قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛
 
بسم الرحمن الرحیم
 
محکمہ پولیس کے عزیز اراکین، سوشل سیکورٹی کے محکمے اور معذور افراد کی نگہداشت کے ادارے کے کارکنوں اور اعلاعہدیداروں، یونیورسٹیوں کے اراکین و طلبا اور ملک کے دور دراز کے علاقوں سے، مشہد، اصفہان، کرمان، اراک اور لرستان سے آنے والے عزیزوں خاص طور پر شہیدوں کے خاندان والوں کا خیر مقدم کرتا ہوں۔
خداوند عالم ہم سب کے دلوں کو اپنی مقدس ذات پر توجہ، اپنے ذکر،امید، اخلاص اور معرفت کے نور سے منور فرمائے اور اپنی توفیقات ہمارے شامل حال کرے۔ شروع میں سوشل سیکیورٹی اور معذور افراد کی نگہداشت کے محکمے کی خدمات کے بارے میں اختصار کے ساتھ کچھ عرض کروں گا۔
ان دونوں محکموں اور ان تمام اداروں کا کام جو محتاج اور کمزور طبقات سے تعلق رکھتے ہیں بڑا نیک اور مستحسن کام اور ا یک طرح کا فریضہ ہے۔ یہ ملک کے سماجی نظم کے لئے بہت ضروری ہے۔ البتہ معاشرے میں غربت کے علاج کے لئے بڑے منصوبوں کی ضرورت ہے۔ مگر کبھی طویل المیعاد منصوبوں کے ساتھ جن کا نتیجہ جلدی سامنے نہیں آتا، اور ان میں کبھی مشکلات اور رکاوٹیں بھی آتی ہیں، ایسی تنظیموں اور اداروں کا ہونا ضروری ہے جن کا فریضہ کمزور اور ضرورتمند طبقات کی مدد کرنا ہو۔ جیسے یہ دونوں ادارے ہیں کہ جن کی طرف اشارہ کیا گیا۔ یا امام خمینی امدادی کمیٹی اور ایسے ہی دگر ادارے ہیں۔
اس درمیان سوشل سیکیورٹی آرگنائزیشن کہ جس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور یہ ادارہ کمزور لوگوں کی زندگی میں مدد کرتا ہے، بہت اہم ہے۔ اس ادارے کے کارکنوں کو بھی، اس کے ذمہ دار عہدیداروں کو بھی اور عوام کو بھی چاہئے کہ اس کو اہمیت دیں۔ ایسے اداروں کی جہاں تک ممکن ہو مدد اور حمایت کرنا چاہئے اور ان کے مطالبات پورے کرنے چاہئے۔
ہمارے معاشرے میں کمزور لوگوں کی مدد کا رواج جو ایک اسلامی طریقہ ہے روز بروز زیادہ ہونا چاہئے۔ لوگ جو صدقہ دیتے ہیں، جو کھانا کھلاتے ہیں اور وقف جیسے بڑے کام کرتے ہیں، یہ سب اچھی اسلامی روایات ہیں۔ یہ روایات طیب و طاہر سماجی زندگی میں مدد کرتی ہیں۔ لہذا معاشرے میں ان روایات کو ختم نہ ہونے دیں۔ جب لوگ کمزوروں اور حاجتمندوں کی پریشانیاں دور کرنے میں خود کو شریک سمجھیں گے تو امور کی اصلاح ہوگی۔
میں معذور افراد کی نگہداشت کے ادارے کے تعلق سے یتیموں کے بارے میں تاکید کرنا چاہتا ہوں۔ اس ادارے کو چاہئے کہ جو یتیم اس کے سپرد کئے جائیں ان کے امور کو اچھی طرح دیکھے۔ ایسا نہ ہو کہ اسلامی نظام میں کسی یتیم کی جانب سے غفلت ہو۔ قرآن کریم نے کئی جگہوں پر یتیموں کے بارے میں تاکید اور سفارش کی ہے اور یہ اس خصوصیت کی وجہ سے ہے جو یتیم میں پائی جاتی ہے۔ یتیموں کا مسئلہ بہت اہم انسانی مسئلہ ہے۔ البتہ دنیا اب تک یتیموں کا مسئلہ حل نہیں کر سکی ہے۔ آج دنیا میں یتیموں کا مسئلہ لا ینحل ہے۔ مگر اسلام میں یتیمون کے بارے میں ایسے احکام پائے جاتے ہیں کہ اگر ان پر عمل کیا جائے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ اسی بنا پر میں یتیموں کے مسئلے پر تاکید کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ خداوند عالم آپ سب کی مدد کرے گا اور کامیابی عطا کرے گا۔
ایک اور مسئلہ جس کے بارے میں آج تھوڑی سی گفتگو کرنا چاہتا ہوں، معاشرتی سلامتی کا مسئلہ ہے جو پولیس سے تعلق رکھتا ہے۔ پولیس کا فریضہ سماجی سلامتی کی فراہمی ہے۔ معاشرتی سلامتی کا مطلب یہ ہے کہ لوگ کام کی جگہ پر اور اپنی زندگی میں خوف اور نا امنی کا احساس نہ کریں۔ یہ مسئلہ بہت اہم ہے۔ خداوند عالم قریش پر احسان جتاتے ہوئے کہتا ہے کہ فلیعبدوا رب ھذا البیت الذی اطعمھم من جوع و آمنھم من خوف (1) یعنی امن کی فراہمی کو دو اہم نعمتوں میں سے ایک قرار دیا ہے اور اس پر تاکید فرمائی ہے۔
علماء و فضلاء حضرات اس سلسلے میں قرآن کریم سے رجوع فرمائیں تو دیکھیں گے کہ سلامتی کے مسئلے کا باربار ذکر کیا گیا ہے اور اس پر تاکید کی گئی ہے اور یہ چیز ایمان سے مربوط ہے۔ فائ الفریقین احق بالامن(2) جو لوگ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی راہ پر چلتے ہیں، وہ اپنے لئے سلامتی وجود میں لا سکتے ہیں۔ بنابرین سلامتی بہت اہم ہے اور سماجی زندگی میں اس کا کردار بہت کلیدی ہے۔ قوم کے تمام لوگ اپنے کام کے ماحول میں، سماجی سرگرمیوں میں اور ذاتی زندگی میں صحیح کام کرنے کے لئے حتی سکون سے عباد ت کرنے کے لئے امن و سلامتی کے محتاج ہیں۔ لوگوں کی یہ ضرورت پوری کرنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت اپنی طاقت و توانائی بروئے کار لائے۔ اسلامی حکومت کو جو معاشرے میں الہی قدرت کا مظہر اور عوام کی طاقت ہے، مقتدر انداز میں عام انسانوں کی یہ ضرورت پوری کرنی چاہئے۔ کیوں؟ اس لئے کہ جو لوگ، لوگوں کا امن و چین درہم برہم کرتے ہیں وہ کمزور لوگ نہیں ہیں بلکہ وہ اسلحہ رکھنے اور اسلحہ چلانے والے دہشتگرد ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جولوگوں کی زندگی پر حملہ کرنے کے لئے رات کی تاریکی، لوگوں کے سونے اور غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ چاہے وہ شخص ہو جو چوری کے لئے لوگوں کے گھر اور دکان کا تالا توڑتا ہے چاہے وہ شخص ہو جو سڑکوں پر اور گلیوں میں لوگوں کی ناموس کے لئے خطرات پیدا کرتا ہے اور انہیں سکون سے نہیں رہنے دیتا یا وہ شخص ہو جو لوگوں کی جان خطرے میں ڈالتا ہے، یہ سب بد امنی پھیلانے میں شامل ہیں۔ یقینی طور پر درخوست اور التماس سے بد امنی نہیں روکی جا سکتی۔ امن و امان درہم برہم کرنے والوں سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ سے درخواست ہے کہ بد امنی نہ پھیلائیں۔ یہ درخواست کی جگہ نہیں ہے۔ یہ طاقت کے استعمال کی جگہ ہے۔ بنابریں پولیس قومی قوت کا مظہر ہے۔ یہ اس قوت کا مظہر ہے جو عوام بد امنی پھیلانے والوں کے خلاف استعمال کرنا اور انہیں روکنا چاہتے ہیں۔ اس طاقت سے کام لینا چاہۓ، اس میں سستی نہیں کرنی چاہئے اور اس کا صحیح استعمال ہونا چاہئے۔ یہ طاقت صحیح لوگوں کے سپرد کی جانی چاہئے۔ یہ طاقت ایک شمشیر اور اسلحہ ہے جسے قوم اس کے ہاتھ میں دیتی ہے جو امن قائم کرتا ہے۔ جو امن قائم کرنا چاہتا ہے اس کو کیسا انسان ہونا چاہئے؟ یقینا اس کو صالح، امین اور لوگوں کے امور سے دلچسپی رکھنے والا اور ایسا ہونا چاہئے کہ خود بد امنی کا باعث نہ بنے۔ ورنہ ایسا ہوگا جیسے اسلحہ بد مست شخص اور دشمن کے ہاتھ میں ہو۔ بنابریں پولیس کی اصلاح، پولیس کو طاقتور بنانا اور اس کا احترام ضروری ہے۔
البتہ آج خدا کے فضل سے قانون کو نافذ کرنے والے اداروں کی ہوشیاری کے نتیجے میں الحمد للہ پولیس ماضی سے بہت مختلف ہے۔ آج الحمد للہ اس فورس کی باگ ڈور صالح افراد کے ہاتھ میں ہے۔ البتہ اس فورس میں سدھار روز بروز وسیع تر ہونا چاہئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ طاغوتی دور کی ثقافتی اور اخلاقی شعبے کی باقیات اپنا کام کر جائیں۔ ہوشیار رہیں۔ آپ میں سے ہر ایک جو پولیس فورس میں ہے، اپنے محکمے کا خیال رکھے اور اس بات کی اجازت نہ دے کہ دشمن اس ادارے میں نفوذ کر سکے۔ اس بات کی اجازت نہ دے کہ ماضی کی معاندانہ ثقافت جس میں دین، ناموس اور عقائد کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی تھی، دوبارہ نفوذ کر سکے۔ بہت زیادہ ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ عوام کو بھی چاہئے کہ اس فورس کا احترام کریں اور اس کے احکام پر عمل کریں۔ اچھی پولیس فورس ملک میں جہاں بھی لوگوں کو کسی کام کا حکم دے، انہیں کچھ کاموں سے روکے اور کچھ کاموں کا حکم دے تو لوگ اس کو اپنے بھائی کی طرف سے دی جانے والی ہدایات سمجھیں۔ جب جوان بیٹا گھر کا دفاع کرتا ہے تو گھر والے اس کی بات سنتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے گھر اور گھر والوں کے دفاع کے لئے اٹھا ہے۔ لوگوں کو پولیس کے ساتھ ایسا برتاؤ کرنا چاہئے۔
دنیا میں بھی یہ روش رائج ہے۔ دنیا کی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر سلامتی اقوام کے لئے اہم ہے۔ آج دنیا میں ایک بات کہی جا رہی ہے جو ہماری نگاہ میں صحیح ہے لیکن افسوس کہ بہت سی باتوں کی طرح یہ بات بھی غلط لوگ کہہ رہے ہیں اور لوگوں کا چین و سکون چھین رہے ہیں۔ دنیا میں کہی جانے والی یہ صحیح بات دہشتگردی کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ دہشتگردی یعنی کیا؟ یعنی یہ کہ کوئی گینگ، کوئی گروہ، کو‏ئی تنظیم یا کوئی حکومت قتل و غارتگری، بدامنی اور خوف و ہراس پھیلاکر اپنی بات منوائے۔ جیسے یہی کام جو ایم کے او کے روسیاہ دہشتگروں نے حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ الصلاۃ و السلام کے روضے میں کیا۔ یہ دہشتگردی کی بدترین شکل ہے۔ وہ بیٹھے، اپنے خیال خام کے تحت حساب کتاب کیا، تجزیہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی قوم کے لئے بحران کھڑا کیا جائے۔ ان بد بختوں نے بحران پیدا کرنے اور بحران پیدا کرنے کے لئے مختلف علاقوں میں بم کے دھماکوں اوردہشتگردانہ کاروائیوں کا فیصلہ کیا۔ اپنے خیال خام کے تحت انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس طرح عوام میں خوف ہراس پھیلایا جائے اور حکومت میں اضطراب پیدا کیا جائے اور اس میں کامیابی نہ ملے تو فرقہ ورانہ اختلافات پیدا کئے جائیں۔ تحلیل و تجزیئے اور فیصلے کے بعد انہوں نے ایک ہدف معین کیا۔ وہ ہدف حضرت امام رضا علیہ الصلاۃ و السلام کا روضہ اقدس تھا، جو ایرانی قوم کی نظر میں ملک کی مقدس ترین مذہبی جگہ ہے، عاشور کے روز اس کو دھماکے سے اڑانے، اس کی بے حرمتی کرنے اور عبادت، دعا و مناجات میں مشغول بے گناہ ترین اور پاک ترین لوگوں کو، حضرت امام علی بن موسی الرضا علیہ الصلاۃ و السلام کے مہمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ بنایا۔
ان تاریک دلوں پر خدا کی لعنت ہو۔ یہی دہشتگردی ہے۔ ایک احمقانہ، خیالی اور فرضی ہدف کے لئے، اتنا گھناؤنا اور شرمناک کام، وحشیانہ قتل عام کیا۔ ایسا ہی دھماکہ وہ (قم میں) میں حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضے اور حضرت امام (خمینی) رضوان اللہ تعالی علیہ کے روضے میں بھی کرنا چاہتے تھے مگر الحمد للہ خدا نے فضل کیا اور اس سانحے کی روک تھام ہو گئی۔ یہ دہشتگردی ہے۔ یہ گھناؤنا ترین کام ہے جو کوئی گینگ انجام دے سکتا ہے۔ دہشتگردی یعنی کوئی گروہ اپنے منحوس مقاصد کے لئے، کچھ لوگوں کو چاہے وہ جیسے بھی، جس طرح کے بھی ہوں، جہاں بھی ہوں، بغیر کسی خاص دشمنی اور جرم و گناہ کے قتل کرے۔
البتہ دہشتگرد حکومت بھی ہوتی ہے جس کے کام کو ریاستی دہشتگردی کہا جاتا ہے۔ آج دہشتگرد حکومت کا واضح ترین نمونہ غاصب صیہونی حکومت ہے۔ درحقیقت جس دن برطانیہ کی اسلام مخالف، عوام مخالف اور مشرق مخالف سیاست نے انیس سو اڑتالیس میں فلسطین میں صیہونیوں کو حکومت دی، اسی وقت سے ریاستی دہشتگردی وجود میں آئی اور قتل و غارتگری شروع ہو گئی۔ صیہونی اپنے کام دہشتگردی سے آگے بڑھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر دیر یاسین کا قتل عام جو آپ نے سنا ہوگا، دہشتگردی کے مظاہر میں سے ایک ہے۔
جب ایگ گاؤں پر حملہ کریں، مردوں، عورتوں اور بچوں کو گولیوں سے بھون دیں یا مردوں کو قتل کر دیں اور بے پناہ عورتوں کو بیابانوں میں چھوڑ دیں کہ جہاں چاہیں جائیں اور پھر گھروں کو آگ لگا دیں تو یہ دہشتگردی کا واضح ترین نمونہ ہے۔
غاصب اسرائیلی حکومت نے اپنی تشکیل سے آج تک، دوسرے الفاظ میں نصف صدی کے پورے عرصے میں، اسلامی پیکر میں پیدا ہونے والے اس سرطانی پھوڑے نے، ہمیشہ دہشتگردی کے ذریعے اپنا کام آگے بڑھایا ہے اور وہ ریاستی دہشتگردی کا مکمل مظہر ہے۔ یقینا آپ نے سنا ہوگا کہ حال ہی میں اس غاصب حکومت نے ایک رات کے حملے میں چند ہیلی کاپٹروں اور طیاروں کو کمانڈوز اور اسلحے کے ساتھ لبنان بھیجا جہاں انہوں نے ایک گاؤں کو محاصرے میں لیکر ایک شخص کو اس کے گھر سے نکالا اور لے جاکر جیل میں بند کر دیا۔ کیا ریاستی دہشتگردی کا اس سے زیادہ واضح نمونہ کوئی ہو سکتا ہے؟
مزے کی بات یہ ہے کہ حال ہی میں سات صنعتی ملکوں کے سربراہ جمع ہوئے اور دہشتگردی کے بارے میں انہوں نے نظریہ پردازی بھی فرمائی۔ کیا تم نہیں جانتے کہ آج دہشتگردی کا مظہر کون ہے؟ کیا تمہارے اندر انصاف ہے؟ کیا تمہیں عالمی رائے عامہ کی ذرہ برابر پرواہ ہے؟ کیا تم جو انسانی حقوق کا اتنا دم بھرتے ہو، انسانوں کو عقل اور قوت تشخیص کا مالک سمجھتے ہو، کہہ سکتے ہو کہ آج دنیا میں دہشتگردی اور ریاستی دہشتگردی کا مظہر کون حکومت ہے؟ وہ حکومت جو ہر روز لبنان پر حملہ کرتی ہے، لوگوں کا قتل کرتی ہے اور انسانوں کا اغوا کرتی ہے، کون ہے؟ کون ہے جس کی حکومت دہشتگردی، لوگوں کے قتل عام اور اس کے درمیان خوف و ہراس پھیلاکر وجود میں آئی ہے؟ یہ حکومت اسرائیلی حکومت کے علاوہ کوئی اور ہے؟ کیا کوئی اور حکومت ہے جس میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہوں؟ تمہیں ریاستی دہشتگردی کی تلاش ہے؟ لو دیکھ لو اسرائیل کو۔ تم اس حکومت کے دہشتگردانہ اقدامات پر خاموش کیوں ہو جاتے ہو؟ ستم بالائے ستم یہ کہ اس کی حمایت کرتے ہو۔ جھوٹ کیوں بولتے ہو؟ غاصب اسرائیلی حکومت، عالمی آفت ہے۔
دیکھو' آج دنیا کی سطح پر دو بلائیں پائی جاتی ہیں۔ ایک دہشتگردی کی بلا ہے۔ حکومتی لحاظ سے جس کا سب سے بڑا نمونہ غاصب صیہونی حکومت ہے اور گروہ کے لحاظ سے منافقین کا دہشتگرد گروہ ایم کے او اور ایسے ہی دیگر گروہ ہیں جو اس کیڑے کی طرح ہیں جو کوڑوں میں پلتا اور بڑھتا ہے اور اپنی تعداد بڑھاتا ہے۔ یہ دہشتگرد گروہ بڑی حکومتوں کے سائے میں پلے بڑھے ہیں۔ دوسری بلا جو شاید پہلی بلا سے بڑی ہے، ان لوگوں کی جانب سے حق کی پامالی ہے جو انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کے دعویدار ہیں۔ یہ دہشتگردی کو دیکھتے ہیں، دہشتگرد کو پہچانتے ہیں اور ریاستی دہشتگردی سے بھی واقف ہیں لیکن حق پوشی کرتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں۔ ان کا کام، انسانیت کے لئے بہت بڑی بلا ہے۔
آج دنیا میں وہ دہشتگردی کا سہارا لیتا ہے جس کے پاس منطق نہیں ہے۔ بنابریں اسلامی جمہوریہ ایران پر الزام لگانے کی زحمت نہ کریں۔ اسلامی جمہوریہ ایران پر دہشتگردی کا الزام لگانا، لا یعنی بات ہے جس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو دہشتگردی کی ضرورت نہیں ہے۔ تم خود ہی کہتے ہو کہ اسلامی انقلاب کے نعرے مصر الجزائر اور کہاں کہاں پہنچ گئے ہیں۔ ان ملکوں میں ہم تو نہیں ہیں۔ یہ ہماری بات اور فکر ہے جو ان ملکوں میں پہنچی ہے۔ خود تم کہتے ہو کہ ایران کے اسلامی نظریات دنیا میں مغرب اور مغربی طاقتوں کے سرمایہ دارانہ نظام کے لئے بہت بڑا خطرہ شمار ہوتے ہیں۔ کیا تم خود یہ نہیں کہتے؟ بنابریں یہ ہماری فکر ہے جو ہر جگہ پہنچ رہی ہے اور دلوں کو متغیر کر رہی ہے۔ مغربی حکومتیں خوف کی وجہ سے مغرب میں ہمارے افکار کے نشر و اشاعت کی اجازت نہیں دیتیں۔ کیا ان باتوں کے ہوتے ہوئے ہمیں دہشتگردی کی ضرورت ہے؟ ہمارے پاس تو فکر و نظر کا کاری اسلحہ ہے۔
ایک بات اور کہنا چاہتا ہوں جو پہلے بھی کہہ چکا ہوں۔ حضرت امام (خمینی ) رضوان اللہ تعالی علیہ کے زمانے میں کچھ لوگوں نے آپ کے پیغام حج کو جو تازہ جاری ہوا تھا، امریکا کے ایک کثیر الاشاعت اخبار میں چھپوانا چاہا۔ ہمیں اس کی اطلاع تھی۔ ہم نے اس کی تائید کی اور کہا کہ یہ کام ہونا چاہئے۔ وہ اس پیغام کو امریکا کے معروف اخبارات کے دفاتر میں لے گئے اور کہا کہ جتنا بھی پیسا چاہو لے لو اس پیغام کو شائع کرو جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ اخبارات ہر طرح کی بات حتی اپنے سیاسی اور نظریاتی مخالفین کی باتیں بھی شایع کرتے ہیں۔ وہ پیسے اور ڈالر کے نوکر ہیں، جہاں سے بھی پیسہ آئے انہیں اعتراض نہیں ہے۔ مگر یہ کام آسان نہیں تھا۔ کیا بڑے ممالک اس کام کے لئے تیار ہیں کہ اپنے ٹی وی پروگراموں کا ایک حصہ، اسلامی انقلاب کے افکار کے لئے دے دیں؟ کسی قیمت پر اس کے لئے تیار نہیں ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ جانتے ہیں کہ اگر یہ افکار پیش کئے گئے تو لوگوں کے دلوں تک پہنچیں گے اور انہیں اپنا گرویدہ بنا لیں گے۔ عام لوگوں کو تو اس سے کو‏ئی واسطہ ہی نہیں ہے۔ امریکی عوام کو ہم سے کیا غرض ہے؟ یورپ کے عوام کو ہم سے کیا دشمنی ہے؟ کوئی حق بات کہے تو سنتے ہیں۔ بنابریں جانتے ہیں کہ اگر اسلامی انقلاب کے افکار مغربی ذرائع ابلاغ میں نشر ہوئے تو کم سے کم وہ مہنگے پروپیگنڈے جو مغربی حکومتیں اور صیہونی مشینریاں کر رہی ہیں وہ ناکام ہو جائیں گے۔ وہ اسلام، اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی انقلاب کی غلط شبیہ پیش کرنے کے لئے، کافی رقم خرچ کر رہے ہیں۔ اگر ہماری فکر کی اشاعت ہو تو اس سب کو بدل دے گی۔ ہمارے پاس ایسی فکر منطق اور پیغام ہے۔ ہم اقوام متحدہ میں، بین الاقوامی کانفرنسوں میں اور تمام بین الاقوامی اداروں میں اپنی بات کہتے ہیں۔ اس زمانے میں بھی جب میں اپنی ذمہ داری کے عنوان سے وہاں جاتا تھا اور آج بھی جب الحمد للہ ہمارے فاضل اور گراں قیمت صدر مملکت ان میں شرکت کرتے ہیں، اپنی بات کہنے سے ہم نہیں چوکتے اور پیچھے نہیں ہٹتے۔ جتنے لوگ بھی ہماری بات سنتے ہیں دل سے اس کی تصدیق کرتے ہیں اور بہت سے یہ تصدیق اپنی زبان پر بھی لاتے ہیں۔
ہمارے پاس ایسی فکر ہے۔ کیا اس فکر کے ہوتے ہوئے ہمیں دہشتگردی کی ضرورت ہے؟ دہشتگردی اس کا وسیلہ ہے جس کے پاس فکر نہیں ہوتی۔ دہشتگردی روسیاہ منافق کا وسیلہ ہے جس کے لئے ہماری قوم میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ کام جتنا زیادہ کریں گے قوم کے دل میں ان کی نفرت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ انہیں دہشتگردی کی ضرورت ہے۔ مگر ان بد بختوں کا کوئی مقصد اس سے پورا نہیں ہوگا۔ الا یہ کہ دہشتگردی کرکے تھوڑی سی خوشی محسوس کر لیں۔ صیہونی جن کے پاس دنیا میں کہنے کے لئے کوئی منطقی بات نہیں ہے وہ دہشتگردی کے ذریعے اپنا ہدف حاصل کرنے کی کوشش پر مجبور ہیں۔ البتہ بعض حکومتیں ہیں جو دہشتگردی کا سہارا لیتی ہیں جن کا نام میں نہیں لینا چاہتا۔ ایران اسلامی کو ان کاموں کی ضرورت نہیں ہے۔
دنیا کے کسی گوشے میں کوئی واقعہ ہو جائے، صیہونیوں کا گندا منہ فورا کھل جاتا ہے اور وہ اسلامی جمہوریہ ایران کا نام لینا شروع کر دیتے ہیں۔ تمہیں کیا حق ہے کہ اپنی گھناؤنی سانسوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں بات کرو۔ اسلامی جمہوریہ، نجیب، مومن اور سرفراز قوم پر استوار ایک طیب و طاہرحکومت ہے۔ تم کیا ہو؟ بلاحسب و نسب کی حکومت، جعلی حکومت، جھوٹی قوم۔ پوری دنیا سے شرپسند لوگوں کو جمع کیا اور اسرائیل کے نام سے ایک ملغوبہ بنا دیا۔
یہ قوم ہے؟ جہاں بھی خبیث اور شرپسند یہودی تھے، سب وہاں جمع ہو گئے۔ اکثر ملکوں میں یہودی ہیں اور رہ رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ہیں۔ یہاں بھی رہ رہے ہیں۔ کسی کے کام سے کام نہیں رکھتے۔ کوئی ان سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔ ان کا ملک ہے۔ یہاں وہ رہ رہے ہیں۔ جو مقبوضہ علاقوں میں گئے ہیں، وہ شرپسند، لالچی، چور اور قاتل تھے جو پوری دنیا سے جمع ہوئے اور یہ ایک قوم بن گئی۔
جو قوم اور حکومت اس طرح وجود میں آئی اور اس نے اپنا نام اسرائیل رکھ لیا اس کے سامنے دہشتگردی کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ اس کے پاس کوئی معقول بات نہیں ہے۔ ایسی مخلوق اپنی ذلالت، پستی اور خباثت کے ساتھ ایران جیسی عزت دار، سربلند اور نورانی قوم اور حکومت کے خلاف رائے عامہ کی نظر میں الزام تراشی کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ سب سے بڑے ملزم سب سے بڑے مجرم اور سب سے بڑے روسیاہ وہ خود ہیں۔
ایرانی قوم پروردگار کے فضل سے تجربہ کار قوم ہے۔ آپ ایرانی عوام نے بہت سختیاں برداشت کیں۔ پندرہ سال سے دنیا کی خبیث طاقتیں آپ کے خلاف سرگرم ہیں اور پندرہ سال سے ایرانی قوم پروردگار کے فضل سے روز بروز قوی تر ہو رہی ہے۔ یہ خدا پر توجہ کی برکت ہے۔ اسلام کی برکت ہے۔ وحدت کلمہ ( اتحاد) کی برکت ہے۔ تمام طبقات کے باہمی تعاون کی برکت ہے۔ تمام اداروں، افراد قوم اور عوام کے تمام طبقات کے باہمی تعاون کی برکت ہے۔ اس راہ پر چلتے رہیں۔ اس راہ پر گامزن رہنے میں، حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی توجہات اس قوم کی مدد کریں گی۔ امید ہے کہ خداوند عالم شرپسندوں کا شر خود انہیں کی طرف پلٹا دے گا اور ایرانی قوم کو سرافرازی، سربلندی اور روز بروز زیادہ کامیابی عطا کرے گا۔
 
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ۔