حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے پیغمبر اکرم اور صادق آل محمد علیہم السلام کی ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کی اور اس مبارک و مسعود دن کو تاريخ بشریت کی عظیم ترین عید قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امت اسلامیہ کی مادی و روحانی عظمت و شوکت اور حقیقی وفار و افتخار کا واحد راستہ یہ ہے ک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بے پناہ عظمتوں کی حامل شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اسوہ قرار دیا جائے۔
قائد انقلاب اسلامی نے مدینہ منورہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دس سالہ حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اس حکومت کی عمر بہت چھوٹی تھی لیکن اسی میں ایسی عمارت کی داغ بیل پڑی جو صدیوں سے ہمیشہ بشریت کی نگاہ میں علم و تمدن اور روحانی و مادی پیشرفت کا نقطہ کمال رہی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اتحاد کو امت اسلامیہ کی انتہائی اہم ضرورت قرار دیا اور قوموں کی بیداری اور اسلامی انقلابات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ علاقے میں رونما ہونے والے انقلاب، امریکا اور استکباری طاقتوں کی پے در پے ہزیمت اور صیہونی حکومت کا روز افزوں زوال امت اسلامیہ کو حاصل ہونے والے اہم مواقع ہیں اور ان مواقع سے بھرپور استفادہ کئے جانے کی ضرورت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اس سال اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے موقعے پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کی آمد کو حسن اتفاق قرار دیا اور فرمایا کہ ایران کا اسلامی انقلاب در حقیقت تاریخ میں پیغمبر اسلام کی عظیم تحریک کا ہی ایک ثمرہ ہے اور یہ انقلاب حقیقی اسلام کا احیاء تھا۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایک ایسے دور میں جب تسلط پسند طاقتیں اطمینان حاصل کر چکی تھیں کہ اپنے اقدامات سے روحانیت اور اسلام پسندی کے جذبے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں ناگہاں اسلامی انقلاب کی عظیم تاریخی آواز گونجی جس نے دشمنوں کو دہشت زدہ اور دوستوں اور بابصیرت انسانوں کو پرامید کر دیا۔
اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌

نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلاۃ و السلام کے یوم ولادت با سعادت کے اس مبارک و مسعود موقعے پر آپ تمام حاضرین محترم، برادران و خواہران عزیز، بالخصوص دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے اپنے عزیز مہمانوں کو تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں۔ اس عظیم تاریخی مناسبت کی مبارکباد، میں تمام امت اسلامیہ، عالم بشریت اور خاص طور پر ہمیشہ میدان عمل میں موجود رہنے والی ملت ایران کو بھی پیش کروں گا۔
اس سال بحمد اللہ یہ دو عظیم مناسبتیں، یعنی یہ مبارک و مسعود یوم ولادت جو خیر و برکت کا سرچشمہ اور اسلام کی عظیم تاریخی تحریک کا محوری نقطہ ہے اور اسلامی انقلاب کی فتح کی سالگرہ جو عظیم اسلامی تحریک کے انتہائی اہم ثمرات میں سے ایک ہے، ایک ساتھ آئی ہیں۔ ملت ایران آج دو عیدوں کا جشن منا رہی ہے، عید میلاد کا جشن بھی اور اسلامی انقلاب کا جشن بھی۔ اسلامی انقلاب کا رونما ہونا در حقیقت اسلام کا نیا جنم ہے۔ ایک ایسے دور میں جب دنیا کی مادی طاقتیں اور تسلط پسند حکومتیں دسیوں سال کی سازشوں کے بعد یہ سمجھ بیٹھی تھیں کہ دین و روحانیت اور خاص طور پر اسلام کی بساط انسانی زندگی سے سمیٹ دی گئی ہے، یہ عظیم گونج سنائی دی، اس ملک میں ایک عظیم تاریخی آواز گونجی جس نے دشمنوں کو لرزہ براندام کر دیا، اسلام کے دشمنوں کو بھی، قوموں کی خود مختاری کے دشمنوں کو بھی اور بشریت کے دشمنوں کو بھی، اور اس کے ساتھ ہی پوری دنیا میں بابصیرت اور ذی شعور انسانوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کر دی۔ جس دن ایران میں انقلاب فتح سے ہمکنار ہوا، اس دنیا میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پرچم اسلام اس انداز سے، وہ بھی ایسے خطے میں، ایک ایسے ملک میں جو تسلط پسندوں کے چنگل میں جکڑا ہوا تھا، لہرائے گا، یہ اسلامی تحریک دوام حاصل کرے گی، پروان چڑھے گی، دشمنیوں اور مخاصمتوں کا کامیابی سے سامنا کرے گی! دنیا کے گوشہ و کنار میں کوئی بھی اس کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔
اسلامی جمہوری نظام کے دشمن یقین کئے بیٹھے تھے کہ ایک دو مہینے کے اندر یا زیادہ سے زیادہ ایک سال میں اسلامی جمہوری نظام کو اکھاڑ پھینکیں گے اور اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کیں۔
واقعی ہمارے انقلاب کی تاریخ کا ایک ایک دن عبرتوں سے مملو ہے۔ واقعی ایران میں آنے والے اسلامی انقلاب کے جفاکشی اور سرگرمیوں کے برسوں کے ایک ایک دن کو دنیا کی اقوام کے سامنے نمونے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ تمام سازشیں، گوناگوں شکلوں میں ڈالے جانے والے دباؤ اور دوسری طرف اس عظیم مرد مجاہد کی قیادت میں جس کے وجود میں اللہ تعالی نے یقینی طور نبوت کے پاکیزہ انوار کی ایک جھلک ودیعت کر دی تھی، ملت ایران کی استقامت، (ایک درس ہے)۔ ہمارے عظیم الشان امام خمینی نے، اس عظیم انسان نے، اسی راستے پر، اسی انداز سے قدم رکھے اور اسی طرز عمل کو اپنایا۔ ملت ایران نے بھی وفاداری کا ثبوت دیا، صدق دلی کا مظاہرہ کیا، میدان عمل میں ڈٹی رہی، سختیاں برداشت کیں اور سرانجام دشمن کی سازشوں پر اپنے عزم و قوت ارادی سے غلبہ پایا۔ نتیجے میں اس شجرہ طیبہ کو دوام حاصل ہو گیا، اس کی جڑیں گہرائی میں اترتی چلی گئیں، اس کے برگ و گل میں اضافہ ہوا اور یہ عظیم قلعہ روز بروز مستحکم اور ناقابل تسخیر ہوتا گیا۔ یہ سب اسلام کی برکتیں ہیں اور یہ سب اس مولود کی برکتیں ہیں جس نے آج کے دن فرش زمین پر قدم رکھے۔
ہم مسلمانوں کو راہ ہدایت تلاش کرنا ہو تو بس اتنا ہی کافی ہے کہ پیغمبر اسلام کی شخصیت کو پہچان لیں۔ ہمارا تو خیر عقیدہ ہے کہ تمام بشریت کو پیغمبر اسلام کے وجود مبارک سے مستفیض ہونا چاہئے۔ وہ سب فیض اٹھا بھی رہے ہیں تاہم امت اسلامیہ کو بدرجہ اولی استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ عظیم ہستی، مکارم اخلاق سے مزین یہ وجود، یہ عظیم شخصیت جسے اللہ تعالی نے تاریخ بشر کی سب سے عظیم ذمہ داری کے لئے چنا کہ جس کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے؛ «انّ اللَّه عزّ و جلّ ادّب نبيّه فاحسن ادبه فلمّا اكمل له الادب قال انّك لعلى خلق عظيم ثمّ فوّض اليه امر الدّين و العباد ليسوس عباده»؛ اللہ تعالی نے اس عظیم شخصیت کی پرورش کی، تربیت کی، نشو نما کے مراحل طے کرائے، عظیم تاریخی مہم کے تمام لوازمات اس مقدس اور پاکیزہ وجود میں قرار دیئے اور پھر اس کے دوش پر یہ عظیم ذمہ داری ڈالی، اس تاریخی رسالت کا بار گراں اس کے حوالے کیا۔ لہذا آج کا دن سترہ ربیع الاول کا دن نبی مکرم کی ولادت کا دن تاریح انسانیت میں بشر کی سب سے بڑی عید کا دن قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس دن اللہ تعالی نے بشریت کو اور تاریخ بشریت کو اس عظیم انسان کے تحفے سے نوازا اور اس عظیم ہستی نے اس مہم کے تمام تر تقاضے پورے کئے۔
آج ہم مسلمان اگر پیغمبر اکرم کی شخصیت پر اپنی توجہ مرکوز کر لیں، اس کے بارے میں غور و خوض کریں، اس سے درس حاصل کرنے کی کوشش کریں تو ہمارے دین و دنیا کے لئے یہی کافی ہوگا۔ اپنے وقار رفتہ کی بحالی کے لئے اس وجود پر نگاہوں کو مرکوز کرنا، اس سے درس لینا اور اس سے سیکھنے کی کوشش کرنا ہی کافی ہوگا۔ یہ شخصیت مظہر علم تھی، دیانتداری کا آئینہ تھی، اخلاق کا مجسمہ تھی، انصاف کا معیار تھی۔ انسان کو اور کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے؟ انسانی ضرورتیں تو یہی چیزیں ہیں۔ یہ ایسی انسانی ضرورتیں ہیں جو پوری تاریخ بشر میں کبھی تبدیل نہیں ہوئي ہیں۔ آغاز خلقت سے تاحال انسانوں کی زندگی میں بے شمار تغیرات پیدا ہوئے، تبدیلیاں آئیں جن سے زندگی کے حالات، زندگی کے امور دگرگوں ہوکر رہ گئے لیکن بشر کے اصلی مطالبات اور احتیاجات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔انسان روز اول سے ہی سکون اور ذہنی آسائش کی فکر میں تھا، انصاف کی تلاش میں تھا، اخلاق حسنہ کی جستجو میں تھا، خالق ہستی سے مستحکم رابطے کا متمنی تھا، یہی بشریت کی اصلی ضرورتیں ہیں اور ان ضرورتوں کا سرچشمہ اس کی فطرت و سرشت ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات ان تمام خصوصیات کی آئینہ دار ہے۔ ہم مسلم امہ کو آج ان تمام خصوصیات کی ضرورت ہے۔ امت اسلامیہ کو آج علمی پیشرفت کی ضرورت ہے، اللہ تعالی کی ذات پر مکمل اطمینان رکھنے کی ضرورت ہے۔ آپس میں صحتمند روابط اور اخلاق حسنہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں آپس میں برادرانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے، چشم پوشی اور درگزر سے کام لینا چاہئے۔ ان تمام خصوصیات کا بھرپور آئینہ پیغمبر اکرم کی ذات ہے۔ آپ کا علم، آپ کا حلم، آپ کی چشم پوشی، آپ کی رحمدلی، کمزور طبقے کے لئے آپ کی شفقت، معاشرے کے تمام افراد کے تعلق سے آپ کا عدل و انصاف، ان تمام خصوصیات کا مجسمہ پیغمبر اکرم کی شخصیت ہے۔ ہمیں پیغمبر سے درس لینا چاہئے، ہمیں ان خصوصیات کی ضرورت ہے۔ آج ہمیں اللہ تعالی پر اپنا یقین پختہ کرنے کی ضرورت ہے، اللہ پر اطمینان رکھنے کی ضرورت ہے، اللہ کے وعدوں پر بھروسہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی نے وعدہ کیا ہے، فرمایا ہے کہ اگر مجاہدت کروگے، اگر محنت کروگے، تو اللہ تعالی تمہیں منزل مقصود تک پہنچائے گا اور تم استقامت کے زیر سایہ اپنے اہداف حاصل کر لوگے۔ دنیاوی خواہشات کے مقابل ہماری قوت ارادی میں تزلزل نہیں پیدا ہونا چاہئے، مال و مقام کے معاملے میں اسی طرح دوسرے گوناگوں وسوسوں کے سامنے ہماری بے نیازی میں کوئی کمزوری نہیں پیدا ہونی چاہئے۔ یہی چیزیں انسانیت کو کمالات کے مقام اوج پر پہنچاتی ہیں، کسی بھی قوم کو وقار کی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہیں، کسی بھی معاشرے کو حقیقی سعادت و کامرانی سے ہمکنار کر سکتی ہیں۔ ہمیں ان چیزوں کی شدید احتیاج ہے اور ان صفات کا مرقع ہمارے پیغمبر کی ذات ہے۔
ہمارے نبی مکرم کی پوری زندگی ایسی ہے، آپ کا بچپن بھی دیدنی ہے، آپ کی نوجوانی کا دور بھی اور بعثت سے قبل کے سال بھی بے مثال ہیں۔ آپ کی دیانتداری کا یہ عالم ہے کہ پورا قبیلہ قریش اور آپ سے واقفیت رکھنے والا ہر عرب آپ کو امین کے لقب سے یاد کرتا تھا۔ لوگوں کے بارے میں آپ کا انصاف، آپ کی عادلانہ نگاہ ایسی ہے کہ جب حجر الاسود کو نصب کرنے کا موقعہ آتا ہے اور عرب قبائل اور گروہوں میں تصادم کی نوبت آ جاتی ہے، تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے تو فیصلے کے لئے آپ کا انتخاب کرتے ہیں، حالانکہ اس وقت آپ نوجوانی کے دور میں تھے۔ یہ آپ کی انصاف پسندی ہے جس کے سب معترف تھے۔ آپ کو صادق و امین مانتے تھے۔ یہ آپ کی نوجوانی کا دور ہے۔ اس کے بعد بعثت کا دور آیا تو آپ کا ایثار، آپ کی مجاہدت اور آپ کی استقامت سامنے آئی۔ اس دور میں سارے لوگ آپ کے مخالف تھے، آپ کے خلاف محاذ آرائی کر رہے تھے، آپ کے برخلاف سمت میں حرکت کر رہے تھے، آپ کی دشمنی پر تلے ہوئے تھے، کتنی سختیاں پڑیں، مکہ کے تیرہ سال کتنی دشواریوں میں گزرے لیکن پیغمبر کے پائے ثبات میں جنبش نہ آئی، آپ کی اسی استقامت کا نتیجہ تھا کہ مضبوط ارادے کے مالک مسلمان وجود میں آئے جو ہر دباؤ اور سختی کو مسکرا کر گلے لگاتے تھے۔ یہ سب ہمارے لئے درس ہیں۔ اس کے بعد مدنی معاشرہ تشکیل پایا۔ آپ نے دس سال سے زیادہ حکومت نہیں کی لیکن ایسی عظیم عمارت تعمیر کر دی کہ صدیاں گزر گئیں مگر علم و دانش میں، تہذیب و تمدن میں، روحانی ارتقاء میں، اخلاقی کمالات میں اور دولت و ثروت میں انسانیت کا نقطہ عروج آج بھی وہی معاشرہ ہے۔ وہی معاشرہ جس کا خاکہ پیغمبر اسلام نے کھینچا اور جس کی داغ بیل آپ کے دست مبارک سے پڑی۔ البتہ بعد میں مسلمانوں نے تساہلی برتی تو ان پر ضربیں پڑیں۔ ہم مسلمانوں نے اپنے ہاتھ سے اپنی پسماندگی کا سامان مہیا کیا۔ اب اگر ہم پھر آنحضرت کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کریں تو ایک بار پھر ترقی کریں گے۔ آج امت اسلامیہ کو اتحاد کی ضرورت ہے، باہمی جذبہ ہمدردی کی ضرورت ہے، باہمی آشنائی کی ضرورت ہے۔ آج عرب دنیا میں اور اسلامی دنیا میں جو عوامی انقلابات آ رہے ہیں، قوموں کی رگوں میں بیداری خون کی مانند گردش کر رہی ہے، میدان عمل میں قومیں وارد ہو رہی ہیں، امریکا اور استعماری نظام کو جو بار بار ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے، صیہونی حکومت پر روز بروز کمزوری طاری ہو رہی ہے، یہ سب مسلمانوں کو حاصل ہونے والے اہم ترین مواقع ہیں۔ یہ امت اسلامیہ کے لئے سنہری موقعہ ہے۔ ہمیں ہوش میں آنے کی ضرورت ہے، درس لینے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امت اسلامیہ کی بلند ہمتی سے، روشن فکر حضرات، علمی شخصیات، سیاسی و مذہبی قائدین کی قوت ارادی کی برکت سے یہ تحریک آگے بڑھے گی اور عالم اسلام کے وقار کا دور ایک بار پھر پلٹ آئےگا۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس دن کو قریب سے قریب تر لائے اور ہم سب کو توفیق عنایت فرمائے کہ اس تحریک میں شریک ہوں اور اس کا جز قرار پائیں۔
والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌