عید بعثت کے موقع پر اسلامی نظام کے اعلی عہدیداروں، تہران میں متعین اسلامی ممالک کے سفیروں اور شہداء کے لواحقین سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے ملت ایران اور امت اسلامیہ کو اس عید سعید کی مبارکباد پیش کی اور فرمایا کہ دین محمدی کی جانب قوموں کی نشاط انگیز رغبت سے ثابت ہوتا ہے کہ طویل تجربات کے بعد قوموں کو اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ مشرق و مغرب کے مادی مکاتب فکر انسانی ضرورتوں کی تکمیل سے قاصر اور بے سود ہیں اور صرف بعثت کی تعلیمات سے ہی بنی آدم کو حقیقی سعادت و پیشرفت نصیب ہو سکتی ہے۔ آپ نے بعثت کی دو اہم ترین تعلیمات یعنی فکر و تدبر اور تزکیہ نفس سے انسانی معاشرے کی دوری کو مشکلات کا بنیادی سبب قرار دیا اور فرمایا کہ اخلاقی انحطاط اور پستی سے انسانوں کی نجات بعثت پیغمبر کا نصب العین ہے اور اگر اس میں کامیابی مل جاتی ہے تو قوموں کی تمام اہم مشکلات کے ازالے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کے بعض ممالک میں تسلط پسند طاقتوں کے آشکارا مظالم اور مہلک کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عالمی استبدادی طاقتوں کے سیاہ نقطہ نگاہ کے مطابق انسان کی کوئی قدر و وقعت نہیں ہے، چنانچہ مغربی ممالک کے اقتصادی بحران کے قضیئے میں پوری دنیا گواہ ہے کہ تسلط پسند طاقتیں صرف سرمایہ دارانہ نظام کے تحت کام کرنے والے بینکوں اور کمپنیوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے کوشاں ہیں، عوامی مشکلات کی انہیں کوئی فکر نہیں ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے علاقے کی قوموں کے انقلابوں کو ان کے اصلی راستے سے منحرف کرنے اور انہیں سبوتاژ کرنے کے لئے استعماری طاقتوں کی بلا وقفہ کوششوں کا حوالہ دیا اور فرمایا کہ قومیں فکر و خرد کے خداداد خزانے کی مدد سے اور نصرت الہی کے وعدوں کے تعلق سے حسن ظن کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائیں اور تسلط پسند طاقتوں کے سامنے استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں۔
قائد انقلاب اسلامی نے حرکت، مجاہدت اور بے خوفی کے ساتھ خطرات سے مقابلے کو نصرت الہی کے وعدے کے ایفاء کی شرط قرار دیا اور قرآنی آیات کی روشنی میں فرمایا کہ فتح کے وعدے کے ایفاء کے لئے صرف مومن ہونا ہی کافی نہیں بلکہ مجاہدت اور صبر و استقامت بھی ضروری ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے شیعہ و سنی فرقوں کو ایک دوسرے سے ہراساں کرنے کی دشمنان اسلامی کی منصوبہ بندی کا حوالہ دیا اور اتحاد کو عالم اسلام کی اہم ترین ضرورت بتایا۔ آپ نے بعض عناصر کی جانب سے جاری تفرقہ انگیزی کی کوششوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے عناصر جو اسلام کو نہیں مانتے اور جنہیں تشیع اور تسنن کی کوئی تمیز بھی نہیں ہے استعماری ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے اشارے پر تفرقہ و منافرت کا بیج بوتے اور تشویشناک لہجے میں مذہب تشیع کا دائرہ بڑھنے کی بات کرتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے۔؛
بسم ‌اللّه ‌الرّحمن‌ الرّحیم‌

میں اس پرشکوہ جلسے کے تمام محترم حاضرین کی خدمت میں اس عید سعید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ خاص طور پر اس نشست میں تشریف فرما ان مہمانوں کی خدمت میں جن کا تعلق دیگر ممالک سے ہے، اسلامی ممالک کے سفرائے محترم کی خدمت میں تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں۔ میں اس عید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں عظیم الشان ملت ایران کو جس نے بعثت کو اپنی کارکردگی کے لئے سرمشق قرار دیا اور بعثت خاتم الانبیاء کے اعلی اہداف کے حصول کے لئے دلجمعی اور فداکاری کے ساتھ مجاہدت و جانفشانی کی۔ بحمد اللہ خداوند عالم نے اس کے سلسلے میں اپنے وعدے بھی پورے کئے۔ اللہ نے اس راستے پر گامزن ہونے والی قوموں کو فتح و پیشرفت و کامرانی عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اللہ کا وعدہ سچا ہے۔ میں اس عظیم عید کی مبارک باد پیش کرتا ہوں امت اسلامیہ کو کہ کئی عشروں کے تجربات کے بعد جس نے اپنا رخ دین محمدی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جانب موڑ لیا ہے۔ برسوں تک مسلم اقوام کے رہنماؤں، دانشوروں اور قائدین نے مشرق و مغرب کے گوناگوں مکاتب فکر کو آزمایا اور ان تجربات میں ان کی بے بضاعتی اور بے لیاقتی کا ادراک کر لیا تو آج امت اسلامیہ کی توجہ بعثت کے پیغام اور بعثت کے اہداف کی جانب مرکوز ہے۔ آج کا دن امت اسلامیہ کے لئے با برکت دن ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ تمام بشریت کو بعثت کی برکتوں سے بہرہ مند ہونے کی توفیق حاصل ہوگی۔
آج میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ بعثت کے مختلف پہلو اور جہتیں ہیں۔ اس واقعے سے بشریت کو جو انوار ملے ہیں وہ ایک دو نہیں ہیں تاہم آج بشریت کو بعثت کے دو انوار کی اشد ضرورت ہے۔ ایک ہے فکر و تدبر کا حرکت میں آنا اور دوسرے تہذیب اخلاق۔ اگر یہ دونوں ہدف پورے ہو جائیں تو بشریت کی دیرینہ خواہش اور مقصد کی بھی تکمیل ہو جائے گی۔ دنیا میں انصاف قائم ہو جائے گا، سعادت کی ضمانت مل جائے گی، دنیا کے چین و سکون کا سامان فراہم ہو جائے گا۔ بنیادی ترین مشکل انہیں دونوں امور کے تعلق سے ہے۔
ارشاد نبوی ہوتا ہے؛ بعثت لاتمّم مکارم الاخلاق (1) اسی طرح قرآن کی آیت ہے؛ «هو الّذى بعث فى الامّیّین رسولا منهم یتلوا علیهم ءایاته و یزكّیهم» (۲) تزکیہ نفس کی سفارش کے بعد ارشاد ہوتا ہے؛ «و یعلّمهم الكتاب و الحكمة» (۳) یہ عظیم اہداف ہیں؛ تزکیہ نفس، دلوں کی طہارت، اخلاق انسانی کو سنوارنا، قوت فکر کا احیاء کرنا۔ امیر المومنین علیہ السلام نہج البلاغہ کے ایک خطبے میں فرماتے ہیں؛ «لیستأدوهم میثاق فطرته و یذكّروهم منسىّ نعمته... و یثیروا لهم دفائن العقول» (۴) ابنیائے الہی کو اس لئے مبعوث کیا گيا کہ انسانوں کے دل و باطن میں پوشیدہ عقل و خرد کے خزینے اور دفینے باہر نکالیں، اسے استعمال کریں۔ فکر و نظر کے لئے ہم انسانوں کے اندر عظیم صلاحیتیں پوشیدہ ہیں۔ اگر ہم غور و خوض کے عادی نہیں ہیں، اگر ہم مطالعے کا شوق نہیں رکھتے، اگر ہم اللہ کی نشانیوں کے بارے میں تدبر نہیں کرتے، اگر ہم اپنی تاریخ، اپنے ماضی کے بارے میں اور بشریت کو پیش آنے والے گوناگوں واقعات و حالات کے بارے میں غور اور ان کا تجزیہ نہیں کرتے، اگر ماضی میں پیش آنے والی مشکلات کا جائزہ نہیں لیتے، ان کے عوامل کو تلاشنے کی کوشش نہیں کرتے تو ہم اس عظیم معنوی خزانے سے محروم ہو جاتے ہیں جو اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے۔ «و یذكّروهم منسىّ نعمته... و یثیروا لهم دفائن العقول» آج بشریت کو ان دونوں ہی چیزوں کی شدید احتیاج ہے۔
انسانی معاشروں کو فکر و تدبر کی ضرورت ہے۔ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ بشر کی بدبختی کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب ظلم ہے، اس کی وجہ تفریق و امتیازی سلوک ہے، اس کی وجہ دنیا کی تسلط پسند طاقتوں کی دوہری پالیسیاں ہیں، کیا اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش ہے؟ آج انسانیت پر جو آشکارا مظالم ہو رہے ہیں، دفاعی وسائل اور توانائی سے عاری قوموں پر استعماری طاقتوں کے مظالم سب کی نگاہوں کے سامنے ہیں، آپ اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ہزاروں کلومیٹر دور واقع ایک ملک کھڑا ہوتا ہے اور آکر ہمارے اس علاقے کے کسی ملک کو جس کے ہاتھ وسائل سے خالی ہیں اپنی استعماریت کا نشانہ بناتا ہے، شادی کی تقریبات کو مجلس غم میں تبدیل کر دیتا ہے، اس کے ہیلی کاپٹروں سے انسانوں کے سروں پر موت برستی ہے، لوگوں کے گھروں کو ملبے میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور کسی کو کچھ بولنے کا حق بھی نہیں! یہ ملک معذرت خواہی کے چند جملے کہنے کا بھی روادار نہیں ہے! یہ ہے آج دنیا کی حالت۔ پیشرفتہ ممالک میں بھی یہی حالات ہیں۔ آج آپ دنیا کے موجودہ اقتصادی بحران پر غور کیجئے! آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے۔ یورپ کی تگ و دو آج عوامی مشکلات دور کرنے کے لئے نہیں ہے، اس کا سارا ہم و غم یہ ہے کہ کسی صورت سے بینکوں کی مشکلات رفع ہو جائیں، سرمایہ داروں کے مسائل کا تصفیہ ہو جائے، دولتمندوں کا درد سر ختم ہو جائے۔ انہیں بس اسی کی فکر ہے۔ عوام الناس اور عام شہریوں کی مشکلات سے ان استعماری طاقتوں کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ عین حقیقت ہے جو آج دنیا میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ بشریت کو چاہئے کہ غور کرے اور جائزہ لے کہ اس کا اصلی سبب کیا ہے؟ اس کی جڑ تسلط پسندانہ اور استعماری نظام ہے۔ اس کی جڑ تسلط پسند اور تسلط کے شکار ممالک کے درمیان دنیا کی تقسیم بندی ہے۔
جس طرح استعماری اور تسلط پسند ممالک کے ختم ہو جانے سے دنیا میں تسلط پسندی کا نظام مٹ جائے گا اسی طرح اگر استعمار کا نشانہ بننے والا ملک ڈٹ جائے تب بھی یہ نظام ختم ہو سکتا ہے۔ یہاں پر آکر قوموں کے فریضے کا احساس ہوتا ہے اور قوموں میں سب سے بڑھ کر سیاسی و علمی شخصیات اور رہنماؤں کی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے۔ استکباری نظام سے وابستہ شیاطین جیسے ہی دنیا کے کسی گوشے میں عوام کی حقیقی اور خالص حریت پسندانہ تحریک کے آثار دیکھتے ہیں اس تحریک کو پلٹ دینے اور اسے بے اثر بنا دینے کے لئے اپنی پوری قوت جھونک دیتے ہیں۔ آپ خود دیکھ رہے ہیں کہ آج ہمارے علاقے میں کیا ہو رہا ہے۔ مختلف ممالک کے عوام اپنے وطن عزیز کو امریکا کے تسلط سے نجات دلانے کے لئے، صیہونزم کے سامنے ذلت آمیز پوزیشن سے خود کو نکالنے کے لئے، اسلامی دنیا کے قلب میں ابھر آنے والے اس کینسر سے اپنی نفرت کے اظہار کے لئے جیسے ہی انقلابی تحریک کا آغاز کرتے ہیں استکبار کے تمام سیاسی، انٹیلیجنس اور مالیاتی ادارے ، اسی طرح ان سے وابستہ عناصر حرکت میں آ جاتے ہیں کہ کسی صورت سے اس تحریک کو ناکام بنا دیں۔ امر واقعہ یہ ہے۔
قوموں کو چاہئے کہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں، قوموں کو چاہئے کہ فکر و تدبر کی خداداد نعمت سے استفادہ کریں، قوموں کو چاہئے کہ اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں، اپنی توانائی اور اپنے پروردگار پر اعتماد رکھیں، اللہ کے تعلق سے حسن ظن رکھیں، اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ «لینصرنّ اللّه من ینصره انّ اللّه لقوىّ عزیز» (۵) اس پر اللہ تعالی نے تاکید فرمائی ہے۔ جب قومیں استقامت کے راستے پر چل پڑتی ہیں، جب قومیں مزاحمت کا راستہ اختیار کر لیتی ہیں تو ان کی کامیابی یقینی ہو جاتی ہے۔ اس کی زندہ مثال ہماری قوم ہے۔ دشمن ہزارہا تشہیراتی وسائل و ذرائع سے حقائق کو دنیا کی نگاہوں سے دور رکھنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن حقیقت ہماری نظروں کے سامنے موجود ہے۔ ان تینتیس برسوں میں روز اول سے ہی مستقل طور پر ہمارا ملک، ہماری قوم اور ہمارا انقلاب حملوں اور سازشوں کی آماجگاہ بنا رہا ہے۔ مختلف حکومتیں تشکیل پائیں، ان کے درمیان سیکڑوں مسائل میں اختلافات بھی تھے لیکن اسلامی انقلاب کی دشمنی میں، اسلامی جمہوریہ کو زک پہنچانے کی کوششوں میں، مسلمانوں کے سامنے آئیڈیل اور نمونہ عمل کی حیثیت اختیار کر جانے والی اس قوم کو میدان سے ہٹانے میں، اس مقصد کے لئے مختلف حربوں کو بروئے کار لانے میں ان کے درمیان کبھی کوئی اختلاف دیکھنے میں نہیں آیا۔ سب کی سب اس پر متفق تھیں! آج بھی یہی عالم ہے۔ ملت ایران کو میدان سے خارج کرنے کے لئے سب لام بند نظر آتی ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ تمام کوششیں بلا شبہ ناکام رہیں گی۔
البتہ مجاہدت و حرکت کے بغیر، خطرہ مول لئے بغیر فتحیاب ہونا ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے بغیر محنت کے فتح و کامرانی عطا کرنے کا وعدہ ہرگز نہیں کیا ہے۔ صرف صاحب ایمان ہونا ہی کافی نہیں ہے، مجاہدت و جانفشانی بھی ضروری ہے، صبر و استقامت بھی ضروری ہے۔؛ «و لنصبرنّ على ما ءاذیتمونا» (6 ( پیغمبروں نے اپنے مخالفین سے یہ بات کہی ہے کہ ہم استقامت کا مظاہرہ کریں گے۔ پیغمبروں نے استقامت و پائیداری کا مظاہرہ کیا اور آج عالم یہ ہے کہ پیغمبروں پر ہونے والے تمام مظالم اور ان کے مشن کو کچلنے کی تمام مساعی کے باوجود انہی کی روش اور انہیں کی منطق نے پوری دنیا کا احاطہ کر رکھا ہے۔ پیغمبروں کا مشن آگے بڑھا اور فراعنہ کے عزائم ناکام رہے۔ یہ مشن اور یہ منطق روز بروز اور بھی وسیع تر ہوگی۔ صبر کی ضرورت ہے، استقامت کی ضرورت ہے۔ ہماری قوم نے استقامت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ ہمارے دشمن حقیقت سے منہ چرا رہے ہیں، ماضی کے تجربات سے سبق لینے سے گریزاں ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اس قوم کے سامنے تکبر، خود نمائی اور بے جا مطالبات سے انہیں کچھ بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ یہ قوم ثابت قدمی کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ اس نے راستے کی شناخت کر لی ہے، ہدف کی نشاندہی کر لی ہے اور خود شناسی کی منزل پر بھی پہنچ چکی ہے۔
ہمیں قرآن سے جو درس ملا ہے، ہمیں اسلام سے جو سبق ملا ہے وہ استقامت و مجاہدت و اتحاد و یگانگت کا سبق ہے۔ ہمدلی کا سبق ہے، ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملائے رکھنے کا سبق ہے۔ یہ اسباق ہماری قوم سے مختص نہیں یہ پوری اسلامی دنیا کو ملنے والا اتحاد کا سبق ہے۔ آج آپ دیکھئے کہ ہمارے دشمن جس حربے کا بہت زیادہ سہارا لیتے ہیں وہ فرقہ واریت ہے، شیعہ و سنی اختلاف ہے۔ ایسے لوگ کہ جن کا تشیع پر عقیدہ ہے نہ تسنن پر ایمان، ایسے افراد جو اسلام کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے، امریکا اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کے اشارے پر مذہب تشیع کے پھیلنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں! انہیں کیا معلوم کہ تشیع ہے کیا؟! انہیں کیا خبر کی تسنن کہتے کسے ہیں؟! ان کا تو سرے سے دین پر ہی کوئی عقیدہ نہیں ہے۔ آج استکبار اور خفیہ ایجنسیوں کی اسٹریٹیجی یہ ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے ہراساں کریں، شیعوں کو برادران اہل سنت سے اور اہل سنت کو شیعوں سے خوفزدہ کریں، ان کے درمیان نفرت کے بیج بوئیں۔ دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کا راستہ فکر و نظر کو بروئے کار لانا، اپنی صفوں کے اندر اتحاد پیدا کرنا، دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا اور شانہ بشانہ کھڑے ہو جانا ہے۔ ایسی صورت میں بفضل پروردگار «لیظهره على الدّین كلّه» (7( کا منظر سامنے آئے گا اور اللہ تعالی اپنے لطف و کرم سے بعثت پیغمبر کے اہداف و مقاصد کو دشمن کی سازشوں پر غالب کر دے گا۔
دعا کرتا ہوں کہ آپ پر، ملت ایران پر اور تمام امت اسلامیہ پر اللہ تعالی کی رحمتوں کا نزول بڑھے اور خداوند عالم ہمارے عظیم الشان امام خمینی رضوان اللہ علیہ کو اپنے اولیاء، انبیاء اور ائمہ معصومین کے ساتھ محشور فرمائے جنہوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا اور ہمارے لئے یہ نیا باب وا کیا۔

و السّلام علیكم و رحمة اللّه و بركاته‌

۱) مجموعة ورام، ج ۱، ص ۸۹
۲) جمعه: ۲
۳) جمعہ؛ 2‌
۴) نهج‌البلاغه، خطبه‌ اول
۵) حج: ۴۰
۶) ابراهیم: ۱۲
۷) توبه: ۳۳