بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں بھی اس عظیم دن کی پوری دنیا میں پھیلی امت مسلمہ، عزیز ایرانی قوم، حاضرین محترم اور ملک کے زحمت کش حکام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یوم بعثت کی اہمیت اس سے بہت زیادہ ہے کہ مجھ جیسے لوگ اس کی تشریح کر سکیں۔ لیکن تاریخ کے مختلف ادوار میں انسانوں کی زندگی میں بعثت کی تاثیر ایسا نکتہ ہے کہ جس کے بارے میں گفتگو کی جا سکتی ہے۔
بعثت کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا کہ ایک خلاء تھا اور انسانیت کو بعثت کی شدید ضرورت تھی۔ خداوند عالم نے اپنی حکمت بالغہ سے، اس عظیم واقعے کے لئے ایسی جگہ کا انتخاب کیا کہ اس دور میں جو باتیں رائج تھیں ان سے آلودہ ہوئے بغیر اس دور کی دنیا میں بھی پہچانا جائے اور تاریخ میں بھی باقی رہے۔ یہ خود ایک اہم نکتہ ہے۔ ممکن تھا کہ فرض کریں کہ آخری پیغمبر کی بعثت اس دور کے روم میں ہوتی، اس دور کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتی۔
بعثت کے زمانے میں دنیا میں عظیم تمدن موجود تھے۔ ایسی اقوام تھیں کہ جو انسانی علوم و فلسفے اور مدنیت کی اطلاعات سے بہرہ مند تھیں۔
بعثت ان ملکوں میں اور ان علاقوں میں ہو سکتی تھی۔ مگر خداوند عالم اس بعثت کو جو تاریخ بشریت میں ہمیشہ باقی رہنے والی تھی، ان جگہوں پر نہیں لے گیا۔ اس بعثت کو اس جگہ نہیں لے گیا، جہاں اس فکر اور اس دعوت میں بیرونی عناصر داخل ہو سکتے تھے۔ اس دور کے مغربی ممالک ایسے علاقے تھے جو عظیم تمدن کے مالک تھے۔ پیغمبروں کے ساتھ ان کا رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مدنیت کے مالک تھے۔ انہیں میں سے شہر انطاکیہ کے لوگ تھے۔ سورہ یاسین میں خداوند عالم نے وہاں تین پیغمبروں کو بھیجنے کا ذکر کیا ہے اور سر انجام اس دیار کے لوگوں کی ناسپاسی ہے۔ یہ معمولی چیز نہیں ہے۔ تاریخ نے بھی ان اقوام کے واقعات بیان کئے ہیں۔ آخری پیغمبر کو وہاں مبعوث نہیں کیا۔
جزیرۃ العرب میں انسانی علوم نہیں تھے۔ شرک تھا اور شرک آلود رسومات تھیں اور وہ بھی پست ترین سطح پر۔ لہذا آپ قرآن میں بھی ملاحظہ فرماتے ہیں کہ شرک کے خلاف سخت جدوجہد ہوئی ہے۔ سورہ اخلاص جس نے لم یلد ولم یولد کو اتنا واضح اور نمایا ں کیا ہے۔ چار آیتوں کے اس چھوٹے سے سورے میں لم یلد لم یولد قلب میں واقع ہے اور لم یکن لہ کفوا احد نمایاں اور آشکارا ہے تاکہ شرک ذہنوں سے دور کر دیا جائے اور پیام خدا سے مخلوط نہ ہو۔ اسلام میں ہر شرک آلود کام مسترد کیا گیا ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھیں تو اسلام خالص شکل میں منظر عام پر آيا اور اکناف و اطراف عالم میں خالص شکل میں منتقل ہوا اور پھیلا۔ بنابریں جہاں بھی گیا، مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کو چیلنج کیا اور ان کے مقابلے میں اپنے نمایاں ہونے کا ثبوت دیا۔ یہاں تک کہ اس کی تبلیغ کرنے والوں کا خلوص ختم ہو گیا تو تبلیغ کا خلوص بھی ختم ہو گیا۔ یہ بعثت، بشریت کے لئے ہمشیہ باقی رہنے والی ہے۔ یہ بعثت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خصوصیت ہے۔ یعنی جب بھی عالم اور زندگی بشر معنویت سے خالی ہو جائے تو وہی معارف اور اصول جن کی قرآن کریم بات کرتا ہے، آکر اس خلاء کو پر کر سکتے ہیں۔ اسلامی معارف و اصول کی کیفیت ایسی ہے اور اس قانونی مجموعے میں ایسی قوت ہے کہ تمام حالات میں معنوی خلاء کو پر کر سکتا ہے اور بشریت کو معنوی فضا میں زندگی گزارنے کا موقعہ فراہم کر سکتا ہے۔
آج بھی انہیں حالات میں سے ایک حالت ہے۔ ملکوں اور اقوام میں کسی دعوت کے موثر اور مقبول ہونے کی شرط کیا ہے؟ پہلی شرط دعوت کا منطقی اور معقول ہونا ہے۔ ہر وہ بات جو اسلام کو اس کی معقولیت اور منطقی پہلو سے الگ کرے، اسلام کے رشد اور نشر و اشاعت کو نقصان پہنچائے گی۔ جو لوگ اسلامی مسائل کے بارے میں بولتے ہیں اور اظہار رائے کرتے ہیں وہ اس بات پر توجہ دیں۔ اسلام عقلی اصولوں پر استوار ہے۔ اسلام ایسا دین ہے کہ عقل سلیم اس کو سمجھتی ہے۔ اس کو درک کرتی ہے۔ اس کو پسند کرتی ہے اور قبول کرتی ہے۔ یہ اسلام کی خصوصیت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر اسلامی حکم کے ساتھ ایک عقلی دلیل بھی موجود ہونی چاہئے۔ صبح کی نماز دو رکعت کیوں ہے؟ کیا اس کے لئے عقلی دلیل کی ضرورت ہے؟ نہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ کسی بھی عقل میں کوئی بات آ گئی تو وہ اسلام میں بھی ضرور نظر آئے۔ یہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات، اسلام سے جس کا رابطہ قابل قبول ہے اور اہل علم و اہل فن مانتے ہیں کہ یہ اسلام سے مربوط ہے، ہر علمی اور عاقلانہ ماحول میں قابل پیشکش ہے۔ نماز کو دنیا کے مادی ترین فرد کو بھی سمجھایا جا سکتا ہے، بتایا جا سکتا ہے کہ نماز کیا ہے اور اسلام نے نماز کیوں واجب کی ہے۔ انیسویں صدی کا جو مغرب کی بے دینی کی صدی ہے ایک مغربی مفکر جو بہت معروف ہے لیکن میں اس کا نام لینا نہیں چاہتا، کہتا ہے کہ نماز میں بہت بڑا راز نہفتہ ہے جی ہاں اگر اس میں عظیم راز نہ نہفتہ ہوتا تو مادہ پرستی کے اس ماحول میں ایک مفکر اس کے بارے میں یہ نہ کہتا۔ اہل انصاف، اہل علم، صاحبان عقل اور صاحبان منطق و استدلال، تمام اسلامی تعلیمات کو سمجھ سکتے ہیں، پسند کرتے ہیں اور قبول کرتے ہیں۔ یہ اسلام کی خصوصیت ہے۔
معقول اور منطقی ہونا اسلام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اگر کچھ لوگ اسلام کو اس خصوصیت سے الگ کرنے کی کوشش کریں، یا اپنے پروپیگنڈوں میں کہیں کہ یہ علم اور عقل کا مخالف دین ہے یا عمل میں ایسی باتوں کو اسلام سے منسوب کریں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ اس قابل نہ ہو کہ عقل سلیم اس کی تصدیق اور تائید کر سکے، تو یہ باتیں یقینی طور پر اسلام کی اشاعت کو نقصان پہنچائیں گی، ان سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ بنابریں معقول اور منطقی ہونا ایسی خصوصیات میں سے ہے جو اسلام کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اسلام کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ معنوی اور خدائی دین ہے۔ عیسائیت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں آخرت کے پہلو دنیاوی پہلوؤں پر غالب ہیں، اسلام ایسا نہیں ہے۔ اسلام دنیا کو بھی آخرت کا جز سمجھتا ہے۔ یہی آپ کی زندگی، آپ کی تجارت، آپ کا پڑھنا، آپ کا ملازمت کرنا، آپ کے سیاسی امور، یہ سب آخرت کا جز ہیں۔ دنیا بھی آخرت کا ہی ایک حصہ ہے۔ اس طرز فکر کے ساتھ آپ اچھی نیت سے کاموں کو انجام دیتے ہیں۔ یہ وہ نیکی ہے جو آخرت میں تقرب خدا اور معنوی درجات تک پہنچائے گی اور اگر خدا نخواستہ بری نیت یا خود پسندی کی نیت سے کوئی کام انجام دیا تو یہ بات زوال، پستی اور جہنم میں جانے کا موجب ہوگی ۔
اسلام اس طرح کی تعلیمات کا حامل دین ہے۔ ہماری پوری زندگی، ہماری تمام دنیاوی کوششیں، آخرت کا حصہ ہیں۔ دنیا و آخرت ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔ برائی اس میں ہے کہ روزمرہ کی زندگی سے مربوط یہ مادی کوشش، بری نیت سے انجام دی جائے۔ وہ دنیا جس کو مذموم کہا جاتا ہے یہی ہے۔ مگر یہ عالم اس عالم سے الگ نہیں ہے۔ یہ عالم اس عالم آخرت کی کھیتی ہے۔ کھیتی یعنی کیا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ فصل کھیت کے بجائے کسی دوسری جگہ حاصل کی جائے؟ یہ تعبیر انتہائی وحدت، ہم آہنگی اور دونوں کے ایک ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسلام انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ اسی کے ساتھ یہ ایک معنوی دین بھی ہے۔ اسلام میں دلوں کو خدا کی طرف راغب ہونا چاہئے۔ نیتیں خدا کے لئے ہونی چاہئیں۔ یہ اسلام کی خصوصیت اور اس کے عام ہونے کا ایک سبب ہے۔
آج دنیا میں جس چیز کی کمی محسوس ہو رہی ہے اور خود دنیا کے عوام اس کا احساس کرتے ہیں، خاص طور پر مغرب میں، معنویت کی کمی اور روحانیت کا خلاء ہے۔ مادیات میں غرق ہو گئے ہیں، معنویات سے دور ہیں اور خواہشات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ خواہشات کی خصوصیت یہ ہے کہ ابتدائے امر میں تو یہ خواہش ہوتی ہیں لیکن جاری رہنے کی صورت میں عالم جہنم بن جاتی ہیں۔ جب کسی فرد یا قوم کی زندگی میں خواہشات غالب آ جائیں تو وہ زندگی جہنم میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ انسانی خواہشات کی خاصیت ہے۔ ممکن نہیں ہے کہ کوئی ایسا مل جائے جو زیادہ عرصے تک خواہشات میں غرق رہنے کے بعد بھی خوش ہو۔ ایسے کسی شخص کو خدا نے پیدا نہیں کیا ہے۔ آپ جائیں، دیکھیں، تحقیق کریں تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ یہ ایک مسلمہ اور واضح بات ہے۔ خواہشات کے نرغے میں باقی رہنا انسان کے لئے جہنم کی زندگی بن جاتا ہے۔ یہ وہی جہنم ہے کہ جس میں آج مغرب کے کچھ متمول لوگ مبتلا ہیں اور جو متمول نہیں ہیں وہ غربت، لاچاری اور دوسری برائیوں کے جہنم میں جل رہے ہیں۔ البتہ ان میں مستثنی افراد بھی ہیں۔ ہر طبقے میں یقینا مستثنی لوگ مل جائیں گے۔ وہاں اچھے انسان بھی ہیں لیکن عمومی حالت یہی ہے۔
آج کی دنیا اس بعثت کی محتاج ہے۔ ایران اسلامی میں ایسا نہیں ہے کہ ہماری حکومت بھی دوسری حکومتوں کی طرح ہو۔ کچھ دن اس خاندان نے اور کچھ دن دوسرے خاندان نے حکومت کی اور اب مسلمین اور مومنین حکومت کر رہے ہیں۔ ہمارا قضیہ یہ نہیں ہے۔ ہمارا قضیہ ایک پیغام سے عبارت ہے۔ ایک بعثت کا قضیہ ہے۔ ہم دنیا والوں کے سامنے نئی بات پیش کرتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے۔ یہ نئی بات اور نیا پیغام جس کا پہلا اثر خود ہماری زندگی میں اور ہمارے ملک میں نظر آنا چاہئے، دنیا میں ایک نیا راستہ پیش کرتا ہے۔ اس کو اسلامی جمہوریہ کے کارکن فراموش نہ کریں۔ یہ وہ نظام ہے جو اس لئے آیا ہے کہ بشریت کو بعثت کی حقیقت سے روشناس کرائے۔ یہ نظام گمراہ نظاموں، حکومتوں اور معاشروں سے کچھ سیکھنے نہیں آیا ہے۔ ممکن ہے کہ ہم بہت برے ہوں، ہم میں بہت نقائص ہوں، اس پیغام کو پہنچانے کے لئے ہم بہت چھوٹے ہوں، مگر یہ پیغام نجات انسانیت کا پیغام ہے۔ اس پر سودے بازی نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ اس پیغام میں اپنے مزاج کے مطابق رد و بدل کریں، اس میں کچھ کمی بیشی کر دیں۔ نہیں' یہ پیغام پوری بشریت کے لئے ہے اور انسان اس کا محتاج ہے۔ ہم بشریت کے طرفدار ہیں۔ ہم بشریت کے دشمن نہیں ہیں۔ ہم دنیا کی تمام اقوام کے علم، پیشرفت اور آرام و آسائش کے طرفدار ہیں۔ ہمیں پتہ ہے ان کی تکلیف کیا ہے۔ انہیں معنویت کی ضرورت ہے اور معنویت یہاں ہے۔ البتہ معنویت مسلط نہیں کی جا سکتی۔ اگر مسلط کی جائے تو دوسروں پر اس کا اثر نہیں ہوگا۔ ہم اس کو صرف پیش کرتے ہیں۔
یہاں دو نکات ہیں جن پر توجہ ضروری ہے۔ ایک نکتے پر ہم اور آپ، اس نظام کے تمام حکام توجہ دیں! نکتہ یہ ہے کہ ہمیں صرف منتظم اور حاکم کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ دنیا میں نئی فکر پیش کرنے والے کی حیثیت سے اس طرح عمل کرنا چاہئے اور اپنی رفتار و کردار کو پوری طرح اسلام کے مطابق ڈھالنا چاہئے اور اس فکر کی خود مختاری اور اس کی خالص شکل کی حفاظت کرنی چاہئے۔
اس میں ایک نکتے کا تعلق دنیا کے عوام سے ہے۔ سامراج کے ذرائع ابلاغ عامہ کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو جارح اور دنیا کے تمام نظاموں کا قلع قمع کرنے پر آمادہ نظام کی حیثیت سے متعارف کرائیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ دنیا میں جو جس طرح چاہے زندگی گزارے۔ ہم صرف وہ چیز پیش کرتے ہیں جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ امیرالمومنین علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ طبیب دوار بطبہ قد احکم مراحمہ و احمی مواسمہ ہمارے پاس بشریت کے آج کے مسائل کی دوا موجود ہے۔ جو نہ چاہے نہ لے۔ ہم کسی سے لڑتے تو نہیں ہیں۔ اگر انسان آج تشخص کے بحران سے دوچار ہے، معنویت کے فقدان میں گرفتار ہے، انسانی روایات کی بے حرمتی سے تکلیف میں ہے کہ باپ بیٹے پر رحم نہیں کرتا، بیٹا باپ کا احترام نہیں کرتا، ماضی کی روایات کا پاس نہیں کرتے، اپنی ذاتی اقدار کے علاوہ دیگر اقدار کو کوئی اہمیت نہیں دیتے، تو یہ ایک المیہ ہے۔ آج مغربی اقوام اس بحران سے دوچار ہیں اور اس کا علاج اسلام کے پاس ہے۔ اگر آج دنیا میں دولت مندوں کی دولت روز بروز بڑھ رہی ہے اور کچھ افراد اور کمپنیاں افسانوی انداز میں اربوں کما رہی ہیں اور دوسری طرف کچھ لوگ ہیں جو راتوں کو سڑکوں کے کنارے کارٹون بچھا کر سوتے ہیں تو یہ مغرب کی مشکلات ہیں۔ اگر شادی کرنے کی ہزاروں سفارشات، اور خاندان کی تشکیل کے تمام تر تشہیرات کے باوجود مغربی ملکوں میں خاندانی بنیادیں روز بروز کمزور سے کمزورتر ہوتی جا رہی ہیں، اگر لڑکے اور لڑکیاں موجودہ صورتحال پر راضی نہیں ہیں، جو لوگ خود اس جرم میں شریک ہیں وہ بھی تکلیف محسوس کر رہے ہیں، خاندان کی بنیادیں متزلزل ہیں اور بچے پریشان ہیں، اگر نفسیاتی بحران نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے تویہ کس لئے ہے؟ اتنی زیادہ خودکشی کی وارداتیں کس لئے؟ گذشتہ چند مہینوں یا تقریبا ایک سال کے اندر امریکا میں جہاں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ علم و دولت کی چوٹی پر پہنچ چکے ہیں اور سوچتے ہیں کہ صرف انہیں چیزوں کی اہمیت ہے، کئ افراد قتل کر دیئے گئے۔ اب وہ کتے بلی سے محبت اور ہمدردی کے اظہار کے لئے ہیلی کاپٹر لیکے بیابانوں میں اپنے گمشدہ کو تلاش کریں، کیا اندھے ہیں؟ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ریاستہائے متحدہ امریکا میں سڑکوں پر کیا ہو رہا ہے؟ ایک شخص ریل کے ڈبے میں داخل ہوتا ہے اور مشین گن سے فائرنگ کرکے کئی افراد کو قتل کر دیتا ہے۔ اس ڈبے سے نکلتا ہے تو دوسرے ڈبے میں جاتا ہے وہاں بھی کئی افراد کو قتل کرتا ہے۔ اگر بشریت ان بیماریوں میں مبتلا ہے اور علاج نظر نہیں آتا تو ہم کہتے ہیں علاج یہاں ہمارے پاس ہے۔ علاج اسلام ہے۔ علاج آج کی دنیا میں بعثت کی تجدید ہے۔ آج آپ ہراول دستہ ہیں۔ ایرانی قوم ہراول دستہ ہے۔ اس کو عمل کرنا چاہئے اور پوری خود اعتمادی کے ساتھ عمل کرنا چاہئے۔ کیونکہ دنیا کو ہماری ضرورت ہے۔
اب وہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ایران کا سب سے جھگڑا ہے۔ ایران کو سب پر اعتراض ہے۔ نہیں، ایران کو صرف مستکبر حکومتوں کی جاسوسی کی تنظیموں پر اعتراض ہے جو ان ملکوں کے گھناؤنے ترین مراکز میں شامل ہیں۔ ہمیں ان پر اعتراض ہے جو یہ پروپیگنڈے تیار کرتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، ان غیر ملکی نشریات کے پروپیگنڈے کون ترتیب دیتا ہے؟ مثلا یہی بی بی سی کے پروپیگنڈے کون تیار کرتا ہے؟ برطانوی انٹیلیجنس کی تنظیم اس کی منصوبہ بندی کرتی ہے اور یہ پروپیگنڈے تیار کرتی ہے۔ ہم ایک ملک اور قوم ہیں اور ہمارا ایک پیغام ہے۔ ہم طاقت و توانائی اور قابل فخر ماضی رکھتے ہیں۔ ہمارا ماضی بھی درخشاں تھا اور حال بھی درخشاں ہے۔ آج کے دور میں امام خمینی جیسی ہستی ہمارے درمیان تھی اور ایسی کوئی شخصیت نہ آج کے دور میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی ماضی قریب میں نظر آتی ہے۔ ہمارے پاس ایسے نوجوان ہیں کہ جنہوں نے اپنی عظمت کا اعتراف ساری دنیا سے کروایا ہے۔ ایسی مائیں، ایسے باپ، ایسے خاندان ہیں اور ایسے سائنسداں ہیں کہ ہمیں کسی کی محتاجی نہیں ہے۔ کسی سے خوف بھی نہیں ہے۔ کسی سے بھی۔ ہمیں کیا ضرورت ہے کہ اس ملک کے پیچھے جائیں۔ یا کسی جگہ کو فتح کریں، کسی جگہ کو مسمار کریں۔ کسی جگہ دھماکہ کریں۔ یہ انسانیت مخالف نظاموں کا کام ہے۔ یہ ان حکومتوں کا کام ہے جو آج اس طرح کی مشکلات میں گھری ہوئی ہیں۔ یہ ہمارے کام نہیں ہیں۔
ہمارا پیغام اسلام ہے۔ اسلام پھیلنے کے عوامل میں سے ایک، جیسا کہ میں نے عرض کیا، نرمی ہے۔ ما کان رفق فی شئ الا ذاتہ یعنی نرم ہونا، ہموار ہونا، نرمی کا مطلب سستی نہیں ہے۔ نرمی کا مطلب کمزور ہونا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ناہموار نہ ہونا ہے، جگر خراش نہ ہونا ہے۔ آپ کسی سخت چیز پر جیسے فولاد پر ماریں تو آپ کے ہاتھوں میں درد کا احساس ہوگا، چبھن کا احساس ہوگا۔ نرمی کا مطلب یہ ہے کہ ہموار ہو، کسی چیز پر ہاتھ پھیریں تو ممکن ہے کہ آپ کے ہاتھوں پر خراش آ جائے زخم آ جائیں حالانکہ وہ چیز ممکن ہے کہ فولادی نہ ہو، لکڑی کا ایک ٹکڑا ہو۔ ممکن ہے لکڑی اس طرح کاٹی جائے کہ ناہموار ہو۔ بعض لوگ ناحق، غیر مدلل، بے معنی بات اس طح کرتے ہیں کہ سب کو نشتر کی سی چبھن کا احساس ہونے لگتا ہے اور ممکن ہے کہ کوئی بامعنی، قوی اور صحیح فکر کو اس طرح بیان کرے کہ کسی بوجھ کا احساس نہ ہو، بات بالکل آسان لگے۔ اسلام کی یہی خصوصیت ہے۔ قرآن کی یہی خصوصیت ہے۔
ہمارے لئے بعثت کا سب سے اہم درس یہی ہونا چاہئے۔ بھائیو اور بہنو' درس قرآن یہ ہونا چاہئے کہ ہم ایک نیا پیغام پہنچانے والے ہیں اور ہم خود اس نئی بات کی حفاظت کریں۔ دوسرے یہ کہ ہمارے پاس جو ہے اس کی انسانوں کو اشد ضرورت ہے کیونکہ وہ زندگی کی خوبیوں سے محروم اور نابلد ہیں۔ ان چیزوں کو جو ہمارے پاس ہیں، دنیا کے ان مفکرین کی باتوں سے مخلوط نہ کریں جنہوں نے اپنے عوام کے لئے زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔
تیسرے یہ کہ دوسروں کی بڑی بڑی باتوں سے مرعوب نہ ہوں۔ ہمارے پاس منطق ہے۔ ہمارے پاس حقانیت کا پیغام ہے۔ اگر آپ دیکھتے ہیں کہ کوئی چیز صحیح نہیں ہوئی تو سمجھ لیجئے کہ اس کا صحیح ہونا آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ اس کے صحیح مالک کے پاس جائیں تا کہ وہ اسے صحیح کرے۔ منطقی، مستحکم اور قوی بات۔ یہ وہی مشعل ہے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روشن کی ہے۔ اس مشعل نے اس دور کی دنیا کو روشن کیا، اس دور میں تہذیبوں کی، ایک تہذیب کی نہیں متعدد تہذیبوں کی بنیاد رکھی۔ آج بھی یہ شمع ایسا ہی کارنامہ انجام دے سکتی ہے۔ اس دور میں بھی دنیا کے پاس نئی چیزیں تھیں۔ علم تھا، پیشرفت تھی۔ انطاکیہ تھا، روم تھا، یونان تھا، ایران تھا، ہگمتانہ تھا، پرسپولیس تھا، اس دور میں بھی دنیا علم سے بالکل ہی خالی نہیں تھی۔ لیکن جب یہ مشعل روشن ہوئی، جب یہ سورج نکلا تو تمام شمعوں کی روشنیاں ماند پڑ گئیں اور یہ نور سب پر غالب آ گیا۔ لیظھرہ علی الدین کلہ اسلام فطری طور پر معنویت کے غلبے کے لئے آیا تھا۔ جب سورج نکلے تو آپ ایک ہزار شمعیں اس کے سامنے رکھہ دیں، روشنی نہیں دیں گی۔ بعثت اسی طلوع اور غلبے کا نام ہے۔ یہ وہی مشعل ہے، وہی چراغ ہے، وہی سورج ہے۔ اس کی قدر کریں۔ بعثت کو اپنے وجود میں اپنی زندگی میں شمع فروزاں کی مانند روشن رکھیں۔ خدا سے نصرت طلب کریں، یقینا خدا مدد کرے گا۔
پالنے والے ہمیں امام زمانہ ارواحنا فداہ کی دعاؤں کا مستحق قرار دے۔ ہمیں اپنی رحمت اور ہدایت عنایت فرما۔ ہمارے قلب، ہمارے جسم، ہمارے عمل، ہماری زبان اور ہماری فکر کو نورانی کر دے۔ ہمیں اور ہماری ذریت کو اسلام سے زندہ رکھ اور اسلام پر ہی موت دے۔ ہمارے امام خمینی کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ اس عید کو پوری دنیا کے تمام مومنین و مومنات کے لئے مبارک کر۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ