یہ تینوں خصوصیات حضرت امام خمینی میں موجود تھیں۔ بنابریں حق ہے کہ یہ کہا جائے کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے لئے قران کریم کہتا ہے اولئک لھم الدرجات العلی یہ بلندی درجات جو آج آپ پوری دنیا میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے لئے دیکھ رہے ہیں، ان تین خصوصیات کا نتیجہ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین و الصلوات و السلام علی سیدنا و نبینا محمد و علی آلہ الاطیبین المنتجبین الھدات المھدیین المعصومین، سیما بقیۃ اللہ فی الارضین
قال اللہ الحکیم فی کتابہ بسم اللہ الرحمن الرحیم و من یاتہ مومنا قد عمل الصالحات فاولئک لھم الدرجات العلی، جنات عدن تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا و ذالک جزاء من تزکی۔

امام (خمینی رحمت اللہ علیہ ) کی پانچویں برسی پر میں، دنیا کے تمام باخبر اور حق پسند مسلمانوں بالخصوص عزیز اور عظیم الشان ایرانی قوم کو تعزیت پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح ان تمام لوگوں کو بھی تعزیت پیش کرتا ہوں جنہوں نے ان پانچ برسوں کے دوران راہ امام (خمینی) کو اپنی زندگی کے واضح راستے کے عنوان سے منتخب کیا اور اس پر فخر و مباہات کیا اور آپ سے عقیدت رکھنے والوں، آپ کے شاگردوں اور آپ کے سچے پیروکاروں کو بھی کہ جن کی تعداد ہماری قوم اور دیگر اقوام میں کم نہیں ہے، تہہ دل سے تعزیت پیش کرتا ہوں۔ ضروری سمجھتا ہوں کہ امام (خمینی ) رحمت اللہ علیہ کے خاندان والوں کو کہ جنہوں نے آپ کی پر برکت زندگی کے آخری برسوں میں، اس عظیم انسان کی خدمت کی عظیم اور سنگین ذمہ داری بنحو احسن پوری کی، بالخصوص آپ کے فرزند ارجمند جناب الحاج سید احمد کو تعزیت پیش کروں۔
آج اس عظیم جلسے میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ کی یاد کی مناسبت سے مطالعے، فکر اور تحقیق کے بنیادی موضوعات کے عنوان سے چند باتیں عرض کروں گا۔ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی شخصیت سے گفتگو کا آغاز کرتا ہوں۔ اگرچہ امام خمینی رحمت اللہ کے بارے میں خطیبوں نے بہت کچھ کہا ہے، لکھنے والوں نے لکھا ہے اور شاعروں نے آپ کی توصیف کی ہے لیکن آج میں نے اپنے ذہن میں سورہ طہ کی ان دو آیتوں کے مضمون کو جن کی تلاوت کی گئی، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی شخصیت سے مطابقت دی۔
حضرت امام خمینی رحمت اللہ میں تین نمایاں خصوصیات پائی جاتی تھیں اور انہیں تین خصوصیات کا ان دونوں آیتوں میں ذکر کیا گیا ہے۔ پہلی آیت میں خداوند عالم فرماتا ہے و من یاتہ مومنا قد عمل الصالحات ایمان پہلی خصوصیت اور عمل صالح دوسری خصوصیت ہے۔ دوسری آیت کے اختتام پر تیسری خصوصیت و ذالک جزاء من تزکی کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے جو تہذیب و تزکیہ نفس کی خصوصیت ہے۔ قران کریم نے ان لوگوں کے لئے جو ان خصوصیات کے مالک ہوں، اعلا درجات کا وعدہ کیا ہے۔ فاولئک لھم الدرجات العلی
یہ تین خصوصیات حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ میں نمایاں تھیں۔ آپ کا ایمان مثالی اور استثنائی تھا۔ آپ کا عمل صالح ایسا تھا کہ صدر اسلام کے بعد سے آج تک کسی نے انجام نہیں دیا۔ یعنی اسلامی نظام کی تشکیل جس کے بارے میں آج میں اختصار کے ساتھ کچھ باتیں بیان کروں گا۔ آپ کا تزکیہ نفس ایسا تھا کہ آپ نے شہرت، طاقت اور مقبولیت کے عروج کے زمانے میں، اپنے لئے اوج عبودیت کا انتخاب کیا اور ہر گذرنے والے دن کے ساتھ خداوند عالم سے آپ کا توسل، تقرب اور اس کے حضور گریہ و زاری بڑھتا ہی رہا۔
یہ تینوں خصوصیات حضرت امام خمینی میں موجود تھیں۔ بنابریں حق ہے کہ یہ کہا جائے کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے لئے قران کریم کہتا ہے اولئک لھم الدرجات العلی یہ بلندی درجات جو آج آپ پوری دنیا میں حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے لئے دیکھ رہے ہیں، ان تین خصوصیات کا نتیجہ ہے۔ جہاں انصاف ہے امام (خمینی) وہاں عظیم ہیں، جہاں انصاف پسندی ہے وہاں زیباترین شخصیت آپ کی ہے۔ جہاں ہمارے عظیم امام خمینی سے خلوص نہیں ہے وہاں انصاف نہیں ہے، حق پسندی نہیں ہے، بلکہ دنیا پرستی اور برائی ہے۔ یہ تین خصوصیات حضرت امام خمینی سے تعلق رکھتی ہیں اور آج ہماری گفتگو کا محور بھی ہمارے عظیم امام (خمینی) ہیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا عمل صالح ان تین خصوصیات میں سے ایک ہے۔ حضرت امام (خمینی) کا عمل صالح حکومت اسلام اور اسلامی نظام کی بنیاد رکھنا تھا۔ عزیز بھائیو اور بہنو' توجہ فرمائیں تاکہ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے عمل صالح کی اہمیت اور عظمت آپ کے اذہان میں اچھی طرح مجسم ہو سکے۔ ہمارے عظیم امام (خمینی) نے اسلامی نظام تشکیل دیا۔ اسلامی نظام کہ جس پر ایک اسلامی حکومت، سیاسی نظام اور اس کے بعد ایک اسلامی منصوبہ اور پروگرام استوار ہے، تینوں پہلوؤں سے قابل توجہ اور قابل فکر ہے۔
وہ اسلامی نظام جو امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس ملک میں تشکیل دیا اور وجود میں لائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قوم کی زندگی کا پیکر اور مفہوم اسلامی ہو، اس کی جہتیں اسلامی ہوں۔ اس اسلامی نظام کی ایک بنیادی شق خدا اور غیبت پر ایمان ہے اور اس کا پیکر اور صورت شریعت اسلامی ہے۔ ایمان کی بنیاد پر استوار اور اسلامی شریعت اور اصول و ضوابط سے منطبق یہ نظام، ایک خاص استثنائی اور مادی انسان کے لئے نا شناختہ مگر مسلمانوں کے لئے جو اسلام اور قرآن سے واقف ہیں، ایک آشنا نظام ہے۔ صدر اسلام کے علاوہ تاریخ میں یہ نظام کبھی نہیں رہا اور آج بھی ایران اسلامی کے علاوہ دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔
البتہ کسی کو یہ امید نہیں تھی کہ اس دور میں اسلامی نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔ کوئی تصور بھی نہیں کرتا تھا کہ ان تمام مخالفتوں اور دشمنیوں کے باوجود کوئی اس سمت بڑھنے کی جرائت کرے گا یا اس کام کی اس کے اندر توانائی ہوگی۔ مگر امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے یہ ناممکن کام اپنے ایمان کی قوت، ارادے، عزم محکم اور دسیوں لاکھ شیدائیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے انجام دیا۔ اس نظام کا نمایاں اور اہم بازو، سیاسی نظام یعنی نظام حکومت ہے اور ہر نظام کا پہلا حصہ یہی سیاسی حصہ ہوتا ہے۔ اسی سے نظاموں، مکاتب اور اہداف کو پہچانا جا سکتا ہے۔
ہمارے عظیم امام (خمینی ) نے ایسی حکومت تشکیل دی جو آج کی دنیا میں بے نظیر ہے اور جس کی صدر اسلام کے علاوہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس حکومت کا مقصد مثالی اسلامی معاشرے کی تشکیل ہے جس کے بارے میں منصوبے کے حصے میں کچھ باتیں عرض کروں گا۔ اس حکومت کی خصوصیات یہ ہیں کہ امام (خمینی) نے جو نظام قائم کیا ہے اس میں سیاسی مشینری کے اراکین صلاحیتوں کے مالک ہیں، صالح انسان ہیں، مومن انسان ہیں، پرہیزگار متقی اور پاکدامن انسان ہیں۔ آپ اس کا ان حکومتوں سے موازنہ کریں جو بشریت کی قیادت کی دعویدار ہیں اور دیکھیں کہ کتنا فرق ہے؟!
امام ( خمینی ) نے جو اسلامی نظام قائم کیا وہ صاف ستھرا سیاسی نظام ہے جو ایسے باصلاحیت لوگوں پر مشتمل ہے جو دنیا پرست نہیں ہیں اور اپنے لئے کچھ بھی نہیں چاہتے۔ ان کا ہدف اسلام اور الہی احکام ہیں اور ان سب سے بڑھ کر ان کا ہدف رضائے خدا ہے۔ اس کا مکمل نمونہ خود آپ کی شخصیت ہے۔ پروردگار کے فضل سے اس نظام کے عہدیداروں نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ان پرتلاطم برسوں میں ثابت کر دیا کہ سب میں اسی منور چہرے کی علامت ہے حتی بعض تو ایسے ہیں کہ جن کی توصیف ممکن نہیں ہے۔
یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ صدر مملکت، عدلیہ کے سربراہ، مقننہ کے سربراہ، فوجی کمانڈروں اور میدان جنگ کے کمانڈروں کے لئے ذاتی ضروریات اور نفسانی خواہشات کی کوئی اہمیت و وقعت نہیں ہیں، کم نظیر بلکہ بے نظیر ہے۔ اس کے علاوہ اس سیاسی نظام کی ایک خصوصیت اس کی سیاسی خود مختاری ہے۔ اس نظام کے عہدیدار کسی کے دباؤ میں نہیں ہیں۔ کسی طاقت سے نہیں ڈرتے۔ عالمی طاقتوں کے فرمان کو جو دولت و طاقت کے تمام وسائل رکھتی ہیں، کچھ نہیں سمجھتے۔ یہ بھی ایسی چیز ہے جو دنیا میں کمیاب ہے۔
اسلامی جمہوری نظام میں معاملہ یہی ہے، سبھی پروردگار کے فضل سے اسی طرح کے ہیں۔ اس کا بھی اعلاترین نمونہ خود امام (خمینی) کی ذات گرامی تھی اور (نظام کے ارکان میں سے ) ہر ایک میں اس حقیقت کا ایک حصہ پایا جاتا ہے۔ یہ حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے قائم کردہ اسلامی نظام کی سیاسی مشینری کا نظام ہے۔
تیسرا نقطہ، منصوبہ سے متعلق ہے۔ دنیا کے مصلحین، حکومتوں اور پیغام لانے والوں نے جو منصوبے پیش کئے ہیں ان کے درمیان اسلامی نظام کا منصوبہ منفرد ہے۔ اس منصوبے میں دنیا و آخرت کی تعمیر ایک ساتھ ہے۔ اسلامی نظام چاہتا ہے کہ لوگوں کی دنیا سنوارے لیکن اسی پر اکتفا کرنا نہیں چاہتا۔ اسلامی نظام اور اس نظام کے منصوبے میں دنیا و آخرت ایک ساتھ ہیں۔ انسانوں کو کامیابی اور رفاہ میں زندگی گذارنی چاہئے لیکن یہ رفاہ و آسائش اور ہر وہ چیز جو یہ رفاہ و آسائش فراہم کرے، اس سب کو رضائے خدا کے حصول کی تمہید ہونا چاہئے۔ یہ سب مقدمات ہیں اور ہدف رضائے پروردگار کا حصول ہے۔ یہ عصر حاضر بلکہ انبیاء ان کے جانشینوں اور اوصیاء کی حکومتوں کو چھوڑ کر تاریخ میں منفرد ہے۔ سب دعوی کرتے ہیں کہ لوگوں کی دنیا کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں اور اکثر نہیں کر پاتے لیکن اسلامی نظام دین اور دنیا دونوں سنوارنا چاہتا اور کرسکتا ہے۔ اسلام نے اس توانائی کو دکھا دیا ہے۔
اگر باانصاف آنکھیں ملک کی آج کی حالت پر نظر ڈالیں تو اس بات کی تصدیق کریں گی۔ آج یہ قوم، یہ حکومت اور یہ ملک جس پر آٹھ سال تک جنگ مسلط کی گئی، اس کے کارخانوں کو برباد کر دیا گیا، سڑکیں تباہ کر دی گئیں، اس کا اقتصادی محاصرہ کیا گیا، اس کے وسائل چھین لئے گئے، کسی بھی حکومت نے اس کی کوئی مدد نہیں کی اور اندر سے بھی سیاسی اور تشہیراتی مہم کے ذریعے اس پر انواع و اقسام کے دباؤ ڈالے گئے، تعمیرنو کے منصوبوں اور بالخصوص بنیادی کاموں کو اس طرح آگے بڑھا رہا ہے کہ دیکھنے والے عش عش کرتے ہیں۔ جو لوگ آتے ہیں دیکھتے ہیں وہ منصوبوں کی بھی تعریف کرتے ہیں اور ان پر عمل کرنے والوں کی بھی تعریف کرتے ہیں۔ اگر دشمن کا دباؤ نہ ہوتا، اگر دشمن کے چڑھائے ہوئے خائن عناصر نہ ہوتے، اگرہماری سرحدوں کے اس پار دشمن کی سیاسی، اقتصادی اور تشہیراتی سرگرمیاں نہ ہوتیں تو ہماری حالت اس سے کہیں بہتر ہوتی اور آج اقتصادی لحاظ سے ملک کو جن مشکلات کا سامنا ہے وہ نہ ہوتیں۔
اسلامی منصوبہ، دنیا و آخرت بنانے کا منصوبہ ہے۔ دوسرے منصوبوں کو دین اور آخرت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اسلامی منصوبہ تربیت کرتا ہے اور پاک بناتا ہے۔ آج ہمارے ملک میں خاص طور پر نوجوانوں میں، قرآن کی تعلیم، دین کے حصول اور اسلامی احکام پر عمل کی ایک ہمہ گیر تحریک کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ اہل دنیا کی چیز نہیں ہے۔ اہل دنیا اقوام کی دنیا سدھارنے کا دعوی کرتے ہیں مگر نہیں کر سکتے۔ اسلام دنیا و آخرت دونوں کو پیش نظر رکھتا ہے اور پروردگار کے فضل سے کر سکتا ہے۔ اسلام کے نتیجے میں اس قوم کا ایمان، صبر اور معلومات تمام اقوام میں مثالی ہیں۔ ان تمام باتوں کو ایک جگہ رکھیں تو یہ اس عظیم ہستی اور پروردگار کے اس عبد صالح کا عمل صالح نظر آتا ہے۔
دنیا کے سیاسی تمرکز کی حالت اور عالمی طاقت کی مرکزیت اس بات کی متقاضی ہے کہ تمام اقوام اور حکومتیں مرکزی طاقت کی اسیر اور پیروکار رہیں اور یہ آج امریکا اور اس کے حلقہ بگوش ہیں۔ بہت سے نظام اس راہ میں شکست کھا گئے اور ڈوب گئے لیکن اسلامی جمہوریہ، اسی استقامت کی برکت سے فلسطین کے مسئلے میں اتنی محکم بات کرتی ہے کہ دوسرے اس کو سننے کی بھی جرائت نہیں رکھتے۔ وہ ٹھوس بات جس پر ایران کی قوم اور حکومت متفق ہے یہ ہے کہ فلسطین، فلسطینی قوم کا ہے اور صیہونی حکومت، غاصب حکومت ہے یہ حکومت اور نظام قانونی نہیں ہے بہت سے حتی اس بات کو کہنے والے سے سننے کی بھی جرائت نہیں رکھتے۔ بنابریں فلسطین کے بارے میں جو مذاکرات ہو رہے ہیں وہ بیکار کی باتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں اور ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے کیونکہ حق اور اصول کے خلاف قبول کیا گیا ہے۔
بالکل یہی نظریہ دنیا کے تمام دیگر مسائل میں بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اور قوم کا ہے۔ بالکان کے مسلمانوں کے مسئلے میں ہمارا نظریہ ہے کہ بالکان کے مسلمانوں پر دباؤ اس لئے ہے کہ مغرب والے نہیں چاہتے کہ یورپ میں کوئی مسلمان قوم اور حکومت ہو۔ اسلام سے خوف ہے۔ دنیا پر مسلط طاقتوں نے بوسنیاو ہرزے گووینا کے مسلمانوں کی جو حمایت نہیں کی ہے وہ ایک منصوبے کے تحت ہے۔ وہ اچھی طرح جانتی ہیں کیا کر رہی ہیں۔ منصوبے کے ساتھ سربوں کی حمایت کر رہی ہیں۔ منصوبے کے تحت انہوں نے مسلمانوں تک اسلحے اور جنگی وسائل پہنچنے کی روک تھام کی ہے۔
یہ ہماری حکومت اور قوم کا نظریہ ہے جس کا مطلب بوسنیا و ہرزے گووینا اور بالکان کے مسائل میں مسلط طاقتوں کی مذمت ہے۔ وسطی ایشیا کے تازہ آزاد ہونے والے مسلمانوں، کشمیر کے مسلمانوں، آذربائیجان کے مسلمانوں اور ایشیا، مشرق وسطی اور افریقا کے مسلمانوں کے بارے میں اس حکومت اور قوم کا نظریہ یہ ہے کہ ان سب کا حق ہے کہ اسلامی طرز پر زندگی گذارنے کا مطالبہ کریں۔ اپنی زندگی میں اسلامی شریعت کے احکام کو نافذ کریں اور کسی کو انہیں روکنے کا حق نہیں ہے۔ مغربی طاقتیں یہ بہانہ کرکے کہ اسلامی شریعت کے احکام کا نفاذ بنیاد پرستی ہے، ان میں سے بعض ملکوں میں آزاد انتخابات بھی نہیں ہونے دیتیں۔ ہمارا نظریہ ہے کہ مسلم اقوام کے امور میں یہ مداخلت ظالمانہ اور ناحق ہے۔ مسلمانوں کو حق ہے کہ اسلامی طرز پر زندگی گذاریں اور انہیں اس کا موقع ملنا چاہئے۔ ایران کی حکومت اور قوم لبنان پر صیہونی حکومت کی جارحیت کی مذمت کرتی ہے۔ صیہونیوں کے خلاف جدوجہد کو ضروری سمجھتی ہے اور اس کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو باطل سمجھتی ہے۔ یہ اسلامی نظام اور حکومت کا مستقل اور آزاد موقف ہے اور یہی بات اس کا باعث ہے کہ طاقت کا بین الاقوامی مرکز اسلامی جمہوری نظام پر الزام تراشی کرتا ہے۔ ہمارے اوپر جو الزامات لگائے جاتے ہیں اور الزامات کے تحت جو باتیں کہی جاتی ہیں ان کا سبب یہ ہے۔ اسلامی جمہوریہ پر بنیاد پرستی کا الزام لگاتے ہیں۔ بنیاد پرستی سے ان کی مراد تعصب اور قدامت پرستی ہے۔ یہ در حقیقت وہی ایران کی قوم اور حکومت کا نہ جھکنا ہے۔ چونکہ ہم عالمی طاقتوں کے غیر منصفانہ مطالبات ماننے پر تیار نہیں ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ قدامت پرست ہیں۔ جی نہیں، یہ ایک مسلمان قوم کی حق پرستی کے موقف کا مسئلہ ہے۔ یہ قدامت پسندی کی بات نہیں ہے۔ اگر بنیاد پرستی کا مطلب مسلمہ اصولوں کا احترام ہے تو اچھی بات ہے اور سب کو اس پر فخر ہے۔ لیکن اگر اس کا مطلب تعصب اور قدامت پرستی ہے تو جھوٹ ہے اور ایران کی حکومت اور قوم پر یہ بہتان ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران پر الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایران انسانی حقوق کی پابندی نہیں کرتا۔ ان کا مطلب وہی اسلامی حدود کا نفاذ ہے۔ چونکہ ہم اسلامی قوانین پرعمل کرتے ہیں ؛ قرآن فرماتا ہے تلک حدود اللہ ومن یتعد حدود اللہ جو بھی حدود خدا سے تجاوز کرے، اس کے لئے پروردگار کا انتباہ ہے۔
حدود اور قوانین الہی حدود و قوانین ہیں۔ ہم الہی حدود کو مغربی قانون دانوں کے ناقص اور قاصر اذہان کے پیش کردہ اصولوں پر جنہوں نے اپنے لئے کچھ اصول و ضوابط گڑھے ہیں اور ان کو دینی اصول و ضوابط سے پیشرفتہ قرار دیتے ہیں، مقدم سمجھتے ہیں۔ معاشرے کی اصلاح کی راہ الہی قوانین کا نفاذ ہے۔ ممکن ہے کہ اس راہ میں ہم سے کوتاہیاں ہوئی ہوں۔ مگر ہم پروردگار کے قوانین کے مکمل نفاذ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ حدود و قوانین قرانی حدود ہیں۔ یہ دوسرا نقطہ ہے۔
آخری نقطہ یہ ہے کہ ہمارا راستہ جو اس عظیم ہستی نے ہمارے لئے معین کیا ہے، استقامت اور اسلامی نظام کے اہداف کے حصول کا راستہ ہے۔ حضرت امام (خمینی) کی تعلیمات اور آپ کی وصیت کے مطابق اس قوم کا راستہ یہی ہے۔
پورے ملک میں ہمارے عزیز بھائی اور بہنیں توجہ دیں کہ ایرانی قوم کی خوش بختی کا راستہ اسلامی اور الہی احکام پر عمل ہے۔ ملت ایران کی خوش بختی کا راستہ اپنے آپ اور اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں پر بھروسہ ہے۔ اس قوم کی خوش بختی کا راستہ دنیا پر مسلط عالمی طاقتوں کو مایوس کرنا اور ان سے ڈرنا ہے۔ نہ ان سے معمولی سا بھی ڈریں اور نہ ہی ان سے معمولی سی بھی امید رکھیں۔
میرے عزیزو' اسلامی انقلاب نے اس قوم کو جو عظیم ترین تحفہ دیا ہے وہ یہ ہے کہ فاسد اور پٹھو حکومتوں کے شر سے، جو طویل برسوں تک اس ملک اس قوم اور اس الہی عطیے پر مسلط رہیں، ان کے شر سے اس ملک اور قوم کو نجات دلائی۔ آج پروردگار کے فضل سے ملک چلانے والے، خود عوام میں سے ہیں۔ آج اس قوم کی ہوشیاری اور کاوشوں کے نتیجے میں اس ملک میں بہترین عوامی حکومت ہے جو عوام کے ووٹوں سے آئی ہے۔ البتہ دشمن اپنے پروپیگنڈے میں اس کا انکار کرتا ہے اور کرنا بھی چاہئے۔ دشمن سے کیا امید ہو سکتی ہے؟ یہاں عوام اپنے اعتقادی اصولوں کے مطابق جو وہی اسلامی اصول ہیں، کچھ لوگوں کو امور مملکت چلانے کے لئے، کچھ لوگوں کو قانون سازی کے لئے اور کچھ لوگوں کو انتخابات کرانے کے لئے منتخب کرتے ہیں اور وہ بھی پوری آزادی اور اپنے ایمان پر بھروسے کے ساتھ۔ یہ بھی منفرد خصوصیت ہے۔ اگر آج دنیا کے معروف ملکوں میں جو ڈیموکریسی کے دعویدار ہیں، پارٹیوں کی لڑائیاں، جماعتی تعصب، اور گوناگوں سیاسی کشمکش، ووٹ دینے کا محرک ہوتی ہے تو ایران اسلامی میں، اس سربلند ملک میں ووٹ دینے کا محرک صرف ایمان اور اسلامی و الہی اقدار کی تشخیص ہے۔ اس کی اہمیت ہے، یہ بہت اہم ہے۔
مجھے دنیا میں کوئی ایسا ملک نظر نہیں آتا جس میں ایران کی طرح عوام اور حکام کے درمیان قلبی محبت و مہربانی کا رابطہ ہو۔ قوم حکام سے محبت کرتی ہے اور حکام قوم سے اپنے پورے وجود سے محبت کرتے ہیں اور خود کو اس کا خدمتکار سمجھتے ہیں۔ یہ قوم اور اس کے جذبات ہیں۔ دشمن کے پروپیگنڈے جو بھی کہیں۔ حضرت امام (خمینی) کی بابرکت زندگی کے آخری برسوں میں دشمن پروپیگنڈہ کرتے تھے کہ گویا امام کا بتایا ہوا راستہ عوام کی نظر میں متروک راستہ ہے لیکن عوام نے اس عظیم ہستی کے جنازے کو جس طرح رخصت کیا وہ آپ کی فاتحانہ تہران آمد کے موقع پر آپ کے استقبال سے بھی زیادہ باشکوہ تھا۔ یہ حکومت اور قوم کے درمیان محبت کا رابطہ ہے۔ یہ امام، یہ نظام، یہ سیاسی ڈھانچہ، یہ منصوبہ اور یہ قوم، یہ سب مختلف پہلوؤں سے دنیا میں منفرد اور مثالی ہے۔
آخری جملوں میں میں جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایرانی قوم اور ملک کے حکام پورے وجود سے ان خصوصیات کی حفاظت کریں۔ حکومت اور عوام راہ خدا اور راہ اسلام کی حفاظت کریں۔ ملک کے حکام عوام کو ایک لمحے کے لئے بھی فراموش نہ کریں۔ تعمیر نو کی عظیم تحریک میں کمزور طبقات پر توجہ رہے۔ پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی قانون سازی کرے، حکومت اس کا نفاذ کرے اور عدلیہ پوری طرح اس کے نفاذ پر نظر رکھے اور قوم بھی اس راہ پر جو راہ اسلام، راہ قرآن، راہ دین خدا، اور وہ راستہ ہے جو ہمارے عظیم امام (خمینی ) نے ہمارے لئے چھوڑا ہے، پوری قوت اور دلیری کے ساتھ گامزن رہے۔
میں ایک بار پھر اپنی عزیز قوم، حاضرین محترم اور عزیز مہمانوں کی خدمت میں اس غم انگیز برسی کی تعزیت پیش کرتا ہوں۔
آج یوم مباہلہ بھی ہے۔ یوم مباہلہ اور اس برسی کا ایک ساتھ آنا اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم خدا سے اس عظیم ہستی کے لئے زیادہ بلندی درجات طلب کریں۔ کیونکہ یہ دعا و توسل کا دن ہے۔ خدا پر توجہ، اس سے توسل اور تمسک کو جتنا ممکن ہو بڑھائیں۔ جو عزیز مہمان دیگر ممالک سے اور دوسرے شہروں سے تہران تشریف لائے ہیں، ان کی خدمت میں میں خصوصیت کے ساتھ تعزیت پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ سبھی اس مناسبت اور اس معنوی اجتماع سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہوں گے۔
پروردگار! تجھے واسطہ ہے محمد و آل محمد علیہم السلام کا امت اسلامیہ کے حالات بہتر بنا دے۔
پروردگار! عالم اسلام کے بارے میں امام (خمینی ) کی آرزو کو پورا کر، اس راہ میں ہمارے قدموں میں استحکام پیدا کر، ایرانی قوم کو اس کے اعلا اہداف تک پہنچا اور اس قوم کے دشمنوں کو مغلوب ذلیل و خوار فرما۔
پرودگار! عوام کے دلوں کو جس طرح آج تک ایک دوسرے کے لئے مہربان رہے ہیں، روز بروز زیادہ مہربان کر۔
پروردگار! عوام اور حکام کے دلوں کو ایک دوسرے کے لئے روز بروز زیادہ مہربان کر۔
پروردگار! ہمیں قرآن سے اور اپنے عظیم الشان پیغمبر کے اہلبیت علیہم الصلوات و السلام کے تمسک سے دور نہ فرما۔
پروردگار! حضرت امام زمانہ بقیت اللہ اور ولی اعظم ارواحنا فداہ کے قلب مقدس کو ہم سے راضی فرما۔
پروردگار! ہمیں آپ کی غیبت اور ظہور کے زمانے میں آپ کے پیروکاروں اور آپ کے مجاہدین اور ناصرین میں قرار دے۔
پروردگار! حضرت امام (خمینی ) کی روح مقدس کے درجات بلند فرما اور ملت ایران کے ہر فرد سے جو بھی نیکی انجام پائے، اس سے آپ کو مستفید فرما اور اس میں آپ کو شریک قرار دے۔ ہمیں اپنا خالص اور صالح بندہ قرار دے۔ ہم نے جو کچھ کہا جو سنا اور جو کیا اسے اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے اور اسے ہم سے قبول فرما۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ۔