جشن میں قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے تاریخی اور ناقابل فراموش یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کی اور اسی دن امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش کے حسن اتفاق کا ذکر کرتے ہوئے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو فضائل و معارف کا جامع نمونہ قرار دیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ آج کے دن کو یوم نسواں قرار دیا جانا تمام انسانوں اور خاص طور پر ہمارے ملک کی خواتین کے لئے دائمی دروس اور تعلیمات کا حامل ہے، جن کی روشنی میں خواتین خود کو تقوا و پاکدامنی، دانش و آگاہی، شجاعت و استقامت، بچوں کی صحیح تربیت اور کنبے پر خاص توجہ اور عنایت جیسی صفات سے آراستہ کرکے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے راستے پر گامزن ہو سکتی ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے حجاب کو عورت کے وقار و متانت کا باعث اور اس کی عظمت کا اہم عامل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خواتین کی پاکدامنی معاشرے میں اس کا احترام و وقار بڑھنے اور اس کی اہمیت و افتخار میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ بنابریں حجاب کے موضوع پر خاص توجہ دینے والے دین اسلام کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اہل بیت اطہار کے فضائل کو بیان کرنا در حقیقت معاشرے کو بہترین نمونوں سے متعارف کرانا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر معاشرے میں یہ عمل مخلصانہ نیت کے ساتھ انجام دیا جائے تو یہ بڑا عظیم کام ہوگا جس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ لہذا مداح حضرات کو غور کرنا چاہئے کہ کس فضیلت کے بیان سے مخاطب حضرات کی رہنمائی اور ان کے دلوں میں اللہ کے تئیں خضوع و خشوع میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور سامع حضرات کو اہل بیت اطہار کے راستے پر گامزن ہونے کی ترغیب دلائی جا سکتی ہے؟
قائد انقلاب اسلامی نے معاشرے کے افراد کی معرفت و بصیرت، آگاہی و بلوغ فکری اور فہم و ادراک کی بلند سطح کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج دنیا بھر میں مختلف شعبوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی درخشاں صلاحیتیں اور توانائیاں اپنی روشنی پھیلا رہی ہیں۔ چنانچہ مداح حضرات کو چاہئے کہ اس فضا اور ماحول کو مد نظر رکھ کر اپنے اشعار پیش کریں۔

 

بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌
 

مبارک باد پیش کرتا ہوں اس عظیم دن کی، تاریخ کے اس ناقابل فراموش دن کی، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت با سعادت کی۔ الحمد للہ حسن اتفاق سے ہمارے قائد حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی ولادت کا دن بھی یہی ہے۔ میں آپ تمام برادران و خواہران عزیز کو، مداحان اہل بیت کو اور اعلی ترین مخلوق خداوندی کے فضائل اور خصائص بیان کرنے والے قصیدہ خوانوں کو اس مناسبت کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
اہل بیت علیہم السلام کی معرفت اور ان ذوات مقدسہ سے عقیدت بہت بڑی نعمت ہے۔ خداوند عالم نے اس حقیقت کے ادراک سے ہماری آنکھوں کو محروم و قاصر نہیں رکھا، ہمیں ان درخشاں اور ضوفشاں انوار کو اپنی استعداد بھر دیکھنے اور سمجھنے پر قادر بنایا، ان سے عشق و ارادت رکھنے کا موقعہ عنایت فرمایا اور ان سے ہمیں غافل نہیں رکھا۔ اس نعمت عظمی کا شکر ادا کرنے پر اگر ہم اپنی پوری زندگی صرف کر دیں تو بھی کم ہے۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ان والدین پر، ان پیشروؤں اور ان رہنماؤں پر جنہوں نے معنویت کے ان آفتابوں کی جانب کھلنے والا دریچہ ہمارے وجود میں رکھ دیا، ہمارے بچپن میں، ہماری زندگی کی شروعات میں، گہوارہ نشینی کے دور میں ہمارے کانوں میں محبت اہل بیت کی لوریاں سنائیں اور ہماری روح کو ان عظیم ہستیوں کی محبت سے سیراب کیا۔ پالنے والے! اس محبت و عقیدت و معرفت کو ہمارے دل و جان میں روز بروز زیادہ عمیق اور پختہ بنا۔ ہمیں اس نعمت سے ایک لمحے کے لئے بھی محروم نہ کر۔
یہ بھی ایک عظیم نعمت ہے کہ انسان ان ہستیوں کا مداح اور قصیدہ خواں بن جائے۔ کبھی انسان کسی حقیقت کو دیکھتا ہے، سمجھتا ہے لیکن کبھی اس سے بھی آگے جاکر اس معرفت اور اس محبت کو نظم یا نثر کے پیرائے میں بیان کرتا ہے، پھیلاتا ہے۔ یہ دوسری بڑی نعمت ہے جو اللہ تعالی نے مداحان و قصیدہ خوانان اہل بیت کو عنایت فرمائی ہے۔ اس کی قدر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مدح و ثنا خود مداح اور قصیدہ خواں کی بھی ستائش ہے۔
مادح خورشيد مداح خود است
كه دو چشمم روشن و نامرمد است(1)
جب انسان کسی نور کو، کسی زیبائی و جمال کو مدح و ستائش کا محور قرار دیتا ہے تو در حقیقت وہ اپنی بھی ستائش کر رہا ہے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جمال شناس ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی آنکھیں دیکھنے اور ذہن ادراک کرنے پر قادر ہے۔ اس کے علاوہ ان فضائل اور معنوی خصائص کی عوام الناس کے درمیان ترویج انسانوں کی تربیت میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ انسان نمونہ عمل اور اسوہ حسنہ کی مدد سے بلند درجات اور عالی مقامات پر پہنچتا ہے۔ آپ اگر اس راستے میں سعی و کوشش کریں تو یہ بہت عظیم خدمت ہوگی۔ نیتوں میں اخلاص پیدا کیجئے، یہ سب سے اہم نکتہ ہے۔ اگر اس مداحی و ثناگری میں ہماری نیت خوشنودی پروردگار کا حصول ہو، ہم دلوں کو منور کرنے اور ذہنوں کو جلا بخشنے کی نیت سے ان فضائل کی تشہیر و تبلیغ کریں تو ہمارا شمار جنود اللہ اللہ کے سپاہیوں میں ہوگا۔؛ «و لله جنود السّماوات و الارض».(2) اللہ کا ایک سپاہی وہ شخص بھی ہے جو اپنی زبان سے، اپنے بیان سے، اپنی موزونی طبع اور ذوق شعری سے ان حقائق کی تشہیر کرتا ہے، یہ اللہ کا سپاہی ہے۔ اگر نیت کچھ اور ہوئی تب نہیں۔ جہاد سے زیادہ با فضیلت عمل کیا ہو سکتا ہے؟ ارشاد ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص مادی ہدف کے تحت میدان جہاد میں قدم رکھے تو وہ مجاہد نہیں، اگر مارا جاتا ہے تو درجہ شہادت بھی اسے نہیں ملے گا، حالانکہ وہ میدان کارزار میں وارد ہوا ہے۔ اگر ہم مادی اہداف کے لئے ان میدانوں میں قدم رکھیں، پست اہداف کی تو خیر بات ہی الگ ہے، تو ایسی صورت میں نہ صرف یہ کہ ہمیں علو و ارتقاء نصیب نہیں ہوگا بلکہ ہم تنزلی و انحطاط کا شکار ہوں گے۔ یہ قصیدہ خوانی اور شعرگوئی سے ہی مخصوص نہیں ہے، تبلیغ کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے، علم دین کا حصول بھی ایسا ہی ہے۔ درجہ اجتہاد پر پہنچنا بھی اس سے مستثنی نہیں ہے، سائنسداں اور دانشور بننے کے سلسلے میں بھی یہ اصول نافذ ہے۔ ہمارے عمل میں روح کا درجہ رکھنے والی چیز ہماری نیت ہے۔؛ «انّما الاعمال بالنّيّات»؛(3) نیتوں سے اعمال کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب نیتوں کا الہی ہونا لازمی ہے تو آپ اس بات پر توجہ دیجئے کہ کس فضیلت کا بیان، کس منقبت کا ذکر اور کس نکتے کی تشریح آپ کے مخاطب افراد کی ہدایت میں موثر ہوگی۔ یہ وہ نکتہ ہے جس پر میں بیس پچیس سال سے آج کے جیسی مناسبتوں پر مداحان اہل بیت علیہم السلام سے ملاقاتوں میں ہمیشہ تاکید کرتا رہا ہوں۔ آپ غور کیجئے کہ کن صفات کو بیان کریں کہ آپ کا سامع نور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے منور ہو جائے۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کے ذکر سے آپ کے سامع کے ذہن میں کوئی نیا دریچہ وا نہیں ہوتا، آپ کے سامع کے دل میں کوئی روحانی سرور پیدا نہیں ہوتا، تو آپ ان کے بیان سے اجتناب کیجئے۔ ایسی باتیں بیان کیجئے جو دلوں کو نرم کریں، ان میں خشوع و انکسار پیدا کریں اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اطاعت و پیروی کی رغبت میں اضافہ کریں۔ ایسی صفات و خصوصیات کا ذکر کیجئے جو آپ کے سامع کو اسی راستے پر چلنے کی ترغیب دلائيں جس پر معصومہ کونین چلیں۔ اس کے لئے غور و خوض کی ضرورت ہے، تعلیم کی ضرورت ہے، یہ آسان کام نہیں ہے۔
آج ماشاء اللہ ملک میں مداح حضرات کی صنف کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے۔ مداح کا کام یہ ہے کہ حقیقت کو بیان کرنے کے لئے اپنے ہنر اور فن کا استعمال کرتا ہے۔ کھڑے ہوکر خوش الحانی کے ساتھ شعر پڑھتا ہے تو شعر اپنی جگہ ایک فن ہے، خوش الحانی اپنی جگہ ایک ہنر ہے اور شعر کی ادائیگی کا طریقہ بھی الگ ایک فن ہے۔ تو یہ شحص کئی فنون کی مدد سے ایک حقیقت کو آشکارا کرتا ہے لہذا وہ نشست میں موجود افراد کے ذہن و دل پر اپنی بات نقش کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے، یہ ایک سنہری موقعہ ہے جو اسے حاصل ہوا ہے۔ مداح حضرات کی تعداد میں بحمد اللہ روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام الناس میں انہیں خوب پذیرائی بھی ملتی ہے، لوگ پسند کرتے ہیں، استقبال کرتے ہیں۔ تو سب کچھ دستیاب ہے۔ اب اگر اس مجلس اور محفل کا وقت دوسری باتوں میں گزر جائے، اگر شعر، آواز اور لہجہ ایسی چیز کے بیان میں صرف ہو جس سے سننے والے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا تو یہ بڑے گھاٹے کا سودا قرار پائے گا۔ بنابریں مداح کا کام سخت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ صاحب! ہماری آواز اچھی ہے اور چند اشعار بھی ہمیں یاد ہیں، آج کل مداح حضرات کاغذ سے دیکھ کر بھی اشعار پڑھنے لگے ہیں، زمانہ قدیم میں یہ معیوب سمجھا جاتا تھا کہ مداح جیب سے کاغذ نکالے اور اسے دیکھ کر اشعار پڑھے۔ پچاس ساٹھ اشعار کے قصیدے انہیں ازبر ہوتے تھے، البتہ آج یہ چیز ضروری نہیں ہے، کاغذ سے دیکھ کر پڑھنا کوئی عیب کی بات نہیں رہی۔ مختصر یہ کہ مداحی صرف یہ نہیں کہ ہم کسی شاعر کے چند اشعار یاد کر لیں اور پھر اسے اچھی آواز میں ادا کر دیں۔ ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے، پرکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ تو رہی ایک بات جس کا تعلق مداح حضرات سے ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ آپ مداح حضرات سے ہمیں بہت انس ہے، ہم آپ کو چاہتے ہیں، آپ کے فن کو بہت ذی قیمت جانتے ہیں، تاہم مداح حضرات کے سامنے میں نے ہمیشہ یہ تاکید کی ہے۔ آپ میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ آپ ہمارے فرزند ہیں، آپ کے لئے یہ ہماری پدرانہ نصیحت ہے، انشاء اللہ آپ اس پر عمل کریں گے۔ شعر اچھا، معنی انگیز اور پرکشش ہونا چاہئے۔ فن شاعری میں گہری تاثیر ہے۔ اگر شعر اچھا ہو، اگر الفاظ کی بندش اچھی ہو اور خیال میں نزاکت اور معنی آفرینی ہو تو اس کی تاثیر بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے سامع کی فکر اور اس کے ذہن کی سطح بھی بہتر ہوتی ہے۔
آپ معاشرے پر نگاہ دوڑائیے اور دیکھئے کہ معاشرے کو کس چیز کی احتیاج ہے؟ یہ چیزیں آپ جیسے تعلیم یافتہ، ذی فہم اور بابصیرت نوجوانوں کی آنکھوں سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ آج بحمد اللہ ہمارے ملک میں عوام کی فکری سطح بہت اونچی ہے، عوام میں بلوغ فکری پایا جاتا ہے۔ آپ مداح حضرات کی صنف کا بھی یہی عالم ہے۔ آپ کو علم ہے کہ عوام کو کس چیز کی ضرورت ہے۔ آج عوام کو دین و اخلاق اور ایمان و عقیدے کی ضرورت ہے۔ بصیرت، دنیا و آخرت کی شناخت کی ضرورت ہے۔ اس کی ضرورت ہم سب کو ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا میدان محشر میں تشریف لائیں گی تو پورا میدان محشر بنت رسول کی عظمت سے متاثر ہوگا تو ہمیں محشر کا علم ہونا چاہئے، قیامت کی شناخت ہونا چاہئے، میدان محشر میں جلال الہی کا علم ہونا چاہئے۔ ان چیزوں کے لئے معرفت کی ضرورت ہے، ان کے لئے علم کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم ان حقائق پر روشنی ڈالنے والی آیات سے پر ہے۔ روایات کی بھی کثرت کا یہی عالم ہے۔ ان حقائق کو آپ شعری پیرائے میں، اپنے اس فن کے قالب میں بیان کیجئے۔
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ کسی بھی کام کی شروعات بہت سخت ہوتی ہے۔ لیکن جب کام شروع ہو جاتا ہے، ڈھرے پر پہنچ جاتا ہے تو پھر آسان ہو جاتا ہے۔ جہالت کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے متعصب، اخلاقیات سے بے بہرہ اور انواع و اقسام کے فساد و بد عنوانی میں غرق معاشرے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمار جیسی شخصیت پیدا کر دیتے ہیں، ابوذر جیسی ہستی پیدا کر دیتے ہیں! کیا یہ آسان کام تھا؟! پیغمبر نے آخر کیا کیا؟ وہ کون سی روش تھی کہ جس کے ذریعے آپ نے اس معاشرے میں حرکت پیدا کر دی۔ مکی آیات کو آپ دیکھئے! ان میں سب سے پہلے تو قیامت کا ذکر ہے، عذاب الہی کا ذکر ہے، کفار اور غافلوں کو عتاب الہی سے ڈرایا گيا ہے۔ انہیں چیزوں سے عوام میں حرکت پیدا ہوئی۔ ہمیں اس نکتے کو نظرانداز نہیں ہونے دینا چاہئے۔ شفاعت بیشک ہوگی، محبت و عقیدت بھی اپنی جگہ درست ہے، ولایت کا مرتبہ بھی اپنی جگہ محفوظ ہے لیکن اللہ تعالی کے ہاں جہاں رحمت ہے وہیں عقاب و غضب بھی تو ہے۔ ہمیں غضب الہی کو بھی یاد کرنا چاہئے۔ پہلے ہمیں خود یاد کرنا چاہئے اور پھر عوام الناس کو اس سے آگاہ کرنا چاہئے۔ ان چیزوں سے ہمارے دلوں میں حرکت پیدا ہوگی۔ یہی چیزیں ہمیں مادہ پرستی اور جہالت سے نجات دلائیں گی۔ یہ ہماری حیاتی ترین ضروریات ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ دنیا کو پہچانیں، آخرت کی شناخت حاصل کریں، فریضے سے باخبر ہوں، جہاد سے آگاہ ہوں۔
آج مشکلات میں گرفتار اس دنیا میں ہماری قوم ایک نومولود قوم کی مانند ہے۔ جس کی ساخت مختلف ہے، جس کی شکل الگ ہے، جس کا پیرایا دوسرا ہے، جو نئے وجودی پہلوؤں کا حامل ہے۔ ایسی دنیا میں جہاں تمام عناصر لوگوں کے دلوں کو روحانیت و معنویت سے برگشتہ کرنے کے لئے مجتمع ہیں، اجتماعی کوششیں کر رہے ہیں، ایک ایسی قوم جنم لیتی ہے جس کی بنیادیں ایمان پر استوار ہیں، یہ کوئی معمولی بات ہے؟ نگینے کی مانند جگمگا رہی ہے۔ اس کو آرائش کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ خود ہی آفتاب کی مانند اپنی روشنی بکھیر رہی ہے۔ ہماری قوم ان صفات کی حامل قوم ہے۔ روحانیت بھی، دنیاوی مہارتیں بھی، علم و دانش بھی، سیاسی مساعی بھی، تشہیراتی سرگرمیاں بھی، اپنی اور اپنے معاشرے کی خود سازی بھی، اقتصادی ترقی بھی اور اخلاقی رفعت بھی، یہ سب کچھ ہماری خصوصیات میں شامل ہیں۔ آپ دیکھئے! غور کیجئے! آپ ان مختلف اور گوناگوں شعبوں میں کہاں کیا خدمت انجام دے سکتے ہیں؟ کس حد تک لوگوں میں آگاہی کی روشنی پھیلا سکتے ہیں؟ ہمارے شاعر کی نظر ان نکات پر ہونی چاہئے، ہمارے مقرر کا ذہن ان امور سے باخبر ہونا چاہئے، مداح حضرات کو بھی آگاہ رہنا چاہئے، آپ نظر رکھئے کہ کیا تغیرات آ رہے ہیں؟
ہمارے پاس جو سرمایہ اور اثاثہ ہے اسے ہم بخوبی پہچانیں اور اسے بروئے کار لائیں۔ انشاء اللہ پوری دنیا میں سب سے بے نیاز ہماری قوم اور مسلمان اقوام ہوں گی۔ یہی نماز ایک عظیم سرمایہ ہے۔ ہم نماز تو پڑھتے ہیں لیکن بے خیالی اور غفلت کے ساتھ اس سے گزر جاتے ہیں۔ بالکل ایسا ہی ہے جیسے غذائی اشیاء کی قلت، وٹامن کے فقدان، پروٹین کی شدید کمی میں مبتلا کوئی شخص جسے ضروری ترین اشیاء بھی حاصل نہیں ہیں، یکبارگی کسی ایسی ٹوکری کے پاس پہنچ جائے جس میں اس کی ضرورت کی تمام اشیاء موجود ہوں، وہ اسے سونگھے اور پھر کنارے رکھ دے۔ اسے چاہئے کہ ٹوکری پر رکھا ڈھکن ہٹھائے، اس میں رکھی چیزوں کو تناول کرے، ان سے استفادہ کرے، اپنے بدن کو تقویت پہنچائے! بس سونگھا اور کنارے رکھ دیا؟! جو لوگ ذرہ برابر توجہ نہیں دیتے ان کی تو خیر بات ہی اور ہے۔ ہم لوگ بھی نماز کو بس سونگھ کر کنارے رکھ دیتے ہیں۔ نماز کا ایک ایک لفظ اہم سبق کا حامل ہے، بشرطیکہ ہم اس کی قدر و منزلت کو سمجھیں۔ روزے کا بھی یہی عالم ہے، زکات بھی انہیں خصوصیات کی حامل ہے، جہاد کی بھی ایسی ہی فضیلتیں ہیں، تمام دینی تعلیمات ایسی ہی ہیں، آپ کی مدح سرائی کی بھی یہی صفات ہیں۔ آپ جو مدح سرائي کرتے ہیں اس کا بھی ایک ایک لفظ روحانی غذا بن سکتا ہے، سامعین کے نشونما کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ تو مداحی او قصیدہ خوانی سے متعلق میرے معروضات تھے۔
مین چند جملے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے تعلق سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میں یہ بات کسی تکلف میں نہیں کہہ رہا ہوں، نہ ہی ہزاروں دفعہ کہے گئے اس جملے کو مزید ایک بار دہرانا مقصود ہے، میں حقیقتا یہ عرض کر رہا ہوں کہ اس عظیم ہستی اور ملکوتی وجود کی تعریف و تمجید سے میری زبان قاصر ہے، میرا ذہن عاجز ہے۔ انسانی شکل میں یہ عظیم وجود، یہ نوجوان خاتون، فضیلتوں کا یہ سمندر، نور کی یہ درخشندگی، یہ عظمت و جلالت کہ جب آپ پیغمبر اسلام کی خدمت میں پہنچتی تھیں تو قام الیھا حضور آپ کے احترام میں صرف کھڑے نہیں ہو جاتے تھے بلکہ چند قدم چل کر آپ کے قریب آ جایا کرتے تھے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کمرے میں آیا اور آپ اس کے احترام میں اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے، لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کمرے میں وارد ہوتا ہے تو آپ فرط اشتیاق سے چند قدم اس کی جانب بڑھ جاتے ہیں! یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ یہ باپ اور بیٹی کا قضیہ نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم اس انداز سے حضرت فاطمہ زہرا کی تکریم فرماتے ہیں، آپ کی رضا کو اپنی رضا اور اپنی رضا کو رضائے پروردگار قرار دیتے ہیں۔ ان کے غضب کو اپنا غضب اور اپنے غضب کو غضب الہی سے تعبیر فرماتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا کے عظیم مقام و مرتبے کا یہ عالم ہے۔ امیر المومنین کی معیت میں وہ آپ کی زندگی، بچوں کی وہ تربیت! کیونکر ممکن ہے کہ ہم جیسے لوگ اس عظیم ہستی کے بارے میں لب کشائی کریں؟!
ان خصوصیات کی حامل یہ ہستی ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ یہ سب سے اہم نکتہ ہے۔ ہمارے ائمہ علیہم السلام نے جن کا مقام و مرتبہ بلا شبہ اللہ کے مقرب فرشتوں سے بھی بالاتر ہے ایسے انداز سے زندگی نہیں گزاری، طرز تکلم ایسا نہیں رکھا اور ایسی روش نہیں اختیار کی جو ہمارے فہم و ادراک سے بالاتر ہو۔ علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ امام ایسے انسان کی مانند ہیں جو پہاڑ کی بلند ترین چوٹی پر کھڑا ہے اور لوگوں کو اپنے پاس آنے کی دعوت دے رہا ہے، اپنے پاس اس بلندی پر لوگوں کو بلا رہا ہے۔ ائمہ ایسے نہیں ہیں کہ مادی دنیا کے ان نام نہاد ممتاز لوگوں کی مانند جھوٹی روحانیت کا دکھاوا کریں اور جواہرات سے آراستہ کسی بلند و بالا عمارت کی بلندی پر ایک کمرے میں بند ہوکر رہ جائیں۔ کوئی ان کے نزدیک پھٹکنے نہ پائے۔ ایسا نہیں ہے، ان کا اعلان عام ہے کہ آئیے ہمارے قریب آئیے! درست راستہ یہی ہے، ہمیں اسی راستے پر چلنا ہے، ان کی زندگی ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ بیشک یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ؛ «الا و انّكم لا تقدرون على ذلك»؛(5) ہم ان کے جیسے تو نہیں بن سکتے، ہمارے اندر اس کی استعداد و لیاقت نہیں ہے، اتنی توانائی نہیں ہے لیکن ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ جس راستے پر ائمہ چلے ہیں اسی کو اپنی زندگی کا راستہ قرار دیں، اسی سمت میں قدم بڑھائیں۔
تیسرا اہم نکتہ آج کے دن یعنی یوم نسواں کی مناسبت سے عرض کرنا ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے اپنی ایک تقریر میں خواتین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آپ نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت کو یوم نسواں کے طور پر قبول کیا ہے تو اس سے آپ کے دوش پر کچھ فرائض بھی عائد ہوتے ہیں۔ آپ کا دن، یوم نسواں، یوم مادر اور یوم فاطمہ زہرا سلام علیہا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ ایک علامتی عمل ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اسی راستے پر چلے، عورت کو عظمت و جلالت اور بلندی و رفعت اسی راستے پر چل کر حاصل ہو سکتی ہے۔ ایسا راستہ جو عفت و پاکدامنی، علم و دانائی، نطق و کلام، استقامت کے متقاضی میدانوں میں استقامت و پائیداری، بچوں کی بہترین تربیت اور خاندانی زندگی کا راستہ ہے جس میں جملہ معنوی و روحانی خصوصیات ہیں، عورتوں کو اس راستے پر چلنا ہے۔
خوش قسمتی کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے کی عورتیں واقعی صرف انقلابی تحریک کے دوران نہیں بلکہ اس سے بھی پہلے کے دور میں ہمیشہ میدان عمل میں رہیں اور گوناگوں مسائل میں انہوں نے پیش قدمی کی ہے۔ آئینی انقلاب کی جدوجہد میں شدت پیدا ہونے سے قبل ہی خواتین وارد میدان ہو گئیں تھیں۔ ایک دور ایسا گزرا جس میں آئینی انقلاب کی تحریک محدود پیمانے پر تھی، پھر رفتہ رفتہ اس میں شدت پیدا ہوئی تو سارے لوگ اس میدان میں اترے۔ اس دور میں جب تمام لوگ میدان میں نہیں اترے تھے بلکہ علماء اور اہم شخصیات کی ایک جماعت ہی ان امور سے سروکار رکھتی تھی، عورتیں میدان میں آ گئیں، انہوں نے زبردست اجتماع کیا، آکر حاکم وقت کا راستہ روک لیا، وہ گھبرا کر بھاگا اور جاکر اپنے محل میں روپوش ہو گیا۔ حکومتی کارندوں نے آکر انہیں زد و کوب کیا۔ اس زمانے میں خواتین چادر و چاقچور کے ساتھ وارد میدان ہوئی تھیں۔ آپ میں سے اکثر نے چاقچور کو نہیں دیکھا ہوگا۔ چادر، چاقچور اور (چہرے کو ڈھانپنے والا) روبند ایرانی و اسلامی حجاب تھا۔ اس حجاب کے ساتھ خواتین میدان میں اتریں۔ کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ جب تک عورت بے پردہ نہ ہو، جب تک اخلاقیات سے دور نہ ہو اس وقت تک سیاسی و سماجی میدانوں میں کوئی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتی! ہمارے اسی انقلاب کی تحریک میں عورتوں نے بعض علاقوں میں مردوں سے پہلے ہی اجتماعات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا، ریلیاں نکال رہی تھیں، مجاہدت کر رہی تھیں، اس کی ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں۔ انقلاب کی فتح کے بعد بھی مختلف مجاہدانہ تحریکوں میں یہی منظر دکھائی دیا۔ مسلط کردہ جنگ کے دوران بھی یہی تاریخ دہرائی گئی۔
میں نے یہ بات بارہا عرض کی ہے۔ شہدا کے اہل خانہ سے ملاقاتوں میں میں نے یہ بات بارہا کہی کہ ہم نے اکثر اوقات شہیدوں کی ماؤں کو ان کے باپ سے زیادہ شجاع پایا۔ کیا باپ کی محبت کا ماں کی محبت سے موازنہ کیا جا سکتا ہے؟ لطیف نسوانی مامتا وہ بھی اپنے جگر گوشے کے تعلق سے جسے اس نے ارمانوں سے پالا ہے، پھول کی مانند اس کی دیکھ بھال کی ہے، پھر اسی کو میدان جنگ میں بھیجنے اور شہادت کی اجازت دینے پر تیار ہو جاتی ہے۔ اتنا ہی نہیں، اسلامی جمہوریہ کے دشمن خوشی نہ منانے پائیں اس کے لئے اپنے پارہ قلب کے جنازے پر گریہ بھی نہیں کرتی! میں نے بارہا شہیدوں کے اہل خانہ سے کہا کہ آپ گریہ کیجئے، آپ گریہ کیوں نہیں کرتے؟! رونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن پھر بھی وہ گریہ نہیں کرتے تھے، کہتے تھے کہ ہمیں اندیشہ ہے کہ ہمیں روتا دیکھ کر اسلامی جمہوریہ کے دشمن کہیں شاد نہ ہوں۔
«زن مگو، مردآفرين روزگار»(6)
یہ ہیں ہماری عورتیں، یہ ہر امتحان پر پوری اتری ہیں۔ البتہ انسان ہمیشہ لغزش کے خطرے میں گھرا ہوا ہوتا ہے، مردوں کے لئے لغزش کا خطرہ ہوتا ہے، عورتوں کے لئے لغزش کا خطرہ ہوتا ہے، نوجوانوں کی لغزش کا خطرہ ہوتا ہے، بوڑھوں کے لئے لغزش کا خطرہ ہوتا ہے، عالم، جاہل سب کے لئے لغزش کا اندیشہ ہوتا ہے۔ و المخلصون فی خطر عظیم مخلص کی تو خیر بات ہی الگ ہے۔ ہم سب کے سامنے یہ کسوٹی ہے۔ اگر ہم اس کسوٹی پر پورے اترے، پاکباز بھی بن گئے تب تھی لغزش کا اندیشہ قائم رہے گا۔ ہمیں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہماری دنیاوی زندگی کے دشمن، ہماری آخرت کے دشمن، ہماری عزت و سربلندی کے دشمن، اسلامی جمہوری نظام کے دشمن ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ہماری خواہشوں کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں، ہمارے غصے سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں، ہماری جاہ طلبی سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ہماری خود نمائی اور خود ستائی کی عادت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ہمیں بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ خواتین بہت محتاط رہیں، نوجوان لڑکیاں بہت محتاط رہیں۔
یہ زندگی تو گزر جائے گی، اس کی سختیاں اور لذتیں بھی پلک جھپکتے گزر جائیں گی۔ آپ نوجوانی کے ایام میں اس بات کو بخوبی نہیں سمجھ پائیں گے۔ نوجوانی میں انسان کو لگتا ہے کہ دنیا کو ثبات و دوام حاصل ہے، وقت ٹھہرا ہوا ہے، ہمیشہ حالات یہی رہیں گے، لیکن جب ہماری عمر کو پہنچتا ہے اور پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کیسے دیکھتے ہی دیکھتے سارا وقت گزر گیا۔ ادھر پلک جھپکی نہیں کہ ادھر زمانہ بیتا! دوسری جانب یہ عالم ہے کہ «و انّ الدّار الأخرة لهى الحيوان»؛(7) اصلی زندگی وہاں ہے۔ «ذلك الّذى يبشّر الله عباده» (8) اللہ کی بشارتیں وہاں ہیں۔ آخرت کو سنوارنے کے لئے بھی اور ملک و قوم کی عزت و پیشرفت کے لئے بھی خواتین کو چاہئے کہ حجاب کا، پاکدامنی کا، اصولوں کی پابندی کا خیال رکھیں۔ یہ فریضہ ہے۔ خود نمائی چند لمحوں کی ہوتی ہے لیکن معاشرے، ملک، اخلاقیات اور سیاست کے لئے اس کے تباہ کن اثرات دائمی ہوتے ہیں۔ جبکہ خواتین اپنے حرکات و سکنات میں اگر پاکبازی، عفت و پاکدامنی اور شرعی حدود کا خیال رکھیں تو ممکن ہے اس میں وقتی زحمت ہو لیکن اس کے نتائج اور ثمرات بہت گہرے اور دائمی ہوں گے۔ خود خواتین کو چاہئے کہ حجاب کی نسبت اور عفت و پاکدامنی کی بابت بہت محتاط رہیں۔ یہ ان کا فریضہ ہے، ان کا افتخار ہے، اس سے ان کی شخصیت سنورتی ہے۔ حجاب عورت کے تشخص اور اس کی آزادی کا ذریعہ ہے۔ یہ کوئی بندش اور پابندی نہیں جیسا مادہ پرستوں کے احمقانہ اور سطحی سوچ پر مبنی پروپیگنڈوں میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ عورت حجاب ترک کرکے اور جسم کے ان حصوں کو عریاں کرکے، جن کا پوشیدہ رکھنا حکم خداوندی اور فطرت کا تقاضا ہے، در حقیقت خود کو ہلکا، بے وقعت اور بے قدر و قیمت بنا لیتی ہے۔ حجاب باعث وقار ہے، مایہ متانت ہے، اس سے عورت کو عظمت ملتی ہے، عورت کا قد اونچا ہوتا ہے، اس کی عزت و آبرو کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔ اس کی بہت قدردانی کرنی چاہئے۔ حجاب کا حکم دینے پر ہمیں اسلام کا شکر گزار ہونے کی ضرورت ہے۔ یہ نعمت خداوندی ہے۔
اس موضوع سے متعلق بحثیں بہت ہیں۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ کو بھی اور ہمیں بھی توفیقات سے نوازے تا کہ ہم اپنے فرائض پورے کر سکیں۔ انشاء اللہ اگر زندگی رہی اور اگلے سال آپ کے درمیان حاضر ہونے کا موقعہ ملا تو خدا کرے کہ ہم سب یہ دیکھیں کہ اس سمت میں جس کا ذکر کیا گیا، اہم قدم اٹھائے گئے ہیں۔

والسّلام عليكم و رحمةالله‌

1) مولوى، مثنوى معنوى، دفتر پنجم‌
2) فتح: 4
3) تهذيب، ج 1، ص 83
4) فضائل الخمسة، ج 3، ص 127
5) نهج البلاغه، نامه‌ى 45
6) عمان سامانى، ديوان اشعار
7) عنكبوت: 64
8) شورى‌: 23