قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلوات و السلام کے یوم ولادت باسعادت کی مبارک عید کی تمام مسلمین عالم، بالخصوص ایران کی عزیز اور عظیم قوم اور حاضرین اور محترم مہمانوں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت باسعادت، تمام مسلمانوں کے لئے تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے۔ بعد میں یہی ولادت باسعادت، انسانی تاریخ کی عظیم تحریک پر منتج ہوئی۔ جو بھی فضیلت ہے 'چاہے وہ بالواسطہ ہی کیوں نہ ہو، عظیم الشان پیغمبر اسلام کی بعثت اور آپ کے مکارم اخلاق کا نتیجہ ہے۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ دنیائے اسلام کی محبتوں اور مختلف فرقے کے مسلمانوں کے احساسات اور جذبات کو مرکوز کرنے کے لئے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مقدس ذات سے بہتر کوئی مرکز نہیں ہے۔ کیونکہ ہر مسلمان آپ کا شیدائی ہے اور آپ کی ذات گرامی تاریخ کے ہر دور میں امت اسلامیہ کا محور رہی ہے۔ بنابریں یہ ولادت باسعادت ہمارے لئے بہت اہم دن ہے۔
تاریخ اسلام نے شاہد ہے کہ پیغمبر کی رحلت کے تقریبا سو سال کے بعد آپ کے فرزند حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلوات و السلام امامت پر فائز ہوئے اور یہ اسلامی اہداف اور اسلامی تعلیمات کا طلوع نو ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران، خاص طور پر، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت باسعادت، آپ کی بعثت اور جو کچھ بھی اس سے مربوط ہے، اس کے لئے خاص اہتمام کا قائل ہے۔ کیوں؟ کیونکہ آج سطح عالم میں اور آسمان کے نیچے، دنیا کا واحد علاقہ ہے، جہاں سرکاری طور پر اسلامی احکام اور قرآن و سنت پیغمبر کی بنیاد پر قوانین اور اصول و ضوابط وضع کئے جاتے ہیں اور ان پر عمل ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں دنیا کا وہ اہم ترین علاقہ جہاں یہ عظیم کام ہو رہا ہے، اسلامی مملکت ایران ہے۔ یہاں اسلام کے نام پر حکومت قائم ہے اور یہ بات درحقیقت تمام مسلمین عالم کے کندھوں پر ایک ذمہ داری ڈالتی ہے۔ کیونکہ اگر اسلام کی بنیاد پر حکومت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام پر عمل ہوا ہے لیکن اگر اسلام افراد کے شخصی اعتقاد اور عمل کے معنی میں ہو اور معاشرے کی سطح پر نہ ہو، دین کی حکومت نہ ہو، تو ایسے معاشرے میں قرآن اور اسلام در حقیقت متروک ہے۔ قران کے سورہ فرقان میں اس بات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے و قال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھذا القران مھجورا پیغمبر اکرم پرودگار عالم سے عرض کرتے ہیں یا رب ان قومی اتخذوا ھذا القران مھجورا۔ ہجر قرآن کے معنی کیا ہیں؟ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کو، قران کے نام کو اور مسلمان ہونے کے نام کو بالکل ترک کر دیا ہے۔ یہ اتخاذ یعنی اختیار کرنا نہیں ہے۔ اتخذوا ھذا القران مھجورا کا مطلب یہ ہے کہ قرآن ان کے پاس ہے لیکن ہجر کے ساتھ قران ہے لیکن مہجور، یعنی متروک ہے، یعنی قران کی تلاوت تو ہوتی ہے، اس کا ظاہری احترام ہوتا ہے، مگر اس کے احکام پر عمل نہیں ہوتا۔ دین کے سیاست سے الگ ہونے کے بہانے حکومت، قرآن سے سلب کر لی گئی ہے۔ اگر یہ عالم ہے کہ اسلام اور قرآن حکومت نہ کریں تو پھر پیغمبر اکرم کی مجاہدت کس لئے تھی؟ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نظریہ ہوتا کہ حکومت، عوام کی زندگی اور معاشرے کے سیاسی اقتدار میں مداخلت نہ کی جائے، یہی کافی ہے کہ لوگوں کے عقائد اسلامی ہوں اور اپنے گھر میں وہ دینی اعمال انجام دیں تو پھر یقینی نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس مجاہدت کا حکم دیا جاتا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لڑائی، سیاسی اقتدار اور قرآن کے ذریعے حکومت قائم کرنے کے لئے تھی۔ ہجر قران کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا نام ہے مگر قران کی حاکمیت نہیں ہے۔ عالم اسلام میں جہاں بھی قرآن کی حکومت نہیں ہے وہاں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ فریاد کہ یا رب ان قومی اتخذوا ھذا القران مھجورا صادق آتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران میں یہ ہجران نہیں ہے۔ یہاں معاشرے کے امور اور احکام کے نفاذ میں محور قرآن ہے۔ یعنی معاشرے کے ہر ادارے کے ضوابط حقیقتا قرآن سے ماخوذ ہیں۔ صرف نام کے لئے نہیں۔ جو بھی قرآن کے خلاف ہو اس کو مسترد کر دیا جاتا ہے۔ حکومت اور سیاسی اقتدار قرانی اصولوں کے مطابق تشکیل پاتا ہے۔ معاشرے پر حکمفرما اقدار قرآنی ہیں۔ اسلامی معاشرے میں صرف ذمہ دار اور خدمت گزار انسان قابل قبول ہے۔ آج اگر ایرانی عوام اپنے ملک کے حکام سے محبت کرتے ہیں تو یہ ان کے قران پر عمل کرنے، ان کے اعتقاد، تدین اور دینداری کی وجہ سے ہے۔ یہ معاشرہ ایسا معاشرہ ہے کہ اس میں قران زندہ اور نافذ ہے۔ مہجور یعنی متروک نہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ ہے۔ لہذا دنیا کے ہر علاقے کا ہر مسلمان، قران اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا عاشق و شیدائی ہونے کی وجہ سے، اسلامی جمہوریہ ایران کی نسبت جو قران اور اسلام کا علمبردارہے، ذمہ داری کا احساس کرتا ہے۔ دنیا میں جو بھی قران اور اسلام کا مخالف ہے، وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی مخالفت، دشمنی اور عناد نمایاں طور پر ظاہر کرتا ہے۔ دنیا پر نظر ڈالیں، یہ مخالفت اور دشمنی ایک معیار کی شکل میں ہے۔ دنیا کے تمام دشمنان اسلام، اسلامی جمہوریہ ایران سے دشمنی، عناد اور بغض رکھتے ہیں۔ اسلام، اسلام کی حاکمیت اور اقوام کی جانب سے اس کی پابندی کی جتنی مخالفت ہے اتنی ہی اسلامی ایران سے دشمنی ہے۔ آپ اس ناکام دشمنی کو پوری دنیا میں دیکھ سکتے ہیں۔
سامراجی طاقتیں غلطی پر ہیں۔ اگر سمجھتی ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو بھی ہر حکومت کی طرح، انہیں معمولی حربوں سے، تشہیراتی محاصرے، سیاسی دباؤ، اقتصادی ناکہ بندی اور ایسے ہی دوسرے اقدامات سے جھکا لیں گی تو یہ ان کی غلطی ہے۔ یہاں اعتقاد کا مسئلہ ہے۔ دین کی پابندی کا مسئلہ ہے۔ عوام کے لئے یہ الہی فریضہ ہے کہ اس حکومت کا جو پرچمدار اسلام ہے، دفاع کریں۔ دنیا کے دوسرے مسلمانوں کا فریضہ بھی یہی ہے۔ بنابریں انقلاب کے آغاز سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کی جتنی ہو سکی مخالفت کی، دشمنی کی، مختلف سیاسی اور فوجی مہم تیار کی۔ ہمارے عظیم امام (خمینی ) رضوان اللہ تعالی علیہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ دشمنی ہم سے نہیں بلکہ اسلام اور قران سے ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر تمام مسلمین عالم کو توجہ دینی چاہئے۔ آج جو لوگ تشہیرات کے میدان میں، سیاسی لڑائی میں، مختلف قسم کی اقتصادی سرگرمیوں میں اسلامی جمہوریہ ایران سے بر سر پیکار ہیں، وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اسلام کی دشمنی کو ظاہر اور آشکار کر دیا ہے۔ ان لوگوں کی کوششیں پوشیدہ نہیں ہیں۔ البتہ ماضی میں اس طرح اسلام سے دشمنی نہیں دکھاتے تھے۔ مگر اسلامی تحریک کی پیشرفت نے انہیں باطن کو آ‎شکارا کرنے پر مجبور کر دیا۔ تازہ واقعہ جو امریکا اور اسرائیل کے ذریعے جو امریکی حکومت کے پالتو کتے کی طرح ہے، ارجنٹیئنا میں پیش آیا، اسی دشمنی کا ایک نمونہ ہے۔ البتہ اس طرح کی تشہیرات ہمارے لئے نئی اور اہم نہیں ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران، حضرت امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ کی حیات کے زمانے میں، اسلامی انقلاب آنے کے بعد دس برسوں کے دوران، مسلسل معاندانہ اور دشمنانہ پروپیگنڈوں سے دوچار رہا ہے۔ کوئی وقت ایسا یاد نہیں ہے کہ جب مختلف بہانوں سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اس قسم کے پروپیگنڈے نہ ہوں۔ اور سرانجام ہمیشہ اسلامی جمہوریہ ایران ہی سربلند اور کامیاب ہوا۔ اس بار بھی ارجنٹیئنا کے واقعے کے بارے میں جو پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، وہ بھی ایسا ہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو اس قسم کے پروپیگنڈوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ہماری حکومت اور ملک کو، دنیا کے زرخرید اخبارات، صیہونی ریڈیو اور لغویات بیان کرنے والے امریکی اور ان کے جیسے دیگرحکام کے تشہیراتی ہنگاموں سے کوئی نقصان پہنـچنے والا نہیں ہے۔ انہوں نے ہمارے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کیا ہے کہ ہمارے لئے یہ پروپیگنڈے بے اثر ہو گئے ہیں۔ یہ موضوع اس لحاظ سے اہم نہیں ہے۔ دنیا کے لوگ بھی ان پرپیگنڈوں پر یقین نہیں کرتے، سوائے تھوڑے سے سادہ لوح اور صرف ظاہر کو دیکھنے والے لوگوں کے۔ اس لحاظ سے ہمیں کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ سنا ہے کہ خود ارجنٹیئنا میں اس بات پر اور اپنی حکومت کی کمزوری پر لوگ ناراض ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ یہ معاملہ امریکا اور اسرائیل کا کیا دھرا ہے۔ سرانجام پوری دنیا کے لئے ثابت ہو گیا تو انہوں نے بے بنیاد اور مہمل پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ حتی ارجنٹیئنا کے عوام بھی اس کو سمجھ گئے۔ دنیا کے اکثر لوگ بھی اصولا جانتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ مسئلہ ہمارے لئے اہم نہیں ہے۔ مگر دوسرے لحاظ سے اہم ہے۔ اس لحاظ سے کہ پوری دنیا میں اسلام اور ایران اسلامی کے چاہنے والے، اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے پر امریکی حکومت اور سامراجی نظام کے بے انتہا اصرار سے واقف ہوں اور جان لیں کہ وہ اس قسم کے بے بنیاد بہانوں کا سہارا لیتے ہیں تاکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف پروپیگنڈہ کریں۔ مسئلہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ معلوم ہو جائے کہ اسلامی جمہوریہ اور وہ حکومت جو خدا کے فضل سے دنیا کے اس نقطے میں قران اور اسلام کی بنیاد قائم ہوئی ہے، امریکا کے سامراجی اہداف کے مقابلے میں کتنی محکم اور فیصلہ کن طاقت کی مالک ہے۔ یہ مسئلہ اس بات کو آشکارا کرتا ہے کہ سطح عالم پر اسلامی جمہوریہ کا وجود امریکا اور اسرائیل کے سامراجی اہداف کے مقابلے میں اتنی بڑی رکاوٹ ہے کہ انہیں جب کوئی دوسرا وسیلہ نہیں ملتا تو جو وسیلہ بھی چاہے کتنا ہی کمزور اور بے بنیاد کیوں نہ ہو، ملتا ہے اسی کا سہارا لیکر اسلامی جمہوریہ کے مقابلے پر آ جاتے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ پہلے یہ کہ ایک طرف تو ان کے تشہیراتی ایجنٹ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کمزور ہو رہی ہے۔ اگر کمزور ہو رہی ہے تو یہ نام نہاد عالمی طاقتیں اس سے اتنا خوفزدہ کیوں ہیں؟ دنیا میں اور عالمی رائے عامہ میں اسلامی جمہوریہ کے خلاف اتنا پروپیگنڈہ کیوں کرتی ہیں؟ حقیقت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ان کے پرپیگنڈوں کے برعکس، اسلامی دنیا اور عالم اسلام سے باہر کی رائے عامہ میں بہت نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ دوسرے یہ مسئلہ اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ایک خومختار حکومت، وہ حکومت جو سامراجی اہداف کے سامنے نہ جھکے، سامراجی منصوبوں کے لئے کتنی خطرناک ہے؟
مستکبرین عالم اور ان میں سرفہرست امریکا جو تیسری دنیا کے ترقی پذیر ملکوں سے چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ ان ملکوں کی حکومتیں پوری طرح امریکا کے سامنے جھکی رہیں۔ اگر کسی ملک میں ایسی حکومت ہے تو اس ملک میں چاہے جو بھی نقص اور عیب ہو وہ ان کے لئے قابل قبول ہے اور اس ملک میں انسانی حقوق کی پابندی نہ کئے جانے کی کوئی بات نہیں کرتے۔ چاہے اس ملک میں دکھانے کے لئے بھی کوئی پارلیمنٹ نہ ہو تب بھی یہ نہیں کہتے کہ یہاں ڈیموکریسی نہیں ہے۔ یہ نہیں کہتے کہ یہاں حکومت خاندانی ہے۔ یہ نہیں کہتے کہ یہاں انسانی حقوق نظر انداز اور پامال ہو رہے ہیں۔ ان کی نظر میں معیار حکومتوں کا امریکا کے سامنے جھکنا اور پوری طرح خود کو اس کے حوالے کر دینا ہے۔ اگر یہ کام ہو جائے تو وہ ملک، وہ حکومت اور اس کے حکام امریکی حکام کی نگاہ میں قابل قبول اور بے عیب ہیں۔ نہ ان پر دباؤ کی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ ہوتا ہے لیکن اگر کسی ملک میں حکومت خودمختار ہو اور اپنے عوام پر بھروسہ کرتی ہو، اس کے لئے اپنے عقائد اور اپنی ثقافت معتبر ہو، اپنی قوم کی مصلحتیں اس کے لئے معیار ہوں، اپنا موقف خود اپنے عقیدے کی بنیاد پر اختیار کرے، ان کے اور ان کے دباؤ میں نہیں تو یہ ملک ان کی نظر میں نا قابل قبول ہے۔ حتی اگر بہترین قسم کی ڈیموکریسی، بہترین قانون ساز پارلیمنٹ اور بہترین عوامی حکومت ہو تب بھی اس پر ان چیزوں سے عاری ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ امریکا جیسی حکومتوں کا موقف ہے جو آج دنیا کی قیادت کی دعویدار ہیں۔ کیا یہ حکومتیں اس تنگ نظری کے ساتھ اور ملکوں نیز اقوام کی نسبت اس دشمنانہ رویئے کے ساتھ دنیا کی قیادت کی صلاحیت رکھتی ہیں؟
مستکبرین عالم کی نگاہ میں اسلامی جمہوریہ کا جرم یہ ہے کہ اسلام، خودمختاری اور اپنی قوم کی مصلحتوں کی پابند ہے۔ میرے بھائیو اور عزیزو' اسلامی جمہوریہ کی طاقت کا راز یہ ہے، اس بات کا راز کہ وہ اب تک اسلامی جمہوریہ پر کوئی کاری وار نہ لگا سکے یہی ہے۔ دباؤ ڈالا، خباثت کی، ایذارسانی کی، بزدلانہ کام کیا حتی ملک کے اندر دہشتگردانہ کاروائیوں کی منصوبہ بندی کی، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف سرگرم دہشتگردوں کی زبان، عمل اور رضامندی کا اظہار کرنے والی خاموشی سے حمایت کی، مشہد میں وہ وحشیانہ کام کیا اور انسانی حقوق کی حمایت اور دہشتگردی کی مخالفت کی دعویدار حکومتوں نے اس کی مذمت میں ایک لفظ بھی نہ کہا۔ ان حکومتوں کی حالت یہ ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران پروردگار کے فضل سے سطح عالم پر پوری قوت اور سربلندی کے ساتھ موجود ہے۔ ہماری طاقت کا راز اسلام سے تمسک ہے۔
اس ولادت کے دن، ہفتہ وحدت کے موقع پر، ان ایام میں لوگ عموما اپنے خدمتگذاروں یعنی اپنی خدمتگذار اسلامی جمہوری حکومت کی قدردانی کرتے ہیں۔ ان ایام میں جو چیز پوری طرح نظر میں رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ اسلام، قرآن پر عمل اور ان دونوں کی پابندی اسلامی نظام کی بقا اور اس کے مقتدر ہونے کا راز ہے۔ وحدت، اسلام اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے کی اساس پر استوار ہونی چاہئے، بے بنیاد کھوکھلی قومیت اور توہمات کی بنیاد پر نہیں۔ امت اسلامیہ کی بقا اسی میں ہے۔ قوم کے لئے ان دنوں کا درس یہ ہے کہ تمام شعبوں میں اسلام کی پابند رہے۔ مجلس شورائے اسلامی کے تمام اراکین کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ قوانین کو سوفیصد شریعت اسلام کے مطابق بنائیں۔ کیونکہ شریعت اسلام عوام کی سعادت کی ضامن اور ان کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہے۔ چنانچہ آج تک ایسا ہی ہوا ہے۔ الحمد للہ اسلامی جمہوریہ کے قوانین شریعت اسلام کے مطابق اور پیشرفتہ ترین قوانین ہیں۔ اقتصادی اور تعزیراتی قوانین نیز حقوق مواصلات اور لوگوں کے ایک دوسرے سے روابط سے متعلق قوانین سب اسلام کی بنیاد پر ہیں۔
عوام کی خدمتگذار محترم حکومت کی پوری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ معاشرے میں اسلامی اقدار کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے۔ اعلاترین اقدار، تقوا کی بنیاد ہے۔ تقوا وہ عامل ہے جو ہمیں راہ اسلام میں باقی رکھتا ہے۔ تقوا کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنا خیال رکھیں۔ یہ کسی خاص گروہ سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ ہر فرد سے چاہے وہ جہاں بھی ہو، حکومت کے ہر رکن، اعلارتبہ عہدیداروں سے لیکر معمولی ملازم تک سب سے تعلق رکھتا ہے۔ قوم کا ہرفرد جہاں کہیں بھی ہو خیال رکھے کہ راہ اسلام سے اس کا قدم نہ ہٹے۔ اسلام نے نصرت کا وعدہ کیا ہے۔ قرآن نے زندگی کے تمام پہلووں میں پیشرفت اور کامیابی کا وعدہ کیا ہے۔ قوم کی دنیا و آخرت سنوارتا ہے۔ جس طرح کہ پروردگار کے فضل سے اسی مختصر سی مدت میں، اس ملک میں اسلام کے حاکم ہونے کے بعد عوام کی زندگی کے لئے جو کارنامے انجام پائے ہیں گذشتہ دور سے ان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی مدت میں محروم طبقات کے لئے جو خدمات انجام پائی ہیں، اسلامی انقلاب سے پہلے کے کاموں سے ان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سب ان تمام مشکلات کے باوجود انجام پایا ہے جو اس ملک کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ راہ اسلام راہ سعادت ہے اور اسلام کی پابندی کا معیار تقوی ہے۔ اس بات کو ہر ایک اپنے عمل میں سمجھ سکتا ہے اور اپنا خیال رکھ سکتا ہے۔ تقوا یہ ہے۔ اس ملک کے گوشہ و کنار میں رہنے والے سبھی بھائی اور بہنیں، خیال رکھیں کہ اس سے نہ ہٹیں جس میں رضائے خدا ہے۔ نفسانی خواہشات کے تابع نہ ہوں، تاکہ راہ خدا کو گم نہ کریں۔ ملک کے حکام بھی اس بات کی پابندی کریں۔ مقننہ، عدلیہ اور مجریہ الحمد للہ اس راستے پر ہیں، تقوی کی پابندی کرنے کی کوشش کریں۔ آپ کو دنیا میں کہیں بھی ایسے متقی اور پاک و پاکیزہ حکام جیسے اسلامی جمہوریہ میں ہیں، نہیں ملیں گے۔ سبھی اسی راستے پر گامزن رہیں۔ یہ راستہ کامیابی کا راستہ ہے۔ دشمن، اسلام اور مسلمین کے خلاف ہر ہر سازش میں ناکام ہو چکا ہے اور آئندہ بھی ناکام رہے گا۔
دعا ہے کہ خداوند عالم ہم سب کو توفیق عنایت فرمائے کہ ہم اسلام و قرآن کا نورانی راستہ، دلوں اور عمل کی وحدت کا راستہ کامیابی سے طے کریں۔ ہماری قوم نے الحمد للہ بہترین راستے کا جو راہ اسلام ہے، انتخاب کیا ہے، آخر تک اس پر باقی رہے اور خدا کی نصرت سے دشمنوں کی چالوں کو خود انہیں کی طرف پلٹا دے۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ۔