آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اصل ہدف، تدبر اور سبق حاصل کرنا بتایا اور شہید صدر کی دلی، زبانی اور عملی خصوصیات کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ عزیز رئیسی میں حکومت الہی کے ایک عہدیدار کی تمام خصوصیات تھیں اور انھوں نے اپنی انتھک کوششوں سے عوام اور قوم کی عزت و حیثیت کو بڑھایا اور ان کی یہ روش ہم تمام عہدیداران، جوانوں اور آنے والوں کے لیے ایک بڑا سبق ہے۔
انھوں نے فرعونی حکمرانی سے دوری اور الہی حکمرانی کی راہ پر آگے بڑھنے کو، ملک کا انتظام چلانے کے لیے ایک اہم معیار بتایا اور شہید رئیسی کو اس کا مکمل مصداق قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے قرآن مجید کی آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اپنے آپ کو برتر اور عوام کو حقیر سمجھنا اور اپنی ذمہ داری لوگوں کے کندھوں پر ڈالنا، فرعونی حکمرانی کی خصوصیات ہیں اور شہید رئیسی ان چیزوں سے بالکل مبرا تھے اور وہ خود کو عوام کی صف میں اور کبھی کبھی تو عام لوگوں سے بھی کمتر سمجھتے تھے اور اسی نظریے کے ساتھ ملک چلاتے تھے۔
انھوں نے خدا کے بندوں کی خدمت کے لیے اپنی پوری توانائی کے استعمال اور عہدے سے حاصل ہونے والی سیاسی و سماجی پوزیشن سے کسی بھی طرح کا ذاتی فائدہ اٹھانے سے اجتناب کو شہید رئیسی کا ایک بڑا سبق بتایا اور کہا کہ اسلامی نظام میں، ایسے لوگ کم نہیں ہیں جن میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں لیکن ان خصوصیاب اور اسباق کو عمومی کلچر میں تبدیل ہو جانا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کسی بھی شخص کے دل، زبان اور عمل کو اس کی شخصیت کی شناخت کے تین اصل عناصر بتایا اور کہا کہ شہید رئیسی اللہ کا خوف رکھنے اور ذکر کرنے والے دل، صاف اور سچی زبان اور انتھک اور مستقل عمل کے مالک تھے۔
انھوں نے کہا کہ شہید رئیسی چاہے کسی عہدے پر رہے ہوں یا نہ رہے ہوں، اپنی پوری عمر میں اللہ سے خضوع و خشوع، دعا، توسل اور انس ان کی دائمی خصوصیات میں شامل تھے اور ان کا دل لوگوں کے ساتھ مہربانی کے جذبے سے بھرا ہوا تھا اور لوگوں سے کسی بھی طرح کے گلے شکوے، توقع اور بدگمانی کے بغیر وہ ہمیشہ اپنی سنگین ذمہ داریوں کی ادائيگی کے بارے میں سوچتے تھے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملکی مسائل یہاں تک کہ سفارتی میدان میں بھی شہید رئیسی کی زبان کو بے لاگ اور سچی زبان بتایا اور کہا کہ رئیسی واضح موقف اختیار کرتے تھے اور دشمن کو یہ دعوی کرنے کا موقع نہیں دیتے تھے کہ وہ دھمکی، لالچ یا فریب سے ایران کو مذاکرات کی میز پر لے آيا ہے۔
انھوں نے ایران سے براہ راست مذاکرات پر فریق مقابل کے اصرار کو، ایران کو جھکا دینے کا پروپیگنڈا کرنے کا حربہ بتایا اور کہا کہ شہید رئیسی نے اسے یہ موقع نہیں دیا تاہم ان کے زمانے میں بھی موجودہ دور کی طرح بالواسطہ مذاکرات انجام پاتے تھے جو کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے اور اس وقت بھی ہمیں نہیں لگتا کہ یہ مذاکرات کسی نتیجے تک پہنچیں گے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے اسی طرح امریکیوں کو فضول باتوں سے پرہیز کا انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکیوں کی یہ بات ان کی اوقات سے زیادہ ہے کہ وہ ایران کو یورینیم کی افزودگي کی اجازت نہیں دیں گے اور ملک میں کوئي بھی ان کی اور ان کی اجازت کا منتظر نہیں بیٹھا ہے اور اسلامی جمہوریہ اپنی پالیسی اور طریقۂ کار کے مطابق آگے بڑھتا رہے گا۔
انھوں نے ایران میں یورینیم کی افزودگي نہ کیے جانے پر امریکیوں اور بعض مغربی ممالک کے اصرار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پھر کسی وقت میں قوم کو بتاؤں گا کہ اس اصرار کے پیچھے ان کی اصل نیت اور ہدف کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے شہید رئیسی کی سچائی اور صاف گوئی کی صفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس چیز کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس کا بعض مغربی ملکوں کے حکام کی جھوٹی زبان سے موازنہ کرنا چاہیے جو امن اور انسانی حقوق کے بلند بانگ نعرے لگانے سے نہیں تھکتے لیکن انھوں نے غزہ میں بیس ہزار سے زیادہ مظلوم بچوں کے قتل پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں بلکہ وہ مجرم کی مدد بھی کر رہے ہیں۔
انھوں نے شہید رئیسی کے نمایاں اور عملی کاموں کو ان کی خصوصیات کا ایک اور پہلو بتایا اور کہا کہ وہ لگاتار کام کرتے رہتے تھے اور خدمت، معیاری کام اور لگاتار کام کے لیے دن رات ایک کر دیتے تھے۔
آيت اللہ خامنہ ای نے آب رسانی، سڑکوں کی تعمیر، روزگار کے مواقع پیدا کرنے، ٹھپ ہو چکے یا بند ہو چکے کارخانوں کو پھر سے شروع کرانے اور ادھورے پروجیکٹس کی تکمیل جیسی شہید رئیسی کی خدمات کو، عوام کی براہ راست اور دکھائي دینے والی خدمتوں میں شمار کیا اور کہا کہ شہید رئیسی نے ایرانی قوم کی عزت، حیثیت اور وقار کے لیے بھی خدمات سر انجام دیں اور انھیں اوپر اٹھایا۔
انھوں نے کہا کہ شہید رئیسی کے دور حکومت کے آغاز میں ایران کی معاشی شرح پیشرفت تقریبا صفر تھی جسے انھوں نے اپنی حکومت کے اختتام تک قریب پانچ فیصد تک پہنچا دیا تھا اور یہ چیز ملک و قوم کے لیے باعث فخر تھی جو ملک کی پیشرفت کی نشاندہی کرتی تھی۔ انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرآن مجید کو یا شہید سلیمانی کی تصویر کو ہاتھ میں اٹھانا، ان دیگر اقدامات میں سے تھے جن کے ذریعے شہید رئیسی نے ایرانی قوم کی عزت بڑھائی۔