نو جنوری انیس سو اٹھہتر عیسوی کو اہل قم کے انقلابی کارنامے کی سالگرہ کی مناسبت سے منعقدہ اس سالانہ اجتماع میں قائد انقلاب اسلامی نے دشمنوں کي سازشوں کي ناکامي اور ملت ايران کي قوت و طاقت کے دو بنيادي عناصر کي حيثيت سے اصولوں پر اسلامي نظام کي استقامت اور ميدان عمل ميں عوام کي دانشمندانہ موجودگي کا نام ليا اور فرمايا کہ سامراجي محاذ کے خيالات اور اندازوں کے برخلاف اسلامي جمہوري نظام آج نہ صرف يہ کہ شعب ابو طالب والے حالات ميں نہيں ہے بلکہ بدر و خيبر والي پوزيشن ميں پہنچ چکا ہےـ
قائد انقلاب اسلامي نے صبر اور بصيرت کو قوموں کي کاميابيوں کا سلسلہ جاري رہنے ميں دو موثر عوامل قرار ديا اور فرمايا کہ ملت ايران نے صبر و بصيرت کي بنياد پر عظيم کاميابياں حاصل کرنے کا تجربہ دنيا کي اقوام کے سامنے پيش کر ديا ہےـ
قائد انقلاب اسلامي نے آئندہ پارلیمانی انتخابات کے تعلق سے اہم نکات بیان کرتے ہوئے انتخابات کو عوامي شراکت کي نمائش کا اہم ميدان قرار ديا اور فرمايا کہ مدتوں پہلے سے کفر و استکبار کے مراکز سے ليکر اس محاذ کے پيادوں تک سب نے وسيع پيمانے پر کوششيں کي ہيں کہ پارليماني انتخابات ميں عوام کا شرکت بہت محدود ہو ليکن اللہ تعالي کے لطف و کرم سے انتخابات ميں عوام کي شرکت دشمن کي کمر توڑ دينے والي ہوگي ـ قائد انقلاب اسلامي نےايران کے پارليماني انتخابات کو دنيا کي تمام مسلم اقوام کے لئے بہت اہم اور موثر قرار ديا اور فرمايا کہ يہي وجہ ہے کہ استکباري محاذ بشمول امريکہ، برطانيہ، صيہونيوں اور ديگر عناصر، سب يہ کوشش کرتے ہيں کہ انتخابات مخدوش بنائيں اور قوموں کي نظر ميں اسے مايوس کن ظاہرکريں ـ
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
 
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌
 
اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں کہ انیس دی مطابق نو جنوری کی مناسبت سے قم کے نوجوانوں کے پرجوش قلوب اور محبت آمیز سانسوں سے اس امام بارگاہ کی فضا ایک بار پھر معطر ہو گئی۔ یقینا قم کے عزیز عوام کی آگاہی و بیداری اور بصیرت اسی طرح ان کا وہ طرز عمل جو انہوں نے دینی علوم کے مرکز اور علمائے کرام کے تعلق سے اختیار کیا، تاریخ کی لازوال حقیقت ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔
اگر ہم نو جنوری کے واقعے کو دنیا کے عصری تغیرات کی تاریخ کا سرآغاز قرار دیں تو کوئی عجیب بات نہیں ہوگی اور نہ ہی اسے بے بنیاد بات کہا جا سکتا ہے۔ انسانی معاشرے اور اس جہان بیکراں میں رونما ہونے والے واقعات باہمی اثر اندازی اور تاثیر پذیری کے قانون کے نتیجے میں رونما ہوتے ہیں۔ واقعات کا ایک دوسرے پر اثر پڑتا ہے اور تاریخی واقعات کا سلسلہ عظیم تغیرات کا باعث بنتا ہے۔ ہم اس قضیئے کی اس طرح تشریح کر سکتے ہیں کہ انیس دی سنہ تیرہ سو چھپن ہجری شمسی مطابق نو جنوری سنہ انیس سو اٹھہتر عیسوی کو قم کے عوام نے ایک کارنامہ انجام دیا، اس زمانے کے گھٹن اور تاریکی کے ماحول میں جو اس زمانے میں ہمارے ملک میں چھایا ہوا تھا اور آزادی کی نام نہاد حامی دنیا اسی گھٹن کی فضا کی پشت پناہی کر رہی تھی، تسلط پسند اور مستبد حکمرانوں کی پورے وجود سے معاونت کر رہی تھی، جسے اگر تفصیل سے بیان کیا جائے تو کئی کتابیں تیاریں ہو جائیں گی، اس ماحول میں قم کے چہارمردان علاقے میں جو پاکیزہ خون بہا اور انیس دی مطابق نو جنوری کی اہل قم کی عظیم تحریک وجود میں آئی وہ گویا ایک چنگاری تھی جس نے عوام الناس کے ایمانی آتشفشاں کو شعلہ ور کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے حالات منقلب ہو گئے۔
اگر قم میں انیس دی مطابق نو جنوری کا واقعہ رونما نہ ہوا ہوتا تو مختلف اضلاع میں اس واقعے کا چہلم منانے کا سلسلہ شروع نہ ہوتا اور عوام اس طرح میدان میں نہ آتے۔ اگر یہ تغیرات و واقعات رونما نہ ہوتے تو بائيس بہمن (مطابق گیارہ فروری، انقلاب کی فتح کی تاریخ) وجود میں نہ آتی اور اسلامی انقلاب کامیابی و کامرانی سے ہمکنار نہ ہوتا۔ اسلامی انقلاب کامیاب ہوا اور استکبار سے پیکار شروع ہو گیا۔ استکبار کی ہیبت شیشے کی طرح چکناچور ہو گئی اور امریکہ و صیہونزم کا دبدبہ ہوا ہو گیا۔ حقیقت سے کہیں زیادہ بڑھ چڑھ کر اپنی قوت کا رعب جمانے والی طاقتوں کی کھوکھلی ہیبت ختم ہوئی تو مختلف ملکوں میں مسلمانوں میں جنبش پیدا ہوئي اور وہ نئے انداز سے سوچنے لگے۔ مختلف واقعات منجملہ آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے زمانے میں، مقدس دفاع اور پابندیوں کے دور میں ملت ایران کی مظلومیت اور بے مثال استقامت کو دیکھ کر، ملت ایران کو ثابت قدمی سے آگے بڑھتے دیکھ کر پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی۔ اگر یہ ا ستقامت نہ ہوتی، اگر سپر طاقتوں کو للکارنے کا واقعہ رونما نہ ہوا ہوتا، یہ ثابت قدمی نہ ہوتی تو قومیں میدان میں نہ اترتیں، اسلامی بیداری کی لہر پیدا نہ ہو پاتی، آج جو واقعات علاقے کو دگرگوں کئے دے رہے ہیں یہ رونما نہ ہوتے۔ واقعات کسی ایک نقطے سے شروع ہوتے ہیں اور سلسلہ وار آگے بڑھتے ہیں۔ اگر استقامت سے کام لیا گیا، اگر صبر و تحمل سے کام لیا گيا، اگر پائيداری کا مظاہرہ کیا گيا تو تمام برکات اور نیک ثمرات بھی حاصل ہونے لگتے ہیں۔
استقامت و ثابت قدمی اولیں شرط ہے۔ قومیں جب کسی راہ پر گامزن ہوں تو انہیں ثابت قدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ فلذالک فادع و استقم کما امرت (1) قرآن میں نبی مکرم کو مختلف مواقع پر ثابت قدمی اور استقامت کی جو تلقین کی گئي ہے اس کا راز یہی ہے۔ استقامت سے کام لینا پڑتا ہے، ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، راستہ گم نہ ہو یہ اہم شرط ہوتی ہے، ہدف کو ہمیشہ مد نظر رکھنا پڑتا ہے اور بلا وقفہ اس کی جانب بڑھتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یہ شرط پوری ہو گئی تو پے در پے کامیابیاں حاصل ہونے لگتی ہیں، جیسا کہ ملت ایران کے سلسلے میں دیکھا گیا۔
آج ملت ایران نے دیگر اقوام کے سامنے اپنا یہ عظیم تجربہ پیش کر دیا ہے۔ دو اہم عوامل بصیرت و صبر سے حاصل ہونے والی فتح و کامرانی کا تجربہ۔ بصیرت کا مطلب یہ ہے کہ راستے سے نگاہیں ہرگز ہٹنے نہ پائیں، اس کی تشخیص میں کوئي غلطی نہ ہونے پائے، غلط راستے پر قدم نہ پڑنے پائيں، وسوسہ پیدا کرنے والے خناس سے متاثر نہ ہوا جائے اور منزل کو آنکھوں سے دور نہ ہونے دیا جائے۔ صبر س مراد ہے استقامت و پائیداری۔ ایک نسل دوسری نسل کو اور وہ دوسری نسل اپنے بعد آنے والی نسل کو اس راستے پر گامزن کرتی رہے۔ آج فضل الہی سے ہمارے ملک میں ایسی نوجوان نسل ہے جس نے انقلاب کا زمانہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھنے کے باوجود اور مقدس دفاع کے دور کا مشاہدہ نہ کرنے کے باوجود اسی جذبے کے ساتھ، اسی عزم و حوصلے کے ساتھ اور اسی تندہی کے ساتھ میدان عمل میں اپنے قدم جما رکھے ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ اسلامی انقلاب کا کرشمہ ہے۔ ہمیں اپنے اندر اس استقامت و بصیرت کے عوامل کی تقویت کرتے رہنا چاہئے۔
دو اہم چیزیں ہیں جو ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں اور ان کی مدد سے قوم کی قوت و طاقت کا سلسلہ وجود میں آتا ہے۔ ان میں ایک ہے استکباری محاذ اور سپر طاقتوں کی توسیع پسندی اور استبداد کے مد مقابل ثابت قدمی سے ڈٹے رہنے، خود سپردگی نہ کرنے اور اپنے راستے سے نہ ہٹنے کا مقدس اسلامی جمہوری نظام کا عزم راسخ۔ اسلامی نظام اپنی مجموعی شکل میں اور اپنی اجتماعی صورت میں بخوبی جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے، اس نے اپنے راستے کا انتخاب کر لیا ہے اور اسی راستے پر ثابت قدمی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ رہا پہلا اہم عنصر اور عامل۔ دوسرا عامل ہے عوام الناس کی دانشمندانہ اور پرعزم موجودگی۔ اگر ان دونوں میں علاحدگی ہو جاتی، اگر نظام کے ذمہ دار حکام میدان میں ڈٹے رہتے لیکن عوام میدان سے ہٹ جاتے تو کوئي کام آگے نہ بڑھ پاتا۔ اسی طرح اگر کفر و ضلالت کے عظیم لشکر کے مقابل اسلامی نظام کے عہدیداروں کے ارادے، ان کی تشخیص، ان کے فہم و ادراک میں کوئی نقص پیدا ہو جاتا تو بلا شبہ اس سے پورے نظام میں گڑبڑی پیدا ہوتی اور عوام بھی میدان سے ہٹ جاتے۔ یہ دونوں عوامل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، آج بھی جڑے ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ایک دوسرے سے وابستہ رہیں گے۔ اگر یہ دونوں عوامل اسی طرح قائم رہے تو دشمن کا کوئی بھی وار، کوئی بھی حربہ، کوئي بھی مکر و حیلہ اور کوئي بھی سازش قوم کو نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔
آج ہمارا مخالف محاذ جس کی قیادت امریکہ اور صیہونی کر رہے ہیں، ہر وہ طریقہ جو وہ اختیار کر سکتا تھا، اختیار کر چکا ہے، ملت ایران کا خاتمہ کرنے کے لئے جو راستہ بھی ممکن تھا اس نے اپنایا ہے کہ کسی صورت سے ان دونوں عوامل یعنی نظام کو قوی سے قوی تر بنانے والے عامل اور میدان میں عوام الناس کی استقامت و پائيداری کے عامل کو کمزور کر سکے یا پوری طرح ختم کر دے۔ یہ بات دشمن خود بھی کہتے ہیں، وہ صریحی طور پر بیان دیتے ہیں کہ ایران کے خلاف جو پابندیاں منظور اور عائد کی جا رہی ہیں جن کے پیچھے شدید بغض و عناد کارفرما ہے، ان کا ہدف و مقصد عوام کے جوش و جذبہ کو ختم کرنا اور عوام الناس کو میدان سے ہٹانا ہے، عوام کو اسلامی نظام سے روگرداں کرنا ہے۔ یا تو یہ ہدف پورا ہو جائے اور نہیں تو حکام کے ارادوں میں تزلزل پیدا ہو جائے، حکام اپنے اندازوں اور فیصلوں پر نظر ثانی کریں۔ ان کے جملے کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کو یہ احساس دلانا چاہتے ہیں کہ انہیں اپنے فیصلوں کی بہت بڑی قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ یہ کہنے کا مقصد ملک کے حکام کے ارادوں میں تزلزل پیدا کرنا ہے۔ دشمن اپنی پوری طاقت سے اور تمام حربوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ دونوں ہدف حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یا تو عوام کے جوش و جذبے کو ٹھنڈا کر دیں اور انہیں اسلامی نظام سے کنارہ کشی کر لینے پر تیار کر لیں یا حکام کے اندر پس و پیش کی کیفیت پیدا کرکے انہیں اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیں۔ وہ بہت بڑی بھول میں مبتلا ہیں، یہ کام ان کے بس کا نہیں ہے۔
صدر اسلام کے زمانے میں دشمنوں نے سوچا کہ شعب ابو طالب میں مسلمانوں کا اقتصادی محاصرہ کرکے انہیں پسپائی پر مجبور کر لے جائیں گے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔ الٹے سیدھے اندازے لگانے والے یہ روسیاہ عناصر اس خیال میں ہیں کہ ہم شعب ابو طالب جیسے حالات سے دوچار ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ اس وقت ہم شعب ابو طالب جیسے حالات میں نہیں ہیں، ہم بدر و خیبر والی پوزیشن میں پہنچ چکے ہیں۔ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ہماری قوم اپنی آنکھوں سے فتح و کامرانی کے آثار کا مشاہدہ کر چکی ہے، منزل کے قریب پہنچ چکی ہے، فتح کے مختلف مراحل سربلندی کے ساتھ طے بھی کر چکی ہے۔ آج آپ ہماری قوم کو اقتصادی ناکہ بندی سے ڈرا رہے ہیں؟ ان باتوں اور ان چالوں سے آپ ہمارے عوام کو میدان سے ہٹانا چاہتے ہیں؟ آپ کے خیال میں کیا یہ ممکن ہے؟ آج وہ حکام کے ارادوں کو متزلزل کرنا چاہتے ہیں؟ قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا و من اتبعنی (2) یہ وہ راستا ہے جس کا پوری آگاہی و بصیرت کے ساتھ انتخاب کیا گيا ہے، یہ وہ راستا ہے جو مجاہدت کے ذریعے کھولا گیا ہے، یہ وہ راستا ہے جو عزیز ترین افراد کے خون سے تیار ہوا ہے۔ ہم اس راستے پر چلتے ہوئے چوٹیوں تک پہنچے ہیں، ہم اب رکنے والے نہیں ہیں، ہم انشاء اللہ آگے ہی بڑھتے رہیں گے تاہم اس وقت بھی ہم بہت سی چوٹیاں سر کر چکے ہیں۔ آج کا اسلامی جمہوریہ ایران کہاں اور بیس سال، تیس سال قبل کا اسلامی جمہوریہ ایران کہاں؟! اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کی اس زمانے کی رعونت و نخوت کجا اور آج ان کی کمزور پوزیشن اور قابل رحم حالت کجا؟! یہ ایسی نشانیاں ہیں جن سے ملت ایران کے حوصلے اور بھی بلند ہو رہے ہیں۔ بنابریں راہ اسلام پر جو راہ خدا بھی ہے، راہ دین بھی ہے اور راہ سعادت دنیا و عقبی بھی ہے، اس راستے پر گامزن رہنے کے تعلق سے حکام کا ارادہ پوری طرح مستحکم ہے اور رہے گا اور عوام الناس بھی ثابت قدمی کے ساتھ اسی راستے پر رواں دواں رہیں گے۔
ایک اہم میدان جہاں عوام اپنی موجودگی اور شراکت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، انتخابات ہیں۔ یہ ابھی کی بات نہیں ہے، ایک عرصے سے دشمنوں نے بھاگ دوڑ شروع کر دی ہے کہ شاید اس دفعہ انتخابات میں عوام کی شراکت کو کم کرنے میں کامیابی مل جائے۔ آپ خود سن رہے ہیں، دیکھ رہے ہیں، اخبارات و جرائد میں، گوناگوں ذرائع ابلاغ عامہ میں ہمارے دشمن اوپر سے لیکر نیچے تک کفر و استکبار کے محاذ کی ہائی کمان سے لیکر پیادوں تک سب یہاں وہاں پھیلے ہوئے ہیں، اندر بھی ہیں باہر بھی ہیں اور سب کوشش کر رہے ہیں کہ عوام کو انتخابات میں شرکت سے روک دیا جائے۔ میں عوام کے طرز عمل کا جو تجربہ رکھتا ہوں اور اللہ تعالی کی ذات پر میرا جو اعتماد ہے اس کی بنیاد پر میں پیشین گوئي کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے، پروردگار کی مدد و اعانت سے اس دفعہ انتخابات میں عوام کی شرکت دشمن کی کمر توڑ دینے والی ہوگی اور اس دفعہ کے انتخابات سے اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے پیکر میں نئی جان پڑ جائے گی، اس کی رگوں میں تازہ لہو دوڑنے لگے گا اور اسے نیا جوش و جذبہ حاصل ہوگا، جیسا کہ اب تک ہر بار کے انتخابات کے بعد ہوتا آیا ہے۔ انتخابات اپنی تقدیر کے تعین میں عوام کی شراکت و موجودگی کا مظہر ہیں۔
بیشک کچھ بلائیں بھی ہیں، چنانچہ ہمیں یہ کوشش کرنا ہوگی کہ ان کو رفع کر دیا جائے۔ سنہ دو ہزار نو کے انتخابات کے تعلق سے ہمارے وطن عزیز اور عوام کے ذہنوں میں بہترین اور تلخ ترین یادیں موجود ہیں۔
بہترین یادیں پولنگ کے مراکز پر چار کروڑ رائے دہندگان کی پرجوش آمد کی یادیں ہیں، جسے دیکھ کر دنیا کی نگاہیں خیرہ ہو گئيں اور تلخ ترین یادیں انتخابات کے مسئلے میں کچھ نادان اور کچھ عناد رکھنے والے افراد کی سیاسی لن ترانیوں سے وابستہ یادیں ہیں۔ کوئي بھی قضیہ ہو یا کوئي بھی واقعہ ہو اس کے تعلق سے ممکن ہے کہ کچھ لوگ منفی رائے رکھتے ہوں، اس پر معترض ہوں۔ انہیں اپنی مخالفت ظاہر کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ قانون نے ان کے لئے اس کا راستا معین کر دیا ہے تو قانون شکنی کا پھر کیا جواز رہ جاتا ہے؟ عوام کو نقصان پہنچانے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ملک و قوم کے دشمنوں کو خوش کرنے کا کیا تک ہے؟ ان منصوبوں پر عمل درآمد کا کیا جواز ہے جن سے دشمن کی چالوں اور ارادوں کا تعفن اٹھ رہا ہو؟ قانون نے راستا معین کر دیا ہے۔ ہم نے اس موقعے پر کہا، سب سے کہا، تمام متعلقہ عہدیداروں کی یہ ذمہ داری تھی کہ قانون کے مطابق عمل کرتے، انہوں نے کیا ایسا نہیں کیا؟
وہ کچھ بھی حاصل نہ کر سکے اور جب تک یہ قوم میدان عمل میں موجود ہے اور جب تک یہ رشتہ قائم ہے اس وقت تک کوئی بھی اس ملک میں قانون کو نظر انداز کرکے کوئی ہدف پورا نہیں کر سکتا، کوئی بھی مقصد پورا نہیں کر سکتا۔ تاہم اس کوشش سے ملک پر کچھ اخراجات کا بوجھ ضرور پڑا، قوم کو کچھ نقصان ضرور اٹھانا پڑا۔ کیوں؟ اتنے عظیم الشان انتخابات کے بعد بہت آسانی سے ملک کو اس نقصان سے بچایا جا سکتا تھا۔
مختلف عوامل کارفرما تھے۔ یہ ہمارے لئے ایک تجربہ ہونا چاہئے۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ انتخابات عوام کی شراکت اور موجودگی کا مظہر اور انتخابات کا نتیجہ عوام الناس کی رائے اور خواہش کا آئینہ ہوتا ہے، اس کا احترام کیا جانا چاہئے۔
انتخابات کا درست اور شفاف ہونا ضروری ہے، اس میں اچھی رقابت ہونا چاہئے۔ رقابت ایک الگ چیز ہے اور خصومت دوسری چیز ہے۔ رقابت الگ چیز ہے اور بہتان اور تہمت لگانا الگ چیز ہے۔ اس کا خیال سب رکھیں۔ رقابت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی اپنی پوزیشن ٹھیک کرنے کے لئے دوسرے کی نفی کرنا شروع کر دے۔ رقابت کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ کچھ لوگ ووٹ حاصل کرنے کے لئے لوگوں سے آئین کے منافی وعدے کرنے لگیں، خلاف قانون وعدے کرنے لگیں۔ یہ سب نہیں ہونا چاہئے۔ جو لوگ انتخابات سے تعلق رکھتے ہیں، خواہ وہ الیکشن حکام ہوں یا امیدوار ان سب کو صحتمند ماحول کے شرائط اور آداب کے تئیں التزام کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ یہ بہت ضروری ہے۔
الیکشن حکام کو چاہئے کہ پوری دیانتداری سے کام کریں۔ خوش قسمتی سے ان برسوں کے دوران ہمارے ملک کے انتخابات شفاف اور صحتمند انتخابات رہے ہیں۔ ان بتیس برسوں میں ہمارے یہاں تیس سے زائد انتخابات ہوئے ہیں۔ بعض اوقات کچھ لوگوں نے یہ دعوی کیا کہ انتخابات شفاف نہیں تھے۔ ہم نے تحقیق کے لئے افراد بھیجے جنہوں نے پوری دقت نظری سے جائزہ لیا، امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے زمانے میں بھی اور بعد کے دور میں بھی۔ تحقیق کرنے والے افراد نے دیکھا کہ نہیں، بد عنوانی نہیں ہوئی ہے۔ ممکن ہے کہ گوشہ و کنار میں کہیں کوئی خلاف ورزی ہوئي ہو لیکن کوئی ایسی گڑبڑ کہ جو انتخابات کے نتیجے کو بدل دے، غیر شفاف بنا دے، کبھی نہیں دیکھنے میں آئی۔ عوام نے جس کا انتخاب کیا عملی میدان میں وہی منتخب ہوکر سامنے آیا ہے۔ یہ کوشش رہنا چاہئے کہ انتخابات پوری طرح شفاف اور منصفانہ ہوں۔ یہ الیکشن حکام کی ذمہ داری ہے، وہ انتظامیہ اور وزارت داخلہ کے حکام ہوں یا نگراں کونسل کے حکام۔ سب بہت توجہ رکھیں۔ کوئی بھی شئے قانون سے ماورا اور عزیز نہیں ہے۔ دنیا میں یہ مقولہ عام ہے کہ برا قانون بھی لاقانونیت سے بہتر ہے۔ بعید نہیں ہے کہ واقعی لوگ اسے تسلیم کرتے ہوں کیونکہ لاقانونیت تو انارکی ہے۔ برا قانون بہرحال کوئی نہ کوئي ضابطہ تو دیتا ہے۔ انسان اس قانون کے نقص کو دور کر سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے یہاں الیکشن کے قانون بہت اچھے ہیں۔ البتہ ممکن ہے کہ آئندہ چل کر اس سے بھی زیادہ بہتر اور کامل تر قانون بنا لئے جائیں۔
جو لوگ انتخابات کے میدان میں قدم رکھ رہے ہیں انہیں بھی کچھ شرائط اور ضوابط کا پابند رہنا چاہئے۔ میرا خطاب ان تمام افراد سے ہے جو انتخابات میں امیدوار کی حیثیت سے شرکت کرنا چاہتے ہیں، اسی طرح میرے مخاطب عوام الناس بھی ہیں۔ ملک بھر میں عوام کو چاہئے کہ امیدواروں کے اندر ان خصوصیات کو ضرور پرکھیں، ضرور توجہ دیں۔ کینڈیڈیٹ خدمت کی نیت کے ساتھ الیکشن میں حصہ لے۔ اگر وہ جاہ طلبی، دولت کے حصول یا دیگر نادرست عزائم کے ساتھ الیکشن میں شرکت کر رہا ہے تو کبھی بھی ملک کی خدمت نہیں کرے گا۔ امیدوار خدمت کی نیت کے ساتھ الیکشن میں شرکت کر رہا ہے اس کا جائزہ لے لینا ضروری ہے، اس کا اندازہ لگا لینا ضروری ہے۔ اگر امیدوار دولت و طاقت کے مراکز سے وابستہ ہو جائیں تو سارا معاملہ چوپٹ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ آج دنیا کی نام نہاد بڑی جمہوریاؤں میں امریکہ اور دیگر ممالک میں یہ صورت حال ہے کہ بڑی بڑی کمپنیاں اور دولمند افراد صدارتی امیدوار یا پارلیمانی امیدوار کو پیسے دیتے ہیں اور اس کے جواب میں امیدوار ان سے کچھ وعدے کرتا ہے۔ جو صدر دولت کے مراکز اور کمپنیوں کے پیسے کے بلبوتے پر منتخب ہوکر آیا ہے، ان کا وفادار ہے۔ جو پارلیمانی امیدوار کسی کمپنی، کسی فیکٹری، کسی دولت مند شخص کی ثروت کے سہارے پارلیمنٹ میں پہنچا ہے وہ اس کمپنی اور اس دولت مند شخص کی ضرورت کے مطابق قانون سازی اور قانون میں ترمیم کرنے پر مجبور ہے، قانون کا دائرہ وسیع یا تنگ کرنے پر مجبور ہے۔ یہ رکن پارلیمنٹ عوام کے کام کا آدمی نہیں ہے۔ امیدوار دولت کے مراکز سے وابستہ نہیں ہونا چاہئے۔ بیت المال کا استعمال اور بھی حساس مسئلہ ہے۔ اگر کوئی سرکاری خزانے کو استعمال کرکے پارلیمنٹ کی رکنیت حاصل کرتا ہے تو اس میں دوہری قباحت ہیں، دوہری برائی ہے۔ عوام الناس کو ان باتوں پر بہت توجہ رکھنا چاہئے۔ البتہ ہر ایک کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ کسی کے بارے میں یوں ہی نہیں کہہ دینا چاہئے کہ یہ تو فلاں صاحب سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے پیسے خرچ کر رہے ہیں، یہ چیزیں صاف اور واضح ہونا چاہئے۔ ثابت ہونا چاہئے۔
عوام کو چاہئے کہ آنکھیں کھلی رکھیں، توجہ رکھیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے عوام بیدار ہیں۔ عوام کو چاہئے کہ ان افراد پر اعتماد کریں جو ان کے نزدیک قابل بھروسہ ہوں، جو انسان اور اللہ کے درمیان لوگوں کے لئے حجت قرار پا سکتے ہوں۔ رائے دہندگان کو چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو خود اس بارے میں تحقیق کریں۔ یہ بہت ضروری ہے۔ اس پر بہت توجہ رکھنا چاہئے۔ انشاء اللہ انتخابات پرشکوہ انداز میں منعقد ہوں گے، عوام کی بھاری شراکت کے ساتھ۔ عوام کو چاہئے کہ صحیح شناخت کریں اور صحیح انتخاب کریں جس کے نتیجے میں ایسی پارلیمنٹ تشکیل پائے جو اسلامی نظام کے شایان شان ہو۔ انشاء اللہ بلطف پروردگار ایسا ہی ہوگا۔
ہم اگر اللہ سے طلب نصرت کریں، میدان میں قدم رکھیں، اپنے فریضے کا بھرپور احساس کریں، اپنی نیت یہ رکھیں کہ اسلامی نظام، اسلام اور ملت ایران کو سربلند کرنا ہے، مستقبل کو سنوارنا ہے، اپنی دنیا و آخرت کی سعادت کو یقینی بنانا ہے تو اللہ ہمارے لئے دروازے بند نہیں ہونے دے گا۔ ہم قدم بڑھائیں گے تو اللہ راستے کی رکاوٹیں دور کر دے گا۔ بنیادی اور کلیدی چیز یہ ہے کہ ہم حوصلہ دکھائیں، ہمت سے کام لیں اور صحیح فیصلہ اور درست اقدام کریں۔
مجھے یقین ہے کہ یہ انتخابات دوسری قوموں کے لئے بھی ایک علامت کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، برطانیہ، صیہونزم اور دوسروں پر استوار استکباری محاذ مسلسل کوشش کر رہا ہے کہ انتخابات کو داغدار کر دیں، مشکوک بنا دیں۔ دوسرے ممالک توجہ سے دیکھ رہے ہیں کہ ملت ایران جو انتخابات اور انقلاب کے میدان میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے، کیا کرتی ہے؟ ان میدانوں میں ملت ایران ہراول دستے میں شامل رہی ہے۔ دوسری قومیں دیکھ رہی ہیں کہ ایران میں انتخابات کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ سامراجی محاذ کی کوشش ہے کہ ایران میں انتخابات اس انداز سے ہوں کہ قوموں میں مایوسی پھیل جائے۔ ( اس موقعے پر حاضرین کی طرف سے امریکہ مردہ باد کے فلک شگاف نعرے بلند ہوئے) خیر آپ نے اپنا پیغام سنا دیا۔ امریکہ مردہ باد آپ کا پیغام ہے۔
پروردگارا! محمد و آل محمد کا صدقہ، اپنا فضل و کرم، اپنی ہدایت اور رحمت و نصرت ہماری عزیز قوم کے شامل حال کر دے۔ پالنے والے! ہمارے نوجوانوں کو حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی نظر کرم اور آپ کی دعاؤں کا مستحق قرار دے۔ ملت ایران کی کامیابیوں میں روز بروز اضافہ فرما۔
 
والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته‌
1) شورى: 15
2) يوسف: 108