آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے امریکی صدر کے خطے کے حالیہ دورے میں ان کے ایک بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے میں امریکی صدر کی بعض باتیں اتنی نچلی سطح کی اور اس کے کہنے والے اور امریکی قوم کے لیے باعث شرم ہیں کہ بنیادی طور پر جواب دینے کے قابل ہی نہیں ہیں۔

انھوں نے ٹرمپ کے اس بیان کو کہ وہ امن کے لیے طاقت کا استعمال کرنا چاہتے ہیں، جھوٹ بتایا اور کہا کہ انھوں نے اور امریکی حکومت نے کب، امن کے لیے طاقت کا استعمال کیا ہے؟ انھوں نے طاقت کا استعمال غزہ میں قتل عام کے لیے اور ہر ممکن جگہ پر جنگ بھڑکانے اور اپنے پٹھوؤں کی حمایت کے لیے کیا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امن و سلامتی کے لیے طاقت کے استعمال کو ممکن بتایا اور کہا کہ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ، دشمن کو برا لگنے کے باوجود، ہر دن اپنی اور ملک کی طاقت میں اضافہ کرتی رہے گي لیکن انھوں نے طاقت کا استعمال کر کے صیہونی حکومت کو دس ٹن والے بم دیے کہ غزہ کے بچوں پر، اسپتالوں پر، لوگوں کے گھروں پر اور لبنان میں اور جہاں چاہے گرا دے۔

انھوں نے امریکی صدر کے پچھلے بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ خطے کے ممالک امریکا کے بغیر دس دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے، کہا کہ وہ اپنے موجودہ لین دین اور تجاویز میں ان پر یہی ماڈل تھوپنے کے درپے ہیں جبکہ یہ ماڈل یقینی طور پر شکست خوردہ ہے اور علاقائي اقوام کے عزم سے امریکا کو اس خطے سے جانا ہوگا اور وہ جائے گا۔

آيت اللہ خامنہ ای نے صیہونی حکومت کو خطے میں برائی، جنگ اور اختلاف کا سبب بتایا اور زور دے کر کہا کہ صیہونی حکومت ایک خطرناک کینسر اور مہلک ناسور ہے جسے اس خطے سے مٹا دیا جانا چاہیے اور ایسا ہو کر رہے گا۔

انھوں نے اپنے خطاب میں اسی طرح کہا کہ آج کے ایران کا کسی بھی طرح گزشتہ کل کے ایران سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا اور اللہ کے فضل و کرم سے اور دشمنوں کی خواہش کے برخلاف ایران عزیز نے پیشرفت کی ہے اور اس کے بعد بھی ہمارے بچے دیکھیں گے کہ خود ان کے تعاون سے ملک، آج سے کئي گنا زیادہ پیشرفت کرے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ تعلیم و تربیت کے ادارے کا ڈھانچہ، طلباء کی علمی، ثقافتی اور ایمانی پرورش کی سمت میں ہونا چاہیے اور کہا کہ ایسے لوگوں کو تعلیم و تربیت کے ادارے کا نیا ڈھانچہ تیار کرنا چاہیے جو ماہر، تجربہ کار اور دین اور ملک کی خودمختاری کے پابند ہوں تاکہ نئے ڈھانچے کی بنیاد پر عالم، متدین، ایران کے عاشق، محنتی اور مستقبل کی طرف سے پرامید بچوں اور نوجوانوں کی تربیت ہو۔

انھوں نے نصابی کتابوں اور سابقہ سفارشوں کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلم دانشوروں کے نام یا امریکا کے جاسوسی کے اڈے کی دستاویز کے بعض صفحات کو درسی کتب میں شامل کیے جانے کو ضروری لیکن ناکافی بتاتے ہوئے کہا کہ نصابی کتابوں کو مضامین کے لحاظ سے شیرین و دلچسپ ہونا چاہیے اور سنگين علمی و سائنسی باتوں کو سلیس اور عام زبان میں طلباء تک پہنچایا جانا چاہیے۔