قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ قارئین کی نذر کیا جاتا ہے؛

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ عزیز نوجوانوں کو خوش آمدید کہوں جو اس ملک اور قوم کے لئے باعث افتحار ہیں۔ یہ ایام اور خاض طور پر یہ مناسبت، نوجوان طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ مخصوصا دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے طلبا جیسے نوجوانوں سے، جو تعلیم اور علمی ماحول سے سروکار رکھتے ہیں۔ درحقیقت، سامراج کے خلاف جدوجہد کا قومی دن کئی پہلووں سے آپ جیسے ہمارے عزیز نوجوانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ آج میں سامراج کے خلاف جدوجہد کے تعلق سے ایک بات عرض کروں گا تا کہ معلوم ہو جائے کہ مسئلہ کیا ہے؟ ‍قضیے کی بنیاد کیا ہے؟ اس مسئلے کا ماضی میں تسلسل کہاں تک ہے؟ یہ صحیح ہے کہ ان دنوں، یونیورسٹی طلبا نے ایران میں امریکی جاسوسی کے اڈے پر قبضہ کیا تھا۔ مگر آج کی نوجوان نسل، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا جو میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں، امیدوں کو باقی رکھا ہوئے ہیں اور ہماری آنکھوں کو روشن کر رہے ہیں، وہ اس قضیے کے ماضی کے بارے میں کیا جاتنے ہیں؟ ان کی معلومات کتنی ہیں؟ خطیبوں، قلمکاروں اور ان لوگوں نے جو اس الہی سیاست کے میدان میں، اپنے دوش پر ذمہ داری اٹھانے کے قائل ہیں، ان لوگوں نے ہماری اس ترقی پذیر نسل کے لئے، جس سے ملک کو ہزاروں کام ہیں، اس مسئلے کی کتنی تشریح کی ہے؟ بنابریں ایک مسئلہ یہ ہے۔ میں آج تھوڑا سا اس بارے میں خاص طور پر ان نوجوانوں کے لئے عرض کروں گا، جو انیس سو اناسی میں یعنی آج سے پندرہ سال قبل بچے تھے اور ہمارے بہت سے اسکولی طلبا اس وقت پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس مسئلے کے بیان کے بعد آپ کی خدمت میں جو انقلاب اور اس کے ہم جیسے خادمین کے سب سے زیادہ مضبوط اور باقی رہنے والے مخاطبین ہیں، ایک انتہائی بنیادی بات عرض کروں گا۔
پہلے موضوع کے بارے میں عرض کروں گا کہ واضح اور آشکارا طور پر ایران میں انیس سو باسٹھ ترسٹھ سے ہمہ گیر جدوجہد شروع ہوئی۔ اس سے پہلے بھی جدوجہد تھی مگر وہ معمولی تھی اور اس کا دائرہ مختصر تھا۔ یونیوسٹی طلبا، روشن فکر حضرات اور علماء تک محدود تھی۔ مگر انیس سو باسٹھ سے بڑے علماء خاص طور پر حضرت امام (خمینی) کی قیادت میں ہمہ گیر جدوجہد شروع ہوئی۔ انیس سو باسٹھ ترسٹھ سے انیس سو اناسی تک یہ تحریک چلی اور سرانجام کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
میرے عزیزو! یہ سولہ سالہ جدوجہد اگرچہ بظاہر شاہ کے خلاف تھی مگر چونکہ شاہ کو انیس سو ترپن میں امریکی برسراقتدار لائے تھے اور وہ اس کی پشت پناہی کرتے تھے، اس لئے درحقیقت یہ تحریک، امریکا کے خلاف تھی۔ امریکی ہی اس ملک کے سب کچھ تھے۔ انہوں نے شاہ کو اقتدار دیا تھا، وہ اس کے پشت پناہ تھے اور ان کی حمایت سے اس نے لوگوں کا قتل عام کیا اور انہیں ایذائیں دیں۔ جیلوں میں اس طرح لوگوں کو ایذائیں دی گئیں اور سڑکوں اور چوراہوں پر اس طرح ان کا قتل عام کیا گیا، جیسے کہ چار جون اور سات ستمبر
کا قتل عام ہے۔ (قم کے) مدرسہ فیضیہ اور (تہران ) یونیورسٹی میں اس طرح طلبا کا خون بہایا گیا۔ ہماری قوم ان جرائم کا ذمہ دار امریکا کو سمجھتی تھی اور اس کو یقین تھا کہ ان سب میں امریکا کا ہاتھ ہے۔
امریکا ہمارے ملک میں دو حربوں سے کام لے رہا تھا۔ امریکا کا ایک وسیلہ سرمایہ کاری، فوج میں مداخلت، فوجی ماہرین کا گروہ، پالیسیاں، پیسہ اور امریکی سفارتخانہ تھا۔ دوسرا وسیلہ صیہونی کارندے تھے۔ اگرچہ اس زمانے میں بھی ایران میں عوام کے ڈر سے باضابطہ سفارتخانہ کھولنے کی جرائت نہیں کرتے تھے، مگر ان کے مخصوص مراکز تھے، عوامل تھے، ان کے مخصوص افراد تھے، سیاستداں تھے اور تجار تھے جو یہاں کام کرتے تھے۔ سیاست، اقتصاد اور مسلح افواج کا شعبہ امریکیوں کے ہاتھ میں تھا۔ اس کو عوام جانتے تھے۔ امام (خمینی) نے انیس سو باسٹھ ترسٹھ سے اس کی وضاحت فرمائی تھی۔ بنابریں جب انیس سو اناسی میں تحریب کامیاب ہوئی اور انقلاب آیا تو یہ انقلاب درحقیقت ایک امریکا مخالف انقلاب تھا جو کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا۔ اب آپ دیکھیں کہ ایرانی قوم اور انقلابیوں کو اس ملک میں امریکی کارندوں کے ساتھ کیا کرنا چاہئے تھا؟ وہ بہت کچھ کر سکتے تھے۔ اگر کرتے تو کوئی انہیں برا بھلا نہ کہتا کیونکہ انہوں نے سولہ سال سے امریکیوں کے خلاف جدوجہد کی تھی اور اس سے نقصانات اٹھائے تھے۔ کوئی نہ کہتا کہ تم نے امریکیوں کے ساتھ یہ کام یا وہ کام کیوں کیا؟ اسی کے ساتھ اس بات پر بھی توجہ فرمائیں کہ انقلاب کامیاب ہونے کے بعد، انقلاب، انقلابیوں اور خود امام (خمینی) نے امریکیوں کے ساتھ کافی نرمی کی۔ ان کا سفارتخانہ اپنی جگہ پر باقی تھا۔ یہاں ان کا ناظم الامور تھا۔ پہلے سفیر تھا پھر ناظم الامور تھا۔
انقلاب کے شروع کے دنوں میں، گیارہ اور بارہ فروری کو انقلابی نوجوانوں نے ان کے چند لوگوں کو گرفتار کیا اور اس کالج میں جہاں امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ قیام فرما تھے یعنی رفاہ اور علوی کالج میں لائے۔ بعد میں امام (خمینی) نے اپنے لوگوں کو پیغام بھجوایا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ ان میں سے کسی کے ساتھ زیادتی ہو جائے، کو‏ئی ان کے ساتھ زیادتی نہ کرے۔ پھر ان میں سے ہر ایک کو چھوڑ کو دیا گیا۔ چلے گئے۔ پہلے ملک سے گئے۔ یعنی ان میں سے کچھ لوگ اس ملک سے نکل گئے۔ مگر ان کا سفارخانہ تہران میں کام کر رہا تھا۔ آپ دیکھیں کہ اس انقلاب، شریف ایرانی قوم اور ان کریم امام کا امریکیوں کے ساتھ برتاؤ اس طرح چشم پوشی پر مبنی تھا۔ جبکہ میں نے عرض کیا کہ عوام، انقلابی نوجوان، اور امام (خمینی) جو طاقت و شجاعت کا مظہر تھے، ان امریکیوں کی نسبت جو فیصلہ بھی کرتے، کوئی ان کی مذمت نہ کرتا اور کر بھی نہیں سکتا تھا۔ دوسری طرف امریکیوں نے کیا کیا؟ بجائے اس کے کہ عوام اور ہمارے عظیم امام کی اس فراخدلی اور کرم کو غنیمت سمجھتے، اس کی قدردانی کرتے اور اس کا مناسب جواب دیتے، سخت دشمنانہ رویہ اختیار کیا۔ یہ سفارتخانہ جس کو بعد میں جاسوسی کا اڈہ کہا گیا، اورتھا بھی ایسا ہی، انقلاب کے دشمنوں اور مخالفین کے اجتماع اور منظم ہونے کا مرکز بن گیا کہ وہاں جائیں، احکام لیں اور باہر آکر انقلاب اور اسلامی نظام کے خلاف سرگرمیاں انجام دیں۔ انہوں نے امریکی سینٹ میں انقلاب اور اسلامی نظام کے خلاف بل پیش کیا۔ پوری دنیا میں امریکا کی پروپیگنڈہ مہم شروع ہوئی جو انقلاب اور ایرانی عوام کی نسبت سخت دشمنی پر مبنی تھی۔ ان عوام کا گناہ کیا تھا؟ امریکی حکومت ان کی نسبت اتنا کینہ اور دشمنی کیوں دکھا رہی تھی؟ یہ وہ سوال تھا جس کا امریکیوں نے جواب نہیں دیا اور ہرگز نہیں دے سکتے تھے۔
محمد رضا جو ایرانی قوم کا ایک مفرور مجرم تھا، اس کو امریکا میں قبول کیا گیا اور ایک مہمان کی حیثیت سے پناہ دی گئی۔ محمد رضا کے اختیار میں جو دولت تھی، وہ اربوں ڈالر سے زیادہ تھی جس کی اس نے امریکا میں سرمایہ کاری کی تھی۔ پوری دنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی حکومت گرتی ہے تو اس کے سربراہ کی ذاتی دولت جو دراصل اس ملک کے عوام اور نئی حکومت کی ہوتی ہے، اس ملک کو واپس کر دی جاتی ہے۔ یہ ہر جگہ رائج دستور ہے۔ اگر اخبارات میں مختلف واقعات کی رودادیں پڑھی ہوں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہر جگہ یہ کام کیا گیا ہے۔ اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی کہ وہ تمام دولت جو ایرانی قوم کی تھی، امریکا میں محمد رضا اور اس کے رشتے داروں کے اکاؤنٹ میں رکھ لی جائے۔ ایک ریال بھی ایرانی عوام کو نہیں دیا۔ سب رکھ لیا اور اب بھی ان کے پاس ہے۔ اب بھی ایرانی قوم کے امریکا پر اربوں ڈالر کے واجبات ہیں۔ انہوں نے ان چیزوں کو بھی اپنے پاس رکھ لیا جو ماضی کی حکومت نے ان سے خریدی تھیں اور ان کی قیمت ایرانی قوم کی جیب سے ادا کی تھی اور ایرانی قوم کو ان کی ضرورت تھی۔ اب بھی یہ اثاثے ان کے گوداموں میں رکھے ہوئے ہیں اور آج تک اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اور قوم کو نہیں دیا ہے۔ امریکا میں ایران کے اثاثے منجمد کر دیئے گئے اور واپس نہیں کئے گئے۔ کیوں؟ اس امید پر کہ شاید اسلامی جمہوری نظام کو ختم کر سکیں۔ انہوں نے سوچا کہ آج انہیں یہ دولت واپس نہیں کریں گے کہ وہ ان سے کام لیں۔ غرض یہ کہ ریاستہائے متحدہ امریکا کی حکومت نے اسلامی انقلاب کے بعد بھی وہی انقلاب سے پہلے والی روش جاری رکھی۔ یعنی ایرانی قوم اور اسلامی جمہوری نظام کی نسبت کینہ اور دشمنی۔ ان حالات میں امریکی سفارتخانے کا واقعہ رونما ہوا۔
ایرانی قوم ایک باایمان اور انقلابی قوم ہے۔ اسلامی انقلاب کمیونسٹ اور بعض ملکوں کے رنگا رنگ انقلابوں کی طرح نہیں تھا کہ کسی ملک کے خلاف جو ان کا دشمن ہے کوئی کام کرنا چاہیں تو اعلا سطح پر، دوسری طاقت جو اس کی پشت پناہ ہے، دباؤ ڈالے اور اس میں رکاوٹ بن جائے۔ دوسرے ملکوں میں بہت سے انقلابات اس طرح کے تھے۔ جہاں کسی ملک کی انقلابی حکومت، کسی طاقت کے خلاف کچھ کرنا چاہتی تو وہ طاقت اس طاقت کا سہارا لیتی جو اس کی پشت پناہ تھی۔ باہم افہام و تفہیم کر لیتے اور مسئلہ حل ہو جاتا۔ اسلامی جمہوری نظام کسی طاقت کے زیر اثر نہیں تھا۔ سبھی بڑی طاقتیں اس سے کینہ رکھتی تھیں۔ اس نظام نے خود کو ان سب سے آزاد رکھا تھا۔ لہذا یہ باتیں یہاں نہیں تھیں۔ اس بناء پر قوم میں جوش اٹھا اور میدان میں موجود شجاع اور غیور یونیورسٹی طلبا نے امریکی سفارتخانے پر قبضہ کر لیا۔
اس اقدام کا مطلب یہ تھا کہ حکومت امریکا جان لے کہ اس انقلاب سے کھیلا نہیں جا سکتا۔ یہ انقلاب، یہ قوم اور یہ ملک ان انقلابات، اقوام اور ملکوں میں سے نہیں ہے کہ دنیا کے اس طرف اس کی نسبت الٹے سیدھے خواب دیکھے جائیں، سازشیں تیار کی جائیں اور یہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے خاموش بیٹھا رہے۔
امریکی سفارت خانے کے خلاف جس کو بجا طور پر جاسوسی کے اڈے کا نام دیا گیا، واقعی وہ جاسوسی کا مرکز تھا، اس کے خلاف یہ اقدام درحقیقت اس انقلاب اور اس قوم کے بعض حقائق کا مظہر تھا۔ اس اقدام نے ثابت کر دیا کہ ہماری قوم امریکا جیسی زیادہ بولنے والی، کثرت طلب، مغرور اور مستکبر طاقت کے مقابلے میں بھی ہر جگہ ڈٹی ہوئی ہے۔ یہ سفارتخانے کا معاملہ تھا۔ امریکیوں کا طریقہ یہ ہے کہ ہمیشہ اپنے مسئلے اور مشکل کو پوری دنیا کا مسئلہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کو یورپ کا مسئلہ بھی بتاتے ہیں۔ جبکہ ان کا مسئلہ خود ان سے تعلق رکھتا ہے۔ ایرانی قوم اور امریکا کے درمیان دشمنانہ رابطہ امریکا کا مسئلہ ہے۔ اس کو یورپ اور دوسرے ملکوں تک نہیں پہنچا سکتے کہ کہیں کہ یہ سب کے مخالف ہیں۔ نہیں، ایرانی قوم سب کی مخالف ہرگز نہیں ہے۔ وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ایران کی حکومت اور قوم صحیح بات نہیں سمجھتی اور سب کے لئے بری ہے۔ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر دنیا میں کوئی ایسی حکومت دیکھنی ہے جو سب کے ساتھی بری ہے اور سب کے خلاف سازش کرتی ہے تو وہ امریکی حکومت ہے۔ امریکی حکومت کے لئے یہ کہنا صادق آتا ہے کہ سب کے لئے بری ہے، کیونکہ دنیا میں جہاں بھی قدم رکھتی ہے، عناد، تکبر، کثرت طلبی اور گستاخی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ یہ باتیں، ہم پر، اسلامی جمہوری نظام اور ہمارے عوام پر صادق نہیں آتیں۔ ہم سب کے ساتھ برے نہیں ہیں۔ امریکا سے ہماری لڑائی ہے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ امریکا، سولہ سال تک اسلامی انقلاب کے خلاف، ماضی کی حکومت کی پشت پناہی کرتا رہا، کسی ملک میں سامراجی حکومت کی مداخلت اور نفوذ کا بدترین شکل میں مظاہرہ کرتا اور ہر طرف سے وار لگاتا رہا اور نقاصانات پہنچاتا رہا، یہ سب امریکا کے خلاف اس قوم کی دشمنی کی وجوہات ہیں۔ یہ ہمارے مقدسات کا مذاق اڑاتے تھے اور ان تمام باتوں کے ساتھ ہی انقلاب کے بعد، اس قوم کی نجابت، امام ( خمینی ) کی بزرگی و فراخدلی، اور اسلامی انقلاب اور جمہوری اسلامی ایران کے مقابلے میں اس طرح عمل کیا۔ انہیں کیا توقع ہے؟ ہماری قوم سے انہیں نوازش کی توقع ہے؟ امریکا مردہ باد کسی نے ایران کو نہیں سکھایا ہے بلکہ لوگوں کے دل کی گہرائیوں سے یہ نعرہ نکلتا ہے امریکہ مردہ باد۔ اب گوشہ و کنار میں کچھ لوگ ظاہر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کیوں اس کیوں کو آپ کو آپ امریکہ کے سامنے کیوں نہیں اٹھاتے؟ یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ حکومت امریکا اس ایرانی قوم سے اس جرم پر کہ خود مختار رہنا چاہتی ہے، اتنی دشمنی اور کینے سے کام کیوں لے رہی ہے۔؟
یہ انقلاب کے تعلق سے پہلی بات تھی جو عرض کی۔ ابتدا سے لیکر اس وقت تک امریکی حکومت نے ایرانی قوم، انقلاب، اسلامی جمہوریہ اور اس کے حکام کے خلاف مسلسل سازشیں کی ہیں۔ ان کی ماضی کی حکومت کے ایک سربراہ نے یہ کہنے میں شرم نہیں محسوس کی کہ ایرانی قوم کو ختم ہو جانا چاہئے کتنا بڑا احمق ہوگا وہ شخص جو ایسی بات کہتا ہے؟ امریکیوں نے ایسا کہا۔ یہ دشمنی کی وجہ سے ہے۔ یہ کینے کی کثرت کی وجہ سے ہے کہ جو ان کی باتوں میں اور ان کے چہرے سے عیاں ہے۔ آج وہ دلالی کر رہے ہیں، یہاں جا رہے ہیں وہاں جا رہے ہیں، چین جاپان اور کہاں کہاں جا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ایران سے رابطہ نہ رکھیں۔ تم سے کیا مطلب ہے؟ تم دنیا میں کیا ہو؟ ایران ایک بڑا ملک ہے۔ ایران کی ایک عمیق اور عظیم تاریخ ہے جس تاریخ میں امریکا جیسے غرق ہو جائیں۔ ایرانی قوم کوئی کھلونا ہے؟ کسی قوم کی تہذیب الماس کے ٹکڑوں کی طرح ہوتی ہے جو صدیوں میں وجود میں آتی ہے اور مستحکم ہوتی ہے۔ یہ تہذیب ایرانی قوم کے ایک ایک فرد میں متجلی ہے۔ کیا ایرانی قوم کو معملی سمجھا جا سکتا ہے؟ ایرانی قوم نے اسلام کا انتخاب کیا ہے۔ کسی نے اسلام کو ایرانی قوم پر مسلط نہیں کیا ہے۔ اسلامی حکومت اور اسلامی جمہوری نظام کو بھی ایرانی قوم نے خود منتخب کیا ہے۔ قوم نے جدوجہد کی زندگی اور آج کی اس آزاد فضا کو خود منتخب کیا ہے۔ بڑی طاقتوں سے خود مختاری کو ایرانی قوم نے خود منتحب کیا ہے۔ آج ایران میں کوئی بڑی طاقتوں اور دنیا کے دھڑوں سے وابستگی کی بات کر سکتا ہے؟ اگر کرے تو یہ قوم اس کو جواب دے دے گی۔ یہ آزاد اور خود مختار قوم ہے۔ دنیا کی حکومتیں اور دنیا کے ممالک خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اس قوم کے ساتھ روابط رکھیں۔ یہ قوم معنوی، ثقافتی اور تاریخی دولت کی مالک، عقلی رشد اور مادی ثروت کی مالک، ان تمام ذخائر کی مالک اور بہترین منتظمین، بہترین افرادی قوت اور نوجوانوں کی مالک ہے۔ یہ ایسی قوم ہے کہ جو پیشرفت کرے گی۔ گذشتہ حکومت کے دور میں درحقیقت اغیار اس ملک پر مسلط تھے۔ بظاہر حکومت ایرانی تھی، لیکن باطن میں اغیار کے تسلط میں تھی۔ اگر اس زمانے سے موازنہ کریں تو آج آزادی و خود مختاری کی برکت سے ایران نے بہت زیادہ پیشرفت کی ہے اور مزید پیشرفت کرے گا اور آگے بڑھے گا۔
مسئلہ امریکی حکومت سے ایرانی قوم کی نفرت کا ہے۔ جو کچھ عرض کیا وہ اس کے مختصر علل و اسباب ہیں۔ انہوں نے اگر یہ نہ کہیں کہ ایران کے خلاف جنگ شروع کی، تو اس کی پشت پناہی ضرور کی ہے۔ اس کا احتمال بھی ہے کہ ایران کے خلاف عراق کی جنگ شروع کرانے میں امریکیوں کا ہاتھ رہا ہو۔ مگر چونکہ ہم کوئی بات اس وقت تک نہیں کہنا چاہتے جب تک کہ پورا یقین نہ ہو، اس لئے کہتے ہیں کہ احمتال ہے۔ مگر عراق کی ان کی جانب سے حمایت اور پشت پناہی یقینی ہے۔ ہر طرح سے پشت پناہی کی۔ کیا ایرانی قوم بھلا دے گی کہ انہوں نے عراق کی ہر وہ مدد کی جو اس کو درکارتھی؟ کیا ایرانی قوم بھلا دے گی کہ آج کویت پر حملے کے معاملے میں امریکی جرائد اور امریکی حکام کے سرکاری بیانات میں صدام اور اس کی بعثی حکومت کی یہ شبیہ پیش کی جا رہی ہے مگر تیس چالیس ایرانی شہروں میں عوام کے گھروں پر ایک ساتھ اس نے میزائل برسائے تھے تو اس کی شبیہ پسندیدہ اور قابل تعریف تھی۔ کیا ایرانی قوم ان سب باتوں کو فراموش کر دے گی؟ ایرانی قوم کے ساتھ دشمنی کی۔ اب بھی دشمنی کر رہے ہیں اور دشمنی کی وجہ بھی معلوم ہے۔ اب ممکن ہے کوئی پوچھے کیوں دشمنی کر رہے ہیں؟ شروع سے کیوں کی؟ وجہ یہ ہے کہ ایرانی قوم اسلامی ایمان اور اس ثقافت کے ساتھ جو اس تحریک، اس انقلاب اور امام (خمینی) نے اس کو عطا کی ہے اس بات پر تیار نہیں ہے کہ بڑی طاقتوں کے تسلط کے سامنے جھک جائے اور جو وہ کہیں اس کو سن لے اور امریکیوں کو یہ بات پسند نہیں ہے۔ دنیا کے سامراجی لیڈران اور ان میں سرفہرست اور سب سے بڑھکر امریکا کو حکومتوں اور اقوام کا جھکنا پسند ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومتیں اور اقوام ان کے سامنے جھکی رہیں۔ جو وہ کہیں اسے سنیں۔ دیکھیں، دنیا میں ان کی حالت پر نگاہ ڈالیں۔ جب ایک قوم نے مزاحمت کی تو یہ انہیں قبول نہیں ہے۔ کہتے ہیں تم کون ہو؟ تم ایک ملک ہم بھی ایک ملک۔ تم ایک حکومت ہم بھی ایک حکومت۔ تم ایسی حکومت کے ارکان ہو جو دولتمند ہے، پیسے والی ہے، تم نے سائنسی ترقی کی ہے۔ ہم بھی ایسی قوم کے رکن ہیں کہ ہماری استعداد درخشاں ہے، ہمارا ماضی درخشاں ہے۔ ہمارے پاس وسائل ہیں، ہمارے پاس زمینی ذخائر ہیں۔ تم ایک، ہم بھی ایک۔ جب کوئی قوم اس خودمختاری کے ساتھ، توانائی اور طاقت کے اس احساس کے ساتھ میدان میں آتی ہے اور کوئی حکومت انہیں سپر طاقت کی حیثیت سے نہیں دیکھتی ہے تو انہیں برداشت نہیں ہوتا۔ یہ سامراجی لیڈروں کی فطرت ہے۔ وہ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ یہ فکر قوم میں کہاں سے آئی؟ جس نے قوم کو یہ فکر دی ہے اس سے گہری دشمنی ہوتی ہے۔ جس طرح کہ امام (خمینی ) سے اپنے وجود کی گہرائیوں سے دشمنی کی ہے۔
امریکی تا ابد امام (خمینی ) سے آشتی نہیں کریں گے۔ البتہ ہم جو امریکی کہتے ہیں تو ہماری مراد امریکی قوم نہیں بلکہ امریکی حکومت اور امریکا کی پالیسیاں وضع والے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی فکر اور کوئی تہذیب ایسی ہے جس نے اس طرح لوگوں کو باقی رکھا تو اس فکر اور تہذیب سے وہ ہرگز آشتی نہیں کرتے۔ جس طرح کہ یہ لوگ اسلام سے، اسلامی فکر سے اور اسلامی تہذیب سے سخت متنفر ہیں۔ لڑائی، مخالفت اور عناد کی وجوہات یہ ہیں۔ اب کچھ لوگ یہاں وہاں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں اور طنز کرتے ہیں۔ کاغذ سیاہ کرتے رہتے ہیں کہ امریکیوں سے مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟ کب تک اس صورتحال کو باقی رکھنا چاہتے ہیں؟ کیا انہیں نہیں پتہ کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا وہ نہیں سمجھتے کہ اس مغرور، بے عقل اور بے بصیرت دشمن کی توقعات کیا ہیں؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ امریکا سے مذاکرات اور روابط شروع کرتے ہی ساری مشکلات دور ہو جائیں گی؟ نہیں جناب ایسا نہیں ہے۔ جی ہاں امریکی سرکاری بیانات میں کہتے ہیں اور اظہار کرتے ہیں کہ ہم ایرانیوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ مذاکرات کس لئے؟ معلوم ہے۔ مذاکرات اس لئے کہ حکومت ایران پر دباؤ ڈالنے کا کوئی راستہ ملے۔ اس لئے مذاکرات چاہتے ہیں۔ کیسے مذاکرات؟ ہمیں تم سے کوئی کام ہی نہیں ہے۔ ہمیں تمھاری کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہمیں تم سے کوئی خوف نہیں ہے۔ تم سے کوئی الفت نہیں ہے۔ تم وہی ہو جس نے دن دہاڑے، ساری دنیا کی آنکھوں کے سامنے، ہمارے مسافر بردار طیارے کو جھوٹے اور بے بنیاد بہانے سے مار گرایا، دسیوں انسانوں کو قتل کر دیا اور معافی بھی نہیں مانگی۔ یہ کیسی حکومت ہے؟ یہ کیسا نظام ہے؟ یہ کون سی تہذیب ہے؟ ایسی حکومت کی طرف سے کسی کا دل کیسے صاف ہو سکتا ہے؟ ہمیں ان سے کوئی کام نہیں ہے۔ ہمارے اور امریکا کے درمیان محبت و مہربانی اور دوستی کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ نفرت کا رابطہ ہماری طرف سے ہے اور خباثت آمیز دشمنی کا رابطہ ان کی طرف سے ہے۔
یہاں ایک اور بنیادی نکتہ موجود ہے جس پر توجہ ضروری ہے۔
میں نے اب تک جو کچھ کہا وہ ایران اور ایرانی قوم کے ساتھ امریکا کے سابقہ رویئے سے مربوط ہے مگر سارا مسئلہ یہی نہیں ہے۔ ہم مسلمانوں کی فکر کا ایک اصول ہے اور وہ اصول دنیا میں ہر جگہ ظلم اور ظالم سے نفرت اور اس سے مقابلے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ امریکیوں نے کس قدر ظلم کیا ہے۔ کس قدر ظالموں کی تربیت کی ہے۔ کس قدر اقوام پر مظالم کئے ہیں۔ فلسطینی عوام کے ساتھ کیا کیا ہے؟! کس طرح اسرائیل کی تقویت کی ہے؟! لبنانیوں کے ساتھ کیا کیا ہے؟! مسلمانوں کے ساتھ خود اپنے ملک میں اور دنیا میں ہر جگہ جہاں بھی کر سکے انہوں نے کیا کیا ہے؟! کمزور اقوام کے ساتھ کیا کیا ہے؟! کیا ان سب سے چشم پوشی کی جاسکتی ہے؟ معاملہ یہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے۔ سامراج کے خلاف جدوجہد اور سامراج کے خلاف جدوجہد کے دن کا جس کو ایک امریکا مخالف مناسبت نے تشکیل دیا ہے، اصول اور بنیاد یہ ہے جو عرض کی گئی۔ یہ سلسلہ جاری ہے۔ جب تک اسلامی جمہوریہ صحیح راستے پر گامزن ہے اور جب تک قرآنی، اسلامی اور الہی اصول ہم پر اور ہمارے نظام پر حکمفرما ہیں، عالمی سامراج اور اس میں سرفہرست امریکا کے سربراہوں سے یہ نفرت اور مقابلہ پوری قوت سے جاری رہے گا۔
اگر وہ اپنا رویہ تبدیل کر دیں تو یہ روش بھی بدل جائے گی۔ البتہ ہمیں اس کی امید نہیں ہے۔ بعید ہے کہ ایسا ہو۔ یہ پہلی بات۔
دوسری بات چند جملوں میں اختصار کے ساتھ عرض کروں گا۔ میرے عزیز و' نوجوانو' اس قوم کے لئے ایک اسلامی نظام، اسلامی تہذیب اور نئی تاریخ کی بنیاد، سنجیدہ مسئلہ ہے۔ اس سلسلے میں سنجیدگی سے کام لیں۔ اگر کسی ملک میں بغاوت ہو اور کوئی نظام برسراقتدار آئے تو وہ نظام چند روز رہتا ہے پھر چلا جاتا ہے۔ یا کوئی اور اس سے حکومت لے لیتا ہے اور سب کچھ پہلی حالت پر واپس چلا جاتا ہے۔ ایک وقت مسئلہ اس طرح ہوتا ہے اس کے لئے اتنی باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ایران میں جو ہوا وہ ایک عظیم عالمی تحریک ہے۔ البتہ ہم ایک قوم ہیں اور ہماری سرحدیں بھی معین ہیں۔ ان سرحدوں سے باہر سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس نکتے پر توجہ رکھئے۔ ہماری کوششیں اور سرگرمیاں اپنی سرحدوں کے اندر ہیں۔ مگر یہ انقلاب ان سرحدوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ پیغام یہ ایک عالمی پیغام ہے۔ اس کی دلیل کیا ہے؟ دلیل یہ ہے کہ جب ایرانی قوم اور ہمارے عظیم رہبر محترم امام ( خمینی ) نے یہ کام کیا تو دنیا میں جہاں بھی مسلمان تھے انہوں نے احساس کیا کہ یہ ان کے لئے عید کا دن ہے۔ ان کے نئے دن کا آغاز ہے۔ اس کے باوجود کہ ان سے رابطہ نہیں تھا۔ دنیا میں ہر جگہ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی تاریخ کا نیا دور شروع ہوا ہے۔ اس کو ہم نے نزدیک سے دیکھا ہے۔ خود میں نے اس حقیقت کو گذشتہ برسوں کے دوران، دوسرے ملکوں میں نزدیک سے دیکھا ہے اور دسیوں لوگوں کی زبانوں سے سنا ہے۔ یہ کوئی روایت، گمان اور تجزیہ نہیں ہے، عین حقیقت ہے۔ جب یہ انقلاب کامیاب ہوا، جب امام (خمینی) منظر عام پر آئے، جب پرچم اسلام اور پرچم لاالہ الا اللہ سربلند ہوا تو ہر ایک، ہر مسلمان نے دنیا میں جہاں بھی تھا، محسوس کیا کہ وہ کامبیاب ہو گیا ہے۔ دنیا کے ایک ارب کے اس خیل عظیم میں سے بعض نے یہ احساس باقی رکھا، اس پر عمل کیا، جدوجہد کی اور پھر مختلف ملکوں میں اسلامی تحریکیں شروع ہو گئيں۔ اگرچہ ہم اپنی سرحدوں کے اندر ہیں اور سرحدوں کے باہر کچھ نہیں کر رہے ہیں لیکن یہ پیغام عالمی اور بین الاقوامی ہے۔ آج یہاں اس کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ہے۔ اب تک ایرانی قوم نے اپنا کام بہت اچھی طرح انجام دیا ہے۔ وہ جنگ تھی اور یہ جنگ کے بعد سے اب تک کا زمانہ ہے۔ یہ یونیورسٹیوں کا ماحول ہے۔ یہ ہماری اقتصادی اور تعمیری سرگرمیوں کا میدان ہے۔ یہ ہماری حکومت ہے۔ یہ ہماری قوم ہے اور یہ میدان عمل میں اس کی موجودگی ہے۔ ہر جگہ ایرانی قوم نے اپنی شایان شان موجودگی کا ثبوت دیا ہے۔ البتہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں، باتیں کرتے ہیں کہ تعمیرنو کا منصوبہ ناکام ہو گیا، پروگرام فیل گیا، پالیسیاں غلط ثابت ہوئیں۔ یہ دشمن کی باتیں ہیں۔ اس پر کان نہ دھریں۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایرانی قوم نے تمام میدانوں میں پیشرفت کی ہے۔ رکاوٹیں ہٹائی ہیں، قدم بڑھایا ہے، آگے بڑھی ہے۔ علم اور سائنس کے میدان میں بھی اور دین کے میدان میں بھی، دین میں بھی، اقتصاد میں بھی، مسلح افواج کے شعبے میں بھی، ہر شعبے میں اس نے ترقی کی ہے۔ البتہ ممکن ہے کہ جتنی ہمیں توقع تھی اتنی ترقی نہ ہوئی ہو لیکن جو دوسرے سوچ رہے تھے اس سے بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے۔ مستقبل بھی روشن ہے۔ اسلام کی برکت سے اس انقلاب، اس نظام اور اس ملک کا مستقبل بہت روشن اور درخشاں ہے۔ جنہیں یہ مستقبل سنوارنا ہے وہ آپ نوجوان ہیں۔ پہلے عمل سے اپنے اندر اسلامی ایمان کو گہرا کریں کیونکہ بنیاد یہی ہے۔ ایمان کوئی کتابی اور ذہنی بات نہیں ہے۔ ایمان کی تقویت عمل سے ہوتی ہے۔ انسان خدا کو راہ خدا میں مجاہدت کے میدان میں زیادہ اچھی دیکھتا ہے۔ اس مجاہدت کے مورچے بھی مختلف ہیں۔ ان میں سے ایک علم و تعمیر کا مورچہ ہے۔ البتہ خدا کے حضور خلوص، تقوا، عبادات اور حرام کاموں سے پرہیز کے بعد۔ لہذا پہلے ایمان ہے۔
دوسرے اپنے اندر سیاسی آگاہی کی تقویت کریں تاکہ دشمن کے پروپیگنڈوں سے فریب نہ کھائیں۔ یہ بھی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مخصوصا آپ نوجوانوں کو، جو حصول علم میں مشغول ہیں، اس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ قوم کی اجتماعیت اور وحدت کو اہمیت دیں۔ خیال رکھیں کہ کہیں مخصوص صنف کے افکار، جماعتی احساسات، گروہی جذبات اور ذاتی اور پارٹی کے خیالات، آپ کو متاثر نہ کریں۔ یہ شیطان کا کام ہے اور بڑا شیطان اس کام سے بہت خوش ہوتا ہے۔ توجہ رکھیں کہ اگر آج کوئی -اب یہ کوئی جو بھی ہو-- اتفاق سے مخالفت کی بات کرے، چہ جائیکہ عمدا یہ بات کرے، تو کل عالمی لاؤڈ اسپیکر اس کو پوری دنیا میں نشر کر دیں گے۔ کیوں؟ کیونکہ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ یہ بات کس نے کہی ہے۔ ان کے لئے اس ملک میں مخالفت کی بات اہم ہے۔ بنابریں وحدت کلمہ کی حفاظت کریں۔ حضرت امام (خمینی) کی یاد، پیشروان انقلاب کی یاد، شہدائے عظیم الشان کی یاد، انقلاب اور مسلط کردہ جنگ کے پرجوش مناظر کی یاد، یونیورسٹی میں بھی، دینی تعلیم کے مراکز میں بھی، اپنے کام کرنے اور رہنے کی جگہوں پر بھی، ہر جگہ زندہ رکھیں۔ اگر یہ ہوا تو پرودگار کے فضل سے آئندہ برسوں میں اور آئندہ دسیوں سال میں، یہاں اور بہت سی دوسری جگہوں پر تہذیب کی اتنی اونچی عمارت کھڑی ہوگی اور اسلام اور مسلمین کی عظمت اتنی زیادہ آشکار ہوگی کہ سامراج کی کوئی حقیقت نہیں رہ جائے گی اور استکبار کا وجود باقی نہیں رہے گا۔
میری دعا ہے کہ خداوند عالم آپ کو کامیابی عطا کرے اور امام زمانہ، حضرت بقیت اللہ الاعظم ارواحنا فداہ کی دعائیں آپ کے شامل حال ہوں اور حضرت امام (خمینی) نیز شہدائے عظیم الشان کی ارواح آپ سے راضی ہوں۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ