اسلامی جمہوریہ میں جو ادارے قائم کئے گئے، سماجی، ثقافتی اور مذہبی میدانوں میں جو تناور درخت بارآوری کی منزل تک پہنچے وہ ایک دو نہیں ہیں۔ بحمد اللہ اسلامی جمہوری نظام اور اسلامی انقلاب نے ثابت کر دیا کہ گوناگوں میدانوں میں اس کے پاس پیداواری صلاحیتیں موجود ہیں اور تعمیر و ترقی کی توانائیاں موجزن ہیں۔ اداروں کو وجود میں لانا بھی پیداواری قدرت کی ایک علامت ہے۔ انہیں اداروں میں سے ایک اعتکاف سے متعلق ادارہ ہے جس کے امور کی انجام دہی بحمد اللہ آپ حضرات کے ذمے ہے۔
اعتکاف کا مطلب ہے خود کو کسی معین اور محدود جگہ پر محصور کر لینا۔ عکوف کا مطلب ہے بند ہو جانا۔ خود کو ایک جگہ پر محصور کر لینا تا کہ انسان کا دل و دماغ ہر فکر و خیال سے آزاد ہو اور وہ خالق کائنات سے اخلاص کے ساتھ قلبی رابطہ قائم کرنے کا موقعہ حاصل کر سکے۔ اسے کہتے ہیں اعتکاف۔ اعتکاف ایسی عبادت ہے جس میں ریاضت کا پہلو شامل ہے۔ بہت سی عبادتیں ایسی ہیں جن میں ریاضت کا پہلو بھی پایا جاتا ہے۔ وہ ریاضت و جفاکشی جو انسان اپنی رضامندی اور خوشنودی سے اختیار کرتا ہے تاکہ اپنے باطن کو، اپنی روحانیت و معنویت کو ارتقائی منزلوں تک پہنچا سکے۔ اعتکاف بھی ایسی ہی عبادتوں کے زمرے میں آتا ہے۔ ہمارے یہاں تین دن کا رواج ہے، فقہا کے درمیان اس بارے میں کافی بحثیں ہیں، اور نو دن یا دس دن تک اعتکاف کا نظریہ بھی موجود ہے۔ جناب عالی (2) نے اشارہ کیا کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ماہ رمضان کے آخری دس دنوں کے دوران اعتکاف میں بیٹھتے تھے۔ مسجد جاتے تھے اور وہیں رہتے تھے، وہیں سارے امور انجام دیتے تھے۔ یہ بڑا عظیم موقعہ ہوتا ہے، عوام کے درمیان اس کی پذیرائی بھی بہت زیادہ ہے۔ نوجوانوں میں نظر آنے والی رغبت و چاہت بڑی حیرت انگیز ہے۔ مجھے یاد ہے، جب ہم مشہد میں ہوا کرتے تھے، ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ اعتکاف می بیٹھنا کیسا ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں بس سنا تھا۔ جب ہم قم گئے تو وہاں اس وقت انہیں ایام بیض (3) میں مسجد امام (4) میں لوگ اعتکاف کرتے تھے۔ شاید میں ایک بار گیا تھا اور میں نے دیکھا کہ طلبہ وہاں آتے تھے، دو تین طالب علم ہوتے تھے اور شبستان حاج الفضل کے ایک گوشے میں ایک ٹینٹ لگا لیا جاتا تھا۔ اس کے اندر اعتکاف میں بیٹھنے والوں کی مجموعی تعداد تیس چالیس بھی نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں جب مسجد بروجردی کی تعمیر مکمل ہو گئی تو کچھ لوگ وہاں بھی اعتکاف میں بیٹھنے لگے۔ البتہ خود میں نے وہاں نہیں دیکھا، میں نے مسجد امام کا اعتکاف دیکھا تھا۔ اس عظیم اور پرمغز سنت کا بس یہی نمونہ اور مظہر تھا۔ صرف قم میں اور وہ بھی بڑے محدود پیمانے پر۔ آج آپ جائيے ملک کی یونیورسٹیوں کو دیکھئے، مسجد گوہر شاد، مسجد جمکران، دیگر اہم مساجد اور مراکز کے علاوہ جہاں اعتکاف کرنے والوں کی کثیر تعداد ہوتی ہے، یونیورسٹیوں کی مساجد میں بھی ، تہران یونیورسٹی کی مسجد میں اور دوسری جگہوں پر طلبہ اور ہمارے نوجوانوں نے کافی پہلے سے ہی نام لکھوا دئے ہیں۔ بسا اوقات نمبر ہی نہیں آ پاتا یعنی جگہ پر ہو چکی ہوتی ہے، سب کے لئے بندوبست نہیں ہو پاتا۔ اس عبادت کے لئے یہ شوق و رغبت اس انداز سے ہے۔ یہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے۔ بحمد اللہ یہ ماحول تیار ہے اور اللہ نے یہ توفیق عنایت فرمائي ہے اور محبت معبود اور ذکر الہی کی کشش نے نوجوانوں کے دلوں کو اپنی جانب مائل کر لیا ہے، اس صورت حال کی قدر و منزلت کو سمجھنا چاہئے، یہ ایک عظیم موقع ہے۔
جو بھی مواقع ہوتے ہیں ان کے ہمراہ کچھ اندیشے اور خطرات بھی ضرور ہوتے ہیں، جس کی طرف آپ نے اشارہ بھی کیا۔ اس سیمینار میں ایک اہم مسئلہ جس کا آپ جائزہ لیں گے، وہ اندیشوں کے تعین (5) کا مسئلہ ہے۔ اندیشوں کے تعین کے مسئلے کو نہایت سنجیدگی سے لیجئے۔ اعتکاف عبادت کا موقعہ ہے، البتہ عبادت صرف نماز پڑھنا نہیں ہے، اعتکاف میں بیٹھنے والے افراد سے بنحو احسن رابطہ قائم کرنا، دوستانہ اور برادرانہ ماحول پیدا کرنا، انہیں ضروری باتوں کی تعلیم، اعتکاف کے دوران اسلامی معاشرت کا عملی تجربہ اور آموزش، یہ ساری چیزیں اعتکاف کے موقعے پر انجام دی جا سکتی ہیں۔ اس کے لئے منصوبہ بندی کرنا چاہئے۔ منصوبہ بندی بے حد ضروری ہے۔ اگر درست منصوبہ بندی نہ کی گئی، ان مشتاق اور اعتکاف کے لئے جوش و جذبے سے بھرے ہوئے نوجوانوں کی اگر مدد نہ کی گئی جو مساجد میں جمع ہوئے ہیں تو یہ سمجھئے کہ یہ انرجی ضائع ہوگی اور ممکن ہے کہ نقصان دہ بھی ثابت ہو۔ منصوبہ بندی بہت سوجھ بوجھ کے ساتھ اور اعتکاف کے معنی و ماہیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جانی چاہئے۔ فرض کیجئے کوئی منصوبہ تیار کرتا ہے کہ اعتکاف کے دوران کوئی (سبق آموز) فلم دکھائی جائے! ظاہر ہے فلم تو انسان ہر جگہ دیکھ سکتا ہے۔ اس لئے ضروری نہیں ہے کہ ایام بیض کے دوران مساجد یا دیگر مراکز میں بیٹھا جائے۔ اعتکاف کا نصب العین ہے قرب الہی کا حصول۔ آپ اس پر غور کیجئے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ اعتکاف میں بیٹھنے والے کا دل بھی قرب خداوندی سے منور ہو اور اس کا ذہن و دماغ بھی قرب پروردگار کا لطف اٹھائے۔ کیونکہ جب کسی انسان کا دل اور اس کا باطن انس پروردگار پا لیتا ہے تو اس کا اثر اس کی ظاہری حالت پر بھی پڑتا ہے اور اس کے اثرات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جب انسان کے اندر خضوع و خشوع کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو اس کا اثر زندگی کی ظاہری حالت پر بھی پڑتا ہے۔ تین دن اعتکاف میں بیٹھنے کے بعد مسجد سے نکلنے والا نوجوان پاکیزہ ہو چکا ہوتا ہے، طہارت کی منزل پر پہنچ چکا ہوتا ہے، اس کا باطن پاکیزہ اور طیب و طاہر ہو چکا ہوتا ہے۔ یہ چیزیں اس کے لئے بیش بہا سرمائے کا درجہ رکھتی ہیں۔ یہ بڑی با عظمت اور اہم چیزیں ہیں۔ تین دن روزہ رکھنا، معمولات زندگی سے پوری طرح قطع تعلق کرکے ساری توجہ اپنے خالق کی طرف، روحانیت و معنویت کی طرف، توحید و یکتا پرستی کی طرف مرکوز کر کر دینا اپنا خاص مقام رکھتا ہے۔ آپ خیال رکھئے کہ یہ عمل پوری درستگی کے ساتھ انجام پائے، صحیح انداز میں رہنمائی کی جائے، اچھے مقررین کو لایا جائے جو جاکر تقریریں کریں، دینی تعلیمات و معارف کو بیان کریں۔ ایسی خرافاتی باتوں سے اجتناب کیا جائے جو معاشرے میں فروعی اور غیر ضروری الجھاؤ کا سبب بنتی ہیں۔ یہ تین دن مختص کر دیئے جائیں روحانی و معنوی امور سے۔ جب اعتکاف سے لوگ باہر نکلیں گے تو پھر انسان دوسرے مختلف میدانوں اور شعبوں میں قدم رکھےگا اور سرگرمیاں انجام دے گا۔ مگر ان تین دنوں میں اساسی اور کلیدی نکتہ اور سارا ہم و غم یہ ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی سے رابطہ کیسے قائم ہو۔ اس کو مد نظر رکھ کر پروگرام ترتیب دئے جائیں۔ یہ نکتہ اصلی اور بنیادی ہے، ان شاء اللہ اس پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جائےگي۔
بیشک کھانے پینے کا اہتمام اور آسائش کی دیگر چیزیں یہ سب ٹھیک ہے، مگر میں نے سنا ہے کہ بعض مساجد میں عوام کے شوق و رغبت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خاصی مقدار میں رقم وصول کی جاتی ہے، یہ نہیں ہونا چاہئے۔ پیسہ لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، بلکہ بہتر ہی ہے، کیونکہ ایسے کاموں کی برکت بڑھ جاتی ہے جس میں عوام شریک ہو جائیں اور مالی تعاون کریں۔ عوام کی طرف سے کی جانے والی مالی مدد اور تعاون کی ایک اہم خوبی اس کی یہی برکت ہے۔ لیکن اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ یہ، پیسہ جمع کرنے کا ایک طریقہ اور ذریعہ نہ بن جائے۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اعتکاف میں بیٹھنے والے مومنین کی توفیقات میں روز بروز اضافہ کرے، ان کے دلوں پر باران رحمت الہیہ کا نزول ہو اور ان نوجوانوں کے طفیل میں ہم جیسوں کے سیاہ دلوں پر بھی اس کا نزول ہو، ہم بھی اس روحانیت اور اس نورانیت سے بہرہ مند ہوں۔ اللہ تعالی آپ سب کی مدد فرمائے جو اعتکاف سے متعلق امور انجام دینے کے سلسلے میں مصروف کار ہیں کہ آپ یہ عمل بنحو احسن انجام دیں اور اس ثواب جاریہ کے مستحق قرار پائيں۔
۱- یہ سیمیار اٹھارہ اردیبہشت مطابق آٹھ مئی کو مقدس شہر قم میں منعقد ہوا۔
۲- ملک بھر میں دینی مدارس کے مدیر اعلی
۳- ہجری قمری سال کے ہر مہینے اور خاص طور پر ماہ رجب کی تیرہ چودہ اور پندرہ تاریخ کو ایام بیض کہا جاتا ہے اور ان دنوں میں اعتکاف میں بیٹھنا مستحب ہے۔
۴- مسجد امام حسن عسکری علیہ السلام
۵- ملک بھر کے دینی مدارس کے مدیر اعلی کا اس نکتے کی جانب اشارہ کہ تیسرے سیمینار مین جو موضوعات زیر بحث آئے ان میں اعتکاف آیات و روایات کے آئینے میں، اعتکاف کے احکام و آداب، اعتکاف کے لئے پیش آںے والی ممکنہ مشکلات، اسلامی مکاتب فکر میں اعتکاف کے سماجی و شخصی اثرات و برکات، اعتکاف کے ذریعے کھلنے والے روحانی راستے۔