قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں امریکہ کی عیارانہ پالیسیوں اور بیانات کا تجزیہ کیا اور ایران کے اصولی موقف کے دلائل پیش کئے۔
خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
طلبا و طالبات، اساتذہ کرام کا بالخصوص ان لوگوں کا خیر مقدم کرتا ہوں جو دور سے تشریف لائے ہیں۔ یہ دن اور یہ ایام ایرانی قوم کے لئے بہت اہم ہیں۔ یہ دن استکبار سے جس کا مظہر آج عالمی سامراج و استبداد یعنی وہی امریکی حکومت ہے، اس کے خلاف ایرانی قوم کی جدوجہد کا قومی دن ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس تاریخ کو جو تین بڑے واقعات رونما ہوئے ہیں، ان تینوں میں مذکورہ دونوں فریقوں کا ٹکراؤ ہے۔ ان میں سے کسی میں ایرانی قوم مظلوم واقع ہوئی ہے، اس پر ستم ہوا ہے، ظلم ہوا ہے اور کسی میں امریکی فریق کو اس کے ظلم و ستم کی سزا ملی ہے۔ میرے خیال میں امریکی جاسوسی اڈے پر، ایرانی قوم کے مومن، بہادر اور مجاہد نوجوانوں کے قبضے کو اس نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔
آج امریکی جس سیاست کی قیادت کرتے ہیں، اس میں معاملات کو اس طرح نہیں دیکھا جاتا۔ اس قضیئے کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ دوسرے ملکوں کی طرح تہران میں امریکا کا بھی سفارتخانہ تھا۔ بین الاقوامی قوانین کا خیال نہ کرنے والے کچھ غیر مہذب لوگوں نے حملہ کیا اور سفارت خانے پر جو امریکیوں کا گھر تھا، قبضہ کر لیا اور سفارتکاروں کو گرفتار کر لیا۔ دنیا میں اس واقعے کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے۔ جب کہ یہ غلط اور حقیقت کے خلاف ہے۔ قضیہ اس طرح نہیں ہے۔ اصلی قضیہ یہ ہے کہ اٹھائیس اگست انیس سو ترپن کی فوجی بغاوت کے ذریعے امریکی حکومت ایران میں ایک جابر حکومت برسراقتدار لائی، پچیس سال تک اس ظالم و جابر، غاصب، خیانت کار اور فاسد نظام کی ہر طرح سے اس نے حمایت کی۔ آخری سال میں، یعنی اس غلط، باطل اور فاسد حکومت کے تقریبا آخری سال میں، وہی حضرت (1) جو اس وقت اپنے چہرے پر عوام دوستی کی نقاب چڑھائے ہوئے ہیں اور دنیا کے ہر گوشے میں، بین الاقوامی واقعات میں بے جا اور غیر تعمیری مداخلت کرتے پھرتے ہیں، امریکا کے صدر تھے۔ امریکا کے ڈیموکریٹ، اسی عالم میں جب یہ قوم، فاسد وغاصب حکومت کے ہاتھوں بہت ہی سخت ایام گذار رہی تھی، ایران آئے۔ ایرانی قوم کی روٹی کھائی، غاصب حکام کے رنگین دسترخوان پر بیٹھے، مزے اڑائے اور مستی کے عالم میں کھڑے ہوکر اعلان کیا کہ ایران بہترین حکومت کا مالک ہے۔ پر امن ترین جگہ ہے اور جو لوگ برسراقتدار ہیں، وہ بہترین حکام ہیں۔ گویا کہنیوں تک قوم کا خون میں ڈوبا ہوا شاہ کا ہاتھ انہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔
امریکیوں نے یہ کام کیا۔ کچھ دنوں کے بعد اسکولی طلبا اور ہمارے پھول سے بچوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا گیا۔ یہ وار انہوں نے لگایا۔ ان سب کے باوجود ایرانی قوم نے اپنی شرافت کا ثبوت دیا۔ انقلاب کامیاب ہوا تو یہاں کسی نے امریکیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ انہیں کسی نے پریشان نہیں کیا۔ ان سے سفارتخانہ واپس نہیں لیا۔ انہیں روانہ کیا۔ احترام کے ساتھ وہ اپنے گھر گئے۔ کسی کو ان کے کام سے کام نہیں تھا۔ ان میں سے کچھ لوگ سفارتخانے میں باقی رہے۔ لیکن انہوں نے سازش کرنا شروع کر دیا۔ انقلاب کے مخالفین سے رابطہ قائم کیا۔ پہلوی حکومت کی باقیات کو جو یہاں اپنی حیات جاری رکھنے کی طرف سے مایوس ہو چکے تھے، سیکھانا شروع کر دیا۔ ایرانی قوم ہوشیار ہے، ایرانی قوم غافل نہیں ہے، وہ سمجھتی ہے کہ امر واقعہ کیا ہے۔
چار نومبر انیس سو اناسی کو ایرانی طلبا نے جلوس نکالا اور جاکے سازشوں کے اس اڈے کو ختم کر دیا۔ قضیہ یہ ہے۔ میں آج عرض کروں گا کہ انیس سو اناسی میں ہمارے طلبا کا یہ کام اسلامی انقلاب میں انجام پانے والے بہترین کاموں میں سے تھا۔ کچھ بے عقیدہ لوگوں کی جن کے بارے میں میرا نظریہ یہ ہے کہ وہ سطحی اور کمزور لوگ ہیں، ان کی باتوں پر یقین نہ کریں۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ یہ بکے ہوئے لوگ ہیں۔ میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ کینہ رکھنے والے لوگ ہیں۔ نہیں، یہ کمزور ہیں۔ انقلابات کو معمولا کمزور لوگوں نے ہی ختم کیا ہے۔ ملکوں کو بھی کمزور لوگوں نے ہی برباد کیا ہے۔ طاقتور اقوام کو بھی معمولا کمزور لوگ ہی جو اقتدار تک پہنچتے ہیں، ختم کرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ کچھ کمزور لوگ یہاں آکے وسوسہ پیدا کریں اور ہمارے نوجوان اور ہمارے طلبا سوچیں کہ اس کا کیا تک تھا کہ ہم نے جاسوسی کے اڈے پر قبضہ کر لیا؟ نہیں جناب، انقلاب میں جو بہترین کام ہوئے ہیں ان میں سے ایک یہی تھا۔ امام خمینی کوئی نوجوان نہیں تھے کہ آپ کہیں کہ جذبات میں آ گئے اور ایک بات کہہ دی۔ امام خمینی نے اس تجربہ کار، دنیا دیکھے ہوئے حکیم نے اپنی گہری بصیرت کے ساتھ، طلبا کے اس اقدام کی اتنی تعریف کی۔ بنابریں امام خمینی نے حقیقت کو سمجھ لیا تھا۔ ہم بھی اسی بات کی، پیروی کے لحاظ سے نہیں بلکہ احساس کے لحاظ سے بینش کے لحاظ سے اور منطق کے لحاظ سے اس کی تصدیق اور تائید کرتے ہیں۔
یہ کام بہترین کاموں میں سے تھا۔ کیوں؟ اس لئے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پوری دنیا میں بہت سے انقلابات آئے۔ افریقا میں، ایشیا میں، یورپ میں، بہت سے ملکوں میں حکومتیں ختم ہو گئیں۔ یہ ممالک دو گروہوں میں بٹے ہوئے تھے۔ بعض ممالک وہ تھے کہ جنہوں نے خود کو پوری طرح مشرقی بلاک یعنی روسیوں کے حوالے کر رکھا تھا اور بعد میں چینیوں سے وابستہ ہو گئے تھے۔ ان پندرہ برسوں میں جو اسلامی جمہوریہ کی عمر کو ہو رہے ہیں، خدا نے ہمیں ان ملکوں کے بہت سے حکام کو قریب سے دیکھنے کا موقع دیا۔ حتی ان کے دانشوروں اور صاحبان تدبیر کو یقین آ گیا تھا کہ انہیں مشرقی بلاک سے وابستہ رہنا چاہئے اور دو سال پہلے جو واقعہ رونما ہوا اس کو وہ ناممکنات کے زمرے میں شمار کرتے تھے۔
کچھ تو کمیونزم کے زیر سایہ مشرقی بلاک میں چلے گئے اور اس خاندان کا حصہ بن گئے مگر اس خاندان کے دوسرے درجے کی رکنیت انہیں ملی، پہلے درجے کی نہیں۔ ایک گروہ ان ملکوں کا تھا جن کا انقلاب اور عوام کی محنتیں واقعی خاک میں مل گئیں۔ عوام کی تمام قربانیاں درحقیقت ضائع ہو گئیں۔ دوسرا گروہ ان ملکوں کا تھا کہ مشرقی بلاک سے ان کا رابطہ اتنا محکم نہیں تھا۔ بعد میں امریکیوں نے ان ملکوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کیا۔ عوام کے ارادوں، رہبروں کے ارادوں اور اقوام کے عام رجحان کو تدریجی طور پراس طرح تبدیل کیا کہ جو انقلاب آیا تھا وہ سوفیصد پہلی حالت پر پلٹ گیا بلکہ حالت پہلے سے بدتر ہو گئ۔ اس کے نمونے افریقی ملکوں میں اور دوسری جگہوں پر موجود ہیں۔ میں ان ملکوں کا نام نہیں لینا چاہتا۔
اگر گذشتہ تیس چالیس سال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ان ملکوں کو دیکھیں گے کہ امریکی حکومت کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ کس طرح ؟ یا مرعوب ہوکر، یا لالچ میں آکر، یا محتاجی وجہ سے، یا دباؤ سے متاثر ہوکر۔ ان آزاد ملکوں اوراقوام پر انواع و اقسام کے دباؤ ڈالے جا رہے تھے۔ انہوں نے بھی رابطہ مکمل طور پر منقطع نہیں کیا تھا۔ سفیر بھی تھا، امریکی حکام بھی تھے۔ وسوسہ پیدا کرتے تھے۔ جاتے تھے آتے تھے۔ حتی انقلابوں کے لیڈروں اور اقوام کے رہنماؤں کا دل اپنی طرف موڑنے کی کوشش کرتے تھے۔ ڈراتے تھے۔ مرعوب کرتے تھے اور جو مرعوب ہو گیا اس کو معمولی سی دھمکی سے میدان سے باہر کیا جا سکتا ہے۔
اگر یہ نہ کہیں کہ تمام انقلابات کا تو اکثر انقلابات کا یہی حشر ہوا۔ جو ہم نے نزدیک سے دیکھا اور جو اسی وقت دنیا کی خبروں میں دیکھا، انقلاب سے پہلے بھی اور انقلاب کے بعد بھی، بعض میں انقلاب کے بعد دیکھا، یہی تھا۔ پلٹ جانے کا عامل کیا تھا؟ یہ تھا کہ ان ملکوں کے ساتھ امریکا کی جارح اور استبدادی حکومت کا مسلط کردہ رابطہ پوری طرح منقطع نہیں ہوا تھا۔ چونکہ رابطہ برقرار تھا، یہ رابطہ خود اس بات کا موجب بنا کہ طاقتور حریف اس رابطے سے فائدہ اٹھائے اور مذاکرات کی نشستوں میں، گفتگوکی میز پر، گوناگوں معاملات میں مسلسل کمزور فریق پر دباؤ ڈالے۔ یہاں تک کہ اس کو محبور کر دے کہ اس کے حق میں میدان کو چھوڑ دے۔
ایران میں امریکی جاسوسی اڈے پر قبضے نے امریکا اور اسلامی انقلاب کے درمیان آخری ممکن رابطے کو بھی منقطع کر دیا۔ اس نے ہمارے انقلاب کی بہت اہم خدمت کی۔ ممکن ہے کہ اس دن جن نوجوانوں نے یہ کام کیا اس کے گہرے اور مختلف درجات کے اثرات ان کے پیش نظر نہ رہے ہوں۔ اس کا احتمال ہے۔ نوجوان ایمان اور جذبے کے ساتھ کوئی کام کرتے ہیں مگر خدا اس کام میں اتنی برکتیں قرار دیے دیتا ہے۔ کام ایمان اور اخلاص کے ساتھ انجام دیا گیا تھا اور خدا ہمیشہ ایمان اور اخلاص کے ساتھ کئے جانے والے کاموں میں عظیم اثرات پیدا کرتا ہے۔ اس کو جان لیں۔ جو کام بھی آپ اخلاص سے کریں گے خدا اس میں برکت دے گا۔ جو کام بھی مادی حساب کتاب کے ساتھ کریں گے، وہ متزلزل ہوگا۔ ممکن ہے اس کا کوئی تنیجہ مل جائے۔ اکثر اوقات نتیجہ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس جو کام ایمان اور اخلاص کے ساتھ خدا کے لئے کریں من کان للہ کان اللہ لہ (2) جو خدا کے لئے ہو، خدا کی طاقت اس کے ساتھ ہوتی ہے اور اس کی نصرت کرتی ہے۔ سفارتخانے کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا۔ اس نے وہ رابطہ کاٹ دیا۔ اس بعد سے آج تک کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کو پندرہ سال اور امریکی جاسوسی اڈے پر قبضے کے واقعے کو چودہ سال کا عرصہ ہو رہا ہے، اب بھی امریکی اس کوشش میں ہیں کہ وہی باریک رابطہ جو جاسوسی اڈے پر قبضے سے منقطع ہو گیا ہے، دوبارہ برقرار ہو جائے۔ اب بھی وہ اس کوشش میں ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ طاقتور فریق اسی باریک رابطے سے کمزور فریق پر اپنے مطالبات مسلط کرنے کے لئے فائدہ اٹھاتا ہے۔ امریکیوں کے بیانات کو دیکھیں۔ آج کل ڈیموکریٹ صدر، اس طرف کا صدر، مختلف امریکی شخصیات (3) سب یہ بات کہہ رہے ہیں جو میں عرض کر رہا ہوں۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ ہم ایران سے رابطہ برقرار کرنا چاہتے ہیں نہیں، رابطے کی بات ہوتی ہے تو شرائط لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ اگر ایسا ہو، اگر ویسا ہو، میں نے کبھی کہا ہے کہ ہماری بات میں اور امریکیوں کی بات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم ان کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ان سے کبھی رابطہ برقرار ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم سے رابطہ برقرار کرنا ہوتو یہ کام کرو وہ کام کرو ان دونوں میں تعلق کیا ہے؟ جیسے وہ اس ملک سے بات کر رہے ہیں کہ جس نے دسیوں لوگوں کو بیچ میں ڈالا ہوکہ ہم تم سے رابطہ برقرار کرنا چاہتے ہیں شرط لگاتے ہیں۔ کیا شرط؟ اس ملک سے رابطے کے لئے جس نے تاریخ میں اتنے المناک کام کئے ہیں، ہم شرط پیش کریں گے۔ ہماری شرط اس ملک کی توبہ ہے۔ ہماری شرط یہ ہے کہ دنیا میں وحشتناک جرائم کا سلسلہ بند ہو۔ تم ہمارے سامنے شرط رکھتے ہو؟ رابطے کو مشروط کرتے ہیں مگر گفتگو کو غیر مشروط، توجہ دیں!
میں چاہتا ہوں کہ ہمارے یہ نوجوان، یہ طلبا و طالبات، حتی اسکولوں کے طلبا و طالبات، دنیا کے انتہائی چھوٹے سیاسی واقعات پر بھی غور کریں، ان کا تجزیہ کریں۔ فرض کریں کہ تجزیہ حقیقت کے خلاف ہو تب بھی کریں۔ خدا کی لعنت ہو ان عناصر پر جنہوں نے ہمارے نوجوانوں اور یونیورسٹیوں کو غیر سیاسی بنانے کی کوشش کی ہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ جس ملک کے نوجوان سیاسی نہ ہوں، سیاسی امور سے دور ہوں، دنیا کے سیاسی مسائل کو نہ سمجھیں، دنیا کی سیاسی تحریکوں کو نہ سمجھیں اور صحیح تجزیہ نہ کر سکیں، کیا وہ ملک کے عوام کے سہارے حکومت اور کوئی تحریک، جدوجہد اور مجاہدت چلا سکتا ہے؟ یہ استبدادی حکومتوں میں ہوتا ہے، مستبد حکومتوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ لوگ سیاست سے دور رہیں۔ ان کے پاس سیاسی شعور اور فہم نہ ہو۔ لیکن جو حکومت چاہتی ہو کہ عوام کے ہاتھوں بڑے کام انجام دے، نظام کو عوام کی بیکراں طاقت کے سہارے منزل مقصود تک پہنچانا چاہے، نظام کا سب کچھ عوام کو سمجھتی ہو، یہ نہیں چاہ سکتی۔ کیا عوام بالخصوص نوجوانوں کو یونیوسٹی طلبا کو سیاست سے دور رکھا جا سکتا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے؟ سب سے بڑا عالم اور سب سے بڑا دانشور اور سائنسداں بھی اگر سیاسی فہم و شعور نہ رکھتا ہو تو دشمن ایک کھٹی لالی پاپ دکھاکے بھی انہیں اس طرف کھینچ سکتا ہے۔ اپنی طرف ملا سکتا ہے۔ اپنے اہداف کے راستے پر ڈال سکتا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو ان نکات کو سمجھنا چاہئے۔
امریکا کہتا ہے آؤ مذاکرات کریں یہ نہیں کہتا کہ آؤ رابطہ برقرار کریں مذاکرات یعنی کیا؟ یعنی وہ رابطہ جو اسلامی جمہوریہ نے منقطع کر دیا اور وہی اس بات کا سبب بنا کہ دنیا کی اقوام کی محبتیں خلوص کے ساتھ اس نظام کو حاصل ہوئیں، اس کو دوبارہ برقرار کریں۔ یعنی پہلے درجے میں ایک نمایاں وار اسلامی جمہوریہ پر لگائیں۔ اور چونکہ پروپیگنڈے کے ذرائع بھی ان کے اختیار میں ہیں، دنیا پر یہ ظاہر کریں کہ اسلامی جمہوریہ اپنی بات سے پلٹ گئی ہے۔ دلیل کیا ہے؟ دلیل یہ ہے کہ ایران، امریکا کے ساتھ مذاکرات کے لئے بیٹھا ہے۔ اس وقت ایشیا اور افریقا کی تمام اقوام، مختلف ملکوں میں اور خود یورپ میں اور امریکا میں عوام میں مایوسی پھیل جائے گی۔ جن مسلم حتی غیر مسلم اقوام میں امید پیدا ہو گئی ہے وہ مایوس ہو جائیں گی۔ ہمارے امام خمینی کی وہ پر وقار شبیہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کی علامت ہے اور اس کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے وہ مخدوش ہو جائے اور وہ کہیں نہیں جناب اسلامی جمہوریہ نے بھی توبہ کر لی ہے، یا یہ کہیں کہ چونکہ امام خمینی اس دنیا سے چلے گئے اس لئے اسلامی جمہوریہ پلٹ گئی۔ اگر آپ کو یاد ہو تو امام خمینی کی رحلت کے بعد دشمن کا ایک پروپیگنڈہ یہ بھی تھا کہ امام چلے گئے اور انہوں نے ان کا راستہ چھوڑ دیا ہے اس لئے کہ وہی احساس اقوام میں پیدا کریں یا یہ کہیں یا اس سے بھی بڑھکر یہ کہیں کہ امام خمینی نے کب کہا تھا کہ ہم امریکا سے مذاکرات نہ کریں ؟ امام نے کب یہ بات کہی تھی ؟ امام خمینی نے اپنے زمانے کے چند دنوں کے لئے کہا تھا۔ اسی تھوڑے سے عرصے کے لئے کہا تھا۔ امام نے ہمیں کب روکا تھا؟ یعنی حتی امام کے نظریات میں بھی ردوبدل کرنا چاہتے ہیں جبکہ امام خمینی نے اپنی سیکڑوں تقاریر اور بیانات میں صراحت کے ساتھ یہی کہا ہے۔
اس کام سے پہلا وار یہ لگانا چاہتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی وہ عزت و آبرو، وہ حیثیت و مقام اور وہ وقار اور مرتبہ جو اس کو دنیا کی مسلم اقوام میں اسے حاصل ہے، ختم کر دیں۔ ایرانی قوم کیا کوئی معمولی قوم ہے؟ ایرانی قوم افریقی یا یورپی پودے سے تو نہیں نکلی ہے۔ یہ ایک قدیمی قوم ہے جس کی ہزاروں سال کی تاریخ ہے۔ اسلام آنے کے بعد تیرہ سو چودہ سو سال تک ہمیشہ مسلم اقوام میں سب سے آگے رہی ہے اور پھر یہ قوم، وہ بھی اپنے اس انقلاب کے ساتھ، اپنی ان باتوں کے ساتھ سب کچھ ایک طرف رکھ کے پلٹ جائے گی؟ امریکا سے مذاکرات شروع کرے گی؟ جیسے ہی اسلامی جمہوریہ ایران نے یہ کہا کہ ہاں ہمیں مذاکرات منظور ہیں یا اس کا عندیہ دیا، یا ایسا کوئی عمل کیا کہ جس سے یہ ظاہر ہو کہ اس کو امریکا سے مذاکرات پر اعتراض نہیں ہے، یہ پہلا وار ہوگا اور پھر اپنی باتیں منوانے اور مسلط کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
جب تک آپ کسی سے ناراض ہیں، بات نہیں کرتے، اس وقت تک کوئی لحاظ اور پاس نہیں ہے۔ آمنے سامنے ہونے پر ایک دوسرے سے کوئی توقع نہیں رکھتے۔ لیکن جب کسی سے مذاکرات شروع کر دیں، میز پر بیٹھ جائیں، چائے پی لیں، دوستانہ باتیں کر لیں، کسی بین الاقوامی نشست میں ایک دوسرے سے احوال پرسی کر لیں، تو مروت اور لحاظ و پاس بھی وجود میں آ جاتا ہے۔ پھر اپنی باتیں مسلط کرنے کے سلسلے کا آغاز ہوگا۔ دنیا کے انقلابات کی بدبختی اور امریکا کے تسلط اور نفوذ کا آغاز جیسا کہ میں نے عرض کیا، اسی طرح ہوا ہے۔ جیسے وہ ممالک ہیں جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا، آج ان ملکوں کی شبیہ بہت خراب ہے۔ اس لئے مذاکرات پر اصرار کرتے ہیں، دباؤ ڈالتے ہیں کہتے ہیں کہ ایران مذاکرات کیوں نہیں کرتا؟ ہمارے اندر بھی کچھ لوگ جو سادہ لوح ہیں، یا پتہ نہیں مرعوب ہیں، انہیں اطلاع نہیں ہے، یا سیاست سے نابلد ہیں، انہیں باتوں کی تکرار کرتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ سمجھتے بھی ہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں یا نہیں؟
میرا نظریہ یہ ہے کہ یہ باتیں جو کبھی اسلامی جمہوری نظام کے دوسرے اور تیسرے درجے کے بعض لوگوں کی جانب سے جو یہ باتیں کہی جاتی ہیں ان سے ظاہر ہے کہ الحمد للہ حکومت، صدر مملکت اور وزراء میں پروردگار کے فضل سے حقیقی، معنوی اور صحیح جذبہ پایا جاتا ہے اور خدا کے لئے ان کے اندر پائیداری موجود ہے لیکن درجہ دو اور تین کے بعض عہدیدار جو عام طور پر غیر ذمہ دار افراد ہیں، کبھی یہ بات کرتے ہیں کہ یہ امریکا سے مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟ ان سے بات کیوں نہیں کرتے؟ بات کرنے میں کیا نقصان ہے؟ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دو معمولی انسانوں کا بات کرنا ہے کہ ایک گوشے میں بیٹھے اور بات کر لی۔ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ مذاکرات جن پر دشمن اتنا اصرار کر رہا ہے، اسلامی جمہوریہ کے لئے کتنے بڑے خطرات پیدا کر سکتے ہیں، جن کا ایک چھوٹا حصہ میں نے بیان کیا۔
میرا نظریہ ہے کہ ان کی طرف سے بھی ان باتوں کی تکرار بری ہے۔ میں عرض کر دوں کہ یہ میرا نظریہ ہے۔ میرا نظریہ ہے کہ عمل طور پر گناہ کو پھیلانے کا ایک راستہ یہ ہے کہ پہلے زبانوں پر اس کو رائج کیا جائے۔ اتنا کہیں کہ اس کی قباحت ختم ہو جائے۔ آپ فلسطین کا قضیہ اور وہ برا انجام جو بعض فلسطینیوں نے اپنے لئے اور فلسطینی قوم کے لئے قبول کر لیا ہے، دیکھیں۔ آج یہ تجربہ بہت عبرتناک ہے۔ گوشہ وکنار میں اتنا کہا گیا اور دوسروں نے اس کی اتنی تکرار کی۔ کہا کہ کیا مضائقہ ہے کہ ہم اسرائیل سے گفتگو کریں؟ پھر یہ نہیں کہا کہ غاصب دشمن یہ نہیں کہا کہ یہ غاصب دشمن ہے۔ یہ فلسطینیوں کے گھر میں بیٹھا ہے۔ کیسے مذاکرات ؟ ان سے مذاکرات یہ ہیں کہ کہا جائے کہ غاصب ہمارے گھر سے باہر نکل غاصب کے ساتھ گفتگو اس طرح ہونی چاہئے۔ ظالم کے ساتھ مذاکرات اس طرح ہونا چاہئے کہ کہا جائے کہ اے ظالم اتنا ظلم کیوں کرتا ہے؟ گفتگو یعنی یہی، ورنہ دوستانہ مذاکرات کہ جائیں، بیٹھیں، مسکرائیں، ایک بات وہ کہے، ایک بات یہ کہیں، سودے بازی کریں اور یہ کہا جائے کہ اب غاصب پر ہمیں یہ اعتراض نہیں ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں؟ جن لوگوں نے اسرائیل سے مذاکرات کی بات کی اور اس کی بار بار تکرار کی کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا یہاں تک کہ نگاہوں میں اس کی برائی اور قباحت ختم ہو گئی اور سرانجام یہ سیاہ دن سامنے آیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جو لوگ ایرانی قوم کے اندر یہاں وہاں مذاکرات کا نام لیتے ہیں، ان کا قصد بھی یہی ہے۔ ایرانی قوم کو سامراجی دشمن سے مذاکرات، صلح اور رابطے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا آپ کمزور ہیں؟ کیا ایرانی قوم کوئی معمولی قوم ہے؟ کیا ایرانی قوم اپنے دفاع پر قادر نہیں ہے؟ ہمیں مستکبرین، مستبدین اور بین الاقوامی ڈکٹیٹروں کے دروازے پر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے گذشتہ سال کہا تھا کہ یہ لوگ جو ڈیموکریسی کا نام لیتے ہیں اور بظاہر اپنی اقوام کے لئے ڈیموکریسی کا پرچم اٹھاتے ہیں، یہ بھی جھوٹ ہے۔ ان ملکوں میں حقیقی جمہوریت نہیں ہے۔ یہی لوگ ہیں جو بین الاقوامی سطح پر بڑی ڈکٹیٹر شپ وجود میں لاتے ہیں۔ جہاں ان کا دل چاہتا ہے داخل ہو جاتے ہیں۔ جہاں دل چاہتا ہے، تفتیش کرتے ہیں اور افسوس کہ ایک ایسا سسٹم بھی موجود ہے جس سے یہ حربے کے طور پر کام لیتے ہیں یعنی اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل۔ کیا ضرورت ہے کہ ہم ڈکٹیٹروں کے پاس جائیں ان کی تعظیم کریں اور کہیں کہ تشریف لائیے ہم سے مذاکرات کیجئے۔ جی نہیں۔ یہ ڈکٹیٹر وہی ہے جس کو اس قوم نے اس وقت جب اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، خالی ہاتھوں صرف نعروں کے ذریعے، اپنے گھر سے نکال باہر کیا۔ یہ وہی ڈکٹیٹر ہے۔
اس وقت جب دنیا دو بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی۔ البتہ کہتے ہیں کہ آج دنیا ایک قطبی ہے اور ہمارے لئے زیادہ خطرناک ہے۔ اس کے باوجود کہ دونوں بلاک آپس میں سیکڑوں اختلاف رکھتے تھے مگر ایران کے قضیے میں ان میں اختلاف نہیں تھا۔ اس کا نمونہ آپ نے دیکھا کہ دونوں نے جنگ میں عراق کی مدد کی۔ امریکیوں نے بھی مدد کی، روسیوں نے بھی مدد کی۔ نیٹو نے بھی مدد کی اور وارسا نے بھی مدد کی۔ سب نے عراق کی مدد کی۔ آج بہت سے ممالک ہیں جو اس طرح امریکا کے زیر اثر نہیں ہیں۔ البتہ معمولی سی پیروی کرتے ہیں لیکن اس زمانے میں، جب سوویت یونین تھا۔ پورا مغربی یورپ امریکا کے اختیار میں تھا اور مشرقی یورپ اس کے اختیار میں۔ دنیا کی بقیہ جگہیں بھی اسی طرح تھیں۔ اس زمانے میں پوری دنیا امریکا اور روس کی قیادت پر متفق تھی۔ اس جنگ میں ایران کو شکست دینے کے لئے، وہ متحد ہوئے مگر نہ دے سکے۔ یہ ماضی کی تاریخ کی بات نہیں ہے۔ یہ تو یہی چند سال پہلے کی بات ہے۔ تمام ایرانی عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کیا یہ دونوں طاقتیں خوزستان کو ایران سے الگ کرنے کے لئے، متحد نہیں ہوئی تھیں؟ کیا ایسا نہیں تھا کہ دونوں اسلامی جمہوریہ ایران کو ذلیل، کمزور، اور ختم کرنے کے لئے متحد ہوئیں مگر نہ کرسکیں؟ کیا ایسا نہیں تھا؟ اس زمانے میں دو طاقتیں تھیں۔ دونوں قوی تھیں۔ ایران کے معاملے میں دونوں متحد ہوئیں لیکن کچھ نہ کر سکیں۔ آج یہ کیا کر سکتے ہیں؟ کیوں ڈرتے ہو؟ قرآن کیوں نہیں پڑھتے جو بار بار کہتا ہے کہ الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوھم فزادھم ایمانا و قالوا حسبنا اللہ و نعم الوکیل (4) دشمن سے ڈرتے کیوں ہو؟ دشمن کمزور ہے۔ دشمن ناتواں ہے۔ دشمن آج بھی ایران پر دباؤ ڈالنے کے لئے یورپ کی خوشامد کر رہا ہے۔ اس ملک اور اس یورپی ملک کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ آؤ ہم سے متحد ہو جاؤ تاکہ ایران پر دباؤ ڈال سکیں۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ وہ اکیلا دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ عظیم قوم اپنی معنوی اور اسلامی طاقت کے ساتھ، اس کی مادی طاقت پر غالب رہی ہے؟ غور کیوں نہیں کرتے؟
خدا کا شکر ہے کہ ہماری قوم بیدار ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ہمارے نوجوان بیدار ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ یونیورسٹی طلبا بیدارہیں۔ طالب علمو' بیدار رہو۔ آج یونیورسٹیوں کی جو حالت ہے، آپ سے صراحت کے ساتھ کہتا ہوں کہ مجھے یہ صورتحال پسند نہیں ہے۔ جو طالب علم یہ نہ سمجھے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، وہ اپنے دور کا طالب علم نہیں ہے۔ اپنے دور کا انسان نہیں ہے۔ طالب علم میں سیاسی شعور ہونا چاہئے۔ سیاسی فہم ہونا چاہئے۔ سیاسی تجزیئے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ میں نے تاریخ اسلام کے واقعات کے بیان میں بارہا کہا ہے کہ جس چیز نے امام حسن مجتبی علیہ الصلاۃ و السلام کو شکست دی، وہ عوام میں سیاسی تجزیئے کی صلاحیت کا فقدان تھا۔ لوگوں میں سیاسی تجزیئے کی صلاحیت نہیں تھی۔ جو چیز خوارج کے فتنے کے وجود میں آنے کا سبب بنی اور جس کی وجہ سے امیر المومنین علیہ السلام پر اس طرح دباؤ پڑا اور دنیا کی طاقتور ترین شخصت پر اس طرح ظلم ہوا، لوگوں میں سیاسی تجزیئے کی صلاحیت کا فقدان تھا۔ ورنہ سبھی بے دین نہیں تھے۔ سیاسی فہم نہیں رکھتے تھے۔ دشمن ایک افواہ پھیلاتا تھا، ہر جگہ یہ افواہ پہنچ جاتی تھی اور سب اس کو صحیح تصور کر لیتے تھے۔
اس طرح کیوں ہو؟ اگر قوم میں ضروری ہوشیاری ہو تو دشمن کی افواد سورج کے سامنے برف کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کام کون کرے؟ آپ نوجوانوں کو یہ کام کرنا چاہئے۔ میں آپ عزیز نوجوانوں پر خدا کی حجت تمام کرتا ہوں۔ میں نے آپ سے عرض کیا اور کہہ دیا۔
پالنے والے! میں اس قوم کے بارے میں یہ احساس رکھتا ہوں اور خود بھی اس طرح کا ہوں۔ ہم دشمن کی خواہش پر تیرے ارادے، تیرے راستے اور تیرے احکام سے منہ نہیں موڑیں گے۔ یہ قوم اس طرح آگے بڑھ رہی ہے۔ میں اس کو دیکھ رہا ہوں۔ ہم اس قوم کی طاقت کی بدولت، کسی بھی عالمی طاقت کے مقابلے میں کمزوری کا احساس نہیں کرتے۔
1) مراد امریکی صدر «جيمى كارتر» ہیں۔
(2 منهج الصّادقين: ج 6 ص 45
(3 مراد ریپبلیکن ہیں
4) آل عمران: 173