قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آغاز میں اسلامی نظام مختلف شعبوں کے حکام کے اس اجلاس کے انعقاد کے اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لئے ہم خیالی و ہم فکری پیدا کرنے، ملکی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے اور اسلامی نظام کے اعلی اہداف کو عملی جامہ پہنانے پر تاکید کی۔
قائد انقلاب اسلامی نے گزشتہ برسوں کے دوران مختلف اقتصادی پالیسیوں کے نوٹیفکیشن جاری کئے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ان پالیسیوں کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا مقصد ہر شعبے کے لئے روڈ میپ پیش کرنا تھا لیکن مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں کے معاملے میں صرف روڈ میپ پیش کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ راستہ طے کرنے کے لئے لازمی اور درست معیارات کا تعین بھی مد نظر رکھا گیا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں کا پورا پیکیج در حقیقت مقامی علمی ماڈل ہے جو اسلامی و انقلابی ثقافت سے ماخوذ ہے اور جو وطن عزیز کی موجودہ اور آئندہ صورت حال سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مزاحمتی معیشت کی پالیسیاں صرف موجودہ حالات کے لئے نہیں ہیں بلکہ یہ ملکی معیشت اور اسلامی نظام کے اعلی اقتصادی مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک دراز مدتی پروگرام ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے ملکی معیشت کو مستحکم بنانے اور مزاحمتی پوزیشن تک پہنچانے کے منطقی اسباب و علل پر روشنی ڈالنے کے بعد مزاحمتی معیشت کے دس اہم عوامل اور فیکٹرز کو بیان کیا۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم‌الله‌الرحمن‌الرحیم

خوش آمدید کہتا ہوں تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو اور شکر گزار ہوں کہ اس دعوت کو آپ نے قبول فرمایا اور اس نشست میں تشریف لائے۔ ان شاء اللہ اپنائیت کے اس ماحول میں جو باتیں پیش کی جائیں گی وہ ملکی ترقی کی راہ میں اور ملک کے اعلی اہداف تک رسائی کے سفر میں مددگار اور آگے کی سمت ایک قدم ثابت ہوں گی۔
آپ برادران و خواہران عزیز کو یہاں تشریف آوری کی یہ زحمت دینے کا مقصد یہ ہے کہ مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں کے بارے میں جس کا حال ہی میں نوٹیفکیشن جاری کیا گيا اور جس کا اعلان کیا گيا (1) ان کے بارے میں تھوڑی گفتگو ہو جائے۔ تاکہ ان پالیسیوں کے جو لوازمات و مقدمات ہیں ان کی قدرے تشریح اور ان پر کسی حد تک تاکید ہو جائے۔ ان اہم اور اساسی پالیسیوں کے تعلق سے جو اہم ذمہ داریاں ہمارے دوش پر ہیں انہیں بیان کر دیا جائے۔ پہلے بھی اقتصادی شعبے سے متعلق گوناگوں پالیسیوں کے نوٹیفکیشن جاری کئے جا چکے ہیں۔ جیسے انرجی کی پالیسی، قومی پیداوار کی پالیسی، دفعہ چوالیس (نجکاری سے متعلق آئینی شق) کی پالیسی، سرمایہ کاری کی سیکورٹی کی پالیسی، پانی کی پالیسی وغیرہ۔ ان پالیسیوں میں توجہ کا مرکز ایک روڈ میپ پیش کرنا ہوتا تھا۔ یعنی مثال کے طور پر اگر قومی پیداوار کے مسئلے میں، پانی کے سلسلے میں، انرجی کے مسئلے میں یا دیگر مسائل میں ہم فریم ورک پیش کرنا چاہتے تھے جس کی بنیاد پر حکام اپنا کام انجام دیں، تو یہ روڈ میپ پیش کیا جاتا تھا۔ لیکن اس دفعہ کی پالیسیوں کے سلسلے میں صرف روڈ میپ نہیں پیش کیا گيا ہے بلکہ اس راستے کو صحیح طور پر طے کرنے کا پیمانہ بھی پیش کیا گيا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ٹریفک کے قوانین اور علامات ہوتی ہیں۔ ان پالیسیوں کی مختلف شقوں میں کچھ فرائض کا تعین کیا گيا ہے جو حقیقت میں اس روڈ میپ کے مطابق درست پیش قدمی کی ضمانت بھی ہیں۔ یعنی یہ کلی، ہمہ گیر اور عمومی پالیسیاں ایسی ہیں کہ ان کے ہر حصے میں کچھ معیارات اور علامات کا تعین کر دیا گيا ہے۔ ان پالیسیوں کی شقوں کے مطالعے میں ان اقدامات اور کاموں کو واضح کر دیا گيا ہے جنہیں انجام دیا جانا ہے۔ مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں کا یہ پیکج در حقیقت ایک مقامی علمی ماڈل ہے جو ہماری اسلامی و انقلابی ثقافت سے ماخوذ ہے اور جو ہماری موجودہ اور مستقبل کی صورت حال سے مطابقت رکھتا ہے۔ میں اس کی تشریح کروں گا کہ یہ ماڈل صرف موجودہ ملکی حالات کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ ملکی معیشت کے لئے ایک دراز مدتی تدبیر ہے جس سے اقتصادی شعبے میں اسلامی جمہوری نظام کے اہداف کی تکمیل ہو سکتی ہے، جس سے ہماری مشکلات کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس میں بڑھنے اور وسعت پانے کی صلاحیت بھی ہے، یعنی ان پالیسیوں کو ایسے فریم ورک کی بنیاد پر تیار نہیں کیا گيا ہے جس پر جمود طاری ہو، یہ ارتقائی عمل طے کرنے والا ماڈل ہے، مختلف حالات سے جو بعض ادوار میں پیدا ہو جاتے ہیں، خود کو ہم آہنگ کرنے والا ماڈل ہے۔ یہ عملی طور پر ملکی معیشت میں ایک طرح کی لچک پیدا کر دے گا یعنی گوناگوں جھٹکوں کے نتیجے میں جن کا میں ابھی ذکر کروں گا، اس معیشت کو ٹوٹ جانے اور بکھر جانے کا اندیشہ نہیں رہے گا۔ یہ ماڈل صاحب نظر افراد کی بحث و گفتگو اور اتفاق رائے سے اسی طرح عدلیہ، مقننہ اور مجریہ کے سربراہوں کی موجودگی میں تشخیص مصلحت نظام کونسل کی بحث و گفتگو کے بعد تیار کیا گيا ہے۔ اس عمل میں ماہرین اقتصادیات کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ اس اقتصادی ماڈل کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس پر سب کا اتفاق رائے ہے۔ یعنی تشخیص مصلحت نظام کونسل میں اس پر باقاعدہ بحث ہوئی ہے، باریکیوں کا جائزہ لیا گيا ہے، اس کے تمام پہلوؤں کو زیر بحث لایا گيا ہے۔ اس کونسل میں تینوں شعبوں کے سربراہ شامل ہیں دوسرے بھی بہت سے عہدیدار موجود ہیں، سب نے باقاعدہ بحث کی، غور کیا، جائزہ لیا اور بڑے محکم انداز میں اسے تیار کیا گیا ہے۔
مزاحمتی معیشت کی جانب یہ رجحان صرف ہم سے مختص نہیں ہے۔ آج بہت سے ممالک میں خاص طور پر ان حالیہ برسوں کے دوران دنیا میں جو شدید اقتصادی جھٹکے دیکھنے میں آئے ہیں ان کی وجہ سے بہت سے ممالک اپنی اپنی معیشتوں کو مستحکم بنانے کی فکر میں لگ گئے ہیں۔ البتہ ہر ملک کے اپنے خاص حالات ہیں۔ سرمایہ دارانہ معیشت کی جو مشکلات اور خامیاں ہیں، وہ مغرب اور امریکا سے شروع ہوئیں اور بہت سے ملکوں میں پھیل گئیں۔ مجموعی طور پر عالمی معیشت پیکر واحد کی مانند ہے جس کے اجزا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ لہذا ان مشکلات سے تمام ملکوں کا متاثر ہونا فطری تھا۔ کچھ ممالک کم متاثر ہوئے کچھ پر زیادہ اثر پڑا۔ لہذا بہت سے ممالک اب اس فکر میں لگ گئے ہیں کہ اپنی معیشت کی بنیادیں مضبوط کریں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ اپنے اپنے خاص حالات کے مطابق اسی مزاحمتی معیشت کی منصوبہ بندی کریں اور اسے جامہ عمل پہنائیں۔ میری نظر میں ہمیں مزاحمتی معیشت کی ضرورت دوسرے ممالک سے زیادہ ہے۔ ہمیں دوسروں سے زیادہ اس بات کی احتیاج ہے کہ اپنی معیشت کو مستحکم کریں۔ اس کی ایک وجہ تو ہمارے اور دیگر ممالک کے درمیان مشترکہ طور پر موجود ہے کہ ہم بھی عالمی معیشت سے وابستہ ہیں اور اس رابطے کو ہم جاری بھی رکھنا چاہتے ہیں، ہم عالمی معیشت سے الگ اور جدا ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے، دنیا کی موجودہ صورت حال میں یہ ممکن بھی نہیں ہے۔ لہذا عالمی معیشتوں میں جو تغیرات پیش آتے ہیں ان سے ہم بھی متاثر ہوتے ہیں۔ دوسری وجہ وہ خصوصیت ہے جو ہمارے یہاں پائی جاتی ہے۔ ہم اپنی خود مختاری کی وجہ سے، اپنے وقار کی وجہ سے، بڑی طاقتوں کی پالیسیوں کے دباؤ میں کام نہ کرنے پر اپنے اصرار کی وجہ سے حملوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ آپ معروضی حالات میں مشاہدہ کر رہے ہیں، ہمارے سلسلے میں مخالفت و مخاصمت، رخنہ اندازی کی کوششیں، بہانے بازی، اور مشکل تراشی کی کوششیں دوسرے ملکوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ لہذا ہمیں اس بات پر زیادہ توجہ دینا چاہئے کہ ہماری معیشت کے ستون اور بنیادیں زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوں۔ اپنی معیشت کو ایسی پوزیشن میں نہ رہنے دیں کہ ناگزیر تغیرات اور بدخواہوں کے عزائم اس پر اثر انداز ہو سکیں۔ تو ہمیں اس کی ضرورت ہے۔
میں مزاحمتی معیشت کے ماڈل کی خصوصیات اور اہم عوامل کی ایک اجمالی فہرست آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گا۔ پہلے ان عوامل کی فہرست اور اس کے بعد یہ نکتہ بیان کروں گا کہ ہم موجودہ دور میں مزاحمتی معیشت کو ایک اہم ضرورت اور احتیاج کیوں سمجھتے ہیں اور کیوں اس کے لئے کوشاں ہیں، تیسرے حصے میں ان لوازمات اور ضروری اقدامات کی طرف اشارہ کروں گا جو ہمیں انجام دینے ہیں۔
میں اپنی گفتگو کے پہلے حصے میں دس خصوصیات کا ذکر کروں گا جو میں نے نوٹ کر رکھی ہیں، یہ اس مزاحمتی معیشت کی خصوصیات ہیں اور در حقیقت اس پیکیج کے عناصر و عوامل ہیں۔ ایک ہے ملکی معیشت میں رونق اور تحرک پیدا کرنا اور اہم معیاروں جیسے اقتصادی نمو، قومی پیداوار، روزگار، افراط زر میں کمی، پروڈکٹیوٹی میں اضافہ، رفاہ عامہ کی صورت حال کو بہتر بنانا۔ ان پالیسیوں میں ملکی معیشت کی رونق اور تحرک اور ان معیاروں کی بہتری کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ انہیں معیاروں میں سماجی مساوات کا انتہائی اہم اور کلیدی معیار بھی ہے۔ یعنی ہم سماجی انصاف سے عاری اقتصادی رونق کی ہرگز حمایت نہیں کرتے، ہم اسے قبول نہیں کرتے۔ بعض ممالک ہیں جن کی اقتصادی ترقی کا گراف تو بہت اچھا ہے، قابل تعریف ہے، اقتصادی نمو بہت اچھا ہے لیکن تفریق، طبقاتی فاصلہ اور مساوات و انصاف کا فقدان انہی ملکوں میں صاف محسوس ہوتا ہے۔ ہم اسے اسلام کی منشا اور اسلامی جمہوریہ کے اہداف کے منافی مانتے ہیں۔ بنابریں ہمارا ایک اہم معیار سماجی انصاف کا معیار ہے۔ محروم طبقات کو ملک کی اقتصادی ترقی سے حقیقی معنی میں فائدہ پہنچنا چاہئے۔ یہ تو رہا سب سے پہلا فیکٹر۔
دوسرا فیکٹر ہے مشکلات پیدا کرنے والے عوامل و اسباب کا سامنا کرنے کی توانائی۔ ان پالیسیوں میں اس فیکٹر کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے، اس پر دھیان دیا گیا ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا، بعض ملکوں کی معیشتوں کو متاثر کرنے والے اسباب میں عالمی سطح پر اقتصادی میدان میں ہونے والی دگرگونی ہے جو پیش آئی۔ جیسا کہ حالیہ برسوں میں ہم نے دیکھا یا دوسرے مواقع پر بھی یہ صورت حال پیش آ چکی ہے اور اس نے دنیا کے ملکوں کو متاثر کیا ہے۔ میں نے ایک بار کہا تھا کہ جنوب مشرقی ایشیا کے ایک ملک کے سربراہ تشریف لائے تھے اور انہوں نے مجھ سے ملاقات کی تھی۔(2) اس زمانے میں اس خطے میں ایک عجیب و غریب انتشار کی صورت حال تھی۔ اس صدر نے مجھ سے کہا کہ آپ بس اتنا سمجھ لیجئے کہ راتوں رات ہمارا ملک دولت مند سے غریب ملک بن گیا! غیر مستحکم معیشت اسی کو کہتے ہیں۔ تو معیشتوں کو متاثر کرنے والا ایک اہم فیکٹر عالمی سطح کی ناموافق تبدیلیاں ہیں جو ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ ان تبدیلیوں اور دگرگونیوں میں ایک تو ہے قدرتی آفات اور دوسرے مخاصمانہ اقدامات جیسے پابندیاں وغیرہ۔ آپ فرض کیجئے کہ فیصلہ کرنے والے مراکز یہ فیصلہ کریں تیل کے بارے میں اور تیل کی قیمت مثال کے طور پر چھے ڈالر فی بیرل کر دیں، ایسا ہمارے ساتھ ہو چکا ہے، ان میں سے بہت سی باتیں معمول کا حصہ نہیں ہوتیں بلکہ منصوبہ بندی کے ساتھ، فیصلہ کرکے اور طے شدہ عزائم کے ساتھ انجام دی جاتی ہیں، کچھ مراکز ان کے لئے کام کرتے ہیں۔ تو دوسرا اہم فیکٹر ہے مزاحمت کی توانائی اور خطرہ پیدا کرنے والے عوامل کا سامنا کرنے کی قوت جس کی تشریح میں نے کی۔
تیسرا اہم نکتہ ہے داخلی توانائیوں پر تکیہ کرنا، ان پالیسیوں میں اس چیز کو مد نظر رکھا گیا ہے، میں ان توانائیوں اور صلاحیتوں کے بارے میں مختصر تشریح پیش کرنا چاہوں گا؛ علمی استعداد اور صلاحیتوں کے اعتبار سے، افرادی قوت کے اعتبار سے، قدرتی ذخائر کے اعتبار سے، مالیاتی وسائل کے اعتبار سے اور جغرافیائی خصوصیات کے اعتبار سے ہمارے پاس بے پناہ اور نہایت اہم صلاحیتیں ہیں۔ مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں میں اصلی بنیاد اور تکیہ گاہ داخلی توانائیوں کو قرار دیا گیا ہے جو بہت وسیع پیمانے پر موجود ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم بیرون ملک موجود وسائل و امکانات پر اپنی آنکھ بند کر لیں۔ نہیں، ہم ان سے بھی یقینی طور پر استفادہ کریں گے، بھرپور استفادہ کریں گے لیکن ہم بنیادی طور پر داخلی وسائل و امکانات پر تکیہ کریں گے اور اپنے اندرونی ذحائر کو اپنا محور قرار دیں گے۔
چوتھا نکتہ ہے مجاہدانہ طرز عمل، ان پالیسیوں میں اسے مد نظر رکھا گیا ہے۔ مجاہدانہ ہمت و حوصلہ اور مجاہدانہ نظم و نسق۔ معمول کی رفتار اور کام سے پیشرفت حاصل نہیں ہوتی، عام رفتار اور کبھی کبھی بے توجہی اور تساہلی کے ساتھ چلنے کی صورت میں عظیم کارنامے انجام نہیں دئے جا سکتے۔ اس کے لئے مجاہدانہ ہمت و حوصلہ درکار ہوتا ہے، مجاہدانہ اقدامات اور مجاہدانہ انتظام و انصرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اقدامات انجام دئے جائیں وہ علمی معیاروں پر پورے اترتے ہوں، بھرپور انداز میں انجام دئے جائیں، منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دئے جائیں اور مجاہدانہ روش اختیار کی جائے۔ گزشتہ ہفتوں کے دوران تینوں شعبوں کے سربراہوں سے میری جو ملاقات ہوئی (3) اس میں میں نے اس بات کو پیش کیا۔ صدر محترم کی زبانی یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ حکومت کے اندر جو افراد ان امور پر مامور ہیں وہ بھی مجاہدانہ انداز سے اور پوری لگن کے ساتھ یہ کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے، یہ ضروری ہے، اس کے بغیر آگے بڑھ پانا ممکن نہیں ہے۔
پانچواں نکتہ جو ان پالیسیوں میں مد نظر رکھا گیا ہے وہ ہے عوام کا محوری رول۔ تجربات سے بھی ثابت ہے اور اسلامی تعلیمات میں بھی اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ جب عوام الناس میدان میں اترتے ہیں تو دست قدرت الہی بھی ان کی مدد کرتا ہے۔ یَدُ اللهِ مَعَ الجَماعَة؛ (4) جہاں بھی عوام الناس ہوں گے عنایت خداوندی، نصرت الہی اور حمایت پروردگار بھی ان کے ساتھ ہوگی۔ اس کی مثال آٹھ سالہ مقدس دفاع ہے، اس کی ایک اور مثال خود اسلامی انقلاب ہے، اس کی ایک اور مثال گزشتہ پینتیس سال کے دوران انتہائی دشوار مراحل سے کامیابی کے ساتھ ہمارا گزرنا ہے۔ چونکہ عوام میدان میں موجود تھے لہذا کام انجام پاتے رہے۔ ہم نے اقتصادی میدان میں اس مسئلے کو کما حقہ اہمیت نہیں دی۔ دفعہ چوالیس کی پالیسیاں جو ہم نے منظور کیں اور جن کا نوٹیفکیشن جاری کیا ان کا مقصد یہی تھا لیکن ان پالیسیوں پر کما حقہ عمل نہیں ہوا۔ میں نے انہی برسوں میں اسی جگہ پر حکام کے ساتھ ملاقات میں دفعہ چوالیس کی پالیسیوں کے بارے میں گفتگو کی (5)۔ سب نے تائید بھی کی، عملی طور پر کچھ اقدامات بھی انجام دئے گئے جس پر اظہار تشکر کرنا چاہئے۔ لیکن جو حق تھا وہ ادا نہیں ہوا۔ ہمیں عوام پر تکیہ کرنا چاہئے، عوام کو اہمیت دینا چاہئے، عوام اپنے وسائل کے ساتھ اقتصادی میدان میں اتریں، ماہرین، تجربہ کار افراد، صنعت کار، سرمایہ دار، ملک کے اندر موجود یہ بے پناہ توانائیاں یہ میدان میں آئيں۔ میں برسوں سے عوام کے مختلف طبقات سے باقاعدہ رابطے میں ہوں لیکن اس کے باوجود بسا اوقات ایسی چیزیں نظر آ جاتی ہیں جو میرے لئے بالکل نئی ہوتی ہیں جن سے میں اب تک ناواقف تھا۔ ملک کے اندر کام کے لئے پوری طرح آمادہ، مہارت رکھنے والے، خلاقانہ صلاحیتوں کے مالک، ٹکنالوجی سے آگاہ اور سرمایہ رکھنے والے افراد کی بہت بڑی تعداد ہے، وہ کام کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت انہیں میدان میں لانے کے لئے راستہ ہموار کرے، ان کی رہنمائی کرے وہ کہاں مصروف کار ہو سکتے ہیں، ان کی پشت پناہی کرے، حکومت کی بنیادی ذمہ داری یہی ہے۔ حکومت کی اقتصادی سرگرمیوں کا جہاں تک سوال ہے تو کچھ شعبے ایسے ہیں جہاں اس کی شمولیت ضروری ہے تو وہ شمولیت رہے لیکن اقتصادی سرگرمیوں کی بنیادی ذمہ داری عوام کو دی جائے۔ ان پالیسیوں میں اس بات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
چھٹا مسئلہ اشیائے ضروریہ کی سیکورٹی سے متعلق ہے۔ ان اشیاء میں سب سے پہلے غذائی اشیاء اور دواؤں کا نمبر آتا ہے۔ ملک کی داخلی پیداوار کی اس طرح منصوبہ بندی کی جائے کہ حالات کیسے بھی ہوں، غذائی اشیاء اور دواؤں کے مسئلے میں وطن عزیز کو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ یہ ان پالیسیوں کا بہت اہم فیکٹر ہے جن کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ ہمیں خود کفیل ہونا ہے، ہمیں خود کفائی کی منزل تک پہنچانے والے راستوں اور مقدمات پر بھرپور طریقے سے توجہ دینا چاہئے۔
ساتواں نکتہ، تیل پر انحصار میں کمی ہے۔ ہماری معیشت کی ایک بڑی کمزوی تیل پر اس کا انحصار ہے۔ دسیوں سال کی مدت کے دوران یہ عظیم خداداد نعمت سیاسی، اقتصادی اور سماجی میدانوں میں مشکلات کا باعث بنی۔ ہمیں اس کا بنیادی حل تلاش کرنا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ تیل کو استعمال ہی نہ کیا جائے، ہمارا یہ کہنا ہے کہ تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا استعمال کمترین سطح تک پہنچایا جائے۔ تیل کو ایک پروڈکٹ کے طور پر رکھا جائے، ان پالیسیوں میں اس پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ تو ایک اساسی اور بنیادی کام یہی ہے جو انجام پانا چاہئے۔ اس کے لئے بلند ہمتی کی ضرورت ہے اور ہم نے ان پالیسیوں کے نوٹیفکیشن کی تیرہویں شق میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اس شق پر سنجیدگی سے عمل کیا جانا چاہئے۔
آٹھواں مسئلہ معیار صرف کی اصلاح کا ہے۔ کفایت شعاری کا مسئلہ، فضول خرچی سے اجتناب، اسراف سے پرہیز، فالتو اخراجات سے اجتناب۔ البتہ اس سلسلے میں سب سے پہلے میرا خطاب حکام سے ہے۔ حکام صرف اپنی ذاتی زندگی میں نہیں جو دوسرے درجے کا مسئلہ ہے، بلکہ اپنے دائرہ کار کے اندر اور اپنے ادارے میں اسراف کو روکیں۔ اگر اس میں کامیابی مل جائے یعنی ہم حکام اس اصول کے پابند ہو جائیں تو یہ جذبہ اور مزاج، یہ عادت اور یہ اخلاق عوام میں بھی سرایت کریگا۔ آج ہم عوام کے درمیان اور ان لوگوں میں بھی جو متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اسراف اور فضول خرچی دیکھ رہے ہیں، بہت سے مواقع پر ہمیں اسراف دکھائی دیتا ہے۔ عوام سے بھی ہم گزارش کریں گے لیکن یہ «کونوا دُعاةَ الناسِ بِغَیرِ اَلسِنَتِکُم» (6) کی منزل ہے۔ حکام کو چاہئے کہ اپنے ادارے میں اس نکتے پر توجہ دیں۔ اسراف نہ ہونے پائے۔ اخراجات کا جو معیار بنایا جائے وہ حقیقت میں عاقلانہ، مدبرانہ اور اسلامی ہو۔ ہم عوام سے یہ نہیں کہتے کہ خود کو ہلکان کر لیں، ممکن ہے بعض افراد ہماری بات کو اسی انداز سے پیش کریں۔ مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو ابھی اس کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ کچھ لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ لوگ تو عوام کو مفلوک الحالی کی زندگی گزارنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ جی نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر ان پالیسیوں پر عملدرآمد ہوا تو عوام کی حالت میں بہتری آئیگی۔ کمزور طبقات کی حالت بہتر ہوگی۔ جس ملک میں افراط زر مناسب سطح پر ہو، روزگار کے مواقع مناسب انداز میں موجود ہوں، وہاں عوام چین و سکون کے ساتھ آسودہ زندگی گزاریں گے۔ ہم عوام سے کبھی نہیں کہیں گے کہ مفلسانہ زندگی گزاریں۔ ہمارا بس یہ کہنا ہے کہ فضول خرچی نہ ہو، استعمال کرنا الگ چیز اور غلط استعمال کرنا ایک الگ بات ہے۔
میں نے چند سال قبل آغاز سال کی اپنی تقریر میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی تھی (7)۔ ہم عہدیداروں کو چاہئے کہ اسے اپنا مطمح نظر بنائیں۔ پانی کے استعمال میں اسراف، روٹی کے استعمال میں اسراف، غذائی اشیاء کے استعمال میں اسراف، دواؤں کے استعمال میں اسراف، سامان کے استعمال میں اسراف، آرائش اور سجاوٹ کی اشیاء کے استعمال میں اسراف، ان چیزوں سے ملک کے اہم ذخائر کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔ یہ ان چیزوں میں ہے جن پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صحیح اور درست استعمال، اسراف، تضییع اور فضول خرچی سے الگ روش ہے۔
نواں مسئلہ بدعنوانی کے سد باب کا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عوام الناس اقتصادی میدان میں قدم رکھیں تو اس شعبے کو تحفظ دینا ہوگا۔ اگر تحفظ دینا ہے تو بدعنوان عناصر، غلط فائدہ اٹھانے والوں، قانون شکنی کرنے والوں اور قانون کو چکمہ دینے والوں پر لگام لگانی ہوگی۔ اسی کو بدعنوانی کا سد باب کہتے ہیں، اس پر سنجیدگی سے عمل ہونا چاہئے۔ خوشی کی بات یہ کہ آج کل حکام کے بیانوں میں بھی یہ بات بار بار سنائی دے رہی ہے لیکن صرف کہنا کافی نہیں ہے۔ مجریہ، عدلیہ اور مقننہ سے تعلق رکھنے والے تمام حکام کے شانے پر اس سلسلے میں اہم ذمہ داریاں ہیں۔ اگر معاشرے اور ملکی معیشت کی حالت ایسے مکان کے جیسی ہو جس میں دروازہ نہ لگا ہو، جو چاہے اس میں داحل ہو جائے، جیسے چاہے اس میں رہے، جو چاہے اٹھا کر لے جائے، استعمال کرے تو ظاہر ہے کہ شریف انسان جو حلال راستے سے روزی حاصل کرنے کا قائل ہے، وہ ہرگز اس کا رخ نہیں کرے گا۔ حالات میں استحکام ہونا چاہئے۔ اس طرح کے حالات ہوں تبھی کوئی سرمایہ کار کام کرنے پر تیار ہوگا اور اسے احساس تحفظ رہے گا۔ ایسے حالات اور ماحول میں اگر کوئی بھی شخص اپنی جدت عملی اور لگن کے ذریعے، اپنے سرمائے اور سرمایہ کاری کے ذریعے دولتمند ہو جاتا ہے تو اسلامی نظام اس کی حمایت کرے گا، اس کی پشت پناہی کرے گا۔ اگر اس طرح کا صحتمند ماحول قائم ہو جائے تو دولت کا حصول اور آمدنی مباح ہوگی اور اسلامی نظام بھی اس کا حامی ہوگا۔ یہ نواں نکتہ ہے۔
مزاحمتی معیشت کی کلی پالیسیوں کا دسواں نکتہ علم و دانش کے محور پر ان پالیسیوں کا استوار ہونا ہے۔ یہ بہت اہم خصوصیت ہے۔ خوش قسمتی سے آج علم و دانش اور سائنس و ٹکنالوجی کے اعتبار سے ملک جس مقام پر ہے اس کے پیش نظر ہم اس طرح کی بڑی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں اور اپنی معیشت کو 'نالج بیسڈ' معیشت بنانے کی بات کر سکتے ہیں۔ میں بعد میں اس سلسلے میں کچھ تفصیلات بیان کروں گا۔ ہمارے ملک میں ماہر افراد، سائنسدانوں، 'نالج بیسڈ' کمپنیوں اور خلاقانہ صلاحیتوں کے مالک لوگوں کی خاصی تعداد ہے، بہترین افرادی قوت ہے۔ اگر ہم اس دسویں نکتے پر پوری طرح توجہ دیں تو علم و سائنس سے دولت و ثروت تک کا سلسلہ فعال ہو جائے گا اور اس میں وسعت آئیگی۔ ان شاء اللہ مزاحمتی معیشت میں یہ ہدف ضرور حاصل ہوگا۔ یہ وہ اہم خصوصیات اور عوامل ہیں جنہیں ان پالیسیوں کے تعین میں مد نظر رکھا گیا ہے۔ دوسری بھی بہت سی اہم باتیں ہیں جو پالیسیوں کے متن میں موجود ہیں، تاہم ان میں سب سے اہم یہ دس نکات تھے جو میں نے بیان کئے۔
اب سوال یہ ہے کہ معروضی حالات میں مزاحمتی معیشت کا موضوع اٹھانے کا کیا یہ مقصد ہے کہ ہم ایک عارضی منصوبے پر عمل کرنا چاہتے ہیں؟ چونکہ اس وقت ہمارے ملک کو پابندیوں، دباؤ اور اقتصادی جنگ کا سامنا ہے لہذا اس اقتصادی لشکر کشی کا سامنا کرنے کے لئے ہم پالیسی ساز اور آپریشنل ٹیمیں بنا رہے ہیں اور اسی سلسلے میں ہم نے ان پالیسیوں کو وضع کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ نہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ دراز مدتی پالیسیاں ہیں، موجودہ دور کے لئے بھی مفید ہیں اور ایسے حالات کے لئے بھی کارآمد ہیں جب ہمارے اوپر کسی قسم کی پابندی نہ ہو۔ یعنی یہ ایسی دراز مدتی پالیسیاں ہیں جن پر ملکی معیشت کی بنیاد رکھی جانی ہے، یہ وقتی تدبیر نہیں ایک دراز مدتی روڈ میپ ہے، ایک اسٹریٹیجک پالیسی ہے۔ ہمارا ملک ایک بڑا اور قدیم تاریخ کا مالک ملک ہے، اپنا ایک مقام رکھتا ہے، آج دنیا میں بڑا باوقار ملک سمجھا جاتا ہے، ارتقائی عمل طے کرنے والی ثقافت، درخشاں ماضی اور اعلی اہداف رکھنے والا ملک ہے جس کے پاس بیان کرنے کے لئے اپنی باتیں ہیں۔ اتنی خصوصیات کے مالک ملک کی معیشت میں وہی خصوصیات ہونی چاہئے جن کا ذکر مزاحمتی معیشت کی پالیسیوں میں کیا گيا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ پالیسیاں رجعت پسندانہ نہیں ہیں۔ خود کو خود ساختہ خول میں محصور کر لینے والی پالیسیاں نہیں ہیں کہ اگر دنیا میں کوئی نئ فکر اور نیا آئیڈیا معرض وجود میں آئے تو یہ معیشت اسے اپنے اندر جگہ نہ دے سکے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اس میں بڑی لچک اور گنجائش ہے۔ اس میں اضافہ ہو سکتا ہے، اس میں وسعت پیدا کی جا سکتی ہے، لیکن اس کا مرکزی راستہ بدلنے والا نہیں ہے۔
ہم نے نوٹیفکیشن کا جو متن تیار کیا اس کے مقدمے میں چار نکات کو یہ پالیسیاں تیار کرنے کے اہم محرکات اور اسباب کے طور پر ذکر کیا ہے۔ یہ چاروں نکات میں یہاں بھی بیان کرنا چاہوں گا۔ ان میں ایک تو ملک کے اندر وسیع پیمانے پر موجود مادی و روحانی توانائیاں اور صلاحیتیں ہیں، نوٹیفکیشن میں پالیسیوں کے مقدمے میں میں نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ ملک کے اندر موجود توانائیاں بہت زیادہ ہیں۔ ہم میں سے بہت افراد ان حیرت انگیز صلاحیتوں کی وسعت سے آگاہ نہیں ہیں، یا ان کی اہمیت پر غور نہیں کرتے۔ یعنی ہم جانتے ہیں، ہمارے پاس اعداد و شمار ہیں مگر غور نہیں کرتے۔ بعض حکام ایسے بھی ہیں، جن کے پاس اعداد و شمار ہیں لیکن ان اعداد و شمار کی اہمیت پر توجہ نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر افرادی قوت جس کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا۔ ہم آج افرادی قوت کے اعتبار سے اور نوجوانوں کی تعداد کے اعتبار سے بہترین پوزیشن میں ہیں۔ اس وقت ہماری اکتیس فیصدی سے زیادہ آبادی پندرہ سے انتیس سال کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ بہترین صورت حال بلکہ غیر معمولی حد تک اچھی صورت حال ہے۔ البتہ میں آبادی بڑھانے کے سلسلے میں جس چیز پر بار بار تاکید کر رہا ہوں، اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو وہ دن دور نہیں جب ہماری یہ اہم خصوصیت سلب ہو جائیگی۔ نسل میں اضافے کے موضوع پر بھی پالیسیاں وضع کی جا رہی ہیں اور ان کا بھی نوٹیفکیشن جاری کیا جائیگا۔ تو ہماری موجودہ پوزیشن یہ ہے: اکتیس فیصدی سے زیادہ آبادی نوجوانوں کی ہے۔ اوائل انقلاب کے مقابلے میں اس وقت ہمارے ملک میں اسٹوڈنٹس کی تعداد پچیس گنا زیادہ ہو چکی ہے۔ اس وقت کے مقابلے میں ہماری آبادی دگنی ہوئی ہے لیکن طلبہ کی تعداد پچیس گنا زیادہ ہے۔ طلبہ کی تعداد بڑھ کر اکتالیس لاکھ ہو گئی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ بہت عظیم تبدیلی ہے۔ یہ نمو بھی بہت اہمیت رکھتا ہے اور ہمارا یہ سرمایہ بھی جو اس وقت ہمارے پاس ہے بیش بہا ہے۔ یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کر چکے افراد کی تعداد ایک کروڑ ہے۔ اکیڈمک بورڈوں کے ارکان کی تعداد پینسٹھ ہزار ہے جو اوائل انقلاب کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے۔ نالج بیسڈ کمپنیوں کی تعداد پانچ ہزار ہے جن میں سترہ ہزار ماہرین اور اسپیشلسٹ مصروف کار ہیں۔ آپ غور کیجئے یہ صلاحیتیں کتنی اہم ہیں؟! آج حالت یہ ہے کہ دنیا میں سائنس و ٹکنالوجی کے اعتبار سے ملکوں کی پوزیشن اور مقام کا تعین کرنے والے مراکز اور ادارے ہمیں دنیا میں پندرہویں مقام پر مانتے ہیں، کچھ اداروں نے سولہویں مقام پر اور کچھ نے پندرہویں مقام پر رکھا ہے۔ البتہ یہ رینکنگ گزشتہ سال 2013 کی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ بعض سائنسی شعبوں میں ہمارا مقام اس سے بہت بالاتر ہے۔ بعض علمی شعبوں میں ہم دنیا کے سات آٹھ ملکوں کے زمرے میں شامل ہیں، بعض میدانوں میں دنیا کے پہلے چار پانچ ملکوں میں ہمارا نام لیا جاتا ہے۔ یہ ہے ہماری افرادی قوت اور آمادگی کا عالم۔
ایک اور اہم توانائی، معدنیاتی سرمائے سے متعلق ہے۔ تیل اور گیس کے اعتبار سے ہم پہلے نمبر پر ہیں۔ میں نے گزشتہ سال نوروز کے موقعے پر کہا تھا (8) کہ تیل اور گیس کو بیک وقت دیکھا جائے تو ہم دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں۔ گیس کے ذخائر کے اعتبار سے ہم دوسرے نمبر ہیں اور تیل کے اعتبار سے دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہیں لیکن حال ہی میں صدر محترم نے ایک رپورٹ مجھے پیش کی جس کی بنیاد پر ہم گیس کے ذخائر کے اعتبار سے آج دنیا میں پہلے مقام پر ہیں، اور تیل کے ذخائر کے اعتبار سے حتمی طور پر دوسرا مقام ہمارا ہے، یہ بہت اہم چیز ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جس کے پاس تیل اور گیس دونوں ہمارے وطن عزیز جتنی مقدار میں ہو۔ تیل اور گیس آج کی دنیا کی شہ رگ ہے۔ موجودہ دور میں تو یہی عالم ہے اور آئند برسوں میں بھی یہی صورت حال رہے گی۔ کب انسانیت تیل اور گیس سے بے نیاز ہوتی ہے اور اس کی گلو خلاصی ہوتی ہے ابھی کچھ نہیں معلوم ہے۔ یہ حیاتی اور اساسی مادہ آپ کے ملک میں ساری دنیا سے زیادہ ہے۔ کیا یہ کوئی معمولی توانائی ہے؟ یہ کو‏ئی معمولی بات ہے؟ یہ تو رہا تیل اور گیس کا مسئلہ۔ ہمارے دیگر معدنیاتی ذحائر بھی اسی طرح ہیں۔ سونے کی معدنیات، سیمنٹ کی معدنیات، بیش بہا اور نایاب دھاتوں کی معدنیات۔ جو رپورٹیں ہمیں ملتی ہیں ان میں بعض تو مبہوت کر دینے والی ہوتی ہیں۔ یہ ہیں ہمارے ملک کی صلاحیتیں۔ ہماری صنعتی اور معدنیاتی صلاحیتیں متعدد اقسام کی اور بے پناہ مقدار میں ہیں۔ عالمی رپورٹوں اور اعداد و شمار کے مطابق ہمارا ملک تقریبا ایک ہزار ارب ڈالر کی قومی پیداوار کے ساتھ دنیا کی سترہویں معیشت ہے۔ بنیادی تنصیبات جیسے سڑکیں اور پل، آج ہمارے ملک میں الگ الگ سائز کے چھے سو سے زیادہ پل ہیں۔ جب اسلامی انقلاب نے اس ملک کو اپنے ہاتھ میں لیا تو پورے ایران میں دس پندرہ پل تھے، مگر آج چھے سو سے زیادہ چھوٹے بڑے پل ہیں۔ ان میں بعض تو بڑی کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔ سڑکوں اور شاہراہوں کا بھی یہی عالم ہے، اعداد و شمار بہت اچھے ہیں۔ جغرافیائی محل وقوع، بین الاقوامی بحری حدود تک بآسانی رسائی، شمال جنوب اور مشرق و مغرب چاروں سمتوں کا نقطہ اتصال ہونے کی وجہ سے ٹرانزٹ کے اعتبار سے ہماری بہت اہمیت ہے۔ آب و ہوا کا تنوع، آلودگی سے پاک توانائی جیسے جوہری توانائی، سولر انرجی اور پانی سے تیار ہونے والی انرجی کے مواقع۔ یہ ساری چیزین ملک کے اندر موجود ہیں۔ یہ پہلی وجہ ہے جس نے ہمیں ایسی معیشت کا ماڈل تیار کرنے کی ترغیب دلائی جس کا نام مزاحمتی معیشت ہے۔
دوسری اہم وجہ وہ مشکلات ہیں دو ہمیں در پیش ہیں۔ پرانی اور دائمی مشکلات۔ انہیں ایک اجتماعی اقتصادی مہم کے بغیر ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان میں سے ایک تیل کی آمدنی پر انحصار ہے جس کا ہم نے ذکر کیا۔ ایک اور مشکل امپورٹ کی عادت ہے وہ بھی غیر ترجیحی امپورٹ۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم اس عادت میں مبتلا ہیں، ہم خود کو اس سے نجات نہیں دلا سکے ہیں۔ ہماری نگاہیں غیر ملکی مصنوعات پر لگی رہتی ہیں۔ طویل عرصے سے جاری افراط زر، بے روزگاری، اقتصادی ڈھانچے کے کچھ حصوں میں خامیوں کا موجود ہونا، مالیاتی سسٹم میں موجود خامیاں، ہمارا مالیاتی نطام، ہمارا بنکاری سسٹم، ہمار کسٹم کا نظام، اخراجات کے معیار میں خامیاں، پیداوار کے شعبے کی کمیاں، پروڈکٹیوٹی کے سلسلے میں موجود کمیاں۔ یہ مشکلات آج ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ ہمیں ان خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔ یہ مشکلات بھی ایک اہم محرک ہیں، دردمند انسان اور بلند ہمت عہدیدار کے لئے کہ وہ مزاحمتی معیشت کی تشکیل جیسا کوئی کام کرنے کے بارے میں سوچے۔ یہ مشکلات مجاہدانہ مہم، اجتماعی و دردمندانہ سعی پیہم کے بغیر دور نہیں ہوں گی۔ اس مہم کے کچھ تقاضے ہیں جو میں آپ کی خدمت میں ابھی عرض کروں گا۔
تیسری اہم وجہ غیر ملکی اقتصادی خطرات ہیں۔ پابندیاں پہلے سے ہی موجود تھیں، مگر سنہ 90 (ہجری شمسی مطابق مارچ 2011 الی مارچ 2012) کے موسم گرما سے لیکر اب تک یہ پابنیاں اقتصادی جنگ کی صورت میں آگے بڑھ رہی ہیں۔ اب یہ با ہدف پابندیاں نہیں رہیں، یہ ہماری قوم کے خلاف کھلی اقتصادی لشکر کشی ہے۔ اس کی وجہ نہ تو ایٹمی معاملہ ہے، نہ انسانی حقوق کی صورت حال ہے اور نہ ہی اس جیسے دیگر مسائل۔ اس کی اصلی وجہ جس سے وہ بھی واقف ہیں اور ہم بھی آگاہ ہیں ملت ایران کا جذبہ حریت و خود مختاری ہے، اس کی وجہ اسلام پر استوار ایک نئے پیغام کا حامل ہونا ہے جو دیگر ممالک اور دیگر اقوام کے لئے مثالیہ قرار پا سکتا ہے۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ اگر اسلامی جمہوریہ ان میدانوں میں کامیاب ہو گئی تو دنیا میں اس لہر کو روک پانا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ بڑی اہم تحریک ہے۔ تو اصلی ماجرا یہ ہے۔ اب اس کے لئے کبھی ایٹمی انرجی کا بہانہ تلاش کر لیتے ہیں، کبھی یورینیم کی افزودگی کو بہانہ بنا لیتے ہیں، کبھی انسانی حقوق کی بات کرنے لگتے ہیں کبھی اسی طرح کا کوئی اور شگوفہ چھوڑتے ہیں۔ پابندیاں تو ہم پر اس وقت بھی لگی ہوئی تھیں جب ایٹمی مسئلے کا کہیں کوئی ذکر ہی نہیں تھا، اسی طرح آئندہ بھی یہ پابندیاں موجود رہیں گی۔ یہ ایٹمی مسئلہ اور یہ مذاکرات اگر ان شاء اللہ کسی حل تک پہنچ جاتے ہیں، تب بھی آپ دیکھیں گے کہ یہ دباؤ موجود ہے۔ ہمیں اس دباؤ کے سامنے خود کو مستحکم بنانا ہے، اپنے داخلی ڈھانچے کو مستحکم بنانا ہے۔ اپنی معیشت کو ہم اتنا مستحکم بنا دیں کہ دشمن اسے کوئی نقصان پہنچانے کی طرف سے پوری طرح مایوس ہوجائے۔ جب دشمن پر قنوطیت طاری ہو جائےگی تب عوام بھی مطمئن ہو جائيں گے اور حکام بھی آسودہ خاطر ہوں گے۔
چوتھی وجہ عالمی معاشی بحران ہے۔ اس سلسلے میں پہلے بھی میں نے اشارہ کیا کہ یہ بحران مغربی معیشت اور امریکی اقتصاد سے پیدا ہوا ہے۔ یورپ میں بھی مشکلات امریکی معیشت کے بحران کی وجہ سے بڑھی ہیں، البتہ اس کے عوامل بھی موجود تھے۔ دوسرے ممالک میں بھی یہی ہوا۔ ہم اپنے ارد گرد حصار کھینچ لینے کا ارادہ نہیں رکھتے، ہم نہ تو چاہتے ہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ اقتصادی اعتبار سے ساری دنیا سے قطع تعلق کر لیں۔ یہ چیز نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی مناسب ہے۔ بنابریں ہماری معیشت کا بھی متاثر ہونا طے ہے، تو ہمیں چاہئے کہ اسے مستحکم بنائیں۔ یہ تھے مزاحتمی معیشت کی ضرورت کا احساس پیدا ہونے کے چار محرکات و اسباب اور یہ ہماری اس گفتگو کا دوسرا حصہ تھا۔
تیسرا حصہ توقعات اور تقاضوں کے بارے میں ہے۔ یہ اتنا بڑا منصوبہ، ہمہ گیر اور وسیع روڈ میپ پیش کیا گيا ہے۔ مگر صرف پالیسیوں کو متعارف کرا دینے سے مشکل حل ہونے والی نہیں ہے، یہ تو ابتدائی منزل ہے، بہت کچھ کرنا ابھی باقی ہے۔
سب سے پہلے تو عہدیداروں اور سرگرمیاں انجام دینے والے عوام الناس کا عزم محکم درکار ہے، انہیں چاہئے کہ عزم کریں، سب سے پہلے یہ کام مجریہ کرے، حکومتی عہدیدار کریں، اسی طرح مقننہ اور عدلیہ کے حکام نیز دیگر وہ شعبے جن کا اقتصادی مسائل سے ربط ہے۔ سب کو چاہئے کہ اس مسئلے میں پختہ عزم کے ساتھ کام کریں۔ پختہ عزم اور مضبوط قوت ارادی کے بغیر کوئی بڑا کام انجام نہیں دیا جا سکتا۔
دوسری اہم چیز ہے میدان عمل میں قدم رکھنا۔ اس میدان میں کام کرنا عمل صالح کا مصداق ہے۔ جو بھی اس میدان میں عمل کرے گا یقینی طور پر «وَ عَمِلوا الصالِحات» (9) کا مصداق قرار پائے گا۔ یہ تجویز، یہ عظیم نقشہ راہ، باقاعدہ پروگرام اور پروجیکٹ کی شکل میں تبدیل ہو۔ اگر یہ کام انجام دیا گیا تو گویا ہم حقیقی معنی میں اقتصادی جہاد میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم نے موجودہ (ہجری شمسی) سال کو سیاسی و اقتصادی جہاد کا سال قرار دیا ہے۔ بحمد اللہ سیاسی جہاد تو بھرپور انداز میں انجام دیا گیا لیکن اقتصادی جہاد التوا کا شکار ہوا۔ البتہ سال کے ان آخری ایام میں ان شاء اللہ یہ عمل اقتصادی جہاد کا سرآغاز قرار پائے گا۔ یقینی طور پر سنہ 93 (ہجری شمسی 21 مارچ 2014 الی 20 مارچ 2015) میں حکام سنجیدگی اور محنت سے اقتصادی جہاد کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں گے۔
تیسرا مسئلہ ان پالیسیوں کو اجرائی منصوبوں اور پالیسیوں میں تبدیل کرنا ہے۔ تینوں شعبوں کے سربراہوں نے اس کے لئے ضروری احکامات صادر کر دئے ہیں۔ صدر محترم نے بھی، پارلیمنٹ کے اسپیکر نے بھی اور عدلیہ کے سربراہ نے بھی احکامات جاری کر دئے ہیں اپنے ماتحت اداروں کو احکامات دے چکے ہیں کہ ہر شعبہ اجرائی منصوبے تیار کرے۔ تاہم میں ٹائم ٹیبل اور نظام الاوقات کے تعین پر تاکید کرنا چاہتا ہوں، اس کا شیڈول تیار ہونا چاہئے۔ جو سرکولر محترم نائب صدر نے اداروں کے لئے جاری کیا ہے میں نے وہ دیکھا ہے۔ اس کا شیڈول بھی معین ہونا چاہئے، واضح ہونا چاہئے کہ کتنا کام انجام پایا اور اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے اور اس پر عملدرآمد کے لئے ابھی کتنا انتظار کرنا ہے۔ اس میں سرعت آنی چاہئے۔ ہر ادارے کی ذمہ داری معین ہونا چاہئے۔ خاص طور پر مجریہ میں تمام اداروں کے حصے کا کام واضح ہونا چاہئے۔ علامات اور خاص طور پر مدت کو واضح کرنے والی علامات معین ہونا چاہئے تا کہ صحیح نگرانی کی جا سکے، کام کی پیشرفت کا اندازہ کیا جا سکے اور راستے کی درستگی کا یقین حاصل کیا جا سکے۔
چوتھا مسئلہ مختلف شعبوں کے درمیان ہم آہنگی کا ہے۔ اس ہم آہنگی کا راستہ مجریہ، مقننہ اور عدلیہ کے سربراہوں کو نکالنا ہے۔ ہم آہنگی سے بڑی مدد ملے گی۔ حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان ہم آہنگی، پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ کے درمیان ہم آہنگی۔ کچھ شعبے ایسے ہیں جن میں باہمی ہم آہنگی کے بغیر کام کرنا ممکن نہیں ہے۔ کچھ شعبے ایسے ہوتے ہیں جہاں ہم آہنگی کے بغیر کام تو ممکن ہے لیکن ہم آہنگی کا بہت گہرا مثبت اثر ہے۔ بہرحال یہ بہت ضروری ہے۔ اس کا طریقہ ان تینوں شعبوں کے سربراہوں کو طے کرنا ہے۔
پانچواں مسئلہ ہر سطح پر نظارت و نگرانی کا ہے۔ نگرانی ضروری ہے۔ تینوں شعبوں کے سربراہ بھی اپنے اپنے شعبوں کی مکمل نگرانی کریں، تشخیص مصلحت نظام کونسل بھی اپنی نگرانی کی ذمہ داری پر سنجیدگی سے عمل کرے اور دیکھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ قائد انقلاب کا ادارہ بھی نگرانی کرےگا۔ تو یہ نگرانی بڑی اہم ضرورتوں کا جز ہے۔
چھٹا مسئلہ رکاوٹوں کو دور کرنے کا ہے۔ کچھ رکاوٹیں ہیں جنہیں دور کیا جا سکتا ہے۔ کچھ قانونی رکاوٹیں ہیں۔ میں نے تینوں شعبوں کے سربراہوں کے ساتھ اپنی نشست میں کہا کہ قانون پر قانون وضع کرنا کام کو مشکل کر دیتا ہے، رکاوٹ بننے والے قوانین کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام پارلیمنٹ کر سکتی ہے۔ کیونکہ آج ہمارے پاس قوانین موجود ہیں، اب اگر ہم مزید قانون وضع کریں تو ممکن ہے کہ مشکل ساز ہو۔ اس کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے، توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بہم متصادم قوانین کی نشاندہی کی ضرورت ہے۔ عدالتی رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں، ان کی بھی نشاندہی اور تنسیخ ضروری ہے۔ اقتصادی شعبے میں کام کرنے والے افراد، سرمایہ کاروں، سائنسدانوں، خلاقانہ صلاحیت اور جدت عمل کی مہارت رکھنے والے افراد سب کو یہ محسوس ہو کہ ان کے سامنے کوئی بھی غیر معقول رکاوٹ نہیں ہے اور وہ آسانی سے اپنا کام انجام دے سکیں۔
چوتھا اہم کام ہے ماحول سازی۔ مزاحمتی معیشت کی صحیح تصویر پیش کی جانی چاہئے۔ اس سلسلے میں ملکی ذرائع ابلاغ اور قومی نشریاتی ادارے کی ذمہ داری زیادہ ہے لیکن یہ کام صرف انہیں تک محدود نہیں ہے۔ ہمارے ملک کا مخالف میڈیا، انقلاب مخالف ذرائع ابلاغ، ہماری قومی پیشرفت کے دشمن ذرائع ابلاغ گھات میں ہیں اور انہوں نے اپنا کام شروع بھی کر دیا ہے۔ ہم نے پہلے بھی دیکھا ہے اور آئندہ بھی یہ چیز ہمارے سامنے ہوگی۔ مزاحمتی معیشت کے سلسلے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، اعتراض کرنا، ہنگامہ آرائی کرنا، بے حد اہم چیزوں کو بالکل معمولی ظاہر کرنا، یہ سارے کام وہ کرتے ہیں۔ ہمیں ان کے عین مخالف سمت میں کام کرنا ہے۔ ماحول سازی کرنا ہے تاکہ عوام باخبر ہو جائیں اور یقین کر لیں۔ تب ہم اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا سکیں گے۔
آخری بات یہ عرض کرنا ہے کہ احتساب اور اطلاع رسانی ہونا چاہئے۔ ہمارے پاس نگرانی کا مضبوط مرکز ہونا چاہئے جو اس عمل کی پیشرفت کا باریکی کے ساتھ جائزہ لیتا رہے، اطلاعات جمع کرتا رہے، جائزہ لیتا رہے، نتیخہ اخذ کرتا رہے اور ضرورت کے مطابق ہر مرحلے کے لازمی اقدامات کی نشاندہی بھی کرے۔ ہر شعبے کے لئے پیمانوں کا تعین کیا جائے اور سرانجام عوام کو ساری اطلاعات فراہم کی جائیں۔ عوام باخبر رہنا چاہتے ہیں۔ آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں یہی میرے معروضات ہیں جو میں پیش کرنا چاہتا تھا۔
بہت بڑے کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہم بلند ہمتی کے ساتھ، اللہ تعالی کی ذات پر توکل کرکے بتدریج اور مناسب و لازمی رفتار سے اسے آگے بڑھائیں۔ یہ ایسا منصوبہ ہے کہ جس کے اثرات و ثمرات بہت زیادہ وقت طلب نہیں ہیں۔ یہ ہے تو دراز مدتی منصوبہ مگر اس کے ثمرات بہت جلد نظر آنے لگیں گے ان شاء اللہ۔ یعنی اس عمل کے ثمرات کا آغاز اور عوام کا اپنے اس عمل کے نتائج کی شیرینی کے احساس سے مطمئن ہونا بہت وقت طلب اور دست رسی سے بہت دور نہیں ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اسی حکومت کے دور اقتدار میں، جو ترقی ہو رہی ہے اور جو کام انجام دئے جا رہے ہیں ان کے ثمرات سے عوام بہرہ مند ہوں۔
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ ہم سب کی مدد فرمائے، ہم سب کی ہدایت کرے، ہمیں ہماری خامیوں سے آگاہ کرے، ہمیں اپنی خامیوں اور کمیوں کو سمجھنے والا بنائے، جو کچھ اس کی حوشنودی کا باعث ہے ہمیں اس کی تلقین فرمائے اور اس کی انجام دہی پر ہمیں قادر کرے۔ آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کا شکر گزار ہوں کہ آپ تشریف لائے اور تحمل کے ساتھ ساری باتیں سنیں۔ توقع کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ یہ گفتگو ایک عمومی اقدام اور عمل کا مقدمہ ثابت ہوگی۔

و السلام علیکم و رحمةالله و برکاته

۱) 19 فروری 2014
2) 10 دسمبر 1997
3) 25 فروری 2014
4) نهج‌البلاغه، خطبه‌ ۱۲۷
5) اقتصادی شعبے کے عہدیداروں اور دفعہ چوالیس پر عملدرآمد کے ذمہ دار کی قائد انقلاب اسلامی سے 19 فروری 2006 کو ہونے والی ملاقات
6) بحارلانوار، جلد ۶۷، صفحہ ۳۰۹
7) 21 مارچ 1998
8) 20 مارچ 2012
9) منجملہ سوره‌ عصر، آیه‌۳