے اور پھر دفاعی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے تھے۔ عہدیدار اس صورت حال سے ناراض تھے، رسمی اجلاسوں میں اس کی شکایت بھی کرتے تھے کہ فلاں جماعت نے فلاں جگہ پر اسلحہ کیوں اکٹھا کر لیا ہے۔ کچھ نوجوان دفاعی سرگرمیوں میں مصروف تھے جو ان عہدیداروں کو قطعی نہیں پسند تھا۔ یہ ہمارے لئے بہت اہم سبق ہے۔
میں نے کل عرض کیا کہ اسلامی جمہوری نظام جیسا نظام حکومت جس کے یہ اہداف ہیں، یہ امنگیں ہیں اور یہ پیغام ہیں، جو ظلم کا دشمن ہے، جو استکبار کا مخالف ہے، جو عالمی طاقتوں کی متکبرانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کا انکاری ہے، اسے مختلف شکلوں میں اور گوناگوں رنگوں کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہذا اسے تیار رہنا چاہئے۔ اس آمادگی کا انحصار سب سے بڑھ کر عوام کے جذبہ ایمانی پر ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کی شناخت اور عز و وقار کی حفاظت کے سلسلے میں مضبوط سہارا اور مستحکم محافظ عوام کے اندر پائی جانے والی آگاہی و بیداری ہے۔ ہم نے جنگ میں اس کا باقاعدہ تجربہ کیا ہے۔ آج بھی جس شعبے میں اور جس گروہ کے اندر حکام عوام کو اہم شراکت اور کردار ادا کرنے کا موقعہ دیں وہاں یہی صورت حال سامنے آئے گی۔ یہ اسلامی جمہوریہ ہے، جمہوریت ہے، اسلامی جمہوریت ہے۔ جمہوریت حقیقی معنی میں جمہوریت ہونی چاہئے، یہ محض نمائشی چیز نہیں ہے۔ شہدا نے، جانبازوں (دفاعی سرگرمیوں کے دوران زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والوں) نے، آزادگان (محاذ جنگ پر دشمن کے ہاتھوں قید اور پھر جیل سے آزاد ہوکر وطن لوٹنے والوں) نے، ان کے اہل خانہ نے اس راستے میں بہترین امتحان دیا ہے۔ شہیدوں کے خاندانوں نے جس صبر جمیل کا مظاہرہ کیا اس کی بڑی قیمت ہے۔ اگر اہل خانہ نے عدم تحمل کا مظاہرہ کیا ہوتا، بے بصیرتی کا مظاہرہ کیا ہوتا تو مجاہدت کی فضا کی وہ گرمی باقی نہ رہتی، دلوں میں ایثار اور فداکاری کا وہ جذبہ قائم نہ رہ پاتا۔ گھر والوں نے صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ مقدس دفاع کے زمانے کو کئي سال گزر چکے ہیں لیکن شہادت کا باب بند نہیں ہوا ہے۔ اب بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خاندان والوں کو ایسے عزیزوں کا داغ اٹھانا پڑتا ہے جن کے لئے مختلف مواقع پر شہادت کے دروازے وا ہوتے ہیں اور وہ اس دروازے کی سمت محو پرواز ہو جاتے ہیں۔ اگر ایک قوم میں یہ بصیرت اور یہ صبر موجود ہو تو وہ بلا شبہ بلند چوٹیوں کو بآسانی سر کر لیگی۔
ہم اپنے ہدف کی شناخت میں اور اس ہدف تک پہنچانے والے راستے کے تعین میں کبھی شک و تردد سے دوچار نہیں ہوئے۔ ہمیں اپنے راستے کی حقانیت کے بارے میں کبھی کوئی شک و شبہ نہیں ہوا۔ اس پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ اللہ نے کبھی بھی ہمارے دلوں کو نور امید سے خالی نہیں چھوڑا اور ہم نے عملی طور پر بھی آزمایا کہ یہ امیدیں بے بنیاد نہیں تھیں بلکہ بالکل حقیقت پسندانہ امیدیں تھیں۔
ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب لوگ ماحول پر نظر دوڑاتے تھے تو بظاہر کہیں کوئی امید بخش منظر دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن نور بصیرت رکھنے والے عوام اور ان میں سر فہرست ہمارے امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) ہمارا حوصلہ بڑھاتے تھے، اچھے مستقبل کی نوید دیتے تھے۔ ہم یہ باتیں سن کر بغیر کسی چوں چرا کے تسلیم کر لیتے تھے، اس کا تجزیہ کرنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ بس سن کر مان لیتے تھے لیکن بعد میں بارہا دیکھا کہ وہ بات بالکل صحیح نکلیں۔ ہم مشاہدہ کرتے تھے کہ یہی نوید آسمانی، عملی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ آج جب ہم مڑ کر انقلاب کے ان بتیس برسوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اسلامی جمہوری نظام کی پے در پے کامیابیاں نظر آتی ہیں۔
شہداء کے باعظمت اہل خانہ، جانبازوں اور ایثار پیشہ مجاہدین سے ملاقاتوں میں سب سے پہلے اس حقیر کی توجہ جس چیز پر مرکوز ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ ہماری عزیز قوم ملک کو نجات سے ہمکنار کرنے والے جذبہ ایثار کو ملحوظ رکھے۔ ایثار کا جذبہ، فداکاری کا جذبہ، فرائض کی انجام دہی کے وقت کی شناخت، کام کی بروقت انجام دہی، نجات کا راستہ ہموار کرتی ہے۔
خوش قسمتی سے آج ہم اپنے ملک میں پیشرفت اور کامیابیوں کے آثار کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں پیشرفت حاصل ہو رہی ہے۔ البتہ محنت ضروری ہے، کام کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ امور اب زیادہ پیچیدگیوں اور نزاکتوں کے قریب پہنچنے والے ہیں۔ گزشتہ برسوں کی نسبت اس وقت ہمارے عوام کی دانشمندی میں بھی کئی گنا کا اضافہ ہوا ہے۔ بحمد اللہ ہمارے معاشرے میں صاحب ایمان، اہداف پر ایقان و اعتقاد رکھنے والے اور ان کے پابند رہنے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس صوبے میں بھی یہی عالم ہے۔ اس صوبے میں جو کچھ ہم نے دیکھا ہے اور اس کے بارے میں جو کچھ سنا ہے اس کے مطابق دلاوری، شجاعت اور جوانمردی جیسی خصوصیات بہت نمایاں ہیں۔
سننے میں آیا کہ (صوبہ کرمانشاہ کے علاقے) گیلان غرب کی ایک خاتون نے دشمن سپاہی کو قید کر لیا۔ ایک عورت، ایک شجاع اور باایمان خاتون نے۔ اس صوبے میں شجاعت کے مظاہر اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہاں سے بڑے شجاع اور لیاقت مند کمانڈر نکلے ہیں۔ آپ مقدس دفاع کی پیشانی پر چمک رہے ہیں۔ مقدس دفاع کے متعدد افتخارات کا تعلق اسی صوبے سے ہے۔ آپ نے پشت پناہی کی، ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالی آپ کو معنوی انعامات سے نوازے گا۔ اسی طرح دنیوی اجر یعنی ملک کا وقار آپ کو اور پوری ملت ایران کو عطا کرے گا۔
ہمارے لئے یہ سفر بہت شیریں رہا کیونکہ عزیز عوام سے ملاقات اور ان کے شاداں و خنداں چہروں کی زیارت کا موقعہ ملا جو دسیوں ہزار کی تعداد میں راستے میں کھڑے ہوئے تھے۔ میں امید کرتا ہوں کہ حکام اس صوبے میں وہ سارے کام انجام دیں گے جن کی ضرورت ہے۔ اس صوبے میں بہت کچھ کرنے کی گنجائش باقی ہے۔ صوبہ اچھی صلاحیتوں سے مالامال ہے البتہ کمیاں بھی ہیں جنہیں محنت سے دور کرنے کی ضرورت ہے۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌