خوش آمدید کہتا ہوں تمام برادران عزیز، علمائے کرام، قوم کے معتمد افراد اور منتخب ماہرین کو۔ اس اجلاس میں جناب مہدوی کنی (ماہرین کی کونسل مجلس خبرگان کے سربراہ) کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے بہت اچھے بھائی، یہ انتہائی گراں قدر شخصیت تقریبا تین مہینے سے سخت علیل ہیں۔ بہت مناسب ہوگا کہ آپ محترم حضرات ان کی شفا کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائیں۔ اللّهُمَّ اشفِهِ بِشِفائِکَ وَ داوِهِ بِدَوائِکَ وَ عافِهِ بِعافِیَتِکَ بِحَقِ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّد. اس عرصے میں ہمارے جو دوست اور برادران عزیز اس دنیا سے رحلت فرما گئے ہم انہیں بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور ان کی مغفرت کے لئے دعا گو ہیں۔ مرحوم جناب محمدی گیلانی، مرحوم جناب زرندی، مرحوم ماموستا مجتہدی اور حال ہی میں جناب جباری مرحوم۔ اللہ ان سب پر رحمتیں نازل فرمائے۔
ماہ ذی القعدہ ہے۔ الحاج میرزا جواد آقا ملکی (رضوان اللہ تعالی علیہ بزرگ عارف اور معلم اخلاق) فرماتے ہیں کہ ماہ ذی القعدہ توبہ کا مہینہ ہے، اللہ کی بارگاہ میں لوٹ جانے کا مہینہ ہے، اپنے اوپر نظر رکھنے کا مہینہ ہے کہ کہیں خدانخواستہ ہم اپنے اعمال سے اللہ تعالی اور اس کے رسول کے خلاف پیکار کرنے والے نہ بن جائیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ذی القعدہ کا مہینہ جو دشمنان خدا کے خلاف بھی جنگ روک دینے کا مہینہ ہے، بدرجہ اولی وہ مہینہ قرار پانا چاہئے جس میں انسان زیادہ محتاط رہے کہ اللہ تعالی کے خلاف معاندانہ فعل کا مرتکب نہ ہو جائے۔ آپ نے ذی القعدہ مہینے میں اتوار کے دن کے عمل کا ذکر کیا (2)۔ آپ تاکید فرماتے تھے اور بہت زور دیتے تھے کہ یہ عمل ضرور کیا جائے۔
الحاج میرزا علی آقا قاضی مرحوم (رضوان اللہ علیہ) نے ماہ ذی القعدہ کی آمد کے موقع پر ایک مکتوب تحریر فرمایا اپنے احباب کے لئے، اپنے عقیدت مندوں اور شاگردوں کے لئے، جس میں آپ نے اپنے حالات رقم کئے ہیں۔ آقا قاضی مرحوم نے عربی زبان میں بڑے اچھے اشعار کہے ہیں۔ جناب طباطبائی مرحوم کے بقول وہ شاعر مفلق، یعنی بالکل نئے مضامین باندھنے والے شاعر تھے۔ جناب طباطبائی مرحوم (رضوان اللہ علیہ) کی نظر میں وہ بڑے عظیم شاعر تھے۔ آپ کا ایک بڑا دلنشیں قصیدہ ہے جس کا آغاز اس مصرعے سے ہوتا ہے: «تنبه فقد وافتکم الاشهر الحرم»۔ یہ آپ کا طولانی قصیدہ ہے، اس میں آپ نے اپنے شاگردوں کو بڑی اہم نصیحتیں اور سفارشیں کی ہیں۔ ماہ حرام قرار پانے والے تین مہینوں کی پے در پے آمد ہے، یہ ہمارے لئے بڑا اچھا موقع ہے کہ ان سے بہرہ یاب ہوں۔ البتہ ذی القعدہ کا مہینہ آٹھویں امام سلام اللہ علیہ سے بھی منسوب ہے جو سب کے اور خاص طور پر ہم ایرانیوں کے ولی نعمت ہیں۔ ہمیں آپ کی آرام گاہ کی برکتوں سے آپ کے مرقد مطہر کی نعمتوں سے مستفیض ہونا چاہئے، استفادہ کرنا چاہئے اور اذن پروردگار سے خود کو رضوی اقدار سے قریب کرنا چاہئے۔
عالمی مسائل اور ملک کے حالات کے سلسلے میں، میں نے کچھ باتیں نوٹ کی ہیں جو آپ کی خدمت میں عرض کروں گا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عالمی مسائل، علاقائی مسائل اور خود ملک کے اندر کے مسائل کے سلسلے میں ہمارا نقطہ نظر جامع اور دراز مدتی ہونا چاہئے۔ یہ وسیع النظری ہمیں معرفت و بصیرت عطا کریگی۔ اس سے ہم پہلے تو موجودہ حالات میں اپنے مقام، اپنی منزل اور پوزیشن کا ادراک کر لیں گے اور ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم کس حالت میں ہیں، اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی اندازہ ہو جائے گا کہ مستقبل کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔
پوری دنیا اور خطے کو اگر وسیع نظر سے دیکھا جائے تو انسان اس اساسی نکتے کو ضرور محسوس کر لےگا کہ دنیا کا موجودہ نظام تغیر و تبدل سے گزر رہا ہے، اس چیز کو انسان سمجھ سکتا ہے، دیکھ سکتا ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد دنیا میں اور خاص طور پر ہمارے علاقے میں ایک نیا عالمی نظام وجود میں آیا، کچھ طاقتوں کو نئی جان مل گئی اور وہ دنیا کی برتر طاقتیں بن گئیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لیکر اب تک ستر سال کا عرصہ ہو رہا ہے، اس دوران ایک نیا نظام وجود میں آیا اور دنیا کا نظم و نسق نئے انداز کے مطابق چلتا رہا۔ مغرب نے سوشلسٹ نظام اور لبرل نظام دونوں ہی نظاموں کی مدد سے جو مغربی نظام تھے، دنیا کا نظم و نسق اپنے کنٹرول میں کر لیا اور دنیا کے انتظامی امور مغرب کے ہاتھ میں چلے گئے۔ ایشیا، افریقا، لاطینی امریکا اور دنیا کے دیگر خطے مغرب کے تسلط میں آ گئے اور ستر سال تک اس کی ہیبت سے متاثر رہے۔ مگر انسان اب بخوبی مشاہدہ کر سکتا ہے کہ یہ نظام تبدیل ہو رہا ہے۔ میں اختصار سے اس کا ذکر کروں گا اور اس تبدیلی کی وجوہات اور اس کے آثار کے بارے میں بھی کچھ معروضات پیش کروں گا۔ جب دنیا بدل رہی ہے، عالمی نظام تبدیل ہو رہا ہے اور ایک نیا عالمی نظام ظہور پذیر ہو رہا ہے تو ظاہر ہے ہماری ذمہ داریاں بھی بڑھ جائیں گی۔ نئے ورلڈ آرڈر میں اسلام کی جگہ، اسلامی جمہوریہ کا مقام، ہمارے وطن عزیز ایران کی پوزیشن کیا ہوگی؟ اس بارے میں ہم غور کر سکتے ہیں، اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور اسی سمت میں اپنی پیش قدمی کا آغاز کر سکتے ہیں۔ وہ سابق نظام جس کے متعلق ہم نے عرض کیا کہ تقریبا 70 سال تک دنیا پر اس کی حکمرانی رہی، دو بنیادی ستونوں پر کھڑا ہوا تھا۔ ایک تو فکری و اخلاقیاتی ستون اور دوسرے عسکری و سیاسی ستون۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج یہ دونوں ستون متزلزل نظر آتے ہیں۔
اخلاقیاتی اور فکری ستون مغرب بشمول یورپ اور امریکا کی، دنیا کے بقیہ علاقوں اور دیگر اقوام پر فکری و اخلاقی برتری کے دعوے سے عبارت تھا۔ انہوں نے کچھ ایسے نعرے پیش کئے جن کا سائنسی و صنعتی ترقی سے کوئی ربط نہیں تھا، بڑے پرکشش اور جاذب نظر نعرے جیسے آزادی کا نعرہ، جمہوریت کا نعرہ، انسانی حقوق کا نعرہ، قوموں کے دفاع کا نعرہ اور انسانوں کی حمایت کا نعرہ بلند کیا اور اس طرح اپنے فکری و اخلاقی نظام کو دنیا کے دیگر خطوں، تمام ادیان، گوناگوں مکاتب فکر اور خاص طور پر اسلام سے بالاتر نظام کے طور پر منوانے کی کوشش کی۔ مغرب کو کامیابی بھی مل گئی۔ یعنی ہمارے عالم اسلام میں ایسے افراد، جماعتوں، سیاسی شخصیات اور حکومتوں کی کمی نہیں ہے جو حقیقت میں یہ سمجھتی ہیں کہ مغرب کے اخلاقیاتی نظام کو برتری حاصل ہے۔ آج ہمارے معاشرے کے اندر بھی ایسے افراد موجود ہیں جو یہی فکر اور نظریہ رکھتے ہیں۔
دوسرا ستون جو عملی اقدامات سے تعلق رکھتا تھا اور جو مغرب کی طاقت کا دوسرا ستون اور دنیا کے انتظامی امور پر اس کے تسلط کی بنیاد تھا، سیاسی و عسکری توانائیوں کا ستون تھا۔ اگر کچھ قومیں، حکومتیں یا مکاتب فکر مغرب کے اخلاقی نظام کو قبول نہیں کرتے تھے بلکہ اس کا مقابلہ کرتے تھے تو انہیں سیاسی و عسکری دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جو بھی اس نظام کی برتری کو تسلیم نہیں کرتا تھا اس کے خلاف یہ دوسرا ستون یعنی سیاسی دباؤ عسکری اور سیکورٹی دباؤ استعمال کیا جاتا تھا تاکہ وہ تعاون کرنے اور ساتھ دینے پر مجبور ہو جائے۔
ہم نے دنیا میں بھی اس کا مشاہدہ کیا ہے اور خود اپنے ملک میں بھی اسے ہم دیکھ چکے ہیں۔ مغرب کے تشہیراتی ادارے جو روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتے جا رہے تھے، ماڈرن ہو رہے تھے اور ان کی توانائیوں میں اضافہ ہو رہا تھا، ان دونوں چیزوں یعنی اخلاقی و فکری برتری اور سیاسی و عسکری بالادستی کو بار بار قوموں کے سامنے پیش کرتے رہتے تھے اور صاحبان فکر کو، روشن خیال افراد کو اور پھر رفتہ رفتہ عوام الناس کو اس کا یقین دلانے کی کوشش کرتے تھے۔
آج یہ دونوں ستون متزلزل نظر آتے ہیں، پہلا ستون بھی اور دوسرا ستون بھی۔ وہ دونوں ہتھیار اور حربے جن کی مدد سے مغرب ساری دنیا کا نظام چلانے پر قادر تھا اور جن کی وجہ سے عملی طور پر وہ دنیا پر حاوی تھا، دنیا کی باگڈور سنبھالے ہوئے تھا، وہ دونوں ہی آج کی دنیا میں بہت کمزور ہو چکے ہیں۔ پہلا ستون جو اقدار و اخلاقیات سے متعلق تھا، یعنی دنیا کی دیگر اقوام کے اقدار و نظریات پر مغربی اقدار اور طور طریقوں کی برتری کا تصور وہ کچھ وجوہات کی بنا پر متزلزل ہو گیا۔ میں ان وجوہات میں سے چند کو نوٹ کرکے لایا ہوں جو آپ کی خدمت میں عرض کروں گا۔ مغربی اقدار و اطوار کی بالاستی اور اس نظام کی فکری بلندی کے ختم ہو جانے کا ایک سبب مغربی دنیا میں روز افزوں اخلاقی بحران و انحطاط ہے۔ اس کی نمایاں مثال لوگوں کے اندر فرومایگی، عبث زندگی اور فکری عدم تحفظ کا احساس ہے جو مغرب میں خاص طور پر نوجوانوں میں بہت عام ہے۔ مغربی دنیا میں کنبوں کا بکھرنا، گھرانوں کی بنیادوں کا ہل جانا باعث بنا ہے کہ یہ عواقب سامنے آئیں۔ اگر حقوق نسواں کی بات کی جائے تو اس معاملے میں مغربی نقطہ نگاہ ایسا رہا ہے کہ دسیوں سال قبل شروع ہونے والی فیمینزم کی تحریک پر آج روشن خیال افراد اور مفکرین کی جانب سے سوالیہ نشان لگایا جا رہا ہے۔ یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تحریک عورتوں کے لئے در حقیقت ایک جال کی مانند تھی جس کے نتیجے میں عورت گوناگوں مشکلات و مسائل میں گرفتار ہو گئی، اس کی کہانی بڑی لمبی ہے۔
برائیوں کا مستحسن امور کے طور پر تسلیم کر لیا جانا، جیسے مغرب میں ہم جنس بازی تسلیم شدہ اقدار کا جز بن گئی ہے اور ہم جنس بازی کی مخالفت کو اقدار کی مخالفت سمجھا جانے لگا ہے۔ چنانچہ مغربی دنیا میں آج یہ عالم ہے کہ اگر کسی شخص سے، کسی حکومتی عہدیدار سے، کسی صدر جمہوریہ سے یا کسی بڑی شخصیت سے سوال کیا جائے اور وہ کہہ دے کہ میں ہم جنس بازی کا مخالف ہوں تو اسے اس کی خامی تصور کیا جائے گا۔ یعنی مغرب میں اخلاقیات اس نہج پر آگے بڑھ رہے ہیں! اتنے پر ہی اکتفا نہیں کیا جائے گا، یہ سلسلہ ابھی اور بھی آگے جائے گا، اس سے بھی زیادہ گھناونی چیزیں سامنے آئیں گی۔ کئی سال قبل، شاید دس پندرہ سال پہلے مغربی مفکرین اور بعض دردمند دانشوروں کو اس خطرے کا احساس ہو گیا تھا، لہذا وہ بار بار متنبہ بھی کرتے رہے لیکن اب تو سب کچھ بے سود ہے۔ جب کوئی اخلاقی نظام انحطاط کی ڈھلان پر پہنچ جاتا ہے تو پھر اسے تنزل کا شکار ہونے اور پستی میں جاکر بکھر جانے سے کوئی نہں بچا سکتا۔ یہ مغربی اقدار پر سوالیہ نشان لگ جانے کی اہم وجہ ہے۔
دوسرا سبب ہے مذہب کی جانب رجحان۔ یہ در حقیقت پہلی وجہ پر سامنے آنے والا رد عمل ہے۔ مختلف مغربی ممالک میں معاشرے کے اندر دین کی طرف رجحان، دین کی جانب میلان، خاص طور پر دین اسلام سے لوگوں میں لگاؤ اور دلچسپی، قرآن فہمی کی خواہش دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ جو لوگ ان امور سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں اس کا بخوبی اندازہ ہے۔ اس صورت حال نے بھی مغربی اخلاقیات و اقدار کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔
تیسرا سبب، مغربی ملکوں کے نعروں اور ان کے عملی اقدامات میں پایا جانے والا تضاد ہے۔ یعنی وہ دنیا میں یوں تو آزادی کا دم بھرتے ہیں، جمہوریت کا دم بھرتے ہیں، انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں، باتیں اس طرح کی کرتے ہیں، لیکن عمل کا مرحلہ آتا ہے تو ان نعروں کی اتنی مخالفت اور خلاف ورزی ان مغربی حکومتوں نے کی ہے کہ آج دنیا میں مغربی ملکوں کی طرف سے ان نعروں اور دعوؤں کا اعادہ بڑا مضحکہ خیز اور قابل مذمت سمجھا جاتا ہے۔ یعنی صاحب فکر افراد اس کی حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں۔ خود مختار حکومتوں کے خلاف جن میں بیشتر قوم پرست حکومتیں تھیں، جو بغاوت اور شورش مغربی حکومتوں نے کروائی ہے اس کی تعداد بڑی حیرت انگیز ہے۔ بعض رپورٹوں کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد سے تا حال امریکا نے پچاس حکومتوں کی سرنگوںی کی سازش رچی! پچاس حکومتوں کے خلاف اس نے عجیب و غریب اقدامات انجام دئے، درجنوں عوامی مزاحمتی تحریکوں کی مخالفت کی ہے، یہ چیزیں امریکا اور کچھ دیگر حکومتوں کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ نیوکلیائی بم کے استعمال کا جو سانحہ ہوا وہ بھی امریکا نے انجام دیا ہے جو سب سے زیادہ انسانی حقوق کی دہائی دیتا ہے اور اس قسم کی باتیں کرتا رہتا ہے۔ جاپان کے اس سانحے میں دو لاکھ سے زیادہ انسان لقمہ اجل بن گئے اور بہت بڑی تعداد میں لوگ گوناگوں امراض میں مبتلا ہو گئے (3)۔ گوانتانامو جیل (4)، ابو غریب جیل (5) میں جو واقعات ہوئے، یورپ میں قائم کردہ خفیہ جیلوں کی جو اطلاعات ملیں (6) ان سے سب کو معلوم ہو گیا کہ ان کے پاس خفیہ جیلیں ہیں، جہاں وہ لوگوں کو ایذائیں دیتے ہیں، بغیر عدالتی کارروائی کے لوگوں کو محبوس رکھتے ہیں، یہ جیلیں آج بھی ہیں اور سب دیکھ رہے ہیں۔ یہ تیسری وجہ تھی جس کے نتیجے میں مغرب کے اخلاقیاتی نظام پر سوالیہ نشان لگ گیا جس کا وہ بڑا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔
چوتھی وجہ طاقت، تشدد اور سرکوبی کی پالیسیوں کا استعمال تھا، بائیکاٹ سمیت گوناگوں تشدد آمیز کارروائیوں کی انجام دہی۔ یہ دیکھنے میں آیا اور ساری دنیا کی نظروں کے سامنے یہ حقیقت کھل گئی کہ جب انہیں کسی ملک یا کسی قوم سے شکایت ہو جاتی ہے اور وہ اپنی ثقافت اور طور طریقے اس ملک یا قوم پر مسلط کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں، اس پر اپنا تسلط قائم کرنے کے سلسلے میں مایوس ہو جاتے ہیں، تو پھر طاقت کا استعمال کرتے ہیں، فوجی چڑھائی کر دیتے ہیں۔ کبھی تو لشکر کشی کے ذریعے، کبھی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے، کبھی دہشت گرد گروہوں کی تشکیل کرکے۔ یہ ساری چیزیں ہمارے اسی زمانے میں، انہی حالیہ برسوں میں دیکھی گئی ہیں، آج یہ حقیقت ساری دنیا کے عوام کے سامنے ہے۔ ملکوں پر لشکر کشی، عراق پر حملہ، افغانستان پر حملہ، پاکستان اور دیگر ملکوں میں مختلف شکلوں میں گوناگوں حملے۔ اس چیز نے بھی مغربی اقدار اور مغربی اخلاقیاتی نظام کو مشکوک بنا دیا۔
پانچواں سبب القاعدہ اور داعش جیسے نظریاتی گروہوں کی تشکیل ہے۔ ان کا دعوی تو یہی ہے کہ ان تحریکوں کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن حقیقت سب کو پتہ ہے۔ میں نے ایک معروف امریکی عہدیدار کے حوالے سے ایک چیز نقل کی (7) لیکن بعد میں انہوں نے اس کا انکار کر دیا۔ ظاہری طور پر تو وہ اعتراف بھی کر لیتے ہیں کہ یہ تحریکیں انہیں کی پیداوار ہیں۔ اگر وہ اعتراف نہ کریں تب بھی ہمارے پاس اس کے شواہد موجود ہیں، ہمیں معلوم ہے۔ میں کبھی نہیں بھولوں گا، شیخ سعید شعبان مرحوم، اب ان کا نام لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، مشہد میں اہل سنت کے معروف عالم دین تھے، یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم حالت جنگ میں تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ انہیں یہ اطلاع ملی ہے کہ ہمیں ملک کی مشرقی سرحدوں پر الجھانے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔ میں نے کہا کہ ہمارے ملک کے مشرق میں افغانستان ہے، انہوں نے کہا کہ ہاں افغانستان کی طرف سے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے جب افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کا قصہ شروع ہوا۔ ان کے اہل سنت علماء اور گوناگوں سیاسی و غیر سیاسی حلقوں سے روابط تھے، بڑی حساس جگہوں سے رابطے میں تھے، بڑی محترم شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا فریضہ سمجھ کر آپ کو آگاہ کر دیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد واقعات رونما ہوئے اور ہم دنے دیکھا کہ انہوں نے بالکل صحیح خبر دی تھی۔ بنابریں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ان تحریکوں اور گروہوں کی تشکیل مغربی طاقتیں اور علاقے میں ان کے آلہ کار ہی انجام دیتے ہیں۔ البتہ ممکن ہے کہ بعض مواقع پر وہ بذات خود اس میں وارد نہ ہوں بلکہ دوسروں کے ذریعے یہ عمل انجام پائے، مگر وہ بسا اوقات براہ راست وارد عمل ہوکر اقدامات انجام دیتے ہیں۔ انہیں طالبان کے معاملے میں، مجھے ہمیشہ یاد رہے گا، امریکی میگزینوں میں طالبان کا ذکر اس انداز سے کیا جاتا تھا کہ گویا اس تحریک کی ترویج مقصود ہے۔ صریحی طور پر تو پرچار نہیں کرتے تھے مگر اس تشہیراتی مہم کا ماحصل طالبان کی تحریک کی ترویج ہی کرنا ہوتا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب طالبان نئے نئے اقتدار میں آئے تھے۔ تو یہ وہ اسباب وجوہات ہیں جن کی بنا پر مغربی اقدار اور اخلاقیاتی نظام جس کی برتری کے وہ دعویدار تھے اور جس کی بڑی تشہیر کیا کرتے تھے، آج ساری دنیا میں مشکلات سے دوچار ہے۔ مغرب اور مغربی طاقتوں کی اس بات کو اب کوئی بھی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے کہ وہ انسانی حقوق کے پاسباں ہیں، انسانی اقدار کے محافظ ہیں۔ دو سو سال قبل امریکا کے منشور آزادی میں جو کچھ ذکر کیا گيا تھا عملی میدان میں سب کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
دوسرا اہم ستون یعنی سیاسی و عسکری قوت و استحکام بھی متزلزل ہونے لگا ہے۔ سیاسی و عسکری اقتدار کو مشکلات سے دوچار کر دینے والا سب سے اہم سبب اسلامی جمہوری نظام کا قیام تھا۔ امریکا کے مکمل تسلط اور اثر و نفوذ والے ایک علاقے میں گوناگوں پہلوؤں پر محیط ایک عظیم انقلابی تحریک وجود میں آتی ہے اور ایسے افکار و نظریات پر مبنی نظام حکومت کی تشکیل کا سرچشمہ بنتی ہے کہ جنہیں ختم کرنے اور طاق نسیاں کی زینت بنانے کے لئے انہوں نے بڑی محنت کی تھی۔ یہ نیا نظام ان کے گوناگوں سیاسی، عسکری اور سیکورٹی حملوں کے باوجود کہسار کی مانند قائم ہے بلکہ روز بروز اس کا استحکام بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ تاحال اسلامی جمہوری نظام حقیقی معنی میں ایک طاقتور اور مقتدر نظام کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ البتہ اسلامی نظام مقتدر اور توانا ہونے کے ساتھ ہی بہت مظلوم بھی ہے۔ نظام کا استحکام اور اس کی قوت، اس کی مظلومیت سے تضاد نہیں رکھتی۔ میں نے ایک موقعے پر (8) عرض کیا تھا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی مانند جو اپنے زمانے میں اسلامی نظام کے طاقتور حکمراں تھے لیکن ساتھ ہی حد درجہ مظلوم بھی تھے۔ اسلامی نظام کا بھی یہی عالم ہے۔ اس کی قوت و توانائی، مظلومیت سے تضاد نہیں رکھتی۔ آج اس نظام کی جو مظلومیت ہے وہ اس کی عدم توانائی اور کمزوری کی علامت نہیں ہے۔ واقعی اسلامی جمہوری نظام کی طاقت آج بالکل واضح اور بدیہی چیز بن گئی ہے۔ اس کا اعتراف دشمنوں کو بھی ہے۔
اس کے بعد بھی کچھ اہم واقعات رونما ہوئے۔ مقدس دفاع کے دوران اسلامی جمہوریہ اور عظیم الشان ملت ایران کی آٹھ سالہ استقامت، کوئی معمولی چیز نہیں تھی، انتہائی باعظمت حقیقت تھی۔ اس سے ثابت ہو گیا کہ دنیا پر اپنا تسلط قائم کر لینے والی استعماری طاقتوں کی عسکری توانائیاں بھی کسی قوم کے جذبہ استقامت میں خلل نہیں ڈال سکتیں، اسے کمزور نہیں کر سکتیں، بلکہ یہ جذبہ استقامت ان طاقتوں پر غالب آتا ہے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اس کے بعد بھی علاقے میں بہت سے اہم تغیرات ہوئے۔ فلسطین سے متعلق واقعات، لبنان سے متعلق واقعات، تینتیس روزہ جنگ لبنان، بائیس روزہ جنگ غزہ، آٹھ روزہ جنگ غزہ اور حالیہ پچاس روزہ جنگ غزہ جو واقعی کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ ایک چھوٹا سا اور محصور علاقہ، کمترین وسائل کے ذریعے ایسا کارنامہ سرانجام دیتا ہے کہ صیہونی حکومت جو علاقے میں مغربی قوت و طاقت کا نمونہ اور مظہر ہے، گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ جنگ بندی کی دہائی دیتی ہے اور وہ (فلسطینی مجاہدین) جنگ بندی کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ وہ مسلسل زور ڈالتی ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ 'ہرگز نہیں' جنگ بندی کی کچھ شرطیں ہیں اور جب تک ان شرطوں کو پورا نہیں کر دیا جاتا، جنگ بندی کی تجویز قبول نہیں کی جائے گی۔ یہ بہت اہم بات ہے، جس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مغرب کی سیاسی و عسکری برتری اور قوت و طاقت، حقیقت میں مشکلات سے دوچار ہو گئی ہے۔ آج مغربی دنیا میں عام طور پر لوگ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں اور کثرت سے بااثر افراد اس موقف کا اظہار کرتے ہیں کہ اب جنگ مغرب کے لئے معقول اور کفایتی راستہ نہیں ہے۔ آج امریکا میں سیاستدانوں کی بڑی تعداد اسی طرح بعض یورپی ممالک کے سیاستداں اس طرح کے تبصرے کر رہے ہیں اور صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ جنگ اب ہمارے لئے فائدے کا سودا نہیں ہے۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ مغرب کی دفاعی اور فوجی توانائی مشکلات سے دوچار ہو چکی ہے۔ ایشیا میں اور مشرق میں جو نئی طاقتیں ظہور پذیر ہوئي ہیں، جیسے چین، جیسے ہندوستان اور دیگر طاقتیں، وہ قضیئے کے دوسرے پہلو کو نمایاں کرتی ہیں۔ خیر تو یہ ہمارے علاقے اور دنیا کی صورت حال ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ سابقہ عالمی نظام کا تسلسل اب ممکن نہیں رہا کہ اہل مغرب دنیا کی باگڈور اپنے ہاتھ میں رکھیں۔ نئے حالات نمودار ہو رہے ہیں البتہ ابھی پوری طرح تصویر واضح نہیں ہوئی ہے۔
اس مرحلے پر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ہماری نظر میں دو چیزیں بہت اہم ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ آج ہم جن حقائق کا مشاہدہ کر رہے ہیں ان کا غلط تجزیہ نہ کیا جائے، غلط نتیجہ نہ نکالا جائے، حقائق کو ان کی اصلی ماہیت کے اعتبار سے سمجھا جائے۔ صرف ہمارے ملک کے حقائق نہیں بلکہ ایشیا کے پورے علاقے کے حقائق کے بارے میں بھی یہ ضروری ہے۔ آج بھی ایسے افراد، ایسے ممالک، ایسی حکومتیں، ایسی شخصیات، ایسے سیاستداں اور جماعتیں موجود ہیں جو اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے جس کا ذکر کیا گيا۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ مغرب کے سلسلے میں ہمارے پاس واحد راستہ یہ ہے کہ سر تسلیم خم کر دیا جائے۔ چاہے رغبت و چاہت کے ساتھ سر جھکایا جائے یعنی مغربی اقدار و اطوار کو دل سے قبول کر لیں اور مغرب نے دنیا کا نظام چلانے کے لئے جو سسٹم تشکیل دیا ہے اور ان کی جو توقعات ہیں ان کے سامنے سر جکھا دیں۔ لیکن اگر کوئی ملک خود اپنی مرضی سے تابعداری کے لئے تیار نہ ہوا، ان کی پناہ میں نہیں چلا گیا، ان سے تعاون کرنے پر آمادہ نہ ہوا، ان کے بنیادی مطالبات اور ہدایات کو قبول کرنے سے انکاری رہا، تو پھر اسے سختیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اقتصادی دباؤ، پابندیوں کا دباؤ، سیاسی دباؤ، فوجی دباؤ کے نتیجے میں وہ ہتھیار ڈال دینے پر مجبور ہو جائے گا۔ یا تو خاموشی سے اطاعت پر تیار ہو جائیے یا پھر تھوڑے ہنگامے کے بعد! اس قسم کا نظریہ اور تجزیہ پایا جاتا ہے جو بالکل غلط ہے۔ یہ بڑا خطرناک تجزیہ اور سوچ ہے۔ ہمارے ملک کے اندر بھی گوشہ و کنار میں یہ سوچ اور یہ نظریہ موجود ہے۔ جبکہ حقیقت امر یہ نہیں ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ مغربی اقتدار اور تسلط کا دارومدار ان کے خاص اقدار اور سیاسی، عسکری، سیکورٹی اور جارحانہ پالیسیوں پر تھا اور یہ دونوں ہی ستون اب ہلنے لگے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے۔
دوسرا اہم کام جو ہمیں کرنا چاہئے یہ ہے کہ نئے عالمی نظام کی تشکیل اور ایجاد کے عمل میں موثر کردار ادا کرنے کے لئے خود کو تیار کریں، ملک کو موثر رول دلانے کے لئے کوشش کریں۔ یہ تبھی ممکن ہوگا جب ملک کو مستحکم کیا جائے، جب ملک کو طاقتور بنایا جائے۔ ملک کی قوت و طاقت کا انحصار ملک کے اندر اور بیرون ملک موجود تمام تر صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے لانے پر ہے۔ ہمیں توجہ رکھنی چاہئے کہ ہماری توانائیاں اور صلاحیتیں بس اتنی نہیں ہیں جو ملک کے اندر موجود ہیں، ملک کے باہر بھی ہمارے پاس توانائیاں اور صلاحیتیں موجود ہیں، ہمارے طرفدار موجود ہیں، ہمارا گہرا اسٹریٹیجک رسوخ ہے علاقے کی سطح پر بھی اور باہری ملکوں کی سطح پر بھی۔ کہیں یہ اثر و رسوخ اسلام کی بنیاد پر ہے، کہیں لسانیاتی مماثلت کی وجہ سے ہے، کہیں یہ اثر و رسوخ شیعہ مکتب فکر کی وجہ سے ہے۔ یہ سب اہم اسٹریٹیجک اثر و رسوخ کی بنیادیں ہیں۔ یہ ہماری توانائیوں کا جز ہے۔ ہمیں ان توانائیوں سے بنحو احسن استفادہ کرنا چاہئے۔ یہ صورت حال صرف ہمارے اپنے علاقے میں نہیں ہے بلکہ لاطینی امریکا میں بھی ہمارا یہ اسٹریٹیجک اثر و رسوخ موجود ہے۔ ایشیا کے انتہائی اہم حصوں میں یہ اثر و نفوذ ہے اور ان سے استفادہ کرنے کے وسائل بھی موجود ہیں، چنانچہ ہمیں ان سے استفادہ کرنا چاہئے، ان چیزوں سے ملک کا استحکام بڑھے گا۔
ملک کا استحکام بڑھانے اور اسے تقویت پہنچانے کے سلسلے میں تین چیزیں بہت موثر ہیں۔ ایک ہے سائنس و ٹکنالوجی، دوسرے معیشت اور تیسری چیز ہے ثقافت۔ ان تینوں میدانوں میں ہمیں خوب سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے، یہ کلیدی عناصر ہیں۔ ہماری حکومتیں، ہمارے عہدیداران، ہماری بااثر شخصیات اور اہم ہستیاں، تینوں ہی میدانوں میں سرگرم عمل ہوں اور تندہی سے کام کریں۔ آبادی کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے۔ جیسا کہ اشارہ کیا گيا اور بعض حضرات نے اس پر تاکید کی، یہ بالکل بجا اور درست ہے۔ آبادی کا قومی اقتدار اعلی میں گہرا اثر ہے۔ نوجوان نسل میں اضافہ اور آبادی کے لحاظ سے ملک کا بڑا ہونا قوت و طاقت کے اضافے کے تعلق سے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ البتہ ان سب سے زیادہ اہم ثقافت کا مسئلہ ہے، خاص طور پر عوامی عقائد اور دینی نظریات کی سطح پر۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ اشارہ کیا گیا کہ بین الاقوامی سطح پر موثر ذرائع ابلاغ جیسے سیٹیلائٹ، انٹرنیٹ، موبائل وغیرہ کو فروغ دینے کے لئے گوناگوں انداز میں سرمایہ کاری ہو رہی ہے کہ عوام الناس کے دینی عقائد، خیالات و نظریات کو متاثر کیا جائے اور انہیں اسلامی ںطام اور اسلامی اقدار کے دائرے سے باہر کر دیا جائے۔ اس کا توڑ یہ ہے کہ ہم مختلف سطح پر اپنے عقائد اور دینی نظریات کو تشریح کے ساتھ اور مدلل انداز میں پیش کریں۔ ہمارے علمائے کرام، ہمارے ثقافتی اور علمی ادارے، ہمارے تبلیغی مراکز، ہمارے مقررین، ہمارے نشریاتی ادارے ان عقائد اور دینی افکار کو لوگوں کے ذہنوں میں زیادہ سے زیادہ مستحکم کریں اور تقویت پہنچائیں، ان میں عمق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ البتہ علمائے کرام کا عوام سے براہ راست رابطہ ایک بے نظیر ذریعہ ہے، اس کی جگہ کوئی اور چیز نہیں لے سکتی۔ کوئی بھی چیز یہاں تک کہ قومی نشریاتی ادارہ بھی جو بہت وسیع ذرائع ابلاغ کے زمرے میں آتا ہے، عوام الناس سے علما اور مذہبی مفکرین کے براہ راست رابطے کی جگہ نہیں لے سکتا۔
اتحاد و یکجہتی کا مسئلہ بھی ملک کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ سیاسی مسائل کے بارے میں، چھوٹے بڑے سیاسی امور کے بارے میں نظریات کا فرق موجود ہے، لیکن یہ اختلاف رائے ملک کے قومی اتحاد اور ہمدلی کے ختم ہو جانے کا سبب نہیں بننا چاہئے۔ سب ایک دوسرے سے متحد ہوکر رہیں۔ ایک انتہائی کلیدی نکتہ یہ ہے کہ حکام ایک دوسرے کی حمایت و پشت پناہی کریں۔ اگر آپ کسی عہدیدار سے، حکومت سے، عدلیہ سے یا پارلیمنٹ سے کسی مسئلے میں اختلاف رکھتے ہیں تو ایسا نہیں ہے کہ پھر آپ اس کی حمایت نہیں کر سکتے، حمایت ہر حالت میں کی جانی چاہئے۔ حکام الحمد للہ بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں، نئی حکومت تشکیل پانے کے بعد اس ایک سال کے عرصے میں ہی، بڑی محنت دیکھنے میں آ رہی ہے، بہت سے کام انجام دئے گئے ہیں، یہ حقیقت ہر انسان کی نظر کے سامنے ہے۔ سب قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ بڑا کام ہوا ہے اور بحمد اللہ خاصی کامیابیاں بھی ملی ہیں۔ عدلیہ کا بھی یہی حال ہے۔ مختلف ادارے بڑی لگن سے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ مجھے یاد ہے، بعض اوقات کچھ لوگ امام خمینی کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور حکومت کی یا دوسرے اداروں کی خامیوں کو بیان کرتے تھے، شکایت کرتے تھے کہ مثال کے طور پر فلاں جگہ یہ غلطی ہوئی ہے۔ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ ان کے جواب میں فرماتے تھے: جناب! ملک کو چلانا بڑا دشوار کام ہے۔ حقیقت امر بھی یہی ہے۔ اداروں کے انتظامی امور کو سنبھالنا بہت دشوار کام ہے۔ ممکن ہے کہ ایک انسان فکری صلاحیت کے اعتبار سے، عملی اقدامات کے لحاظ سے اور اخلاقی اوصاف کے اعتبار سے ہر طرح کے عیب و نقص سے مبرا ہو لیکن اس کے زیر نگرانی جو ادارہ کام کر رہا ہے اس کے اندر بہت سی مشکلات اور خامیاں ہوں۔ ایسا ہوتا ہے۔ یعنی واقعی امور کے تمام جوانب اور پہلوؤں کا احاطہ، کوئی آسان کام نہیں ہے، تو یہ ہوتا ہے۔ بیشک کچھ مشکلات بھی ہیں۔ البتہ کوئی تنقید کا مخالف نہیں ہے، تنقید کرنے، اعتراض کرنے، منصوبوں اور پالیسیوں کی خامیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کرنے سے کوئی نہیں روکتا، لیکن یہ عمل تخریبی اقدامات کی صورت میں اور کوششوں کا سد باب کر دینے والی مزاحمت کی صورت میں نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت اور اجرائی اداروں کی حمایت اور پشت پناہی کو ہمیں اپنا فرض سمجھنا چاہئے تاکہ امور انجام پائیں۔
دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی اس قوم پر اپنے فضل و کرم کا سلسلہ بند نہ کرے اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ کبھی نہیں رکے گا۔ ہمارے وطن عزیز میں اس وقت دعا و مناجات اور اللہ تعالی سے طلب نصرت کا جو ماحول ہے وہ یقینی طور پر بہت مددگار ہے۔ بعض مواقع ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انسان بعض چیزوں کے تعلق سے بند گلی میں پہنچ جاتا ہے، لیکن اللہ تعالی کی طرف توجہ اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا اور طلب عنایت سے بند راستے بھی کھل جاتے ہیں، ہمیں اسی راستے پر آئندہ بھی چلتے رہنا چاہئے۔ میں یہ بات بارہا عرض کر چکا ہوں کہ یہ حقیر جب نظر دوڑاتا ہے اور سامنے کے حالات کو دیکھتا ہے تو مستقبل کو بہت روشن و تابناک پاتا ہے۔ ان شاء اللہ توفیق خداوندی سے، نصرت خداوندی سے، اس ملک کا مستقبل اس کے ماضی سے مادی و روحانی ہر اعتبار سے زیادہ بہتر ہوگا۔
۱) یہ ملاقات 'مجلس خبرگان' یعنی ماہرین کی کونسل کے اجلاس کے بعد ہوئی۔ اجلاس 2 اور 3 تین ستمبر کو ہوا۔ قائد انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل مجلس خبرگان کے نائب سربراہ آیت اللہ سید محمود ہاشمی شاہرودی اور دوسرے نائب سربراہ آیت اللہ محمد یزدی نے اجلاس کی رپورٹ پیش کی۔
۲) یہ چار رکعت نماز ہے جس کا طریقہ اور تفصیلات کتاب المراقبات میں درج ہیں۔
3) دوسری عالمی جنگ کے دوران ہیروشیما اور ناگاساکی شہروں پر ایٹمی بمباری اس وقت کے امریکی صدر کے حکم پر کی گئی۔
4) گوانتانامو وہ جیل ہے جو کیوبا کے جنوب مشرق میں گوانتانامو خلیج میں بنائی گئی ہے، یہ علاقہ امریکی فوج کے کنٹرول میں ہے۔
5) ابو غریب جیل بغداد کے مغرب میں واقع ہے، پہلے اس میں صدام کے مخالفین کو ایذائیں دی جاتی تھیں، لیکن عراق پر امریکا کا قبضہ ہو جانے کے بعد امریکی فوجیوں نے وہاں عراقی قیدیوں کو ایذائیں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
6) نیوز ایجنسیوں کے مطابق دہشت گردی میں ملوث ہونے کے سلسلے میں مشتبہ افراد کو یورپ میں سی آئی اے کی خفیہ جیلوں میں رکھ کر بڑے دردناک انداز میں ایذائیں دی جاتی تھی۔
7) وزیر خارجہ، نیز وزارت خارجہ کے عہدیداروں، بیرون ملک اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانوں اور نمائندہ دفاتر میں مصروف خدمت سفارت کاروں سے خطاب مورخہ 13 اگست 2014
8) منجملہ جامعۃ المصطفی کے عہدیداروں اور کارکنوں سے خطاب مورخہ 22 جنوری 2010