قائد انقلاب اسلامی نے ماہ ربیع الاول کو پیغمبر اسلامۖ اور فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت کی وجہ سے بہار زندگی قرار دیا اور فرمایا کہ اس عظیم ہستی کے یوم ولادت کا جشن، صرف خوشیاں منانے تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیائے اسلام کو چاہئے کہ نبی اکرمۖ سے اپنے قلبی و روحانی رشتے و رابطے کو روز بروز زیادہ مستحکم بنائے۔ آپ نے سترہ ربیع الاول کی عظیم عید کا جشن منانے کے لئے پیغمبر اسلام کے فرامین کی پیروی کو لازمی قرار دیا اور فرمایا کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ آنحضرت کے فرمودات کو اپنی زندگی میں نافذ کریں اور آپ کی بتائی ہوئی سمت میں قدم بڑھائیں اور ان سے انفرادی و اجتماعی اور سماجی و سیاسی تربیت کے سلسلے میں بھرپور استفادہ کریں۔

آپ نے فرمايا کہ آج اسلامی بيداری کی لہر کے مقابلے ميں سامراجي دنيا، اسلامي ملکوں ميں اختلاف و تفرقہ ڈالنے اور مسلمانوں کو آپس ميں لڑانے کي پاليسی پر عمل کر رہي ہے۔ بنابريں اسلامي دنيا کے دانشوروں، ماہرين سياست اور اسلامي اسکالروں کا فريضہ ہے کہ امت اسلاميہ کے لئے دشمن کے منصوبوں کي تشريح کريں اور اتحاد اسلامي کے لئے سنجيدگي کے ساتھ کوشاں رہیں۔

قائد انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا کہ آج اسلامی بيداری کی تحريک کے آغاز کے نتیجے میں اسلامي دنيا کے حالات، خاتم النبين حضرت رسول اسلام صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم کے احکام کی عملي پيروی کے لئے سازگار ہو گئے ہيں۔

آپ نے فرمايا کہ اسلامي دنيا پر مغرب والوں کے دسيوں سال کے تسلط اور دباؤ کے بعد اب مسلمان اس بات کا شدت سے احساس کر رہے ہيں کہ اسلام ان کي عزت، سربلندی اور خودمختاری کے لئے حالات کو ساز گار بنا سکتا ہے اور امت اسلاميہ کي تمام آرزوئيں اسلام کي برکت سے پوری ہو سکتی ہيں۔

قائد انقلاب اسلامي آيت اللہ العظمي سيد علي خامنہ اي نے فرمايا کہ آج مسلمانوں کے درميان مغرب کي سامراجی طاقتوں کے مقابلے ميں ڈٹ جانے اور مغربی ملکوں کو پسپائی پر مجبور کر دينے کا جو جذبہ اور توانائی نظر آ رہی ہے وہ سب اسلامي بيداري کي برکت کا نتيجہ ہے۔

آپ نے فرمايا کہ اسلامي بيداری جو ايران کے اسلامی انقلاب سے شروع ہوئی اور اب عالم اسلام ميں پھيلتی جا رہی ہے اللہ کے وعدوں کي تکميل اور فتح و کاميابی کی سمت عالم اسلام کے گامزن ہونے کي نشاني ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اسلامی بیداری کی لہر شروع ہونے کے وقت سے ہی سامراجی طاقتوں نے یہ کوشش کی کہ اس کا راستہ مسدود کر دے لیکن اگر مسلمان اللہ پر توکل کرتے ہوئے اور آگے بڑھنے کے لئے عزم محکم کا ثبوت پیش کرتے ہوئے سامنے آئیں تو دشمن دنیائے اسلامی کی پیش قدمی کے عمل کو روک نہیں پائیں گے اور ہر ہر قدم پر کامیابیاں عالم اسلام کے قدم چومیں گی۔

قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ  پیش خدمت ہے؛

بسماللّهالرّحمنالرّحيم

اس عظیم عید کے مبارک و مسعود موقعے پر تمام حاضرین محترم، دیگر ممالک سے تشریف لانے والے معزز مہمانوں، اسلامی ممالک کے سفیروں اور تمام ملت ایران کو جس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنی عقیدت و الفت کا عملی ثبوت پیش کیا ہے، دلی تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں۔ اسی طرح تمام امت اسلامیہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جو پیغمبر اسلام کے اسم مبارک کو اتحاد و یگانگت کا محور مانتی ہے۔ اس عید مسعود کی مبارک باد میں دنیا کے آزاد منش اور حریت پسند انسانوں کو بھی پیش کروں گا کیونکہ در حقیقت میلاد پیغمبر کی بشارت اور اس عظیم واقعے سے جاری ہونے والی برکات الہیہ کا تعلق دنیا کے تمام آزاد منش انسانوں سے ہے۔ اس کا ربط ان تمام انسانوں سے ہے جو اعلی روحانی اقدار اور عدل و انصاف تک رسائی کے لئے کوشاں ہیں۔

بعض اہل دل اور اہل سلوک کا یہ عقیدہ ہے کہ ماہ ربیع الاول حقیقی معنی میں اسم با مسمی اور زندگی کی بہار ہے۔ کیونکہ اس مہینے میں پیغمبر گرامی کے وجود مقدس اور آپ کے فرزند حضرت ابو عبد اللہ جعفر ابن محمد الصادق علیہم السلام کی ذات والا صفات نے ضوفشانی کی ہے۔ پیغمبر اکرم کی ولادت ان تمام برکتوں کا سرآغاز ہے جو اللہ تعالی نے بشریت کے مقدر میں لکھی ہیں۔ ہم اسلام کو سعادت و نجات بشر کا ذریعہ مانتے ہیں اور یہ عظیم عطیہ الہی پیغمبر اکرم کے وجود مقدس سے جاری ہونے والا چشمہ ہے۔ حقیقت میں اس عظیم یوم ولادت کو ان برکتوں اور نعمتوں کا نقطہ آغاز سمجھنا چاہئے جن کے طفیل میں انسانی معاشرے کو، امت اسلامیہ کو اور حق و صداقت کے پیروکاروں کو سربلندی و سرفرازی نصیب ہوئی ہے۔

صرف جشن منا لینا کافی نہیں ہے۔ سب سے پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ ہمیں پیغمبر اکرم سے اپنے قلبی و روحانی رشتے کو مضبوط کرنا ہے۔ عالم اسلام کو چاہئے کہ نبی مکرم سے اپنے روحانی، قلبی اور جذباتی لگاؤ اور رشتے کو روز بروز زیادہ سے زیادہ مستحکم بنائے۔ یہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی متفق علیہ ہستی ہے۔ جن لوگوں کے دل میں مسلم امہ کی تشکیل کی تمنا ہے، انہیں اس محور پر تکیہ کرنا چاہئے، انہیں پیغمبر کے مقدس وجود سے قلبی و جذباتی رشتے و رابطے کو مرکز قرار دینا چاہئے۔ یعنی سب سے پہلے جملہ امور میں اس عظیم ہستی کے اتباع کا سنجیدہ اور مصمم فیصلہ کیا جائے۔ قرآن کریم کی آیتوں میں پیغمبر کے اخلاق کے بارے میں، سیاسی روش کے بارے میں، پیغمبر کے طرز حکومت کے بارے میں، عوام الناس سے پیغمبر اکرم کے قلبی لگاؤ کے بارے میں، مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں سے ان کے برتاؤ کے بارے میں تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ پیغمبر اکرم کے ہاتھوں عظیم صحابہ کی تربیت اور ان اصحاب کا طرز عمل اس نہج و جہت کی نشاندہی کرتا ہے جو مسلم امہ کی تربیت میں اسلام کو مطلوب اور پیغمبر کی پسندیدہ تربیت ہے۔ ہمیں ان خصوصیات کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں انہی تعلیمات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ سے کچھ نہیں ہوتا۔

آج اس کام کے لئے حالات سازگار ہیں۔ اسلامی بیداری کی لہر ایک اٹل سچائی کے طور پر نمودار ہوئی ہے۔ اسلامی معاشروں پر دشمنان اسلام اور مسلمانوں سے عناد رکھنے والے عناصر کے کئی دہائیوں کے تسلط کے بعد، جو کہیں براہ راست استعمار کی شکل میں تھا، کہیں جدید استعمار یعنی بالواسطہ سامراجی تسلط کی شکل میں تھا، کبھی ثقافتی بالادستی کی شکل میں اور کبھی اقتصادی و سیاسی غلبے کی شکل میں تھا، بہرحال ان طویل برسوں کے بعد جن میں مسلم اقوام مغربی تسلط کے جان لیوا دباؤ میں پس رہی تھیں، یورپی اور امریکی حکومتوں کے چنگل میں گرفتار تھیں، اب بتدریج، اسلامی بیداری نشونما کے مراحل طے کر رہی ہے اور اس کے آثار صاف دکھائی دینے لگے ہیں۔ دنیائے اسلام کے عوام آج اس یقین پر پہچ گئے ہیں کہ ان کی عزت، ان کے وقار، ان کی خود مختاری اور ان کی سربلندی کا ضامن اسلام ہے اور اسلام کی برکت سے دنیائے اسلام کی کوئي بھی قوم اپنی تمام تمنائیں پوری کر سکتی ہے۔ مسلم اقوام اسلام کی برکت سے مغربی تسلط کے مقابل اور مغربی طاقتوں کے غرور و تکبر کے مقابل، ان کے ظالمانہ تسلط کے مقابل، مغربی حکومتوں کے استعمار اور استحصال کے عزائم کے مقابل اٹھ کھڑے ہونے پر قادر ہیں۔

مغرب کے پاس پسپائی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ آج آپ دنیائے اسلام میں اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ تین عشرے قبل یہی واقعہ ایران میں رونما ہوا جو آج دنیائے اسلام میں، شمالی افریقا میں نظر آج آ رہا ہے۔ قدم، فتح و کامرانی کی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں۔ البتہ مشکلات بھی ہیں لیکن اگر ہم ہوشیار اور بیدار رہیں تو مشکلیں ہمارے آڑے نہیں آ سکتیں۔ قرآن نے فرما دیا ہے: «لن يضرّوكم الّا اذى».(1) بیشک لوگ پریشان کریں گے، مشکلات کھڑی کریں گے لیکن اگر ہم نے پکا ارادہ کر لیا ہے، اگر اللہ کی ذات پر ہمارا توکل ہے، ہم آگے بڑھنے کے سلسلے میں پرعزم ہیں تو کچھ بھی ہمارے سد راہ نہیں ہو سکتا۔

آج مسلم اقوام بیدار ہو گئی ہیں، انہیں یقین ہو چلا ہے کہ اسلام کی برکت سے دنیائے اسلام کے دشمنوں کے مقابل، مغربی حکومتوں کی پالیسیوں پر اپنا آہنی پنجہ گاڑ لینے والے پست کردار صیہونی نیٹ ورک کے مقابل وہ اپنی بات خود اعتمادی سے پیش کر سکتی ہیں۔ ان کامیابیوں کی بڑی قیمت ہے۔  «وعدكم اللّه مغانم كثيرة تأخذونها فعجّل لكم هذه»یہ تو وعدہ الہی کا صرف ایک حصہ ہے جو تکمیل کی منزل تک پہنچا ہے - «و كفّ ايدى النّاس عنكم و لتكون ءاية للمؤمنين و يهديكم صراطا مستقيما».(2) قوم اگر دشمنوں کے مقابلے میں، ان کی خبیثانہ چالوں، روشوں اور تشہیراتی حربوں کے مقابلے میں کوئی کامیابی حاصل کرتی ہے تو یہ در حقیقت بشارت خداوندی ہے۔ یہ ایک آیت خداوندی ہے، ایک نشانی ہے «و لتكون آية» اس بات کی نشانی ہے کہ اگر تم قدم آگے بڑھاؤگے تو یقینا نتیجہ حاصل ہوگا۔ آج دنیائے اسلام دشمنوں کی سازشوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ میں آپ سب ایرانی و غیر ایرانی بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج اسلامی بیداری کی لہر کا مقابلہ کرنے کے لئے دشمن کے پاس سب سے بڑا حربہ اختلافات کا ہے۔ مسلمان کو مسلمان کے مقابل کھڑا کر دینا، مسلمان کو مسلمان کے ہاتھوں نابود کر دینا، انہیں آپس میں الجھا دینا، اسلامی خود مختاری کے دشمنوں کے لئے اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے کہ مسلمان آپس میں الجھ پڑیں؟ جس دن ایران میں اسلامی انقلاب کامیاب ہوا، اسی دن سے ہمارے ملک کے خلاف دیگر اقوام کو ورغلانے اور اکسانے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے لیکن اسلامی جمہوریہ اس سازش کا بڑی پائیداری اور کامیابی سے مقابلہ کر رہی ہے۔ اسلامی دنیا کی سطح پر انہوں نے فرقہ وارانہ اختلافات کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی لیکن اسلامی جمہوریہ نے اسلامی اتحاد کا پرچم بلند کیا۔ ہم نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا، ہمارے عظیم الشان امام خمینی نے بھی بارہا فرمایا اور ملت ایران نے بھی آپ کے زمانے میں اور آپ کی رحلت کے بعد یہی کہا کہ ہم اسلامی اخوت پر ایمان و ایقان رکھتے ہیں۔ ہم مسلمانوں میں کسی بھی خلیج کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ یہ موقف دشمن کی سازش کے بالکل برخلاف ہے جو ہر چھوٹی بات کو بھی مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی خلیج پیدا کرنے کے لئے استعمال کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اگر آپ غور کریں تو دیکھیں گے کہ شمالی افریقا کے ملکوں میں بھی اسلامی بیداری کے دشمنوں کی کوشش اختلافات کے شعلے بھڑکانے پر مرکوز ہے۔ استکبار کی پالیسی یہ ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے دست و گریباں کر دے، ایک دوسرے کے مقابلے میں محاذ آرائی میں مصروف کر دے۔ اس بیماری کا علاج یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر اتحاد و اخوت کا جذبہ قوی کیا جائے، مسلمان قومیں آپس میں متحد ہو جائیں۔ ہر ملک کے اندر مختلف گروہ، مکاتب فکر، مختلف دھڑے، ایک دوسرے کے شانے سے شانہ ملا کر سیاسی، فکری اور اعتقادی اختلافات کو جماعتی احتلاف رائے کو اپنی بنیادی اور کلی تحریک کے راستے میں آڑے نہ آنے دیں تا کہ دشمن کے مقابل ثبات قدم کے ساتھ ڈٹ سکیں۔ واحد راستہ اور واحد حل یہی ہے۔ اختلافات کی آگ بھڑکانے کے لئے گوناگوں حربے اور حیلے آزمائے جا رہے ہیں، بڑی ریشہ دوانیاں ہو رہی ہیں، ان چیزوں کو آج آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر مسلمان آپسی اختلافات میں الجھ کر رہ جائیں گے تو مسئلہ فلسطین خود بخود حاشئے پر چلا جائے گا، امریکا اور مغرب کی توسیع پسندی کے مقابلے میں پائيداری کا جذبہ اپنے آپ ثانوی چیز بن جائے گا اور دشمن کو اپنے منصوبوں کو رو بہ عمل لانے کا پورا موقعہ مل جائے گآ۔

آج دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مغربی حکومتوں نے افریقا میں ایک نئی چال شروع کر دی ہے، افریقی قوموں پر تسلط قائم کرنے کا نیا حربہ آزمایا جا رہا ہے، افریقی عوام کی زندگی میں دوبارہ دخل اندازی شروع ہو گئی ہے۔ جب اختلاف کی آگ بھڑک اٹھتی ہے تو دشمن کو منمانی کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں آپ دیکھئے، اختلافات کی بنیاد پر کیسے کیسے المئے رقم کئے گئے ہیں۔ آپ شام میں دیکھئے، کس طرح لوگوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیا گیا ہے۔ بحرین میں آپ مشاہدہ کیجئے، کس طرح ایک قوم کی آواز کو کچلا جا رہا ہے، ایک پوری قوم کا ہر اعتبار سے بائیکاٹ کر دیا گیا ہے۔ مصر اور دیگر علاقوں میں آپ دیکھئے کہ کس طرح لوگوں کو آپس میں دست و گریباں کر دیا گيا ہے؟ یہ ایسی سیاست ہے کہ ممکن ہے اس میں کچھ افراد کے ذاتی نظریات اور جذبات کا بھی دخل ہو لیکن کلی سازش اور کلی منصوبہ دشمنوں کا ہے۔ میں کسی پر یہ الزام نہیں دھرنا چاہتا کہ عمدا دشمن کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہا ہے لیکن پورے یقین سے یہ بات کہتا ہوں کہ اختلاف پیدا کرنے والا کوئی بھی قدم، خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو، مسلم اقوام کے مابین ہو یا کسی ایک ملک کے اندر بسنے والے افراد کے درمیان ہو، یہ در حقیقت دشمن کے ذریعے تیار کئے جانے والے راستے پر آگے بڑھنے سے عبارت ہے، یہ دشمن کی مدد کرنا ہے۔ اتحاد کے مسئلے پر ہر کسی کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو دانشور حضرات، سیاسی شخصیات، مذہبی رہنما، یونیورسٹی کے نظریہ پرداز، دینی درسگاہ کے عمائدین ہر جگہ اور ہر ملک میں اتحاد پر توجہ دیں۔ ہمارے ملک کے اندر بھی سب وحدت پر خاص توجہ دیں۔ مسلمانوں کے درمیان فرقہ وارانہ منافرت پھیلانا، بڑی خطرناک چیز ہے۔ اگر دشمن کسی جگہ پر فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے میں کامیاب ہو گیا تو اسے خاموش کرنا انتہائی دشوار کام ہوگا۔ اس کا پہلے ہی تدارک کر لینے کی ضرورت ہے اور اس میں کامیابی تب ملے گی جب ہر ملک میں صدق دلی سے، محنت اور لگن سے اور جدت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کام کیا جائے۔ علمائے کرام، یونیورسٹی سے وابستہ مفکرین، سیاسی رہنما، ذی اثر شخصیات عوام کو دشمن کے منصوبوں سے آگاہ کریں۔ عوام کے درمیان، اسلامی ملکوں کے درمیان، اسلامی دھڑوں کے مابین، شیعہ و سنی کے درمیان مختلف اسلامی مکاتب فکر کے درمیان منافرت کی آگ بھڑکانے کے دشمن کے منصوبے اور جذبے سے عوام کو باخبر رکھیں۔ یہ بہت بڑا اور خطرناک حربہ ہے جس کا دشمنوں نے بار بار تجربہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں برطانیہ کے پاس بہت لمبا تجربہ ہے۔ ہم تاریخ میں انگریزوں کی سوانح حیات میں پڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کیسے کیسے اختلافات کی آگ بھڑکائی۔ انہیں یہ گر خوب آتا ہے اور انہیں سے دوسروں نے بھی سیکھا ہے۔ اختلاف ڈالنے کے لئے بڑی محنت کر رہے ہیں، لہذا بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، عامیانہ اور سطحی جذبات کی رو میں آکر تنازعہ کی آگ بھڑکانے کا باعث نہیں بننا چاہئے، یہ چیز قوموں کی تقدیر کو تاریک کر دیتی ہے، قوموں کو بد ترین انجام پر پہنچاتی ہے، اس سے اسلام کے دشمن، مسلمانوں کے دشمن اور آزادی و خود مختاری کے دشمن اپنے منصوبوں میں آسانی سے کامیاب ہو جاتے ہیں، ان کی پالیسیاں عملی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ بہت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔

اسلامی اتحاد کا نعرہ ایک مقدس نعرہ ہے۔ آج اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان ہوتے تو اس آیہ شریفہ «عزيز عليه ما عنتّم حريص عليكم بالمؤمنين رئوف رحيم»(3)  کے مطابق ہم سب کو اتحاد کی دعوت دیتے۔ ان اختلافات کا سد باب کرتے۔ بنابریں اگر ہمین نبی اکرم سے پیار ہے تو ہمیں چاہئے کہ اس عظیم ہستی کی اس حتمی خواہش کی تکمیل کریں۔

میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ ہم سب کو توفیق عنایت فرمائے کہ جو کچھ زبان سے کہتے ہیں اس پر عمل کرنے میں کامیاب ہوں۔

والسّلام عليكم و رحمةاللّه و بركاته

1) آلعمران: 111
2) فتح: 20
3) توبه: 128