قائد انقلاب اسلامی نے فرض شناسی، مخلصانہ نیت، توکل علی اللہ، سعی برائے خوشنودی پروردگار کو پارلیمنٹ اور دیگر اداروں کی کامیاب کارکردگی کی اصلی شرط اور بنیادی مقدمہ قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر یہ نقطہ نگاہ اور اس انداز کا جذبہ عمل حکمفرما ہو گیا تو رحمت و نصرت الہی کی برکت سے بند دروازے بھی کھلتے جائیں گے اور تمام مشکلات کا ازالہ ہو جائے گا۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اللہ کی لا متناہی قوت پر توکل کو اسلامی جمہوریہ کی پیشرفت اور مقتدر پوزیشن کا راز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ سرگرداں و حیراں مادی دنیا میں اسلامی نظام انسانی اور الہی اقدار کی پاسداری کا علمبردار ہے، لہذا ارکان پارلیمنٹ کو چاہئے کہ اس قضیئے کی گہرائی کا بخوبی ادراک کرتے ہوئے اللہ سے اپنے رابطے کی تقویت کو حصول کامیابی کا اصلی راز سمجھیں۔ آپ نے اسلامی جمہوریہ سے استکبار کی دشمنی کو تسلط پسند طاقتوں کی استعماری خو کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا کہ بعض افراد اشارے کنائے میں کہہ جاتے ہیں کہ اسلامی نظام کو دنیا کے مد مقابل نہ کھڑا کیجئے جبکہ یہ خیال عدم تدبر کا نتیجہ ہے کیونکہ حقیقت امر یہ ہے کہ دینی حکومت اور دینی جمہوریت کا خیال پیش کئے جانے پر دنیا کے فراعنہ کا غضبناک ہونا اور اس نظام اور قوم کے خلاف صف آرا ہو جانا فطری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ کو نظام کا بنیادی ترین ستون قرار دیا اور اس کی دو اہم صفتوں یعنی زندہ اور صحتمند ہونے کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ نا مناسب نتائج دینے والی جمود کی شکار پارلیمنٹ ایک ناقص پارلیمنٹ ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ملک، علاقے اور دنیا کے سیاسی امور میں سرگرم شرکت کو بھی ایک زندہ و پرنشاط پارلیمنٹ کی خصوصیات کا جز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ پارلیمنٹ در حقیقت ملکی پالیسیوں، رائے عامہ اور انقلاب کا آئینہ ہے لہذا مختلف داخلی اور بیرونی مسائل کے سلسلے میں اس کا واضح موقف ہونا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے علاقے میں تیز رفتاری سے رونما ہونے والے گہرے تغیرات و واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آج خطے میں ایک ہنگامہ برپا ہے اور دنیا کا قلب سمجھے جانے والے اس علاقے میں عجیب و غریب حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر آپ علاقائی مسائل کے تعلق سے، بروقت مناسب موقف اختیار کرتے ہیں تو یقینا علاقے کی رائے عامہ اور خطے کے واقعات میں گہرے اثر رکھنے والے ممالک پر اس کا اثر پڑے گا۔
آپ نے صحتمند پارلیمنٹ کی خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے مقننہ کے ساتھ ہی ایک ایک رکن پارلیمنٹ کی سیاسی، اقتصادی اور اخلاقی پاکیزگی پر تاکید کی اور فرمایا کہ اگر پارلیمنٹ کے اندر انقلاب کے کسی اصول کے منافی رجحان خواہ انتہائی محدود سطح پر نظر آئے تب بھی یہ پارلیمنٹ کی عدم صحتمندی کی علامت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پارلیمنٹ کی خود مختاری کو حیاتی مسئلہ اور اس قانون ساز ادارے کی صحتمندی کی اہم ترین علامت قرار دیا اور فرمایا کہ گزشتہ تمام حکومتوں اور پارلیمنٹ کے مختلف ادوار میں یہ انتباہ بار بار دیا گيا ہے کہ پارلیمنٹ کی خود مختاری کے نام پر ہر مسئلے میں حکومت پر اعتراض کرنے سے گریز کیا جائے۔ پارلیمنٹ کی نظر اگر حکومت سے مختلف ہے تو اس طرح کے غیر تعمیری ٹکراؤ سے بچتے ہوئے متعلقہ شعبے کے لئے قانون سازی کی جا سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے۔؛
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحیم‌

میں تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو، ذی فہم و با ایمان ملت ایران کے قابل احترام منتخب نمائںدوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ جناب لاری جانی صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ملک میں قومی اسمبلی اور قانون ساز ادارے کی تاریخ اور پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی سے وابستہ توقعات کے تعلق سے انتہائی مفید اور قابل قدر نکات پیش کئے۔ جن نکات کا آپ نے ذکر کیا بالکل درست ہیں۔ اگر پارلیمنٹ کے محترم ارکان نے امید اور توقع کے عین مطابق اس پلیٹ فارم پر آزادنہ فکر اور خود مختار طرز کار کے ساتھ ملکی مفادات کو ملحوظ رکھتے ہوئے، دشمن کے مقابل شجاعت کا ثبوت دیتے ہوئے، مستقبل کے تئیں پرامید رہتے ہوئے اپنی کارکردگی اور سرگرمیوں کو صحیح سمت اور جہت عطا کی تو بیشک ملک کو فائدہ پہنچے گا اور ہم اپنے اس راستے پر گامزن رہنے میں کامیاب ہوں گے۔
یہاں ایک بنیادی نکتہ جس پر ہم سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے اور مجھے آپ سے زیادہ اس کا خیال رکھنا چاہئے اور آپ کو بھی اپنے اپنے فرائض منصبی کے اعتبار سے اس کو پیش نظر رکھنا چاہئے، یہ ہے کہ فریضے کا احساس رہے اور صدق دلی کے ساتھ خوشنودی پروردگار کے لئے کام کیا جائے۔ اگر اس میں کامیابی مل گئی تو تمام مشکلات حل ہو جائیں گی اور بند راستے کھلنے لگیں گے۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو نصرت و رحمت الہی کے دروازے ہم پر وا ہو جائیں گے۔ ان تتقو اللہ یجعل لکم فرقانا (1) اگر ہم یہ کر لے گئے تو دشمن سے شکست کا اندیشہ اور دشمن کے غلبے کا خوف ختم ہو جائے گا۔ اللہ پر توکل اور اللہ سے رابطہ قائم ہو جانے کی صورت میں جس کا راستہ یہی پاکیزہ نیت اور صدق دلی ہے، تمام مشکلات رفع ہو جائیں گی۔ ہمارا انقلاب بھی اسی طرح کامیاب ہوا۔ ہمارے عظیم الشان امام خمینی رضوان اللہ علیہ میں جن میں تمام رہبرانہ خصوصیات بدرجہ اتم موجود تھیں، اگر توکل علی اللہ اور صدق دلی کی خصوصیات نہ ہوتیں تو یہ انقلاب ہرگز کامیاب نہ ہو پاتا۔ عوام جو میدان میں اتر پڑے، ممتاز شخصیات نے عوام کو میدان میں آنے کی جو ترغیب دلائی، اگر ان میں اخلاص اور راہ خدا میں کام کرنے کا جذبہ نہ ہوتا تو کام آگے نہ بڑھ پاتا۔ مقدس دفاع کا بھی یہی عالم تھا۔ آپ کے درمیان بیشتر افراد ایسے ہیں جو مقدس دفاع کے دور میں موجود تھے، جو لوگ موجود تھے انہیں پوری خبر ہے کہ کیا حالات تھے، کیسی فضا تھی؟ تو ہم کو اپنے فریضے کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہئے، خوشنودی پروردگار حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہم زندگی کو تاجرانہ نگاہ سے دیکھیں تب بھی نتیجہ یہی ہے۔ میں برسوں پہلے سے یہ بات بار بار کہتا آ رہا ہوں کہ شہادت در راہ خدا تاجرانہ موت ہے۔ یعنی ایسی موت جس میں نفع کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ حقیقت امر بھی یہی ہے۔ جو انسان راہ خدا میں شہید نہیں ہوتا اور اس جان کو جو ہمیں عاریتا ملی ہے، راہ خدا میں قربان نہیں کرتا، اسے وہ ہمیشہ تو اپنے پاس رکھنے سے رہا، طوعا و کرہا اسے یہ جان دینی ہی ہے۔ تو کتنا اچھا ہے کہ یہ امر ناگزیر یہ ہماری موت جو یقینی ہے، ہماری سعادت کا ذریعہ بن جائے، حقیقی و ابدی زندگی میں الطاف الہی سے ہماری بہرہ مندی کا وسیلہ بن جائے۔ تو واقعی شہادت تاجرانہ موت ہے۔
یہی چیز دنیوی جانفشانی و محنت و مشقت کے سلسلے میں بھی صادق آتی ہے۔ اگر ہم پیسے کا لالچ دل سے نکال دیں، اگر حرام لذات و خواہشات سے دامن بچا لیں تو ہم نے تاجرانہ عمل انجام دیا ہے اور نفع کمایا ہے۔ کیونکہ اس چشم پوشی کے عوض اللہ تعالی ہمیں جو پاداش عطا کرے گا اس کے مقابلے میں یہ لذتیں صفر بلکہ اس سے بھی کم ہیں، ہیچ ہیں۔ اللہ کے لئے کام کا مرتبہ یہ ہے۔ میرے خیال میں یہ بالکل بنیادی نکتہ ہے۔ آپ ایک نظام کے بنیادی ستون کا حصہ واقع ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی ایک بنیادی ستون ہے۔ اس نظام کا بنیادی ستون جو اس مضطرب و آشفتہ مادی دنیا میں روحانیت و معنویت کا پیغام دے رہا ہے اور مادہ پرست دنیا کی روش پر خط تنسیخ کھینچ رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسے دشمنیوں اور مخاصمتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ جو بعض افراد اشارے کنائے میں یا کبھی صریحی انداز میں اعتراض کرتے ہیں کہ صاحب! دنیا کو اپنا دشمن نہ بنائیے! میرے خیال میں یہ غور و فکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔ جب آپ روحانی و دینی حکومت کے علمبردار بنے ہیں، جب آپ دینی جمہوریت اور اسلامی ڈیموکریسی کی بات کرتے ہیں تو یہی جھگڑے کی جڑ ہے۔ دنیا کو اعتراض دعوت دین پر ہے۔ دنیا سے ہماری مراد وہ قوتیں ہیں جو دنیا کو چلا رہی ہیں۔ ان قوتوں کا تو وجود و تشخص ہی انسانوں کو لوٹنے، انسانیت پر وار کرنے، انسانی اقدار کو مٹا دینے پر منحصر ہے۔ ان کا نصب العین مادی لذات سے بہرہ مند ہونا ہے۔ آپ نے تاریخ کے فراعنہ کے بارے میں سنا ہے، تاریخ کے فراعنہ ہمیشہ انسانی اقدار سے لڑتے رہے ہیں اور دنیا انہیں کے ہاتھوں کا کھلونا رہی ہے۔ ان کے مقابل جب آپ ایک حکومتی نظام قائم کریں گے۔ وہ بھی ایسی حکومت جو روحانیت کی ترویج کر رہی ہو، جو انسانی اقدار کی پاسباں بن جائے، جو الہی قدروں کی حفاظت کرے، الہی اقدار ہی در حقیقت انسانی اقدار کی روح کا درجہ رکھتے ہیں، ظاہر ہے ٹکراؤ تو پیدا ہوگا ہی۔ مقابلہ آرائی کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے آپ کے پاس کسی بڑی طاقت کا سہارا ہونا چاہئے۔ یہ طاقت ایٹم بم، مادی ہتھیاروں وغیرہ کی طاقت نہیں ہے۔ یہ طاقت ایک روحانی طاقت ہے۔ یہ اللہ پر تکیہ کرنے سے عبارت ہے، یہ قضیئے کی بنیاد ہے۔ ہمیں اور آپ کو ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی نیتوں کو، اپنے دلوں کو اور اپنے اہداف کو پہلے سے زیادہ خدا پسندانہ بنائیں۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو مشکلات رفع ہو جائیں گی، اگر یہ ہو گیا تو ہم پیشرف کریں گے، اگر ہم اس میں کامیابی حاصل کر لے گئے تو دشمن پر قنوطیت طاری ہو جائے گی، دشمن کی رکاوٹیں بے شمار ہیں اور یہ بحث طلب موضوع ہے جس کے لئے یہ اجلاس مناسب جگہ نہیں ہے۔ آپ بحمد اللہ اعلی فکری صلاحیتوں کے مالک اور اعلی تعلیم یافتہ افراد ہیں۔ مسائل اور امور کا تجزیہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ امر واقعہ یہی ہے کہ اگر انسان اس نظام الہی کے زیر سایہ اللہ تعالی سے اپنا رابطہ مستحکم کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اس راستے میں جس قدر پیشرفت کرے گا بلا شبہ دشمن کے مقابلے میں اس کی کامیابیاں بھی اتنی ہی زیادہ ہوں گی، رکاوٹیں ہٹتی جائیں گی، اسے مد نظر رکھنا چاہئے۔ البتہ ہر عہدے، ہر ذمہ داری اور ہر مقام کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے بھی اپنے تقاضے ہیں۔ آپ حکومت میں ہوں تو اس کے دوسرے تقاضے ہیں، مختلف شعبوں میں جس جگہ آپ ہوں گے اس کے اپنے خاص تقاضے بھی ہوں گے۔ انتظامیہ سے باہر کسی عہدے پر آپ فائز ہیں تو اس کے اپنے الگ تقاضے ہیں۔ آپ کا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ کام اللہ کی خوشنودی کے لئے انجام دینا ہے۔ ہم پر آج بہت سے اعتراضات کئے جاتے ہیں اور ان میں بیشتر اعتراضات بجا بھی ہیں۔ اگر ہم اپنی نیتوں کو پاکیزہ اور اپنے فیصلوں کو درست کر لیں تو یہ اعتراضات خود بخود برطرف ہو جائیں گے۔
پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلامی کے سلسلے میں لب کلام کے طور پر یہ دو جملے عرض کروں گا کہ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ زندہ بھی ہو اور صحتمند بھی رہے۔ پارلیمنٹ میں ان دونوں خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔ پارلیمنٹ کے زندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں حرکت، امید و نشاط اور زندگي کے آثار دکھائی دیں۔ پارلیمنٹ پر اگر جمود طاری ہو جائے، بے حسی چھا جائے، مختلف شعبوں کے سلسلے میں اس کی کارکردگی مناسب نہ ہو تو یہ ناقص پارلیمنٹ ہے۔ زندگی کی علامت حرکت اور نشاط و امید ہے۔ اس حرکت اور نشاط کو فعلی شکل کیسے دی جا سکتی ہے؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ فرائض پر پوری درستگی کے ساتھ عمل کیا جائے۔ بہترین قانون سازی کی جائے۔ بہترین قانونی سازی کے ذیل میں کم از کم دس پندرہ خصوصیات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ مثلا یہ کہ عصری تقاضوں کے مطابق ہو، سابقہ کسی قانون کی تکرار نہ ہو، کسی قانون سے متصادم نہ ہو، وغیرہ وغیرہ۔ اسے کہتے ہیں اچھا قانون۔ دوسری اہم چیز ہے درست نگرانی۔ پارلیمنٹ کے یہی دو بنیادی فرائض بھی ہیں۔ سب سے پہلا فریضہ ہے قانون سازی کا اور اس سے جڑا ہوا دوسرا فریضہ ہے نظارت و نگرانی کا۔ صحیح نظارت کی تشریح کی جا سکتی ہے۔ درست نظارت کی کچھ خصوصیات ہیں جن کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ میں بیان کروں۔ خود آپ ان سے واقف ہیں۔ یہ واضح اور نمایاں علامات و خصوصیات میں شامل ہیں۔ غلط نیت سے کی جانے والی نظارت درست نظارت نہیں ہے، جانبدارانہ نظارت غلط نظارت ہے، ایسی نظارت جو امور کا گہرائی سے جائزہ لئے بغیر سطحی طور پر انجام دی جائے، غلط نظارت ہے۔ درست نگرانی کی اپنی کچھ خصوصیات ہیں۔ ان کی آپ نشاندہی کر لیجئے۔
ایوان میں مفید اور نتیجہ بخش موجودگی بھی پارلیمنٹ کے زندہ ہونے کی علامت ہے۔ البتہ میں جو نکات عرض کر رہا ہوں وہ ایوان سے وابستہ توقعات ہیں تاہم پارلیمنٹ آپ ارکان کا ہی مجموعہ ہے۔ لہذا اگر آپ میں سے کوئی فرد پارلیمنٹ کے کام کے وقت، عام اجلاس میں یا کمیشنوں کے اجلاس سے غیر حاضر رہے تو ممکن ہے کہ وہ اپنے دل میں سوچے کے میں دو سو نوے ارکان میں سے ایک ہوں، صرف میرے غیر حاضر رہ جانے سے کیا فرق پڑے گا؟ لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ اس کا اثر پڑے گا۔ آپ کی غیر حاضری کا جو اپنا نقصان ہے وہ تو اپنی جگہ، اس سے دوسروں کی ذہنیت پر جو اثر مرتب ہوگا وہ الگ ہے۔ یعنی یہ کہ آپ غیر حاضر رہے تو ایوان سے غیر حاضری کا ایک چلن شروع ہو سکتا ہے۔ دوسرا رکن پارلیمنٹ جو پابندی کے ساتھ پارلیمانی کارروائي میں شرکت کرتا آیا ہے، ممکن ہے وہ بھی غیر حاضر رہنا شروع کر دے۔ یہ پارلیمنٹ کی عمومی مشکلات میں ہے۔ آپ نویں پارلیمنٹ میں اس مشکل کو برطرف کرنے کی سنجیدگی سے کوشش کیجئے۔ تو کارروائی میں موثر اور مفید شرکت ایوان کے زندہ ہونے کی علامتوں میں ہے۔
ملکی اور عالمی سطح کے سیاسی پلیٹ فارم پر سرگرم موجودگی۔ پارلیمنٹ فی الواقع انقلاب، رائے عامہ اور ملک کی قومی پالیسیوں کا آئینہ ہے۔ علاقے میں تغیرات رونما ہوتے ہیں، دنیا میں واقعات پیش آتے ہیں تو ان کے تعلق سے پارلیمنٹ کا موقف واضح اور روشن رہنا چاہئے۔ البتہ اس سلسلے میں گزشتہ پارلیمانیں بہت سرگرم رہیں اور انہوں نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ آج آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ علاقے میں ایک ہنگامہ برپا ہے۔ جو کچھ خبروں اور نیوز ایجنسیوں میں غلط یا صحیح طور پر دکھایا جا رہا ہے وہ اس حقیقت امر کا بہت چھوٹا سے حصہ ہے جو علاقے میں وقوع پذیر ہے۔ یہ علاقہ دنیا کا کوئی عام علاقہ نہیں ہے۔ یہ قلب عالم شمار ہوتا ہے۔ یہ تین بر اعظموں کو جوڑنے والا خطہ ہے۔ یہ تیل کا اہم ترین سرچشمہ ہے۔ یہ صیہونی حکومت کے وجود کی وجہ سے مغرب کی استعماری ریشہ دوانیوں کا مرکز ہے۔ یہ بڑا عجیب خطہ ہے۔ اس علاقے کے تغیرات و معاملات عالمی تغیرات و معاملات تصور کئے جاتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دنیا کے کسی گوشے میں چار ممالک کچھ مشکلات میں الجھ جاتے ہیں تو جو صورت حال پیدا ہوتی ہے وہی یہاں بھی ہمارے سامنے ہے۔ جی نہیں، یہ دنیا کا قلب سمجھا جانے والا علاقہ ہے۔ یہاں کچھ تغیرات رونما ہو رہے ہیں۔ ان کے سلسلے میں ہمارا موقف کیا ہے؟ یہ بڑے کلیدی مسائل ہیں۔ پارلیمنٹ کے زندہ اور بیدار ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام معاملات کے سلسلے میں اس کا واضح موقف ہو۔ اس کا یہ موقف اپنا اثر رکھتا ہے۔ آج میرے مد نظر جو ممالک ہیں، یہی علاقے کے ممالک، ان پر آپ کا موقف اپنا اثر ڈال سکتا ہے۔ اگر ہماری فکر صحیح نہج پر آگے بڑھی، ہم نے درستگی کے ساتھ جملوں اور الفاظ کا انتخاب کیا اور بروقت اور بر محل اپنی بات پیش کی تو یقینا علاقے میں دونوں محاذوں کی طرف سے جاری ان سرگرمیوں پر اس کا اثر ہوگا۔ مغرب کے حملہ آور شیطان صفت محاذ پر بھی اور حق بجانب عوامی محاذ پر بھی۔ تو زندہ و بیدار ہونے کی یہ علامتیں اور تقاضے ہیں۔ زندہ پارلیمنٹ اسے کہتے ہیں جو بروقت اور برمحل درست قانون سازی کرے، نگرانی کا فریضہ انجام دے، ملکی اور علاقائی مسائل میں سرگرم شراکت کرے اور لگن کے ساتھ اپنا کام پورا کرے۔
ان مختلف پارلیمانی کمیشنوں سے بھی ہرگز غفلت نہ برتئے۔ یہ کمیشن بڑے اہم ہیں۔ یہ پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر پیش کئے جانے سے قبل مسائل کو پختہ بنانے اور پھر ایوان میں فیصلہ کرنے کے عمل میں مددگار ثابت ہونے والے مراکز ہیں۔ یہ فیصلہ ملک کی تقدیر اور سرنوشت سے جڑا ہوتا ہے۔ صرف چار سال کے لئے نہیں بلکہ ممکن ہے کہ آپ کوئی ایسا قانون پاس کریں جو بیس سال تک ملک پر اپنا اثر ڈالے۔ ایک سمت اور جہت کا تعین کر دے۔
پارلمینٹ کے زندہ و بیدار ہونے کے ساتھ ہی اس کی پاکیزگی اور صحتمندی بھی لازمی ہے۔ اسے زندہ بھی ہونا چاہئے اور صحتمند بھی۔ یہ پاکیزگی اور صحتمندی مختلف اعتبار سے ہوتی ہے۔ سیاسی صحتمندی، اخلاقیاتی صحتمندی، مالیاتی صحتمندی۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن کا آپ ارکان پارلیمنٹ سے فردا فردا تعلق ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں ایسا طرز فکر پیدا ہو جائے، یقینا یہ طرز فکر عمومی اور کلی نہیں ہوگا بلکہ بہت محدود پیمانے پر ہوگا، جو انقلاب کے اصولوں سے تضاد رکھتا ہو تو یہ ایوان کی عدم صحتمندی کی علامت ہے۔ یا اگر پارلیمنٹ میں فریضے پر عمل آوری کی فکر کہیں گم ہوکر رہ جائے تو یہ بھی عدم صحتمندی کی علامت ہے۔ اگر مالیاتی امور میں بے احتیاطی کا سلسلہ شروع ہو جائے، رقم کا لین دین، بے جا سفارش وغیرہ جس کا بہت سی جگہوں پر رواج ہے تو پھر پارلیمنٹ صحتمند نہیں رہ جائے گی۔ یہ بڑی اہم چیزیں ہیں۔ پارلیمنٹ کے لئے بلا وجہ نئے نئے اخراجات نکالنا بھی عدم صحتمندی کی علامت ہے۔ کل جناب لاری جانی صاحب سے اس موضوع پر ہماری تفصیلی گفتگو ہوئی۔ واقعی پارلیمنٹ کو یہ کام توجہ سے کرنا چاہئے۔ آپ دیگر اداروں کے لئے نمونہ عمل بنئے کفایت شعاری میں، غیر ضروری سفر کا سلسلہ ختم کرنے میں، ارکان پارلیمنٹ کے دیگر ذاتی اخراجات کو کم کرنے کے سلسلے میں۔ البتہ اس کی زیادہ ذمہ داری پارلیمنٹ کی صدارتی کمیٹی پر عائد ہوتی ہے، اسے بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے، اسی طرح آپ ارکان پارلیمنٹ کو بھی دھیان دینا چاہئے۔ البتہ مجھے پورا یقین ہے، میرے پاس عمومی اطلاعات بھی ہیں اور خاص ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات بھی ہیں کہ واقعی ارکان پارلیمنٹ کے درمیان ایسے افراد کم نہیں ہیں جو بڑے محتاط اور پارسا افراد ہیں۔ ایسے افراد ہیں کہ دل سے ان کے لئے تعریفی جملے نکلتے ہیں، انسان انہیں دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ ایوان میں ایسے لوگ موجود ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے۔ میں نے ایک دو سال قبل محترم ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات میں پارلیمنٹ کی خود نظارتی سے متعلق کچھ باتیں عرض کی تھیں۔ قانون بھی پاس ہوا۔ آپ غور کیجئے اسی نشست کے آغاز میں اس آیت کی تلاوت کی گئی۔؛ و اتقوا فتنۃ لا تصیبنّ الّذین ظلموا منکم خاصّۃ (2) یہ بہت اہم ہے۔ ممکن ہے کہ کسی عمارت میں صرف ایک آدمی غیر محتاط اور لاابالی قسم کا ہو، کہیں پیٹرول گرا دے اور پھر ماچس بھی جلا دے لیکن اس کے نتیجے میں لگنے والی آگ میں صرف وہی شخص نہیں جلے گا۔ ممکن ہے کشتی میں سوراخ کرنے والا کوئی اکیلا انسان ہو لیکن وہ غرق اکیلا نہیں ہوگا۔ قرآن کہتا ہے کہ ایسے فتنے سے پرہیز کرو جو رونما ہونے کی صورت میں صرف ظالم شخص اور اس کا سبب بننے والے انسان کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیتا بلکہ بے گناہ بھی اس آگ میں جلتے ہیں، ایسے افراد کے دامن بھی سلگ اٹھتے ہیں جن کا اس فتنے میں کہیں کوئی کردار نہیں تھا۔ و اتقوا ایسے فتنے سے پرہیز کیجئے، اس کی جانب سے ہوشیار رہئے۔ اس کے لئے کیا طریقہ کار ہو سکتا ہے؟ اس کے لئے خود نظارتی ضروری ہے، ہم اپنی کارکردگی کی بھی نظارت کریں اور آپس میں ایک دوسرے کے کام پر بھی نظر رکھیں۔ و تواصوا بالحق و تواصوا بالصبر (3) مستقل سفارش اور نصیحت کریں۔ یہ سب صحتمندی اور پاکیزگی کی علامتیں ہیں۔
پارلیمنٹ کی پاکیزگی کی ایک اور علامت ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے سے بچنا ہے۔ آپ کو ایک پلیٹ فارم ملا ہے۔ یہ ایک عمومی پلیٹ فارم ہے۔ آپ جب بات کرتے ہیں تو آپ ایک قومی پلیٹ فارم پر بول رہے ہوتے ہیں، آپ کی بات سب کے کانوں تک پہنچتی ہے۔ آپ پارلیمنٹ میں جو بات کر رہے ہیں اگر اس میں کسی کی توہین مضمر ہے، کسی کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے، وہ شخص حالانکہ آپ کی نظر میں گنہگار ہے لیکن اس کا گناہ ابھی ثابت نہیں ہوا ہے، یا آپ کوئی ایسا موضوع اٹھا رہے ہیں جس کا جائزہ لینا ہماری اور آپ کی ذمہ داری نہیں ہے مثلا لوگوں کے نجی معاملات ہیں۔ پارلیمنٹ میں ان چیزوں کا ذکر کیوں ہو؟ ان چیزوں سے سختی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اگر ان چیزوں سے پرہیز کیا جائے تو یہ صحتمندی کی علامت ہے۔
میں نے پہلے بھی بعض ارکان پارلیمنٹ کی خدمت میں یہ نکتہ عرض کیا تھا اور اب جب آپ سارے ارکان پارلیمنٹ یہاں تشریف فرما ہیں تو ایک بار پھر اس کا اعادہ کر دوں کہ پارلیمنٹ حکیمانہ اور مدبرانہ گفتگو کی جگہ ہے۔ آپ کے پاس کہنے کے لئے کوئی بات ہے، پیش کرنے کے لئے کوئی استدلال ہے تو اسے پیش کیجئے! آپ کے بعد کوئي شخص ا ٹھ کر اپنی دلیل قائم کرکے آپ کی بات کو غلط ثابت کرتا ہے۔ ایوان میں موجود ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت دونوں میں سے کسی ایک کی حمایت کرے گی کہ فلاں صاحب کی بات درست ہے۔ لیکن اگر ایک شخص اپنی بات کہہ رہا ہے اور دوسرا شور مچانے لگے کہ کوئی کچھ سن ہی نہ سکے تو کیا یہ حکیمانہ عمل کہا جائے گا؟ کیا یہ دانشمندانہ فعل ہوگا؟ پارلیمنٹ کو اس بری چیز سے پاک کرنے کی ضرورت ہے کہ جب ایوان میں کوئی رکن پارلیمنٹ یا کوئی وزیر یا کوئی اور عہدیدار تقریر کر رہا ہے تو ہال کے کسی گوشے میں چار لوگ شور مچانے لگتے ہیں۔ یہ بہت بری چیز ہے۔ آٹھویں پارلیمنٹ میں بد قسمتی سے یہ برائی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ ساتویں پارلیمنٹ میں بھی یہ برائی تھی یا نہیں۔ میں نے پہلی دفعہ جب یہ منظر دیکھا تو بڑی حیرت ہوئی۔ یہ کیونکر ممکن ہے؟ لیکن نہیں، یہ چیز باقاعدہ انجام دی جا رہی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ پارلیمنٹ ان حرکتوں کی جگہ نہیں ہے۔ کہیں کوئی عمومی جلسہ ہو رہا ہو اور کچھ عام افراد ایسے کام کریں۔ کوئي بات کر رہا ہو اور دوسرا شور مچا رہا ہو تو سمجھ میں بھی آتا ہے۔ تاریخ میں اس کی مثالیں ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے۔؛ «و هم ینهون عنه و ینئون عنه»؛ (۴) جب پیغمبر کچھ بیان کرتے تھے تو ایک گروہ شور شرابا کرتا تھا کہ پیغمبر کی بات کوئی سن ہی نہ سکے۔ لیکن یہ چیز اسلامی جمہوریہ کے شایان شان نہیں ہے وہ بھی مجلس شورائے اسلامی کے اندر بیٹھ کر۔ مجلس شورائے اسلامی گفت و شنید کی جگہ ہے۔ سامنے والا اپنی بات کہہ لے، جب اس کی بات پوری ہو جائے اور اس میں آپ کو کوئي غلطی نظر آئے تو آپ اعتراض کیجئے اور استدلال کے ساتھ ثابت کیجئے کہ جی نہیں ان صاحب کی بات قابل قبول نہیں ہے، ان کی دلیل غلط ہے۔ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
میں پارلیمنٹ کی خود مختاری کا بہت قائل ہوں اور میرا نظریہ یہ ہے کہ آزاد پارلیمنٹ عظیم نعمت ہے۔ بعض لوگوں کا یہ تصور ہے اور اسے وہ بسا اوقات میڈیا میں بیان بھی کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی آزادی و خود مختاری کا تقاضا یہ ہے کہ مجریہ پر، حکومت پر یلغار کی جائے۔ ایسا نہیں ہے۔ کسی مخصوص حکومت کی بات نہیں ہے۔ ان برسوں میں مختلف حکومتیں تشکیل پائيں۔ میں نے ہر دور میں یہ سفارش کی ہے، یہ انتباہ دیا ہے۔ پارلیمنٹ کی آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ دلیل ہو یا نہ ہو حکومت پر حملہ ضرور کیا جائے۔ اس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ضرور لگائے جائیں، حتی ان کاموں پر بھی اعتراض کیا جائے جن پر اعتراض کی کوئی گنجائش بھی نہ ہو۔ کوئی ایسا قانون بنا دیجئے جو حکومت کے طریق کار کے برخلاف ہو! یہ اہم باتیں ہیں۔
میری نظر میں آج ہمیں ملک کے اندر سب سے زیادہ اتحاد و انسجام کی ضرورت ہے۔ اتحاد سے مراد فکروں کا یکساں ہو جانا نہیں ہے۔ بحمد اللہ آپ سب اعلی علمی و فکری مدارج پر فائز ہیں۔ آپ ان چیزوں سے واقف ہیں لیکن متنبہ کرنے اور یاد دہانی کرانے کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ ہم اس پر عمل کریں۔ ورنہ ہم جانتے تو بہت کچھ ہیں۔ آج ہماری صفوں میں اتحاد ضروری ہے۔ تفرقہ اور اختلاف قوم کے ضعف، انحطاط اور شکست کا پیش خیمہ ہے۔ آپ یہ نہ ہونے دیجئے۔ اختلاف رائے ہو سکتا ہے، اسے بیان کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ فلاں قضیئے میں ہمارے درمیان اختلاف نظر ہے لیکن ہم پھر بھی ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مثلا میں کہہ رہا ہوں کہ یہ کام نہیں ہونا چاہئے اور کوئی دوسرا کہہ رہا ہے کہ ہونا چاہئے۔ ایسے میں ایک مرجع کا ہونا ضروری ہے اور وہ مرجع قانون ہے، وہ مرجع عدلیہ ہے، وہ مرجع نگراں کونسل شورائے نگہبان ہے۔ وہ مرجع ہمارے تنازعے کا فیصلہ کرے کہ ہم آپس میں الجھ نہ پڑیں۔ یہ اتحاد ضروری ہے۔ ملک کے اہم مفادات کے مد نظر مختلف اداروں کے درمیان اتحاد و ہم آہنگی ہو۔ البتہ یہ بات کہتے تو سب ہیں۔ ایک دفعہ کوئی شخص غصے میں کسی چیز کا دفاع کر رہا تھا۔ دوسرے شخص نے اس سے کہا کہ تم اتنے غصے میں کیوں ہو؟ وہ اسی قہر آلود آواز میں چیخا کہ میں غصے میں نہیں ہوں؟ مختلف سمتوں سے، یعنی صرف دو فریقوں کی جانب سے نہیں، مسلسل اتحاد کی باتیں سنائي دیتی ہیں لیکن عملی طور پر تفرقے اور اختلاف کے آثار صاف دکھائی دیتے ہیں۔ میری گزارش ہے کہ اس مسئلے پر توجہ کیجئے۔ پارلیمنٹ کے اندر بھی، ارکان پارلیمنٹ کے درمیان بھی، پارلیمنٹ اور دیگر شعبوں، مجریہ اور عدلیہ کے سلسلے میں بھی اتحاد و یکجہتی کے اس ماحول کو قائم رکھئے اور یقین جانئے کہ یہ قوم، یہ ملک، یہ نظام اور یہ سمت ایسی ہے جس کی کامیابی کی بشارت مل چکی ہے۔ یہ لطف الہی ہے اور یہ سنت الہیہ کا تقاضا ہے۔ یہ قوم بڑی عظیم قوم ہے، یہ زیور ایمان سے آراستہ قوم ہے، ہمارے نوجوان بہت اچھے نوجوان ہیں۔ ہماری قوم میں بحمد اللہ اکثریت نوجوانوں کی ہی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ملک کی روش کا محور، رخ اور طرز فکر اسلامی و دینی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ، ملک کے حکام، انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے عہدیدار اور عدلیہ کے ذمہ دار افراد سب اسلامی اصولوں اور انقلابی امنگوں کے پابند افراد ہیں۔ یہ بہت عظیم چیز ہے۔ عوام صاحب ایمان ہیں، حکام عقیدے سے آراستہ ہیں۔ توفیقات الہی ہمارے شامل حال ہیں اور ہم بحمد اللہ پیشرفت کر رہے ہیں۔ پیشرفت و انصاف کے اس عشرے میں ہم انشاء اللہ اذن پروردگار سے نمایاں پیشرفت بھی حاصل کریں گے اور اس مدت کے پورے ہونے تک سماجی انصاف کے اعتبار سے بھی قابل لحاظ حد تک آگے بڑھ چکے ہوں گے۔

والسّلام علیكم و رحمةالله و بركاته‌

۱) انفال: ۲۹
۲) انفال: ۲۵
۳) عصر: ۳
۴) انعام: ۲۶