1393/03/06 ہجری شمسی مطابق 27-05-2014 کو پیغمبراسلام حضرت محمد مصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پرمسرت یوم مبعث کی مناسبت سے ایران کے اعلی حکام ، مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد ، قرآن کریم کے بین الاقوامی مقابلے میں شریک مہمانوں اور تہران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفیروں نے قائد انقلاب اسلامی سے ملاقات کی - اس موقع پر قائد انقلاب اسلامی نے حاضرین سے خطاب میں فرمایا کہ آج اسلام کا پرچم بلند ہو چکا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں اسلامی تشخص اور شناخت کا احساس پہلے سے زیادہ نمایاں اور مستحکم ہوا ہے -
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ عالم اسلام کی بنیادی ضرورت اتحاد اور امت واحدہ کی تشکیل ہے- آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے اور اسی طرح شیعوں کو خطرے کے طور پر پیش کرنے نیز ایرانوفوبیا پھیلانے کے پیچھے سامراجی محاذ کا ایک بڑا مقصد اپنی مشکلات پر پردہ ڈالنا اور غاصب صہیونی حکومت کی حفاظت کرنا ہے-
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم‌
والحمد لله و صلى الله على محمد و آله الطاهرین و على صحبه المنتجبین و من اتبعهم الى یوم الدین.

نبی اکرم کی بعثت کی سالگرہ کی مناسبت سے جو در حقیقت ساری انسانیت کی عظیم ترین عید ہے، آپ تمام حاضرین محترم کی خدمت میں، برادران و خواہران عزیز کی خدمت میں، معزز مہمانوں کی خدمت میں اور یہاں تشریف فرما اسلامی ملکوں کے سفیروں کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں نیز تمام ایرانی عوام کی خدمت میں تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں جنہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ پیغمبر اکرم کے پیغام بعثت پر عمل پیرا ہیں، اس راستے میں ہماری قوم نے بہت بڑے اور سخت امتحان دئے ہیں۔
اس عظیم دن کی مبارکباد میں تمام مسلم اقوام، عالم اسلام اور دنیا کے گوشہ وکنار میں آباد تمام مسلمانوں اور ان آزاد منش انسانوں کو بھی پیش کرتا ہوں جو آزادی کا پیغام سن کر، انصاف و مساوات کا پیغام سن کر، انسان کی توقیر و احترام کا پیغام سن کر محظوظ اور خوش ہوتے ہیں۔
عزیز بھائیو اور بہنو! بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تعلق سے بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کا جائزہ لینے اور جنہیں بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہم عوام اور عالم اسلام کے لئے جو چیز قابل توجہ ہے وہ دو تین بنیادی نکات ہیں۔: ایک نکتہ تو وہی ہے جس کا ذکر حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے خطبہ نہج البلاغہ میں کیا ہے۔ آپ نے پیغمبر اکرم اور عظیم انبیائے الہی کی بعثت کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرمایا: لِیَستَأدُوهُم مِیثاقَ فِطرَتِهِ وَ یُذَکِروهُم مَنسِىَ نِعمَتِهِ ... وَ یُثیروا لَهُم دَفائِنَ العُقول؛ (۱) انسانوں کو انسانی فطرت اور انسانی سرشت کی جانب جو شرف و عزت سے جڑی ہوتی ہے، لوٹائیں، اللہ کی فراموش کردہ نعمتوں کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائیں اور دفن کر دی جانے والی قوت عقل کو حرکت میں لائیں اور بیدار کریں۔
انسان عقل و خرد کی مدد سے ہی بعثت کے پیغام کا ادراک کر سکتے ہیں، پیغمبروں کے نورانی راستے کی دشواریوں اور سختیوں کا مسکراتے ہوئے سامنا کر سکتے ہیں اور انہیں عبور کر سکتے ہیں۔ عقل و فکر و خرد کی مدد سے ہی بشر، قرآنی تعلیمات و مفاہیم سے صحیح طور پر استفادہ کر سکتا ہے۔ اگر اسلامی معاشرہ اسی ایک حکم یعنی عقل و خرد کے استعمال کو اپنے درمیان رائج کر لے تو انسانی معاشرے کی بیشتر بڑی مشکلات خود بخود حل ہو سکتی ہیں، اسلامی معاشرے کے بیشتر مسائل کا ازالہ ہو سکتا ہے۔
آج آپ دیکھئے، کسی خطے میں اسلام کے نام پر بے گناہ انسانوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا جا رہا ہے، کسی علاقے میں اسلام کی وجہ سے مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ افریقا میں کسی مرکز میں، کسی ایک ملک میں، کسی کو مسلمان ہونے کی وجہ سے ظلم و جارحیت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، قتل کیا جاتا ہے اور کسی دوسری جگہ کچھ لوگ اسلام کے نام پر لوگوں کی بچیوں کو چرا کر بھاگ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کا پیغام صحیح طرح سے مسلمانوں تک پہنچ نہیں سکا ہے۔ ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ قرآں کو اور اسلام کو صحیح طریقے سے سمجھیں اور اپنی عقل و خرد کے پیمانے پر اور انسانی و اسلامی افکار کی روشنی میں پیغمبر اسلام کی تعلیمات کی گہرائیوں تک پہچیں اور ان پیغامات کو سمجھیں۔
اگر ہم اسلام کے پیغام کی طرف سے غافل رہ جائیں گے تو قرآن کریم کہہ چکا ہے: وَ قالَ الرَسولُ یا رَبِ اِنَ قَومِى اتَخَذوا هذَا القُرءانَ مَهجورا؛ (۲) جب ہم نے قرآن کو ترک کر دیا، قرآن کے مفاہیم و تعلیمات پر صحیح طریقے سے تدبر نہیں کیا، اگر ہم نے قرآنی مفاہیم کے گلدستے کو جو انسانی زندگی کے لئے مکمل لائحہ حیات ہے، صحیح سے نہ سمجھا تو ہم سے لغزش ہوگی اور پھر ہماری عقل قرآنی مفاہیم کا ادراک نہیں کر سکے گی۔
آج دنیا میں کچھ دشمن ہیں جو علی الاعلان اسلام کے خلاف بر سر پیکار ہیں، ان کی پہلی جنگی حکمت عملی اختلافات کی آگ بھڑکانا ہے۔ سب سے گہرے اختلاف اور سب سے خطرناک اختلاف عقیدے اور ایمان سے متعلق اختلافات ہوتے ہیں، تو آج دنیا میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف شمشیر برہنہ میں تبدیل کر دینے کے لئے استکباری طاقتوں کے ہاتھ ایمان و عقیدے سے متعلق باتوں کے ذریعے اشتعال انگیزی میں مصروف ہیں۔ ایک گروہ دوسرے گروہ کو کافر قرار دے رہا ہے، ایک جماعت دوسری جماعت پر تلوار تانے کھڑی ہے، برادران ایمانی ایک دوسرے سے تعاون کرنے کے بجائے، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنے کے بجائے برادر کشی کے لئے دشمنوں سے تعاون اور ساز باز کر رہے ہیں۔ شیعہ سنی جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں، نسلی اور فرقہ وارانہ اشتعال اور تصادم کو ہر لمحہ ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ البتہ ان سرگرمیوں میں جو ہاتھ ملوث ہیں وہ جانے پہچانے ہاتھ ہیں۔ اگر عقل کی قوت اور فکر و آگاہی کی روشنی کو بروئے کار لایا جائے جس کا حکم ہمیں قرآن کریم نے بھی دیا ہے، تو دشمن کا ہاتھ ہمیں صاف نظر آ جائے گا اور دشمن کے عزائم ہمارے سامنے آ جائیں گے۔
آج عالم اسلام میں استکباری محاذ اپنے سامراجی اہداف کے حصول کے لئے، اپنے مسائل اور مشکلات پر پردہ ڈالنے کے مقصد سے، مسلمانوں کے اندر نفاق و منافرت کو ہوا دے رہا ہے، شیعہ فوبیا پھیلا رہا ہے، ایرانوفوبیا پھیلا رہا ہے، تاکہ غاصب صیہونی حکومت کی حفاظت کر سکے، تاکہ اس تضاد کو کسی طرح حل کر لے جس کے باعث علاقے میں سامراجی پالیسیوں اور منصوبوں کو شکست ہوئی ہے، اس کی نظر میں اس مقصد کے حصول کا واحد طریقہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈالنا ہے۔ اسے دیکھنا چاہئے، اسے سمجھنا چاہئے، دانشوروں اور ممتاز شخصیات سے یہی توقع ہے، منتخب مفکرین سے یہی امید ہے۔
آج مغرب کے سیاسی ادارے جس چیز کی ترویج کر رہے ہیں وہ در حقیقت وہی جاہلیت ہے جسے مٹانے کے لئے اور انسانی زندگی کے درمیان سے جسے دور کرنے کے لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مبعوث برسالت کیا گیا۔ اسی جاہلیت کے آثار آج ہماری دنیا میں، اس رائج پست مغربی تہذیب میں صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ وہی بے انصافی، وہی تفریق و امتیاز، وہی انسانی وقار کی پامالی، وہی جنسی مسائل اور نفسانی ہوس، سب سے اہم اور بنیادی موضوع بنی ہوئی ہے۔
قرآن کریم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محترم ازواج کو مخاطب کرکے فرماتا ہے: وَ قَرنَ فى بُیوتِکُنَ وَ لاتَبَرَجنَ تَبَرُجَ الجَهِلِیَةِ الاُولَى‌(۳) پہلے زمانے کی جاہلیت کی ایک علامت خواتین کا تبرج یا خود نمائی ہے اور آج مغربی تمدن کے بنیادی مظاہر میں سے ایک یہی جسم کی نمائش ہے۔ تو یہ وہی جاہلیت ہے لیکن ایسی جاہلیت ہے جس نے خود کو جدید تشہیراتی حربو‎ سے لیس کر لیا ہے اور اس طرح حقائق کو لوگوں کی آنکھوں سے دور کر دیا ہے۔ ہم مسلمانوں کو یہ بات سمجھنی چاہئے، ہمیں اس کی خبر ہونی چاہئے۔
آج عالم اسلام کو سخت ضرورت ہے فکر و تدبر پر توجہ دینے کی، غور و خوض کی عادت ڈالنے کی، مسائل کو صحیح طریقے سے سمجھنے اور صحیح تجزیہ کرنے کی۔ دنیائے اسلام کو آج اس بات کی ضرورت ہے کہ امت اسلامیہ کے دشمنوں کے محاذ کی صحیح طریقے سے شناخت کرے، ہم اپنے دشمنوں کو پہچانیں اور اپنے دوستوں کو بھی پہچانیں۔ بسا اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ہم مسلمانوں میں سے کچھ لوگ ہمارے دشمنوں سے جا ملے ہیں کہ اپنے بھائیوں کا صفایا کریں! ظاہر ہے اس سے ہمیں نقصان پہنچتا ہے، اس سے امت اسلامیہ میں انتشار اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، اس سے مسلم امہ کمزور ہوتی ہے، اس کی وجہ بصیرت کا فقدان ہے۔ آج عالم اسلام کو اسی بصیرت کی شدید ضرورت ہے، تدبر و تفکر کی ضرورت ہے، عقل کے دفینوں کو باہر نکالنے کی ضرورت ہے۔: وَ یُثیروا لَهُم دَفائِنَ العُقول (۴) عالم اسلام کی دوسری اہم احتیاج ہے اتحاد و یکجہتی۔ ہمیں فروعی اختلافات سے، پسند اور مزاج کے اختلاف سے، اعتقادی اور مسلکی اختلافات سے آگے بڑھ کر امت واحدہ تشکیل دینی چاہئے۔: اِنَ هذِهِ اُمَتُکُم اُمَةً وَحِدَةً وَ اَنَا رَبُکُم فَاعبُدون(۵) اللہ نے یہ فرمایا ہے۔ قرآن پر عقیدہ، پیغمبر پر عقیدہ، خدائے یکتا پر عقیدہ، ایک کعبہ اور ایک قبلے پر عقیدہ یہ ساری چیزیں دشمن محاذ کا مقابلہ کرنے کے مقصد کے تحت عالم اسلام کے متحد ہو جانے کے لئے کافی نہیں ہیں؟!!! تو پھر کچھ لوگ کیوں نہیں سمجھتے؟ کچھ لوگ آخر کیوں ان روشن حقائق کو نہیں سمجھتے؟ ایران کو خطرہ بناکر پیش کرنے اور شیعوں کو خطرہ ظاہر کرنے کے پیچھے امریکا اور مغربی محاذ کا مقصد کیا ہے؟ اس بارے میں وہ کیوں نہیں سوچتے؟ غاصب صیہونی حکومت جو آج عالم اسلام کے لئے سب سے بڑی مصیبت و آفت ہے، آسودہ خاطر ہوکر زندگی بسر کر رہی ہے، اپنی مشکلات پر غلبہ حاصل کر رہی ہے، اس غاصب حکومت کے اندر موجود ان علل و اسباب پر غلبہ حاصل کر لیتی ہے جو خود اسے تباہ کر دینے والے عوامل ہیں، ایسا کیوں ہے؟ یہ تبھی ممکن ہے جب مسلمانوں سے سوچنے سمجھنے کی طاقت سلب کر لی جائے، جب مسلمانوں کو آپس میں دست و گریباں کر دیا جائے، فروعی مسائل کو بہت بڑا بناکر پیش کر دیا جائے۔
ہماری نظر میں اسلامی بیداری کی لہر وجود میں آ چکی ہے، دشمنوں کی جانب سے یہ کوشش ہوئی کہ اس بیداری کو کچل دیا جائے اور بعض جگہوں پر اسے کچل بھی دیا گيا لیکن اسلامی بیداری کی لہر ایسی نہیں ہے جسے حقیقت میں کچلا جا سکے۔ اسلام پر افتخار کرنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، یہ پرچم بلند ہو چکا ہے، آج دنیا کے ہر گوشے میں مسلمانوں کے اندر اسلامی شناخت کا احساس محکم ہو چکا ہے اور مزید محکم ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں ملت ایران پر بہت اہم ذمہ داریاں ہیں جو اس نے پوری کی ہیں اور آئندہ بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی رہے گی۔ قرآن پر عقیدے کی مدد سے، پیغام بعثت پیغمبر پر ایمان کی مدد سے، داخلی اتحاد و یکجہتی کی مدد سے، دشمن کے مقابل اپنی دلیری اور بے خوفی کی مدد سے، اللہ تعالی کے وعدوں پر ایقان و اطمینان کی مدد سے ظاہر ہے اللہ تعالی نے صریحی طور پر وعدہ کیا ہے:۔ اِن تَنصُروا اللَهَ یَنصُرکُم وَ یُثَبِت اَقدامَکُم؛ (۶) ان عظیم ذخیروں اور اثاثوں کی مدد سے آگے بڑھ رہی ہے۔
ہم یکے بعد دیگرے ان محاذوں کو جن کی ہمیں ظلم و جہل و ناانصافی کا مقابلہ کرنے کے لئے احتیاج ہے، ان شاء اللہ ہم فتح کریں گے اور آگے بڑھیں گے۔ بحمد اللہ نصرت خداوندی اور توفیقات الہی ملت ایران کے شامل حال رہی اور ہم ایک ایک قدم آگے بڑھتے گئے، رکاوٹوں کو یکے بعد دیگرے عبور کرتے گئے۔ ان شاء اللہ بفضل پروردگار آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ حکام احساس ذمہ داری کے ساتھ مختلف شعبوں میں مصروف خدمت ہیں۔ آج بحمد اللہ ہماری حکومت تازہ دم اور کام کے لئے آمادہ، اسلام سے اپنے رابطے اور اپنے مسلمان پونے پر فخر کرنے والی حکومت ہے۔ اسے احساس ہے کہ اللہ تعالی کی ذات پر ایمان کی برکت سے اسے عزت ملی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ اس احساس کے ساتھ وہ کام کر رہی ہے، محنت کر رہی ہے۔ چیلنج بھی در پیش ہیں، مشکلات بھی موجود ہیں، زندگی کے سفر میں یہ مشکلات پیش آتی رہتی ہیں۔ اگر باوقار زندگی بسر کرنی ہے تو اہل خرد و اہل فکر انسان عزت و شرف حاصل کرنے کے لئے، انسانی وقار اور قرب الہی کے مقام تک خود کو پہچانے کے لئے سختیاں مول لیتے ہیں۔ جو لوگ بے عقل ہیں وہ اپنی زندگی میں انہی مشکلات کو ذلت آمیز انداز میں برداشت کرتے ہیں۔ اللہ کو ولی امر ماننے کے بجائے شیطان کے تسلط کو قبل کرتے ہیں۔: وَاتَخَذُوا مِن دُونِ اللَهِ ءَالِهَةً لِیَکونوا لَهُم عِزاً، کَلا سَیَکفُرونَ بِعِبادَتِهِم وَ یَکونونَ عَلَیهِم ضِداً؛ (۷) بے عقل و خرد افراد اور نظام اور دنیا کے غافل افراد جو فارمولا اختیار کرتے ہیں وہ قرآن میں اس طرح رسوا قرار دیا گیا ہے۔ وہ اللہ کی بارگاہ میں پناہ حاصل کرنے کے بجائے، اللہ کو ولی امر تسلیم کرنے کے بجائے، ہدایت خداوندی سے متمسک ہونے کے بجائے، شیاطین کے تسلط کو قبول کرتے ہیں اور دشمنان اسلام اور دشمنان بشریت کا دامن تھامتے ہیں کہ اس طرح وقار اور عزت پا سکیں، لیکن اس طرح انہیں ہرگز عزت نہیں ملنے والی ہے، ان کے نابکار آقاؤں کی طرف سے بھی ان کی قدردانی نہیں کی جائے گی۔: کَلا سَیَکفُرونَ بِعِبادَتِهِم وَ یَکونونَ عَلَیهِم ضِدا (۸) قرآن کا یہ بیان، بالکل روشن بیان ہے۔ اس بیان سے ہمیں سبق لینا چاہئے، راستے کی صحیح شناخت ہونا چاہئے، قرآن کا ہدایت کا راستہ انسانوں کو سعادت و خوش بختی کی منزل تک لے جاتا ہے، اللہ تعالی سے طلب نصرت کرنے کی ضرورت ہے۔
بحمد اللہ اسلامی جمہوری نظام شروع سے ہی دشمنوں کا سامنا ہونے کی صورت میں اللہ کے اس وعدے کو اپنا سہارا قرار دیتا رہا ہے۔ اس نظام نے ہمیشہ اس وعدے پر بھروسہ کیا۔ ہم نے اللہ کے وعدے پر بھروسہ کیا، حسن ظن رکھا، کفار اور ایمان سے عاری افراد کی طرح اللہ کے وعدوں کے سلسلے میں ہم بے اطمینانی اور شک کا شکار نہیں ہوئے، لہذا ہمیں کامیابی ملی۔ ہمیں انقلاب میں کامیابی ملی، مقدس دفاع میں ہمیں فتح ملی، بین الاقوامی سطح پر گوناگوں اقتصادی، سیاسی اور سماجی مقابلوں میں اب تک ہمیں کامیابیاں ملتی رہی ہیں۔ ان شاء اللہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ ملت ایران کا راستہ ہے۔ اللہ تعالی کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے عظیم الشان امام خمینی پر جنہوں نے ہمارے سامنے یہ راستہ کھولا۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں باعظمت شہیدوں پر جنہوں نے اس راہ میں اپنی جانیں قربان کر دیں۔ اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ملت ایران پر جس نے ہر مرحلے پر اپنی آمادگی کا اعلان اور مظاہرہ کیا، اللہ کی رحمتیں نازل ہوں ہمارے حکام پر، حکومتی عہدیداروں پر جو اس میدان میں ہمیشہ کام، جانفشانی اور قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں۔

و السلام علیکم و رحمة الله و برکاته

۱) نهج‌البلاغه، خطبه‌ نمبر ۱
۲) سوره‌ فرقان، آیه‌ ۳۰
۳) سوره‌ احزاب، آیه ۳۳
۴) نهج‌البلاغه خطبه‌ نمبر ۱، « عقلوں کی پنہاں توانائیوں کو سامنے لائیں »
۵) سوره‌ انبیاء، آیه‌ ۹۲
۶) سوره‌ محمد، آیه ۷
۷) سوره‌ مریم، آیات‌۸۱ و ۸۲
۸) سوره‌ مریم، آیات‌۸۱ و ۸۲