آپ نے انبیائے کرام کی تحریکوں کی خصوصیات بیان کیں۔ آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں سامراجی حکومتوں کی پالیسیوں کا تذکرہ کی اور ایران امریکہ تعلقات کی نوعیت پر سیر حاصل بحث کی۔ آپ نے فرمایا کہ آج اس بات کی کوشش ہو رہی ہے کہ بظاہر اصلاحی اصولوں کو امریکی اصولوں کے طور پر پیش کیا جائے ۔ امریکی صدر نے اس ملک کی کانگریس میں جو تقریر کی اس میں اس موضوع کی جانب اشارہ کیا اور بعد میں افسوس کی بات ہے کہ کچھ امریکی تعلیم یافتہ شخصیات نے ، اس کی نظریاتی حمایت کے لئے ، ایک لمبا چوڑا بیان تیار کیا جس میں انہوں نے انسانیت کے سامنے حقیقت سے دور باتیں پیش کیں ، اپنے مخاطبین سے سامنے جھوٹ بولا ۔ انہوں نے کوشش کی کہ اصل ماجرے کو ، کہ جو دنیا پر تسلط کی دیرینہ خواہش ہے ، چھپائے رکھیں ۔ البتہ ان لوگوں کے لئے خود امریکی رائے عامہ بھی بہت اہم ہے۔ ان کی بقا امریکی عوام کے ہاتھ میں ہے ۔ قائد انقلاب اسلامی نے مختلف محاذوں پر امریکی پالیسیوں کی ناکامی کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ جیسا کہ معلوم ہوا ہے، اس بیان میں امریکا کی کچھ کمزوریوں کی جانب بھی اشارہ کیا گیا تھا تاہم وہ امریکی کی بڑی کمزوریوں کے مقابلے میں بہت معمولی تھیں۔ جو لوگ آزادی بیان اور نظریاتی آزادی کے لئے حامی ہیں انہوں نے ہی اپنے بیان کے اس حصے کو امریکا میں شائع نہيں کیا اسی بیان میں ، جو یقینی طور پر امریکا کے فوجی و خقیہ و سلامتی کے حکام کے ساتھ ہما آھنگی کے بعد تیار ہوا ہے ، چونکہ کچھ باتیں ان کی مرضی کی مطابق نہیں تھیں ، جو بہت زیادہ نہيں تھیں ، بہت ہی کم تھیں ، جس میں کچھ باتوں کا انکشاف تھا ، اگر آپ لوگوں نے وہ بیان پڑھا ہو تو آپ کی سمجھ میں آ جائے گا ، بیان کے اس حصے کو بھی امریکا میں شائع نہيں ہونے دیا اور دنیا کے دیگر علاقوں میں اسے شائع کیا ۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملکی اور علاقائي حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت ہمیں ایسے خطروں کا سامنا ہے جن کے بارے میں لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ، نظریاتی بنیادیں بھی تیار کر لی گئ ہيں اور لوگوں کے سامنے پیش کر دی گئ ہيں ۔ سیاست داں اور کچھ تعلیم یافتہ شخصیتیں متحد ہو گئ ہیں تاکہ حقائق کو توڑ مروڑ کر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے ۔ ان سب باتوں کا مقصد وہی پرانا مقصد ہے ، دنیا پر تسلط کی خواہش ، تمام سرمائے پر قبضہ ، کسی ایسی خودمختار حکومت یا ملک کو برداشت نہ کرنا جو آنکھ بند کرکے امریکی احکامات اور ڈیکٹیشن کو قبول کرنے پر تیار نہ ہو ۔ وہ اپنی مقاصد کو دھوکا دینے والے الفاظ کے پيچھے چھپانے کی کوشش کر رہے ہيں ۔ یہ بہت اہم موضوع ہے ۔ آپ لوگ ذمہ دار افراد اور ملکی مسائل پر اثر انداز ہونے والی شخصیتیں ہیں ۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
 
بسم‏الله‏الرّحمن‏الرّحيم
الحمدلله ربّ العالمين. والصّلاة والسّلام علي سيّدنا و نبيّنا أبي‏القاسم المصطفي محمّد و علي آله الأطيبين الأطهرين المنتجبين، سيّما بقيّةالله في الأرضين.
 
محرم کی تاریخی ، معنوی و انسانی اہمیت :
بڑی پر معنی و مفید نشست ہے اور امید ہے کہ خداوند عالم کا لطف و کرم و رحمت و برکت و ہدایت اس اہم نشست میں شرکت کرنے والوں کے شامل حال ہوگی اور انشاء اللہ وہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے گا ۔ ہمارے محترم صدر مملکت نے بڑی جامع تقریر کی جو در اصل میرے بہت سے خیالات کی ترجمانی تھی ۔ بڑے اچھے اور اہم نکات بڑے اچھے ڈھنگ سے بیان کئے انشاء اللہ تمام لوگوں کو ان باتوں اور معانی کا علم ہوگا اور ہماری طرح مستفید ہوں گے ۔
یہ موقع ہجری قمری سال اور محرم کے آغاز کا موقع ہے اور اس کے ساتھ ہی ہجری شمسی سال بھی شروع ہو رہا ہے ۔ محرم کے ایام کی ہمارے لئے تاریخی و معنوی و انسانی اہمیت ہے اور محرم کا واقعہ ، کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جس کی یاد منانے سے یا جس کا ذکر کرنے سے واقعہ بار بار دہرایا جانے والا لگنے لگے ۔ یہ یاد دہانی ہے ، ہمیشہ رہنے والا ہے اور ہمیشہ اس کی ضرورت ہے میں اپنی بات کی شروعات میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کے بارے میں چند جملے عرض کرنا چاہتا ہوں -
سرکشوں سے مقابلہ ، انبیا ء کا سب سے اہم کام
انسان نے طول تاریخ میں سب سے زيادہ غلطیاں گناہ اور لاپروائی ، حکومت کے شعبے میں انجام دی ہں جو گناہ حاکموں ، بادشاہوں اور لوگوں پر مسلط تاناشاہوں نے کئے ہیں ان کا موازنہ عام لوگوں کے بڑے بڑے گناہوں سے نہيں کیا جا سکتا اس شعبے میں انسان نے عقل و خرد و اخلاقیات و حکمت کا کم ہی استعمال کیا ہے ۔ اس شعبے میں عقل و منطق ، انسانوں کے ديکر شعبہ ہائے زندگی کے مقابلے میں کم ہی استعمال ہوئي ہے اور جن لوگوں نے اس بے خردی و بد عنوانی و گناہوں کی سزا بھگتی ہے وہ عام لوگ رہے ہيں کبھی ایک ہی سماج کے عام لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں اور کبھی کئ سماجوں کے افراد ۔ یہ حکومتیں شروع میں تو کسی ایک فرد کی آمریت کی شکل میں رہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی انسانی سماجوں میں تبدیلیوں کی وجہ سے ایک منظم اور اجتماعی آمریت میں بدل گئيں اس لئے انبیاء کی سب سے اہم ذمہ داری ظالم بادشاہوں اور ان لوگوں کا مقابلہ کرنا ہے جنہوں نے خدا کی نعمتوں کو ضائع کیا ہے «و اذا تولّى سعى فى الأرض ليفسد فيها و يهلك الحرث و النسل»؛ قرآن کی آیتوں میں ان بد عنوان حکومتوں کو ان دہلا دینے والے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے ان لوگوں کی کوشش تھی کہ ظلم و جور کو عالمگیر بنا دیں ؛ «ألم ترى الى الّذين بدّلوا نعمة اللَّه كفراً و احلّوا قومهم دارالبوار جهنّم يصلونها و بئس القرار» ان لوگوں نے خدا کی نعمتوں کو ، انسانوں کو حاصل نعمتوں اور اور قدرت کی عطا کردہ نعمتوں کا کفران کیا اور ان انسانوں کو ، جنہیں ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانا تھا، اپنے کفران نعمت سے بنائی گئ جہنم میں جلا ڈالا انبیاء نے ان کا مقابلہ کیا اگر انبیاء دنیا کے ظالم و آمروں کے سامنے ڈٹ نہ جاتے تو جنگ و جدال کی نوبت ہی نہ آتی یہ جو قرآن میں کہا گیا ہے کہ «و كأيّن من نبىّ قاتل معه ربيّون كثير» بہت سے پیغمبروں نے مومنوں کے ساتھ مل کر جنگ کی تو اس سے مراد کون سے لوگوں کے خلاف جنگ ہے ؟ انبیاء کی جنگ میں مد مقابل یہی بدعنوان حکومتیں ، تباہ کن طاقتیں اور تاریخ کے آمر تھے جو بشریت کو تباہ کر رہے تھے
کتابوں کا نزول اور رسولوں کی آمد ، عدل و انصاف کے قیام کے لئے
انبیاء در اصل انسانوں کے نجات دہندہ ہيں اسی لئے قرآن مجید میں انبیاء اور رسولوں کا ایک بڑا مقصد ، قیام انصاف قرار دیا گیا ہے : «لقد ارسلنا رسلنا بالبيّنات و أنزلنا معهم الكتاب و الميزان ليقوم النّاس بالقسط» در اصل کتب آسمانی اور انبیاء کی آمد کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ سماج میں عدل و انصاف قائم کریں یعنی ظلم و بدعنوانی کے مظہر کو مٹا دیں ۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک ، ایسی ہی تھی آپ نے فرمایا : «انّما خرجت لطلب الأصلاح فى امّة جدّى».، اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا من رأى سلطانا جائرا مستحلا لحرام الله او تاركا لعهداللَّه مخالفا لسنة رسول‏اللَّه فعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان ثمّ لم يغيّر عليه بقول و لا فعل كان حقا على اللَّه أن يدخله مدخله»؛ یعنی اگر کسی کو ظلم و بدعنوانی کا مرکز نظر آئے اور وہ خاموش بیٹھا رہے ، تو خدا اسے اس کے ہی ساتھ محشور کرے گا ۔ آپ نے کہا کہ میں جبر و استبداد اور حکمرانی کے لئے نہيں نکلا ہوں ۔ عراقی عوام نے امام حسین علیہ السلام کو حکومت کی دعوت دی تھی اور آپ نے ان کے اسی بلاوے کو قبول کیا یعنی ایسا نہيں ہے کہ امام حسین علیہ السلام حکومت کے بارے میں سوچتے بھی نہيں تھے ، امام حسین علیہ السلام ظالم و جابر قوتوں کی سرکوبی کرنا چاہتے تھے چاہے حکومت ہاتھ میں لے کر چاہے شہید ہو کر ۔
ظلم کے مقابلے میں حق کے دعویداروں کی خاموشی :
امام حسین علیہ السلام کو علم تھا کہ اگر وہ ایسا نہ کریں گے ، تو ان کی یہ تايید ، ان کی خاموشی ، ان کا چپ چاپ بیٹھے رہنا ، اسلام پر کیا اثر ڈالے گا ۔ جب کوئی طاقت تمام سماجی وسائل کے ساتھ کسی سماج پر غالب ہو اور ظلم و جور کا راستہ اختیار کرے اور آگے بڑھے تو اگر حق کے علمبردار اس کے سامنے نہ کھڑے ہوں اور اس کے راستے کو نہ روکیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی تائید کرتے ہيں ۔ یعنی ظلم و جور کر اہل حق کی تائید حاصل ہو جاتی ہے بغیر اس کے کہ اہل حق ایسا کرنا چاہیں ۔ یہ وہ گناہ تھا جس کے اس دور میں بڑے بڑے سردار اور بنی ہاشم کے بزرگان مرتکب ہوئے تھے ۔ امام حسین علیہ السلام نے ایسا نہيں کیا اور اسی لئے انہوں نے قیام کیا ۔
قیام امام حسین عیلہ السلام ، خرد و منطق کی تجدید
منقول ہے کہ جب امام زین العابدین ، واقعہ عاشور کے بعد مدینہ لوٹے ایک شخص نے آپ کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا : اے فرزند رسول ! دیکھا آپ گئے تو کیا ہوا ؟ وہ سچ کہہ رہا تھا یہ کاروان جب گیا تھا تو اس کی قیادت اہل بیت کے خورشید درخشان ، فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کر رہے تھے ، بنت علی عزت و سرافرازی کے ساتھ گئ تھیں ۔ علی کے بیٹے حضرت عباس وغیرہ ، امام حسین علیہ السلام کے بیٹے ، امام حسن علیہ السلام کے بیٹے ، بنی ہاشم کے بہادر جوان سب لوگ اس قافلے میں موجود تھے لیکن جب یہ قافلہ واپس آیا تو اس میں صرف ایک مرد تھا ، امام زين العابدین ۔ عورتوں کو اسیر کیا گیا ، بے پناہ غم اٹھائے ، امام حسین نہیں رہے ، علی اکبر چلے گئے ، یہاں تک کہ شیر خوار بچہ بھی قافلہ کے ساتھ واپس نہ آیا ۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اس شخص کو جواب دیا : سوچو اگر ہم نہ جاتے تو کیا ہوتا ۔ جی ہاں اگر وہ لوگ نہ جاتے تو جسم تو زندہ رہتے ، لیکن حقیقت ختم ہو جاتی ، روح کا وجود نہ رہتا ، ضمیر مر جاتے ۔ تاریخ میں عقل و منطق کو شکست ہوتی اور اسلام کا نام بھی باقی نہ رہتا __

جد و جہد پر ایمان ، دلوں کو گرمی عطا کرنے والا واحد شرارہ
ہمارے دور میں اسلامی انقلاب اور اسلامی نظام کی سمت کی سو یہی تھی ۔ جن لوگوں نے اس تحریک کو شروع کیا ہے ممکن ہے ان کے ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہو ا ہو کہ کسی دن وہ اپنی مطلوبہ حکومت کی تشکیل کریں گی لیکن ان کے ذہنوں میں یہ بات بھی مکمل طور پر موجود تھی کہ ممکن ہے وہ اس راہ میں شہید کر دیئے جائيں یا پوری عمر ، جد و جہد اور سختیاں اٹھاتے ہوئے گزار دیں ۔ یہ دونوں راستے ان کے سامنے تھے ٹھیک امام حسین علیہ السلام کی تحریک کی طرح ۔ سن انیس سو باسٹھ ترسٹھ میں اور ان جیلوں میں سخت و گھٹن بھرے ایام کے بعد ، روشنی کی جو کرن ان کے دلوں کو روشن کئے تھی اور انہيں آگے بڑھنے کی ترغیب دیتی تھی ، جد و جہد پر ان کا ایمان تھا ، حکومت حاصل کرنے کی خواہش نہیں ۔ یہ وہی امام حسین علیہ السلام کا راستہ تھا ۔ لیکن اس کے دو پہلو ہیں ۔ زمانے اور اور جگہ کے لحاظ سے صورت حال بدلتی رہتی ہے ۔ کبھی حالات سازگار ہو جاتے ہیں اور اسلامی حکومت کا پرچم لہرا دیا جاتا ہے لیکن کبھی حالات سازگار نہيں ہوتے اور جد و جہد ، شہادت پر منتج ہوتی ہے ۔ تاریخ میں اس کی بہت مثالیں ملتی ہیں ۔
پیچیدہ انسانی علم و سائنس ، ناپاک ارادوں کی تکمیل کا ذریعہ
جب امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس راستے پر قدم رکھا تو حالات ، اس دور سے کئ گنا پیچیدہ تھے جس میں امام حسین علیہ السلام نے اس راہ پر قدم رکھا تھا اور آج بھی انسانی تعلقات پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو رہے ہيں ۔ راستے نزدیک ہو گئے ، رابطے آسان ہو گئے لیکن تعلقات ، دشوار اور پیچیدہ ہو گئے ہيں ۔ کسی واقعے کے اسباب و علل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ آج جو لوگ ، اس دور کے یزيد کے مقام پر ہیں ، وہ پوری دنیا کو متاثر کر سکتے ہيں یعنی بدعنوانی اور سرکشی سے پوری انسانیت کو نشانہ بنا سکتے ہيں ۔ یہ وہ کام ہے جو آج ، قریبی رابطے کی وجہ سے ممکن ہے اور افسوس ہے کہ یہ سرکشی دنیا میں نظر آ رہی ہے اور اس میں ترقی بھی ہوئی ہے ۔ سائنس اور پیچیدہ ٹیکنالوجی نے جس قدر سہولتیں عام لوگوں کو فراہم کی ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ سہولتیں اور وسائل ناپاک ارادوں کے حامل افراد کے لئے مہیا کئے ہیں ۔ آج دنیا کی سرکش طاقتیں ، پوری دنیا ، پوری بشریت اور بشر کے کل سرمائے پر قبضے کو اپنا مقصد بنا سکتی ہیں ۔ اور افسوس کی بات ہے کہ وہ اس راستے میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو ان وسائل اور سہولتوں کے ذریعے تباہ کر سکتے ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ ایسی بڑی سرکشی جو اس قسم کے ناپاک ارادوں اور نحس اہداف کو واضح کرتی ہے ، دینا میں کہيں کہیں نظر آتی ہے ۔ اس دورمیں ہماری ذمہ داری بہت بڑی ہے ۔

نیا عالمی نظام ، امریکا کا ایجنڈا
جب کمیونیزم کی مرکز کا شیرازہ بکھرنے کے بعد ، امریکا کے اس وقت کے صدر یعنی موجودہ امریکی صدر ( جارج بش ) کے باپ نے نئے عالمی نظام کا اعلان کیا تو در اصل انہوں نے امریکا کے دیریرنہ سامراجی مقصد کو برملا کر دیا ۔ انہوں نے اپنی اور امریکی نظم کی دلی خواہش کا اعلان کر دیا ۔ البتہ یہ اسی زمانے سے مخصوص نہيں ہے ۔ انہوں نے تو دسیوں برس قبل ہی فیصلہ کیا اور پھر اعلان بھی کر دیا کہ وہ لاطینی امریکا میں کسی بھی دوسری طاقت کو گھسنے نہيں دیں گے ۔ لاطینی امریکا ، امریکی حکومت سے مخصوص ایک علاقہ سمجھا جاتا تھا لیکن وہ لوگ اس بات کا ، ایک اعلانیہ مقصد کی شکل میں ذکر نہيں کرتے تھے اور اسے زبان پر نہيں لاتے تھے لیکن جب انہیں یہ محسوس ہوا کہ اب ان کے سامنے ، سوویت یونین جیسا کوئی حریف موجود نہیں ہے تو انہوں نے تقریبا صراحت کے ساتھ اپنے اس مقصد کا اعلان کر دیا ۔ یک قطبی نظام والی دنیا ، نیا عالمی نظام جس میں ایک طاقت ہو جس کا پوری دنیا پر تسلط ہو ۔ وہ مقصد جو گزشتہ دسیوں برس کے دوران امریکا کے تمام اقدامات سے واضح ہوتا ہے یہی مقصد ہے ۔ امریکا کا مقصد ، فوجی تسلط اور اس کے بعد سیاسی و اقتصادی تسلط ہے یہ سب کچھ ان کمپیوں کے مفادات کی تکمیل کے لئے ہے جو در اصل امریکا سیاست کا تعین کرتی ہیں ۔ سمت و سو کا تعین وہ کرتی ہيں ۔ یہ وہ حقائق ہیں کہ جن کا آج کے دور کے انسان کو علم ہوگا تو وہ صحیح وقت پر فیصلہ کرے گا ۔ لوگوں کو اگر علم ہو جائے کہ ان کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے تو ان کے پاے فیصلہ کرنے اور موقف اختیار کرنے کا موقع ہوگا تو اس صورت میں ملت کا فرد فرد بڑے بڑے کام کر سکتا ہے ۔ .

چالیس خودمختار حکومتوں کے زوال میں امریکی کردار
میرے سامنے اعداد و شمار پیش کئے گئے کہ امریکی حکومت نے سن انیس سو پینتالیس سے آج تک ، چالیس ایسی خودمختار حکومتوں کو گرانے میں کردار ادا کیا ہے جو امریکا کا تابع نہيں تھیں اور بیس بائیس حکومتوں کو گرانے کے لئے فوجی مداخلت بھی کی ہے ۔ یہ فوجی مداخلت یقینی طور پر قتل عام اور المیے کا باعث ہوئیں ۔ البتہ کچھ مقامات پر امریکا کو کامیابی حاصل ہوئي کچھ دیگر مقامات پر ناکامی ۔ جو کچھ ہمارے ذہنوں میں ہے ، اور ہم جانتے ہيں وہ بہت واضح ہے ۔ جیسے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر جاپان پر ایٹمی بمباری ، جیسا کہ صدر مملکت نے اشارہ کیا ۔ اسی طرح ویتنام کی مثال ، وہ خونی جنگيں اور وہ کبھی نہ بھلائے جانے والے المیئے جو آخرکار امریکا کی ناکامی کے ساتھ ختم ہوئے ۔ چلی کی مثال لے لیں ، خود ایران کی مثال پیش کی جا سکتی ہے اٹھائیس مرداد ؟؟؟؟؟ کی بغاوت کے موقع پر ، کہ جس میں امریکی ایجنٹ تہران آیا اور منصوبہ سازی اور کارروائیوں میں مصروف ہوا تھا ۔ اس کے بعد خود امریکیوں نے ہی اس بات کا اعلان کیا اور اس کے دستاویزات بھی شائع ہوئے اور اب عام لوگوں کی دسترس میں ہیں ۔ اسی طرح دنیا کے دیگر مقامات پر ۔ ان تمام اقدامات کی باعث ، امریکا کی بڑی بڑی کمپنیاں، سرمایہ دار ، اقتدار کی بھوکی پارٹیاں ، موثر صیہونی گروہ اور فکری و اخلاقی لحاظ سے منحرف سربراہ و ارباب اقتدار ہیں ۔ یہ کارنامے نہایت سیاہ اور شرمناک ہیں ۔ یہ معمولی باتیں نہیں ہیں ۔ ان لوگوں کے لئے انسانوں کی تباہی اہم نہيں ہے ، سرمائے کی تباہی اہم نہیں ہے ۔ انصاف کا خون اہم نہیں ہے ۔ انسانی المیہ اہم نہیں ہے ، ان میں سے کوئی بھی چیز ان کے راستے کی رکاوٹ نہيں بن سکتی البتہ ، دکھاوے کے لئے ان کے پاس وسیع پیمانے پر تشہیراتی وسائل اور مختلف سہولتیں ہیں ۔ شور مچانے کا لفظ استعمال کرنا یہاں مناسب ہوگا وہ ہنگامے اور شور شرابے کے ذریعے یہ کوشش کرتے ہيں کہ دنیا کا ماحول ایسا ہو جائے کہ ان کے یہ کارنامے اس شور میں دب جائیے ، اور امن کے حامی ، جہوریت کے حامی اور انسانی حقوق کے محافظ کی ان کی شبیہ محفوظ رہے

بظاہر اصلاحی اصولوں کا امریکی اصولوں کی شکل میں تعارف
آج اس بات کی کوشش ہو رہی ہے کہ بظاہر اصلاحی اصولوں کو امریکی اصولوں کے طور پر پیش کیا جائے ۔ امریکی صدر نے اس ملک کی کانگریس میں جو تقریر کی اس میں اس موضوع کی جانب اشارہ کیا اور بعد میں افسوس کی بات ہے کہ کچھ امریکی تعلیم یافتہ شخصیات نے ، اس کی نظریاتی حمایت کے لئے ، ایک لمبا چوڑا بیان تیار کیا جس میں انہوں نے انسانیت کے سامنے حقیقت سے دور باتیں پیش کیں ، اپنے مخاطبین سے سامنے جھوٹ بولا ۔ انہوں نے کوشش کی کہ اصل ماجرے کو ، کہ جو دنیا پر تسلط کی دیرینہ خواہش ہے ، چھپائے رکھیں ۔ البتہ ان لوگوں کے لئے خود امریکی رائے عامہ بھی بہت اہم ہے
ان کی بقا امریکی عوام کے ہاتھ میں ہے ۔ جیسا کہ معلوم ہوا ہے کہ اس بیان میں امریکا کی کچھ کمزوریوں کی جانب بھی اشارہ کیا گیا تھا تاہم وہ امریکی کی بڑی کمزوریوں کے مقابلے میں بہت معمولی تھیں ۔ جو لوگ آزادی بیان اور نظریاتی آزادی کے لئے حامی ہیں انہوں نے ہی اپنے بیان کے اس حصے کو امریکا میں شائع نہيں کیا اسی بیان میں ، جو یقینی طور پر امریکا کے فوجی و خقیہ و سلامتی کے حکام کے ساتھ ہما آھنگی کے بعد تیار ہوا ہے ، چونکہ کچھ باتیں ان کی مرضی کی مطابق نہیں تھیں ، جو بہت زیادہ نہيں تھیں ، بہت ہی کم تھیں ، جس میں کچھ باتوں کا انکشاف تھا ، اگر آپ لوگوں نے وہ بیان پڑھا ہو تو آپ کی سمجھ میں آ جائے گا ، بیان کے اس حصے کو بھی امریکا میں شائع نہيں ہونے دیا اور دنیا کے دیگر علاقوں میں اسے شائع کیا ۔ ان لوگوں نے جنگ سے متعلق حصوں کو امریکا میں شائع کیا تاکہ یہ ثابت کریں کہ بش ایک منصفانہ جنگ چاہتے ہیں کہ جس میں امریکا کے قومی مفادات کا تحفظ ہے ۔ انہوں نے صرف اسی حصے کو شائع کیا ۔

اس خطرے سے مقابلہ جس کے لئے نظریاتی بنیاد تیار کی گئ
اس وقت ہمیں ایسے خطروں کا سامنا ہے جن کے بارے میں لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ، نظریاتی بنیادیں بھی تیار کر لی گئ ہيں اور لوگوں کے سامنے پیش کر دی گئ ہيں ۔ سیاست داں اور کچھ تعلیم یافتہ شخصیتیں متحد ہو گئ ہیں تاکہ حقائق کو توڑ مروڑ کر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے ۔ ان سب باتوں کا مقصد وہی پرانا مقصد ہے ، دنیا پر تسلط کی خواہش ، تمام سرمائے پر قبضہ ، کسی ایسی خودمختار حکومت یا ملک کو برداشت نہ کرنا جو آنکھ بند کرکے امریکی احکامات اور ڈیکٹیشن کو قبول کرنے پر تیار نہ ہو ۔ وہ اپنی مقاصد کو دھوکا دینے والے الفاظ کے پيچھے چھپانے کی کوشش کر رہے ہيں ۔ یہ بہت اہم موضوع ہے ۔ آپ لوگ ذمہ دار افراد اور ملکی مسائل پر اثر انداز ہونے والی شخصیتیں ہیں ۔

خطرے کے مقدمات اور اسباب کی شناخت کی ضرورت
البتہ ہم نے بارہا کہا ہے کہ ہم کبھی یہ دعوی نہيں کر سکتے کہ کسی بھی صورت میں ایران پر حملہ نہیں ہو سکتا ، نہیں ، اس کا علم کسی کو نہیں ہے ، لیکن خطرہ یقینی طور پر ہے ۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے لئے لاحق اس خطرے کو ٹالنے میں کامیاب ہوں اور اسے ختم کریں اور اس کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے دانشور ، حکام اور خواص جو آپ لوگ ہیں ، جو اس جلسے میں شریک ہیں ، حالات کو صحیح طور پر پہچانیں، اپنی ذمہ داری کو بخوبی سمجھیں اور ذمہ داری کا سنگین بار جو آپ کے کاندھے پر ہے اسے پوری طرح سے محسوس کریں ، ہمارے لئے آج غلطی کو کوئی گنجائش نہيں ہے ۔ یہ جو خطرہ ہے ، کیونکہ امریکی صدر نے کھل کر نام لیا ہے ، البتہ انہوں نے ساٹھ ملکوں کا نام لیا ہے لیکن ہمارے ملک سمیت تین ملکوں کا نام لیا ہے ، حالات اور اسباب کے لحاظ سے یہ ایک مرکب اور کئ عناصر پر مشتمل معاملہ ہے جس کے تمام عناصر اور پہلوؤں کا علم ضروری ہے ۔

ایران ، خطرہ پیدا کرنے والا اہم عنصر
پہلا عنصر خود ایران ، ہمارا وطن عزیر ہے ۔ جس کے پاس ، خلیج فارس کے آدھے سے زائد سواحل یعنی آج اور کل کی دنیا کے لئے توانائی کا سب سے بڑا اور سرشار ذخیرہ ، موجود ہے ۔ جغرافیائی پوزیشن ، خلیج فارس کا پڑوس اور اس کے نصف ساحلوں پر قبضہ ، اس کے علاوہ ہمارے ملک میں موجود بے پناہ قدرتی ذخائر ، اسی طرح ، بے شمار افرادی قوت یہ سب خود ہی خطرہ پیدا کرنے والا اہم عنصر ہے ۔

دوسرا عنصر : اسلامی جمہوری نظام
دوسرا عنصر ، اسلامی جمہوری نظام ہے ۔ ایک خودمختار نظام ، ایک با عزت نظام ، شجاعت سے بھرا ہوا ایسا نطام جو عوام پر ٹکا ہوا ہے ، ایسے عوام پر جو آزمائش میں سرخرو ہو چکے ہيں ، وہ لوگ جو گہرے ایمان جذبے سے مالامال ہيں یعنی زبان سے نہیں بلکہ عمل سے اور کسی ایک میدان میں نہیں بلکہ مختلف میدانوں میں جنہوں نے اس ایمان کو مجسم کیا اور لوگوں کے سامنے پیش کیا ۔ وہ عوام جو غیر ملکی تسلط سے سخت متنفر نہیں اور جس کے ذہنوں میں غیر ملکی تسلط کی کڑوی یادیں محفوظ ہيں ۔ جس نکتے کی جانب امام زين العابدین علیہ السلام نے اشارہ کیا کہ اگر نہیں کرتے تو کیا ہوتا ، اس کا ایک دن ایرانی عوام نے تجربہ کیا ہے ۔ جب ملک پر اٹھائیس مرداد کی امریکی فوجی بغاوت کا خطرہ منڈلایا تھا ۔ اگر عوام میدان میں آ جاتے ، تو جبر و استبداد سے بھرے پچیس سالہ آمرانہ نظام ، اس حساس در کو گنوانے اور اتنے بڑے مادی و معنوی سرمائے کی بربادی کا تجربہ نہ کرتے ۔ وہ عوام جنہوں نے اس کے بر عکس حالات کا بھی تجربہ کیا ہے ۔ یعنی اسلامی انقلاب کے دوران ، میدان میں آئے ، فعال ہوئے اور دیکھا کہ کس طرح ، بغیر اسحلے کے بھی میدان عمل میں اتر کر ، علاقے میں سامراج کے سب سے مضبوط قلعے کو تسخیر کیا جا سکتا ہے ، کس طرح امریکا کو ایک نہایت اہم علاقے سے باہر نکالا جا سکتا ہے ، کس طرح امریکا کو ایران سے بھگایا جا سکتا ہے ۔ کس طرح سے پورے علاقے کے خلاف امریکی طاقت کے اڈے کو ، امریکی تسلط پسندی اور مفادات کے مرکز میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ ان کا کا عوام نے تجربہ کیا اور دیکھا ہے ۔

ہر طرح کی عزت و عظمت ، قربانی ، شجاعت اور اقدام کے راستے سے حاصل ہوتی ہے -
جنگ میں بھی یہی صورت حال تھی ۔ جنگ میں کچھ لوگوں کو شبہ تھا کہ ہم کس طرح سے دفاع کریں گے ۔ جب ہماری سر زمین کے ہزاروں مربع کیلو میٹر علاقے ، دشمن کے بوٹوں تلے روندے جا رہے تھے اور دشمن اسی حالت میں ہمارے سامنے ، جنگ بندی و مذاکرات کی تجویز رکھ رہا تھا تو کچھ لوگ امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور حکام پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ جنگ بندی کو قبول کر لیا جائے ۔ امام خمینی ڈٹے رہے ، عوام ڈٹے رہے ، حکام ڈٹے رہے اور انہيں اس استقامت کی پاداش بھی ملی ۔ جی ہاں ، ہر قسم کی عزت و عظمت ، قربانی ، شجاعت اور کارروائی سے حاصل ہوتی ہے ۔ ہار مان لینے ، آرام طلبی اور مشکلات سے فرار کے ذریعے کسی بھی چوٹی کو فتح نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ لوگ جنہيں آج آپ دیکھ رہے کہ ان کے پاس سائنس و ٹیکنالوجی اور مال و دولت کا ذخیرہ ہے جنہیں وہ اپنے اہداف کی تکمیل کے لئے استعمال کر رہے ہیں ان لوگوں نے بھی ، سخت ایام گزارے ہيں ، مشکل راہوں کو طے کیا ہے ۔ ہمارے پوری تاریخ میں آمرانہ حکومتوں کا سب سے بڑا جرم یہ رہا ہے کہ انہوں نے قوم کو اس دور میں کہ جب اسے اپنی سرگرمیوں سے ، اپنی شجاعت سے اپنے مفادات کی تکمیل کرنا تھی ، میدان عمل میں آنے سے روک دیا ۔ اشرف افغان ، محمود افغان اور ان کے فوجیوں نے اصفہان کا محاصرہ کر رکھا تھا ، عوام ، اپنی زمین کا دفاع کرنے کے لئے مچل رہے تھے لیکن تن پرور حکام ، خوف زدہ تھے انہوں نے عوام کو اپنا دفاع نہیں کرنے دیا اور ہار قبول کر لی بلکہ اس طرح سے انہوں نے عوام کو بھی ہار ماننے پر مجبور کر دیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئ برسوں تک شرمناک و سخت زندگی کے بعد جب حملہ آور ایران سے نکلنے پر مجبور ہوئے تو وہ اپنے ساتھ سیکڑوں شاید دو لاکھ ، ایرانی مرد ، عورتوں اور نوجوانوں کو قیدی بنا کر لے گئے یعنی انہوں نے جاتے جاتے بھی عوام کے ساتھ یہ سلوک کیا ۔

امام خمینی کا اہم ترین کام ، عوامی جذبات کو ظاہر ہونے کا موقع فراہم کرنا
ہمارے عوام صلاحیتوں سے بھرپور ہيں ۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے عوامی جذبات کو ظاہر ہونے کا موقع فراہم کیا اور عوامی سرگرمیوں کو ممکن بنایا ۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے جنگ کے دوران کبھی بھی کسی پر جبر نہيں کیا کہ وہ محاذ پر جائيں ، نوجوان آتے تھے اور میدان جنگ میں جانے کے لئے ہاتھ پیر جوڑتے تھے اور اس کا انعام بھی قوم کو ملا ، اس نے اپنی سربلندی کا مشاہدہ کیا ، اپنے دشمن کی خفت و ذلت کو دیکھا ۔ اپنی مظلومیت و حقانیت کا دنیا بھر میں اقرار ، البتہ کئ برسوں بعد ، خود اپنے کانوں سے سنا ۔ ہماری قوم تجربہ کار ، سرشار تہذیب کی حامل ، اسلام کے معنوی سر چشموں سے لبریز ہے اور اسے الحمد للہ آگاہ ، مستحکم و طاقتور حکام بھی حاصل ہیں ۔ اس بنا پر ایک عنصر ، اپنی خصوصیتوں کے ساتھ ایران ہے اور ایک عنصر یہ نظام اور یہ عوام ہیں کہ جنہيں جال میں پھانسنا ، جن سے سر تسلیم خم کروانا اور اپنے پیچھے پیچھے چلانا آسان کام نہیں ہے ۔ انہیں لالچ دینا ، دھوکا دینا ، ایک پٹھو گروہ کو ان لوگوں پر حاکم قرار دینا ، جیسا کہ وہ بہت سے ملکوں میں کرتے ہیں ، آسان کام نہیں ہے ۔

تیسرا عنصر : امریکا کی سامراجی فطرت
تیسرا عنصر ، دوسرے فریق کی سامراجی فطرت ہے ۔ امریکا چاہتا ہے کہ پوری دنیا میں کوئی حکومت یا ملک ایسا نہ رہے جو عملی طور پر اس کے سپر پاور ہونے پر سوالات کھڑے کرے ۔ یہ اس نئے عالمی نظام کے لئے جس کی منصوبہ سازی انہوں نے کی ہے ، ضروری ہے ۔ وہ اس قوم کو قطعی برداشت نہيں کر سکتے جو ان کی دھمکیوں سے نہ ڈرتی ہو ، ان کے لالچ میں نہ پڑتی ہو ، ان کی بتائی ہوئی پالیسیوں کو بے چون چرا اختیار نہ کرتی ہو ، جس کی اپنی پالیسیاں ہوں اور جو اس کی سرداری کو قبول نہ کرتی ہو ۔

چوتھا عنصر : داخلی مسائل کی پردہ پوشی
ایک دوسرا عنصر جو اس معاملے اور اس خطرے میں ، یقینی طور پر اثر رکھتا ہے ، وہ مسائل ہیں جو ہمارے فریق کو درپیش ہیں ۔ یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ امریکی ، اپنی خوشحالی اور بے نیازی کی وجہ سے دنیا کو دھمکاتے ہيں ، جی نہیں ؛ ایسا نہیں ہے ۔ ان کے اپنے داخلی مسائل ہيں ، معاشی بحران ہے ، مقبوضہ فلسطین میں صیہونی حکومت کے لئے سنجیدہ خطرات موجود ہیں ۔ کیونکہ اس حکومت کا مستقبل بہت زیادہ ، امریکی حکومت کے مستقبل سے جڑا ہے ۔ اسی طرح مختلف کمپینوں اور امریکی حکومت کے درمیان اسلحے کے سودے سے اقتصادی حالات کو بہتر بنانے کا مسئلہ ہے یہ بڑے اہم مسائل ہیں جن کی وجہ سے وہ اس قسم کا موقف اپنانے ہیں تاکہ اس طرح سے داخلی مسائل پر پردہ ڈالا جائے ۔ کانگریس میں کی گئ اس تقریر میں ، امریکی صدر عوام سے وعدہ کرتے ہیں کہ ٹیکس کم کر دیا جائے گا اور ہر کلاس کے لئے ایک مفید معلم کا انتظام کیا جائے گا ۔ یہ ان کے مسائل ہیں ۔ اس سے بڑھ کر ۔ اخلاقی مسائل ہیں ۔ اندرونی مسائل ہيں ، بڑھتا ہوا تشدد ہے ، اخلاقی انحطاط و بے بند باری میں بے پناہ اضافہ ہے ۔ امریکا کے اندرتباہ ہوتے گھرانے ہیں ۔ یہ چھوٹے مسائل نہیں ہيں ۔ یہ پستیوں کا وہ دلدل ہے کہ جو بھی اس میں گرے گا ، چاہے وہ امریکا کے اتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ، اس میں ڈوب کر ختم ہو جائے گا ۔ ان مسائل کا سامنا کرنے کے لئے امریکی عوام کو ایک بیرونی دشمن اور واقعے کی جانب متوجہ کرنا بہت اہم ہے ۔ یہ بھی اس معاملے کا ایک اہم عنصر ہے ۔

پانچواں عنصر : اسلامی بیداری کی لہر میں توسیع
پانچواں عنصر ، پوری دنیا میں اسلامی بیداری کی تیز ہوتی لہر ہے ۔ یہ جو وہ کہتے ہیں کہ ہم اسلام کو قبول کرتے ہيں بنیاد پرستی کو قبول نہیں کرتے ، یہ در اصل عالم اسلام کے بارے میں ان کے سطحی نظریات و تجزئوں کا نتیجہ ہے جس کا خمیازہ بھی انیں بھگتنا پڑا ۔ آج اسلامی بیداری کی لہر ایک نا قابل انکار حقیقت ہے ۔ آج مسلمانوں کو محسوس ہو رہا ہے کہ وہ دنیا پر ، انسانیت کی صورت حال پر اور اپنی مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہيں ۔ جک اقوام میں یہ جذبہ ایک معینہ حد تک پہنچ جاتا ہے تو وہ مجسم صورت میں نظر آتا ہے اور ایک حقیقت میں بدل جاتا ہے ۔ انہيں اس کا علم ہے اور اسی کی طرف سے انہيں تشویش ہے ۔ جس کا ایک نمونہ ، فلسطین کی انتفاضہ تحریک کا بے مثال واقعہ ہے ۔ کیا آسان بات ہے ؟ کچھ لوگ ، بغیر ہتھیار کے ، بغیر وسائل کے ، علاقے کی ایک وسائل کے بھرپور حکومت کے سامنے ، بے دردی سے قتل ہونے اور مختلف قسم کی جسمانی و ذہنی و اقتصادی ایذارسانیوں کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں ؟ اور اب تک کھڑے ہیں اور سترہ مہینوں سے یہ تحریک جاری ہے ۔ کس معمولی و سیاسی نظرئے سے اس واقعے کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے ؟ وہ کیوں ڈٹے ہوئے ہيں ؟ کیوں ہار نہيں مان رہے ہيں ؟ آخر دشمن کیوں اس فلسطینی قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر پا رہا ہے ؟ .اس چھوٹی سی قوم کو جو محاصرہ میں ہے اور کہیں سے بھی اس تک مدد نہیں پہنچ رہی ہے ۔ وہ طاقتو جذبہ ، جو ان کے دلوں میں شعلہ ور ہے اور جس کی وجہ سے یہ قوم تھکن کا احساس نہیں کر رہی ہے ، کیا ہے ؟ اس جذبے کا سرچشمہ کہاں ہے ؟ وہ سبب جس کے تحت ایک فلسطینی ماں اپنے بیٹے کی پیشانی چوم کر اسے قتل ہونے کے لئے بھیجتی ہے اور پھر کہتی ہے کہ اگر میرے سو بیٹے ہوتے تو سب کو اسی طرح سے بھیجتی ، بہت اہم سبب ہے ۔ یہ کون سا عنصر ہے جس کی مذاکرات ، سفارتکاری اور تنظیموں کے حساب کتاب میں گنجائش نہیں ہے ؟ وہ لوگ یہ سب کچھ دیکھ رہے ہيں اور انہيں اس طرف سے سخت تشویش لاحق ہے ۔ وہ اصل میں اس سرچشمے کو خشک کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ وہ ان جذبات کے باعث اسباب کو ختم کرنے کے در پے ہیں ۔

ایران اسلام کو امریکا کی جانب سے سنجیدہ خطرہ
معاملے پر اس کے تمام پہلوؤں کے ساتھ غور کرنا چاہئے ۔ معاملہ یہ نہيں ہے کہ دعوی کیا جاتا ہے کہ چار سرگرم لوگ بھاگ گئے اور فلاں ملک میں انہوں نے پناہ لے لی ہے تاکہ امریکا اپنی پوری طاقت سے اس ملک پر حملہ کر دے اور کہے کہ ہم تم سے جنگ کرنا چاہتے ہيں کیونکہ چار لوگ یہاں بھاگ کر آئے ہيں ۔ معاملہ یہ نہیں ہے ۔ یہ سادہ لوحی ہے ۔ معاملہ بہت گہرا ہے کہ جس کے کچھ پہلوں کی جانب میں نے اشارہ کیا ہے ۔ ان تمام عناصر کو جمع کر کے اگر دیکھا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے سنجیدہ خطرات پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔

امریکی دانشورں کے لئے ناقابل فراموش شرمناک واقعہ
البتہ اس پالیسی کو امریکی صدر نے تیار نہیں کیا ہے ، ان کے زمانے سے مخصوص بھی نہیں ہے ۔ امریکا میں سیاست کے پردے کے پیچھے کچھ لوگ ہیں جو یہ کام کرتے ہيں ۔ البتہ حالات ، بڑی خواہشوں کو آسان یا مشکل بناتے ہیں ۔ انہیں عوام کو دھوکا دینے والے جواز کی بھی ضرورت ہے اور افسوس کی بات ہے کہ امریکی دانشوروں کی جانب سے جاری شدہ بیان میں اسی کی کوشش کی گئ ہے تاہم میں اس سلسلے میں گفتگو نہيں کرنا چاہتا ۔ یہ خود ہمارے دانشوروں کی ذمہ داری ہے، یہ در اصل ملک کے دانشوروں ، اساتید اور اہم سیاسی و ثقافتی شخصیات کا فریضہ ہے کہ وہ اس بیان کے الفاظ کے اغراض و مقاصد کا تجزیہ اور اسے واضح کریں ۔ میں تو صرف یہی کہوں گا کہ کچھ گنے چنے پچاس یا ساٹھ امریکی دانشوروں کی طرف سے اس بیان پر دستخط سے ، امریکی دانشورں کی تاریخ میں سیاہ اور کبھی نہ مٹنے والا دھبہ پڑ گیا ہے ۔ جن دانشوروں کو واشگاف الفاظ میں ، جنگ ، جارحیت ، بلا ہدف قتل عام کی مخالفت کرنی چاہئے تھی اور امریکی دانشوروں نے برسہا برس یہ کام کیا ہے ، وہ دانشور اب آتے ہيں اور امریکا کی ان کمپنیوں کے لئے جواز فراہم کرے ہیں اور قتل عام کا اجازت نامہ دیتے ہیں جو سیاسی نظام اور صدارتی عہدے کے زور پر اپنے مقاصد کی تکمیل کرتی ہیں ۔ یہ دانشوروں کا فتوی ہے جنہوں نے صیہونی کمپنیوں کے ٹکڑے کھاکر ، اقوام عالم کے قتل عام کا فتوی صادر کیا ہے اور یہ در اصل ایسےا داغ ہے جو کسی بھی دانشور کے دامن پر لگنے کے بعد کبھی مٹے گا نہيں اور افسوس ہے کہ کرائے کے یہ دانشور ایسی غلطی کر بیٹھے ہیں ۔

امریکی اصول ، عالمی اصول نہیں ہو سکتے
امریکی ایک اصول کو ، امریکی اصول کے شکل میں پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیںکہ یہ اصول عالمگیر ہے ۔ یہ اصول ، انسانوں کی آزادی ، نظریات کی آزادی ، انسانی احترام ، انسانی حقوق اور اسی طرح کی چیزیں ہیں ۔ کیا یہ امریکی اصول ہیں ؟ موجودہ امریکی سماج کو ممتاز کرنے والے یہ اصول ہیں ؟ امریکی حکومت کی خصوصیات یہی ہیں جن کا ذکر کیا جاتا ہے ؟ کیا یہ وہی حکومت نہیں ہے جس نے ، امریکا کے مقامی لوگوں کا قتل عام کیا ؟ کیا اسی حکومت نے امریکی ریڈ اینڈینس کو ختم نہیں کیا ؟ کیا یہ حکومت اور اس کے موثر ارکان نہيں تھے جنہوں نے لاکھوں افریقیوں کو ان کے گھر سے پکڑ کر اپنا غلام نہیں بنایا ؟ ان کے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو غلامی کے لئے اغوا نہیں کیا ؟ اور برسہا برس ان کے ساتھ سخت ترین رویہ نہیں اپنایا؟
ایک نہایت المیہ فن پارہ ہے جس کا نام ہے ، ٹام انکلس ہٹ ؟؟؟ جس میں امریکا میں غلامانہ زندگی کو دکھایا گیا ہے اور شاید دو سو سال گزر چکے ہیں لیکن یہ فن پارہ اب بھی زندہ ہے ۔ امریکا کی حقیقت یہ ہے؛ امریکا کی حکومت یہ ہے ؛ جو امتیاز اور جس خصوصیت کا مظاہرہ امریکی نظام کر رہا ہے وہ یہ ہے ۔ نہ کہ آزادی انسان ، نہ مساوات ، کیسا مساوات ؟ آپ اب بھی سیاہ فام اور سفید فام کو برابر نہیں سمجھتے ۔ آج بھی ، آپ کی نظر میں ادارتی امور میں نوکری کے لئے جانے والے انسان کا ریڈ انڈین کی نسل سے ہونا عیب شمار ہوتا ہے ۔ انسانوں میں مساوات ؟! نظریاتی آزادی ؟! کیا آپ میری یہی تقریر یہ صدر مملکت کی تقریر ، امریکی ذرائع ابلاغ میں نشر میں کر سکتے ہيں ؟ اگر وہاں آزادی بیان اور نظریاتی آزادی ہے تو ابھی آدھے گھنٹے پہلے کی جناب خاتمی صاحب کی تقریر نشر کریں ۔ کیسی آزادی بیان ؟! ذرائع ابلاغ نہایت متنوع ہیں لیکن سب کی رگ حیات امریکا کے سرمایہ دارانہ نظام اور بڑے سرمایہ کاروں سے جڑی ہے اور ان میں بھی اکثریت صیہونیوں کی ہے ! یہ امریکا میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کے معنی ہيں ۔ کیوں دنیا کے سامنے جھوٹ بولتے ہو ؟ یہ امریکی اصول ہیں ! اس کے بعد کہتے ہو کہ امریکی اصول ، عالمگیر ہیں ۔ آپ ہوتے کون ہيں جو پوری انسانیت کے لئے عالمگیر اصول وضع کرتے ہیں ؟ ٹھیک ہے ، آپ لوگوں سے قبل ، کمیونیسٹوں کے پاس عالمگیر اصول تھے ، اسٹالین کے پاس بھی ، عالمگیر اصول تھے ۔ وہ کہتا تھا کہ پوری دنیا کو میری پیروی کرنی چاہئے ۔ فاشسٹ بھی اپنی نظر میں عالمگیر اصول کے مالک تھے ۔ یہ کون سی منطق ہے کہ یہ جو ہمارے اصول ہیں وہی عالمگیر ہیں ۔ اور جو بھی ان اصولوں کو قبول نہیں کرے گا ہم اس پر ایٹم بم برسائيں گے ۔ یہ منطق ، کسی آزاد قوم کی منطق ہو سکتی ہے ؟ یہ منطق کسی ایسی حکومت کی منطق ہو سکتی ہے جسے انسانی شرافت و کرامت میں یقین ہو ؟ آپ اس طرح سے دنیا کے انسانوں کے سامنے جھوٹ بولتے ہيں ؟

کسی طاقت کی سامراجی فطرت کا بدترین مظہر
امریکی صدر نے اپنی تقریر میں کہا کہ جو بھی ہمارے ساتھ نہیں ہے وہ ہمارے خلاف ہے ! اس جملے کو بار بار دہرایا گیا ۔ یہ ایک طاقت اور حکومت کی سامراجی فطرت کی بدترین مثال ہے ۔ کس نے کہا ہے کہ دہشت گردی سے مقابلے میں آپ کو سب سے آگے رہنے کا حق ہے ؟ اگر معیار ، دہشت گردی میں مارے جانے والے لوگ ہيں تو آئيں دیکھيں دوسری اقوام میں کتنے لوگ دہشت گردی میں مارے گئے ہيں ۔ اس وقت بھی ہر روز فلسطینی عوام اپنے گھروں میں ، غاصبوں کے ہاتھوں کھلے عام قتل کئے جا رہے ہيں ۔ کیا ویتنام پر آپ کا حملہ ، دہشت گردی نہيں تھا ؟ کیا ہیروشیما و ناگاساکی پر آپ کا حملہ ، دہشت گردی نہيں تھا ؟ کیا وہاں ہزاروں انسان ، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اور بغیر اس کے آپ انہيں پہچانیں ، آپ کی مخاصمت کی آگ میں جھلس نہيں گئے ؟ آپ کس حق کے تحت ، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کر رہے ہيں ؟ کس حق کے تحت آپ دہشت گردی کی معنی بیان کر رہے ہيں ؟ یہ کیسا استعمار ہے ؟ یہ ہے اصلی وجہ کہ جب یہ باتیں دنیا میں عام ہوتی ہیں اور دنیا کے لوگوں تک ان کے یہ بیانات پہنچتے ہيں تب ان کی سمجھ میں آتا ہے کہ کس وجہ سے اسلامی انقلاب نے شروع سے ہی ، سامراج اور سامراجی طاقتوں کو اپنی منفی اصطلاحات میں رکھا ہے اور اس کی تبلیغ بھی کرتا ہے ۔ اس طرح سے دنیا کے لوگ اسلامی انقلاب کے نزدیک سامراج کے معنی ہیں اسے سمجھ لیں گے -

ہمارے واضح موقف : مفاھمت ، ھمفکری اور کشیدہ دور کرنے کی پالیسی
امریکی سماج کی واضح خصوصیات ، تشدد ، سیکس ، بے بند و باری ، لوگوں کی ایک دوسرے پر زور زبردستی ، طاقت کے سائے میں بد امنی ہیں لیکن وہ ان سب چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں کہتے اور ان سب چیزوں کو نظر انداز کرتے ہيں ۔ جیسا کہ یہ حکومت اپنے زور زبردستی کے حق پر اعتماد کرتی ہے ، اور جارحیت کے لئے خود کو حق بحانب سمجھتی ہے اسی طرح ، نیویارک اور دیگر امریکی شہروں کے سڑکوں پر بھی یہی صورت حال ہے ۔ جس کے پاس بھی طاقت ہوتی ہے اور جو بھی دوسرے کی جیب سے زبردستی رقم نکال سکتا ہے وہ یہ کام کرتا ہے ۔ جس کے ہاتھ میں بھی اسلحہ ہو اور اسکول میں اپنے چار ساتھیوں کو قتل کر سکتا ہو وہ یہ کام کرنے میں خود کو حق بحانب سمجھتا ہے ۔ اس قسم کی منطق کا نتیجہ یہی ہے ۔ یہ بڑے مسائل ہیں جن سے وہ دوچار ہیں ۔ اس کے بعد بھی امریکی صدر ایرانی قوم کو مخاطب کرکے کہتے ہیں کہ عالمی برادری میں واپس آ جائيں ؛ عالمی برادری سے جڑ جائيں ؛ مطلب آپ پوری دنیا کے سامنے کھڑے ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ ایران پوری دنیا کے مقابلے میں کھڑا ہے ۔ لیکن در حقیقت یہ آپ لوگ ہیں جو اپنی زور زبردستی کی وجہ سے دھیرے دھیرے عالمی برادری سے کٹ رہے ہیں ۔ ایران کو دنیا سے کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ ہمارے ایشیا ، یورپ ، افریقا اور دنیا کے اکثر ممالک سے قریبی اور دوستانہ تعلقات ہیں اور ان کے ساتھ ہمارا تعاون ہے ۔ میرا بہت دل چاہ رہا ہے کہ آج صدر ممکلت کے پاس وقت ہوتا تو وہ اپنے دورے کے بارے میں، اس حالیہ دورے کے بارے میں جو بہت کامیاب رہا ہے ، اور اس دورے میں ہوئے مذکرات کے بارے میں اس جلسے میں ایک رپورٹ پی کرتے لیکن شاید وقت نہيں ملا ۔ ہم پوری دنیا کے ساتھ مفاہمت رکھت ےہيں اور ہماری پالیسی ، کشیدگی دور کرنے پر مبنی ہے جو بھی ہم سے کشیدگی نہیں چاہتا ہم بھی اس سے کشیدگی نہںي چاہتے اور ہم ہر اس ملک کے ساتھ تعاون کرتے ہیں جسے ہمارے ساتھ تعاون میں دلچسپی ہو اور یہ ایسی بات ہے جس سے پوری دنیا واقف ہے ۔ ہمارے موقف بہت واضح ہیں ۔

امریکی دھمکیاں کچھ ملکوں تک ہی محدود نہیں رہیں گی
آج دنیا میں بہت سے لوگوں کی سمجھ میں یہ آ گیا ہے کہ اگر زور زبردستی کا یہ عمل جاری رہا تو یہ خطرہ کچھ ممالک تک ہی محدود نہیں رہے گا ؛ صرف عالم اسلام تک بھی محدود نہیں رہے گا ؛ جیسا کہ حالیہ دنوں میں ان کی ایٹمی دھمکی ، روس اور چین کے سلسلے میں غیر سرکاری طور پر سامنے آئي اگر ان کے بس میں ہو تو وہ یورپ کو بھی دھمکیاں دینے سے باز نہيں آئيں گے ۔ یہ عمل اور مذموم حرکت کی کوئی حد نہیں ہے ۔ پوری دنیا کو اس خطرے کا سامنا ہے ۔ جو بھی امریکا کی مطلق العنان طاقت کا انکار کرے گا ، اسے اس قسم کی دھمکی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ یہ ایک یا دو ملکوں سے مخصوص نہیں ہے ۔ اس مذموم عمل کو روکنا چاہئے ۔

دانشوروں کا فرض ، حقائق کی شناخت
ہمارا اس قسم کے عمل سے مقابلہ ہے ۔ ملک کے دانشوروں کا پہلا فرض ، حقائق کی شناخت ہے ۔؛ ملک و قوم و نظام کے لئے بہترین راستے کا انتخاب ، دانشوروں کا فریضہ ہے ۔ شاید کچھ لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ نظام کو کوئی خطرہ نہيں ہے ، شاید کچھ لوگ کہیں کہ نہيں ، حکومت اسلامی کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ کچھ لوگ ہو سکتا ہے خطرے کی بات قبول کریں لیکن یہ سمجھیں کہ یہ خطرے حکومتی نظام کے کچھ شعبوں کے لئے ہے تمام نظام کے لئے نہيں ہے اور وہ خود کو حطرے سے باہر سمجھیں ۔ کچھ لوگ ہو سکتا ہے خطرے کو سنجیدہ سمجھیں لیکن اس کا سد باب ، ہار ماننے اور معافی طلب کرنے میں سمجھں ۔ یہ سارے راستے غلط ہیں ۔ خطرہ ہے اور پورے نظام کے لئے ہے ۔ کوئی یہ تصور نہ کرے کہ سرکش سامراجی جارح ، مکمل تسلط سے کم پر مطمئن ہو جائے گا اور کسی کو ا سکے عہدے پر قائم رکھے گا ۔ الباہ دنیا کی معروف اور گھسی پٹی حکمت عملی یہ ہے کہ دشمنوں کے ایک گروہ میں سے کچھ لوگوں کو فوری طور پر ، دشمنی کے دائرے سے خارج ظاہر کیا جائے تاکہ دوسرے حصوں کو تباہ کرنا ممکن ہو اور پھر اس بچے ہوئے حصے کی طرف جائيں ۔ خطرہ ہے ؛ عام خطرہ اور اس کے سد باب کا طریقہ ، نظام کے اندر طاقت کے عناصر میں اضافہ ہے ۔

جنگ کی صورت میں مکمل دفاع
ہمارے پاس طاقت کے بے پناہ عناصر ہیں ۔ ان کا تحفظ کیا جانا چاہئے اور روز بروز ان میں اضافہ کرنا چاہئے ۔ ہم کمزور نہيں ہیں ، خطرے سے مقابلے کے لئے ہمیں تیار رہنا چاہئے ۔ اگر تیاری نہيں ہے تو ہمیں تیاری کرنی چاہئے اور اگر تیاری ہے تو اس کا تحفظ اور اس میں اضافہ کیا جانا چاہئے ۔ ہم اعلان جنگ کے مقابلے میں ، ھمہ گیر دفاع کا اعلان اور اس پر اعتماد اور اسی پر زور دیتے ہیں اور جنگ کی صورت میں مکمل دفاع اور جوابی کارروائی پر زور دیتے ہیں ۔

جنگ کا خیر مقدم نہیں
ہمارا موقف کیا ہے ؟ ہم کسی بھی جنگ کا خیر مقدم نہيں کرتے ؛ یہ سب کو جان لینا چاہئے ۔ یہ تمام حکام کا متفقہ موقف ہے ؛ جنگ سے پرہیز ہم اپنا فرض سمجھتے ہيں ۔ ہمارا خیال ہے کہ امریکا کا موجودہ رویہ ، علاقے اور پوری دنیا کو ناپائدار بنا رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ہمارا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکا کو اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کے اندازے میں غلط فہمی ہوئی ہے ۔ وہ جو کچھ چاہتے ہیں اس کے حصول کے لئے سب کچھ صرف میزائل اور ایٹم بم ہی نہیں ہیں ۔ دوسری بھی بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے پاس نہيں ہے ۔ وہ ہماری اس عظیم قوم ، حساس علاقے اور ہمارے ذہین حکام کے بارے میں بھی غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ ہمارے پاس افرادی قوت ہے ، جغرافیايی طاقت ہے ۔ ہمارا علاقہ ، بہت ہی حساس علاقہ ہے ۔ اس علاقے میں ناپائداری سے پوری دنیا میں ناپائداری پھیل جائے گی ۔ یہ برے اہم حقائق ہیں کہ جن پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ اسلامی جمہوریہ ایران ، طالبان بھی نہيں ہے کہ جس کی رگ حیات ایک دوسرے ملک سے جڑی ہوئی تھی اسی لئے جب وہ رگ کاٹ دی تووہ خود بخود ختم ہو گئے ۔ اسلامی جمہوری ایران ایک عظیم ملک ہے جس کے پاس با عظمت عوام کی حمایت ، بے پناہ وسائل اور تازگی ہے اور جس کا عالم اسلام میں پرانا ماضی ہے اور جس کی استقامت کی طاقت بے پناہ ہے ۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا دوسرے مقامات سے موازنہ نہيں کیا جا سکتا ۔

حق پر استقامت اور عقل و خرد و دوراندیشی کا استعمال
امریکی فریق کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کمزور رہیں ، وابستہ رہیں ، پٹھو رہيں ، تاکہ ہم آپ پر حملہ نہ کریں اور یہ نا ممکنات میں ہے ۔ ہم کمزور نہيں ، طاقتور ہیں ، عزت دار ہيں ، سربلند ہيں ۔ نہ ہماری قوم ، نہ ہماری حکومت ، نہ ہماری تاریخ اور نہ ہماری ثقافت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہم دشمن کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں اور یہ قوم کسی بھی صورت میں ہار ماننے والی نہیں ہے ۔ ہمارا موقف ، حق پر پائداری اور عقل و خرد و دوراندیشی کا استعمال ہے اور ہم ملک کے تحفظ کی واحد راہ اسی کو سمجھتے ہيں ۔ ہمیں اپنے اس صحیح موقف کی حفاظت کرنی چاہئے اور تمام مراحل میں عقل و خرد و دوراندیشی کا استعمال ہونا چاہئے ۔ اس سلسلے میں دانشوروں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے اور یہ ایک اہم امتحان کا دور ہے :
روزگاری شد و کس مرد رہ عشق ندید
حالیا چشم جہانی نگران من و توست
چشم تاریخ ہمیں اور تمہیں دیکھ رہی ہے ۔ آج آپ ملک کی تاریخ کے ایک اہم دور کی تاریخ رقم کرنے والے ہیں ، پوری توجہ رکھیں ۔ خوش قسمتی سے ، جن اہم شعبوں سے یہ بات متعلق ہے یعنی ، اعلی قومی سلامتی کونسل اور مختلف حکومتی شعبوں سے اس کونسل سے جڑنے والے تمام لوگ ، فعال ہیں اور اچھی سرگرمیوں میں مصروف ہیں دیگر اداروں کو بھی اپنی کوششوں میں اضافہ کرنا چاہئے۔

قانونی فرائص پر بنحو احسن عمل در آمد
کچھ فرائض پر عمل در آمد حتمی ہے اور کچھ کاموں سے پرہیز ضروری ہے ۔ ضروری فرائض میں سے یہ ہے کہ حکام کی جو قانونی ذمہ داریاں ہيں اس پر بخوبی عمل کریں ۔ یہ ، کام کی بنیاد ہے ۔ یعنی مختلف سرکاری ادارے اگر اپنے حقیقی فرائض پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ قانون کے مطابق ان کے ذمے جو کام ہیں اسے بخوبی اور مکمل طور پر انجام دیں ۔ تمام ادارے اپنی مختلف ذمہ داریوں کو اچھی طرح سے نبھائيں ۔ کچھ دوسرے شعبے بھی ہیں جن کا کردار بھی ایسا ہی ہے انہيں بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئے ۔ یہ لازمی فرائض کا حصہ ہے اور ہم سب کے لئے ضروری ہے ۔ ملکوں اور اقوام کی تاریخ میں یہ حساس دور ، ہو سکتا ہے خود اس دور میں رہنے والوں کو معمولی نظر آئيں لیکن ان لوگوں کے لئے ، جو مستقبل میں فیصلہ کریں گے ، آج کا ہر کام اہمیت رکھتا ہے ۔ ہر بیان اور خاموشی اور ہر حرکت اور اقدام کا آئندہ آنے والے نسلیں بغور تجزیہ کریں گی جیسا کہ آج بھی ہمارا ہر کام ، کرام الکاتبین کی نظر میں ہے ۔ الہی ہرکارے ، ہمارے اعمال کا مشاہدہ کر رہے ہيں : «و کنت انت الرّقيب علي من ورائهم و الشّاهد لما خفي عنهم» آج آپ کا ہر قدم موثر ہو سکتا ہے اس لئے باریک بینی کے ساتھ ہر لفظ ، ہر قدم ، ہر موقف اور ہر بیان و خاموشی پر غور کرنا چاہئے ۔ یہ لازمی فرائض کا حصہ ہے ۔

دشمن سے مرعوب نہ ہوں
جو کام نہیں ہونا چاہئے ان میں دشمن سے مرعوب ہونا ہے ۔ ان حالات میں کسی بھی ملک کے لئے سب سے بڑا خطرہ اور سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ دشمن کو یہ محسوس ہونے لگے کہ وہ اپنے فریق کو مرعوب کرنے میں کامیاب ہو گيا ہے بلکہ بڑی طاقتوں کا ایک ہتھکنڈا مرعوب کرنا ہے ۔ کبھی کبھی کمزوروں پر ، بڑی طاقت ہونے کی ہیبت کا اثر ، ہتھیاروں سے زيادہ ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ ، بڑی طاقتوں کے خوف سے خود کو اسی مصیبت میں مبتلا کر لیتے ہيں جو ممکنہ طور پر بڑی طاقت ان کے لئے پیدا کرنے والی تھی ۔ مرعوب نہ ہوں! بہت سے لوگ ، آج کل ہونے والی گفتگو میں اس طرح سے بات کرتے ہيں ، اس طرح کے کام کرتے ہیں کہ اس سے ، ملک کا وہ نظم و نسق خراب ہوتا ہے جس کی آج ان حالات میں ملک کو ضرورت ہے ۔ ہماری نظر میں کچھ تو ، غلط سمجھ کا نتیجہ ہے اور کچھ ، اسی مرعوب ہونے کا اثر ۔

جابروں سے مذاکرات سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔
ایسا نہیں ہے کہ کوئي تصور کرے کہ ان حالات میں ہمارے لئے راہ حل یہ ہے کہ ہم خود زور زبردستی کرنے والے وار دھمکیاں دینے والے جابر سے رجوع کریں؛ اور خود اسی کے ساتھ مشورے کریں! مذاکرات راہ حل نہيں ہے ؛ مذاکرات سے اس قسم کا کوئی مسئلہ حل نہيں ہوتا ۔ دوسرے جن ملکوں کو امریکا دھمکیاں دیتا ہے ، ان کے اور امریکا کے درمیان مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں ، تعلقات بھی ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں دھمکایا جا رہا ہے ۔ اس لئے یہ ہو سکتا ہے کہ مذاکرات بھی ہوں اور جنگ بھی ہو ؛ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مذاکرات نہ ہوں اور جنگ بھی نہ ہو ۔ یہ ممکن ہے کہ جنگ ہو لیکن اس کے ساتھ عزت و کامیابی ہو ۔ ممکن ہے کہ جنگ نہ ہو لیکن جنگ نہ ہونے کے ساتھ ، ذلت و غلامی ہو ۔ یہ کوئي تصور نہ کرے کہ اگر ہم جاکر کہیں کہ آپ کیا فرماتے ہيں ، آپ تو بڑے غصے میں ہیں ، کچھ تو بولیں ، تو مسئلہ حل ہو جائے گا ۔ عزم و توکل فیصلہ کن عنصر ہے ۔ اسی طرح بدحواسی اور مرعوب ہونا بھی دوسری طرف فیصلہ کن عنصر ہے ۔
ہم مذاکرات میں یقین رکھتے ہيں ۔
ہمیں پوری دنیا میں مذاکرات میں دلچسپی رکھنے والا سمجھا جاتا ہے ۔ میں نے ، صدارت کے عہدے سے آج تک ہمیشہ ، وزارت خارجہ اور مختلف اداروں کو تاکید کی ہے کہ جائيں اور مختلف ملکوں اور حکومتوں سے مذاکرات کریں ، عالمی اداروں کانفرنسوں میں شرکت کریں ۔ اپنے بعد کے صدور سے بھی میں نے ہمیشہ یہی کہا کہ دورے کریں ، مذاکرات میں حصہ لیں اور رابطے بنائيں ؛ آمد و رفت رکھیں ۔ ہم بنیادی طور سے مذاکرات میں یقین رکھتے ہيں ؛ لیکن مذاکرات کس کے ساتھ ہوں ، اور اس کا موضوع کیا ہو؟ ایک مشترکہ نتیجے پر پہنچنے کے لئے مذاکرات ہونے چاہئيں ، دونوں فریقوں کو ایک دوسرے پر اعتماد ہونا چاہئے ۔ ایک ایک مشترکہ موقف ہونا چاہئے جہاں تک مذاکرات تک پہنچا جا سکے ۔ جو فریق آپ کو بنیادی طور پر قبول ہی نہیں کرتا ، جو اسلامی جمہوریہ کی شکل میں آپ کے وجود کا ہی مخالف ہو ، اس کے ساتھ آپ کیا مذاکرات کریں گے ؟ وہ کھل کر کہتا ہے کہ وہ دینی نظام کا مخالف ہے ؛ اسلامی جمہوری نظام کا خاص طور پر مخالف ہے؛ کیونکہ وہ پوری دنیا میں مسلمانوں میں بیداری کا باعث بنا ہے ۔ وہ ایران میں اصلاح پسندی کو کھل کر اسلام کی مخالفت سے تعبیر کرتا ہے اور یہ ہمارے بھائی بہن جنہيں یہاں اصلاح پسند کہا جاتا ہے ، انہيں وہ کسی بھی طرح سے اصلاح پسند نہیں سمجھتا! وہ صرف انہی لوگوں کو اصلاح پسند سمجھتا ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ نہ یہ دھڑا باقی رہے اور نہ اس دھڑے کا وجود رہے ؛ وہ لوگ تو چاہتے ہیں اسلامی نظام باقی نہ رہے ۔ اس بنا پر جو بنیادی طور پر اسلامی نظام کا مخالف ہو تو اگر وہ کوئي اقدام کرتا ہے ، یا کسی کے لئے دوستی ظاہر کرتا ہے ، تو یقینا یہ اس کی حکمت عملی کا حصہ اور دھوکا دینے کے لئے ہے ۔ اس کے ساتھ کیسے مذاکرات کئے جا سکتے ہيں ؟ اور اس قسم کے مذاکرات کے کیا ممکنہ نتائج ہو سکتے ہيں ؟

مذاکرات ، مضبوط موقف کے ساتھ ہونے چاہئيں
مذارکرات مضبوطی کے ساتھ ہونے چاہئيں ۔ جو لوگ دھمکیوں کی صورت میں مذاکرات کی بات سوچتے ہيں وہ در اصل با آواز بلند اپنی کمزوری کا اعلان کرتے ہيں ۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے ۔ امام خمینی رحمت اللہ نے تو مذاکرات سے بھی بڑی بات کہی ہے انہوں نے فرمایا ہے : اگر امریکا انسانیت کا مظاہرہ کرے تو ہم اس کے ساتھ تعلقات بھی قائم کر لیں گے ؛ یعنی اگر وہ اپنی سامراجی فطرت چھوڑ دے ، ایک برابر کے فریق کی طرح ، اور ایران میں اپنے اہداف کی تکمیل کے در پے نہ ہو ، تو اس صورت میں وہ بھی دیگر تمام حکومتوں کی طرح ہوگا لیکن حقیقت یہ نہیں ہے ؛ حقیفت کچھ اور ہے ۔ وہ اب بھی پہلوی دور کے تسلط کا خواب دیکھ رہے ہيں ۔ وہ تسلط کے اسی دور کے اعادے کی فکر میں ہیں ۔ وہ اس نظام کے مکمل طور سے مخالف ہیں جو خود مختار ہو اور اپنی پالیسیاں رکھتا ہو ، اپنی بات کہتا ہو ، اپنے دین ، اپنی نظریات اور اپنی ثقافت کی بات کرتا ہو ۔ اگرچہ آج وہ کھل کر یہ بات نہیں کہتے لیکن ان کے بیانوں میں یہ بات جھلکتی ہے ۔

امریکا کو اسلامی نظرئے پر غصہ ہے ۔
امریکا تو ، اصولی طور پر اسلام کا ہی مخالف ہے ، چاہے وہ اسلام حکومت سے الگ ہی کیوں نہ ہو ، جس طرح آج سعودی عرب اور مصر میں ہے ۔ اگر ، فرض کریں کہ امریکی ، یہاں اپنے مقاصد کی تکمیل میں کامیاب ہو جائيں تو اس وقت پتہ چلے گا کہ ان لوگوں کے مقابلے میں اس کا موقف کیا ہے ۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ امریکا حکام نے ایک معروف اسلامی ملک کے ایک وزیر سے کہا تھا کہ آپ اپنے ملک کی درسی کتابوں میں دین اور جہاد کے باتیں کم پڑھائيں ، ان موضوعات کا ، درسی نصاب میں کیوں ذکر کیا جاتا ہے ؟ معاملہ یہ ہے ۔ یہ لوگ ، اسلام ، اسلامی تفکر اور اس اسلام کا مخالف ہیں جو اپنے پیروکاروں کو یہ سکھاتا ہے کہ وہ کسی بھی مادی طاقت سے مرعوب نہ ہوں اور اس سے نہ ڈريں جو در حقیقت قرآن اور اسلام کی خاصیت ہے ۔

دشمن کی زور زبردستی کے مقابلے میں ، حکام میں اتفاق رائے
طاقت کے عناصر کا ہمیں تحفظ کرنا چاہئے ، ہماری طاقت کا اہم ترین عنصر عوام ہيں اور عوام کو میدان عمل میں فعال رکھنے والا سب سے اہم عنصر ، ان کا ایمان اور اتحاد ہے ۔ میں گزارش کرتا ہوں کہ احباب اپنی بیانوں میں اس طرح کی گفتگو نہ کریں کہ عوام کے دلوں میں عدم اتحاد کا شبہ پیدا ہو ۔ صدر مملکت نے صحیح کہا کہ آج الحمد اللہ ان موضوعات کے بارے میں حکام کے درمیان کسی طرح کا اختلاف نہیں ہے ، سب لوگ ایک ہی طرح سے سو چتے ہیں؛ سب ، استقامت ، جد و جہد ، ہار نہ ماننے اور اپنے صحیح موقف پر ڈٹے رہنے کے بارے میں سوچتے ہيں ؛ اور اس کے علاوہ کچھ نہيں سوچتے ؛ عوام کی یہی خواہش ہے ؛ عوام ، حکام کے متحد موقف کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور ان میں تازگی پیدا ہوتی ہے کیونکہ ہمارے عوام ، با ایمان ہيں ۔ دشمن کے پروپگنڈوں سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے جو یہ کہتا ہے کہ عوام ، نظام سے الگ ہو گئے ہیں ؛ ایسا نہیں ہے ۔ عوام ، اسلامی نظام سے عقیدت اور اس پر ایمان رکھتے ہيں اور انصاف تو یہ ہے کہ انہوں نے تمام مرحلوں میں اس نظام کے تئیں اپنی وفاداری ثابت کی ہے ۔ ہم حکام نے بہت سی کوتاہیاں کی ہیں لیکن عوام نے کوتاہی نہيں کی ؛ کبھی کریں گے بھی نہيں ؛ ہمیں بھی کوتاہی نہيں کرنی چاہئے ۔ مختلف اداروں کے عہدے داروں کو قانون کے دائرے میں اپنی ذمہ داریوں پر پوری طرح سے ، شفافیت کے ساتھ عمل در آمد کرنا چاہئے ۔ یہ ہماری قوم کا حق ہے ۔ یہ ہمارے اتحاد کا اہم ترین عنصر ہے ۔

حکام کے درمیان اختلاف ، دشمن کے لئے سب سے بڑی ترغیب
ہر قسم کا اختلاف ، دشمن کو حملے کی ترغیب دیتا ہے ۔ کچھ لوگ کہتے ہيں : دشمن کو حملے کی ترغیب نہ دیں ، میں بھی متفق ہوں ؛ دشمن کو حملے کی ترغیب نہیں دی جانی چاہئے ؛ لیکن کیا آپ جانتے ہيں دشمن کو کس چیز سے حملے کی ترغیب دی جاتی ہے ؟ دشمن کو حملے کی سب سے بڑی ترغیب یہ ہے کہ اسے یہ محسوس ہو جائے کہ ملک کے حکام میں اختلافات ہیں ؛ سیاسی رہنماؤں کے درمیان اختلاف ہے ۔ یہ جس اتحاد پر میں ، دیگر حکام اتنی تاکید کرتے ہیں وہ مختلف سیاسی امور میں اتحاد نہیں ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ سیاسی و اقتصادی مسائل میں حکام کے درمیان اختلافات ہوں ؛ لیکن دشمن کی زور زبردستی کے مقابلے میں ایرانی قوم کی استقامت اور جد و جہد پر اتفاق رائے ہے ۔ سب کو اس موقف پر متفق رہنا چاہئے اور سب متفق ہيں بھی تاہم اس کا اظہار بھی کیا جانا چاہئے ۔ حکام کو اپنے اس اتفاق رائے اور اتحاد کا اعلان کرنا چاہئے ۔ جو چیز بھی اس اتحاد کو ختم کرے اور اختلافات کی نشاندہی کرے وہ دشمن کے لئے ترغیب ہوگی ۔ جو لوگ ، غیر قانونی اور ناجائز چینلوں اور دشمن کی خفیہ ایجنسیوں سے وابستہ اداروں کے ذریعے اپنے بیانات پوری دنیا میں نشر کرتے ہيں اور اسلامی جمہوریہ ایران کو رضا خان اور نادر کی آمریت سے مشابہ قرار دیتے ہیں ، وہ لوگ دشمن کی حوصلہ افزائی کرتے ہيں ۔

امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے درس ہمارے دلوں میں زندہ ہیں
یقینا ہم خدا کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمارے دلوں کو خود پر ایمان سے مضبوط کیا ہے ؛ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ، امام خمینی رحمت اللہ علیہ کے عظیم درس ، ہمارے دلوں میں محفوظ رکھے ہیں ؛ خدا کا شکر ہے کہ اس نے اس شخصیت سے ہمیں روشناس کرایا جو تقوی و شجاعت و توکل اور انسان میں الہی قدرت کے تجسم کا نمونہ تھی ۔ ہم نے ان کا مشاہدہ کیا اور ہم پر اتمام حجت ہو گئ ؛ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے دل ، ان حقائق کو جانتے ہيں ۔ خدا کو ذہن میں رکھ کر ان حقائق کو اپنے دلوں میں روز بروز مضبوط کریں ۔ پائدار رہيں کہ حق آپ کے ساتھ ہے اور کامیابی بھی آپ ہی کو حاصل ہوگی ۔
خداوندا! ہم پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما۔ خداوندا! اس شرکت کو اور اس جلسے میں ہماری موجودگی اور ہم نے جو کچھ کہا اور سنا ہے اسے اپنے لئے ، اپنی راہ میں قبول فرما ۔ بار الہا ! اسلام اور مسلمانوں کو سر بلند فرما ؛ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو ذلیل و خوار فرما ۔ بار الھا ! محمد و آل محمد اپر صلوات بھیج اور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کو ہم سے خوشنود فرما اور ہمیں اپنی ، اور ان کی مدد سے نواز ۔

و السّلام‏عليکم ‏و رحمة الله ‏و برکاته