سات تیر سنہ 1360 ہجری شمسی مطابق 28 جون سنہ 1981 عیسوی کے اسلامی انقلاب کی تاریخ کے اندوہناک واقعے میں عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ بہشتی اور انقلاب کے 72 جاں نثاروں کی شہادت کی برسی کے موقعے پر عدلیہ کے عہدیداروں اور کارکنوں سے ہونے والی اس سالانہ ملاقات میں قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ چودہ جون کے انتخابات میں دانشمند اور صاحب بصیرت ایرانی عوام کے عظیم سیاسی کارنامے اور عدلیہ کے قابل قدر تعاون کی تعریف کی اور نو منتخب صدر کے ساتھ بھرپور تعاون کئے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ دشمنوں کے مقاصد اور منصوبوں کی مکمل ناکامی در حقیقت اسلامی نظام، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتخابات کی نگرانی کرنے والے عہدیداروں پر عوام کے بھرپور اعتماد کا انعکاس، تعمیر و پیشرفت کی اہم بنیاد کا درجہ رکھنے والی مکمل سیکورٹی، نو منتخب صدر کے سلسلے میں مد مقابل امیدواروں کا شریفانہ برتاؤ اور قانون کے سامنے ان کا سر جھکانا اور قوم کے حقوق اور مفادات کی حفاظت و دفاع کی اسلامی جمہوری نظام کی طاقت و توانائی، یہ سب انتخابات کے اہم مثبت نکات ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ آملی لاری جانی کی اہم تقریر کی تعریف کی اور فرمایا کہ عدلیہ کے عہدیداروں اور کارکنوں کی گراں قدر خدمات اور کوششوں کی حقیقت میں قدردانی کرنا چاہئے۔ قائد انقلاب اسلامی نے صحتمندی اور بھرپور افادیت کو عدلیہ کے دائمی اسٹریٹیجک اہداف میں شمار کیا اور فرمایا کہ تمام پروگراموں اور منصوبوں میں ان دونوں اہداف کو پوری طرح مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ عدلیہ مکمل طور پر ایک صحتمند اور کارساز ادارے میں تبدیل ہو جائے۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے چودہ جون کے انتخابات میں عظیم اور وقت شناس ملت ایران کی بھرپور شرکت کی قدردانی کی اور فرمایا کہ اس الیکشن کے حقائق اور نمایاں نکات ہمیشہ مد نظر رکھنے اور موضوع بحث بنانے کی ضرورت ہے۔ آپ نے ملت ایران کے دشمنوں کے محاذ کی جانب سے ایک سال سے جاری سازش اور پیچیدہ و کثیر الجہات منصوبے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں نے یہ کوشش کی کہ انتخابات کا انعقاد رک جائے اور یا پھر عوام سرد مہری اور لا تعلقی کا مظاہرہ کریں۔ آپ نے فرمایا کہ دشمنوں نے انتخابات کے بعد کی صورت حال کے لئے بھی منصوبہ تیار کر لیا تھا تا کہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر سکیں لیکن فضل پروردگار سے عوام نے پولنگ کے دن اپنی مہارت و عظمت کا مظاہرہ کیا اور جو کچھ رونما ہوا وہ دشمنوں کی خواہش کے بالکل برخلاف تھا۔
قائد انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں چودہ جون کے انتخابات کے کئی نمایاں پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور انتخابات کے دیگر امیدواروں کے طرز عمل اور قانون کی مکمل پاسداری کو بہت اہم قرار دیا۔ آپ نے فرمایا کہ دیگر امیدواروں نے منتخب صدر کو مبارکباد پیش کی اور ان کے انتخاب پر خوشی کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں عوام کو بڑی خوشی ملی جو باعث تشکر ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے سنہ 2009 کے صدارتی الیکشن کے بعد پیش آنے والے تلخ واقعات اور اس موقعے پر قانون کی پابندی پر اپنی مکرر تاکید کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا کہ اس دفعہ کے الیکشن میں بھی بہانہ تراشی کی جا سکتی تھی اور تنازعہ کھڑا کرکے عوام کی بھرپور شراکت کی عظمت و شکوہ کو نظر انداز اور ماحول کو مکدر کیا جا سکتا تھا لیکن دیگر امیدواروں کے شریفانہ اور قانون پسندانہ برتاؤ سے عوام کو خاص طمانیت اور شادمانی میسر ہوئی، قانون کی پاسداری کا یہ انداز سب کے لئے ایک سبق ہونا چاہئے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌الله‌الرّحمن‌الرّحيم‌
خوش آمدید کہتا ہوں اور مبارک باد پیش کرتا ہوں آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دعا ہے کہ اس باشرف مہینے (شعبان المعظم) اور اس عظیم ہستی (حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ) کے یوم ولادت با سعادت کی برکت سے آپ سب کو اور تمام ملت ایران کو اپنے فیض و رحمت اور ہدایت کے سائے میں جگہ دے۔
سات تیر (اٹھائیس جون) کی تاریخ بڑی اہم اور یادگار تاریخ ہے۔ حالانکہ ان ایام میں عدلیہ کی قدردانی کی جاتی ہے اور اس شعبے سے تعلق رکھنے والے عزیزوں کی زحمتوں اور کوششوں کو سراہا اور عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جو بالکل بجا اور مناسب عمل ہے، تاہم اٹھائیس جون کا واقعہ ایسا ہے جس کا تعلق اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نطام کی سرنوشت اور مستقبل سے ہے۔ یہ واقعہ اسلامی جمہوریہ کے لئے انتہائی فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ اس سانحے میں شہید ہونے والی اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی انقلاب کی انتہائی نمایاں اور ممتاز ہستیاں تھیں جنہیں کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر آیت اللہ بہشتی مرحوم رضوان اللہ تعالی علیہ اور دیگر شہدا کی روحانی اور نمایاں شخصیت ناقابل فراموش ہے۔ لیکن اس سب کے ساتھ ہی اس سانحے سے ملک کے اندر منافقین کا چہرہ سامنے آ گیا اور منافقین کی پشت پر استکباری طاقتوں کا ہاتھ بھی دکھائی پڑ گیا۔ نو تشکیل شدہ نظام کے لئے دشمنوں کے چہروں کا بے نقاب ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ وہ منافقین جو خود کو خدا و رسول اور اسلام و نہج البلاغہ کا پیروکار ظاہر کرتے تھے۔ اس سانحے کو انجام دیکر انہوں نے اپنے آپ کو رسوا کر لیا اور یہ ثابت کر دیا کہ انہیں اسلامی نظام کے ستون کا درجہ رکھنے والوں، نمایاں اور ممتاز شخصیتوں، بزرگ علمائے کرام اور صدق دلی سے خدمت کرنے والے افراد سے کتنی دشمنی اور کتنا کینہ ہے؟! اگر سات تیر مطابق اٹھائیس جون کو یہ واقعہ رونما نہ ہوا ہوتا اور ملت ایران کو ان عظیم ہستیوں سے محروم نہ ہونا پڑتا تو یہ طے ہے کہ ملت ایران منافقین کے چہرے کو پہچان نہ پاتی اور یہ منافقین معاشرے کے اندر اپنا نفوذ قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے «و لاوضعوا خلالكم»(۱) - وہ خود کو آپ کے درمیان شائستہ افراد کے طور پر پیش کرتے۔ یہ سانحہ منافقین کی پست حقیقت کو ظاہر کرنے والا آئینہ ثابت ہوا۔ اسلام کے بنیادی اور اصلی دشمن یعنی استکباری طاقتیں اور صیہونی، ان کی حمایت کر رہے تھے، جس کے نتیجے میں ان کے چہرے بھی سامنے آ گئے۔ یہ بات بالکل بجا ہے کہ اس سانحے نے ہمارا بہت بڑا سرمایہ ہم سے چھین لیا لیکن ان شہادتوں سے، اس خون ناحق سے ملت ایران کو بہت بڑی کامیابی بھی ملی، جس طرح دیگر شہادتوں کا ثمرہ حاصل ہوتا ہے، شہادت کا مزاج ہی یہی ہے۔ راہ خدا میں قتل کر دئے جانے، راہ خدا میں مظلوموں کا خون بہائے جانے کا یہ فطری اور طبعی اثر ہوتا ہے اور ملت اسلامیہ کو، مسلم اقوام کو اور تاریخ اسلام کو اس کے ثمرات ملتے ہیں۔ ہم ان شہیدوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ ہم اس سانحے کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ ان جاں نثاروں کی اللہ تعالی اور ملت ایران کے نزدیک قدر و قیمت ہمیشہ محفوظ رہے گی جنہوں نے راہ خدا میں یہ اجتماع کیا اور ظالمانہ و وحشیانہ حملے کا نشانہ بنے۔
عدلیہ کے سلسلے میں چند جملے عرض کرنا ہے۔ سب سے پہلے تو میں عدلیہ کے محترم سربراہ کا شکریہ ادا کروں گا جن کی آج کی تقریر بہت مفید کافی و شافی اور حقائق کو پیش کرنے والی تھی۔ اس تقریر کے پیچھے در حقیقت خدمات و زحمات کا ایک طویل سلسلہ ہے، جس پر محترم سربراہ کا، عدلیہ کے دیگر اعلی رتبہ حکام کا، جج صاحبان اور کارکنان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ جو کچھ انجام پایا ہے وہ بہت اہم اور قیمتی عمل ہے اور یہ عدلیہ کو زیادہ کارآمد اور نتیجہ بخش بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عدلیہ کے دائرے میں دو ہدف ہمیشہ مد نظر رہنے چاہئے۔ تمام کام اور اقدامات انہی دونوں اہداف کے تناظر میں انجام دئے جائیں۔ اگر یہ دونوں ہدف پورے ہو گئے تو اس کے ثمرات پورے اسلامی معاشرے کو شیریں کام کر دیں گے۔ ایک ہدف ہے عدلیہ کا صحتمند اور سالم ہونا اور دوسرا ہدف ہے اس کا بھرپور طریقے سے کارآمد اور نتیجہ بخش ہونا۔ ساری کوشش اس بات کی ہونی چاہئے کہ عدلیہ پوری طرح کارآمد اور صحتمند ادارے میں تبدیل ہو جائے۔ اگر یہ اہداف پورے ہو گئے تو اس کے ثمرات عوام کو ملیں گے۔ یہ ثمرات کیا ہیں؟ عدلیہ کے وجود کی بنا پر اطمینان اور تحفظ کا احساس۔ یہ چیز ملک اور معاشرے کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے۔ اسلام میں، اسلامی تعلیمات میں، قرآن کریم میں اور روایات میں قضاوت اور عدل و انصاف کے سلسلے میں اتنی زیادہ تاکید کی وجہ یہی ہے کہ معاشرے میں طمانیت کا احساس پیدا ہو۔ ہر مظلوم کو یہ یقین ہو کہ خود کو عدلیہ کے پرامن ساحل تک پہنچا سکتا ہے اور ظلم کا سد باب کروا سکتا ہے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ میں نے بارہا یہ بات عرض کی ہے اور عدلیہ کے محترم سربراہ نے بھی ابھی اشارہ کیا کہ نتیجوں پر ہمیشہ باریک بینی سے نظر رکھی جائے اور امور کی پیشرفت کے عمل کا پورا خیال رکھا جائے۔ جن کاموں اور امور کا ذکر کیا گیا یہ سب ضروری اور لازمی ہیں۔ نتیجہ تبھی ملےگا جب یہ سارے کام پوری توجہ کے ساتھ انجام دئے جائیں، ایک ایک قدم پوری توجہ اور باریک بینی کے ساتھ اٹھایا جائے، تاکہ ہم اپنی اس مطلوبہ منزل تک پہنچ جائیں۔ اگر یہ کام انجام پا گیا تو عدلیہ اس مقام پر پہنچ جائیگی جو اسلام اور قرآن نے اس ادارے کے لئے معین کیا ہے۔
بیشک بعض جگہوں پر خلا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان تمام اقدامات اور خدمات کے باوجود اتنی مربوط مساعی کے باوجود عدلیہ کے عہدیداروں کی جو مطلوبہ منزل ہے اور قرآن اور اسلامی قوانین کا جو مقصود ہے اس میں اور موجودہ صورت حال میں بہت فاصلہ ہے۔ کہنا آسان ہے لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو واقعی یہ کام بہت دشوار ہے۔ اس راستے کو طے کرنا اور ہر ہر قدم پر ان شرائط اور خصوصیات کو مد نظر رکھنا واقعی بڑا دشوار کام ہے، لہذا ہمیں اللہ سے مدد اور نصرت کی دعا کرنا چاہئے۔ یہ مسافت طے ہونی چاہئے، البتہ ہم یہ توقع نہیں کرتے کہ دو سال میں یا پانچ سال میں یہ فاصلہ طے کر لیا جائےگا لیکن ہماری یہ تاکید ہے کہ جو خلا ہے اسے پر کرنے کے لئے کوشش اور حرکت جاری رہنا چاہئے، ہماری درخواست یہ ہے۔ مختلف سطح کے عہدیدار خود کو اس بات کا پابند بنا لیں کہ عدلیہ کو ان دونوں مطلوبہ خصوصیات کی تکمیل یعنی عدلیہ کو مکمل سالم و صحتمند اور کارآمد و نتیجہ بخش بنانے کی لگاتار کوشش کریں گے۔ جن جگہوں پر خلا ہے عدلیہ کے عہدیداروں اور ذمہ داروں کو ان کا علم ہے، جو رپورٹیں پیش کی جاتی ہیں ان سے بھی واضح ہے کہ انہیں خامیوں کا پورا علم ہے اور عدلیہ کے عہدیداروں سے جو گفتگو ہوتی ہے اس سے بھی یہی اندازہ ہوتا ہے کہ عہدیداروں کو کمیوں اور کوتاہیوں کی مکمل شناخت ہے۔ بعض اوقات کچھ نکات ہمارے ذہن میں ہوتے ہیں تو وہ ہم عدلیہ کے عہدیداروں کے سامنے بیان کر دیتے ہیں، انتباہ بھی دے دیتے ہیں۔ بہرحال خلا کی مکمل شناخت ہے اور اسے پر کرنے پر کمربستہ ہو جانا چاہئے، مایوس نہیں ہونا چاہئے، کاموں کو اسی طرح آگے بڑھاتے رہنا چاہئے اور ادارے کو روز بروز زیادہ استحکام اور فروغ ملنا چاہئے۔
البتہ یہاں ایک نکتہ یہ ہے کہ امور کی پیشرفت اور ہدف تک رسائی منصوبوں پر عملدرآمد کرکے ہی ممکن ہے، منصوبہ بندی کے ذریعے ہی اس ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ خوشی کا مقام ہے کہ تیسرا جامع منصوبہ منظور ہوکر ابلاغ کے مرحلے سے گزر چکا ہے، اس منصوبے کی سمت میں پیش قدمی کے تعلق سے ہرگز کوئی کوتاہی نہ برتی جائے، انشاء اللہ اگر اس پر عملدرآمد ہو گیا تو عدلیہ کی حالت روز بروز زیادہ بہتر ہوتی جائیگی۔
میں اس موقعے سے استفادہ کرتے ہوئے دانشمند، بابصیرت اور عظیم الشان ملت ایران کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا اس عظیم کارنامے یعنی انتخابات پر، جو اس قوم نے اس اہم ترین موڑ پر انجام دیا۔ ہم اس انتہائی اہم اور کلیدی مسئلے کو تجزیہ و تحلیل اور ذکر و بحث کے دائرے سے خارج نہیں کر سکتے، یہ ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے بارے میں تقریبا ایک سال پہلے سے اسلامی جمہوریہ کے مخالفین اور اسلامی نظام کے دشمن منصوبہ بندی کر رہے تھے، سازشیں تیار کر رہے تھے، کافی پیسہ صرف کیا، بڑا دماغ لگایا، شور شرابا مچایا، مختلف کام انجام دئے، دباؤ ڈالا، سختیاں بڑھائیں کہ یہ کام اس طرح انجام پائے کہ ان کی پسند کے مطابق ہو۔ یا تو سرے سے الیکشن ہونے ہی نہ پائے اور اگر ہو تو عوام میں اسے پذیرائی نہ ملے، لوگ اس کے سلسلے میں بے رغبتی اور بے اعتنائي برتیں، یا پھر الیکشن کے بعد ایسے بہانے ہاتھ لگ جائیں جن کی مدد سے وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی راہ نکال سکیں، دشمنوں نے اس سب کے لئے منصوبہ بندی کر لی تھی۔ یہ کوئی خفیہ باتیں نہیں ہیں، یہ راز نہیں ہیں، ان میں بہت سی باتیں آشکارا ہو چکی ہیں۔ اس تقریبا ایک سال کے عرصے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کی سرگرمیوں پر جس کی بھی نظر ہے یا جس نے بھی ان سرگرمیوں کے بارے میں سنا ہو وہ بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ دشمنوں کے منصوبے کیا تھے؟
لیکن جو کچھ رونما ہوا وہ دشمنوں کی خواہش و مرضی کے بالکل برخلاف تھا۔ کیا یہ معمولی بات ہے؟ یہ کوئی معمولی واقعہ ہے کہ سطحی تجزئے کرکے آسانی سے اسے نظر انداز کر دیا جائے؟ جی نہیں، ملت ایران نے ایسی عظمت کا مظاہرہ کیا، ملت ایران نے ایسا عظیم کارنامہ سرانجام دیا اور اس قوم نے عالمی دشمنوں کے بغض و عناد کے مقابلے میں ایسی مہارت و چابک دستی کا مظاہرہ کیا ہے جو کم نظیر ہے، تو پھر اسے کیوں چھپایا جائے، ہم بار بار اس کا تذکرہ کیوں نہ کریں؟!
اس دفعہ کے انتخابات میں کچھ بڑے بنیادی نکات تھے۔ اہم نکات تو خیر بے شمار تھے لیکن میں صرف دو تین کا ہی ذکر کروں گا۔ ایک اہم نکتہ عوام کی کثیر تعداد میں شرکت ہے۔ دشمنوں نے مدتوں سے شکوک و شبہات پیدا کئے انتخابات کی صحت اور شفافیت کے بارے میں انتخابات کا انعقاد کرانے والے عہدیداروں اور نگراں ادارے کے بارے میں بد گمانیاں پھیلائيں۔ بار بار یہی باتیں دہرائيں تا کہ عوام کے اندر سردمہری پیدا ہو، لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جائیں اور ووٹنگ کے لئے نہ نکلیں، لیکن عوام نے اس کے بالکل برخلاف عمل کیا۔ ایسی شاندار شرکت ہوئی کہ دشمن کے تشہیراتی ادارے بھی اس کا انکار کرنے اور اسے نظر انداز کرنے کی جرئت نہ کر سکے۔ الیکشن والے دن شروعاتی لمحات میں ہی دشمن ذرائع ابلاغ نے اعتراف کر لیا کہ عوام کی شرکت بہت زیادہ ہے، عوامی جوش و جذبہ موجزن ہے اور صبح ہی سے لوگ کثرت کے ساتھ پولنگ مراکز پر پہنچ رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی چیز تھی۔ تو سب سے پہلا نکتہ ہے عوام کی کثیر تعداد میں شرکت جو بڑی اہمیت کی حامل ہے۔
عوام کی پرشکوہ شرکت سے یہ پیغام گيا کہ انہیں ملک کی تقدیر اور مستقبل سے گہرا لگاؤ اور گہری رغبت ہے، انہیں اسلامی جمہوری نظام سے گہرا ربط ہے اور انتخابات اسی نظام کا ایک اہم جز اور ستون ہے۔ یہ پیغام گیا کہ عوام کو انتخابات سے متعلق اداروں، خواہ وہ اجرائی ادارے ہوں یا نگراں ادارے ہوں، سب پر مکمل اعتماد ہے اور عوام ملک کو مسلسل آگے لے جانے والے ارتقائی عمل سے گہری امید رکھتے ہیں۔ اعتماد کا مسئلہ بہت اہم ہوتا ہے۔ عوام کی دانشمندی و ہوشیاری اور الیکشن میں شرکت کے تعلق سے عوامی بصیرت کے ساتھ ساتھ عوام کا اعتماد بہت اہم چیز ہے۔ دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ ہم نے عوام کے سامنے عرض کیا کہ جنہیں اسلامی نظام سے گہری الفت ہے وہ ووٹنگ کے لئے ضرور آئیں، حتی وہ افراد بھی جو اسلامی نظام کے سلسلے میں اچھے خیالات نہیں رکھتے تاہم اپنے وطن اور قومی مفادات کو اہمیت دیتے ہیں وہ بھی الیکشن میں ضرور شرکت کریں، یقینا بعض افراد آخر الذکر لوگوں کے زمرے میں ہیں اور انہوں نے بھی ووٹنگ میں حصہ لیا، اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو افراد اسلامی نظام کے حامی نہیں ہیں وہ بھی نظام کی ایمانداری پر یقین رکھتے ہیں، انہیں بھی یقین ہے کہ اسلامی جمہوری نظام ملکی مفادات اور قومی وقار کی حفاظت کرنے پر قادر ہے اور اس کا دفاع کر سکتا ہے۔ مختلف ملکوں کے اندر حکومتوں کی مشکل یہ ہے کہ عالمی یلغار کا سامنا ہونے کی صورت میں، عالمی حریصوں کے حملے کی صورت میں وہ اپنےعوام، اپنے قومی مفادات اور اپنے وقار کا دفاع کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران دشمنوں کے سامنے شیر کی مانند مضبوطی اور ثابت قدمی سے ڈٹا ہوا ہے اور اپنی قوم کا دفاع کر رہا ہے، اس کی تصدیق ان افراد نے بھی کر دی جنہوں نے ووٹنگ میں شرکت کی حالانکہ اسلامی جمہوری نظام پر ان کا عقیدہ نہیں ہے۔ انہوں نے بھی ثابت کر دیا کہ اسلامی جمہوری نظام پر بھروسہ عمومی ہے۔ یہ دوسرا اہم نکتہ ہے۔
اس دفعہ کے الیکشن میں ایک اور اہم نکتہ جو نظر انداز کر دیا گيا، یہ تھا کہ صدارتی الیکشن اور بلدیاتی و دیہی کونسلوں کے الیکشن ایک ساتھ ہوئے۔ مختلف ملکوں میں صدارتی الیکشن میں ٹکراؤ، تصادم، تنازعہ، مار پیٹ اور بسا اوقات قتل و غارت گری کے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ جبکہ دور دراز کے علاقوں میں ہونے والے بلدیاتی کونسلوں کے انتخابات اس اعتبار سے اور بھی حساس ہوتے ہیں۔ کسی چھوٹے گاؤں میں یا چھوٹے شہر میں الیکشن کے موقع پر جماعتی رنجش اور دو گروہوں کے درمیان تصادم اور ٹکراؤ کا امکان بہت زیادہ رہتا ہے۔ ہمارے اس وسیع و عریض ملک میں، اس عظیم سرزمین میں، ملک بھر کے دسیوں ہزار شہروں اور قریوں میں بد امنی کا کوئي چھوٹا سا واقعہ بھی رونما نہیں ہوا، یہ معمولی بات نہیں ہے۔
«نعمتان مجهولتان الصّحة و الامان».
امن و سلامتی ہر قوم کی بنیادی ترین ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ اگر سیکورٹی ہو تو ترقی کا راستہ کھلتا ہے، علم و دانش کے لئے نمو کا راستہ ہموار ہوتا ہے، معیشت کو فروغ ملتا ہے، تعمیراتی کام آگے بڑھتے ہیں۔ اس ملک کی سیکورٹی اور امن و استحکام اس الیکشن میں بہت نمایاں طور پر نظر آیا۔ ہمارے سیکورٹی ادارے تشہیراتی مہم کے ذریعے لاکھ کوشش کرتے، اس حقیقت کو اس خوش اسلوبی کے ساتھ پیش نہ کر پاتے جس خوش اسلوبی سے انتخابات نے اس حقیقت کا مظاہرہ کر دیا۔ الیکشن سے ثابت ہو گیا کہ بحمد اللہ عوام کے تعاون کی وجہ سے، متعلقہ حکام کی ہوشیاری و بیداری کی وجہ سے اس عظیم ملک کے ہر خطے اور ہر شعبے میں امن و استحکام پایا جاتا ہے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔
ایک اور اہم نکتہ جو اس دفعہ کے انتخابات میں بہت نمایاں رہا اور جس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے، وہ یہ تھا کہ الیکشن کے بعد مختلف امیدواروں نے شرافت اور قانون کی پابندی کا مظاہرہ کیا اور بہت مناسب رد عمل دکھایا جو بہت اہم بات ہے۔ حریف امیدواروں نے منتخب صدر سے جاکر ملاقاتیں کیں برادرانہ اور دوستانہ انداز میں مبارک باد پیش کی، اظہار مسرت کیا! میں ان حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس روش سے عوام کو مسرت ملتی ہے۔ اس سے عوام کے اندر کامیابی حاصل ہونے کا خوشکن احساس پیدا ہوتا ہے۔ اگر یہی امیدوار اڑیل رویہ اختیار کرتے، غیر شریفانہ روش اپناتے، بہانے تراش کر تنازعہ کھڑا کرتے، ظاہر ہے تنازعے کے لئے کوئی نہ کوئي بہانہ مل ہی جاتا ہے تو عوام کی ساری خوشی مٹی میں مل جاتی۔ میں جو بار بار سنہ دو ہزار نو کے صدارتی انتخابات کے بعد پیش آنے والے واقعے اور تنازعے پر تنقید کرتا ہوں، بار بار اس سلسلے میں شکایت اور گلہ کرتا ہوں تو اس کی یہی وجہ ہے۔ ایک پرشکوہ اور عظم انتخابات میں عوام زبردست کامیابی رقم کرتے ہیں لیکن دو چار افراد آکر عوام کی ساری خوشی مٹی میں ملا دیتے ہیں، حالانکہ ان افراد کے لئے شکایت درج کرانے کا قانونی راستہ بھی موجود تھا۔ یہ چیز اس دفعہ ہوئی تھی جس سے عوام کو بڑی تکلیف پہنچی تھی اور انتخابات کی شیرینی تلخی میں بدل گئی تھی۔ بحمد اللہ اس سال کے انتخابات میں ایسا نہیں ہوا، عوام کو خوشی منانے کا موقعہ ملا۔ طرز عمل ہمیشہ قانون کے مطابق اور قانون کے دائرے میں ہونا چاہئے۔ ہم نے سب پر جو قانون کی بالادستی تسلیم کرنے کی تاکید کی، تو اس کا ثمرہ آج ہمارے سامنے ہے۔ جب قانون کی پابندی کی گئی تو عوام کو خوشی ملی، ان کے دل مسرور ہوئے۔ یہ درس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ عوام اس طرح کے واقعات اور مسائل میں بڑی دانشمندی سے دیکھتے ہیں اور سیاسی شخصیات کو پرکھتے اور سمجھتے ہیں۔ جو سیاست داں قانون کے پابند رہتے ہیں اور ہر مسئلے میں قانون کے مطابق عمل کرتے ہیں عوام انہیں پسند کرتے ہیں، ان کی حمایت کرتے ہیں اور جو لوگ قانون سے بے اعتنائی کرتے ہیں اور قانون کے سلسلے میں بے توجہی برتتے ہیں خواہ اس کے لئے ان کے پاس کوئی بھی بہانہ ہو، عوام انہیں اچھی طرح پہچان لیتے ہیں اور ان سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔
مختصر یہ کہ انتخابات واقعی بہت اہم اور نمایاں واقعہ تھا اور یہ فضل پروردگار ہے اور لطف الہی ہے کہ خداوند عالم نے عوام کے دلوں کی ہدایت فرمائی جس کے نتیجے میں عظیم عوامی قوت میدان میں آئی اور یہ کارنامہ انجام پایا۔ الیکشن حقیقت میں ایک جہاد تھا، عوام نے خیر خواہوں کی خواہش اور آروز کے عین مطابق کام کیا۔
اب سب کے لئے ضروری ہے کہ عوام نے جس کا انتخاب کیا ہے اس کی مدد کریں، مختلف ادارے بھرپور تعاون کریں، یہ ہماری درخواست ہے۔ ملکی امور کو چلانا میرے بھائیو اور بہنو! بڑا دشوار کام ہے۔ دور بیٹھ کر تنقیدیں کرنا اور عیوب تلاش کرنا آسان ہے۔ ہم نے بارہا یہ مثال دی کہ کوئی شخص حوض کے کنارے بیٹھ کر کئی میٹر کی اونچائی سے حوض میں جست لگانے والے کے نقائص بیان کر سکتا ہے کہ اس کا پاؤں ٹیڑھا ہو گیا تھا، ہاتھ مناسب پوزیشن میں نہیں تھا، جست اچھی نہیں تھی! اس طرح تنقید کرنا آسان ہے، عیب بیان کر دینا آسان ہے، لیکن اگر کنارے بیٹھے اسی شخص کو اس بلندی پر جاکر پانی میں چھلانگ لگانے کے لئے کہا جائے تو پھر دیکھئے کہ کس طرح حواس باختہ ہوتا ہے! اعتراض کرنا اور نقائص ڈھونڈنا آسان ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ کوئی تنقید نہ کرے، عیوب بیان نہ کرے، اعتراض نہ کرے۔ بالکل تنقید کرے، صحتمند اور تعمیری تنقید یقینا ملکی ترقی و پیشرفت کے عمل میں مفید واقع ہوتی ہے، لیکن اس بات کا خیال بھی رکھنا ضروری ہے کہ اجرائی کام بہت سخت ہوتے ہیں۔ الحمد للہ عوام نے نئے صدر کا انتخاب کر لیا ہے۔ سب کو چاہئے کہ منخب صدر سے تعاون کریں۔ لوگوں کی توقعات بہت زیادہ نہیں بڑھانا چاہئے، مسائل کے بارے میں عجلت پسندی سے فیصلہ نہ کریں تا کہ ملک کے اہم مسائل اور امور مناسب انداز میں انجام پا سکیں۔
ٹی وی کے پروگراموں میں محترم امیدواروں نے انتخابات سے پہلے جو باتیں کہیں ان کے بارے میں میرے کچھ معروضات ہیں تاہم ابھی انہیں تفصیل سے بیان کرنے کا مناسب موقعہ نہیں ہے، البتہ ایک دو باتیں میں کہنا چاہوں گا۔ بیشک کچھ خامیاں اور کمیاں موجود ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی مثبت اور تعمیر پہلوؤں پر بھی نظر رکھنا چاہئے۔ موجودہ حکومت کی خوبیاں اور مثبت و تعمیری کام کم نہیں ہیں۔ بیشک کچھ نقائص بھی اس میں موجود ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم میں کس کے عمل اور کارکردگی میں کوئی خامی نہیں ہے؟ کوئی کمزوری نہیں ہے؟ تو مثبت پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ ملک کے اندر بہت سے اچھے کام انجام پائے ہیں۔ جس طرح خدمات مہیا کرائی گئیں، بنیادی تنصیبات کے سلسلے میں جو کام انجام پائے، جو تعمیراتی کام ہوئے، ان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ محترم امیدواروں کی دو تین ہفتے کی انتخابی مہم کے دوران ان کے جو بیانات سامنے آئے ان میں حکومت کے ان مثبت و تعمیری پہلوؤں کو اکثر نظر انداز کر دیا گیا۔ کتنا اچھا ہوتا کہ محترم امیدوار جب اقتصادی مشکلات کو بیان کر رہے تھے، گرانی کی بات کر رہے تھے جو واقعی ہمیں در پیش ہے، تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی بیان کر دیتے کہ اس سلسلے میں کیا اقدامات انجام دئے گئے ہیں، کتنی زحمتیں کی گئي ہیں، ان کو بھی بیان کرنا چاہئے تھا۔ اسی کو انصاف کہتے ہیں۔ انسان کو چاہئے کہ مثبت پہلوؤں کو بھی دیکھے اور منفی باتوں پر بھی نظر رکھے۔ البتہ یہ فطری ہے کہ جب کوئی خود کو عوام کے سامنے نمایاں کرنا چاہتا ہے تو موجودہ خامیوں اور کمیوں کی بات کرتا ہے، عوام کو ان سے باخبر کرتا ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن لازمی ہے کہ صرف ایک پہلو کو پیش نہ کیا جائے بلکہ مثبت اقدامات کو بھی ذکر کیا جائے، ان کا اظہار کیا جائے۔
چند جملے ایمٹی مسئلے کے بارے میں عرض کرنا ہے۔ آئندہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو مزید تفصیلات بیان کروں گا۔ میں نے آغاز سال (21 مارچ کو ہجری شمسی سال کی شروعات جسے نوروز کہا جاتا ہے) کے دن کی تقریر میں کہا تھا کہ ہمارا مخالف محاذ جو بنیادی طور پر معدودے چند تسلط پسند اور منہ زور طاقتوں پر استوار ہے جو دروغ گوئی کرتے ہوئے خود کو عالمی برادری کا نام دیتا ہے اور جس کی قیادت امریکا کے ہاتھ میں ہے اور جس میں بنیادی رول صیہونی ادا کر رہے ہیں، اس مخالف محاذ کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ ایران کا ایٹمی مسئلہ حل ہونے ہی نہیں دینا چاہتا۔ اگر اس محاذ کی ضد اور اڑیل رویہ نہ ہوتا تو ایٹمی مسئلہ کب کا حل ہو چکا ہوتا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ہم حتمی حل کے بالکل قریب پہنچ گئے، دستخط بھی ہوئے، ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے نے بھی دستخط کر دئے اور یہ تصدیق کر دی کہ فلاں فلاں اشکالات تھے جو برطرف ہو گئے، یہ دستاویزات ہیں اور سند کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہیں، ان کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اتنا ہو جانے کے بعد مسئلہ حل ہو جانا چاہئے تھا، ہمارا ایٹمی معاملہ ختم ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، امریکیوں نے فورا کوئی نیا شگوفہ چھوڑ دیا اور کود کر سامنے آ گئے۔ وہ چاہتے ہی نہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے۔ اس سلسلے میں ہمارے پاس کئی مثالیں اور نمونے موجود ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا ایٹمی مسئلہ فطری طور پر اگر آگے بڑھے تو اسے بآسانی حل کیا جا سکتا ہے، لیکن جب مد مقابل فریق چاہتا ہی نہیں کہ اس مسئلے کا تصفیہ ہو تو ظاہر ہے کہ یہی صورت حال پیش آئے گی جس کا آپ مشاہدہ کر رہے ہیں۔
بنابریں اس نکتے پر سب توجہ رکھیں! اسلامی جمہوریہ ایران نے ایٹمی مسئلے میں قانون کے مطابق اور پوری شفافیت کے ساتھ عمل کیا ہے اور ہمارا طرز عمل اور طرز گفتگو عقل و منطق کے مطابق رہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایٹمی معاملے کو دشمنوں نے اسلامی جمہوریہ ایران پر دباؤ ڈالنے کا بہانہ بنا لیا ہے۔ اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو وہ کوئی اور شوشہ چھوڑ دیں گے۔ ان کا مقصد ہے دباؤ ڈالنا، ڈرانا دھمکانا اور تھکا دینا۔ انہوں نے خود کہا بھی ہے کہ ان کا مقصد سیاسی نظام کو بدلنا اور سیاسی سسٹم کو دگرگوں کر دینا ہے۔ البتہ خصوصی مذاکرات کے دوران یا جب کبھی وہ کوئی مکتوب ارسال کرتے ہیں تو اس میں کہتے ہیں کہ ہم نظام حکومت تبدیل نہیں کرنا چاہتے، لیکن ان کی باتوں اور بیانوں نیز ان کی کارکردگی اور طرز عمل سے یہ حقیقت صاف جھلکتی ہے۔ جو قوم بھی ان کے تابع فرمان نہ ہو، ان کی مرضی و منشا کے مطابق عمل نہ کرے، ان کی پسند کے مطابق طرز عمل نہ اپنائے وہ مورد عتاب قرار پاتی ہے۔ ان کے نزدیک وہی حکومتیں قابل برداشت ہیں جو ان کی مطیع اور تابعدار ہوں۔ اس کے علاوہ نہ تو جمہوریت کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت ہے، نہ انسانی حقوق کی کوئی قدر و قیمت اور نہ ایٹمی مسئلہ کوئی اہمیت رکھتا ہے۔ سارا جھگڑا اس بات کا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے پاؤں پر کھڑا ہے اور بغیر کسی کا سہارا لئے اور صرف اللہ کی ذات پر توکل اور اعتماد کے ساتھ مختلف شعبوں میں پیشرفت حاصل کر رہا ہے، یہ چیز انہیں پسند نہیں ہے، کوئی بات نہیں، اگر انہیں پسند نہیں ہے تو نہ سہی۔ البتہ اسلامی جمہوریہ ایران کے تجربے سے ثابت ہو گیا کہ کامیابی کا راستہ وہی ہے جس پر ایران گامزن ہے اور ملت ایران دشمنوں کو پسپا کرکے رہیگی۔
اسلامی جمہوری نظام کا راستہ، اللہ کا راستہ ہے، اس کے اہداف، اہداف الہی ہیں، اس کی تکیہ گاہ ارادہ الہی ہے۔ اس راستے پر چلنے والا کبھی بھی ایسی صورت حال میں مبتلا نہیں ہوتا جہاں اس کے پاس آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔ یہ بات سب ذہن نشین رکھیں اور یقین کر لیں کہ توفیق الہی اور اذن پروردگار سے ہمارا راستہ ہمیشہ کھلا رہے گا۔ دعا کرتا ہوں کہ ملت ایران جس طرح اب تک روز بروز ترقی کی منزلیں طے کرتی رہی ہے آئندہ بھی حکام کی جدت عملی، محنت، بلند ہمتی اور اللہ پر توکل کے نتیجے میں پیشرف کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہے۔ عوام اور حکام حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کی دعاؤں کے مستحق قرار پائيں ، ہمارے عظیم الشان امام خمینی کی روح مطہرہ اور شہدا کی روحیں ہم سے راضی و خوشنود رہیں۔
والسّلام عليكم و رحمة الله و بركاته
۱) توبه: ۴۷