اس ملاقات میں طلباء نے سیاسی، سماجی، علمی ، ثقافتی ، اقتصادی اور یونیورسٹیوں کے مختلف موضوعات کے بارے میں اپنے خیالات پیش کئے۔ ملاقات کا آغاز سہ پہر 5 بجے سے ہوا اوراس کا سلسلہ نماز مغرب و عشا تک جاری رہا۔ طلباء کی مختلف یونینوں کے 12 نمائندوں نے اپنے مسائل، مطالبات اور موقف کو پیش کیا۔ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بیان شدہ مسائل کے متعلق جواب دیتے ہوئے اہم نکات بیان کئے، حقائق اور اہداف کی تشریح، طلباء کی ذمہ داریوں، فرائض اور یونیورسٹیوں میں جوش و جذبہ و نشاط پیدا کرنے کی راہوں پر روشنی ڈالی۔ قائد انقلاب اسلامی نے طلبہ کے ساتھ اپنی ملاقات پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور اس ملاقات میں بیان شدہ موضوعات اور مطالب کو پختہ اور نپے تلے موضوعات سے تعبیر کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو طلباء کی تجاویز پر عملدرآمد کے طریقوں کا جائزہ لینے کی سفارش فرمائي۔ قائد انقلاب اسلامی نے تاکید فرمائی کہ سیاسی اور سماجی تجزيہ و تبصرے کو دشمنی اور کدورت میں نہیں بدلنے دینا چاہئےآپ نے فرمایا کہ مختلف فکر اور نظرئے کے حامی طلباء سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی و سماجی امور کے تجزيہ کو خصومت، دشمنی اور بغض و کینہ میں تبدیل نہ ہونے دیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم الله الرّحمن الرّحيم

اللہ کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ اس نے حقیر کی عمر میں اتنی برکت دی کہ ایک اور ماہ رمضان المبارک کے روحانیت سے معمور ایام میں اس حسینیہ میں عزیز طلبہ سے ملاقات کر سکوں۔ ان شاء اللہ یہ جلسہ اور اس میں میرے اور آپ حضرات کے ذریعے بیان کی گئی باتیں ملک کے لئے، یونیورسٹی کے لئے اور طلبہ کی عظیم تحریک کے لئے مستقبل میں مفید واقع ہوں گی۔
یہ ایام روحانیت سے معمور ایام ہیں۔ ماہ رمضان کی پاکیزگی، روزہ داری کی پاکیزگی، شبہائے قدر کی پاکیزگی، مولائے متقیان کے ذکر سے ساطع ہونے والی پاکيزگی سے فضا معطر ہے، حقیقت میں یہی عظیم ہستی صفا و نورانیت کا مظہر اور سرچشمہ ہے۔ ہمارے ملک میں طلبہ کا طبقہ جس کی نمائندگی آپ کر رہے ہیں، یہ عظیم صنف مختلف پہلوؤں سے بڑی امید بخش نظر آتی ہے۔ میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ آپ کی سعی و محنت کی برکت سے آپ کے مستقبل کو اور وطن عزیز کے مستقبل کو امید و نشاط سے بھر دے۔
ہمارے دوستوں نے جو باتیں بیان کیں، بڑی اہم اور مفید تھیں۔ گزشتہ سال بھی مجھے یاد ہے کہ جو باتیں یہاں طلبہ و طالبات نے بیان کی تھیں، میں واقعی ان سے بہت محظوظ ہوا تھا۔ البتہ وہ ساری باتیں تمام تفصیلات کے ساتھ تو میرے ذہن میں باقی نہیں رہتیں لیکن مجموعی طور پر یہ باتیں میرے ذہن میں ہیں جو بہت اچھی باتیں تھیں۔ اس سال بھی ایسا ہی ہوا۔ اس سال بھی بحمد اللہ آپ نوجوانوں نے اپنی تقاریر کے مختلف حصوں میں جو باتیں بیان کیں بہت پختہ اور نپی تلی باتیں تھیں۔ آپ نے جو باتیں کہیں ان میں بیشتر سے میں پوری طرح اتفاق کرتا ہوں۔ آپ کی تقاریر میں کچھ تجاویز بھی تھیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ملک کے متعلقہ ادارے، خود ہم اور دیگر حکام ان شاء اللہ ان تجاویز کا جائزہ لیں گے تا کہ ان تجاویز کے پیچھے جو خواہشات و مطالبات ہیں ان کی تکمیل ہو سکے۔
میں نے آپ کی تقاریر کے چند نکتے نوٹ کئے ہیں جن کے بارے میں چند جملے عرض کروں گا۔ ایک اسٹوڈنٹ نے فکری مراکز کے بارے میں کچھ باتیں کہیں۔ یہ بالکل صحیح بات ہے، میں اس کی حمایت کرتا ہوں۔ اس پر کام ہونا چاہئے۔ ہمارے اس عزیز دوست نے کہا کہ اس کا ایک چھوٹا سا نمونہ ان کے پاس ہے جسے وہ ہمیں دیں گے لیکن بظاہر انہوں نے کچھ دیا نہیں ہے۔ ایک اسٹوڈنٹ نے اعتدال کے مسئلے کا ذکر کیا اور مجھ سے یہ فرمائش کی کہ اعتدال کا مفہوم بیان کروں چونکہ موجودہ حکومت اعتدال کے نعرے پر بہت زور دے رہی ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ اس وقت اعتدال کے مفہوم و معنی کا تعین کرنا میری ذمہ داری نہیں ہے۔ بہرحال ہر کوئی اپنے بیان اور اپنے نعرے کے پیچھے ایک مفہوم اور ایک نیت رکھتا ہے۔ محترم منتخب صدر یقینا یہ کام انجام دیں گے اور اعتدال کا مفہوم بیان فرمائیں گے۔ فیصلہ کرنے اور نتیجہ اخذ کرنے کی پوری آزادی ہے۔ جو باتیں بیان کی جاتی ہیں ان کی بنیاد پر کوئي نتیجہ اخذ کرنے اور رائے قائم کرنے سے ہم کسی کو نہیں روکتے۔ البتہ میری کچھ سفارشات ہیں جو میں اپنے معروضات کے دوران بیان کروں گا۔ ایک طالب علم نے اشارہ کیا کہ مختلف مسائل کے سلسلے میں الگ الگ تجزئے کی وجہ سے طلبہ کے درمیان کبھی کبھی کدورت پیدا ہو جاتی ہے۔ میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ یہ گزارش کروں گا کہ سب یہ کوشش کریں کہ تجزیہ کرنے، تبصرہ کرنے، حقائق سے نتیجہ اخذ کرنے میں اگر اختلاف رائے ہے تو اسے باہمی کدورت میں تبدیل نہ ہونے دیں، لڑائی جھگڑے کا باعث نہ بننے دیں۔ علمی ماحول ہوتا ہے تو یہ بات فطری ہے کہ الگ الگ علمی نظریہ سامنے آئے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تصادم اور دشمنی شروع ہو جائے۔ دو الگ الگ نظریات ہیں۔ سیاسی اور سماجی مسائل کے سلسلے میں بھی میری رائے یہی ہے کہ جب ہم ڈھانچے، دائرے اور ساختیاتی اصولوں پر اتفاق رائے رکھتے ہیں تو وہاں بھی یہی ماحول ہونا چاہئے۔ کدورت پیدا نہیں ہونی چاہئے۔ بے شک یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگ بنیادی امور اور اصولوں کی وجہ سے آپ کے دشمن ہو جائیں، یہ ایک الگ صورت حال ہوگی۔ یہ ایک الگ چیز ہے۔ لیکن اختلاف نظر جھگڑے، کدورت اور تشدد کا باعث نہیں بننا چاہئے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ طلبہ کو تو نہیں لیکن سیاستدانوں، اراکین پارلیمنٹ، حکام اور سیاسی کارکنوں کو بارہا یہ سفارش کر چکے ہیں کہ دینی طلبہ کے انداز میں 'مباحثہ' کیجئے۔ دینی طلبہ کا انداز یہ ہے کہ جب مباحثہ کرتے ہیں تو بسا اوقات غصے میں بھی آ جاتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ طلبہ مباحثے میں کتاب سے مار پیٹ بھی کر لیتے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے، وہ صرف بحث کرتے ہیں، اونچی آواز میں بحث ہونے لگتی ہے۔ اگر کوئی دور سے دیکھے تو یہی سمجھے گا کہ یہ ایک دوسرے کو کبھی بھی مار سکتے ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔ مباحثہ ختم کرکے اٹھتے ہیں تو ایک ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھتے ہیں، اپنا 'آب گوشت' کھاتے ہیں۔ آپس میں گفتگو کرتے ہیں، کیونکہ وہ حقیقت میں بہترین دوست ہیں۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ فرماتے تھے کہ سیاستداں حضرات پارلیمنٹ کے اندر، حکومت کے اندر یا اسلامی جمہوری پارٹی کے اندر جو اس زمانے میں تھی، اسی طرح دیگر سیاسی پلیٹ فارموں پر اسی طرح کا برتاؤ کریں۔ ممکن ہے کہ اختلاف رائے ہو، کہا سنی بھی ہو جائے لیکن کدورت اور دشمنی پیدا نہ ہونے دیں۔ خوش قسمتی سے اس وقت ملک کے طلبہ کی صنف کی اکثریت مشترکہ اصولوں کی پابند ہے، البتہ ممکن ہے کہ ان کے اندر الگ الگ سیاسی طرز فکر ہو۔ میرا بھی یہی کہنا ہے کہ الگ الک سیاسی مکاتب فکر کے درمیان بحث ہونا چاہئے، گفتگو ہونا چاہئے، میں اپنے معروضات کے دوران اس کی مزید تشریح کروں گا۔ بس انہیں خیال رکھنا چاہئے کہ تصادم اور تنازعے کی کیفیت پیدا نہ ہو، دشمنی اور کدورت کا ماحول پیدا نہ ہو۔ حتی المقدور کوشش کیجئے کہ طلبہ کی فضا سے یہ چیزیں دور رہیں۔ ہمارے ایک بھائی نے سنہ دو ہزار نو کے واقعات اور اس سے مربوط مسائل کی جانب اشارہ کیا۔ میں گزارش کروں گا کہ جب بھی سنہ دو ہزار نو کے واقعات کا ذکر کیا جائے تو اصلی اور بنیادی باتوں کو ضرور مد نظر رکھا جائے۔ اصلی اور بنیادی قضیہ یہ ہے کہ ایک جماعت نے ملک کے قانونی سسٹم کے خلاف غیر قانونی اور غیر شرافت مندانہ طریقے سے مزاحمت شروع کر دی اور وطن عزیز کو بڑا نقصان پہنچایا۔ آپ اس بات کو کیوں بھول جاتے ہیں؟! ہاں یہ ممکن ہے کہ جب کوئی بڑا واقعہ رونما ہو تو اس کے ذیل میں کچھ ایسے تصادم بھی ہو جائیں کہ انسان ظالم اور مظلوم کے تعین میں شک و شبہے کا شکار ہو جائے۔ یا کوئی انسان کسی مسئلے میں ظالم اور کسی دوسرے مسئلے میں مظلوم قرار پائے۔ یہ چیز عین ممکن ہے۔ لیکن ان تمام چیزوں میں کبھی بھی اصلی اور بنیادی قضیہ نظر انداز نہیں ہونا چاہئے۔ سنہ دو ہزار نو کے انتخابات میں جن افراد کو یہ گمان ہو رہا تھا کہ انتخابات میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے اس بد عنوانی کے مقابلے میں سڑکوں پر محاذ کیوں کھول لیا؟ اس بات کا وہ کیوں جواب نہیں دیتے؟ ہم نے سو دفعہ یہ سوال دہرایا ہے۔ عوامی اجتماعات میں نہیں بلکہ ایسی جگہ پر سوال کیا جہاں وہ بآسانی اس کا جواب دے سکتے تھے لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔ جواب نہیں ہے تو معذرت خواہی کیوں نہیں کرتے؟ خصوصی نشستوں میں کہتے ہیں کہ ہمیں اعتراف ہے کہ انتخابات میں کوئی بدعنوانی نہیں ہوئي تھی، سوال یہ ہے کہ جب بدعنوانی نہیں ہوئی تھی تو انہوں نے ملک کو اتنے بڑے خسارے میں کیوں ڈالا؟ کیوں ملک کو اتنی بڑی قیمت چکانی پڑی؟ اگر اللہ تعالی نے اس قوم کی مدد نہ فرمائی ہوتی اور عوام ایک دوسرے سے الجھ پڑتے تو آپ کو اندازہ ہے کہ کیا نتیجہ نکلتا؟ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ علاقے کے ممالک میں، جہاں عوامی گروہ ایک دوسرے سے متصادم ہیں، کیا حالات پیدا ہوئے ہیں؟ انہوں نے ملک کو اسی طرح کی خطرناک کھائی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ مگر اللہ تعالی نے بچا لیا، عوام نے بصیرت سے کام لیا۔ سنہ دو ہزار نو کے سلسلے میں یہ سب سے بنیادی قضیہ ہے، اسے آپ کیوں فراموش کر دیتے ہیں؟ سنہ انیس سو ننانوے کے واقعے کے سلسلے میں بھی ہمارے پاس بہت سی باتیں ہیں، اس کا بھی ایک الگ ہی قصہ ہے۔ میں اسی ضمن میں یہ بھی عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے ایک دوست نے کہا کہ اگر یونیورسٹی کے اندر ایسا ویسا کچھ ہوا تو ہم سختی سے پیش آئيں گے! میں اس 'سختی' کا مطلب بخوبی نہیں سمجھ سکا! ہمارے جس بھائی نے یہ بات کہی ان کا انداز بیان حالانکہ بڑا پروقار، نپا تلا اور محکم انداز بیان تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ عقل و منطق کے حامی ہیں، جب آپ کے اندر استدلال کی اتنی اچھی صلاحیت ہے، جب آپ اپنی بات کا اتنے صحیح اور مدلل انداز میں دفاع کر سکتے ہیں تو سختی سے پیش آنے کی کیا ضرورت ہے؟ سختی سے پیش آنے سے مراد اگر زبردست استدلال، بحث اور قلم فرسائی ہے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن اگر اس سے دوسری چیز مراد ہے تو میں اس کے حق میں قطعی نہیں ہوں کہ آپ اپنی رائے کے برخلاف نظریہ رکھنے والے کے ساتھ یا اپنی نظر کے خلاف کسی چیز کے سلسلے میں اس انداز کا تشدد آمیز اقدام کریں جو ممکن ہے کہ آپ کے مد نظر ہو۔
کچھ دوستوں نے تکلیف شرعی اور نتیجے کے بارے میں سوال کیا۔ بعد میں میں اس بارے میں تھوڑی تشریح کروں گا۔
ہمارے ایک دوست نے نظارت و نگرانی کے بارے میں گفتگو کی۔ میں ان کی بات کی پوری طرح تائید کرتا ہوں۔ انہوں نے مختلف اداروں منجملہ قومی نشریاتی ادارے پر نظارت رکھے جانے کی بات کہی ، اس کی میں بھی حمایت کرتا ہوں، یہ ضروری ہے، لیکن پارلیمنٹ جیسے ادارے کی نگرانی کا کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟ یہ بڑا اہم نکتہ ہے، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اسی طرح عدلیہ پر نگرانی کا سسٹم یا دیگر اداروں کی سرگرمیوں پر نگرانی کا نظام کس طرح ترتیب دیا جائے؟ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر طلبہ کی سطح پر سرگرمیاں انجام دینے والے افراد اعلی فکری سطح پر منصوبہ بندی کریں، غور و فکر کریں، کام کریں، تجویز تیار کریں، میری نظر میں یہ آپ کا کام ہے۔ آپ یہ کام کیجئے اور اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ بٹائیے!
ایک طالب علم نے انتباہ دیا کہ جو ادارے قائد انقلاب اسلامی سے وابستہ ہیں وہ اپنی کارکردگی اور اخراجات کو شفافیت کے ساتھ پیش نہیں کرتے اور احتساب کے ادارے کو اپنی سرگرمیوں کا جائز لینے کی اجازت نہیں دیتے۔ البتہ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ اگر ایسا ہے تو میں بھی یہی کہوں گا کہ بالکل انہیں ایسے مسائل کو بیان کرنے میں پوری شفافیت رکھنی چاہئے جو عوامی سطح پر پیش کئے جا سکتے ہیں، انہیں احتساب کے ادارے سے بھی پورا تعاون کرنا چاہئے۔ میں نہیں سمجھتا کہ مستضعفین فاؤنڈیشن اور اسی طرح دیگر ادارے آڈیٹنگ کے دائرے سے باہر ہیں۔ یعنی میں ایسا نہیں سمجھتا اور اگر ایسا ہے تو طالب علم کا اعتراض بالکل بجا ہے، نگراں اداروں کو چاہئے کہ اس کی نگرانی کریں۔
ایک طالب علم نے یونیورسٹی کے اندر پرنشاط ماحول کی خصوصیات اور صفات کے بارے میں مجھ سے سوال کیا۔ یہ مسئلہ قابل غور ہے، میں نے اس سلسلے میں کچھ چیزیں نوٹ کی ہیں جو آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔
ایک طالب علم نے سوال کیا کہ نئے تعلیمی سال کے آغاز پر یونیورسٹی میں داخل ہونے والے نئے طلبہ کے لئے آپ کی کیا سفارشات ہیں؟ ان طلبہ کے لئے میری سفارشات وہی ہیں جو دیگر طلبہ کے لئے ہیں۔ میری نظر میں طالب علم وہ ہے جو علم کا متلاشی ہے۔ میں سب کو طلبہ کے شایان شان سرگرمیاں انجام دینے کی دعوت دیتا ہوں؛ سیاسی سرگرمیاں اور سماجی سرگرمیاں طالب علم کی شان کے مطابق ہوں۔
ایک طالب علم نے یونیورسٹیوں کے بجٹ کی فراہمی کے بارے میں بڑا اہم اور قابل غور نکتہ پیش کیا۔ آپ طلبہ و طالبات نے جو باتیں بیان کیں بہت اچھی اور صحیح باتیں تھیں۔ میں نے جو باتیں نوٹ کی ہیں وہ اب آپ کی خدمت میں پیش کروں گا، بے شک ان باتوں کا تعلق طلبہ کی جماعت سے ہے لیکن اسے پورے ملک کی سطح پر اور ملک بھر کے نوجوانوں کی سطح پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ انقلاب سے ہمارے نوجوان، طالب علم اور انقلابی شخص کی کیا نسبت ہے؟ میرا یہ نظریہ ہے کہ انقلاب کے اعلی اہداف اور امنگیں پوری طرح معین اور واضح ہیں، البتہ میں ان میں بعض کی تشریح کروں گا، نام کے ساتھ ان کا ذکر کروں گا۔ نوجوانی کی خاص جرئت، توانائی اور جوش و جذبے کے بغیر یہ اعلی اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ تو انقلاب کی امنگوں اور اعلی مقاصد سے آپ کی نسبت کچھ اس انداز کی ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر نوجوانی کی یہ توانائی نہ ہو، یعنی وہ فکری و جسمانی قوت نہ ہو، وہ جوش و جذبہ نہ ہو، وہ ہمت یعنی حدوں سے آگے بڑھ جانے کا وہ جذبہ جو ایام نوجوانی میں ہوتا ہے، موجود نہ ہو تو ہم ان اہداف اور امنگوں کو حاصل نہیں کر سکتے۔ یعنی انقلاب کے اہداف اور اسلامی مقاصد کی تکمیل میں نوجوانوں کی صنف کے اوپر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ جو بھی چاہتا ہے کہ انقلاب کے اہداف پورے ہوں اسے نوجوانوں کے کردار کو بہت سنجیدگی سے مد نظر رکھنا ہوگا، آپ یقین جانئے کہ میں نوجوانوں کے کردار کو بڑی سنجیدگی سے لیتا ہوں۔ میں نے نوجوانوں کے بارے میں خواہ و یونورسٹی کے طلبہ ہوں یا طالب علم نہ ہوں، جو باتیں کہی ہیں وہ تکلف میں نہیں کہی ہیں۔ یہ میرا یقین ہے، یہ میرا نظریہ ہے کہ نوجوان، مشکلات کو حل کر سکتے ہیں۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ کام کے میدان اور سرگرمیوں کے میدان کو خوب پہنچاتے ہوں، اس سے باقاعدہ واقف ہوں، جو کام کرنا چاہتے ہیں اس کا صحیح انداز میں تعارف کرائيں، یہ تو رہا ایک نکتہ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلامی نطام کے اعلی اہداف جو در حقیقت اسلام کے اہداف ہیں، وہ کسی مجموعے اور منظومے کی شکل میں ہیں جس کے مختلف مراتب اور درجات ہیں۔ کچھ اہداف زیادہ بلند مدت اور آخری اہداف ہیں، بعض کوتاہ مدت اہداف ہیں لیکن ان کا بھی شمار امنگوں میں ہوتا ہے۔ ان سب کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر ایک پیشرفتہ روحانی اور انصاف کے اصولوں پر استوار معاشرہ، یہ ایک اعلی ہدف اور ایک اہم آرزو ہے۔ یہ اہم ترین اور بنیادی ترین آرزوؤں میں شامل ہے۔ اسلام کی یہ کوشش ہے کہ ایسا معاشرہ تشکیل پائے جو عدل و انصاف کی بنیاد پر چلے، یعنی معاشرے کے عہدیدار اور ذمہ دار افراد انصاف اور مساوات کی بنیاد پر کام کریں، دوسرے یہ کہ خود وہ معاشرہ بھی انصاف پر استوار ہو، یعنی انصاف و مساوات صرف عہدیداروں اور حکام سے مختص نہیں ہے، عوام الناس کے لئے بھی ضروری ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ انصاف و مساوات کا برتاؤ کریں۔ تب معاشرہ ایک پیشرفتہ معاشرہ قرار پائے گا۔ اسلام ہرگز ایسے معاشرے نہیں دیکھنا چاہتا جو علمی میدان میں، سیاسی میدان میں، تمدن کے میدان اور دیگر میدانوں میں پسماندہ ہوں۔ اسلام ایک پیشرفتہ معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے۔ اسلام کے احکامات کا ایک بڑا حصہ اس پر واضح طور پر دلالت کرتا ہے۔ تو ہمارے اعلی اہداف کے اس مجموعے کا جز اسلامی معاشرے کی تشکیل ہے۔ اسلام ایسا ہی روحانی معاشرہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلامی نظام میں معاشرے کے انتظامی امور بھی عدل و مساوات کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں اور خود معاشرہ بھی اپنے آپ میں انصاف پسند معاشرہ ہوتا ہے، یہ پیشرفتہ معاشرہ بھی ہے اور روحانی معاشرہ بھی ہے۔ یعنی روحانیت سے معمور اور آراستہ ہے۔ ایسی روحانیت جو اس بات کا باعث بنتی ہے کہ انسان حقیر، مادی اہداف اور روز مرہ کی زندگی کی خواہشتوں کو اپنی امنگیں اور آرزوئیں نہیں گردانتا۔ اس کے پیش نظر دیگر اعلی اہداف و مقاصد ہوتے ہیں۔ اللہ سے بندوں کا رابطہ قائم ہو اور یہ رابطہ ہمیشہ محفوظ رہے، اسے کہتے ہیں اسلام کا منظور نظر معاشرہ۔ یہ تو ہے ایک اعلی ہدف۔ اگر یہ معاشرہ تشکیل پا گیا تو یہ مثالیہ بھی ہوگا دوسروں کے لئے۔ اگر ہم اپنی اجتماعی کوششوں سے ایسے معاشرے کی تشکیل میں کامیاب ہو جائیں جو میری نظر میں بالکل ممکن اور عملی ہدف ہے، یہی نہیں اس ہدف کی جانب ہم کسی حد تک پیشرفت بھی کر چکے ہیں، تو یہ معاشرہ مثالیہ ہوگا، صرف مسلم معاشروں اور مسلم ممالک کے لئے نہیں بلکہ غیر مسلم ریاستوں کے لئے بھی رول ماڈل قرار پائے گا۔ ان خصوصیات والے معاشرے کی تشکیل ہمارے اعلی اہداف میں شامل ہے۔
ہمارے اعلی اہداف میں خود منحصر اور پائیدار معیشت بھی ہے جو مثالیہ معاشرے کی تشکیل کے ہدف کی نسبت چھوٹا ہدف ہے۔ حالانکہ پائیدار اور خود کفیل معیشت اپنے آپ میں بہت بڑی چیز ہے لیکن یہ مثالی معاشرے کی نسبت ایک ذیلی ہدف ہے۔ صحت و سلامتی، بہترین صنعت، بہترین زراعت، بہترین تجارت، پیشرفتہ علم و ٹکنالوجی، یہ سب اعلی اہداف کا جز ہیں۔ تو جب ہم کہتے ہیں کہ اعلی اہداف تو ہمارا ذہن ناقابل حصول اور بالکل ہی غیر معمولی آرزوؤں کی جانب نہیں جانا چاہئے۔ اعلی اہداف میں یہی عملی چیزیں ہیں البتہ یہ الگ الک درجے کے اہداف ہیں۔ انہی اہداف کا مجموعہ اسلام کے اہداف کے منظومے کی تشکیل دیتا ہے۔ آپ نے ان میں سے کسی بھی ہدف کے لئے اگر سعی و کوشش کی تو یہ اعلی اہداف کے لئے انجام پانے والی کوشش قرار پائے گی۔ ایک ٹیم پائیدار اور خود کفیل معیشت کے لئے کام کر رہی ہے یا دوسری ٹیم جو انقلابی و اسلامی ثقافت کی ترویج کے لئے مصروف کار ہے تو یہ دونوں ہی اعلی اہداف اور امنگوں کے لئے کام کر رہی ہیں۔ جو افراد سیاسی اور سفارتی شعبوں میں یہی کام انجام دے رہے ہیں وہ بھی اعلی اہداف کی جانب گامزن ہیں۔ جو لوگ مثال کے طور پر صحت عامہ کے شعبے میں کام کر رہے ہیں ان کا عمل بھی اعلی اہداف کے لئے انجام پانے والا عمل ہے۔ یہ سب اعلی اہداف اور امنگیں ہیں البتہ ان کے الگ الگ درجے ہیں۔
ایک سوال اور بھی پوچھا گیا البتہ میں نے پہلے ہی اسے نوٹ کیا تھا جس سے لگتا ہے کہ یہ سوال پہلے بھی مجھ تک پہنچ چکا ہے، یعنی ایسا سوال ہے جو عام طور پر پوچھا جا رہا ہے۔ سوال ہے کہ بلند آرزوؤں اور زمینی حقائق میں کیا نسبت ہے؟ مثال کے طور پر آپ پابندیوں کو لے لیجئے! پابندیاں ایک حقیقت ہیں۔ ہماری ایک اہم آرزوں ملک کی اقتصادی ترقی ہے۔ دوسری جانب ایک حقیقت موجود ہے جس کا نام ہے پابندیاں۔ اسی طرح مختلف سیاسی مسائل کی مثال دی جا سکتی ہے، انتخابات وغیرہ کی مثالیں ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بلند آرزوئیں رکھنے کی میں مکمل حمایت کرتا ہوں۔ اگر انسان بڑی آرزوئیں ذہن میں رکھے لیکن زمینی حقائق پر اس کی نظر نہ ہو تو یہ توہم اور تخیلاتی دنیا میں زندگی گزارنا کہلائے گا۔ جب آپ اپنی کسی بڑی آرزو کے حصول کی کوشش کر رہے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں تو آپ کو اپنے گرد و پیش کے حالات کا اندازہ ضرور ہونا چاہئے اور انہیں حقائق کی بنیاد پر آپ کو منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔ معاشرے کے حقائق کو پیش نظر رکھے بغیر آپ اپنی آرزوؤں کے بارے میں سوچیں تو آپ کا یہ تصور ہی صحیح نہیں ہوگا، اسے حاصل کرنا تو خیر درکنار۔ اگر مثال دینا چاہوں تو میں کہوں گا کہ آپ پہاڑ کی چوٹی کو مد نظر رکھئے۔ جو لوگ کوہ پیمائي کے شوقین ہیں، ایک چوٹی کا صحیح تصور ذہن میں لائیں۔ چوٹی تک پہنچنا ایک آرزو ہے۔ آرزو کی ایسی ہی مثالیں دی جاتی ہیں۔ انسان پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنا چاہتا ہے۔ جب آپ نیچے ہیں تو آپ کا دل چاہتا ہے کہ اس چوٹی کی بلندی پر پہنچ جائیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ایک زمینی حقیقت بھی ہے۔ اگر آپ اس زمینی حقیقت پر توجہ دئے بغیر آگے بڑھیں گے تو آپ کی توانائی ضائع ہوگی۔ وہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس چوٹی تک رسائی کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ آپ کو ایک جگہ سے چوٹی نظر آ رہی ہے اور آپ پہاڑ کے دامن میں کھڑے ہیں تو بس یہیں سے آپ نے کوہ پیمائی شروع کی اور چوٹی کی بلندی پر پہنچ گئے۔ ایسا نہیں ہے۔ اس کا اپنا الگ راستہ اور طریقہ ہے۔ اگر آپ نے بے احتیاطی کی، چوٹی نظر آئی اور بس وہیں سے سیدھے اوپر چڑھتے چلے گئے تو یقینی طور پر آپ ایسی جگہ پہنچیں گے جہاں نہ آپ کے پاس آگے جانے کا راستہ ہوگا نہ واپس آنے کی کوئی صورت ہوگی۔ جو لوگ کوہی علاقوں کی سیر اور کوہ پیمائی کے شوقین ہیں انہیں اس طرح کی صورت حال کا کبھی کبھی سامنا ہوتا ہے۔ یہ صورت حال میرے لئے بھی پیش آ چکی ہے۔ اگر انسان راستے سے واقفیت کے بغیر آگے بڑھنے لگتا ہے تو کبھی ایسی جگہ پر پہنچتا ہے جہاں آگے جانے یا واپس آنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ایسی صورت حال پیش آ جانے کے بعد بڑی مشکل سے گلو خلاصی ہوتی ہے۔ زمینی حقیقت یہی راستہ ہے، اس راستے کی شناخت ضروری ہے۔
البتہ حقیقی معنی میں جو حقائق ہیں انہی کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ حقیقت کے نام پر جو چیز بھی پیش کر دی جائے اسے ہم فورا قبول کر لیں۔ آپ نوجوانوں کو بخوبی علم ہے کہ آج کل دنیا میں رائج نفسیاتی جنگ میں ایک روش غیر حقیقی چیزوں کو مسلمہ حقیقت کے طور پر پیش کرنا ہے۔ ایسی چیزوں کو حقیقت بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو حقیقت نہیں ہیں۔ افواہیں پھیلاتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اگر انسان اپنی آنکھیں کھلی نہ رکھے تو یقینا غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے گا۔ ہم جو بصیرت پر زور دیتے ہیں، اس کی یہی وجہ ہے۔ بصیرت کا ایک ثمرہ یہی ہے کہ انسان اس کی مدد سے حقائق کو ان کی اصلی شکل میں دیکھتا ہے۔ پروپیگنڈے میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی حقیقت کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور دوسرے بہت سے حقائق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ حقیقت ہے کہ کچھ اچھے دماغ ملک سے باہر ہجرت کر جاتے ہیں۔ بیشک یہ ایک حقیقت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ بہترین دماغوں اور ممتاز طالب علموں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ماضی میں کب ہمارے پاس اتنی تعداد میں ممتاز اسٹوڈنٹس تھے؟ ملک کی یونیورسٹی کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے! گزشتہ دس بیس سال کے دوران ہمارے یہاں بہترین دماغ قرار پانے والے طلبہ کی تعداد مختلف شعبوں میں بالکل نمایا طور پر نظر آتی رہی ہے۔ ہمارے یہاں نمونہ قرار پانے والے اساتذہ کی تعداد کتنی ہے؟! جب اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تو ملک میں یونیورسٹی اساتذہ کی تعداد بہت محدود تھی۔ چونکہ صحیح تعداد مجھے یاد نہیں ہے بلکہ تقریبی تعداد میرے ذہن میں ہے لہذا میں تعداد بیان نہیں کروں گا لیکن یہ بہت محدود تعداد تھی اور آج ملک کے اندر یہ تعداد دس گنا زیادہ ہے۔ یہ سب ممتاز شخصیات ہیں۔ مان لیتے ہیں کہ اس عظیم تعداد میں تربیت پانے والے اساتذہ اور طلبہ کے اندر سے کچھ لوگ بیرون ملک چلے گئے تو اس کے ساتھ ہمیں پوری صورت حال کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ جو لوگ اسلامی جمہوریہ کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں وہ حقیقت کے اس ایک پہلو کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں جبکہ دیگر حقائق کا نام تک زبان پر نہیں لاتے۔ تو حقائق کو پوری طرح ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ اگر حقائق پر نظر ہے تو آرزوئیں اور امنگیں پوری ہو سکتی ہیں۔ لیکن ضروری ہے کہ ہم حقیقت کو پہچانیں، اسے حقیقت نہ سمجھ نہ بیٹھیں جو معاندانہ حربوں کے ذریعے حقیقت کے طور پر پیش کر دی جاتی ہے۔ میری نظر میں اعلی اہداف اور بلند آرزوئیں رکھنے والا طالب علم جسے زمینی حقائق کی بھی خبر ہے کبھی بھی ایسی صورت حال میں گرفتار نہیں ہوتا جہاں اس کے سامنے کوئی راستہ نہ ہو۔ تو بڑی آرزوئیں ذہن میں ہمیشہ رکھنا چاہئے۔ کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے، نہ تو شیریں کامیابیوں کے وقت اور نہ ہی تلخ شکست کے وقت۔ مقدس دفاع کے دوران ہمیں عظیم کامیابیاں ملیں، اسی کے ساتھ ہی شکست کی تلخیاں بھی ہم نے برداشت کیں۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ ہمیشہ تاکید کرتے تھے کہ شکست نہ کہئے، 'عدم فتح' کہئے! کبھی تو انسان فتحیاب ہوتا ہے، کبھی کامیابی اس کا مقدر نہیں ہو پاتی، اس میں کیا مضائقہ ہے؟ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں کہ حالات سازگار ہو گئے اور سب کچھ مرضی کے مطابق ہو گیا تو پھر اعلی اہداف اور آرزوؤں کو ذہن سے نکال دیتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ فاذا فرغت فانصب (1) قرآن ہم سے کہتا ہے کہ جب تم نے اس کام کو تمام کر دیا، محنت مکمل کر دی تو اب خود کو تیار کرو، کام کو آگے بڑھانے کے لئے، جاری رکھنے کے لئے۔ اسی طرح بعض افراد ایسے ہوتے ہیں کہ سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق انجام نہیں پایا تو مایوسی اور احساس شکست میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے۔ دونوں ہی صورتیں غلط ہیں۔ اگر آپ حقیقت پسندی کے ساتھ بلند اہداف اور آرزوؤں کی جانب بڑھ رہے ہیں تو کبھی بھی آپ کا راستہ مسدود نہیں ہوگا۔ اگر حقائق پر انسان کی نگاہیں ہیں تو کوئی صورت حال ایسی نہیں ہے جس کا وہ پہلے سے اندازہ نہ کر لے۔ عزیز طلبہ سے میری توقع یہ ہے کہ ہمیشہ بلند آرزوؤں کی سمت قدم بڑھائیں۔ اس صورت میں بھی جب رونما ہونے والا واقعہ آپ کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہے اور اس صورت میں بھی جب رونما ہونے والے تغیرات آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہیں۔ زمینی حقائق کو دیکھ کر آپ آرزوؤں کو ترک نہ کیجئے! انہیں پورا کرنے کی کوشش کیجئے! انقلاب کی تحریک میں یہی صورت حال تھی اور آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران بھی یہی صورت حال ہمارے سامنے رہی۔ حالیہ برسوں میں جو گوناگوں واقعات پیش آئے ان کے سلسلے میں بھی یہی صورت حال رہی۔ جب الگ الگ طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں تو بعض افراد اپنے موقف اور فکر و نظر میں اپنے اعلی اہداف اور آرزوؤں کی پابندی قائم نہیں رکھ پاتے۔
ایک اور سوال یہ ہے کہ فریضے کی ادائیگی پر ارتکاز اور نتیجے کے حصول کے لئے کوشاں رہنے میں کیا فرق ہے؟ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم اپنے فریضے کی ادائیگی کے لئے کوشاں ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امام خمینی کو نتیجے کی کوئی فکر نہیں تھی۔ یہ بات کیونکر کہی جا سکتی ہے؟ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ضعیفی کے ایام میں اتنی محنت اور مشقت کی، اتنی سختیاں برداشت کیں تو آپ کا مقصد اور ہدف تھا اسلامی نظام کی تشکیل اور آپ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ امام خمینی کو نتیجے کی کوئی فکر نہیں تھی؟ فرض شناسی اور فریضے کی ادائیگی پر ارتکاز کا مطلب یہ ہے کہ انسان مطلوبہ منزل تک پہنچنے کے لئے اپنے فریضے کے مطابق عمل کرے۔ فریضے کے برخلاف کوئی اقدام نہ کرے، کوئی متضاد کام انجام نہ دے، ناجائز عمل انجام نہ دے۔ ورنہ جو سعی و کوشش انبیائے الہی نے کی، اولیائے دین نے کی وہ نتائج اور ثمرات کے حصول کے لئے تھی، وہ سب ہدف تک پہنچنا چاہتے تھے۔ یہ کون کہہ سکتا ہے کہ ہم نتیجے کے حصول کی فکر میں نہیں ہیں؟ یعنی نتیجہ جو بھی نکلے ہمیں اس کی فکر نہیں ہے! ایسا بالکل نہیں ہے۔ البتہ جو شخص نتیجہ حاصل کرنے کی غرض سے اپنے فریضے پر عمل کر رہا ہے، اور ایسا کچھ ہو گیا کہ وہ اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکا تو اسے کبھی بھی احساس پشیمانی نہیں ہوگا۔ اسے اطمینان خاطر ہے کہ اس نے اپنا فریضہ ادا کیا ہے۔ لیکن اگر کسی نے نتیجے اور منزل تک رسائی کے لئے اپنا فریضہ پورا نہیں کیا ہے اور اب وہ نتیجہ حاصل کرنے سے محروم رہ گیا تو اسے یقینا احساس ندامت ہوگا۔ اس کے برخلاف اگر اس نے اپنے فریضے پر عمل کیا ہے، اپنی ذمہ داری پوری کی ہے، ضروری کام انجام دئے ہیں، جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ اس نے حقائق کو بھی مد نظر رکھا ہے، دیکھا ہے اور ان حقائق کی روشنی میں منصوبہ بندی کی ہے، کام کیا ہے مگر وہ نتیجے تک نہیں پہنچ سکا، تو اسے کبھی بھی احساس پشیمانی نہیں ہوگا، اس نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے۔ بنابریں یہ کہنا کہ فرض شناسی کا مطلب یہ ہے کہ ہم بس اپنا کام کریں اور نتیجے کے بارے میں ہرگز نہ سوچیں تو یہ صحیح طرز فکر نہیں ہے۔ مقدس دفاع کے دوران اور صدر اسلام کی جنگوں کے دوران جو پیغمبر اسلام یا ائمہ علیہم السلام کے زمانے میں ہوئیں، ان میں شریک ہونے والے افراد اپنے فریضے پر عمل کی نیت سے ان جنگوں میں شرکت کرتے تھے، کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ ایک دینی فریضہ ہے۔ مقدس دفاع کے دوران بھی یہی صورت حال تھی۔ فرض شناسی کے جذبے کے تحت لوگ میدان میں آ رہے تھے۔ جو لوگ میدان میں آتے تھے تکلیف شرعیہ کے احساس کے ساتھ آتے تھے۔ لیکن کیا تکلیف شرعیہ اور فرض شناسی کا تقاضا یہ تھا کہ نتیجے کے بارے میں ہرگز نہ سوچیں؟ منزل تک رسائی کے راستے کے بارے میں غور نہ کریں؟ منصوبہ بندی نہ کریں، حکمت عملی وضع نہ کریں، عسکری تیاریاں نہ کریں؟ ایسا نہیں ہے۔ فرض شناسی اور ہدف و منزل کی فکر میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ انسان نتیجے کے بارے میں غور کرے، منزل تک رسائی کے راستوں کو پرکھے اور قانونی اور جائز راستوں کے مطابق منصوبہ بندی کرے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں جوش و جذبہ ہونا بہت ضروری چیز ہے۔ جمود کا شکار یونیورسٹی اچھی یونیورسٹی نہیں ہوتی۔ جوش و خروش سے مراد کیا ہے؟ یہ جوش و جذبہ مختلف شعبوں میں منعکس ہوتا ہے، علمی میدان میں بھی اور سیاسی و سماجی میدان میں بھی۔ یونیورسٹی کی فضا جستجو اور تلاش کی فضا ہے جہاں انسان سیاسی میدان میں اور ملک کے نظم و نسق کے سلسلے میں اسی طرح ملک کے دیگر قومی مسائل کے سلسلے میں صحیح نقطہ نظر کی تلاش اور تعین کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ اسلامی بیداری کے موضوع کو لے لیجئے! یہ بہت اہم موضوع ہے۔ اس کے بارے میں صحیح نقطہ نظر تلاش کرنے کی جگہ یونیورسٹی اور طلبہ کا ماحول ہے۔ ذہنی کاوشوں، غور و فکر اور بحث و مباحثے کے ذریعے علمی رونق پیدا ہوتی ہے، فرائض اور ذمہ داریاں واضح ہوتی ہیں۔ پھر انہی ذمہ داریوں کے مطابق کام انجام دیا جاتا ہے۔ یعنی یونیورسٹیوں میں بحث و تجزیہ اور فہم و تشخیص وہی مطلوبہ جوش و جذبہ ہے۔ بنیادی اور فروعی مسائل کو ایک دوسرے سے الگ کرنا، انتہائی ترجیحی مسائل اور دوسرے درجے کے مسائل کے فرق کو سمجھنا اور غیر ترجیحی مسائل میں خود کو نہ الجھانا، ان تمام امور کو سمجھنا طلبہ اور یونیورسٹی کی سطح کے جوش جذبے اور علمی رونق کا حصہ ہے۔ اگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ یونیورسٹی سے باہر کچھ لوگ فروعی مسائل میں مشغول ہو گئے ہیں تو یونیورسٹی کے اندر کا ماحول ایسا ہو کہ طلبہ بالکل صحیح فیصلہ کریں کہ یہ فروعی مسائل ہیں، یہ بنیادی مسائل نہیں ہیں۔ فلاں مسائل بنیادی اور ترجیحی مسائل ہیں، فلاں مسائل جزوی اور فروعی مسائل ہیں۔ طلبہ کا ماحول اس طرح کا ماحول ہونا چاہئے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ سارے طلبہ کا ایک ہی طرز فکر ہونا لازمی ہے۔ ممکن ہے کچھ طالب علم کسی چیز کو بنیادی مسئلہ قرار دیں اور کچھ دوسرے طالب علم کچھ دیگر مسائل کو بنیادی مانتے ہوں۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، یہی تو بحث و مباحثے کے ماحول کا تقاضہ ہے۔ میری نظر میں آج کچھ ایسے موضوعات ہیں جو یونیورسٹی کے اندر زیر بحث لانے کے قابل ہیں، ان سے علمی اور سماجی رونق پیدا ہوگی۔ ان میں ایک موضوع اقتصادی جہاد کا موضوع ہے۔ اقتصادی جہاد ایک موضوع ہے، اس کے خد و خال کے تعین کے لئے بحث کی جا سکتی ہے، اس ہدف کے حصول کے طریقوں پر گفتگو ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں طلبہ کے درمیان اور یونیورسٹی کے اندر بحث ہو سکتی ہے۔ یہ ایسی بحثیں ہیں جو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہیں۔ اقتصادی جہاد کا مسئلہ وقتی اور زود گزر نہیں ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہم چند مہینے کے اندر اقتصادی جہاد شروع کر دیں اور مطلوبہ نتیجہ حاصل کر ہو جائے، ایسا نہیں ہے، اقتصادی جہاد ایک طویل المیعاد تحریک کا نام ہے جس کا آغاز سنہ 1392 ہجری شمسی (مطابق مارچ 2013 الی مارچ 2014) سے ہو سکتا ہے، اس کا آغاز ہو جانا چاہئے۔
اسی طرح پائیدار اور مزاحمتی معیشت کا موضوع ہے۔ یہ ایک اہم موضوع ہے۔ اس کے بارے میں کام ہوا ہے، بحث ہوئی ہے، اس کی تعریف کی گئی ہے، پالیسی سازی کے مراکز میں پالیسی سازی بھی کی گئی ہے۔ تاہم اب بھی اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ پائیدار اور مزاحمتی معیشت سے کیا مراد ہے؟ ملک کے اقتصادی مسائل میں کس طرح کی استقامت و پائیداری اور خود انحصاری مطلوب ہے؟ یونیورسٹی علمی و تحقیقی مرکز کے طور پر اس مسئلے میں کس حد تک ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ سب طلبہ کے درمیان بحث کے موضوع ہو سکتے ہیں۔
یا طرز زندگی کا مسئلہ ہے۔ میں نے گزشتہ سال بجنورد کے سفر کے دوران یہ موضوع اٹھایا تھا جس کو بڑی پذیرائی بھی ملی۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ طرز زندگی سے متعلق مسائل کے بارے میں بحث، اظہار خیال، موافقت، مخالفت، یہ ساری چیزیں یونیورسٹی میں زندگی کی حرارت پیدا کرتی رہتی ہیں۔ اس طرح کی اہم اور حقائق پر استوار بحثیں، یونیورسٹی کے اس عظیم پیکر میں خون کی طرح دوڑتی ہیں۔ یہ ان بحثوں سے الگ ہیں جو ہم نے دیکھی تھیں اور جو ہماری نوجوانی کے ایام میں رائج تھیں۔ اس زمانے میں ہم ان بحثوں کو روشن خیالی سے تعبیر کرتے تھے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ لوگ گھنٹوں بیٹھ کر بحث کرتے رہتے تھے۔ ایک شخص کسی چیز کو ثابت کرتا تھا، دوسرا اس کی نفی کرتا تھا۔ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا تھا، کیونکہ معاشرے کے حقائق سے ان بحثوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ لیکن آج جن بحثوں کی ہم بات کر رہے ہیں وہ سماجی مسائل پر مرکوز بحثیں ہیں۔
یا یہی اسلامی بیداری اور اسلامی بیداری کو در پیش مشکلات کا موضوع۔ بعض اسلامی ممالک میں یہ جو عظیم تبدیلی رونما ہوئی ہے، یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے، بہت عظیم واقعہ ہے۔ ایک طالب علم نے بالکل بجا کہا کہ یہ لہر اسلامی جمہوریہ کی اسلامی بیداری سے نکلی۔ ہم اس بات پر اصرار اس لئے نہیں کرتے کہ کچھ ممالک کے لوگوں کو برا نہ لگے لیکن حقیقت یہی ہے۔ بہرحال اسلامی بیداری اپنے آپ میں بہت اہم حقیقت ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ اس لہر کے مخالفین نے جو رد عمل اور جوابی لہریں پیدا کی ہیں ان سے اسلامی بیداری کی لہر ختم ہو جائے گی۔ ایسا نہیں ہے۔ اب یہ بیداری وجود میں آ چکی ہے۔ یہی واقعات جو آپ آج مصر میں اور دیگر مقامات پر دیکھ رہے ہیں، یہ سب اس بات کی علامت ہیں کہ ان ملکوں میں اسلامی بیداری کی گہری جڑیں ہیں لیکن اس لہر کو اچھی قیادت نہیں مل سکی، ذمہ داروں نے بالغ نظری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ایک اہم نکتہ یہی ہے کہ آپ ان خامیوں کو تلاش کریں، دیکھیں کہ ان سے کہاں غلطیاں ہوئیں اور کون سے ایسے کام تھے جو انہیں نہیں کرنا چاہئے تھا لیکن انہوں نے انجام دیا۔ یہ طلبہ کے حلقوں کی ایک اہم بحث ہو سکتی ہے۔ میری نظر میں ان حقائق کو سمجھنا اور پھر ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے پورے عمل کا مصر جیسے عظیم ملک میں آنے والے انقلاب سے موازنہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں یہ مشکلات کھڑی ہو گئی ہیں۔ اس وقت مصر کے حالات بڑے دردناک حالات ہیں۔ ہم ان مناظر کو دیکھتے ہیں تو واقعی بڑے دردناک مناظر محسوس ہوتے ہیں۔ یہ ان غلطیوں کا نتیجہ ہے جو انجام دی گئیں۔ کچھ کام ایسے کئے گئے جو نہیں ہونے چاہئے تھے، کچھ کام بہت ضروری تھے جنہیں انجام نہیں دیا گیا۔ ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جو کچھ اسلامی جمہوریہ ایران میں انجام دیا گیا اس کا تقابلی جائزہ لینا چاہئے۔ ایران میں شروع سے کس نہج پر کام ہوا اور وہاں کیا طرز عمل اختیار کیا گیا؟ میری نظر میں یہ بہت اہم ہے۔ اس وقت استکبار نے عجیب محاذ بندی کی ہے، اس نے اس بیداری کی مقابل بہت طویل محاذ تشکیل دیا ہے، اس کا ایک حصہ آپ ان ممالک میں رونما ہونے والے واقعات کی صورت میں اور خود ہمارے ملک کے اندر ہونے والے واقعات کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ بہت اہم اور عظیم کام ہے۔
ایک اور اہم موضوع جس پر بحث اور تحقیق کی جا سکتی ہے، علاقائی مسائل کے سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت عملی کی گہرائی ہے۔ علاقائی مسائل پر نظر ڈالنے سے جو حقیقت واضح طور پر محسوس ہوتی ہے وہ اس علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی اسٹریٹیجی کی گہرائی ہے۔ کچھ جگہوں پر رونما ہونے والے واقعات ہمارے اپنے وطن عزیز کی بنیادوں کے استحکام کا باعث بن سکتے ہیں، خیمے کو روکے رکھنے والی مضبوط رسیوں کا کردار ادا کر سکتے ہیں، یہ سب حکمت عملی کی گہرائی کے ثمرات ہیں۔ یہ جو آپ دیکھتے ہیں کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اس زمانے میں ملک سے باہر انقلابوں کے بارے میں اور انقلاب کی محوری شخصیات کے بارے میں ہمیشہ واشگاف الفاظ میں اپنا موقف بیان کیا تو اسٹریٹیجی میں یہی گہرائی پیدا کرنے کا مقصد سے یہ انداز اختیار کیا اور وہ گہرائی پیدا ہوئی۔ آج استکباری محاذ ہماری اس عمیق اسٹریٹجی کے سامنے بے بسی سے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے مگر وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہا ہے۔
اسی سلسلے میں دشمن ایک اہم حربے کے طور پر شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دے رہا ہے۔ عالم اسلام کے مختلف خطوں میں شیعہ تنظیموں کی سرکوبی کی جا رہی ہے۔ دشمن اس تصور کے تحت کہ شیعہ آبادیاں اسلامی جمہوریہ کے فطری ٹھکانے ہیں، ان مراکز کو ختم کر دینے کے در پے ہے۔ مگر وہ بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے ٹھکانے صرف شیعہ آبادیاں نہیں ہیں، بہت سے ملکوں کے برادران اہل سنت اس انداز سے اسلامی جمہوریہ کا دفاع کرتے ہیں کہ بہت سے شیعہ بھی ایسا دفاع نہیں کرتے۔ بعض انقلاب مخالف عناصر جو ملک کے باہر بیٹھے ہوئے ہیں، بقول آپ کے، سمندر پار زندگی گزار رہے ہیں اور ہمیشہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف زہر افشانی کرتے رہتے ہیں، آپ ان سے سوال کیجئے کہ تمہارا مذہب کیا ہے، جواب دیں گے کہ شیعہ۔ بہت سے مسلمان جو شیعہ اثنا عشری بھی نہیں ہیں، بلکہ زیدی ہیں یا سنی ہیں وہ بھی اسلامی نظام کے دفاع میں اہل تشیع سے کم نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری اسٹریٹیجی کی گہرائی کا اندازہ ہمارے دشمن کو نہیں ہے۔ دشمن جو اقدامات کر رہا ہے بالکل غلط ہیں۔ بنابریں یونیورسٹیوں کے لئے جس ماحول کی ضرورت وہ ایسا ماحول ہے جس میں یہ سیاسی مسائل، سماجی مسائل، زندگی کے حقائق سے وابستہ مسائل زیر بحث آئیں، ان کے سلسلے میں ذہنی پختگی پیدا ہو اور پھر انہیں ملک کے انتظامی عہدیداروں کے سامنے پیش کیا جائے، اسے آپ اسلامی نظام کے لئے علمی و فکری سرمائے کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔ چند روز بعد آپ ہی لوگ ملک کے اعلی عہدیداروں کی حیثیت سے مختلف منصب سنبھالیں گے۔ اس وقت آپ ان چیزوں سے خوب استفادہ کر سکتے ہیں جبکہ آج بھی آپ ان چیزوں کو فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ایک اور اہم میدان، علمی میدان ہے۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہوں گا کہ آج ملک کی ایک اہم ضرورت علمی ضرورت ہے۔ اگر ہم علمی میدان میں تاحال حاصل ہونے والی کامیابیوں کے اس سلسلے کو اسی رفتار سے جار رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو یقینی طور پر اقتصادی شعبے میں بھی، سیاسی شعبے میں بھی، سماجی میدان میں بھی اور عالمی مسائل کے تعلق سے بھی بہت سی رکاوٹیں خود بخود دور ہو جائيں گی۔ علم و دانش کا مسئلہ بے حد اہم ہے۔ گزشتہ دس گیارہ سال کے دوران اس شعبے میں بہت کام ہوا ہے لیکن ابھی اور کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا یہ نظریہ ہے کہ ملک اور یونیورسٹیوں کے اندر علم کام مجاہدانہ انداز میں انجام پانا چاہئے، جہادی انداز سے علمی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ طلبہ سے میری یہ سفارش ہے کہ آپ 'نظریاتی' اساتذہ سے اپنا رابطہ مستحکم کیجئے۔ اس وقت بحمد اللہ یونیورسٹیوں میں 'نظریاتی' اساتذہ کی تعداد کم نہیں ہے، ان سے آپ اپنا رابطہ بڑھائیے۔ فکری مراجع سے خواہ وہ دینی فکری مراجع ہوں یا سیاسی فکری مراجع ہوں جو معتمد علیہ اور پاکیزہ افراد ہیں ان سے اپنا رابطہ بڑھائيے۔ 'نظریاتی' موضوعات کے بارے میں اپنا مطالعہ بڑھائیے یہ طلبہ سے میری ہمیشہ کی سفارش ہے۔
موجود حکومت کے سلسلے میں کیا موقف اختیار کیا جائے اس بارے میں مجھ سے سوال کیا گیا۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ تمام حکومتوں سے بھرپور تعاون کرنا چاہئے اور موجودہ منتخب حکومت بھی اس سے مستثنی نہیں ہے جو ایک دو ہفتے میں باقاعدہ تشکیل پاکر اپنے کام میں مصروف ہو جائے گی۔ بعض دوستوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تب ہم تعاون کریں گے، اگر ویسا ہوا تو تنقید کریں گے۔ میں تنقید کا قطعی مخالف نہیں ہوں لیکن اس بات پر توجہ رہنا چاہئے کہ تنقید اور عیب جوئی میں فرق ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کام کا مناسب موقعہ اور ماحول ملنا ضروری ہے۔ اس وقت جو حکومت مصروف کار ہے میں نے آٹھ سال قبل ان افراد سے جو بہت مصر تھے کہ ہم تنقید کریں گے، یہی کہا کہ کچھ وقت گزرنے دیجئے، اس حکومت کو کچھ موقعہ اور سازگار ماحول مل جائے، کچھ کام کر سکے۔ اس کے بعد اگر خامی نظر آئے تو پھر تنقید کیجئے۔ تنقید میں عجلت پسندی ٹھیک نہیں ہے۔ اس حکومت کے بارے میں بھی اور دیگر تمام حکومتوں کے بارے میں بھی ہمارا یہی نظریہ ہے۔ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ انتظامیہ پر بڑی سنگین ذمہ داریاں ہوتی ہیں، اس کا کام واقعی بہت سخت ہوتا ہے، مجریہ کے شعبے کا کام واقعی بہت دشوار ہوتا ہے۔ سب کو چاہئے کہ حکومت کی مدد کریں۔ ہر انسان کے اندر کچھ خامیاں ہوتی ہیں۔ میں خود کو دیکھتا ہوں تو اپنے اندر بھی کثرت سے خامیاں نظر آتی ہیں۔ دینی طلبہ کے یہاں یہ جملہ بہت رائج ہے کہ جیسے ہی کوئی کچھ کہتا ہے فورا کہنے لگتے ہیں کہ خود کو مت دیکھو۔ لیکن میں تو خود کو دیکھتا ہوں، اپنا جائزہ لیتا ہوں اپنے اندر بہت سی خامیاں دیکھتا ہوں، مجھے لگتا ہے کہ دوسرے افراد بھی ایسے ہی ہوں گے۔ سب کے اندر کچھ خامیاں ہیں، کچھ خوبیاں ہیں، کچھ مشکلات ہوتی ہیں، بنابریں انسان کو چاہئے کہ اپنی توقعات اتنی زیادہ نہ بڑھا لے کہ ان کی تکمیل ایک معقول توانائی سے باہر ہو جائے۔ انسان کو چاہئے کہ حقائق کو مد نظر رکھے، مشکلات کا مشاہدہ کرے، تعاون کرے، اللہ سے دعا کرے کہ اللہ تعالی اس حکومت اور دیگر حکومتوں کی مدد فرمائے کہ وہ اپنے فرائض کو بخوبی انجام دے سکیں، سیاسی کارکن، طلبہ کی سطح پر سرگرم کارکن، ملک کے عہدیدار سب باہمی تعاون سے جملہ امور کو انجام تک پہنچائیں۔
ہمارا وقت اپنے اختتام کو پہنچا، میں آخر میں کچھ دعا کرنا چاہوں گا، آپ پاکیزہ دل نوجوان میرا ساتھ دیجئے کہ یہ دعائیں مستجاب ہوں۔ پروردگار! ہمارے ملک اور ہماری قوم کا مستقبل افتخار آمیز، سعادت بخش اور شیریں مستقبل قرار دے۔ پروردگار! ہماری ملت کو، ہمارے نوجوانوں کو، ہمارے عہدیداروں کو اپنی توفیقات و نصرت و ہدایت کے سائے میں رکھ۔ پروردگار! اسلامی نظام کے بلند اہداف کو مستقبل قریب میں پورا فرما کہ ہمارے یہ نوجوان اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کر سکیں۔ ان اعلی اہداف تک رسائی کے لئے ہمیں ہمت و حوصلہ عطا فرما۔ پروردگار! خطرناک میدانوں میں ہماری قوم اور ہمارے نوجوانوں کی مدد فرما۔ ملت ایران کو دشمنوں پر فتحیاب کر۔ پروردگار! ان پاکیزہ شبوں میں، ان روحانی ایام میں ملت ایران پر اپنی رحمت و برکت نازل فرما۔ پروردگار! ہم نے جو کچھ کہا اور جو کچھ سنا اسے اپنے لئے اور اپنی راہ میں قرار دے۔ حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے قلب مبارک کو ہم سے راضی و خوشنود رکھ۔ شہدا کہ ارواح طیبہ اور ہمارے عظیم الشان امام خمینی کی روح مطہرہ کو ہم سب سے راضی و خوشنود رکھ۔

والسّلام عليكم و رحمةالله و بركاته