قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الھم سدد السنتنا بالصواب و الحکمہ و املاء بالعلم و المعرفہ

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے یوم ولادت باسعادت پر آپ عزیز بہنوں اور بھائیوں کے احتماع پر، جو طولانی راستے طے کرکے یہاں آئے ہیں، بہت خوشی ہو رہی ہے۔ اسی طرح میں ديگر اضلاع بالخصوص قزوین کے عوام کا شکر گزار ہوں جو یہاں تشریف لائے ہیں۔ خداوندعالم آپ سب پر اپنی برکت اور رحمت نازل فرمائے۔
آج عالم اسلام میں ایسے مسائل رونما ہو رہے ہیں جن سے مختلف ملکوں میں مسلمانوں کے دل غمگین ہیں۔ وہ غم و اندوہ میں مبتلا ہیں، خون دل پی رہے ہیں مگر کچھ کہہ نہیں سکتے۔ کیوں؟ اس لئے کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ان میں سے بہت سے ملکوں کے سربراہ، امت اسلامیہ کا دل خون کرنے اور اسلامی ملکوں کے نوجوان طبقات کی امیدیں خاک میں ملانے میں شریک ہیں۔ ان میں سے ایک قضیہ مظلوم فلسطینی مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا مسئلہ بوسنیا ہرزے گووینا بالخصوص بیہاج کے بے یارومددگار مسلمانوں کا ہے۔ یہ درد ہے۔ اپنے ملک کو نہ دیکھیں۔ یہاں ملک کے اعلاترین عہدیدار سے لیکر عوام کے ایک ایک فرد تک سب آزادی کے ساتھ زبان پر اس مصیبت کو لا سکتے ہیں۔ بولتے ہیں۔ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ دل کی بات کہہ لیتے ہیں۔ افسوس کہ دیگر ملکوں میں اس کی اجازت نہیں ہے کہ لوگ امت اسلامیہ کے ان عظیم مشکلات پر کم سے کم دو لفظ بول کے ہی سہی اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں۔ آپ دیکھیں کہ عرب ملکوں میں کتنے لوگ ہیں کہ جن کے دل صیہونی دشمن کے ساتھ ساز باز سے غمزدہ ہیں، لیکن کچھ بول نہیں سکتے۔ جس طرح یہاں ماضی کی حکومت کے دور میں تھا کہ ہم صیہونیوں کے خلاف کوئی بات زبان پر نہیں لا سکتے تھے۔ ان دنوں ہمارے دل خون تھے۔ مگر کچھ بول نہیں سکتے تھے۔ انہیں برسوں میں ایک بار میں نے یونیورسٹی طلبا کے اجتماع میں، سورہ بنی اسرائیل اور سورہ بقرہ کی شروع کی آیات کی تفسیر کے بیان میں کچھ باتیں کہی تھیں۔ بعد میں ایک قید خانے میں شکنجہ کس کے مجھ سے تفتیش کی گئی کہ تم نے اسرائیل کا نام لیا تھا- میں نے بنی اسرائیل سے متعلق آیات بیان کی تھیں- مجھ سے کہا اسرائیل کا نام کیوں لیا؟ یعنی قرآن کی تفسیر کرنے والے کو یہ حق نہیں تھا کہ بنی اسرائیل کے بارے میں کچھ کہے۔ کیونکہ اس خبیث اور خائن حکومت کے اتحادی کو - اس زمانے میں شاہی حکومت کے اسرائیل سے بہت اچھے روابط تھے - برا لگ سکتا تھا۔ آج بہت سے اسلامی ملکوں میں یہی صورتحال ہے۔
مجھے اسلامی کانفرنس کی طرف سے تشویش لاحق ہے جو ان دنوں مراکش میں ہو رہی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلامی ملکوں کے سربراہوں کو جمع کرکے، حیلے اور فریب سے کوئی بات غاصب صیہونی حکومت کے حق میں کہلوا لیں اور پھر کہیں کہ اسلامی ممالک اس پر متفق ہیں۔ اس کانفرنس میں شریک اسلامی ممالک کے سربراہ بیدار رہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن کے ایجنٹ اور اسلامی دنیا سے خیانت کرنے والے اپنا کام کر جائیں۔ البتہ ہمار امانتدار نمائندہ، یعنی وزیر خارجہ وہاں موجود ہے۔ اگر انہوں نے اپنے خیال خام کے تحت اس سلسلے میں کسی بات کو متفق علیہ بناکے پیش کرنے کی کوشش کی تو وہ ہمارا ٹھوس نظریہ بیان کرے گا۔ مگر اسلامی دنیا کو یہ خطرات لاحق ہیں کہ کوئی کانفرنس اسلام کے نام پر بلائی جائے مگر اس میں مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے، امریکا اور اسرائیل کی مشکلات کا جائزہ لیا جائے اور ان کا علاج تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ امید ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ خدا کرے کہ ایسا نہ ہو۔ اسی بیہاج کے مسئلے کو دیکھیں، اتنے زیادہ مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں مگر کچھ لوگ بیٹھے دیکھ رہے ہیں۔ اگر مسلم اقوام ایک دن معین کرتیں اور اس دن مسلم حکومتیں اور اقوام ہم آہنگی کے ساتھ، صرف زبانی اعلان کرتیں کہ وہ یورپ کی صورتحال اور بوسنیا ہرزے گووینا کے مسلمانوں کے دشمنوں اور سربوں کے موقف سے ناراض ہیں، تو اسی اعتراض سے ہی بہت سے مسائل حل ہو جاتے۔ مگر اس سے بھی گریز کر رہے ہیں۔ ایسے حکام کے ساتھ مسلم اقوام کیا کریں؟ آپ ایران کو نہ دیکھیں کہ یہاں حکام عوام کے آگے آگے چلتے ہیں۔ دوسری جگہوں پر اس طرح نہیں ہے۔ یہ مصیبتیں ہیں۔ مگر آج میں ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں جو روشنی اور امید کی ایک کرن ہے۔ یہ دشمن کے پروپیگنڈوں کے مقابلے میں ایرانی قوم کا موقف اور حساس مواقع پر اس قوم کی (میدان عمل میں ) موجودگی ہے۔ اگر ایرانی قوم ایک شخص اور ایک انسان کی صورت میں مجسم ہو سکتی تو مجھ جیسے لوگ اس کا ہاتھ چومتے۔ یہ قوم حساس مواقع پر اپنی عظمت کا ثبوت دیتی ہے۔ میری مراد عالم ربانی، مرجع تقلید آیت اللہ العظمی اراکی مرحوم کی رحلت سے متعلق واقعے سے ہے۔ خدا جانتا ہے کہ دشمن نے اس قضیے کے لئے کتنے سو بلکہ کتنے ہزار گھنٹے محنت، کوشش اور فکر کی تھی کہ اپنی دشمنانہ پروپیگنڈا مہم کے لئے اس سے فائدہ اٹھائیں مگر آپ نے، ایرانی قوم نے بر وقت اقدام سے ان دشمنانہ اور خیانتکارانہ کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ خدا جانتا ہے کہ تشییع جنازہ کے دن جب میں لوگوں کے درمیان گیا تو میرے دل پر کیا گزر رہی تھی۔ تعجب اور ان پاک لوگوں کی تحسین اور قدردانی کا مقام ہے کہ جو اپنی موجودگی، وقت کی نزاکت کے احساس اور بروقت اقدام سے، عظیم عالمی مشکلات کو کالعھن المنفوش راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔ آیت اللہ العظمی اراکی مرحوم کی رحلت کے موقع پر ایرانی قوم نے بڑے کام کئے ہیں ان کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے، میں دو تین نکات عرض کروں گا اور ایک بنیادی بات ہے جو آخر میں بیان کروں گا۔
آیت اللہ العظمی اراکی کی بیماری کے آغاز سے ہی دشمن اپنے پروپیگنڈوں میں چند باتوں کا ذکر کرتے تھے۔ وہ ان باتوں اور پروپیگنڈوں کے ذریعے اس ملک میں ذہنی ‌فضا تیار کرنا چاہتے تھے۔ اس کو معمولی نہ سمجھیں۔ دشمن کا پروپیگنڈہ بہت اہم ہوتا ہے۔ یہ نہ دیکھیں کہ دشمن جو کہتے ہیں، ایرانی قوم اس کے برعکس عمل کرتی ہے۔ دنیا میں ایسا نہیں ہے۔ عام لوگ اور اقوام، ریڈیو کی باتوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ ریڈیو کے ذریعے ایک نظام کو گرایا جا سکتا ہے اور ایک نظام کو لایا جا سکتا ہے، پروپیگنڈے کے ذریعے ایسا کام کیا جا سکتا ہے کہ قوم کے افراد کسی اچھے انسان پر ٹوٹ پڑیں اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور کسی برے آدمی کو بر سراقتدار لے آئیں۔ دنیا کے پروپیگنڈہ کرنے والے، پروپیگنڈے، زبان، ریڈیو اور ٹی وی کے بارے میں ایسا نظریہ رکھتے ہیں۔ البتہ انہوں نے صحیح سمجھا ہے۔ جہاں ایمان اور اطلاع نہ ہو، ایسا ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے دنیا میں بڑے کام کئے ہیں۔ مگر ایران میں کچھ نہ کر سکے۔ کیونکہ یہاں عوام با ایمان ہیں۔
مختصر یہ کہ آیت اللہ العظمی اراکی مرحوم کی بیماری کے شروع میں انہوں نے لوگوں کے درمیان یہ پروپیگنڈہ اور یہ تشہیر کرنا چاہی کہ اب مرجعیت کی دائمی شان اور مقام باقی نہیں رہی۔ وہ دور ختم ہو گیا جب کوئی مرجع تقلید انتقال کرتا تھا تو پورا ایران ہل جاتا تھا۔ اب مرجع کی یہ اہمیت نہیں ہے۔ غیر ملکی ریڈیو پر اس بات کی بار بار تکرار کرتے تھے۔ دنیا کے گوشہ و کنار میں انہیں چند جاہل، مفرور، بدنام اور روسیاہ عناصر بھی مل گئے ہیں جن کے آگے انہوں نے آیت اللہ لگا دیا ہے۔ اسپیکر ان کے منہ کے سامنے لاتے ہیں اور انہیں پیسہ بھی دیتے ہیں، وہ بھی منہ کھولتے ہیں اور جو یہ چاہتے ہیں وہ وہی کہتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یا جاہل ہیں، یا خدا سے بھاگے ہوئے ہیں، اسلام سے دور ہیں، قوم سے منہ موڑے ہوئے ہیں اور بھگوڑے ہیں۔ یا سیاہ دل اور خبیث قسم کے لوگ ہیں۔ ان کے ذریعے عوام کو کچھ باور کرانا چاہتے ہیں۔ ان سے پوچھتے ہیں جناب کیا ماضی کی طرح اب بھی ایران میں مرجعیت کی اہمیت ہے؟ وہ کہتے ہیں نہیں جناب' مرجعیت اب ختم ہوچکی ہے۔ لوگ مرجعیت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور اسی طرح کی دوسری باتیں۔ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانا چاہتے تھے ۔ وہ مرجعیت کی حیثیت کو جو ایک اعلا روحانی درجہ ہے، مسلمانوں کے جان و دل میں اس کی جگہ ہے، اس کو نیچے لانا چاہتے تھے۔ کیونکہ مرجعیت سے انہوں نے منہ کی کھائی ہے۔ وہ مرجعیت سے انتقام لینا چاہتے تھے۔ کسی خاص مرجع سے نہیں (بلکہ خود مرجعیت سے) یہ وہ بات ہے جس کا آپ کی بیماری کے چالیس دنوں کے دوران دشمن مسلسل پروپیگنڈہ کرتا رہا۔ دوسری بات وہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ بٹھانا چاہتے تھے کہ پورے ایران میں اب کوئی اس قابل نہیں ہے جومرجعیت کو سنبھال سکے۔ وہ بڑے اور قوی علما ختم ہو گئے۔ آیت اللہ العظمی اراکی اس سلسلے کی آخری کڑی تھے۔ اب ختم ہے۔ یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں تفصیلی پروپیگنڈہ کرتے تھے۔
تیسری بات وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ ایرانی قوم علماء سے بد دل ہو گئی ہے۔ اب انہیں علماء سے کوئی لگاؤ نہیں رہا۔ وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ ماضی میں، انقلاب سے پہلے اور انقلاب کے اوائل میں، لوگوں کے درمیان علماء کی بڑی عزت تھی، مگر آج ایرانی قوم علماء کو اہمیت نہییں دیتی ہے۔ یہ بات بھی ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ یہ تین باتیں ہیں، البتہ وہ دوسری باتیں بھی کرتے تھے جن میں کچھ کی طرف اشارہ کروں گا۔ آپ ( آیت اللہ العظمی اراکی ) کی رحلت کے دن تہران منقلب ہو گیا۔ ایران منقلب ہو گیا۔ ہمیں خبریں مل رہی تھیں۔ اگرچہ جنازہ تہران میں تھا مگر ہر شہر اور ہر قریئے میں، جہاں بھی جاتے دیکھتے کہ لوگ مساجد میں اور اہم مقدس مراکز میں جمع ہیں۔ وہ دن تہران کے لئے درحقیقت ایک منفرد دن تھا۔ تہران والے تو یہیں تھے انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا دوسروں نے ٹی وی پر دیکھا۔ البتہ میں آپ سے عرض کروں گا کہ کیمرا اس حقیقت کی عکاسی نہیں کر سکتا۔ کیا عظمت تھی؟! میں نے ایسے نوجوانوں کو دیکھا جن کی عمریں آپ کی عمر سے چار گنا یا پانچ گنا کم تھیں، وہ ابر باراں کی طرح اشک بہا رہے تھے۔ آپ نوجوان کیوں رو رہے تھے؟ کیا وجہ تھی؟ آپ نے تو ایک سو تین سال کے اس شخص کو ایک بار بھی نہیں دیکھا تھا، تین چار سال قبل ان سے واقف بھی نہیں تھے۔ علماء، شخصیات اور دینی تعلیم کے مراکز انہیں پہچانتے تھے مگر آپ انہیں نہیں پہچانتے تھے۔ اس طرح کیوں رو رہے تھے؟ ایران اس طرح کیوں منقلب ہو گیا تھا؟ مستورات اس طرح کیوں سینہ زنی کر رہی تھیں اور گریہ کر رہی تھیں؟ بڑے لوگ آنسو کیوں بہا رہے تھے؟ اس بڑے مجمعے میں خود کو جنازے تک پہچانے اور تابوت کو چومنے کی کوشش کیوں کر رہے تھے؟ کیوں؟ وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ تھی اور یہ ہے کہ ایرانی عوام مرجعیت کے لئے بہت ہی اعلا مقام و مرتبے کے قائل ہیں۔ ایرانی عوام علماء سے دل سے محبت کرتے ہیں۔ البتہ جھوٹے ملاؤں کو نہیں۔ حقیقی عالم دین کو بہت چاہتے ہیں۔ اس جھوٹے ملا کو نہیں جس کو دشمن لوگوں کے درمیان عالم بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے۔ لوگ اس سے متنفر ہیں۔ مگر حقیقی عالم دین سے محبت کرتے ہیں۔ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اسلام سے دنیا و آخرت دونوں کو سنوارا جا سکتا ہے۔ اسلام سے انہوں نے اچھائی دیکھی ہے۔ اسلام نے انہیں آزادی اور عزت دی ہے۔ اسلام نے اس قوم کو ستمگروں اور فاسد نطام سے نجات دلائی ہے۔
خواتین و حضرات 'ایران کا دو ہزار پانچ سو سالہ شاہی نظام ختم ہو چکا ہے کہ جس کا وہ دعوی کرتے تھے اور ہمیں اس کی صحیح اطلاع نہیں ہے۔ خود بھی نہیں جانتے تھے اور بات کرتے تھے۔ حالیہ ایک دو صدی میں قاجاری اور پہلوی بادشاہوں کے منحوس دور میں ایرانی قوم کو تباہ کر دیا۔ ایران اپنی تاریخی عزت و عظمت سے نیچے آ گیا۔ کاروان علم سے پیچھے رہ گیا۔ کاروان تمدن سے پیچھے ہو گیا۔ سیاست میں پسماندہ ہو گیا۔ اقتصاد میں پچھڑ گیا۔ اس کے حیاتی ذخائر نابود ہو گئے۔ شاہی نظام سے لوگوں نے یہ دیکھا ہے۔ کس نے انہیں نجات دلائی؟ اس عظیم عالم دین نے۔ عوام نے دیکھا ہے کہ علماء کس طرح آگے آگے رہتے ہیں۔ عوام حقیقی علمائے دین سے محبت کرتے ہیں۔ اس ملک میں جب بھی آزادی کی کوئی حقیقی آواز اٹھی ہے تو اس کا رہبر کوئی عالم دین رہا ہے۔ یہ تاریخ ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جو علماء نے نہیں لکھی ہے۔ علماء کے مخالفین نے لکھی ہے۔ مگر اس میں اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ آیت اللہ العظمی اراکی مرحوم کی تشییع جنازہ میں عوام نے اسے ثابت کر دیا اور دشمن کا پروپیگنڈہ ناکام ہو گیا۔ انہوں نے پروپیگنڈہ کیا کہ اب ایران میں کوئی ایسا نہیں ہے جو مرجعیت کے لئے مناسب ہو۔ لوگوں نے خود دیکھا کہ آپ کے انتقال کے فورا ہی بعد ماہرین کی طرف سے مرجعیت کی صلاحیت رکھنے والے علمائے کرام کی ایک فہرست جاری ہو گئی۔ جو لوگ شناخت رکھتے ہیں اور حوزہ علمیہ ( دینی تعلیم کے مراکز ) ان کے ہاتھ میں ہیں، اور ان کے دم سے مدارس چلتے ہیں، وہ بتا سکتے ہیں کہ کس میں مرجع ہونے کی صلاحیت ہے۔ البتہ ان حضرات نے صرف پانچ چھے لوگوں کا تعارف کرایا۔ انہوں نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ پانچ چھے حضرات کا نام پیش کریں۔ اب سو لوگوں کا نام تو نہیں پیش کیا جا سکتا۔ لیکن میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ اگر آج حوزہ علمیہ قم ( دینی تعلیم کے مرکز) میں ایسے حضرات کو گننا چاہیں جن میں مرجعیت کی صلاحیت پائی جاتی ہے تو ان کی تعداد سو سے بھی زیادہ ہے۔ صرف قم کے دینی تعلیم کے مرکز میں۔ ان میں سے ماہرین نے صرف چھے لوگوں کا نام پیش کیا۔ مگر صرف اتنے ہی نہیں ہیں۔ دو افراد کا نام مجاہد علماء کی انجمن نے پیش کیا، مگر صرف یہی نہیں ہیں۔ مرجعیت کی صلاحیت رکھنے والے علمائے کرام کی تعداد کم سے کم سو ہے۔
کہتے ہیں ؛ جناب بڑے علما کی نسل اور پرانی پیڑھی ختم ہو گئی ہے۔ تم کیا جانو کہ بڑے علما کون ہیں؟ حوزہ علمیہ (دینی تعلیم کے مراکز) کیا ہیں؟ برطانیہ اور امریکا کے سیاستداں اور دنیا کی نیوز ایجنسیاں ہماری قوم کے واضح ترین مسائل کو سمجھنے اور ان کا تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر سمجھ سکتے تو ایرانی قوم سے اتنی شکست نہ کھاتے۔ بنابریں سمجھنے سے قاصر ہیں اور پھرحوزہ علمیہ ( دینی تعلیم کے مراکز) کے امر میں اظہار رائے کرتے ہیں جو پیچیدہ ترین مسائل میں سے ہے۔ دینی تعلیم کے مراکز کے لوگ جانتے ہیں کہ کس میں لیاقت ہے اور کس میں نہیں ہے۔ تم کیا جانو کہ بڑے علما کی نسل ختم ہوگئ ہے یا ختم نہیں ہوئی ہے؟ حضرت امام (خمینی ) کی رحلت کے بعد دنیا سے درجہ ایک کے چا مراجع اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ البتہ مراجع کی تعداد زیادہ رہی ہے مگر ان میں سے یہ چار افراد بہت معروف تھے۔ آیت اللہ العظمی اراکی مرحوم، آیت اللہ العظمی گلپایگانی مرحوم، آیت اللہ العظمی خوئی مرحوم اور آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی مرحوم، ان چار شخصیات میں سے آیت اللہ العظمی اراکی مرحوم کو چھوڑ کر جو ایک سو تین سال زندہ رہے، بقیہ سبھی تقریبا نوے سال زندہ رہے۔ یعنی انیس سو اکسٹھ میں آیت اللہ العظمی بروجردی مرحوم کے انتقال کے وقت، نوے سال کی عمر پانے والے یہ حضرات تقریبا ساٹھ سال کے تھے اور انتقال کے وقت ان کی عمریں، نوے سال تھیں۔ بنابریں تینتیس سال قبل ان کی عمریں ستاون سے باسٹھ سال کے درمیان تھیں۔ ہمیشہ اسی طرح رہا ہے۔ جب آقائے خوئی مرحوم، آقائے گلپايگانی مرحوم اور آقائے مرعشی مرحوم کی مرجعیت کا اعلان کیا گیا تو ان میں سے بعض کی عمر، ان لوگوں سے کم تھی جن کی مرجعیت کا آج اعلان کیا گیا ہے اور بعض کی عمر تقریبا اتنی ہی تھی جتنی ان حضرات کی ہے۔ کس بنیاد پر یہ بکواس کرتے ہیں کہ حوزہ علمیہ ( دینی تعلیم کے مراکز) کے بڑے علما کی نسل ختم ہو گئی ہے؟ تمہیں کیا پتہ کہ حوزہ علمیہ کے علما کون ہیں؟ اور ان کی نسل کیا ہے؟ بلا بنیاد کے اظہار رائے کیوں کرتے ہو؟ یہ ایک بات ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے کچھ خاص لوگوں کا نام لینا شروع کر دیا کہ فلاں سب سے برتر ہے۔ انہوں نے مسلمان عوام کے لئے حکم اور فتوی صادر کرنا شروع کر دیا۔ لوگ مرجعیت کے معاملے میں سب سے زیادہ دقت نظری سے کام لیتے ہیں۔ ایسا ہی ہونا بھی چاہئے۔ میں بھی آپ سے عرض کرتا ہوں کہ میرے عزیزو' مرجعیت کے مسئلے میں بہت دقت نظری سے کام لو۔ ایسا نہ ہو کہ جذبات آپ کو کسی سمت بہا لے جائیں۔ انہیں شرعی طریقوں کی بنیاد پر غور کریں جو موجود ہیں۔ شاہد عادل کی مدد سے جستجو کریں، ایک پر اکتفا نہ کریں ہر شاہد عادل کے پاس نہ جائیں۔ بلکہ اس امر کے ماہر دو عادل شاہدوں سے رجوع کریں جن کو آپ پہچانتے ہیں۔ وہ گواہی دیں کہ فلاں شخص ایسا ہے کہ اس کی تقلید کی جا سکتی ہے اور وہ تقلید کے قابل ہے، تب جاکر اس کی تقلید کر سکتے ہیں۔ اس عالم میں یہ لوگ ایرانی قوم سے جو تقلید کے معاملے میں اتنی سخت ہے، توقع رکھتے ہیں کہ ریڈیو بی بی سی اور ریڈیو اسرائیل چلانے والے فاسق اور فاجر افراد کی باتیں سن لے گی۔ یہ کہتے ہیں فلاں صاحب سب سے بہتر ہیں۔ لوگوں کو ان کی تقلید کرنی چاہئے۔ کیا خیال خام ہے۔ جن لوگوں کا انہوں نے نام لیا ہے، اگر اس بات کا امکان تھا کہ کچھ لوگ ان سے رجوع کرتے تو ان کے نام لینے کے بعد یہ امکان بہت کم ہو گیا ہے۔ ہمارے ملک کے کچھ لوگوں نے بلکہ ہمارے ملک کے مومن عوام کی اکثریت نے بیرونی ریڈیو سروسوں سے اتنی خباثت، بیہودہ اور جھوٹی باتیں سنی ہیں کہ یہ جو کچھ کہیں گے اس کے برعکس عمل کریں گے۔ اگر انہوں نے کہا کہ فلا ں کی تقلید کرو تو اس کی تقلید نہیں کریں گے۔ اگر کسی کی مخالفت کی اور کہا کہ اس کی تقلید نہ کرو تو لوگ اس کی تقلید کریں گے۔ یہ ہمارے عوام کی عادت ہے اور بہت اچھی عادت ہے۔ امام (خمینی ) رضوان اللہ تعالی علیہ فرمایا کرتے تھے، پیشرفت اغیار کے ریڈیو اور دشمن کے پروپیگنڈوں کے برعکس ہے۔ جان لو کہ وہ جدھر جا رہے ہیں وہ سمت باطل کی سمت ہے اور اس کی مخالف سمت حق کی سمت ہے۔ ہمارے عوام نے اپنے اس موقف سے دشمن کے معاندانہ پروپیگنڈوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔ میں واقعی آپ ایرانی قوم کا شکریہ ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ آیت اللہ العظمی اراکی مرحوم کی رحلت پر ہمارے عوام نے آپ کے جلوس جنازہ، آپ کی نماز جنازہ اور آپ کی فاتحہ خوانی کی مجالس میں بھر پور شرکت کی۔ قم اور تہران کے علمائے کرام کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے ایسے لوگوں کی صحیح فہرست تیار کی، جن کی عوام تقلید کر سکتے ہیں اور وہ فہرست عوام کے سامنے پیش کی۔ ان حضرات نے یہاں اپنے فریضے پر عمل کیا ہے۔ البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جن حضرات کا نام اس فہرست میں نہیں ہے، وہ ان حضرات سے کمتر ہیں جن کے نام اس فہرست میں شامل ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ اگر آج آپ قم تشریف لے جائیں تو کم سے کم ایسے سو بڑے علما مل جائیں گے جن کی فہرست تیار کرکے کہا جا سکتا ہے کہ ان حضرات کی تقلید کی جا سکتی ہے۔ دشمن کے کہنے کے بر عکس جس نے کہا کہ ایران میں مرجعیت کے مسئلے میں رسہ کشی چل رہی ہے، ان حضرات کو اپنی مرجعیت کا اعلان کرنے کی جلدی نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ کافر سب کو اپنے جیسا سمجھتا ہے یہ خود یورپی ملکوں میں، امریکا میں اور دوسری جگہوں پر، جہاں مادی تمدن حکمفرما ہے، معمولی سے اقتدار کے لئے مثلا، کسی ریاست کا گورنر یا کسی شہر کا میئر بننے کے لئے، یا کوئی رکنیت حاصل کرنے کے لئے، اپنے تمام اصولوں کو روندنے کے لئے تیار رہتے ہیں، خود اس طرح ہیں۔ افسوس کہ آپ حضرات کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ بعض وہ اطلاعات اور تحریریں ملاحظہ کریں جن سے ہمیں سروکار رہتا ہے اور دیکھیں کہ جاہ طلبی اور اقتدار پرستی میں دنیا کتنی پستی میں جا چکی ہے۔ دنیا میں یہی لوگ جنہیں آپ دیکھتے ہیں کہ بڑی نفاست کے ساتھ، پریس کیا ہوا لباس پہنے، ٹائی لگائے، مصنوعی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے کیمروں کے سامنے آتے ہیں، اس عہدے تک پہنچنے کے لئے ہر جرم کے ارتکاب لئے تیار رہے ہیں اور اکثر اسی طرح یہاں تک پہنچے ہیں۔
میں نے امریکا میں ایک واقعے کے بارے میں ایک کتاب پڑھی ہے۔ یہ بالکل صحیح اور مستند کتاب ہے۔ یہ کتاب عجیب وغریب اور حیرت انگیز حقائق بیان کرتی ہے کہ کسی عہدے کے حصول کے لئے مختلف گروہوں کے درمیان کس طرح جنگ ہوئی ہے۔ سمجھتے ہیں یہاں بھی اسی طرح کا ماحول ہے۔ مرجعیت بھی اسی طرح ہے۔ نہیں جناب آپ غلط سمجھے ہیں۔ یہاں مرجعیت کے لئے کوئی جنگ نہیں ہے۔ کوئی لڑائی نہیں ہے۔ یہاں ایسی ہستیاں موجود ہیں جو قابلیت اور صلاحیت کے باوجود اپنا نام پیش کرنا پسند نہیں کرتیں۔ اسی طرح تیس چالیس سال گذر جاتے ہیں۔ پھر لوگ ان کی فکر کرتے ہیں، ان کے پاس جاتے ہیں، ان سے اصرار کرتے ہیں، کافی اصرار کے بعد اپنا رسالہ عملیہ چھاپتے ہیں۔ آیت اللہ العظمی اراکی جیسی ہستیاں ہمارے ہاں کافی ہیں۔ آج قم میں ایسی ہستیاں ہیں جو مرجعیت کے قابل ہیں مگر ہزاروں افراد بھی ان کے پاس جائیں اور انہیں مرجعیت کے میدان میں لانا چاہیں تو انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نہیں آئیں گے۔ الحمد للہ آج ایسی ہستیاں ہیں جو خود کو اعلم سمجھتی ہیں مگر زبان پر نہیں لاتیں۔ معمولا مجتہدین خود کو دوسروں سے اعلم سمجھتے ہیں۔ البتہ میں یہ نہیں کہتا کہ سب ایسے ہیں۔ اکثر اس طرح ہیں۔ مگر اس کے باوجود کہ خود کو اعلم سمجھتے ہیں، زبان پر نہیں لاتے۔ یہ ایسے لوگ ہیں۔ خود کو سامنے لانے پرتیار نہیں ہیں۔ میدان میں آنے پر تیار نہیں ہیں۔
آیت اللہ العظمی بروجردی مرحوم کی رحلت کے بعد امام (خمینی ) نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ آپ کی مٹھی میں اتنی گنجائش تھی آپ پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں لے سکتے تھے۔ آپ نے اپنا رسالہ عملیہ نہیں شائع کیا اور گھر میں جاکے بیٹھ گئے۔ بہت اصرار کیا گیا مگر رسالہ عملیہ نہیں شائع کیا۔ میں خود بھی ان لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے آپ سے عرض کیا، آپ کوئی جواب نہیں دیتے تھے، صرف یہ فرماتے تھے : حضرات موجود ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ گئے اور آپ کو مجبور کیا۔ آپ کے فتوے معلوم تھے ، آپ کا رسالہ عملیہ مرتب کرکے شائع کیا۔ اس طرح کے واقعات بہت ہیں۔ آج حوزہ علمیہ (دینی تعلیم کے مرکز) میں ایسے جید علما موجود ہیں جو بیس تیس سال پہلے ہی یہ صلاحیت رکھتے تھے کہ ان کا نام مرجعیت کے لئے لیا جاتا۔ مگر انہوں نے نہ خود اپنا نام لیا اور نہ ہی ان لوگوں کو اس کی اجازت دی جو ان کی شناخت رکھتے تھے۔ دوسرے لوگ انہیں نہیں پہچانتے تھے۔ اقتدار کی جنگ کیسی ؟ جو لوگ مرجعیت کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ بہت کرتے ہیں تو یہ کہ اپنا کچھ رسالہ عملیہ چھپوا کے گھر میں رکھ لیتے ہیں کہ اگر کوئی ان سے رجوع کرے تو دے دیں کہ یہ لیجئے میرا رسالہ عملیہ اور جائیے۔ بہت کرتے ہیں تو یہ ہے۔ اور بہت سے یہ بھی نہیں کرتے۔ ریڈیو پر ہنگامہ کر دیا کہ جناب اقتدار کی جنگ ہے۔ کیسی اقتدار کی جنگ؟ جن بے بنیاد اور بیہودہ باتوں کا پروپیگنڈہ کر رہے تھے ان میں سے ایک یہ تھی کہ حوزہ علمیہ کے اکثر بڑے علماء سیاست میں دین کی مداخلت کے مخالف ہیں، بنابریں اسلامی حکومت اور ولایت فقیہ کے بھی مخالف ہیں۔ اکثریت ان کی ہے؟ دیکھیئے یہ اکثریت ہے۔ جو لوگ اعلانیے تقسیم کر رہے ہیں، یہ اکثریت میں ہیں۔ جن لوگوں کے نام پیش کئے گئے ہیں وہ اکثریت میں ہیں۔ البتہ علما میں کچھ غلط قسم کے لوگ بھی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ نہیں ہیں۔ ہیں۔ کاروباری طبقے میں غلط لوگ ہیں، یونیورسٹیوں میں غلط لوگ ہیں، فوج میں غلط لوگ ہیں، مختلف اداروں میں غلط لوگ ہیں، ہر جگہ غلط افراد ہیں۔ علما میں بھی ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے امام زمانہ کی روٹی کھائی ہے، امام زمانہ کا نمک کھایا ہے اور نمکدان توڑ دیا ہے۔ راہ امام زمانہ کی مخالفت کی ہے۔ ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نہیں ہیں۔ اغیار کے ریڈیو جائیں اور جتنا چاہیں ان سے انٹرویو کریں۔ وہ دس کتابوں کے برابر اسلامی جمہوریہ کے اصول و اقدار کو برا بھلا کہنے کو تیار ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ نہیں ہیں۔ ہیں۔ مگر اول یہ کہ بہت کم ہیں اور دوسرے یہ کہ منفور ہیں، ایرانی قوم اور انقلابی مسلمان ان سے نفرت کرتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جن لوگوں نے مرجعیت کے لئے اغیار کی ریڈیو نشریات اور سامراجی مشینری پر بھروسہ کیا ہے، وہ اگر ایران میں اپنا تعارف کرائیں تو ایرانی قوم انہیں سکون سے رہنے دے گی؟ ایرانی قوم خیانتکاروں کو نہیں چھوڑتی۔ آج تک نہیں چھوڑا ہے۔ آئندہ بھی خیانتکاروں کو نہیں چھوڑے گی۔
ایک بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ عزیز بہنوں اور بھائیوں سے گزارش کروں گا کہ اس بات کو جذباتی ہوئے بغیر سنیں۔ حضرت امام (خمینی ) رضوان اللہ علیہ کی رحلت کے بعد، مجلس خبرگان (ماہرین کی کونسل) میں، پہلے دن جب میں وہاں تھا تو بحث یہ ہوئی کہ کس کا انتخاب کیا جائے اور سرانجام میرا نام لیا گیا اور اس پر اتفاق کیا کہ اس حقیر اور کمزور شخص کو یہ سنگین منصب دیں۔ میں نے مخالفت کی۔ سخت مخالفت کی۔ تکلف نہیں کر رہا تھا۔ نہیں، یہ خدا ہی جانتا ہے کہ اس لمحے میرے دل پر کیا گزر رہی تھی۔ میں گیا، وہاں کھڑا ہوا اور کہا کہ حضرات رکیں۔ اجازت دیں۔ یہ سب ریکارڈ ہے۔ موجود ہے۔ تصویر بھی ریکارڈ ہے اور آواز بھی موجود ہے۔ میں نے دلائل دینے شروع کئے کہ مجھے اس منصب کے لئے منتخب نہ کریں۔ عرض کیا کہ نہ کریں۔ بہت اصرار کیا مگر قبول نہ کیا۔ میں نے جتنے بھی استدلال پیش کئے وہاں موجود علماء و فضلائے کرام نے ان کے جواب دے دیئے۔ میں اپنی جگہ پر قائم تھا کہ قبول نہیں کروں گا۔ مگر پھر دیکھا کہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ کیونکہ جن لوگوں پر مجھے اعتماد اور یقین ہے، انہوں نے کہا کہ یہ مجھ پر واجب ہو چکا ہے۔ یعنی اگر میں اس بار گراں کو قبول نہ کروں تو یہ بار گراں زمین پر پڑا رہے گا۔ اس منزل پر میں نے کہا کہ قبول کرتا ہوں۔ کیوں؟ اس لئے کہ دیکھا کہ یہ بار گراں زمین پر پڑا رہے گا۔ اس کو اس لئے اٹھایا کہ زمین پر پڑا نہ رہے۔ اگر کوئی اور وہاں ہوتا اور میں اس کو پہچانتا ہوتا، اس کے لئے اس بار گراں کو اٹھانا ممکن ہوتا، اور دوسرے بھی اس کو قبول کرتے تو میں اس بار کو اٹھانا ہرگز قبول نہ کرتا۔ پھر میں نے خدا کے بھروسے اس بار گراں کو قبول کر لیا اور آج تک اس نے میری نصرت کی۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہی تھا۔ مجھے دو ادوار کے لئے صدر مملکت منتخب کیا گیا۔ دونوں بار میں امیدوار بننا قبول نہیں کر رہا تھا۔ پہلے الیکشن میں ابھی ابھی اسپتال سے آیا تھا۔ دوستوں نے کہا کہ اگر تم نے قبول نہ کیا تو یہ بار زمین پر پڑا رہے گا۔ کوئی نہیں ہے اس کو اٹھانے والا۔ مجبور ہو گیا۔ دوسرے دور کے لئے خود امام (خمینی ) نے مجھ سے کہا تمہارے لئے لازم ہے۔ میں آپ کی خدمت میں گیا اور عرض کیا ؛ حضور مجھے منظور نہیں ہے۔ اس بار میں الیکشن نہیں لڑوں گا۔ فرمایا؛ تم پر لازم ہے۔ یعنی واجب ہے اور واجب کفائی نہیں بلکہ یہ واجب تم پر متعین ہے، واجب عینی ہے۔
میرے عزیزو! اگر واجب عینی ہو تو میں کسی بھی بار گراں سے اپنا دامن نہیں بچاؤں گا۔ مرجعیت کے مسئلے میں موضوع یہ نہیں ہے۔ یہ بار زمین پر نہیں رہے گا۔ یہ قضیہ کسی فرد پر منحصر نہیں ہے۔ جی ہاں حضرات نے فہرست مرتب کی ہے۔ اس فہرست میں اس حقیر کا نام بھی ہے لیکن اگر مجھ سے پوچھتے تو میں کہتا کہ یہ کام نہ کیجئے۔ میری اطلاع کے بغیر یہ کام کیا گیا۔ جب ان کا اعلانیہ شائع ہو گیا تب مجھے اطلاع ہوئی ورنہ یہ نہ ہونے دیتا۔ حتی میں نے ٹی وی کو بھی اطلاع دی کہ اگر حضرات ناراض نہ ہوں تو ان کا اعلانیہ پڑھیں تو میرا نام نہ پڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اعلانیے میں تحریف ہوگی۔ لوگوں نے بیٹھ کے کئی گھنٹے میٹنگ کی ہے؛ یہ ممکن نہیں ہے۔ میں اس وقت آپ سے عرض کرتا ہوں ؛ میرے عزیزو، میری عزیز قوم والو' میرے بزرگو' محترم حضرات' جو گوشہ و کنار سے مجھے پیغام دیتے ہیں کہ میں اپنا رسالہ عملیہ شائع کروں، میری موجودہ ذمہ داری بہت سنگین ہے۔ اسلامی جمہوری نظام کی قیادت، عظیم دنیاوی ذمہ داریاں، کئی مرجعیت کے برابر سنگین ہیں۔ اس کو آپ جانیں۔ اگر کئی مرجعیت کو ایک جگہ رکھیں تو ممکن ہے کہ اس کا بار اتنا سنگین ہو۔ ممکن ہے۔ فی الحال ضرورت نہیں ہے۔ اگر العیاذ باللہ حالت یہ ہو جاتی کہ میں دیکھتا کہ کوئی چارہ نہیں ہے تو کہتا کہ کوئی حرج نہیں ہے۔ میں اپنی تمام کمزوری اور ناتوانی کے باوجود، پروردگار کے فضل سے، کوئی اور چارہ نہ ہو، یعنی ضروری ہو، وہاں اس سے بھی دس گنا سنگین بار اٹھانے کے لئے بھی تیار ہوں۔ مگر فی الحال ایسا نہیں ہے۔ فی الحال ضروری نہیں ہے۔ الحمد للہ اتنے مجتہدین ہیں۔ میں نے قم کا نام لیا ہے۔ قم کے علاوہ دوسری جگہوں پر بھی ہیں۔ باصلاحیت افراد ہیں۔ کیا ضرورت ہے کہ اس بار گراں کے ساتھ ہی جو خدا نے اس حقیر کے ناتواں کندھوں پر ڈالا ہے، مرجعیت کا بار بھی اٹھاؤں۔ اس معنی میں ضرورت نہیں ہے۔ بنابریں جو حضرات، اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جناب رسالہ عملیہ شائع کروائیے، میں اس وجہ سے مرجعیت کی سنگین ذمہ داری قبول کرنے سے اجتناب کر رہا ہوں۔ الحمد للہ حضرات ہیں، ا س کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ ایران سے باہر کا حکم دوسرا ہے۔ ان کا بوجھ میں قبول کرتا ہوں۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر اس کو قبول نہ کروں تو ضائع ہو جائے گا۔ جس دن میں نے احساس کیا کہ جو ہستیاں الحمد للہ آج یہاں ہیں اور میری نظر میں کافی ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آج ایسی ہستیاں ہیں کہ جن کے اندر قم میں ذمہ داری اٹھانے کی ضروری بلکہ غیر معمولی صلاحیت موجود ہے، جب بھی میں نے محسوس کیا کہ یہ باہر کی ذمہ داریاں بھی اٹھا سکتے ہیں تو یہاں سے بھی پیچھے ہٹ جاؤں گا۔ آج میں ایران سے باہر کے شیعوں کی درخواست قبول کرتا ہوں۔ اس لئے کہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بالکل ان مقامات کی طرح ہے جہاں میں مجبور ہوں، مگر ملک کے اندر ضروری نہیں ہے۔
حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ و عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی ذات مقدس خود حوزہ علمیہ، دینی تعلیم کے مراکز کی محافظ و نگہبان ہے۔ بڑے علما کی محافظ و پشت پناہ ہے۔ مراجع کرام اور لوگوں کے دلوں کی ہدایت کرنے والی ہے۔ دعا ہے کہ خداوند عالم اس مرحلے کو بھی ایرانی قوم کے لئے مبارک مرحلہ قرار دے۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ