قائد انقلاب اسلامی نے پیر 11 مہر سنہ 1390 ہجری شمسی مطابق 3 اکتوبر سنہ 2011 عیسوی کو تہران میں ادارہ حج کے عہدیداروں سے ملاقات میں حج کو امت مسلمہ سے رابطہ قائم کرنے اور روحانی فائدہ اٹھانے کا گراں بہا اور بیش قیمت موقعہ قرار دیاـ قائد انقلاب اسلامی نے حج کے مناسک کے دوران اسلامی بیداری کی لہر کا سد باب کرنے اور نفاق ڈالنے کے دشمن کے عزائم کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ اس سازش پر قابو پانے کا واحد راستہ دلوں کو قریب لانا اور ہمدلی کو تقویت پہنچانا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے حج کو اسلام کے اہم رموز کا جز اور عظیم ضیافت الہی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ حج کے عمومی اور بین الاقوامی پہلو کے تحت قومیتی، مسلکی اور مذہبی فرق کو نظر انداز کرتے ہوئے اسلامی رشتے کی تقویت اور آپسی ہمدلی پر سنجیدگی سے توجہ دینا چاہئے اور اس موقعے کو دلوں کی باہمی قربت کے لئے استعمال کرنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تمام مسلمان ایک پیکر عظیم کے اعضاء ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایرانی حجاج کرام کو چاہئے کہ اس وسعت نظر اور عالمی نقطہ نظر کے ساتھ حج سے مشرف ہوں اور سامراج سے جہاد کے اپنے تیس سالہ تجربات سے انقلابی اقوام کو روشناس کرائيں۔
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
میں عزیز بھائیوں اور بہنوں، حجاج کرام کے خدمت کاروں، کاروانوں کے سربراہوں، کاروانوں کے ذمہ داروں اور کارکنوں اور ادراہ حج و زیارات نیز (مکہ اور مدینہ میں ایران کے ادارہ حج کے) مرکزی دفتروں کے ذمہ داران اور کارکنوں کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ خداوند عالم سے دعا ہے کہ وہ توفیق عنایت فرمائے، ہدایت فرمائے اور نصرت کرے کہ آپ اپنی بلند ہمتی اور عمیق نیز پرجوش جذبات کے ساتھ اس سال ہمارے عازمین حج کے لئے معنوی، پرشکوہ اور خدا کی بارگاہ میں مقبول حج کے امکانات فراہم کریں۔
یہ عظیم واقعہ یعنی حج جس کا امت اسلامیہ کی جانب سے ہر سال اعادہ ہوتا ہے، اسلام کے بنیادی رموز میں سے ایک ہے۔ روایت میں ہے کہ حج کا حق یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہو کہ انّہ وفادۃ الی ربّک (1) یہ خدا کے پاس جانے اور خدا کا مہمان بننے سے عبارت ہے۔ ظاہر ہے کہ مرکز عظمت، مرکزقدرت، مرکز جمال اور مرکز کرم کا مہمان بننا کتنی بڑی بات ہے؟! دور و نزدیک کی تمام مسلم اقوام ہر سال سعی و کوشش کرتی ہیں کہ اس عظیم ضیافت تک خود کو پہنچا سکیں۔ کچھ لوگوں کو یہ توفیق اور سعادت حاصل ہو جاتی ہے۔ ہم بھی امت اسلامیہ کا ایک حصہ ہیں اور اس کے امور کا ایک حصہ ہمارے ذمہ بھی ہے۔ امت اسلامیہ کی اس عظیم تحریک کا ایک حصہ ہم ایرانیوں کے ذمہ ہے۔ ہمیں اس بات کی فکر، کوشش اور منصوبہ بندی بھی کرنی چاہئے کہ یہ اعمال، اسلامی اور بین الاقوامی سطح پر انتہائی پرشکوہ، بامعنی اور بامقصد انداز میں بجا لائے جائیں اور اسی کے ساتھ ان سے خود بھی بہرہ مند ہونے کی فکر کرنی چاہئے- آپ بھی جو عازم حج ہیں اور اسی طرح دیگر تمام عازمین حج بہرہ مند ہونے کی فکر میں رہیں۔ بنابریں ان دونوں باتوں پر ایک ساتھ توجہ ہونی چاہئے۔
پہلے حصے میں جو عام اور بین الاقوامی ادائیگی اور اسلامی دنیا نیز امت اسلامیہ سے متعلق ہے، ایرانی عازمین حج کا فریضہ ہے کہ اچھے کردار کا ثبوت دیں، برادری کا ثبوت دیں، ہمدلی کا ثبوت دیں، دلوں کو نزدیک تر لانے کے لئے اپنے اور دیگر اقوام کے درمیان اسلامی رشتے کو نمایاں کریں، یہ فرائض میں شامل ہے۔ یہ اس کے بالکل برعکس ہے جو آج اسلام اور مسلمانوں کے دشمن چاہتے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن چاہتے ہیں کہ امت اسلامیہ متحد نہ ہو۔ اس لئے کہ اگر متحد ہوگی تو قوی ہوگی، طاقتور ہوگی، مختلف میدانوں میں اپنے تشخص کی فکر میں ہوگی، ایسی صورت میں عالمی استعمار کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی۔ لہذا وہ مذہبی اختلافات شروع کروانا چاہتے ہیں، قومی اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں۔ اقوام کے درمیان انتہا پسندانہ نیشنلزم پھیلانا چاہتے ہیں کہ یہ فارس ہے، یہ عرب ہے، یہ ترک ہے یہ پاکستانی ہے اور یہ وہاں کا ہے، یہ شیعہ ہے اور یہ سنی ہے۔ ان اختلافات کو مستقل طور پر نمایاں کرتے ہیں، بڑا کرکے پیش کرتے ہیں تاکہ ہمارے درمیان دیوار کھڑی کر دیں، تا کہ ہمارے درمیان بد گمانی پیدا کر دیں، تاکہ ہم ایک ساتھ نہ رہیں اور ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کے ایک عظیم تحریک وجود میں نہ لائیں۔
اس سال یہ سازش زیادہ ہوگی۔ اس کو جان لیں۔ اس سال چونکہ اسلامی بیداری وجود میں آئی ہے، مصر بیدار ہو چکا ہے، تیونس بیدار ہو چکا ہے، لیبیا بیدار ہو چکا ہے، یمن بیدار ہو چکا ہے، بحرین بیدار ہو چکا ہے، مسلم اقوام نے اپنے انقلابات اور اپنی عظیم تحریکوں کے تیز اور طوفانی رخ کو استعمار کے طرف موڑ دیا ہے، صیہونیوں کے خلاف قرار دیا ہے بنابریں ان کی کوشش یہ ہے کہ اقوام کے درمیان رابطہ قائم نہ ہونے دیں۔ ان کے دلوں کو ایک دوسرے سے نزدیک نہ ہونے دیں۔
صد دل بہ یکدیگر چو شود آشنا، یکی است
( سو دل جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک ہو جاتے ہیں)
جب دل ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک ہو جاتے ہیں۔ ان کا ارادہ ایک ہو جاتا ہے، ان کی خواہش ایک ہو جاتی ہے، ان کا فیصلہ ایک ہو جاتا ہے۔ دشمنوں کی کوشش ہے کہ ایسا نہ ہونے پائے۔ لہذا وہ جذبات کو بھڑکانے کے لئے کوشش کریں گے کہ سنیوں میں سنیت شیعوں میں شیعیت اور دوسرے فرقوں میں ان کی خصوصیات میں شدت لائیں۔ افسوس کہ ان کے پاس حربے بھی ہیں اور وہاں شاید زیادہ ہوں۔ ان پر غلبہ حاصل کریں۔ واعتصموا بحبل اللہ جمیعا (2) حج حبل اللہ کے مظاہر میں سے ایک ہے۔ خدا کی اس محکم حبل اور رسی کو سب مل کے مضبوطی سے پکڑ لیں۔ یعنی ایک ساتھ رہیں۔ نہ صرف یہ کہ آپ ایرانی ایک ساتھ رہیں بلکہ امت اسلامیہ ایک ساتھ رہے۔ مسلمان چاہے افریقا کے ہوں، چاہے ایشیا کے ہوں، چاہے یورپ کے ہوں ، سفید فام ہوں یا سیاہ فام دنیا کے جس نقطے سے بھی تعلق رکھتے ہوں، سب ایک ہی پیکر کے اعضاء ہیں۔ یہ وہ عظیم عمومی اور عالمی نقطہ نگاہ ہے۔
ارتباط برقرار کریں، گفتگو کریں، اپنے بارے میں بتائیں، ان کے بارے میں پوچھیں، حوصلہ بڑھائيں، ان سے حوصلہ حاصل کریں، استعمار، سامراجیوں، دشمنوں اور مخالفین کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں، آپ کے پاس تیس سال کا تجربہ ہے، ان بھائیوں کو جو نئے نئے اس میدان میں اترے ہیں، ان سے آگاہ کریں۔ جو لوگ تشریح، وضاحت اور بیان کی توانائی نہیں رکھتے، وہ اپنے کردار سے لوگوں کو دعوت دیں۔ کونوا دعاۃ النّاس بغیرالسنتکم (3) لوگوں کو زبان سے بھی دعوت دی جا سکتی ہے لیکن قوی تر اور بہتر وہ دعوت ہے جو عمل سے دی جائے۔ آپ کا ادب، آپ کا احترام کرنا، حج کے حقائق سے آپ کے قلبی لگاؤ کا اظہار، وہ عمومی اور اجتماعی کردار ہے جو بین الاقوامی اسلامی واقعے کے بہتر انداز میں منظر عام پر آنے میں ممد و معاون ہے۔
بعض امور ایسے ہیں جو آپ کے دل کے ہیں، آپ کے دل سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا ذخیرہ کریں۔ ہم مادیات، جذبات اور وسوسوں سے آلودہ اس دنیا میں ہیں، اگر اس سرحد سے جس کا نام موت ہے، اسی حالت میں گزرنا چاہیں تو وائے ہو ہم پر۔ ہمیں خود کو پاکیزہ کرنا چاہئے۔ یہ پاکیزگی نماز میں حاصل ہوتی ہے، تلاوت قرآن کریم میں حاصل ہوتی ہے، روزے میں حاصل ہوتی ہے، صدقہ دینے اور بخشش کرنے میں حاصل ہوتی ہے۔ انواع و اقسام کے فرائض کی ادائیگی میں انسان کے اندر یہ پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔ حج ان تمام فرائض کا مجموعہ ہے۔ حج میں ذکر ہے، حج میں طواف ہے، حج میں نماز ہے، حج میں وقوف (ٹھہرنا) ہے، حج میں خدا پر توجہ ہے، حج میں انفاق (یعنی راہ خدا میں بخشش) ہے، حج میں قربانی ہے۔ سب کچھ حج میں یکجا جمع ہے۔ حج ان تمام کاموں کا مجموعہ ہے۔
ان چند ہفتوں کو بہت اہم سمجھیں۔ ان چند ہفتوں میں دلوں کو پاکیزہ کریں، دلوں کو پاک کریں، تطہیر اور پاکیزگی کے لئے بہترین جگہ یہی ہے۔ یہی مناسک حج ہیں، مسجد الحرام ( خانہ کعبہ) ہے خدا کے گھر کا طواف ہے، مسجد نبی کریم ہے، یہ عظیم اعمال اور مناسک ہیں۔ آپ اجتماع کے ساتھ ہیں، بھیڑ میں ہیں لیکن ہر ایک علاحدہ طور پر خدا سے رابطے میں ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی بھی اس سے مطلع نہ ہو۔ کسی کو اس کی خبر نہ ہو۔ اس ارتباط کی حفاظت کریں۔ اس کی تقویت کریں۔ ابھی سے شروع کر دیں بلکہ اس سے پہلے شروع کر دینا چاہئے تھا۔
حج کے لئے تیاری کرنی چاہئے۔ جس طرح سے رمضان کے مبارک مہینے کے لئے، عظیم علمائے کرام، سالکین ، عرفا اور اہل طریقت کی روش اور سیرت یہ رہی ہے کہ رمضان کی آمد کے مہینوں پہلے سے ماہ رمضان ، ضیافت الہی کے مہینے میں داخل ہونے کی تیاری شروع کر دیتے تھے، حج بھی اسی طرح ہے۔ سفر شروع ہونے سے پہلے خود کو آمادہ کرنا چاہئے۔ تمام کاموں سے زیادہ اہم، گناہ سے پرہیز ہے؛ غیبت سے پرہیز، ظلم سے پرہیز، ناپاک نگاہ سے پرہیز، ناپاک عمل سے پرہیز۔ یہ پرہیز دل کو اس ضیافت الہی، خدا کی اس مہمانی میں پہنچنے کے لئے آمادہ کرتا ہے۔
اس کے بعد کہ جب آپ وہاں گئے، بہرہ مند ہوئے، صحیح ذخیرہ کیا اور واپس آئے تو ان ذخائر کی حفاظت کی کوشش کریں۔ سفر حج کے دوران ایک عمل رائج ہو گيا ہے اور کتنا اچھا عمل رائج ہوا ہے کہ حجاج کرام تلاوت قرآن کرتے ہیں، مسلسل قرآن کی تلاوت کرتے رہتے ہیں؛ بعض لوگ مدینہ میں ایک قرآن ختم کرتے ہیں۔ یہ اجتماعی عمل ہے۔ انفرادی کی بات نہیں ہے۔ اس زمانے میں، خدا سے محبت بڑھ جاتی ہے۔ وہ دل جو محبت خدا کا گنجینہ ہو، بہت قیمتی اور بہت اہم ہے۔ جس دل میں خدا کی محبت ہو، وہ گناہ کی طرف مائل نہیں ہوتا یا بہت کم مائل ہوتا ہے، اچھے کاموں کی طرف مائل رہتا ہے۔ یہ محبت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ذکر، توجہ، اخلاص اور خدا کے حضور گریہ و زاری سے دل میں یہ محبت پیدا ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس کی قدر کو سمجھیں، اجتماعی پہلو سے بھی اور انفرادی پہلو سے بھی۔
اس سفر میں اپنے ملک، سربلند اور عزیز ایران کو اور سربلند کریں۔ ایرانی حجاج کرام اپنے کردار سے دنیا کے لوگوں کی نگاہوں میں، چونکہ مختلف جگہوں کے لوگ وہاں جمع ہوتے ہیں، اپنے ملک، اپنی تاریخ، اپنے انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام کی عزت و عظمت کا منظر پیش کر سکتے ہیں اور اس کے برعکس بھی ممکن ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہاں جاکے برے، نامناسب اور پست کام کرکے اپنے ملک اور قوم کی سبکی کا باعث بنیں۔
میں تحفے خریدنے کا مخالف نہیں ہوں۔ لیکن اس بازار گردی کی کیا ضرورت ہے؟ بہت بری بات ہے۔ کچھ لوگوں میں بازاروں میں گھومنے کی ہوس ہوتی ہے۔ یہ لوگ آپ کے عوام اور اپ کی قوم کی سبکی کرتے ہیں۔ حیف ہے کہ جاکے ایسی چیزیں خریدتے ہیں کہ جن میں کوئی کوالٹی نہیں ہوتی۔ دور دراز کے منافع خور ممالک، اسی میزبان ملک کی کمپنیوں کے ساتھ ساز باز کرکے، جعلی اور غیر معیاری چیزیں تیار کرکے یہاں کے بازاروں میں بھر دیتے ہیں۔ آپ جاکے ان بیکار اشیاء کی خریداری کرکے اپنا زرمبادلہ اور آبرو دونوں ضائع کر دیتے ہیں۔ آج خوش قسمتی سے ہمارے ملک میں آپ کے لئے ایرانی فنکاروں اور کاریگروں کی تیار کردہ انواع و اقسام کی خوبصورت اور اچھی کوالٹی کی چیزیں فراوانی سے موجود ہیں۔ بعض لوگ سفر پر روانگی سے پہلے، تحفے یہیں سے خریدتے ہیں، بہت اچھا کام ہے، خرید کے رکھ لیتے ہیں اور جب واپس آتے ہیں تو انہی اشیاء کو تحفے میں دیتے ہیں۔ یہ ان کے سفر کا تحفہ ہوتا ہے اور اچھا ہوتا ہے۔ یہ کام بہت اچھا ہے۔
بعض لوگ وہاں سے متبرک چیزوں کے عنوان سے تحفہ لاتے ہیں۔ کوئی تبرک نہیں ہوتا ہے۔ یہ جانمازیں جو خود ہمارے کردستان اور سنندج میں بنتی ہیں، ان جانمازوں سے بہت بہتر ہیں جو وہاں سے لوگ لاتے ہیں۔ اپنے بھائی کی تقویت کریں۔ اس کی بنائی ہوئی جانماز جو خوبصورت بھی ہے اور بہتر بھی، خریدیں اور اس کو تحفے میں دیں۔ اس کو وہاں لے جائیں اور جس کو چاہیں اس کو تحفہ دیں۔ ہماری تمام مصنوعات ایسی ہی ہیں۔ میں نے یہاں جانماز کو مثال میں بیان کیا جو مقدس ترین چیز ہے۔ ان باتوں کی پابندی کریں۔
اسلام میں ہمارے پاس سب کچھ ہے۔ اسلامی نظام اپنے اندر سب کچھ رکھتا ہے۔ یہ مادی چیزیں ہیں۔ ہمارے پاس روحانی اور معنوی چیزیں بھی ہیں۔ ہمارے معارف، ہماری تعلیمات، ہمارا قرآن، ہماری سنت، ہمارے آئمہ اطہار علیہم السلام کی احادیث، یہ سب ہمارا سرمایہ ہے۔ اگر اس سرمائے پر توجہ دیں، خود کو اس سے محروم نہ کریں تو پیشرفت کریں گے۔ ان احسنتم احسنتم لانفسکم اگر اپنے ہی ہاتھوں ہم نے خود کو محروم کر دیا وان اساءتم فلھا (4) ومن اوفی بما عاھد علیہ اللہ اگرہم نے اس عہد پر عمل کیا جو خدا سے کیا ہے تو فسیؤتیہ اجرا عظیما (5) اور اگر خدا سے ہم نے جو عہد و پیمان کیا ہے اس کو توڑ دیا فمن نکث فانّما ینکث علی نفسہ (6) تو خود اپنے خلاف عمل کیا ۔
اب سے چند سال قبل، یاد نہیں ہے، دس سال یا اس سے زیادہ عرصہ ہوا، میں نے ملک کے حکام سے اقتصادی بدعنوانی کی روک تھام کی تاکید کے ساتھ سفارش کی تھی، جس کا خیر مقدم بھی کیا گیا تھا لیکن اگر عمل کرتے تو یہ جو بینک کا حالیہ گھوٹالہ ہوا نہ ہوتا، جس سے تمام اخبارات بھر پڑے ہیں، تمام اداروں میں اسی کا ذکر ہے اور ہر ایک اسی کی بات کر رہا ہے۔ جب ہم عمل نہیں کریں گے تو اس طرح کے واقعات کا سامنا کرنا پڑےگا۔ اگر بدعنوانی کے خلاف جدوجہد کی جائے تو کئی ہزار ارب کا غبن یا جو بھی مقدار ہو، لوگوں کے اس طرح سے غلط فائدہ اٹھانے کے معاملات رونما نہ ہوں گے۔ اس طرح کا واقعہ ہوتا ہے تو لوگوں کے اذہان اور دل اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، لوگوں کے دل ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس طرح کی بدعنوانی سے ملک میں کتنے دل دکھتے ہیں؟ کتنے لوگ نا امید ہو جاتے ہیں؟ کیا یہ ٹھیک ہے؟ یہ اس وجہ سے ہے کہ ہم نے عمل نہیں کیا۔ اسی وقت جب کہا گیا کہ بدعنوانی جڑ پکڑ رہی ہے، اس کی جڑیں پھیل رہی ہیں، اس میں وسعت آ رہی ہے، جتنا وقت گزرے گا اتنا ہی اس کی جڑوں کو ختم کرنا مشکل ہوگا، یہ سب کہا گیا، تاکید کے ساتھ یہ باتیں کہی گئيں، بیان کی گئيں کہ یہ باتیں پاکدامن اور سچے سرمایہ داروں کو مایوس کرتی ہیں، اگر عمل ہوا ہوتا تو ان مسائل میں ہم مبتلا نہ ہوتے، اب مبتلا ہو چکے ہیں۔
البتہ اب بھی میں یہ عرض کروں گا کہ عزیزان گرامی جان لیں کہ ملک کے حکام، تینوں شعبوں کے ذمہ داران، اس معاملے سے اور اس طرح کے دیگر معاملات سے سنجیدگی کے ساتھ نمٹیں گے اور ان کی روک تھام کریں گے۔ انہیں یہ کام کرنا چاہئے۔ یہ ان کا فریضہ ہے کہ اس قسم کے معاملات سے نمٹیں اور ان کے خلاف جدوجہد کریں۔ تینوں شعبے سعی و کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ اس واقعے سے حکام کی سرزنش کے لئے ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ملک کے حکام کام کر رہے ہیں، پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ (تینوں شعبے سرگرم ہیں)
عوام تک خبر پہنچائی گئی، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ عامہ نے کام کیا، لوگوں کو اس کی اطلاع دی، کوئی حرج نہیں ہے لیکن اب اس معاملے کو بہت بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حکام کو اپنا کام کرنے دیں۔ عقلمندی، تدبر، دقت نظر اور استحکام کے ساتھ معاملات کو دیکھا جائے۔ شوروغل اور ہنگامہ، لوگوں کو مطلع کرنے کے لئے ایک حد تک ضروری ہے؛ اس کے بعد اس کو اسی انداز میں جاری رکھنا بالخصوص ایسی حالت میں جب کچھ لوگ ان مسائل سے دوسرا فائدہ اٹھانے کی فکر میں ہوں، مصلحت کے خلاف ہے۔ نگرانی ہونی چاہئے۔ حکام اس معاملے کو دیکھیں۔ عوام کو بھی معلوم ہو کہ اس معاملے کو دیکھا جا رہا ہے، کاروائی رکے گی نہیں اور ان شاء اللہ خدا کی توفیق سے خیانت کاروں کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں گے۔
عدلیہ کے ذمہ داران سنجیدگی کے ساتھ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں، انہیں چاہئے کہ اس سلسلے میں پیشرفت سے لوگوں کو آگاہ کریں؛ لوگوں کو معلوم ہو کہ کام ہو رہا ہے، کام آگے بڑھ رہا ہے۔ برے کام کرنے والوں، تخریب کاروں اور بدعنوانوں پر ترس نہیں کھانا چاہئے۔
امید ہے کہ خداوند عالم اپنے فضل و کرم، اپنی توجہ اور اس قوم پر اپنی خاص برکات سے ان شاء اللہ اس سال کے حج کو مبارک حج قرار دے گا، ان شاء اللہ حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کی پاکیزہ دعائیں، آپ سب اور پوری ایرانی قوم کے شامل حال ہوں گی اور ان شاء اللہ آپ سلامتی کے ساتھ کامیابی و سربلندی سے اس حج کو انجام دیکر سلامتی کے ساتھ واپس آئیں گے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
1- من لایحضرہ الفقیہ، ج 2ص، 620
2- آل عمران: 103
3- مشکات الانوار ص، 46
4- اسراء:7
5- فتح
6- فتح