قائد انقلاب اسلامی نے 1393/02/17 ہجری شمسی 7 مئی 2014 عیسوی کو ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ اور ثقافتی و علمی شعبے کے افراد سے ملاقات میں فرمایا کہ علم سکھانا، تفکر کا طریقہ بتانا اور اچھے سلوک و اخلاقیات کی تعلیم دینا تدریس کے معزز اور قابل فخر پیشے کے تین اہم عناصر ہیں۔ آپ نے ایران میں تعلیم و تربیت کے شعبے میں بنیادی تبدیلی سے متعلق دستاویز پر عملدرآمد کے لئے موثر منصوبہ بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ اس عظیم شعبے کی ہمہ جہتی حمایت و مدد، ملت ایران کے نونہالوں کے درخشاں مستقبل اور ایران کی مادی و معنوی ترقی کے لئے موثر انداز میں سرمایہ کاری قابل قدر عمل ہے۔ قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اساتذہ سے ملاقات کا اصلی مقصد اس صنف کے تئیں خاص احترام اور تعلیم و تربیت کے شعبے کی اہمیت پر تاکید کرنا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ قوم کے بچے اساتذہ کے ہاتھوں میں سونپی جانے والی امانت ہیں۔ آپ نے تدریس کے پیشے کے اہم پہلوؤں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ علم دینا بڑا عظیم فریضہ ہے مگر اس سے بھی زیادہ اہم بچوں اور نوجوانوں کو طرز فکر کی تعلیم دینا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے سطحی فکر اور سطحی تعلیم کو معاشرے کے تنزل کا باعث قرار دیا اور فرمایا کہ اگر طالب علم استاد سے صحیح اسلوب فکر اور طرز تفکر کی تعلیم حاصل کر لے تو ملک کے مستقبل کی بنیادیں بھی تدبر و منطق پر استوار ہوں گي، لہذا اس سلسلے میں اساتذہ کی ذمہ داری بہت سنگین ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے تعلیم و تربیت کے شعبے میں انقلابی اور دیندار افراد کے کلیدی کردار کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا کہ قوم اور حکام کا اصلی و بنیادی ہدف یہ ہے کہ اسلام و قرآن کی برکت سے اس ملک کے اندر مادی و روحانی اور اخلاقی اعتبار سے ترقی یافتہ اور نمونہ عمل معاشرہ تشکیل دیں اور اس اہم ہدف تک رسائی کے طولانی سفر کو طے کرنے کے لئے تعلیم و تربیت کے شعبے میں صاحب فکر اور پرعزم افراد کی پرورش کی ضرورت ہے اور یہ مہم دیندار اور انقلابی عہدیداروں اور افراد کے ہاتھوں سرانجام پا سکتی ہے۔
قائد انقلاب اسلامی کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے؛
بسم ‌الله ‌الرّحمن ‌الرّحیم

‌بہت بہت خوش آمدید کہتا ہوں۔ آپ محترم اساتذہ اور تعلیم و تربیت کے شعبے کے عہدیداروں کی تشریف آوری سے ہمارے یہاں کی یہ فضا معطر ہو گئی۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ رجب کا مہینہ ہے۔ ہماری ساری زندگی حقیقی بندگی کا وسیلہ قرار پا سکتی ہے اور یہی حقیقی سعادت و کامرانی ہے۔ بعض مناسبتیں ایسی ہیں جو ہمیں اہم مواقع فراہم کراتی ہیں۔ ماہ رجب بھی انہی میں سے ایک ہے۔ ہمیں چاہئے کہ خود کو آمادہ کریں، ایک دوسرے کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالی اس مہینے میں، اسی طرح ماہ شعبان میں اور ماہ رمضان میں ہمیں خود سازی کی توفیق عنایت فرمائے۔ ہمیں ایک قدم آگے بڑھ جانے اور بلندی کی جانب پیش قدمی کرنے میں کامیاب کرے!
اس دن، اس ملاقات میں چند عالی مقام شہیدوں کا ذکر بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ سب سے پہلے، ہمارے عزیز شہید، آیت اللہ مطہری ہیں جو ہمارے عظیم مفکر، ہمارے عظیم استاد اور اسلامی افکار و عقائد کی راہ کے مجاہد ہیں۔ انہیں یہ سعادت حاصل ہوئی کہ اپنی شہادت کے ذریعے اپنی اس طولانی مجاہدت کی قبولیت کی سند اللہ تعالی سے حاصل کریں۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ! اسی طرح شہید رجائی اور شہید باہنر ہیں جنہوں نے اپنی پوری عمر تعلیم و تربیت کے شعبے کے لئے وقف کر دی۔ یہ دو مجاہد، پارسا اور جذبہ اخلاص سے آراستہ انسان مستقل طور پر ہمارے ملک کے تعلیم و تربیت کے شعبے کی خدمت میں لگے رہے اور ہم سب نے اس شعبے میں ان دو عزیزوں کی کاوشوں کو برسوں تک اور انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی ایک مختصر عرصے کے دوران دیکھا ہے۔
اساتذہ کے ساتھ ہماری اس سالانہ نشست کا ایک تو اصلی مقصد ہے جبکہ کئی ذیلی اور فروعی مقاصد ہیں۔ اصلی مقصد ہے استاد کا احترام۔ ہم اس ملاقات کے ذریعے استاد کے تئیں اپنی خاص عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، یہ ایک علامتی عمل ہے۔ ہمارے معاشرے میں استاد کا احترام عمومی اور ہمہ گیر ہونا چاہئے۔ ہر کوئی استاد ہونے پر فخر کرے، استاد کو سلام کرکے ہر کوئی خوشی محسوس کرے۔ استاد کا معاشرے میں جتنا احترام بڑھےگا تعلیم و تربیت کی صورت حال اتنی بہتر ہوگی۔ استاد کے سلسلے میں کوتاہ فکری پر استوار نظریہ معاشرے کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔ اس کا سد باب کرنا چاہئے۔ استاد کے بارے میں انسان کی سوچ احترام اور توقیر پر استوار ہونی چاہئے۔ ملک کے اندر بہت سے پیشے ایسے ہیں جن کی زرق و برق بہت زیادہ ہے۔ ان کی جگمگاہٹ زیادہ ہے۔ مگر مرتبے اور مقام کے اعتبار سے وہ سب استاد کے پیشے سے کمتر ہیں۔ اس کا ہم سب کو ادراک ہونا چاہئے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: اِنَّما بُعِثتُ مُعَلّماً، (۱) یہ سب سے بڑا افتخار ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود کو معلم کہتے ہیں۔ تعلیم کی سطح اور تعلیم کے مضمون کی سطح الگ الگ ہوتی ہے۔ مگر ہم جیسوں اور عالی مقام ہستیوں کے درمیان تعلیم کی حقیقت ایک ہے اور یہ مایہ افتخار ہے۔ یہی ہمارا مدعا ہے۔ ہم اس ملاقات کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم استاد کا احترام کرتے ہیں۔ ہم پر استاد کا احسان ہے۔ ہم خود بھی ان کے احسانمند ہیں، ہمارے بچے بھی احسان مند ہیں اور ہمارے وہ تمام عزیز افراد استاد کے احسانمند ہیں جن کا مستقبل ہماری نظر میں اہمیت رکھتا ہے۔ اس پہلو سے دیکھا جائے تو پورا معاشرہ اساتذہ کے احسان تلے دبا ہوا ہے۔ ہمارا مطمح نظر اسی حقیقت کو بیان کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کچھ ذیلی اور فروعی نکات بھی ہیں۔ ایک بات تو خود اساتذہ سے مجھے کہنی ہے جبکہ ایک نکتہ ایسا ہے جس پر تعلیم و تربیت کے اس وسیع و عریض شعبے کے عہدیداروں کو توجہ دینا ہے۔ جس نکتے کا تعلق خود اساتذہ سے ہے وہ یہ ہے کہ محترم اساتذہ کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ ان کا فریضہ صرف تعلیم دے دینا اور پڑھا دینا نہیں ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ استاد کا کام صرف نصاب کی کتب کی باتوں کو طالب علم تک منتقل کر دینا نہیں ہے۔ استاد کو چاہئے کہ وہ شاگردوں کو علم بھی دے، انہیں تفکر اور تدبر کی روش بھی سکھائے، انہیں اخلاقیات اور صحیح طرز سلوک سے بھی آشنا کرے۔ اگر ہم تعلیم کو وسیعتر زاویہ نگاہ سے دیکھیں تو وہ تین میدانوں پر محیط نظر آتی ہے:۔ پہلا میدان ہے علم سکھانا، کتاب کے اندر جو اسباق ہیں اور جو مندرجات ہیں، استاد ہمارے بچوں کو یعنی ہمارے ملک کے مستقبل کو مردوں اور عورتوں کو ان مندرجات سے آشنا کرائے، یہ تو ایک کام ہوا۔
دوسرا کام جو اور بھی اہم ہے وہ ہے تدبر و تفکر کی روش سکھانا، ہمارے بچے کو یہ سمجھ میں آ جائے کہ درست اور منطقی طرز فکر کیا ہے اور صحیح فکر کے طریقے کے سلسلے میں اس کی رہنمائی ہو۔ اگر زندگی میں سطحی فکر اور سطحی سوچ رائج ہو جائے تو معاشرہ تنزل کا شکار ہو جائے گا۔ دراز مدت میں ایسا معاشرہ بدبختی سے دوچار ہوگا۔ لہذا معاشرے میں منطقی انداز میں سوچنے کا طریقہ رائج ہونا چاہئے، معاشروں کی رگوں میں اتر جانا چاہئے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ جب ہم شہید مطہری کا ذکر کرتے ہیں تو صرف شہید مطہری کے علم کا احترام نہیں کرتے بلکہ ہم شہید مطہری کی فکر اور سوچ کی اہمیت کا اظہار کرتے ہیں۔ اگر کسی کے اندر فکر و نظر کی صلاحیت موجود ہے تو اس کی یہ خصوصیت علمی گتھیوں کے سمجھنے اور اہم مسائل کے بخوبی ادراک میں اس کی مدد کرتی ہے۔ اگر ہمارا نوجوان، اگر ہمارے دانشور اور سائنسداں فکر و نظر کی خصوصیت سے آراستہ ہو تو اپنے علمی خزانے کی مدد سے درجنوں بلکہ سیکڑوں علمی مسائل اور شقیں نکال لیں گے اور ان کا حل پیش کر دیں گے۔ یعنی علم کا بخوبی استعمال تفکر و تدبر کے ذریعے ہوتا ہے۔
تیسرے؛ اخلاق اور برتاؤ ہے۔ طرز سلوک کے ذریعے تربیت و اخلاق کے ذریعے تعلیم دی جائے، وہی باتیں جو وزیر محترم (2) نے بیان کیں کہ طرز زندگی اور طرز سلوک (کے ذریعے تعلیم دی جائے)۔ ہماری قوم اعلی اہداف رکھنے والی قوم ہے۔ اس کے پاس اپنے اہم نظریات ہیں۔ اس کے سامنے کچھ چوٹیاں ہیں جن کا خاکہ تیار کیا جا چکا ہے۔ اگر دامن وقت میں گنجائش رہی تو اس بارے میں بھی چند جملے عرض کروں گا۔ ہم خود کو ان بلند چوٹیوں پر پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے صبر و حوصلے والے افراد کی ضرورت ہے۔ عقلمند، دیندار، خلاقانہ صلاحیتوں کے مالک، اہل عمل، تساہلی سے دور، مہربان، ہمدرد، بردبار، شجاعت سے آراستہ، مودبانہ طرز سلوک رکھنے والے، پرہیزگار اور ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھتے ہیں۔ اس طرز اور قالب کا انسان جو اسلام کو پسند ہے، تربیت سے تیار ہوتا ہے۔ سارے انسان تربیت حاصل کرنے کے قابل ہیں۔ بعض کی تربیت میں ممکن ہے کچھ وقت درکار ہو، جبکہ بعض دیگر جلدی تربیت حاصل کر لیں۔ بعض ایسے ہو سکتے ہیں کہ جن کے اندر تربیت کے اثرات پائیدار ہوں اور بعض دیگر کے اندر یہ اثرات اتنے پائيدار نہ ہوں۔ بہرحال سارے ہی انسان تغیر و تبدل کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ تبدیلی تربیت سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تبدیلی کے لئے کچھ بنیادی عناصر کی ضرورت ہوتی ہے اور ان میں ایک اصلی عنصر ہے استاد۔ بیشک ماں باپ اور احباب وغیرہ کا بھی اثر ہوتا ہے لیکن استاد کا اثر بہت گہرا اور پائيدار ہوتا ہے۔ یہ کام معلم کو انجام دینا ہے۔
استاد علم بھی سکھاتا ہے، غور و فکر کرنا سکھاتا ہے اور اخلاق و برتاؤ کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ اخلاق و رفتار کی تعلیم علم سکھانے والے انداز میں نہیں ہوتی کہ انسان کتاب سے پڑھا دے۔ درس اخلاق کتاب کے ذریعے سامعین تک منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں کتاب اور زبان سے زیادہ خود سکھانے والے کا طرز عمل اور سلوک موثر ہوتا ہے۔ یعنی آپ اپنی کلاس کے اندر، اپنے طلبہ کے درمیان اپنے طرز عمل اور طرز سلوک سے انہیں درس دیتے ہیں۔ زبان سے بھی کہنا ضروری ہے، نصیحت بھی کرنی چاہئے، لیکن برتاؤ اور ذاتی اخلاق کی تاثیر زیادہ گہری ہوتی ہے، اس کی تاثیر میں ہمہ گیری ہوتی ہے۔ انسان کی بات کی سچائی اس کے عمل کی سچائی سے واضح ہوتی ہے۔ یہ معلمین کی خدمت میں ہماری گزارش ہے۔ ہمارے بچے اساتذہ کی برادری کے ہاتھوں میں امانت ہیں۔ اگر ہمارے اساتذہ یہ تہیہ کر لیں کہ بچوں کو، نوجوانوں کو ان تینوں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تربیت کے مراحل سے گزاریں گے تو میرا خیال ہے کہ اس کا معاشرے کے مستقبل پر بڑا گہرا اثر پڑے گا۔ البتہ اسلامی انقلاب کے بعد اس سلسلے میں بہت کام ہوا ہے۔ اساتذہ نے خاص احساس ذمہ داری کی وجہ سے، انقلابی ماحول میں اپنی شراکت کی وجہ سے، مقدس دفاع اور اس کے بعد کے دور میں بڑا گہرا اثر ڈالا ہے۔ میں کبھی کبھی اساتذہ کے بارے میں جو کتابیں ہیں، ان کا مطالعہ کرتا ہوں۔ مقدس دفاع کے محاذوں پر خدمات انجام دینے والے اور دفاع وطن میں جام شہادت نوش کرنے والے اساتذہ کا شاگردوں کی فکر پر پڑنے والا اثر بڑا حیرت انگیز ہے جس کا انسان آسانی سے مشاہدہ کر سکتا ہے۔
تعلیم و تربیت کے شعبے کے سلسلے میں ایک اہم مسئلہ اصلاحات کی دستاویز کا مسئلہ ہے۔ اصلاحات کی دستاویز جو بحمد اللہ ان گزشتہ برسوں کے دوران تدوین کے مراحل سے گزری ہے، یکبارگی نمودار ہو جانے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ اوائل انقلاب سے یہ ہماری آرزوؤں میں شامل رہی ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں تعلیم و تربیت کا نظام تعلیم و تربیت کے مغربی نظام کی تقلید پر استوار ہے۔ تقریبا وہی شکل، وہی مضمون اور وہی ترتیب ہے۔ لہذا تعلیم و تربیت کے شعبے میں بنیادی تبدیلی ناگزیر تھی۔ قالب اور ظاہری شکل کے اعتبار سے بھی اور مضمون و روح کے اعتبار سے بھی۔ یہ سوچ برسوں سے بہتوں کے ذہن میں تھی۔ رفتہ رفتہ اس میں پختگی آئی اور سرانجام یہ اصلاحات کی دستاویز پر منتج ہوئی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اصلاحات کی دستاویز ہماری آرزو اور مطالبات کی آخری حد ہے۔ نہیں، اس سے بھی بالاتر کچھ چیزیں سوچی جا سکتی ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ عمل کریں، آگے جائیں، تجربات حاصل کریں تو کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اصلاحات کی دستاویز میں مزید کچھ چیزوں کا اضافہ ہو۔ مگر اس وقت جو دستاویز ہمارے ہاتھ میں ہے، اس پر پوری طرح توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ محترم عہدیداران سے میری درخواست ہے کہ اس دستاویز پر موثر طریقے سے عمل کریں۔ رسمی بیان دینے کی حد سے آگے بڑھ کر عملی طور پر کام کریں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس دستاویز کو جامہ عمل پہنایا جائے تو اس کے لئے دستور العمل کی ضرورت ہے، منصوبے کی ضرورت ہے۔ اگر افکار و نظریات کو اور ان کلی باتوں کو جو متعلقہ عہدیداروں اور دردمند افراد کے مد نظر ہیں ایک عملی پروگرام میں نہ ڈھالا گیا تو ذہن و تصورات کی دنیا میں پڑے پڑے یہ نظریات بوسیدہ ہوکر ختم ہو جائیں گے۔ دستور العمل ضروری ہے۔ یہ دستور العمل آپ ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کی مدد سے جو عظیم ثقافتی مرکز اور اہم فیصلوں کا سرچشمہ ہے اور جہاں عہدیداران موجود ہیں، تیار کیجئے، اس کی تدوین کیجئے اور پھر قدم بقدم اسے عملی جامہ پہنائیے۔ جب آپ محسوس کریں کہ ایک قدم اٹھایا جا چکا تو پھر اگلے قدم کی تیاری کیجئے۔ بعض کام ایسے ہیں جو ایک ساتھ اور بیک وقت انجام دینے ہیں۔
تعلیم و تربیت کے شعبے میں ایک اور اہم مسئلہ افرادی قوت کا ہے۔ جیسا کہ اشارہ کیا گيا (3) تعلیم و تربیت کا شعبہ اسلامی جمہوری نظام کے اندر سرکاری شعبوں میں سب سے بڑا شعبہ ہے۔ اس عظیم شعبے میں دس لاکھ سے زیادہ افراد مصروف عمل ہیں جو براہ راست طور پر ایک کروڑ بیس لاکھ اور بالواسطہ طور پر مزید ایک کروڑ سے زائد افراد یعنی طلبہ کے اہل خانہ کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اتنا وسیع و عریض نیٹ ورک واقعی بہت اہم ہے۔ اس عظیم نیٹ ورک میں جن افراد کی خدمات لی جائیں ان کے اندر کچھ اوصاف کا ہونا ضروری ہے۔ ان اوصاف میں سے ایک یہ ہے کہ جوش و جذبے سے سرشار ہوں، تھکے ہوئے، فرسودہ اور جدت عملی کی جرئت سے عاری افراد کو، جو اپنی صلاحیت بھر کام کر چکے ہیں اور اب مزید انہیں کچھ نہیں معلوم ہے، ترجیحی بنیادوں پر استعمال کئے جانے والے افراد میں شامل نہیں کرنا چاہئے۔ نوجوان، جوش و جذبے سے بھرے ہوئے، دیندار انقلابی اور ان افراد کو ترجیح دی جائے جو تعلیم و تربیت کے شعبے میں جن کا سارا ہم و غم تعلیم و تربیت کا مسئلہ یعنی انسانوں کی تربیت کرنا ہو۔ ایسے لوگوں کی خدمات لی جانی چاہئے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ بنابریں تعلیم و تربیت کے شعبے میں اعلی سطح پر انتظامی امور میں سب سے اہم ترجیح میرے خیال میں یہ ہے کہ اس کا جائزہ لیا جائے کہ کن افراد کی مدد لینی چاہئے۔ مومن، انقلابی، گہری دلچسپی رکھنے والے، لگن سے کام کرنے والے اور تعلیم و تربیت کی دشوار وادیوں میں قدم رکھنے کی ہمت کے مالک افراد کا استعمال کیا جانا چاہئے۔ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔
دوسرا اہم مسئلہ ہے پشت پناہی اور حمایت کا۔ حکومت کے اندر تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ تعلیم و تربیت کے شعبے کی مدد کریں۔ وہ ادارے بھی جو منصوبہ بندی اور بجٹ کے امور دیکھتے ہیں اور وہ ادارے بھی جنہیں پارلیمنٹ 'مجلس شورای اسلامی' سے منظوری ملی ہے۔ سب تعلیم و تربیت کے شعبے کو اس نظر سے دیکھیں۔ یہ نہ سوچیں کہ تعلیم و تربیت کا شعبہ ایسا ہے جہاں صرف اخراجات ہوتے ہیں، کیونکہ کبھی کبھی اس طرح کی بات کہی جاتی ہے کہ یہ تو بڑا خرچیلا شعبہ ہے۔ نہیں، یہ ایسا شعبہ ہے کہ جس پر آپ جتنا سرمایہ لگائیں گے، اس کے کئی گنا ثمرات آپ کو حاصل ہوں گے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مستقبل کے سرمایہ کار، علمی ہستیاں، تمدن کے معمار اور ملک چلانے والے افراد پیدا ہوں گے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تعلیم و تربیت کا شعبہ ایسا ہے جہاں ہمیں صرف سرمایہ صرف کرنا ہے۔ جی نہیں، تعلیم و تربیت کے شعبے سے جیسے ثمرات ملتے ہیں وہ کہیں اور نہیں ہیں۔ آپ ملک بھر میں ترقی، ایجادات و اختراعات کے جو جلوے دیکھ رہے ہیں، ان سب کا سرچشمہ یہی شعبہ ہے۔ اس جگہ کو آپ سنوارئے تاکہ باقی شعبے بھی سنور جائیں۔ اس لحاظ سے تعلیم و تربیت کے شعبے پر بجٹ صرف کرنا اور اس کے سرمائے کو بڑھانا، بہت بنیادی کام ہے۔ مجھے امید ہے کہ حکام اس نکتے پر توجہ دیں گے۔
ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ جب ہم عہدیداران کی تقرری کریں؛ جیسا کہ میں نے اپنے معروضات میں کہا بھی ہے، تو ایسے افراد کو چنیں جن کی پوری توجہ تعلیم و تربیت کے شعبے کے اس اہم مسئلے پر مرکوز ہو۔ سیاسی و جماعتی رجحانات اور کسی خاص حلقے اور دھڑے کی جانب میلان جیسی چیزیں تعلیم و تربیت کے شعبے کے لئے زہر ہیں۔ ان برسوں میں ہم نے ایسا دور بھی دیکھا ہے کہ جس میں ان چیزوں پر توجہ بڑھ گئی اور تعلیم و تربیت کے شعبے کو نقصان اٹھانا پڑا۔ آپ بہت محتاط رہئے! تعلیم و تربیت کے مختلف مسائل کے سلسلے میں جو رخ اور حکمت عملی اختیار کی جائے وہ ایسی ہو کہ اس وسیع و عریض نظام کے ہر شعبے کے عہدیدار کا سارا ہم و غم تعلیم و تربیت ہو، انسانوں کی تربیت اور انقلابی افراد کی تربیت ہو۔ عزیز بہنو اور بھائیو! میں یہیں عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ ان افراد کے انقلابی اور دیندار ہونے پر جو میری اتنی تاکید ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی ہمیں بہت طویل راستہ طے کرنا ہے۔ قوم کو بہت لمبی مسافت طے کرنی ہے۔ ہم نے انقلاب کی تعلیمات کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ کے لئے جن اہداف و مقاصد کا تعین کیا ہے یہ جو میں کہہ رہا ہوں 'ہم نے' تو اس سے مراد یہ حقیر نہیں ہے، مراد ملت ایران ہے، انقلاب کے عمائدین ہیں، مالکان انقلاب مراد ہیں۔ یہ اہداف بڑے بلند اہداف ہیں۔ یہ بلند ہدف ہے ایک نمونہ اور مثالی معاشرے کی تشکیل۔ آپ ایران کی حدود میں جو جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے بڑے حساس علاقے میں واقع ہے، ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں جو اسلام کی برکت سے اور پرچم قرآن تلے چلتے ہوئے نمونہ عمل قرار پائے۔ مادی اعتبار سے بھی اور مادی پیشرفت کے اعتبار سے بھی قابل تقلید نمونہ ہو اور روحانیت و اخلاقیات کے اعتبار سے بھی اسوہ قرار پائے۔ اہل مغرب نے مادی اعتبار سے ایک جست لگائی، ایک زمانے میں انہوں نے برق رفتاری سے ترقی کی، لیکن یہ جست اور یہ پیشرفت اخلاقیات اور روحانیت سے الگ بلکہ متصادم تھی۔ سو فیصدی مادی مہم تھی۔ شروع میں تو کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے، مگر اب انہیں احساس ہونے لگا ہے، اس کے ناقابل تلافی نقصانات اور مضر اثرات کا احساس ہونے لگا ہے۔ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ روحانیت سے عاری نرا مادی تمدن انسانوں کو آسودہ خاطر بنا سکتا ہے۔ ہرگز نہیں، ان کی درگت بن جائے گی اور آج ان کی درگت بن رہی ہے۔ یورپ کی سڑکوں پر جو مظاہرے ہو رہے ہیں صرف وہی اس درگت کی وجہ نہیں ہیں، مغرب کی مشکلات اس سے کہیں زیادہ گہری اور پیچیدہ ہیں۔ انسان کی اولیں ضرورت ہے ذہنی آسودگی، اخلاقی تحفظ، فکری تحفظ اور نفسیاتی طمانیت۔ مغربی معاشروں میں یہ چیزیں نہیں ہیں اور حالات اس سے زیادہ خراب ہونے والے ہیں۔ اگر آپ ان کے مفکرین، مصنفین اور ناقدین کی باتوں سے باخبر ہیں تو ضرور دیکھا ہوگا کہ ایک مدت سے، کئی سال سے چیخ رہے ہیں، بار بار وہ معاشرے کے تباہ شدہ اور تباہ حال پہلوؤں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ یہ ہوتی ہے مادی زندگی۔ بیشک سائنس و ٹکنالوجی کے اعتبار سے ان کے یہاں پیشرفت ہوئی ہے، انہوں نے بڑے کام انجام دئے ہیں۔ لیکن دوسرا پہلو بالکل بے اعتنائی کا شکار ہو گیا اور یہی بے اعتنائی اب انہیں تباہ کئے دے رہے ہے۔
اسلام کے مد نظر ایسا معاشرہ ہے جو مادی لحاظ سے بھی، دولت و ثروت کے لحاظ سے بھی، علم و سائنس کے اعتبار سے بھی، معیار زندگی کے اعتبار سے بھی کافی بلندی پر ہو اور اخلاقیات و دینداری کے اعتبار سے بھی اسی بلندی پر یا اس سے زیادہ بلند سطح پر ہو۔ اس کو کہا جائے گا اسلامی معاشرہ۔ آپ اس کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں اور یہ راستہ کافی طویل ہے۔ البتہ یہ حد امکان میں ہے، کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ ناممکن ہے۔ بہت سی چیزیں ہیں جن کے بارے میں تصور تھا کہ ناممکن ہیں، مگر ہوئیں۔
جب کوئی قوم کمر ہمت کس لیتی ہے تو کارہائے نمایاں انجام دیتی ہے، تاریخی کارنامے رقم کرتی ہے۔ ہمارے معاشروں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے اندر عظمت پیدا کر سکتے ہیں، نمو اور پیشرفت کی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔ بالیدگی اور بارآوری کی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔ بشر ایک لا متناہی مخلوق ہے، اس کا احاطہ نہیں ہو سکتا۔ سائنسی ترقی کس مقام پر پہنچ گئی ہے مگر ہنوز انسانی دماغ کا کافی بڑا حصہ نا شناختہ ہے۔ یہ بات متعلقہ سائنسداں کہتے ہیں۔ انسان کا یہی جسمانی وجود اب تک ناشناختہ ہے۔ روحانی، معنوی اور باطنی صلاحیتوں کی تو بات ہی اور ہے۔ انسان کے پاس بیکراں توانائیاں ہیں۔ ہم بہت سے کام انجام دے سکتے ہیں۔ انسان بیک وقت مادی و روحانی دونوں پہلوؤں سے ترقی کے لئے بہت کچھ کر سکتا ہے۔ ہم ان اہداف تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ انسان کو ان اہداف کی شدید ضرورت ہے۔ دوسری تمام چیزوں سے زیادہ ان کی ضرورت ہے۔ شاہراہ سے زیادہ اہمیت اس شاہراہ کے مسافر کی ہوتی ہے۔ اگر مسافر نہ ہو تو پکی سڑک کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جبکہ اگر ہمت و حوصلہ رکھنے والا مسافر ہو تو سڑک پکی نہیں ہے تب بھی نقصان نہیں ہوگا۔ آپ تو دیکھتے ہیں کہ یہ کوہ پیما، کن بلندیوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ شاہراہ تو نہیں ہے مگر پیر تو ہیں، بلند ہمتی تو ہے۔ اس کی مدد سے آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ بلندیوں پر پہنچا جا سکتا ہے۔ اسی طرح پنہاں صلاحیتوں کو پہچانا اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ گرہوں کو پے در پے کھولا جا سکتا ہے۔ انسان کو ان ساری چیزوں کی ضرورت ہے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے میں ابتدائی مراحل میں ایسے انسانوں کی شدید ضرورت ہے۔ بیشک یونیورسٹیوں میں بھی ایسے لوگ ہونے چاہئے۔ علمی مراکز میں بھی ہونے چاہئے۔ نشریاتی ادارے میں بھی ان کی ضرورت ہے۔ مگر ان میں سب سے زیادہ اہم پرائمری تعلیم کا مرحلہ ہے۔ اس عظیم شعبے کے عہدیداروں اور اساتذہ کے دوش پر یہ بڑی ذمہ داری ہے۔ لہذا ہم تاکید کے ساتھ کہتے ہیں کہ اس مرحلے کے اساتذہ کا دیندار اور انقلابی ہونا ضروری ہے۔ دینداری اور انقلابی جذبے کی مدد سے اس راستے کو طے کیا جا سکتا ہے۔ سنگلاخ راستہ ہو تب بھی پیش قدمی کی جا سکتی ہے۔ رکاوٹیں ہوں تو ان کو عبور کیا جا سکتا ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ انقلابی جذبہ ہو، دینداری اور دینی و انقلابی فرائض کی پابندی ہو۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔
ایک اور مسئلہ نصاب کی کتب کا ہے۔ درسی کتب کے سلسلے میں بہت توجہ اور باریک بینی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کتابوں کے مندرجات کا محکم اور مدلل ہونا ضروری ہے۔ ان کتابوں میں کوئی لچر پہلو نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کے مضر اثرات ہوں گے۔ ان کتابوں میں انحرافی باتیں نہیں ہونی چاہئے، سیاسی انحراف، دینی انحراف یا حقائق سے انحراف کسی بھی طرح کا انحراف نہیں ہونا چاہئے۔ جن لوگوں کے دوش پر یہ ذمہ داری ہے وہ حد درجہ دیانت داری اور امانتداری کے ساتھ اور پوری توجہ سے کام کریں۔
ایک اور مسئلہ ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی کا ہے۔ میں نے ابھی راستے میں وزیر محترم سے بھی کہا کہ بیشک یہ بھی ایک یونیورسٹی ہے لیکن دیگر یونیورسٹیوں میں اور اس یونیورسٹی میں فرق ہے۔ دیگر یونیورسٹیوں میں ہر ایک کی اپنی خصوصیات اور خدمات ہیں لیکن ٹیچرز ٹریننگ یونیورسٹی معلم اور استاد پیدا کرتی ہے۔ یہ اسی کا خاصہ ہے۔ اس کے کچھ تقاضے ہیں لہذا اس یونیورسٹی کو بہت اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔
ایک اور مسئلہ پرورش و تربیت کے محکمے کا ہے۔ ایک زمانے میں (تعلیم و تربیت کے تحت کام کرنے والے) اس محکمے کو بند کر دیا گیا تھا جو کوتاہی اور بے توجہی کا نتیجہ تھا۔ بعد میں دوبارہ اسے کھولا گیا ہے۔ یہ محکمہ جو تربیت و پرورش کے فرائض انجام دیتا ہے، در حقیقت فکری، روحانی، انقلابی و اخلاقی و طرز سلوک جیسے پہلوؤں پر کام کرنے والا محکمہ ہے۔ یہ بہت اہم ہے، وزارت کی سطح پر بھی اور نچلی سطحوں پر بھی۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو اپنے لطف و کرم کے سائے میں رکھے۔ ہمارے عزیز امام (خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ) کی روح مطہرہ کو آپ سے شاد کرے۔ عزیز شہدا کی ارواح طیبہ اور خاص طور پر شہید اساتذہ اور طلبہ کی ارواح پر اپنا لطف نازل کرے۔

و السّلام علیکم و رحمة الله و برکاته‌

۱) شرح اصول کافى، جلد ۲، صفحہ ۹۵
۲) وزیر تعلیم و تربیت جناب على ‌اصغر فانى بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔
۳) وزیر تعلیم و تربیت