1392/03/22 ہجری شمسی مطابق 12/6/2013 کو عشق و ایمان و اثیار کے اسوہ حسنہ نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہما السلام کے یوم ولادت با سعادت کے موقعے پر مختلف عوامی طبقات کے عظیم الشان اجتماع سے خطاب میں قائد انقلاب اسلامی نے اس عظیم مناسبت کی مبارکباد پیش کی اور عوام کے انتخابی جوش و خروش کو ملک میں سیاسی جہاد کا ماحول قائم ہو جانے کی علامت قرار دیا، آپ نے فرمایا کہ سیاسی جہاد آج سے ہی شروع ہو چکا ہے اور انشاء اللہ جمعے کو عوام کی امید و بلند ہمتی اور توکل و اعتماد سے یہ جہاد اپنے اوج کو پہنچے گا اور یہ جہاد حقیقی معنی میں جامہ عمل پہنے گا۔ قائد انقلاب اسلامی نے چودہ جون کے الیکشن کو خاص رنگ اور انداز کا حامل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران و انقلاب و اسلام کے دشمنوں نے اپنے تمام مالیاتی، تشہیراتی اور سیاسی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے عوام کو انتخابات کا انعقاد کرانے والے ادارے کے سلسلے میں بد گمانی میں مبتلا کرنے اور انہیں اسلامی نظام سے دور کرنے کی بڑی کوششیں کیں لیکن جمعے کو ایرانی عوام پولنگ مراکز پر جمع ہوکر اسلامی نظام سے اپنے گہرے اور مستحکم رابطے کا مظاہرہ کریں گے اور اپنی عظیم قوت کا مظاہرہ کرکے دشمن کو ایک بار پھر شکست سے دوچار کر دیں گے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛

بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحيم‌

میں آپ تمام بھائیوں اور بہنوں، عزیز نوجوانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں، آپ نے زحمت فرمائی اور ایک مسافت طے کرکے یہاں تشریف لائے جس کے نتیجے میں یہ عید کا دن حقیقی معنی میں عید کا دن بن گیا۔ محبان اہل بیت کا اجتماع، حضرت سید الشہدا کے عقیدتمندوں کا اجتماع، یہ خنداں چہرے، حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام کی ولادت کے مسعود و مبارک موقعے کی مسرتوں سے معمور قلوب، یہ سب عید کے دن کو حقیقی معنی میں عید بنا دیتے ہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ ملت ایران ہر دور اور ہر طرح کے حالات میں، انشاء اللہ عنایت خداوندی کے طفیل میں اور اہل بیت علیہم السلام اور اسلامی تعلیمات پر خاص توجہ کے نتیجے میں ہر دن نئی کامیابیاں حاصل کرے، اس کے وقار میں اضافہ ہو اور اس کی مسرتیں بڑھیں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کا یوم ولادت بڑا عظیم دن ہے۔ (جلیل القدر عالم دین اور عارف ربانی) الحاج میرزا جواد آقا تبریزی ملکی کے بقول تین شعبان کی عظمت کو حسین ابن علی کی عظمت کی ایک پرتو کی حیثیت سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس دن ایسی ہستی کی ولادت ہوئی ہے جس کی ذات سے، جس کی تحریک سے، جس کے قیام سے، جس کے ایثار سے اور جس کے اخلاص سے اسلام کی تقدیر وابستہ تھی۔ تاریخ انسانیت کی اس عظیم ہستی نے ایک ایسی تاریخ رقم کر دی جس کی کوئی مثال ہے نہ نظیر۔ آپ نے بشریت کے سامنے ایسا کارنامہ پیش کیا جو کبھی فراموش کیا ہی نہیں جا سکتا ہے، یہ اسوہ حسنہ کے طور پر ہمیشہ باقی رہنے والا کارنامہ ہے۔ اللہ کی راہ میں اس عظیم پیمانے پر قربانی پیش کرنا، اس قربانی میں اپنی جان، اپنے اصحاب با وفا کی جان کا نذرانہ پیش کرنا اور اہل حرم کی اسیری کو برداشت کرنا، اس مقصد کے تحت کہ اسلام کو بقا مل جائے، اس مقصد کے لئے کہ ظلم کے خلاف پیکار، تاریخ انسانیت میں پائیدار اور یادگار اصول کی حیثیت سے ثبت ہو جائے! یہ ایسی چیز ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ راہ خدا میں یوں تو بہت سے لوگ شہید ہوئے ہیں، پیغمبر اسلام کے ساتھ، حضرت امیر المومنین کے ساتھ انبیائے الہی کے ساتھ دفاع حق میں بہتوں نے جام شہادت نوش کیا ہے لیکن کوئی بھی واقعہ سانحہ کربلا جیسا نہیں ہے۔ ایک انسان دوستوں اور ساتھیوں کی حوصلہ افزائی اور تحسین و ستائش کے بیچ فتح و کامرانی کی امید کے ساتھ میدان کارزار میں اترے اور جنگ کرتے ہوئے شہید ہو جائے، بیشک اس کا بھی اجر بے پناہ ہے۔ لیکن اس شخص اور اس گروہ کے مابین زمین اور آسمان کا فرق ہے جو ایک تاریک و ظلمانی دور میں، ایسے وقت جب دنیائے اسلام کے تمام با اثر افراد اس کا ساتھ دینے سے انکاری ہو جائیں، اتنا ہی نہیں، اس کی ملامت اور سرزنش بھی کر رہے ہوں، اسے کسی سے مدد کی امید نہ ہو، عبد اللہ ابن عباس جیسی شخصیت روک رہی ہو، عبد اللہ بن جعفر جیسی شخصیت آگے بڑھنے سے منع کر رہی ہو، کوفہ میں رہنے والے محب و انصار ساتھ دینے کو تیار نہ ہوں، پھر بھی اس جماعت کا سردار اپنے معدودے چند اصحاب باوفا کے ساتھ، اپنے اہل خانہ، اپنی زوجہ، بہن، بھانجوں، بھتیجوں، نوجوانوں اور شش ماہے کے ساتھ میدان میں اتر پڑے۔ یہ بڑا عجیب واقعہ ہے۔ یہ بڑا حیرت انگیز اور پرشکوہ منظر ہے جو بشریت کی آنکھوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام اس دن کے لئے خود کو پہلے سے آمادہ کر رہے تھے۔
امام حسین علیہ السلام کی پوری زندگی سراپا درس ہے۔ آپ کا بچپن دروس کا سرچشمہ، آپ کی نوجوانی دروس کا سرچشمہ، آپ کا دور امامت دروس کا سرچشمہ، امام حسن علیہ السلام کی امامت کے دور میں آپ کی زندگی بھی دروس کا سرچشمہ ہے۔ امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ کا طرز عمل درس ہی درس ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے جو کارنامہ انجام دیا وہ چند دنوں کے اندر انجام پا جانے والا کوئی کام نہیں تھا۔ یہ بے حد عظیم واقعہ ہے اور خورشید کی مانند اس کی درخشش ایسی ہے کہ دیگر واقعات پر توجہ نہیں ہو پاتی ورنہ امام حسین علیہ السالم نے منی میں علماء، بزرگان، صحابہ اور تابعین سے جو خطاب کیا ہے اور جس کا ذکر احادیث کی کتب میں موجود ہے، وہ اپنی جگہ تاریخی سند کا درجہ رکھتا ہے۔ آپ نے اپنے زمانے کے علماء اور عمائدین مذہب کو جو خط تحریر فرمایا اور جس میں آپ نے لکھا ہے: «ثُمَّ انتُم ايَّتُها العِصابَة، عِصابَةٌ بِالعِلمِ مَشهورَة»(۱)، یہ حدیث کی کتابوں میں نقل کیا گيا ہے، یہ تاریخی سند ہے۔ آپ کا طرز عمل، معاویہ کے سلسلے میں آپ کی حکمت عملی، معاویہ کو آپ کا مکتوب، حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے مختصر دور خلافت میں حضرت کے قریب آپ کی موجودگی، یہ سب دروس کا سرچشمہ ہیں، لیکن عاشور کا واقعہ بالکل استثنائی حیثیت کا حامل ہے۔ آج کا دن حضرت کی ولادت کا دن ہے۔ اس دن ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم حسین ابن علی علیہما السلام سے سبق لیں۔ امت مسلمہ کے لئے حسین ابن علی علیہما السلام کا درس یہ ہے کہ حق کی خاطر، انصاف کی خاطر، قیام عدل کی خاطر، ظلم سے پیکار کی خاطر ہمیشہ تیار رہنا چاہئے اور اس لڑائی کے لئے اپنا سب کچھ، تمام متاع زندگی داؤں پر لگا دینا چاہئے۔ اس عظیم سطح پر جاکر یہ کام کرنا کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے، لیکن ہمیں اپنی بضاعت اور حیثیت کے مطابق یہ درس حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
الحمد للہ ملت ایران نے امام حسین علیہ السلام سے یہ سبق سیکھا ہے۔ تیس سال سے زیادہ عرصے سے ملت ایران اسی راستے پر گامزن ہے، یقینا کچھ استثنائات اور شاذ و نادر واقعات بھی ہوئے ہیں لیکن ملت یران کی عمومی حرکت و پیش قدمی حضرت امام حسین علیہ السلام کی سمت میں ہو رہی ہے۔ حضرت کا انجام شہادت کی شکل میں سامنے آیا لیکن آپ نے صرف شہید ہو جانے کا سبق نہیں دیا۔ آپ کی تحریک بڑی بابرکت تحریک ہے۔ حضرت امام حسین جیسی تحریک کے نتیجے میں کبھی ممکن ہے کہ شہادت نصیب ہو لیکن دین خدا کو قائم کرنے کا جذبہ اور دین خدا کے قیام کے نتیجے میں حاصل ہونے والی بے پناہ برکتیں، ان سب کی اپنی جگہ الگ افادیت ہے۔ اسی جذبے کے ساتھ ایرانی عوام میدان عمل میں اترے اور ایران میں انہوں نے ملکی اور بین الاقوامی ظلم کی عمارت کو مسمار کر دیا، اس کی جگہ اسلامی عمارت کی تعمیر عمل میں آئی۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو بھی حسین ابن علی کے راستے پر چلے گا وہ ظاہری اعتبار سے اور دنیاوی اعتبار سے ناکامی کا منہ دیکھے گا۔ جی نہیں، ایسا نہیں ہے۔ دنیا کے سامنے درس کے طور پر یہ حقیقت پیش کر دی گئی ہے کہ اگر آپ کو دنیا چاہئے، اگر دنیوی وقار آپ کو مطلوب ہے تو وہ بھی اسی راستے پر چلنے سے حاصل ہوگا، آپ کو اسی راستے پر آگے بڑھنا ہوگا۔ ملت ایران اس کا کامیاب تجربہ کر چکی ہے۔ اس کی قدر و منزلت سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایرانی عوام حسینی اور عاشورائی جذبے کے ساتھ میدان عمل میں اترے اور ایک عظیم انقلاب کو جسے گزشتہ صدیوں کا بے نظیر یا کم نظیر انقلاب کہا جانا چاہئے، کامیابی سے ہمکنار کر دیا۔ ملت ایران نے یہ روش اختیار کی اور لگاتار ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ البتہ دشمن اپنے پرچار میں اور اپنے تشہیراتی پروپیگنڈوں میں اس حقیقت کا اظہار اور اعتراف نہیں کرنا چاہتے لیکن بہرحال دنیا اندھی تو نہیں ہے، لوگ دیکھ رہے ہیں، طاغوتی شاہی دور کا ایران کہاں اور اسلامی جمہوریہ ایران کہاں؟! انیس سو اناسی کا ایران کہاں اور سنہ دو ہزآر تیرہ کا ایران کہاں؟! علم و دانش کے میدان میں، سیاست کے میدان میں، سلامتی اور سیکورٹی کے میدان میں، علاقائی تغیرات پراثرو نفوذ کے میدان میں، عالمی واقعات پر موثر کردار کے اعتبار سے، عزت و سعادت کا سفر طے کرنے کے عزم محکم کے اعتبار سے ہم کل کہاں تھے اور آج کہاں پہنچ چکے ہیں؟! آج ملت ایران برق رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ انشاء اللہ یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا، اس کا میں یقین دلاتا ہوں، قرائن کی بنیاد پر یہ مسلمہ حقیقت ہے۔
اور اب ماہ شعبان کے سلسلے میں چند جملے۔ تین شعبان کی جو خصوصیات ہیں ان سے قطع نظر، ہم اس وقت ماہ شعبان میں وارد ہو چکے ہیں جو عبادت، توسل اور مناجات کا مہینہ ہے۔ وَ اسمَع دُعائى اِذا دَعَوتُك، وَ اسمَع نِدائى اِذا نادَيتُك؛(۲) یہ پروردگار سے راز و نیاز کرنے کا مہینہ ہے، دلوں کو عظمت و نورانیت کے سرچشمے سے جوڑ دینے کا مہینہ ہے، اس کی قدر کرنا چاہئے۔ مناجات شعبانیہ ہمیں ملنے والا ایک عظیم تحفہ ہے۔ ہمارے پاس متعدد ماثورہ دعائیں ہیں جو بڑی رفعت و بلندی والے مضامین کی حامل ہیں تاہم بعض دعائیں خاص طور پر بہت نمایاں اور ممتاز ہیں۔ میں نے امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ سے سوال کیا کہ ائمہ علیہم السلام سے منقول دعاؤں میں آپ کس دعا سے خاص عقیدت رکھتے ہیں؟ امام خمینی نے جواب دیا کہ دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ، ان دونوں دعاؤں سے۔ امام خمینی تو بس ذات الہی میں غرق تھے۔ اللہ سے راز و نیاز کرتے، توسل کرتے، بارگاہ خداوندی میں ہمیشہ خاضع و خاشع رہتے، خالق ہستی سے آپ کو بڑا عمیق لگاؤ تھا۔ اس کے بعد آپ کہتے ہیں کہ دو دعاؤں دعائے کمیل اور مناجات شعبانیہ سے آپ کو خاص رغبت اور ربط ہے۔ آپ ان دونوں دعاؤں کے بارے میں غور کیجئے تو دیکھیں گے کہ ان میں بڑی شباہتیں اور مماثلتیں ہیں۔ یہ خضوع و خشوع میں ڈوبے جذبات کے ساتھ کی جانے والی دعا ہے؛ كَاَنّى بِنَفسى واقِفَةٌ بَينَ يَدَيك، وَ قَد اَظَلها حُسنُ تَوَكُّلى عَلَيك، فَقُلتَ ما اَنتَ اَهلُه، وَ تَغَمَّدتَنى بِعَفوِك؛(۳)، اللہ کی مغفرت و بخشش کی امید و آس، اللہ کی رحمت کی امید، عنایات خداوندی کی امید، اللہ سے بلند ہمتی کی التجا، اِلهى هَب لى كَمالَ الانقِطاعِ اِلَيك، و اَنِر اَبصارَ قُلوبِنا بِضياءِ نَظَرِها اِلَيك.(۴) ماہ شعبان ان عظمتوں کا حامل مہینہ ہے۔ پاکیزہ دلوں کو، ہمارے نوجوانوں کے قلوب کو، ان نورانی اذہان کو اس سنہری موقعے سے کما حقہ فیضیاب ہونا چاہئے، اللہ سے اپنا قلبی رشتہ مضبوط کرنا چاہئے۔
ملت ایران کے سامنے جو عظمت و وقار کا راستہ کھلا ہے، اس پر گامزن رہنے کے سلسلے میں اللہ پر توکل اور اس کی جانب خاص توجہ کا بڑا کلیدی اور بنیادی رول ہے۔ کچھ لوگ غفلت میں مبتلا ہیں اور سارے حساب کتاب مادی وسائل کے دائرے میں رہ کر کرتے ہیں۔ ان کے اندازوں اور تخمینوں میں روحانیت و نصرت خداوندی، توکل علی اللہ اور وعدہ خداوندی کے سلسلے میں حسن ظن جیسے روحانی امور کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ اس طرح کے اندازے اور تخمینے تو دنیا کی استکباری طاقتیں لگاتی ہیں اور ان کے اندازے آپ سے کہیں زیادہ بہتر اور درست ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ روز بروز شکست اور پسپائی سے دوچار کیوں ہو رہی ہیں؟ ان مشکلات میں گرفتار کیوں ہو رہی ہیں؟ وہ مظالم ڈھانے پر کیوں مجبور ہیں؟ وہ افغانستان، عراق اور پاکستان پر لشکر کشی کرنے پر کیوں مجبور ہیں؟ وہ بے گناہ انسانوں کو کیوں قتل کر رہی ہیں؟ وَ اِنَّما يَحتاجُ اِلى الظُّلمِ ضَعيف؛(۵) جو انسان کمزور ہوتا ہے اسے دوسروں پر ظلم ڈھانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہ استکباری طاقتیں کمزور ہیں، اسی لئے ظلم کر رہی ہیں۔ ان کے ہاتھ ہتھیاروں سے آشنا ہیں لہذا وہ ہتھیاروں کا اندھادھند استعمال کر رہی ہیں۔ ظالمانہ طور پر، جارحانہ طور پر اسلحہ استعمال کر رہی ہیں۔ یہ ایک طرح کی پسماندگی ہے، روحانی معیاروں کے اعتبار سے بھی اور مادی اندازوں کے اعتبار سے بھی۔ مغربی تمدن روز بروز نئی مشکلات سے دوچار ہو رہا ہے اور یہ مشکلات ایسی ہیں کہ مغرب کو جڑ سے اکھاڑ دیں گی۔ یہ سب خالق ہستی سے رابطہ منقطع کر لینے کا نتیجہ ہے۔ یہ نور و عظمت کے سرچشمے سے رشتہ توڑ لینے کا خمیاز ہے۔ فَتَصِلَ اِلى‌ مَعدِنِ العَظَمَة، و تَصيرَ اَرواحُنا مُعَلقَةً بِعِزِّ قُدسِك؛(۶) یہ چیزیں ضروری ہیں۔ ملت ایران کے لئے ان کی خاص ضرورت ہے۔
میں یہیں سے انتخابات کے بارے میں اپنی گفتگو شروع کرتا ہوں! ہم نے سیاسی جہاد کی بات کہی ہے۔ یہ سیاسی جہاد آج سے شروع ہو گیا ہے، ویسے تو جمعے کا دن اس جہاد کے اوج کا دن ہے تاہم ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سیاسی جہاد ملک میں ابھی سے شروع ہو گیا ہے۔ اس سال کے الیکشن کا انداز مختلف ہے۔ ساری دنیا کی نگاہیں ہمارے الیکشن پر لگی ہوئی ہیں۔ ملت ایران کے دشمنوں کی نگاہیں بھی اس الیکشن پر لگی ہوئی ہیں، اس قوم کے خیر خواہ بھی الیکشن کو دیکھ رہے ہیں۔ سب کو یہ انتظار ہے کہ ملت ایران کس انداز سے یہ کارنامہ انجام دیتی ہے۔ دشمنوں نے بڑا سرمایہ صرف کیا ہے، بڑ محنت کی ہے، گوناگوں پالیسیاں وضع کی ہیں، بقول خویش تھنک ٹینک تیار کئے ہیں، کہ کسی صورت سے ایرانی عوام کو اسلامی نظام سے روگرداں کر دیں۔ لیکن ایرانی قوم پولنگ مراکز پر پہنچ کر، پولنگ میں شرکت کرکے اسلامی نظام سے اپنے محکم رابطے اور رشتے کا ثبوت دیگی۔ حالات لوگوں کی نظروں کے سامنے ہیں۔ آج عوام کے اندر جو جوش و جذبہ ہے اور بحمد اللہ یہ بڑا مبارک جوش و جذبہ ہے، یہ اللہ کے کرم سے، اللہ پر توکل کے نتیجے میں اور عوام کی بلند ہمتی کے باعث حقیقی جہاد میں تبدیل ہو جائے گا۔ یہ ملت ایران کی طرف سے بھی اور اسلامی نظام کی جانب سے بھی ایک طرح کی قدرت نمائی ہے دشمنوں کے سامنے۔ دشمنوں نے بڑی محنت کی کہ عوام کو نظام سے دور کر دیں، لا تعلق بنا دیں، الیکشن کے سلسلے میں بدگمانی میں مبتلا کر دیں، انتخابات کرانے والے ادارے کے سلسلے میں شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیں، لیکن انہیں ناکامی ہوئی اور آئندہ بھی وہ ناکام ہی رہیں گے۔ یہ بہت اہم اور بڑا تجربہ ہے ملت ایران کے پاس۔ الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر حقیر کی اتنی تاکید کی وجہ یہ ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ عوام کی متحدہ، پرجوش، پرامید اور مقتدرانہ شرکت دشمن کو مایوس کر دیگی اور جب دشمن پر مایوسی چھا جاتی ہے تو اس کے حربے کند ہو جاتے ہیں۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ دشمن مختلف میدانوں میں، مختلف زاویوں سے، کبھی کبھی کوئی جارحیت اور زیادتی کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ عناصر اسے گرین سگنل دیتے ہیں، اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کچھ باتیں دشمن کے دل میں امید کی کرن پیدا کر دیتی ہیں اور جب دشمن کو امید ہو جاتی ہے تو وہ اپنا دباؤ بڑھا دیتا ہے۔ لیکن جب دشمن پر مایوسی چھا جائیگی تو فطری طور پر وہ یہی سوچے گا کہ دباؤ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، وہ کسی اور حربے کی تلاش میں لگ جائے گا۔ ملک کا تحفظ عوام کی شرکت پر منحصر ہے، دشمنوں کے دباؤ میں کمی کا انحصار عوام کی بھرپور شرکت پر ہے، اسلامی جمہوری نطام سے عوام کی متحدہ وابستگی پر ہے، عوام اور حکام کے درمیان باہمی اعتماد پر ہے۔ یہ اعتماد روز بروز بڑھنا چاہئے۔
بحمد اللہ انتخابات کے مقدمات تاحال بڑی اچھی روش کے ساتھ فراہم ہوئے ہیں۔ ایک بڑا نمایاں اور مثبت پہلو یہ نظر آیا، ہمیں جو خبریں موصول ہوئیں اور جو اطلاعات ملیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ اس الیکشن میں عوام کی خاص تاکید قانون پر عمل آوری کے سلسلے میں ہے۔ جو بھی گفتگو کرتا ہے، انٹرویو لیتا ہے، لوگ یہی کہتے ہیں کہ قانون پر عمل ہونا چاہئے، یہ بڑا اہم اور نمایاں جذبہ ہے، قانون کے پابند رہنے کا جذبہ۔ بے قانونی سے عوام کو نقصان پہنچا ہے، سنہ دو ہزار نو کے صدارتی الیکشن کے موقعے پر قانون پر عمل نہ کئے جانے سے اور قانون کو پامال کئے جانے سے ملک کو شدید نقصان پہچا، اسے عوام نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے۔ آج ایک نمایاں چیز یہ ہے کہ عوام کی نظر اور ان کا رجحان قانون کی پاسداری پر مرکوز ہے۔ الحمد للہ اب تک حکام نے بھی اور محترم امیدواروں نے بھی قوانین کی پابندی کی ہے، ضوابط کو ملحوظ رکھا ہے، انشاء اللہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا، یہ بڑا اہم نکتہ ہے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ قومی میڈیا، آئی آر آئی بی نے جو جدت عملی پیش کی، جس طرح الگ الگ رجحان کے امیدواروں کو، آٹھ طرح کے سیاسی نقطہ نگاہ رکھنے والے آٹھ امیدواروں کو عوام سے روبرو کرایا، انہوں نے اپنی باتیں بیان کیں، یہ میری نظر میں بہت مثبت اور مفید جدت عملی ہے۔ کچھ لوگ برسوں سے یہ رٹ لگائے ہوئے تھے کہ اس ملک میں آزادی اظہار خیال نہیں ہے، وہ شرمسار ہوئے ہیں۔ 'آئی آر آئی بی' نے امیدواروں کے نظریات اور نقطہ نگاہ کو براہ راست عوام کے سامنے پیش کیا، یہ بہت اہم اقدام تھا۔ کچھ لوگ برسوں سے یہ نعرے بازی کر رہے ہیں کہ جناب بولنے کا موقعہ ہی نہیں دیا جاتا، پلیٹ فارم مہیا نہیں کرایا جاتا! لیجئے یہ ہے پلیٹ فارم اور یہ ہیں ساری باتیں۔ کسی خاص سیاسی رجحان کے مخصوص فرد کے لئے نہیں، آٹھ الگ الگ نظریات کے حامل امیدواروں کے لئے۔ اس دن آٹھ امیدواروں نے ملکی مسائل کے سلسلے میں الگ الگ انداز سے گفتگو کی۔ مختلف تجزئے پیش کئے اور الگ الگ نظریات بیان کئے۔ لوگوں کی نظر قابل احترام ہے۔ البتہ بعض مسائل کے سلسلے میں محترم امیدواروں نے کچھ باتیں بیان کی ہیں جن کے بارے میں مجھے کچھ کہنا ہے لیکن ابھی اس کا مناسب وقت نہیں ہے۔ اگر زندگی رہی تو الیکشن کے بعد انشاء اللہ ملت ایران کی خدمت میں کچھ حقائق بیان کروں گا ان باتوں کے سلسلے میں جو محترم امیدواروں نے کہی ہیں، اس سلسلے میں کچھ نکات ہیں جنہیں بیان کرنا مناسب ہوگا۔ لیکن یہ صورت حال بڑی اچھی اور خوش کن تھی۔ اسلامی جمہوریہ کے دشمن، اسلامی جمہوریہ کے خلاف ہمیشہ الزام تراشی کرنے والے عناصر، شرمسار ہو گئے۔ انہوں نے بھی دیکھا کہ کتنی آزادی کے ساتھ امیدوار اپنی اپنی باتیں بیان کرتے ہیں، کسی پر حملہ کرتے ہیں، کسی کا دفاع کرتے ہیں، کسی پالیسی پر تنقید کرتے ہیں اور کسی سیاسی فکر کی حمایت کرتے ہیں۔ ان مناظروں میں ملک کے سارے سیاسی نقطہ نگاہ کے لوگوں کی شرکت تھی، یہ اس سال کے الیکشن کی بڑی خاص بات بھی ہے۔ عوام کے اندر پوری طرح انتخاباتی جوش و جذبہ ہے اور ان پر کسی طرح کی کوئی محدودیت مسلط نہیں کی گئی ہے۔ سنہ دو ہزار نو میں بھی انتخابی جوش و ہیجان تھا لیکن اس وقت نازیبا لفاظی بھی تھی۔ شہر تہران میں لوگ دیکھ رہے تھے کہ کچھ لوگ کسی گروہ کے خلاف تو کچھ دوسرے لوگ کسی دوسرے گروہ کے خلاف نعرے بازی کرتے تھے، ایک دوسرے پر جھپٹ پڑنے کی کوشش کرتے تھے، انہی میں بعض افراد ایسے بھی تھے جو بدکلامی کرتے تھے، نازیبا باتیں کہتے تھے۔ لیکن اس دفعہ کے انتخابات میں یہ سب نہیں ہے۔ جوش و خروش ہے، احساسات و جذبات ہیں لیکن کہیں کوئی بے ادبی اور بے احترامی نہیں ہے۔ یہ بڑی اہم بات ہے۔ چار سال میں ہم نے اتنی پیشرفت کر لی ہے، اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور اسی طرح ان برسوں میں ملک کو گوناگوں شعبوں میں حاصل ہونے والی ترقیوں پر اللہ کا شکر بجا لانا چاہئے۔
میری سب سے پہلی اور سب سے اہم سفارش ہے پولنگ میں عوام کی بھرپور شرکت۔ یہ چیز سب سے زیادہ اہم ہے وطن عزیز کے لئے۔ ممکن ہے کہ بعض افراد کسی وجہ سے اسلامی جمہوری نظام کی حمایت نہ کرنا چاہیں، لیکن بہرحال انہیں ایران سے تو لگاؤ ہے، لہذا انہیں چاہئے کہ پولنگ مراکز تک ضرور جائیں۔ سب پولنگ میں شرکت کریں اور اپنی موجودگی درج کرائیں۔ جو شخص بھی منتخب ہوتا ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ اس سلسلے میں قضائے الہی کیا ہے، بہرحال منتخب امیدوار جتنے زیادہ ووٹ اور واضح اکثریت سے منتخب ہوگا اتنے ہی بہتر انداز میں عوامی مینڈیٹ کا دفاع کر سکے گا، ملک کے مخالفین کے سامنے اتنے ہی اعتماد کے ساتھ کھڑا ہو سکے گا۔ ہمارے وطن عزیز کے کچھ دشمن ہیں، کچھ مخالفین ہیں۔ عالمی میدان میں ہمارا دشمن ایسا نہیں ہے جو تکلفاتی باتیں سن کر ہمارے سامنے سے ہٹ جائے۔ عالمی سیاسی میدان ایسا نہیں ہے کہ ہم رواداری اور مروت کی باتیں کر دیں اور دشمن شرمندہ ہوکر پیچھے ہٹ جائے۔ جی نہیں، آپ جتنا زیادہ نرمی اور کمزوری دکھائیں گے وہ اتنا ہی آپ کے سر پر سوار ہو جانے کی کوشش کرے گا، آپ جتنی پسپائی اختیار کریں گے اس کی جرئت اتنی ہی بڑھتی جائیگی۔ اس کا ہم تجربہ کر چکے ہیں۔ بعض جگہوں پر ہم نے نرمی دکھائی تو دشمن کی گستاخی اور بڑھ گئی۔ دشمن نے کوئی بات کہی اور اہم نے کچھ مصلحتوں کا خیال کرکے اس کی بات کو قبول کر لیا تو اس نے اپنی بات کو یکسر نظر انداز کرکے مزید گستاخی کی۔ دشمن کی روش یہ ہے۔ عالمی سطح پر دشمنوں کے سلسلے میں مضبوط قوت ارادی کے ساتھ، پروقار انداز میں، شجاع ملت ایران پر بھرپور اعتماد کے ساتھ، اللہ پر توکل کرتے ہوئے اور اس کے وعدوں پر مکمل یقین کے ساتھ اپنا راستہ بنانا ہے۔ درست طر‌ز فکر کے ساتھ، عاقلانہ روش کے ساتھ اور مدبرانہ انداز میں آگے بڑھنا ہے۔ ہم نے اس انداز سے عمل کیا تو اللہ ہمارے کاموں میں برکت عطا کرے گا اور اس کی توفیقات ہمارے شامل حال ہوں گی۔
میں اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ اس کے فضل و کرم سے ہمارے سامنے جو امتحان ہے اس میں اللہ کی مدد ہو اور ملت ایران اس الیکشن میں کامیاب و کامران ہو جائے۔ جمعے کے دن ہمارے سامنے انتخابات کا امتحان ہے، پولنگ مراکز پر عوام کی بھرپور شرکت کا امتحان ہے۔

والسّلام عليكم و رحمة الله و بركاته

۱) تحف‌العقول، ص ۲۳۷
۲) مفاتيح الجنان، مناجات شعبانيّه‌
۳) مفاتيح الجنان، مناجات شعبانيّه
۴) مفاتيح الجنان، مناجات شعبانيّه
۵) صحيفه‌ى سجّاديّه، دعاى ۴۸
۶) صحيفه‌ى سجّاديّه، دعاى ۴۸