24 ستمبر پیر کے روز ملک کے ادارہ حج کے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ حضرت خاتم الانبیاء کے وجود مقدس کے محور پر امت اسلامیہ کے اتحاد کی عظیم اور پرکشش جھلک اور استکباری محاذ سے تمام مسلمانوں کی نفرت و بیزاری، حج کے موقع پر جو دنیا بھر کے مسلمانوں کا سنگم ہے، نمایاں رہنی چاہئے اور یہی مشرکین سے برائت کا حقیقی مفہوم ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے پیغمبر رحمت و کرامت کی مقدس بارگاہ میں سامراجی طاقتوں اور ان کے آلہ کاروں کی گستاخانہ حرکت کو پیغمبر اسلام سے عالمی استکبار کی دشمنی اور بغض و کینے کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ اس سنگین توہین آمیز حرکت پر مغربی رہنماؤں نے جو موقف اختیار کیا وہ معاندانہ موقف سے ذرہ برابر بھی مختلف نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی اور اس پر استکبار کے عمائدین کے رد عمل کے قضیئے سے ان کا حقیقی چہرا اور حق و باطل کے ٹکراؤ کی اصلی تصویر نمایاں ہو گئی اور یہ واضح ہو گیا کہ استکباری طاقتوں کی دشمنی بذات خود اسلام اور حضرت خاتم الانبیاء کے وجود مقدس سے ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے اسلامی ممالک اور حتی یورپ اور امریکا میں اس توہین آمیز حرکت کے خلاف مسلمانوں کے پرجوش اور متحدہ رد عمل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پیغمبر اعظم سے اظہار عقیت اور دشمنوں سے اظہار نفرت کا دنيائے اسلام کا پرجوش اقدام بڑا عجیب اور انتہائی اہم منظر پیش کرتا ہے جس سے امت اسلامیہ کی قوت عمل کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے حضرت خاتم الانبیاء کے وجود مقدس کو بلا تفریق مذہب و ملت تمام مسلمانوں کا محوری نقطہ قرار دیا اور فرمایا کہ مشرکین سے اظہار برائت کا مطلب یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کے اندر یہ احساس بیدار ہو کہ وہ ایک مشترکہ دشمن کے مقابل کھڑے ہیں اور اپنے وجود کی گہرائیوں سے اس دشمن سے بیزاری کا اعلان کر رہے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
خداوند متعال کی بارگاہ میں نہایت ہی خضوع و خشوع کے ساتھ دعا گو ہوں کہ حج کا فریضہ انجام دینے والوں اور خدا کے مبارک گھر کے مہمانوں کا حج خدائے متعال کی درگاہ میں مقبول قرار پائے اور حضرت باری تعالی کی رضا ؤ خوشنودی کا باعث اور اسلامی معاشروں پر برکتوں کے نزول کی تمہید قرار پائے۔
حج و زيارت کے امور میں سرگرم تمام کارکنوں کا چاہے وہ ادارۂ حج و زيارت سے تعلق رکھتے ہوئے یا اس سے تعاون کرنے والے کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں، کوئی بنیادی کام انجام دیتے ہوں یا فروعی، لازم ہے سبھی کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کریں اور ان کارکنوں اور زحمت کشوں کے لئے خداوند متعال سے اجر کی دعا کریں۔
یہاں جن نکتوں کا ذکر کیا گیا، جناب قاضي عسگر نے جو نکات بیان کئے یا ادارۂ ( حج و زيارت ) کے سربراہ نے، جو اقدامات انجام دئے ہيں یا وہ انجام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، تمام اقدامات اچھے اور لازمی ہیں، کوشش کی جائے کہ وہ سب کچھ جو ان فرض شناس منتظمین کی آرزو ہے پوری نگرانی کے ساتھ عملی جامہ پہنے تا کہ ہم حج کو صورت و معنا اور قالب و مطالب ہر لحاظ سے جس طرح خداوند متعال نے ہم سے چاہا اور طلب فرمایا ہے اسی انداز میں انجام دے سکیں۔ ہم اس عظیم واجب اور اس حیاتی اہمیت رکھنے والے فریضے کو، جو ایسے خصوصیات کا مالک ہے کہ کسی بھی دوسرے اسلامی فریضے میں یہ خصوصیات نہیں پائے جاتے، اس میں مسلمانوں کو بحیثیت امت مسلمہ کے مد نظر رکھا گیا ہے اور ساتھ ہی دنیا کو بھی اس میں ملحوظ رکھا گیا ہے، اسے ہم بالکل اسی انداز سے سرانجام دیں جس انداز سے خداوند متعال ہم سے چاہتا ہے۔
حالات بدلتے رہتے ہیں، اس سال حج خاص حالات میں انجام پا رہا ہے۔ دوستوں، عقیدتمندوں اور اسی طرح دشمنوں کی نگاہوں میں حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی عظمت کا ظہور اور جلوہ نمائی اس سال کے حج کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔ یہ قضیہ کہ امریکا کے اندر کچھ ناپاک ہاتھوں نے اس عظیم اور ملکوتی ہستی کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا ہے، اس کے دو پہلو اور دو رخ ہیں۔ ایک طرف تو یہ قبیح حرکت، پیغمبر رحمت کے ساتھ، پیغمبر عظمت کے ساتھ، پیغمبر کرامت کے ساتھ اور انسانی حیات کی طویل تاریخ میں عالم وجود کے سب سے اعلی اور سب سے گرانقدر انسانی صفات کی حامل ہستی کے ساتھ دشمنوں، مستکبروں اور ان کے آلہ کاروں کے کینہ ؤ بغض کی گہرائی کی غمازی کرتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ ہمارے پیغمبر (ص) کے ساتھ ان لوگوں کی دشمنی کس قدر گہری ہے۔ اس قدر گھٹیا انداز میں گستاخانہ حرکت انجام دی جاتی ہے اور دوسری طرف ان کے سیاستداں اس مسئلے میں وہ موقف اختیار کرتے ہیں جو دشمنانہ موقف سے کوئی تفاوت نہیں رکھتا! یہ مسئلے کا ایک رخ ہے۔ بیشک اس کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ جو افراد، گروہ اور جماعتیں اس (حقیقت) کو باور کرنے میں بہت پس و پیش کا مظاہرہ کرتی تھیں اب ( وہ بھی ) سمجھ گئیں کہ آج اصل مقابلہ آرائی کن محاذوں کے درمیان اور کیوں ہے؟ حق و باطل کے محاذوں پر جاری جنگوں کا محور کیا ہے؟ معلوم ہو گیا کہ اس کا اصل محور اسلام ہے۔ ان کا اصل محور خاتم الانبیاء ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم ) کا وجود پاک ہے۔ یہ ایک عظیم سانحہ تھا جو دشمن نے انجام دیا لیکن دنیائے اسلام کو اس سے فائدہ حاصل ہوا۔ کیونکہ اس نے دشمن کی پہچان کرا دی، دشمنی کی وجہ سمجھ میں آ گئی، حق و باطل میں اختلاف کے اصل محور کو پہچان لیا گیا؛ آج اصل اختلافات یہ ہیں؛ بقیہ باتیں جو دنیا کے مستکبرین ( یا بڑی طاقتیں) مسلمان ملتوں کے خلاف فہرست وار رکھتے اور بیان کرتے ہیں ثانوی باتیں، جھوٹ اور بہانہ ہیں؛ بات صاف ہو گئی کہ اصل مسئلہ کیا ہے؟! یہ اس مسئلے کا ایک رخ ہے ؛ مسئلے کا دوسرا رخ مسلمانوں کی یہ عظیم تحریک ہے۔ آپ دیکھیں آج دنیائے اسلام میں کیا تلاطم برپا ہے؟
مسلمان ملتیں اپنی طرف سے کس جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہی ہیں! اکثر نے تو یہ فلمیں بھی نہیں دیکھی ہیں صرف اسی قدر جانتی ہیں کہ اس طرح کی توہین اور جسارت کی گئی ہے۔ آپ دیکھ لیجئے عالم اسلام میں کیسا ہیجان برپا ہے۔ مسلمان ممالک، مسلمان ملتیں کسی کی کال اور اپیل کے بغیر، کسی کی ترغیب اور اکساوے کے بغیر، میدان عمل میں نکل پڑی ہیں۔ پورے وجود کے ساتھ ، دل کی گہرائیوں کے ساتھ اپنے پیغمبر (ص) کے لئے عقیدت و محبت سے بھرپور نعرے لگاتی ہیں۔ اس کی بڑی اہمیت ہے۔ ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملا ہے۔ خود مغربی ملکوں میں جہاں بڑے بڑے سرکش طاغوتوں اور مستکبروں کا جمگھٹا ہے بیٹھ کر اسلام اور اسلامی امت کے خلاف مسلسل طور پر سازشیں رچا کرتے ہیں۔ یورپ میں، امریکہ میں، مختلف غیر اسلامی ملکوں میں مسلمان اور بعض جگہ غیر مسلمین بھی میدان میں نکل آئے ہیں اور (اس شرمناک حرکت کی مذمت کر رہے ہیں) یہ مسئلے کا دوسرا رخ ہے۔ یہ مسئلہ بہت زيادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس نے دکھا دیا کہ عالم اسلام میں بیداری کیسی صلاحیت موجود ہے۔
ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ مسلمانوں کا نقطۂ اتفاق و اجتماع پیغمبر اکرم (ص) کا وجود مبارک ہے۔ یعنی وہ جگہ جہاں تمام مسلمان، مختلف فرقے، مختلف مسالک، مختلف مذاہب و عقائد کے پیرو ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہوتے ہیں اور سب کے سب ایک حقیقت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں، خاتم الانبیاء (ص) کا وجود مقدس ہے۔ اس منزل میں آکر، سنی ،شیعہ ، فرقوں اور مسلکوں کی بات، اعتدال پسندی اور انتہا پسندی جیسے خیالات کا کوئی معنی و مفہوم نہیں رہ جاتا۔ اس مرکزی وجود، اس محور اور دینی و اسلامی عقائد و نظریات کی اس آخری منزل کی نسبت سب کے سب دل وجان سے متفق و متحد ہیں۔ آج یہ چیز دنیائے اسلام میں پوری طرح جلوہ گر ہے، اس کو غنیمت سمجھنا چاہئے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں حج میں مشرکین سے برائت و بیزاری کا مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ حج وہ منزل ہے جہاں پوری اسلامی دنیا کے مسلمانوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ مختلف تہذیبوں، مختلف نسلوں ، مختلف زبانوں، مشغلوں اور گوناگوں لہجوں کے افراد، جیسا کہ امام حسین علیہ السلام نے اپنی بابرکت دعائے عرفہ میں فرمایا ہے، سب وہاں جمع اور اکٹھا ہوتے ہیں، یہ اتحاد جو ان کی جسمانی اور مادی شکلوں میں، حج کے عظیم اجتماعات میں قابل مشاہدہ ہیں اس میں گہرائي پیدا ہونا چاہئے؛ سبھی لوگ محسوس کریں کہ وہ ایک زبردست خطرے کی زد پر ہیں، ایک دشمن ان کے سامنے کھڑا ہے۔ ہر ایک کو اپنے وجود کی گہرائیوں کے ساتھ اس دشمن سے برائت و بیزاری کا اظہار کرنا چاہئے۔ حج میں مشرکین سے برائت کا مطلب یہاں ظاہر ہوتا ہے۔
پیغمبر اکرم (ص) کا مقدس وجود اور مقام و مرتبہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ ہم انسان اپنی قاصر و ناقص زبانوں سے اور اپنی کوتاہ فکریوں ذریعے ان کو مجسم کر سکیں اور تصویر میں ڈھال سکیں۔ ہم صرف عشق کا اظہار اور اخلاص و خاکساری کا اقرار کرتے ہیں۔ اس سے زيادہ کوئی کام ہمارے بس میں نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) کی ذات مبارک وہ ہے کہ خداوند متعال فرماتا ہے:
انّ اللہ و ملائکتہ یصلّون علی النّبی ( احزاب/ 56)
( بیشک اللہ اور اس کے ملائکہ نبی (ص) پر درود و سلام بھیجتے ہیں)
پروردگار عالم کی ذات مقدس ان پر درود بھیجتی ہے خدائے متعال کے فرشتے ان پر صلوات پڑھتے ہیں، ہم کیا ہیں کہ ان کے مقام کو سمجھ سکیں اور ان کے مرتبے کو جان سکیں، لیکن ان سے محبت رکھتے ہیں، ان سے عشق کرتے ہیں، ان کی بات پر عمل کرتے ہیں، یہ چیز ہمارے لئے ایک اصول کے عنوان سے باقی و محفوظ رہنا چاہئے۔ اپنے پیغمبر (ص) کے پیغام پر ہمیں قائم رہنا چاہئے وہ پیغام توحید کا پیغام ہے، وہ پیغام اسلام کا پیغام ہے، وہ پیغام قرآن کا پیغام ہے۔ حج کو اس کا آئینہ قرار پانا چاہئے۔
دشمن کی ایک بہت بڑی سازش، ویسے یقینی طور پر بحمد اللہ اس سازش کو ناکام بنایا جا چکا ہے تاہم اب بھی بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، اختلاف اور تفرقہ اندازی کی سازش ہے۔ دشمن کا مقصد اختلاف پیدا کرنا ہے۔ ہم لوگ جو اپنی بنیادوں، اپنے اصولوں اور اسلام کے بنیادی ترین مسائل میں سب کے سب ایک نقطے پر جمع ہیں، بعض نظریاتی، اعتقادی اور عملی اختلافات کی خاطر ہم کو ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اسلامی فرقے اور اسلامی مذاہب گوناگوں مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں لیکن ہم اعلان کر رہے ہیں: تمہارے مقابلے میں ، تم جو اسلام کے دشمن ہو، تمہارے مقابلے میں جو ہمارے پیغمبر کے وجود مقدس کے سلسلے میں ایسی ناروا حرکتیں کر رہے ہو، ہم سب کے سب متفق اور متحد ہیں۔ دشمنان دین کو اور اسلام مخالف محاذوں کی قیادت کرنے والے مستکبرین کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان کے مقابلے میں پوری امت اسلامیہ ایک آواز اور متحد و متفق ہے۔ اختلاف ایجاد کرنے کا گمان اپنے ذہنوں سے نکال دیں۔ ہمارے درمیان اختلاف ایجاد کر لے جائيں گے اس سلسلے میں پرامید نہ رہیں۔ ہمارے مبلغین ہمارے عوام کی ایک ایک فرد، ہمارے حکام اور ذمہ دار افراد مختلف مذاہب کے پیرو، ہمارے سنی، ہمارے شیعہ ہر ایک اپنے ہوش و حواس بجا رکھے، ہوشیار و خبردار رہے کہ دشمن ہمارے درمیان اختلاف ایجاد نہ کر سکے کہ ہم لوگ اپنا غم و غصہ اور اپنا غیظ و غضب خود اپنوں کے خلاف اور خود اپنی صفوں کے اندر استعمال کریں اور وہ (دشمن) خود کو امت اسلامیہ کے غیظ و غضب سے نجات عطا کر لے؛ یہ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ حج، خصوصا اس سال کے حج، سے متعلق یہ ایک نکتہ ہے ۔
ایک اور نکتہ جس پر بارہا تاکید کر چکا ہوں اور اب بھی اس کا عرض کرنا لازم سمجھتا ہوں یہ ہے کہ حج سیاسی ماہیت رکھنے والا واجب دینی ہے، سماجی ماہیت رکھنے والا ایک واجب ہے، اتحاد کا مظہر ہے، مسلمانوں کے اجتماع کی جلوہ گاہ ہے اور اظہار برائت کے لئے بہترین موقع ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے لیکن یہ ایک ایسا مجموعہ ہے جو معنوی احساسات سے لبریز ہے۔ یہ بات بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ حج کے اعمال و مناسک کے آغاز سے ہی، اس احرام کے وقت سے جو آپ عمرہ کے لئے میقات میں باندھتے ہیں بالکل آخری واجبات و فرائض تک، جو حج میں انجام پاتے ہیں، خدا کا ذکر موجیں مارتا نظر آتا ہے۔ اس بات کو یاد رکھنا چاہئے، خدائے متعال کا ذکر ہم کو پاک کرتا ہے، ہماری تطہیر کرتا ہے، ہمارے دلوں پر لگے زنگ صاف کر دیتا ہے، ہماری غفلتیں دور کر دیتا ہے، دنیا سے عشق اور مادی آسائش جاہ و منصب، دولت و ثروت، جنسی اور غیرجنسی شہوت، لذتوں کی طرف جھکاؤ اور جھپٹ پڑنے کی خصلت کمزور پڑجاتی ہے۔ ہم کو آج بھی اور ہمیشہ اس کی ضرورت ہے اور رہے گی۔ انسانوں کو راہ حق سے صحیح و سلامت گزرنے کے لئے کہ صراط مستقیم سے منحرف نہ ہو ضرورت ہے کہ ہر وقت یاد خدا سے دل کو معمور رکھے اور اس راہ میں حج ایک بہترین موقع فراہم کر دیتا ہے۔ کئی جہتوں سے حج بے نظیر ہے، میں چاہتا ہوں اعمال اور فرائض و مناسک جو آپ انجام دیں وہ لبیک جو آپ حج کے اعمال شروع کرتے وقت کہتے ہیں، اسی وقت سے متوجہ رہیں کہ آپ کیا کام انجام دے رہے ہیں اور کس سے ہم کلام ہو رہے ہیں۔ طواف میں، سعی میں، میقات میں، وقوف کے مقامات (عرفات اور مزدلفہ) میں حج کے ایک ایک عمل میں خیال رہے کہ آپ کس ذات سے محو کلام ہیں، کس ہستی سے کا بارگاہ میں اپنے اعمال انجام دے رہے ہیں، ساری کوششیں کس کے لئے ہیں ان یادوں، ان اذکار، اس خشوع و خضوع اور اس گریہ ؤ زاری کو ایک لمحے کے لئے اپنے آپ سے جدا نہ ہونے دیں؛ یہ بہت ہی اہم کاموں میں سے ایک ہے؛ علمائے محترم خصوصا کاروانوں کے ذمہ دار اشخاص اور ان سے مرتبط افراد اس بات پر پوری توجہ رکھیں۔
ایک آخری بات یہ ہے کہ عالم اسلام میں پھیلے مسلمان بھائیوں کے ساتھ باہمی تعلقات اس اہم مرکز میں از سرنو بحال ہونا چاہئے؛ تعلقات حکومتوں کے تعلقات نہیں ہیں، حکومتوں کے تعلقات تو سرکاری تعلقات ہوتے ہیں، زبانی تعلقات ہوتے ہیں، یہ دوسرے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں، امت اسلامیہ کی ایک ایک فرد کے درمیان تعلقات، قلبی رشتے اور تعلقات ہیں اور یہ مختلف قوموں کے افراد کے درمیان ایک دوسرے کے ارتباط سے وجود میں آتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کے مسلمان بھائیوں سے ملاقات کے وقت وہ لوگ جو ہم زبان ہوں، آپس میں گفتگو کر سکتے ہیں، لہذا زبان سے اظہار محبت کریں ایک دوسرے سے متعارف ہونے اور دوستی و محبت بڑھانے کی کوشش کریں اور اس عمل (اور گفتگو) میں مشترک نقطون کو بنیاد بنائیں اور وہ لوگ جو آپ کے ہم زبان نہیں ہیں عمل کے ذریعے ان کو راہ دیں، اپنی جگہ بٹھائیں، مہر و محبت کا اظہار کریں، بعض زحمتیں اور مشقتیں برداشت کریں کوئی ممکن ہے اکڑ دکھائے اور کندھا ٹکرائے، آپ اس کا مسکرا کر جواب دیں۔ اپنے عمل کے ذریعے کوشش کریں کہ یہ تعلق پیدا ہو، صرف اس مقصد کے لئے نہیں کہ اس طرح ایران اور ملت ایران کی عزت و آبرو کی حفاظت ہوگی، یہ بھی یقینا خود اپنی جگہ بہت اہم بات ہے، کتنی اچھی بات ہے کہ ایک ملت اپنی کرامت و متانت، اپنی قدر و قیمت، اپنی اسلامی اور انسانی خصوصیات اور اخلاق و آداب کی پابندی کا مظاہرہ کرے۔ تا ہم اس عمل کا اصلی مقصد یہ ہے کہ مسلمان ملتوں کے درمیان یہ قلبی رشتہ اور رابطہ برقرار ہونا ہی چاہئے۔ کسی بھی نسل سے ہو، کسی بھی زبان کا بولنے والا ہو، کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو، آخر وہ مسلمان ہے، وہ آپ کی طرح کعبہ کے عشق میں آیا ہے، پیغمبر کے عشق میں آیا ہے، وہ بھی اسی راہ پر گامزن ہے، وہ بھی خداوند متعال سے محو گفتگو ہے، جس قدر بھی ممکن ہو اس وجہ اشتراک کو ایک دوسرے کے سامنے نمایاں کریں اور عمل کے ذریعہ اس حقیقت کو لوگوں کی نگاہوں میں اجاگر کریں، لوگ سمجھیں کہ ان میں یہ وجہ اشتراک موجود ہے۔ جس وقت دنیا کے مختلف حصوں کے مسلمانوں نے محسوس کیا کہ دوسرے ملکوں میں، دوسری ملتوں میں ان کے بھائی موجود ہیں، ان میں اسلامی روح اور جذبہ پیدا ہوگا ان میں اعتماد نفس قوی و مضبوط ہوگا، کمزوری و ناتوانی کا وہ احساس جو عالمی استکبار کے خبیث و پلید ہاتھوں نے مسلمانوں کے دل و دماغ پر مسلط کر دیا ہے اس سے وہ خود کو رہائی اور نجات عطا کر سکیں گے۔ اس تصور کی تقویت لازم ہے۔
ہم خداوند متعال سے دعا گو ہیں کہ وہ اپنی برکتیں ہمارے حاجیوں پر اور دنیائے اسلام کے تمام حاجیوں پر نازل فرمائے۔ حضرت بقیۃ اللہ ( ارواحنا فداہ ) کی پاکیزہ دعائیں آپ سب کے شامل حال ہوں اور اولیائے کرام کی ارواح مطہرہ ، شہدائے اسلام کی ارواح مطہرہ اور ہمارے عظیم قائد امام خمینی کی روح پاک کی امداد و اعانت کے طفیل، ہم کو اس راہ پر قدم بڑھانے میں کامیاب کرے جو پروردگار عالم کی رضا و خوشنودی کا باعث ہو ۔
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ