آپ نے فرمایا کہ کسی بھی ملک میں انقلاب وہاں کے حالات کو بدل دینے کے لئے آتا ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے معاشرے میں اخلاقیات کی سطح پر مثبت اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر معاشرے میں اخلاق آجائے تو سماجی انصاف قائم ہوجائے گا۔ معاشرہ اچھا ہوجائے گا اور لوگ اسی دنیا میں بہشت جیسی زندگی گزارنے لگیں گے۔ عالمی سطح پر دیکھتے ہیں کہ بنی نوع انسان پر جو مصیبتیں آتی ہیں، ان کی جڑ وہ اخلاقی برائیاں ہیں جو افراد بشر میں پائی جاتی ہیں۔ آپ نے مغربی معاشروں خاص طور پر امریکہ کے معاشرے کی اخلاقی پستی کا جائزہ لیتے ہوئے فرمایا کہ آج امریکا کا نظام، اخلاق مخالف ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف انواع و اقسام کی موذیانہ اور خباثت آمیز روشوں سے کام لیتے ہیں۔ ان سے پوچھتے ہیں یہ کام کیوں کرتے ہو؟ کہتے ہیں ہم ایرانی قوم پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں صراحت کے ساتھ اپنے دل کی باطن کی برائیاں زبان پر لاتے ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی کے اس خطاب کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے؛

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں تمام بہنوں اور بھائیوں کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ خاص طور پر ان بھائیوں اور بہنوں کا جو اصفہان، سمنان، زنجان، کرج اور بعض دیگر شہروں سے تشریف لائے ہیں، بالخصوص شہیدوں کے خاندان والوں کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ یہ مہینہ شہیدوں کا مخصوص مہینہ ہے۔ اسی کے ساتھ 'تعمیراتی جہاد' میں خدمت میں مصروف برداران عزیز کو جو یہاں موجود ہیں، اس انقلابی ادارے میں ان خدمات کے لئے مبارکباد پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں، اس بنیادی اور اہم ادارے کی قدر کو سمجھیں۔
تعمیری جہاد کا ادارہ، انقلاب کی دین ہے، جس کے فوائد جنگ و صلح میں، دفاع میں اور تعمیر میں سب پر عیاں ہیں۔ امید ہے کہ یہ مقدس ادارہ، کام اور کوشش کے لحاظ سے بھی اور انقلابی و ایمانی رخ اور سمت کے لحاظ سے بھی روز بروز قوی تر اور محکم تر ہوگا۔ یہ ادارہ وہ پھول ہے جو درخت انقلاب پر آیا ہے اور انشاء اللہ اس پھول کی شادابی ہمیشہ باقی رہے گی اور لوگوں کے اس سے فائدہ پہنچتا رہے گا۔ اسی طرح ان لوگوں کا بھی جو معذور افراد کی نگہداشت کے ادارے میں خدمت میں مشغول ہیں، اور یہاں اس دوستانہ اور پر خلوص اجتماع میں موجود ہیں، انہوں نے جو دشوار ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی ہے اس کے لئے شکریہ ضروری سمجھتا ہوں۔ ایسے بچوں اور بڑے لوگوں کی جو ذہنی یا جسمانی طور پر صحتمند نہیں ہیں، نگہداشت اور دیکھ بھال، بہت بڑی نیکی ہے۔ یقینا ملک کا، معذور افراد کی نگہداشت کا ادارہ اس اہم کام میں کامیاب ہے، مگر میں اپنی پوری عزیز قوم سے کہتا ہوں کہ اس لئے کہ یہ کام بہتر طور پر انجام پائے، سب اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔ خود کو ان گھرانوں کی جگہ رکھیں جہاں کوئی جسمانی طور پر معذور یا ذہنی طورپر پسماندہ بچہ ہے، تب سمجھیں گے کہ کتنی بڑی نیکی ہوگی اگر انسان اس ادارے کی مالی، مادی اور معنوی مدد کر سکے۔ دعا ہے کہ خداوند عالم ان سب کی مدد کرے، انہیں اجر و ثواب دے، اور اس عزیز قوم کو اس کام کی اہمیت کی طرف زیادہ متوجہ کرے۔
جو بات میں یہاں پر عرض کرنا چاہتا ہوں وہ ان ایام کے چوتھے امام سے منسوب ہونے کی مناسبت سے ہے۔ چونکہ پچیس محرم، ایک روایت کے مطابق شاید یہ روایت اور قول زیادہ معتبر بھی ہو، چوتھے امام کی شہادت کی تاریخ ہے۔ آپ نے سانحہ کربلا کے بعد تقریبا چونتیس سال اس دور کے اسلامی ماحول میں زندگی گزاری اور یہ زندگی ہر لحاظ سے سراپا درس ہے۔ کاش جو لوگ اس زندگی کی اعلا کیفیات سے واقف ہیں، وہ اس کو لوگوں کے لئے، مسلمانوں کے لئے حتی غیر مسلموں کے لئے بیان کرتے تاکہ معلوم ہوتا کہ واقعہ کربلا کے بعد جو(یزید ملعون کی طرف سے) حقیقی اسلام کے پیکر پر ایک کاری وار تھا، چوتھے امام نے کس طرح استقامت و پائیداری سے کام لیکر دین کو ختم ہونے سے بچایا ہے۔ اگر امام زین العابدین علیہ الصلوات و السلام کی مجاہدت نہ ہوتی تو امام حسین علیہ الصلوات والسلام کی شہادت رائگاں ہو جاتی اور اس کے اثرات باقی نہ رہتے۔ چوتھے امام کا کردار بہت اہم ہے۔ چوتھے امام کی زندگی کے کارناموں کے کئی پہلو ہیں۔ ان میں سے ایک اخلاق ہے۔ یعنی اسلامی معاشرے کی اخلاقی تربیت اور طہارت ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے کہ میں چند منٹ آپ سے اس کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
امام زین العابدین علیہ الصلوات و السلام نے اسلامی معاشرے کی تربیت اور اخلاقی طہارت کا بیڑا اٹھایا۔ کیوں؟ کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ اسلامی دنیا کے ان مسائل کا ایک بڑا حصہ جو سانحہ کربلا پر منتج ہوا، لوگوں کی اخلاقی پستی اور رذالتوں کا نتیجہ تھا۔ اگر لوگ اسلامی اخلاق کے مالک ہوتے تو یزید، ابن زیاد اور عمر سعد اور دوسرے افراد، یہ المیہ انجام نہیں دے سکتے تھے۔ اگر اتنے پست نہ ہوئے ہوتے، اس طرح نہ گر گئے ہوتے، اس طرح اقدار سے دور نہ ہوئے ہوتے اور کمینگی و رذالت اس طرح ان پر مسلط نہ ہوئی ہوتی تو حکومتیں، چاہے وہ کتنی ہی فاسد کیوں نہ ہوتیں، کتنی ہی بے دین اور ظالم کیوں نہ ہوتیں، اتنا بڑا المیہ انجام نہ دے سکتیں۔ یعنی نواسہ رسول اور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بیٹے کو قتل نہ کر سکتیں۔ کیا یہ کوئی معمولی واقعہ تھا؟ ایک قوم اس وقت تمام برائیوں کی جڑ بنتی ہے جب اس میں اخلاقی برائیاں آ جائیں۔ امام زین العابدین علیہ الصلوات و السلام نے اس بات کو اسلامی معاشرے کے چہرے پر پڑھ لیا تھا۔ آپ نے اسلامی معاشرے کے چہرے کو اس برائی سے پاک کرنے اور اخلاق سدھارنے کا تہیہ کیا۔ لہذا دعائے مکارم اخلاق، دعا ہونے کے ساتھ ہی درس بھی ہے۔ صحیفہ سجادیہ دعا ہے مگر درس بھی ہے۔
میں آپ نوجوانوں سے سفارش کرتا ہوں کہ صحیفہ سجادیہ پڑھیں اور اس پر غور کریں۔ بغیر توجہ اور فکر کے پڑھنا کافی نہیں ہے۔ اس پر غور کریں گے تو دیکھیں گے کہ صحیفہ سجادیہ کی ہر دعا اور دعائے مکارم الاخلاق اخلاق اور زندگی کا ایک درس ہے۔
میں آپ بہنوں اور بھائیوں سے عرض کرتا ہوں کہ کسی ملک میں انقلاب اس لئے آتا ہے کہ اس ملک کا احتماعی نظام اور عام حالات بدل دے۔ حکومت کو دگرگوں کر دے۔ سماجی اور اقتصادی روابط کو دگرگوں کر دے۔ کسی انقلاب کا مقصد یہ ہوتا ہے۔ مگر سماجی حالات کے بدلنے کا مقصد کیا ہے؟ ہم سماجی حالات بدلنا کیوں چاہتے ہیں؟ اس لئے کہ عوام کا اخلاق بدل جائے۔ اس لئے کہ برے نظام میں، طاغوتی نظام میں، انسانوں کی بری تربیت ہوتی ہے۔ مادہ پرست اور معنویت اور حقیقت سے عاری انسان تیار ہوتے ہیں۔ بے وفا، جھوٹے اور غیر مخلص انسان تیار ہوتے ہیں۔ لوگ رحم، مروت، دوستی اور امداد باہمی سے دور ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک غلط اور فاسد سماجی زندگی کی علامتیں ہیں۔ انقلاب اس لئے آتا ہے کہ معاشرے کو بدل دے۔ معاشرے کو اس لئے بدلا جاتا ہے کہ لوگوں کے اخلاق بدل جائیں، اچھے انسانوں کی تربیت کی جائے۔ بنابریں آپ دیکھتے ہیں کہ ماہ رمضان کی دعا میں ایک فقرہ یہ ہے کہ اللھم غیّر سوء حالنا بحسن حالک (1) اس طرح سماجی انصاف قائم ہوتا ہے۔ سماجی انصاف ایک اصول ہے۔ بنیادی اور اعلا ہدف ہے۔ مگر معاشرے میں سماجی انصاف اس وقت قائم ہوتا ہے جب افراد معاشرہ تربیت یافتہ ہوں، ظلم نہ ڈھائیں اور ظلم برداشت بھی نہ کریں۔
آج ہمارے معاشرے میں ایک بنیادی کوشش اخلاق بدلنے کے لئے ہونی چاہئے۔ ہم میں سے ہر ایک، یہی میں اور آپ جو آمنے سامنے بیٹھے ہیں، ہم اور آپ اپنا فریضہ سمجھیں کہ ایک فرد کا اخلاق تبدیل کرنا ہے، اس کو برائی سے اچھائی کی طرف لائیں۔ وہ ایک فرد بھی خود ہم ہی ہیں۔ کلّکم راع و کلّکم مسئول عن رعیتہ (2) آپ سب ذمہ دار ہیں اور پہلی ذمہ داری خود اپنے تعلق سے ہے۔ ہم اپنے آپ پر نگرانی کریں۔ خود کو اخلاق کی برائی، پستی، دروغ گوئی، بد خواہی، بد دلی، کینہ پروری، بے رحمی، دوسرے کے حقوق چھیننے، دوسروں پر ظلم کرنے، ضرورتمند لوگوں، ان پر توجہ دینے اور ان کا خیال رکھنے سے بے اعتنائی اور بقیہ تمام بری باتوں سے خود کو دور رکھیں۔ تمام انبیاء اور اولیا ء انسانوں کا اخلاق بدلنے کے لئے ہی آئے تھے۔ البتہ موعظے اور نصیحت کے ذریعے اور غلط طاغوتی نظام میں لوگوں کا اخلاق سدھرنے کا عمل سست روی کے ساتھ انجام پاتا ہے لیکن جو نظام، الوہی اقدار کی اساس پر وجود میں آیا ہو اس میں لوگوں کا اخلاق آسانی سے تبدیل ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کیا اور کر رہے ہیں۔
انقلاب کی برکت سے ہمارے معاشرے کا اخلاق قابل لحاظ حد تک الوہی اخلاق کی سمت جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ تبدیلی کامل نہیں ہے اور اس کو جاری رہنا چاہئے۔ ان نوجوانوں کو دیکھا کہ جنگ میں انہوں نے کیا کیا؟ ان والدین کو دیکھا کہ کس طرح اللہ، قرآن اور دین کے لئے، اپنے عزیزوں کو قربان کیا؟ ان لوگوں کو دیکھا کہ کس طرح اپنی ذاتی دولت، عورتوں نے اپنے زیورات، مردوں نے اپنی محنت سے حاصل ہونے والی آمدنی، عمومی مصلحت میں، جنگ کے لئے، ملک کی مشکلات کے حل کے لئے، کسی جگہ زلزلہ اور سیلاب آ گیا تو وہاں کے لوگوں کی مدد کے لئے خرچ کر دی؟ یہ اسلامی اخلاق کی سمت مڑنا ہے۔ انقلاب سے پہلے بھی یہ چیزیں تھیں مگر بہت معمولی اور نچلی سطح پر۔ عام نہیں تھیں۔ خیال رکھیں کہ اسلامی اخلاق کی جانب پیش قدمی کا یہ عمل جاری رہے۔ اگر یہ ہو گیا تو ہمارا معاشرہ سماجی انصاف کا مالک ہو جائے گا۔
سماجی انصاف، اخلاق سے بہت زیادہ تعلق رکھتا ہے۔ البتہ اس کا بڑا حصہ معاشرے کے قوانین و ضوابط سے مربوط ہے لیکن جب تک افراد کا اخلاق الہی اور اسلامی نہ ہو، اس وقت تک زیادہ کارساز نہیں ہے۔ آج ہمارے ملک میں ایسے لوگ ہیں جن کی آمدنی بہت زیادہ ہے۔ ان کی مہارت ایسی ہے کہ جس کی بہت ضرورت ہے یا کم لوگوں کے پاس وہ مہارت ہے۔ جس لحاظ سے بھی ہو جو بھی وجہ ہو، ان کی آمدنی زیادہ ہے۔ کیا انہیں ساری آمدنی صرف اپنے اوپر خرچ کرنی چاہئے؟ یہ مادی اخلاق ہے۔ یہ شیطانی اخلاق ہے۔ زیادہ صحیح الفاظ میں یہ حیوانی طریقہ ہے۔ جانوروں کے پاس جو کچھ ہے خود ان کا ہے۔ انسانی اخلاق، بالخصوص اعلا اسلامی اخلاق کا تقاضا یہ نہیں ہے۔ جو کچھ آپ کے پاس ہے، اپنی ضرورت پوری کرنے اور اپنی ضروری خواہشات کی تکمیل کے بعد، بقیہ ان لوگوں پر خرچ ہونا چاہئے جو اس معاشرے میں ہیں۔ فرض کریں آج ہمارے معاشرے میں تعلیمی ادارے قائم کرنا ایک اہم مسئلہ ہے، تعلیم و تربیت کی سہولتیں فراہم کرنا، یہی جسمانی اور ذہنی معذوروں کی دیکھ بھال کرنا، ایک اہم کام ہے۔ جن لوگوں کے پاس مالی وسائل ہیں، بہت مناسب ہے اور اخلاقی لحاظ سے فریضہ ہے کہ اپنی دولت کا ایک حصہ ان پر خرچ کریں۔ یہ وہی اخلاقی تبدیلی ہے۔
اگر معاشرے میں اخلاق آ جائے تو سماجی انصاف قائم ہو جائے گا۔ معاشرہ اچھا ہو جائے گا اور لوگ اسی دنیا میں بہشت جیسی زندگی بسر کرنے لگیں گے۔ عالمی سطح پر دیکھتے ہیں کہ بنی نوع انسان پر جو مصیبتیں آتی ہیں، ان کی جڑ وہ اخلاقی برائیاں ہیں جو افراد بشر میں پائی جاتی ہیں۔ دنیا میں جو ظلم ہو رہے ہیں آپ انہیں دیکھیں، البتہ ہم سیاسی علل واسباب سے غافل نہیں ہیں، ان کے سیاسی و اقتصادی محرکات واضح ہیں، لیکن اگر ان سب کی جڑ اور بنیاد پر غور کریں تو اس میں اخلاقی برائی کا ایک عنصر موجود نظر آتا ہے۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ اخلاق اور تربیت میں خامی ہے جو آج اقوام اس طرح بڑی مصیبتوں میں گرفتار ہیں۔ یہی بوسنیا ہرزے گووینا کا مسئلہ، قلب یورپ میں مظلوم مسلمانوں کا وطن، جہاں لوگوں کا اس طرح قتل عام ہو رہا ہے، اس طرح روز افزوں مصیبتوں میں گرفتار ہیں، اگر بعض بڑی طاقتوں کے حکام کی دروغگوئی نہ ہوتی تو وہاں مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی۔ ایک سال اور چند مہینوں سے یہ بے یار و مددگار لوگ، یہ مظلوم قوم، نسل پرست فاشسٹ اور وحشی لوگوں یعنی سربوں کے مظالم کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ الفاظ اور جملوں سے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ان سب کی جڑیں اخلاقی برائیوں میں پیوست ہیں۔ ریاکاری اور دروغگوئی میں پیوست ہیں۔ آج ریاستہا‏‏‏‏‏ئے متحدہ کی حکومت میں جو استکباری خو پائی جاتی ہے، اس کی جڑ اور بنیاد اخلاقی مشکلات ہیں۔ اس کی جڑیں اخلاقی برائیوں میں پیوست ہیں۔ استکبار بھی ایک اخلاقی برائی ہی ہے۔ ایک اخلاقی کمزوری ہے۔ ان کے پاس انصاف نہیں ہے۔ اگر ان کے پاس انصاف ہوتا، مروت ہوتی، انسانیت ہوتی تو اقوام کے ساتھ یہ سلوک نہ کرتے۔
آپ دیکھئے کہ آج صومالیہ میں لوگوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ وہ کہتے یہ ہیں، امریکیوں کو کہہ رہا ہوں، کہتے ہیں ہمارے مفاد کا تقاضہ ہے کہ ہم وہاں داخل ہوں کوئی نہیں ہے جو ان سے کہے ' آیا تمھارے اندر اتنا انصاف اور اخلاقی جرئت ہے کہ اعتراف کرو کہ اقوام کے لئے بھی ان کا مفاد محترم ہوتا ہے یا نہیں؟' تم کہتے ہو ہمارے مفاد متقاضی ہیں کہ ہم وہاں فوج بھیجیں۔ تو صومالیہ کی قوم کا مفاد کس چیز کا متقاضی ہے؟ اس قوم کے مفاد کا جس کو تم اس طرح کچل رہے ہو، تقاضا کیا ہے؟ تمھارے مفادات مفادات ہیں، محترم ہیں، معتبر ہیں تو کیا دیگر اقوام کے مفادات محترم اور معتبر نہیں ہیں؟
تم خلیج فارس میں کیا کر رہے ہو؟ کہتے ہیں یہاں ہمارے مفادات ہیں۔ اگر تمھارے مفادات خلیج فارس کی اقوام کے مفادات سے متصادم ہوں تو کس دلیل سے تمھارے مفادات خلیج فارس کی اقوام کے مفادات پر مقدم ہیں؟ یہ کیوں کہتے ہو کہ تمہارے مفادات کا پورا خیال رکھا جائے، اگر دیگر اقوام کے مفادات ضائع ہوتے ہیں تو ہو جائیں! کیوں؟
یہ وہی اخلاقی مسئلہ ہے۔ یہ وہی استکباری سوچ ہے۔ یہ وہی اخلاقی برائیاں ہیں جو ایک حکومت اور ایک سیاسی نظام کو اس طرح ظلم و جور، جارحیت، ستم اور ناانصافی پر اکساتی ہیں۔
آج امریکا کا نظام اخلاق مخالف نظام ہے۔ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف انواع و اقسام کی موذیانہ اور خباثت آمیز روشوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان سے پوچھتے ہیں یہ کام کیوں کرتے ہو؟ کہتے ہیں ہم ایرانی قوم پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں! صراحت کے ساتھ اپنے دل کے اندر کی برائیاں زبان پر بھی لاتے ہیں۔ امریکا کی گذشتہ حکومت کے دور میں بش (3) یہ ظاہر کرتے تھے کہ ہم ایرانی قوم سے محبت کرتے ہیں اور ایران سے روابط استوار کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک کے حسن نیت رکھنے والے کچھ لوگوں کو، جن کی نیت بری نہیں تھی، اس پر یقین بھی آ گیا تھا۔ کہتے تھے شاید واقعی امریکی غلط راستے سے منصرف ہو چکے ہوں۔ یہ جو ایران قوم کے دشمن تھے خباثتیں کرتے تھے، شاید پشیمان ہو گئے ہوں اور سمجھ لیا ہو کہ انقلاب کے ساتھ خود کو سازگار بنا لینا چاہئے، ایرانی قوم کے ساتھ ہم آہنگی قائم کر لینا چاہئے۔ اگرچہ ہوشیار اور دقت نظر رکھنے والے افراد اسی وقت سمجھ گئے تھے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ مگر بات اس طرح کرتے تھے کہ بعض لوگوں کو یقین آ گیا تھا کہ امریکی، ایرانی قوم اور اسلامی انقلاب کی نسبت دشمنی، خباثت اور برائیوں سے منصرف ہو گئے ہیں۔ لیکن یہ جو اب بر سراقتدار آئے ہیں تو اب اپنا باطن آشکارا کر رہے ہیں۔ یہ اپنی گستاخانہ اور توہین آمیز باتوں میں اپنی اصلی حقیقت کو بیان کر رہے ہیں۔ ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ کے خلاف صراحت کے ساتھ موقف کا اعلان کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں ہم ایران کے خلاف اقدام اور کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت واضح ہے۔ معلوم ہو گیا کہ جو لوگ اس کے برعکس بولتے تھے وہ ریاکاری کر رہے تھے۔ حقیقت وہی ہے جو ان کی بات میں عیاں ہے۔
بعض کہتے ہیں یہ ابھی ناتجربہ کار ہیں، کچے ہیں، سادہ لوح ہیں، جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ یقینا ناتجربہ کار ہیں، کچے ہیں اور سیاست میں نئے ہیں۔ یہ ان کاموں سے ظاہر ہے۔ لیکن یہی بات اس کا سبب بنی ہے کہ اپنا مافی الضمیر نہ چھپا سکیں۔ ان کا طرزعمل ایسا ہے کہ آج امریکا مردہ باد پوری ایرانی قوم کا نعرہ ہے۔ اگر کچھ لوگ امریکا کی گذشتہ حکومت میں سادہ لوحی کے سبب، شک میں پڑ گئے تھے تو آج سب سمجھ گئے ہیں کہ عظیم ایرانی قوم کے خلاف، اس بہادر اور فداکار ملت کے خلاف، اس صاحب اقتدار و معنویت ملک کے خلاف، یہ شیطانی اقدامات خود ان کی اپنی رسوائی کےعلاوہ اور کوئی نتیجہ دینے والے نہیں ہیں۔ ایرانی قوم ان چیزوں سے شکست کھانے والی نہیں ہے۔
ایک زمانہ تھا جب دنیا میں دو سپر طاقتیں تھیں اور پوری دنیا ان کے زیر اثر تھی۔ دونوں سپر طاقتوں نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا اور عراق کی بعثی حکومت کو اکسایا کہ ان کی حمایت اور پشت پناہی سے، اس قوم پر دباؤ ڈالے۔ مگر آپ نے دیکھا کہ جتنا دن گزرتا گیا یہ قوم قوی تر ہوتی گئی۔ اس کی عزت بڑھتی گئی۔ اس کا ارادہ مستحکم تر ہوتا گیا۔ اس کی پائیداری میں اضافہ ہوتا گیا۔ کیا وہ ہماری مومن اور عظیم قوم کا اس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں کہ خود ان کی شکست پر منتج نہ ہو؟ وہ جو چاہیں کر لیں خود ان کے نقصان میں ہے۔ ہم اسلام کے راستے پر، جس طرح انقلاب اور امام نے ہمیں سکھایا ہے، پوری قوت سے گامزن رہیں گے۔ الحمد للہ جتنا وقت گزرا ہے، اس میں دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران کی عزت میں اضافہ ہوا ہے۔ آج ایران کی حکومت، ایران کی قوم، ایران کا صدر، ایران کے سپاہی، ایران کے نوجوان، ایران کی خواتین اور ایران کے مرد دنیا میں سربلند اور سرافراز ہیں۔ دنیا کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے روابط الحمد للہ مستحم ہیں۔ یورپ سے ایشیا سے دنیا کے تمام ملکوں سے الحمد للہ روابط مضبوط اور مستحکم ہیں اور شیاطین اپنی بد طینتی اور خباثت سے اسلامی جمہوریہ ایران کو مشکلات سے دوچار نہیں کر سکتے۔
قضیے کی بنیاد یہ ہے کہ ہماری عظیم قوم، وحدت کو، یک جہتی کو، راہ خدا سے تمسک کو اسی طرح پوری قوت سے محفوظ رکھے۔ آپ شہدائے کرام کے خاندان والے، اپنے اعضائے بدن کا نظرانہ پیش کرنے والے آپ جانباز سپاہی، جن لوگوں نے انقلاب کے لئے اپنے عزیزوں کی جانیں نثار کی ہیں، جان لیں کہ الحمد للہ اس پاک خون نے اپنا اثر دکھایا ہے۔ ہمارے عظیم امام کی کاوشیں رنگ لائی ہیں۔ قوم کی فداکاری اور مجاہدت ثمر بخش ہوئی ہے اور ان شاء اللہ حضرت ولی عصر ارواحنا لتراب مقدمہ فداء کی عنایات اور آپ کی پاکیزہ دعاؤں کے سائے میں، ایرانی قوم خودمختاری، سربلندی، ترقی اور زندگی کے رفاہ کی راہ میں روز بروز پیشرفت کرے گی اور دیگر اقوام کے لئے نمونہ عمل بنے گی۔

و السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ

1- مفاتیح الجنان ؛ دعائے یومیہ ، ماہ رمضان
2- صحیح بخاری؛ ج 1 صفحہ 304 حدیث 853 (حدیث نبوی )
3- جارج بش، امریکا کے اکتالیسویں صدر ( 1989-93) 1988 کے انتخابات میں مائیکل ڈوکا کیس کو شکست دیکر ریاستہا‏ئے متحدہ امریکا کے صدر بنے۔