آپ نے فرمایا کہ ان عزت بخش عوامل کے زیر سایہ یہ عظیم قوم استکباری طاقتوں کی استعماری پالیسیوں کے سامنے بدستور پامردی کے ساتھ ڈٹی رہے گی۔ قائد انقلاب اسلامی نے شہیدوں کے تذکرے سے معطر ہو جانے والے اس جلسے میں شہادت کو بہت وسیع موضوع قرار دیا اور فرمایا کہ شہادت پر ایمان اور شہیدوں کی عظمت پر ایقان قوم کی شناخت اور اس کی ماہیت کی روحانی گہرائی کا آئینہ ہے۔ آپ نے عوام کے دینی جذبات، ایمان اور شجاعت نیز شہیدوں کے بلند مرتبہ خاندانوں کے صبر و ضبط اور ہمت و حوصلے کو ملت ایران کی نظر میں موضوع شہادت کے پوری طرح حل ہو جانے کا باعث قرار دیا اور فرمایا کہ اس اساسی پہلو پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جدید اور پیچیدہ فوجی ساز و سامان اور تشہیراتی حربو‎ں کے بغیر بھی ملت ایران کس طرح اور کس وجہ سے قوموں کی نظروں میں اس انداز سے باوقار، طاقتور اور پر کشش بن گئی اور گوناگوں عالمی امور میں اپنا خاص اثر رکھتی ہے؟
قائد انقلاب اسلامی نے لبنانی عوام کی جانب سے صدر ایران کے والہانہ تاریخی استقبال کو لائق تحقیق و مطالعہ نکتہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس قسم کے حقائق دنیا کی قوموں کی نگاہوں میں ملت ایران کی عظمت و جاذبیت کا ثبوت ہیں۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس عظمت و قوت کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے شہادت کی اہمیت کا ذکر کیا اور فرمایا کہ جب ایک قوم او اس کے نوجوان راہ خدا میں ایثار، فداکاری اور شہادت پر اس انداز سے اپنے اندر ایمان و ایقان پیدا کر لیتے ہیں تو فطری سی بات ہے کہ انہیں وہ عزت و عظمت و اقتدار بھی حاصل ہوگا جو وعدہ الہی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ایرانی قوم دوسری قوموں سے زیادہ طاقتور اور باعظمت بن گئی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
 
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌

السّلام عليك يا بنت رسول‌ الله يا فاطمة المعصومة صلوات الله عليك و على ابائك الطّيّبين الطّاهرين المطهّرين‌.

قم بہت سے امور میں سرفہرست نظر آتا ہے۔ شہادت، شہیدوں اور شہداء کے خاندانوں جیسے مسائل میں قم کو سب سے نمایاں شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس شہر نے اسلام و انقلاب کے لئے تقریبا چھے ہزار شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ مقدس دفاع کے دوران کچھ سال ایسے گزرے ہیں کہ جن میں ایک سال کے اندر اس شہر کے ہزار سے زائد شہید جہاد فی سبیل اللہ کرتے ہوئے خاک و خوں میں غلطاں ہوئے، اس شہر نے ان کے جنازے اٹھائے اور اپنی پیشانی پر بل نہیں پڑنے دیا۔ یہاں تقریبا گیارہ ہزار جانباز (مقدس دفاع کے دوران زخمی ہوکر جسمانی طور پر معذور ہو جانے والے جوان) ہیں۔ یہ جانباز در حقیقت ہمارے درمیان زندہ شہید ہیں۔ ایسے نامور شہید کہ جن پر قم ہی نہیں پورے ملک کو ناز ہے، یہ ستاروں کی مانند ہیں۔ یہ بڑی اہم خصوصیات ہیں۔
میرے عزیزو! شہادت کا مسئلہ بڑی گہرائیوں کا حامل ہے، یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ ہمارے عوام نے اپنے جذبہ ایمانی کے ذریعے، اپنے جذبہ دینی کے ذریعے، اپنی شجاعت کے ذریعے اس مسئلے کو عملی طور پر آسان بنا دیا۔ ایسے ماں باپ بھی دیکھنے میں آئے کہ جن کا بیٹا شہید ہوا اور انہوں نے گریہ تک نہیں کیا۔ ایسے خاندان بھی دیکھنے میں آئے جنہوں نے اپنے شہید کی تشییع جنازہ میں خوشی کے لباس پہنے۔ بنابریں یہ مسئلہ عملی طور پر حل ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود شہادت کے باب میں تفکر و تدبر کے لئے آج بھی بہت کچھ باقی ہے۔
اگر میں شہادت کے مسئلے اور اس کی اہمیت کو ایک جملے میں بیان کرنا چاہوں تو میں کہوں گا کہ ایک قوم کے لئے شہادت پر اعتقاد، شہیدوں کی عظمت کا ایقان اس قوم کی ماہیت و حقیقت کی روحانی گہرائی سے عبارت ہے۔ کوئي قوم پوری دنیا کی نگاہ میں کیسے باعظمت بنتی ہے؟ یہ کیونکر ہوتا ہے کہ ایک قوم دنیا کے مختلف سیاسی عوامل سے متاثر ہونے کے بجائے تمام واقعات پر غالب آ جائے؟ کوئي قوم ایسے مقام پر کیسے پہنچتی ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئي قوم جس کے پاس جدید فوجی ساز و سامان بھی نہیں ہے، وسیع تشہیراتی وسائل بھی نہیں ہیں لیکن پھر بھی دنیا کی اقوام میں اس طرح اپنے اثرات مرتب کرتی ہے کہ سب اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں؟ آپ غور کیجئے کہ لبنان کے عوام نے ملت ایران کے صدر جمہوریہ کا کیسا باشکوہ استقبال کیا ہے؟! یہ کوئي معمولی بات نہیں ہے۔ اس کا بغور مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، اس کا تجزیہ کیا جانا چاہئے۔ کیا وجہ ہے کہ ایک قوم کا صدر جمہوریہ کسی دوسرے ملک میں، کسی دوسری قوم میں جائے اور اس کا اس طرح پرشکوہ خیر مقدم کیا جائے؟! اس قوم کو یہ عظمت کہاں سے ملی؟ ان تمام سوالات کا ایک جواب ہے شہادت پر توجہ اور شہادت پسندی۔ جب کسی قوم کے افراد، نوجوان، ماں باپ راہ خدا میں ایثار اور الہی اہداف کی راہ میں قربانی کو جزو ایمان کی حیثیت سے قبول کر لیتے ہیں تو اس قوم کو عظیم طاقت حاصل ہو جاتی ہے۔ فطری طور پر یہ قوم انتہائی مقتدر بن جاتی ہے، قوی بن جاتی ہے، نمایاں قوم میں تبدیل ہو جاتی ہے، خواہ اس کے پاس ہتھیار نہ ہو، غیر معمولی دولت نہ ہو۔
دیکھئے اگر سو انسانوں کے مقابلے پر سو انسان ہوں تو دونوں یکساں ہیں۔ سو کے مقابلے میں سو، ہزار کے مقابلے میں ہزار، ایک کروڑ کے مقابلے میں ایک کروڑ، یہ برابری کا معاملہ ہے۔ ممکن ہے کہ ان میں کوئی محاذ جسمانی طاقت و توانائی کے لحاظ سے مادی قوت کے لحاظ سے دوسرے سے زیادہ مضبوط ہو۔ لیکن وہ دوسرا محاذ جو جسمانی طاقت و توانائی کے لحاظ سے اور مادی قوت کے لحاظ سے کمزور ہے، اگر زیور ایمانی سے آراستہ ہو، اگر یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ راہ خدا میں قربانی دینے سے کچھ ہاتھ سے جاتا نہیں بلکہ بہت کچھ حاصل ہوتا ہے تو انہیں سو لوگوں میں ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ مد مقابل، مادی وسائل سے وہ قوت کبھی بھی حاصل نہیں کر سکتا۔
جنگ بدر میں پیغمبر اسلام کے دشمنوں کی تعداد مسلمانوں کی کئی گنا تھی، ان کے پاس ہتھیار اور جنگی ساز و سامان بھی کئی گنا زیادہ تھا، ان کے پاس دولت اور سرمایہ بھی مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھا، لیکن فتحیاب مسلمان ہوئے، کیوں؟ کیا فتح کا انحصار زور بازو پر نہیں ہوتا؟ شمشیر پر نہیں ہوتا؟ دولت پر نہیں ہوتا؟ ظاہری قوت و طاقت پر نہیں ہے؟ نہیں، فتح ان چیزوں سے نہیں ملتی۔ فتح کا دارومدار ایک ایسی توانائي پر ہے جو مادی وسائل سے، دولت و ثروت سے اور ایٹمی ہتھیار سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ شہادت پر اعتقاد، ایثار پر یقین اور اس اطمینان سے حاصل ہوتی ہے کہ جب انسان ایثار کرتا ہے تو در حقیقت وہ اللہ تعالی سے تجارت کر رہا ہوتا ہے۔ اس زاویئے سے اگر دیکھیں جو بالکل صحیح نقطہ نگاہ ہے تو ملت ایران دوسری تمام اقوام سے زیادہ قوی اور باعظمت ہے۔ ملت ایران کو یہ عظمت کہاں سے حاصل ہوئی؟ سب سے پہلے مرحلے میں تو ہمارے عزیز شہداء نے زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر اپنے اس عقیدے کو پایہ ثبوت تک پہنچایا۔
جب شہید حیدریان چند افراد کے ساتھ قم سے روانہ ہوئے اور کردستان پہنچے اور دشمن کے مقابل محاذ سنبھالا، اس وقت ملت ایران یک و تنہا تھی۔ ہمارے مقابلے میں پورا مغرب محاذ آرا تھا، ہمارے خلاف دنیا کے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے تھے۔ اس وقت قم کے کچھ نوجوانوں نے، کسی اور شہر کے کچھ نوجوانوں نے، کسی قریئے کے نوجوانوں نے اسی طرح ملک بھر سے نوجوانوں نے اللہ تعالی سے تجارت کے عقیدے کا عملی ثبوت پیش کیا۔
«انّ الله اشترى من المؤمنين انفسهم و اموالهم بأنّ لهم الجنّة يقاتلون فى سبيل الله فيقتلون و يقتلون وعدا عليه حقّا فى التّورية و الانجيل و القران».(1) اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ تو پہلی صف میں ہمارے شہداء ہیں، پہلی صف میں یہی جانباز ہیں۔ یہ ہمارا ہراول دستہ ہے۔ یہ محاذ حق کے علمبردار ہیں۔ انہوں نے آگے بڑھ کر شہادت پر یقین کو اللہ سے تجارت کے عقیدے کو میدان عمل میں ثابت کیا۔
دوسری صف میں ان شہداء اور جانبازوں کے اہل خانہ ہیں۔ یعنی شہیدوں کے والدین، ان کے بچے، ان کی ازواج، یعنی آپ حضرات جنہوں نے صبر و ضبط کی مثال قائم کی، تحمل اور بردباری کی تاریخ لکھی۔ اپنے عزیزوں کی جدائی واقعی بہت شاق ہوتی ہے۔ ماں باپ کیسی کیسی زحمتیں برداشت کرکے اس پھول کی اس پودے کی اپنے خون دل سے آبیاری کرتے ہیں، اسے پال کر بڑا کرتے ہیں، پھر اچانک محاذ جنگ سے اس کی لاش آتی ہے! واقعی یہ بڑا سنگین صدمہ ہے، یہ آسان بات نہیں ہے۔ ماں باپ، ازواج، بچے اس تلخ سانحے کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں اور یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ انہوں نے اللہ سے سودا کیا ہے۔ میں نے شہیدوں کی ایسی ماؤں کو دیکھا ہے کہ جو نہایت صدق دلی سے کہہ رہی تھیں کہ اگر ہمارے دس بیٹے ہوتے تو سب کو اسی طرح راہ خدا میں قربان کر دیتے، اس میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں تھا۔ میں نے ایسے ماں باپ کو دیکھا ہے کہ راہ خدا میں اپنے فرزندوں کی شہادت پر ناز کر رہے تھے۔ یہ حقیقت بھی ہے، واقعی یہ ایک افتخار ہے۔ جیسا کہ حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے فرمایا کہ ما رأيت الّا جميلا؛(2) میں نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ کربلا کا واقعہ کیا کوئي معمولی واقعہ ہے؟ لیکن یہ خدا بیں ہستی اس سانحے کو، اس مصیبت عظمی کو ایک حقیقت زیبا کے طور پر دیکھتی ہے اور فرماتی ہے کہ «ما رأيت الّا جميلا» میں نے ایسے بہت سے خاندان دیکھے جن میں حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کا یہی جذبہ موجزن نظر آيا۔ وہ بھی یہی کہہ رہے تھے کہ «ما رأينا الّا جميلا» یہ چیزیں قوم میں خاص قوت پیدا کرتی ہیں۔ یہ چیزیں قوم کے اندر خود اعتمادی پیدا کر دیتی ہیں۔ یہ چیزیں دنیا کی مادی طاقتوں کی دھمکیوں، دنیا کی جارح اور مستکبر حکومتوں کی دہاڑ کو بے اثر بنا دیتی ہیں۔
آج ملت ایران مادی طاقتوں کے سربراہوں کی دھمکیوں اور دہاڑ سے ہراساں نہیں ہے بلکہ اپنی امنگوں اور اہداف کے حصول کے لئے اپنے راستے پر ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہے۔ آج شہداء کے عزیز والدین نے یہاں آکر جو کچھ کہا وہ سو فیصدی درست ہے۔ شہداء کے اہل خانہ واقعی پائیداری کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ملت ایران استقامت کا مظاہرہ کر رہی ہے، اس کی وجہ اللہ پر ایمان رکھنے کے نتیجے میں ان کے اندر پیدا ہونے والی معنوی و روحانی طاقت ہے جو ان کے اندر بھری ہوئي ہے۔ اس ایمان کو اور بھی تقویت پہنچانے کی ضرورت ہے۔
میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تمام حکام، پوری قوم اور خود شہداء کے اہل خانہ اس ایمان کی قدر و منزلت کو سمجھیں، اپنے اندر اس جذبے کو روز بروز زیادہ سے زیادہ قوی بنائیں۔ ملت ایران کی قوت و طاقت کا راز یہی ہے۔ یہی چیز ہماری علمی ترقی، فنی ترقی، سیاسی ترقی اور سماجی ترقی کی بنیاد ہے۔ امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی رحلت کے بعد کے برسوں میں کچھ لوگوں نے قوم کے اس جذبے اور اس ایمان کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ بہت کچھ لکھا گيا، بیان کیا گيا۔ دشمن نے اس عقیدے کو ختم کرنے پر اپنی ساری طاقت صرف کر دی۔ البتہ اسے کامیابی نہیں ملی اور آئندہ بھی نہیں ملے گی۔
آج ہمارے عزیز نوجوان واقعی بہت اچھے اور باصفت نوجوان ہیں۔ اس ماحول، اس جذبے اور اس ایمان کی چھاؤں میں پل کر بڑی ہونے والی آج کی نوجوان نسل بڑی بابرکت نسل ہے۔ اگر آج بھی انیس سو اسی کے عشرے جیسا کوئی واقعہ پیش آ جائے تو آج کے نوجوان بھی میدان جنگ میں شجاعت کے جوہر دکھانے میں اس دور کے نوجوانوں سے کمتر نظر نہیں آئیں گے۔ اس دور میں نوجوانوں کے سامنے مرحلہ پیش آيا تو وہ میدان میں اتر پڑے اور آج بھی اگر نوجوانوں کو ایسا کوئي معرکہ پیش آ جائے گا تو یہ نوجوان بھی یقینا میدان میں نظر آئيں گے۔ یہ بڑے پاکیزہ نوجوان ہیں، یہ ہر طرح سے آمادہ نوجوان ہیں۔ میں اپنے عزیز نوجوانوں سے، بالخصوص شہیدوں کے فرزندوں سے یہ سفارش کروں گا کہ اپنے اس وقار کی قدر کریں۔ شہیدوں سے اپنی نسبت پر فخر کریں، یہ بہت بڑا افتخار ہے، آپ کے لئے بھی اور پوری ملت ایران کے لئے بھی۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ ہمیں شہیدوں کا قدرداں بنا، ہمیں ایثار پیشہ جانبازوں کا قدرداں بنا، پروردگارا! حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔

والسّلام عليكم و رحمة الله و بركاته‌

1) توبه: 111
2) لهوف، ص 160